صحرائے عشق : آخری حصہ
’’ اندر جاؤ‘ وہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ‘‘ مہروز کا لہجہ اب قدرے سخت تھا ۔
وہ چپ چاپ مڑ گئی تھی۔جانتی تھی وہ نہیں جانے دے گا ۔ اسے کچھ اور سوچنا تھا۔کچھ ایسا کہ سب کی نظر میں آئے بغیر وہ وہاں چلی جائے بس کسی طرح ۔ پھر کسی خیال کے تحت وہ چونکی تھی ۔ اس کے پاس اس کی گھڑی تھی ۔ وہ وہاں سے اس کی فریکوینسی سرچ کرسکتی تھی ۔ اس کے پاس یقینا اب ٹرانسمیٹر ہوگا ۔ اس نے گھڑی نکال کر اس کے اندر سے وہ آلہ نکالا تھا اور پھر رابطے کی کوشش کی تھی ۔ وہ وہاں سے نزدیک تھا اس لیے رابطہ ہوسکتا تھا ۔اور رابطہ ہوگیا تھا۔
’’روحان از ہیئر… ‘‘بڑی مدھم آواز آئی تھی۔
اسے یہی لگا تھا کہ اس کی ونگ کی طرف سے اس سے رابطہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ اس کی سپیشل فریکوینسی تھی جو صرف وہی جانتے تھے ۔ لالہ رخ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔
’’ہو از دیئر…‘‘ کوئی جواب نہ پاکر وہ پھر بولا تھا ۔ وہ خاموش رہی ۔ ہمت ہی نہیں تھی بولنے کی۔
‘‘لالہ رخ؟‘‘ کافی دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولا تھا ۔ لہجہ پر یقین تھا ۔وہ اس یقین پر بے اختیار رو پڑی تھی ۔
’’لالہ… ‘‘ وہ پھر بولا تھا۔
’’ زرتاشہ تمہیں نہیں چھوڑے گی ۔ تم واپس چلے جاؤ یہاں سے جلد از جلد ۔ ‘‘ اس نے تیزی سے کہا تھا ۔ اب خاموشی دوسری طرف چھائی تھی۔
’’کیا تم ٹھیک ہو ؟ ‘‘ اس کے پوچھنے پرپھر سے اس کا دل بھر آیا تھا ۔
وہ سمجھ گیا تھا اگر زرتاشہ اسے نہیں چھوڑے گی تو لالہ رخ کو بھی نہیں چھوڑے گی ۔ پتہ نہیں کب وہ بنا کہے ایک دوسرے کو سمجھنے لگے تھے ۔ اسے تو پتہ ہی نہیں چلا تھا۔
’’ میں ٹھیک ہوں‘ اپنا نمبر دو مجھے۔ ‘‘ لالہ نے کہا۔
اس پر وہ اتنی لمبی بات نہیں کر سکتی تھی ۔ روحان نے نمبر لکھوا دیا تھا ۔ تین دن پہلے ہونے والی لڑائی وہ دونوں ہی گویا بھول گئے تھے۔
’’ میں تمہیں کال کرتی ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا مگر روحان نے منع کردیا تھا۔
’’میں ابھی بہت مصروف ہوں لالہ۔ ‘‘اس کی آواز تھکی تھکی تھی ۔ لالہ رخ کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔
’’تم واپس چلے جاؤ روحان پلیز۔ ‘‘اس کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔
’’ کبھی بھی نہیں ۔ اب تو کسی صورت نہیں‘ کچھ قرض ہیں، وہ چکائے بغیر نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ اس کی مسکراتی ہوئی آواز آئی تھی۔
’’تم گھر پر ہی رہنا اب۔ ادھر ادھر مت جانا۔ خیال رکھنا۔ ‘‘ آخر میں اس کا لہجہ قدرے بھاری ہوا تھا۔
