مکمل ناول

صحرائے عشق : آخری حصہ

’’اب اگر تم دوبارہ مجھے یہاں دکھی نا لالہ رخ تو سلامت اپنی ٹانگوں پر گھر نہیں جاؤ گی۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ زرا کی زرا رکی پھر مڑی تھی۔
’’ کیا سچ ہے ؟ وہ روحان جسے میں جانتی تھی ۔ پولائٹ،مسکراتا ہوا،رحمدل یا یہ روحان ؟ مغرور اپنے الفاظ دیکھو زرا۔ ‘‘ وہ بغور اسے دیکھ رہی تھی آنکھوں میں تیرتے پانی کے ساتھ ۔ مقابل کی آنکھوں پر سن گلاسز تھے اس لیے اس کی آنکھوں میں لکھی تحریر وہ نہیں پڑھ سکی تھی۔
’’کیا سچ تھا کیا جھوٹ‘ اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے میڈم؟‘‘ وہ مسکرایا مگر طنزیہ مسکراہٹ…
’’ آپ تو ٹھوکر مار کر گئی تھیںکہ ہم الگ دنیا کے لوگ ہیں ۔ خود سے سب کچھ فرض کرکے‘بنا پوچھے ۔ ‘‘ اس کا لہجہ بالکل بے تاثر تھا ۔ لالہ رخ ہکا بکا سی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’تو جو آپ کی دنیا کا ہے ہی نہیں، وہ کیسا بھی ہو ،کسی بھی روپ کا‘ نن آف یور بزنس۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا واپس آگیا تھا جبکہ وہ وہیں کھڑی تھی تپتے سورج کے عین نیچے‘ بالکل مجسمے کی طرح ۔ ہاں وہ خود ہی تو چھوڑ کر آئی تھی اسے پھر… پانی پھر سے آنکھوں سے باہر آیا تھا ۔ تو کیا وہ ناراض ہوگیا تھا،نہیں وہ ناراض نہیں تھا ۔ اس کے لہجے میں تو کچھ بھی نہیں تھا ۔ یوں جیسے وہ اجنبی ہو ۔ پہلی بار ملا ہو ۔ اسے سوچ کر اور تکلیف ہوئی تھی۔ ہاں جب وہ دشمن بھی تھی وہ تو تب بھی اسے چھوڑ کر نہیں گیا تھا ۔ جب وہ بے بس تھی، اس نے تب بھی اسے کچھ نہیں کہا تھا مگر جب بھروسے کا وقت تھا وہ بنا سنے اس کو چھوڑ آئی تھی۔
’’یہ چھتری…‘‘ کوئی اس کے پاس آیا تھا۔
’’صاب نے بھیجی ہے۔ ‘‘ وہ بتا رہا تھا۔
ساتھ حیرت سے اسے ریت پر بیٹھا دیکھ رہا تھا ۔ جو آنسو روکنے کی ناکام کوششیں کر رہی تھی ۔ بنا کچھ کہے اس نے چھتری پکڑ لی تھی اور کھڑی ہوگئی تھی۔
’’ اگر پاس میں آپ کو کہیں جانا ہے تو میں چھوڑ آؤں ؟ ‘‘ اس کے کہنے پر لالہ رخ نے نفی میں سر ہلایا اور خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی ۔ یہ سفر اسے اکیلے طے کرنا تھا۔
٭…٭…٭
اعصاب شکن مرحلے اس کی زندگی میں بہت آئے تھے ۔ اسے یاد تھا ایک دفعہ تین سال پہلے وہ لندن کے زیرزمین دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا تھا ۔ تین دن جس اذیت میں کاٹے تھے ‘اس کی زندگی کے وہ سب سے بدترین دن تھے ۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ کے تحت سکاٹ لینڈ یارڈ کے ساتھ ایک مشن پر کام کر رہا تھا ۔ ان تین دنوں میں ایک دن اس کو الیکٹرک چیئر پر بٹھا کر بار بار وولٹ بدل بدل کر کرنٹ لگایا گیا تھا ۔ اور وہ ہر بار یہ خواہش کرتا تھا کہ اس دفعہ اس کی جان نکل جائے تاکہ یہ اذیت وہ دوبارہ نہ سہہ پائے مگر وہ زندہ رہا تھا ۔ ایک دن اسے پورا الٹا لٹکایا گیا تھا اور سخت سردی میں ٹھنڈے یخ پانی کا شاور اسے الٹا لٹکا کر اس پر چلا دیا جاتا تھا ۔ اس قدر انسانیت سوز تشدداس نے تب اپنے کیریئر میں پہلی بار سہا تھا لیکن اسے خود پر حیرت تھی کہ وہ سہہ گیا تھا ۔ لیکن اس صحرا میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑنا اسے اس سے بھی زیادہ اعصاب شکن لگ رہا تھا ۔ بہت حد تک اس نے کو شش کی تھی مگر وہ اب بھی چاہتا تھا کہ باغی ہوئے لوگ واپس آجائیں لیکن وہ واپس آنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ آج حملے میں دس لوگ فریڈم آرمی کے مارے گئے تھے۔ فوج بہت مربوط طریقے سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ اس تک سوشل میڈیا پر این جی او کی طرف سے فوج کے خلاف چلائے جانے والے ٹرینڈز کی خبریں پہنچ رہی تھیں جہاں انہیں ظالم دکھایا جارہا تھا ۔ وہ جانتا تھا یہ باقی بلوچ قبیلوں کوان کے خلاف بڑھکانے کے لیے ہے ۔ اسی خطرے کے پیش نظر اس نے آپریشن سے قبل قبائل کے ساتھ امن معاہدے کو ترجیح دی تھی ۔ سوشل میڈیا ٹرینڈز، باہر سے آنے والا پریشر‘ یہ چیزیں اسے پریشان نہیں کر رہی تھیں وہ صرف ان دس لوگوں کی موت پر بوجھل محسوس کر رہا تھا جو آج مارے گئے تھے ۔ کاش انہیں کوئی سنبھال لیتا، کوئی دیکھ لیتا، وقت پر روک لیتا۔
ان کے کفن دفن کا مناسب بندوبست کر کے وہ واپس آئے تھے ۔ وہ جانتا تھا مخالف ایک بار ہل گئے ہیں ۔ اس لیے وہ اب واپس حملہ کر سکتے ہیں ۔ اسی کے پیش نظر وہ سب رات کو بھی الرٹ تھے ۔ وہ بھی نقشہ بچھائے پینسل سے دائرے لگا رہا تھا ۔ اسے ان راستوں پر کام کرنا تھا جو مخالف کے دھیان میں نہ ہو ۔ وہ ہمیشہ اگلے کی نفسیات کو دیکھ کر چلتا تھا۔
رات کافی گہری ہوگئی تھی، پہرے داروں کے علاوہ باقی سب سوگئے تھے ٹینٹوں میں جاکر‘لیکن وہ ابھی بھی اپنے ٹینٹ میں جاگ رہا تھا ، نقشے کو سامنے بچھائے تبھی اسے باہر کسی ہلچل کی آواز آئی تھی ۔ شاید دو سپاہی دوڑے تھے ۔ وہ تیزی سے اٹھ کر باہر آیا ۔ باہر خاموشی تھی ۔ صرف زاہد بیٹھا تھا اپنے ٹینٹ کے باہر آنکھیں موندے ۔ شاید آج وہ بھی تھا پہرے داروں میں ۔وہ باہر آگیا تھا ۔ اس کے باہر آتے ہی عقبی سائیڈ سے دونوں سپاہی اس کے پاس آئے تھے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے دونوں کو دیکھ کر پوچھا۔
’’ جیپوں کی طرف لگا کہ کوئی آدمی ہے سر۔ ‘‘ ان میں سے ایک کے کہنے پر وہ تیزی سے اس طرف بڑھا۔
وہ بھی ساتھ بڑھے تھے ۔ جیپوں کے پاس پہنچ کر اس نے ریوالور لوڈ کیا اور دونوں کو سائیڈ پر دیکھنے کا کہہ کر خود بے آواز قدم اٹھاتا دوسری طرف آیا تھا ۔ اسی اثنا میں ہلکی سی چیخ پر وہ تیزی سے مڑا تھا ۔ آواز کچھ فاصلے پر لگے ٹینٹوں کی طرف سے آئی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ ادھر جاتا، زاہد اور ایک آدمی گتھم گتھا ہورہے تھے ۔ یوں لگ رہا تھا زاہد اسے دھکیل رہا تھا ٹینٹوں سے دور مضبوطی سے اس کے ہاتھ پکڑ کے لیکن وہ خاصا تگڑا آدمی تھا، لگ رہا تھا زاہد اسے زیادہ دیر سنبھال نہیں پائے گا۔
وہ بھاگتا ہوا زاہد کی مدد کے لیے اس طرف آیا تھا ۔ اسے آتا دیکھ کر زاہد نے اسے نفی میں اشارہ کیا اور اس آدمی کو لیتے ہوئے دور چلا گیا دھکیلتا ہوا ۔ وہ بھی پیچھے بھاگا تھا ۔ پیچھے پانچ چھے سپاہی اور بھاگے تھے۔