لالہ رخ کی دھڑکن بے اختیار ہی بے ترتیب ہوئی تھی ۔ خیال رکھنا اس نے زور دے کر کہاتھا اور آف کردیا تھا ۔ جبکہ وہ اس فکر پر تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ خوشی غمی پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے اس کا نمبر محفوظ کرنے لگی تھی ۔ وہ ٹھیک تھا فی الحال اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں تھی ۔
٭…٭…٭
اگلے دن اس نے بالکل خود کو نئے طریقے سے ایڈجسٹ کیا تھا ۔ شاید اپنے کیریئر میں پہلی بار وہ عین محکمانہ ہدایات کے مطابق کام کر رہا تھا ورنہ وہ تو مشہور تھا اپنی من مانی کرنے میں ۔ آخر میںاس کی کامیابی اسے ہمیشہ بچا لیتی تھی ورنہ جتنے رولز وہ توڑتا تھا اب تک کئی بار اس کا کورٹ مارشل ہو چکا ہوتا ۔ آج اس نے اپنے اندر کے پرانے روحان کو جگایا تھا ۔ آرمی کی طرف سے این جی او کو ڈائریکٹ چھیڑنے سے سختی سے منع کیا گیا تھا اور ایسا ہی کر رہا تھا مگر اب زرتاشہ کی دھمکی کے بعد وہ مزید ایسا نہیں کر سکتا تھا ۔ اسے اپنی پرواہ نہیں تھی، لالہ رخ کی تھی ۔ وہ اس این جی او کے بہت راز جانتی تھی، ان کے بہت سارے کاموں میں شریک رہی تھی اس لیے اسے زیادہ خطرہ تھا ۔ وہ جانتا تھا زرتاشہ ہر صورت اس تک پہنچے گی ۔ جیپ کی طرف بڑھتے ہوئے موبائل پر ہونے والی بیپ پر اس نے فون نکالا تھا ۔ واٹس ایپ پر کسی نیو نمبر سے میسج آیا تھا ۔ اس نے اوپن کیا تھا۔
’’ لالہ رخ،میرا نمبر سیو کرلینا۔ ‘‘ اس کا میسج پڑھ کر وہ بے اختیار مسکرایا تھا ۔ اس لڑکی کو حکم چلانے کی، اپنی منوانے کی عادت تھی ۔ میسج میں بھی وہ یہی کر رہی تھی ۔ اس نے ڈن کا میسج کرکے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔
اس کے بعد لگاتار کئی میسجز آئے تھے ۔ روحان نے ہونٹ بھینچ کر دوبارہ فون دیکھا تھا، اسے بار بار فون کام کے دوران چیک کرنا عذاب لگتا تھامگر یہ لڑکی…
سکرین اوپن کرتے ہی اس کی آنکھیں چمکی تھیں ۔ اس نے جو جو ایڈریس، تفصیلات ، ہیڈکوارٹرز اس کو پتہ تھے فریڈم آرمی کے اور این جی او کے نیٹ ورکس کے ۔ سب بھیج دیئے تھے ۔ گویا وہ واقعی سمجھ گئی تھی ۔ وفاداری واقع بدل گئی تھی ۔ اس نے جیپ تیزی سے بیک کی تھی اور فوراََ سب کو اکٹھا ہونے کا کہہ کر اس کو کال ملائی تھی ۔ دوسری طرف سے فوراََ فون اٹینڈ ہوا تھا۔
’’ مجھے خوشی ہے کہ تم نے صحیح راستے کا چناؤ کیا لالہ رخ۔ ‘‘ اس کے ہیلو کہتے ہی وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔ وہ واقعی خوش تھا۔
’’ صحیح غلط نہیں پتہ‘ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ میں تمہارے خلاف نہیں جاسکتی ۔ اور جو تمہیں نقصان پہنچائے وہ میرا دوست نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ اس کے مدھم آنچ دیتے لہجے میں بہت کچھ تھا ۔
اب خاموش ہونے کی باری روحان کی تھی ۔ وہ شاید اتنا واضح اظہار کی امید نہیں کر رہا تھا مگر وہ لالہ رخ تھی ۔ دشمنی اگر کھل کر کی تھی اس نے تو اپنے ان جذبوں میں بھی وہ بہت خالص تھی ۔ ویسے بھی اسے گلٹ تھا کہ وہ اسے چھوڑ آئی تھی اس لیے پہل اس نے کی تھی۔
’’ کیا تم مجھے سن رہے ہو۔ ‘‘اس کی آواز اب اور مدھم ہوگئی تھی ۔ روحان نے بمشکل اپنے دل کو سنبھالا تھا جو نجانے کیا کیا خواہشیں کرنے لگا تھا۔
’’میں سن رہا ہوں۔ ‘‘ اس نے مسکرانے کی کو شش کی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ اب کنفیوژ ہورہی تھی۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ روحان کا لہجہ گھمبیر ہوگیا تھا۔
’’اصل میں پہلی بار کسی لڑکی نے ایسے کہا ہے مجھے تو یقین نہیں آرہا۔ ‘‘اب مسکراہٹ کے ساتھ اس کے لہجے میں شرارت بھی تھی۔
‘‘اور لڑکی بھی تم، یہ زیادہ حیرت ہے۔‘‘ اس کے کہنے پر لالہ رخ نے سکرین کو گھورا تھا گویا اندر سے وہ نظر آرہا ہو۔
’’شٹ اپ۔ ‘‘ وہ سٹپٹائی۔
’’میں تمہاری حفاظت کے پیش نظر کہہ رہی ہوں ‘ تم نجانے کیا کچھ سمجھ رہے ہو۔ ‘‘ اس نے فوراََ بات بنائی ۔ روحان آہستہ سے ہنسا۔
’’خیال رکھنا لالہ رخ ۔ ‘‘ اس کا لہجہ اب مزید گہرا ہوا تھا ۔ لالہ رخ کے رخسار تپنے لگے تھے۔
’’بہت جلد میں واپس آؤں گا۔ تب تک خیال رکھنا۔ ‘‘ بس یہ کچھ لفظ تھے جو اس نے اس کی جھولی میں امید کے ڈالے تھے اور فون بند کردیا تھا ۔
وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔ اس سے زیادہ کمٹمنٹ وہ ابھی کر بھی نہیں سکتا تھا اور بے حد خوش مزاج ہونے کے باوجود اسے آج پتہ چلا تھا کہ اپنے ان احساسات کو وہ بول کر بیان نہیں کرسکتا تھا لالہ رخ سے ۔ وہ اسے کتنی عزیز تھی یا ہوگئی تھی یہ شاید وہ الفاظ میں نہیں بتا سکتا تھا ۔ اس کی زندگی کا لازمی جزو ۔ پہلے دن سے اب تک دشمنی سے اس رشتے تک وہ کبھی بھی اسے اگنور نہیں کرسکا تھا ۔ زرتاشہ کے خلاف وہ صرف اس کی وجہ سے جا رہا تھا مگر وہ یہ سب اس کو بول کر نہیں بتا سکتا تھا۔
سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے اس نے سب کو اکٹھا دیکھ کر ہدایات جاری کی تھیں ۔ آج رات اسے سچ میں مخالفوں کی کمر توڑنی تھی ۔ اس نے تین ٹیمز بنائی تھیں جنہوں نے الگ الگ فریڈم آرمی کے خاران کے علاقوں میں موجود مین اڈوں پر آپریشن کرنا تھا ۔ نزدیک کے کیمپس کو بھی ساتھ ملایا تھا ۔ زخمیوں کے لیے میڈیکل ٹیم کے دو دو ممبر ہر ٹیم کے ساتھ کیے تھے تا کہ کسی بھی نازک صورتحال میں فوری طبی امداد مل سکے ۔ ان سب کو مکمل لائحہ عمل سمجھا کر وہ خود جیپ کی طرف بڑھا تھا ۔ اسے این جی او کو چھیڑنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن زرتاشہ سے اس کا حساب اب الگ ہی تھا۔
این جی کو اس نے چھیڑنا نہیں تھا اور زرتاشہ کو اس نے چھوڑنا نہیں تھا اور نہ ہی این جی کو ان اسلحے کے اڈوں کو چھوڑنا تھا چاہے جتنا مرضی پریشر آجائے۔
٭…٭…٭
تیزی سے رنگ بدلتی تھری ڈی لائٹس، رنگ و بو کا ایک سیلاب تھا جو پورے ہال میں آیا ہوا تھا ۔ شراب اور شباب عروج پر تھا ۔ پارٹی کی نوعیت اور ماحول بتا رہا تھا کہ یہ کس لیول کی پارٹی ہے ۔ نیم عریاں عورتیں اور مکمل ملبوسات میں میوزک کے ساتھ جھومتے مرد‘ ہال میں اس وقت ساٹھ سے زیادہ افراد موجود تھے ۔ سیاہ کوٹ سوٹ میں سر پر سٹائلش سی کیپ پہنے بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ وہ قطعاََ حیران نہیں تھا یہ سب دیکھ کر ۔ خاران جیسے شہر میں شاید کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ایسے ماحول کا لیکن یہ سب بڑے خفیہ انداز میں ہوتا تھا ۔ نام نہاد این جی اوز والے جنہیں ہر قسم کی سیاسی پشت پناہی حاصل تھی کوئی انہیں پوچھنے والا نہ تھا ۔ ہر طرف آگ لگا کر وہ خود مزے لے رہے تھے۔
طویل سانس بھرتا وہ اندر آگیا تھا ۔ گارڈ کو انٹری پاس دکھا کر وہ سکون سے اندر داخل ہوا تھا ۔ آج کی رات اس کے لیے بہت اہم تھی ۔ اس وقت اس کا حلیہ یکسر تبدیل تھا ۔ رنگ کافی سانولا، آنکھوں میں موجود سیاہ لینز، بڑی ہوئی شیو اور مونچھیں اور بال بھی سیاہ تھے ۔ وہ ساؤتھ انڈین لگ رہا تھا۔
’’ اوہ مائی گاڈ، ٹال،بلیک اینڈ ہینڈسم… ‘‘ وہ ڈرنک کانر پر کھڑا ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا جب اس کے پاس آکر سیاہ ٹاپ میں ملبوس وہ لڑکی بولی تھی۔
روحان نے چونک کراس کی طرف دیکھا تھا ۔ وہ اس وقت نشے کی حالت میں مست تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اسے، وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے کھینچنے لگی تھی ۔ روحان نے جھٹکے سے اسے الگ کرنا چاہا مگر پھر رک گیا تھا ۔ وہ اس وقت اسی ماحول کا حصہ تھا اور یہاں یہ عام تھا ۔ مسکراتے ہوئے روحان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ڈانس کرنا شروع کردیا تھا۔ ارد گرد کے تین چار جوڑے اس کے اس طرح لڑکی کو سنبھالے ہوئے ایکسپرٹ مووز کرنے پر ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔مگر اس نے دھیان نہیں دیا حالانکہ وہ بہت سی عورتوں کی آنکھوں میں ستائش دیکھ رہا تھا اپنے لیے۔
’’یور گڈ نیم… ‘‘ روحان نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی ۔ جواباََ اس لڑکی نے مدہوش آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’ یو۔آر ای اے‘جینٹلمی…‘‘ وہ لڑکھڑاتے ہوئے بولی تھی۔یقینا وہ بہت زیادہ پی چکی تھی۔