’’ کوئی پیچھے مت آئے۔ ‘‘ زاہد نے چیخ کر کہا ۔
سپاہی وہیں رک گئے تھے مگر وہ نہیںلیکن اس سے پہلے کہ وہ مزید آگے بڑھتا ایک زور دار دھماکہ ہوا تھا ۔ اتنا زوردار کہ اسے لگا زمین پھٹ گئی ہے ۔ہر طرف دھواں اور ریت کا دائرہ بن گیا تھا ۔ وہ زمین پر گر گیا تھا ۔ یوں جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو، اس کے بازو پر کوئی چیز لگی تھی بہت زور کی جس سے خون کا فوارہ چھٹ گیا تھا ۔ بے جان ہوتے جسم کے ساتھ اس نے بازو تھام کر اپنی پوری قوت ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کی ۔چیخوں کی آوازیں تھیں جو اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں ادھر ادھر سے ۔ دشمن نے حملہ کردیا تھا ۔ وہ اس دھوئیں کے اندر ٹٹولتا ہوا اس طرف گیا تھا جس طرف زاہد گیا تھا، تھوڑہ دیر بعد دھواں صاف ہوا تھا ۔ اسے گھسٹا دیکھ کر سب سپاہی اس کی طرف بھاگے تھے ۔
’’سر…‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔ ‘‘ اس نے ہونٹ بھینچے کہا اور تیزی سے تکلیف بھلاتا اس طرف دوڑا تھا۔
’’ سر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ‘‘ پیچھے سے اسے آواز آئی تھی مگر وہ ساکت کھڑا تھا ۔ کیوں نہیں ہوا تھا وجہ سامنے تھی ۔
زاہد کے جسم کے حملہ آور کے ساتھ ہی پرخچے اڑ گئے تھے ۔ اس کا بے جان سر اور اس پر خون کی ندی میں نہائی ہوئی آنکھیں ۔ روحان کو لگا تھا اس کا اپنا سانس بند ہوگیا ہے ۔ وہ اس لیے اس آدمی کو دور لے کر جارہا تھا کیونکہ وہ اس کے ساتھ ٹائمر پر لگا بمب دیکھ چکا تھا ۔
’’کوئی میرے پیچھے مت آئے۔ ‘‘ اس کے کانوں میں زاہد کی آواز دوبارہ گونجی تھی ۔
وہ بے جان سا ہو کر اس کے سر کے پاس گرا تھا گھٹنوں کے بل۔ یہ قرض‘ یہ کس نے چکانے تھے ۔کون چکا سکتا تھا یہ قربانی، یہ اتنی قیمتی زندگی۔
’’ہمارا بیوی ہم کو بہت تنگ کرتا پھر ہم کھانا ہی بنا دیتا ہے۔ ‘‘اس کی معصوم آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ ایک تکلیف دہ خاموشی ارد گرد پھیلی ہوئی تھی ۔ کل تک زندگی سے بھرپور وہ جوان۔
’’کیا کروں صاب‘اس کے بغیر رہ بھی تو نہیں سکتا۔ ‘‘ وہ بے تاثر پتھرائی آنکھوں سیاس کی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جو خون میں نہا کر بھی چمک رہی تھیں ۔اس کی آنکھوں سے پانی باہر آیا تھا گالوں پر۔
’’ وہ تو سب کو اپنا قرض دار کر گیا تھا ۔ وہاں موجود سب کو‘ ایک ایک شخص کو ۔اس کی بھی فیملی تھی ‘ اس کا بھی گھر تھا ۔ ایک محبوب بیوی تھی ۔‘‘ رحان زارو قطار رونے لگا تھا۔