’’میرا…نام…پریت ہے۔ ‘‘ اس نے نام بتایا تھا ۔ روحان کی آنکھوں کی چمک تیز ہوئی تھی۔
’’کیا تم زرتاشہ کو جانتی ہو ؟ ‘‘ اس نے پوچھا اور ساتھ ہی اسے گول گول گھمایا تھا۔
’’ہاں وہ میرے ڈیڈ کی دوست ہے …بہت اچھی دوست۔ ‘‘ وہ اس کے حصار میں اور بہک رہی تھی ۔
روحان نے اسے ذرا سا اٹھا کر گھمایا تھا ۔اس کی توقع کے عین مطابق وہ فینٹسی کی دنیا میں بہت آگے جا چکی تھی اور وہ مزید لے جارہا تھا تاکہ وہ سارا سچ اگل دے ۔ البتہ اس کے ایسے گھمانے پر ہر طرف سے ہوٹنگ ہوئی تھی لیکن وہ صرف اس کی طرف متوجہ تھا ۔ لوگ ویڈیو بنا رہے تھے،محفوظ ہورہے تھے۔
’’اس وقت وہ کہاں ہے زرتاشہ… ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’وہ، سب آفیسرز اور ڈیڈ کے دوست کے ساتھ ڈنر پر ہے۔ ‘‘ وہ سر اب اس کے کندھے پر رکھ چکی تھی۔
’’ تمہارے ڈیڈ کیا کرتے ہیں پریت۔ ‘‘ اس کی آواز سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’وہ آرمی میں ہیں۔ ‘‘اس کے کہنے پر وہ اچھلا تھا۔
’’ انڈین آرمی؟‘‘ اس نے تصدیق چاہی تھی۔
’’اور کونسی آرمی ہوتی… ‘‘ وہ ہنسی تھی اس کی بیوقو فی پر۔
’’تم کب آئی ہو انڈیا سے ۔ ‘‘ اس نے مزید پوچھا تھا۔
’’کل ہی آئے ہم۔‘‘
’’ بائے ایئر؟‘‘ اس کا لہجہ اب سرد ہورہا تھا۔
’’نو،ہم تو گاڑی میں آتے سپیشل‘ بارڈر سے۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ دھواں دھواں چہرہ لیے پیچھے ہوا تھا ۔ کھیل اس کی توقع سے زیادہ بڑا تھا۔
’’ کون بھیجتا گاڑی؟ زرتاشہ ؟ ‘‘ اس کے کہنے ہر اس نے روحان کو دوبارہ کھینچ کر قریب کیا۔
’’نہیں،ڈیڈ کے دوست ہیں ادھر بہت حکومت میں، آرمی میں بھی ۔ وہ پرمیشن دلا دیتے اس طرح ہم آرام سے آجاتے۔ ‘‘ روحان نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے کیا تھا اب اور بھاگنے والے انداز میں باہر نکلا تھا بنا مڑے ۔ باہر آتے ہی اس نے جیپ سٹارٹ کی تھی اور ساتھ ہی ٹرانسمیٹر پر فریکوینسی ڈائل کی تھی۔
’’یس سر ؟ ‘‘ دوسری طرف سے طاہر کی آواز پر اس نے گہرا سانس لیا تھا ۔ یہ کال اس نے اپنی ونگ میں کی تھی۔
’’بارڈر سے پچھلے دس دنوں میں آنے جانے والوں کی مکمل تفصیلات اور اجازت نامے چاہئے طاہر ایک گھنٹے کے اندر لازمی۔ ‘‘ اس نے تیز لہجے میں کہا تھا۔
‘‘ہو جائے گا سر ۔ ‘‘ طاہر نے فوراََ کہا تھا۔
’’کوڈ میں فریکوئینسی پر ہی بھیجنا ، واٹس ایپ یا ای میل پر نہیں۔ ‘‘ اسے ہدایات جاری کرتے ہوئے اس نے آف کر کے وی بٹن دوبارہ کوٹ پر لگا لیا تھا اور جیپ کا رخ ہوٹل کی طرف کر دیا تھا جہاں زرتاشہ ڈنر پر تھی۔
ہوٹل داخل ہوتے ہی اسے ہال میں کہیں وہ نظر نہیں آئی تھی ۔ وہ رییسیپشنسٹ کی طرف بڑھا جہاں دو نوجوان لڑکے سوٹڈ بوٹڈ موجود تھے ۔ اسے اس طرف آتا دیکھ کر وہ دونوں سیدھے ہوگئے تھے۔
’’یس سر ؟ ‘‘انہوں نے اسے پوچھا تھا۔
’’سپیشل ایجنسی… ‘‘ اس نے کارڈ نکال کر رکھا تھا سامنے ، وہ دونوں ڈر گئے تھے۔
’’ی…یس…یس سر۔ ‘‘ ان کے بوکھلانے پر وہ کچھ شرمندہ ہوا۔
’’ریلیکس،ادھر کوئی آج سپیشل لنچ پلانڈ ہے ؟ کسی این جی او کا یا کوئی ایسا؟ دس بارہ لوگوں کی گیدرنگ کا ؟ ‘‘ اس نے جھک کر آہستہ سے پوچھا تھا۔
’’جی سر، سیکنڈ فلور‘ہال نمبر فائیو بکڈ ہے آج۔ ‘‘ ان میں سے ایک نے کمپیوٹر سے دیکھ کر تفصیلات بتائی تھیں ۔
وہ تھینک یوکہتا لفٹ کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ سیکنڈ فلور پر آتے ہی اس نے ایروز کو دیکھ کر ہال نمبر فائیو کی طرف رخ کیا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا تھا ۔ اس کے بے دھڑک اندر آتے ہی وہاں موجود پندرہ سولہ لوگ جن میں دس مرد اور پانچ چھے عورتیں تھیں وہ چونک کر دروازے کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
’’کون ہیں آپ… ‘‘ زرتاشہ کی تیکھی آواز پر وہ اس کی طرف مڑا۔
’’ایم سوری،شاید میں غلط جگہ پر آگیا ہوں میم۔ ‘‘ اس نے خالص انگلش لہجے میں کہا تھا اور توقع کے عین مطابق وہ ریلیکس ہوگئی تھی ۔ انگریزی کی غلامی کا بھی الگ ہی لیول تھا ۔وہ یہ بات جانتا تھا۔
’’اٹس اوکے ۔ ‘‘اب کہ بڑا مسکا کر وہ بولی۔
وہ بھی مسکراتے ہوئے باہر آگیا تھا ۔ وہ اپنا کام کر آیا تھا ۔ دروازے کو تھامے وہ اندر گیا تھا اور تھامے تھامے ہی رکا رکا واپس آگیا تھا ۔ اس سارے ٹائم میں وہ بالکل پن نما کیمرہ لاک کے عین اوپر فٹ کر کے آیا تھا ۔ وہ وہیں دوسرے خالی ہال میں آکر بیٹھ گیا تھا دروازہ اندر سے لاک کر کے اور موبائل نکال کر اس نے کیمرے کے ساتھ منسلک کیا تھا۔
سامنے ہال کا منظر بڑا واضح تھا جہاں زرتاشہ کسی اور زبان میں کچھ بول رہی تھی ۔ روحان کے ماتھے پر سلوٹیں بنی تھیں ۔ پتہ نہیں وہ کون سی زبان تھی ۔ اس نے سکرین ریکارڈنگ آن کر کے ایک لفظ غور سے سن کر گوگل کیا تھا ۔ وہ اٹالین میں بات کر رہے تھے ۔ اس نے گوگل وائس ٹرانسلیٹر لگایا تھا ساتھ‘ سکرین پر اب جو جو وہ بول رہی تھی بڑے جلی حروف میں واضح اردو میں لکھا آرہا تھا ۔ وہ آرمی کے آپریشن اور مزید فنڈز اور اسلحے کی ضرورت پر بات کر رہی تھی۔
’’ فوج نے جو امن معاہدہ کیا ہے نزدیکی قبائل کے ساتھ‘ اسے سبوتاژ کرنے کے لیے ہمیں مکمل کوششیں کرنی ہیں ورنہ ہم اگر فوج کا آپریشن کامیاب ہوگیا تو ہم بیس برس پیچھے چلے جائیں گے ۔ ایسی آگ لگانے کی ضرورت ہے جو اس باہمی اعتماد اور معاہدے کو ختم کردے اور بغاوت کو اتنا بڑھا دے کہ فوج کا سارا دھیان ادھر ہوجائے۔‘‘
روحان ایک ایک چیز نوٹ کر رہا تھا۔