یہی وہ نہیں چاہتا تھا ۔ فوجی ہونے کے باوجود شایداس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی امن ۔ وہ کبھی مشن سے پیچھے نہیں ہٹا تھا لیکن وہ یہی چاہتا تھا کہ کبھی جنگ نہ ہو ۔ جنگ شروع کرنے والے یہ لوگ،یہ سیاستدان،یہ بڑے جرنیل ان سب کو کیا فرق پڑتا تھا ۔ اپنے اپنے گھروں میں دفتروں میں آوٹ ڈور رابطوں کے ساتھ ان کو کیا معلوم میدان جنگ میں کیا ہوتا ہے ۔ کیسے کیسے قیمتی لوگ پل میں یہ دنیا چھوڑ جاتے ہیں اپنوں کو اکیلا چھوڑ کر ۔ یہ چھوٹے سپاہی،عام لوگ کتنے خاص تھے کوئی اس سے پوچھتا ۔ اسے روتا دیکھ کر وہاں ہر آنکھ نم ہوئی تھی ۔ آج گیارہ جانیں گئی تھیں اور زاہد خٹک ایک عام سا باورچی جو ایک دن میں ہی اس کے اتنے قریب ہوگیا تھا
’’سر آپ کے بازو زخمی ہے خون بہہ رہا ہے بہت۔ ‘‘ کوئی اس کے پاس آکر بولا تھا مگر وہ بس روئے جارہا تھا ۔ موت کو اتنی بار سامنے دیکھا تھا لیکن آج تو اسے لگ رہا تھا یہ دکھ وہ سہہ نہیں پائے گا۔
ان میں سے کسی نے آگے ہو کر زاہد کی کھلی آنکھیں بند کرنی چاہی مگر اس نے روک دیا۔
’’ وہ مرا نہیں ہے ‘شہید ہے، زندہ ہے ۔ ‘‘ وہ بھاری آواز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
کھڑے ہوکر اس نے اسے سلیوٹ مارا تھا ۔اس کے پیچھے ہی ان سب نے ‘پھر جھک کر اس نے پوری تعظیم کے ساتھ اس کا سر اٹھایا تھا اپنے زخمی بازو کے ساتھ ہی ۔
’’ جنازے کا بندوبست کرو‘میں خود اس کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ ‘‘ وہ اس کے جسم کے باقی حصے اکٹھے کر رہا تھا ۔
سب نے فوراََ صفیں باندھنی شروع کی تھیں ۔ تابوت اور جنازے کے بعد اس نے پانچ سپاہیوں کواس کی لاش کے ساتھ شہر روانہ کیا تھا تا کہ وہاں سے ہیلی کاپٹر کے زریعے اس کے اہل خانہ تک اس کا جسد خاکی لے جایا جاسکے۔
مرہم پٹی کے بعد وہ تھکا ہوا بے جان سا بھاری دل کے ساتھ اپنے ٹینٹ میں بیٹھا تھا ۔ بس یہی اتنی سی زندگی تھی ۔کیا کیا خواب دیکھتا ہے انسان ۔ ہیڈ کوارٹر نے اسے واپس آنے کے لیے کہا تھا کہ وہ ریسٹ کرلے کیونکہ وہ کافی زخمی ہو چکا تھا مگر اسے کوئی بھی کام ادھورا چھوڑنے کی عادت نہیں تھی اور اب تو یہ اس پر زاہد کا قرض تھا ۔ کم از کم اس کی قربانی وہ رائیگاں نہیں جانے دے گا ۔ اس عہد کے ساتھ اس نے اگلی لائن آف ایکشن سوچی تھی ۔ مگر زہن میں بار بار زاہد کا چہرہ آرہا تھا ۔ اسے وہ وقت یاد آیا تھا جب اس کے بابا کی لاش اس طرح سبز جھنڈے میں لپٹی ان کے گھر کے آنگن میں اتری تھی اوراس کی ماں نے ’’الحمدللہ‘‘کہہ کر روتی آنکھوں کے ساتھ اتنی جوانی میں صبر کی چادر اوڑھی تھی ۔ ایسی ہی رات آج زاہد کے گھر بھی ہوئی ہوگی ۔اس کے لیے دعا کرتے ہوئے اس نے اللہ سے اس کے گھر والوں کے لیے بھی صبر مانگا تھا۔
نماز پڑھنے کے بعد اس کا دل کچھ ہلکا ہوا تھا ۔غنودگی ہونے لگی تھی شاید دوا کا اثر تھا ۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ نیند میں چلا گیا تھا۔
٭…٭…٭
’’ لالہ،کیوں ایسے ہوگئی ہو تم ۔ نہ ہنستی ہو پہلے کی طرح نہ بولتی ہو۔ ‘‘ زرمینے کی فکرمندی اور یہ باتیں ۔
پورا دن وہ اسے یہی پوچھتی رہتی تھی ۔ بھابھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اس کی بیسٹ فرینڈ بھی تھی ۔ اب بھی وہ آدھا گھنٹہ پہلے ناشتہ اس کو دے کر گئی تھی اور اب آئی تھی تو وہ ویسے ہی پڑا تھا اس کے سامنے۔
’’بابا جان بھی پریشان تھے بہت ۔ ادھر آرہے تھے پھر کوئی خبر آئی شاید کیمپ سے تو ادھر چلے گئے۔ ‘‘اس کی آخری بات پر اس نے سر اٹھایا۔
’’ کیا خبر۔ ‘‘ اس نے غیر دلچسپی سے پوچھا تھا۔
’’ معلوم نہیں، خبر نامے پر آرہی تھی جب میں ناشتہ دینے گیا ادھر ، کیمپ پر کوئی حملہ ہوا شاید۔ ‘‘ زرمینے کے کہنے پر وہ سفید پڑتے رنگ کے ساتھ بے اختیار کھڑی ہوئی ۔
’’کک…کیسا حملہ۔ ‘‘ اس کی حالت دیکھ کر زرمینے بھی پریشان ہوکر کھڑی ہوئی تھی اور اندر آتا مہروز وہیں رک گیا تھا۔
’’لالہ کیا ہوا‘ اتنی گھبرا کیوں گئی ہو تم۔ ‘‘ زرمینے نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر بٹھانے کی کو شش کی تھی۔
’’مجھے بتاؤ نہ زرمینے‘ کہاں ہوا ہے حملہ ۔ ‘‘ اس کی بے چینی حد سے سوا تھی ۔جہاں زرمینے حیران تھی وہیں دروازے پر کھڑا مہروز ساکت تھا۔
زرمینے نے ٹی وی چلا دیا تھا ۔ جاور نیوز چینل لگا دیا تھا جہاں کیمپ میں خود کش حملے میں ایک سپاہی کے شہید اور میجر روحان کے شدید زخمی ہونے کی خبر چل رہی تھی۔
’’یہ ہی خبر سن رہے تھے بابا جان۔ ‘‘زرمینے نے کہ کراس کی طرف دیکھا تھا جو بالکل سفید پڑتی صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھی تھی۔
’’لالہ… ‘‘ زرمینہ اس کی حالت دیکھ کر اس پر جھکی تھی ۔
’’ مجھے کیمپ لے جاؤ زرمینے ۔ مجھے ایک بار وہاں لے جاؤ ۔ میں نے اسے دیکھنا ہے ایک بار پلیز۔ ‘‘ وہ رو رہی تھی اور باہر کھڑے مہروز کے دماغ میں گویا آندھیاں چل رہی تھیں۔ اسے اس دن روحان کو دیکھ کر اس کابے ہوش ہونا یاد آیا تھا۔
’’کک…کسے دیکھنا ہے۔ ‘‘ زرمینے کو اپنی آواز ہی اجنبی لگی تھی پوچھتے ہوئے۔
’’تم بابا جان سے کہو ناں ۔وہ زخمی ہے‘اسے ادھر لے آئیں ۔ ‘‘ وہ اپنی دھن میں بولے جارہی تھی۔اور زرمینے کی کیفیت ایسی تھی گویا کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
’’زرمینے… ‘‘ مہروز کی آواز پر وہ دونوں اچھلی تھیں۔
’’جی۔‘‘ وہ فوراََ مڑی۔
’’باہر آؤ۔ ‘‘ اسے کہتا وہ باہر چلا گیا۔
زرمینے بھی اس کے پیچھے گئی تھی ۔ ان کے جاتے ہی وہ اٹھی تھی اور فوراََ کمرے میں گئی تھی ۔ دروازہ بند کرکے اس نے اس کی کیپ نکالی تھی ۔ پھر بہت دیر تک اسے دیکھنے کے بعد وہ فون کی بیل پر چونکی تھی ۔ فون زرتاشہ کا تھا۔
’’ میں نے تمہیں وارن کرنے کے لیے فون کیا ہے لالی ۔ تم نے ہمیں اور ہمارے کاز کو سب سے بڑا دھوکہ دیا ہے ۔ یہ غداری ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔ اس کا بدلہ لیں گے تم سے بھی اور تمہارے فیانسی سے بھی۔ ‘‘اس کی سفاکیت سے بھری آواز بتا رہی تھی کہ اسے روحان کی سچائی پتہ چل چکی تھی۔
’’اس دفعہ وہ بچ گیا ۔ اگلی بار کسی صورت نہیں بچے گا۔ ‘‘ فون بند ہوگیا تھا اور وہ بے جان ۔ پھر وہ اٹھ کر باہر بھاگی تھی جیپ کی طرف لیکن آگے مہروز کو کھڑا دیکھ کر رک گئی تھی۔
’’کہاں جارہی ہو۔ ‘‘ اس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
’’ مجھے کیمپ جانا ہے۔ ‘‘ اس نے بھی جھوٹ نہیں بولا تھا ۔اس وقت اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے