مکمل ناول

صحرائے عشق : آخری حصہ

’’بی پی بہت لو ہے‘ شکر ہے کچھ ہوش تو آیا ہے ۔ زبردستی اب کچھ بنا کر اسے کھلاؤ ۔ میں ڈاکٹر سارہ کو لے کر آتا ہوں تب تک اس کے لیے جلد از جلدکچھ اس کی پسند کا بنا دو۔ ‘‘ وہ اس لڑکی کو ہدایات جاری کرتا باہر نکل گیا تھا جبکہ لڑکی دوسری طرف مڑ گئی تھی۔
ان کے جاتے ہی وہ طویل سانس بھرتا کھڑا ہوا ۔ وہ صرف اس کی خیریت ہی جاننا چاہتا تھا ۔ لیکن اب یہاں تک آکر اسے دیکھے بغیر جانا مشکل لگ رہا تھا ۔ دبے قدموں وہ اس جانب بڑھا جہاں سے مہروز آیا تھا اور پھر توقع کے عین مطابق راہداری کے ساتھ ہی کمرے میں وہی تھی ۔ سبز رنگ کی بیڈ شیٹ پر بالکل سیدھی لیٹی ہوئی ۔ سیاہ چادر منہ تک لیے ہوئے ۔ صرف بال تھے جو چادر سے باہر تھے ۔ سبز رنگ پر سنہرا جال بچھا ہوا تھا ۔ وہ اندر آگیا تھا ۔ اسے کوئی خوش فہمی نہیں تھی کہ وہ اس کی وجہ سے اس حال میں پہنچی ہے ۔ ہاں لیکن وہ اتنی کمزور نہیں تھی کہ صرف ایک دن کچھ نہ کھانے سے بے ہوش ہوجائے۔ یہ بات اسے ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔ کچھ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ آگیا تھا۔
’’مجھے ابھی اکیلا رہنے دو زرمینے ۔ میں نے پہلے بھی تمہیں کہا ہے مجھے اکیلا چھوڑ دو پلیز… ‘‘ قدموں کی آہٹ پر وہ وہ چادر کے اندر منہ دیئے ہی بولی تھی ۔ لیکن روحان کو جس بات نے چونکایا تھا وہ اس کا بھاری لہجہ تھا ۔ وہ یقینا رو رہی تھی اس لیے ہی چادر سے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا ۔ وہ ایسی تو نہیں تھی ۔ جس لالہ رخ کو وہ جانتا تھا وہ تو بہت مضبوط تھی ۔ پھر ایسا کیا ہوگیا تھا ۔ کیا پریشانی آگئی تھی ۔ وہ پریشان ساکیپ اتار کر سائیڈ پر بنی کھڑکی میں رکھتا آگے بڑھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے مخاطب کرتا، راہداری سے آتی بھاری قدموں کی آواز ہر وہ بے اختیار اچھلا ۔ یہ آہٹ سردار کے قدموں کی تھی وہ فوراََ پہچان گیا تھا ۔ ایک لمحے کے ہزارویں سیکنڈ میں وہ کھڑکی سے باہر لان میں کود گیا تھا اور مردانے کی طرف چلا گیا تھا ۔ جبکہ زوردار کھٹکے کی آواز پر اس نے چادر چہرے سے ہٹائی تھی ۔ اسی وقت بابا جان اندر آگئے تھے ۔ ان کو دیکھ کر وہ فوراََ کھڑی ہوئی۔ وہ تیزی سے اس کے پاس آئے۔
’’ ہمارا جان نکال دیا لالہ تم نے۔ ‘‘ انہوں نے اسے ساتھ لگایا۔
اس کے آنسوؤں میں تیزی آگئی تھی ۔ وہ بتانا چاہتی تھی کہ اس کی اپنی جان نکل رہی ہے ۔ وہ ایسی ہی تھی ۔ اسے ہمیشہ کچھ بھی چھپانا مشکل لگتا تھا ۔ اچھا موڈ، برا موڈ ۔ وہ بہت ایکسپریسو تھی ۔ اب بھی اس کی جان پر بنی تھی۔
’’ لالہ،کیا ہوا ہے ۔ کچھ بولو بھی تو‘کسی نے کچھ کہا ہے ہماری بیٹی کو۔ ‘‘ بابا جان اس کے رونے پر مزید پریشان ہوئے تھے۔
’’ ایسے ہی‘کچھ بھی نہیں ہوا ۔ بس آپ کو دیکھ کر ایموشنل ہوگئی۔ ‘‘ اس نے آنسو صاف کیے۔
’’ ہم تو سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگا ہے ۔ تم تو کبھی نہیں روتا‘میرا بہادر بچہ ہے تم تو ۔کوئی بات ہے تو بتاؤ ہم کو۔ ‘‘ ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی ۔ تشویش ان کے بارعب چہرے پر بڑی واضح تھی ۔
’’میں سچ کہہ رہی ہوں بابا جان،بس ایسے ہی مورے یاد آگئیں۔ ‘‘ وہ دوبارہ بیٹھ گئی۔ وہ بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئے تھے۔
’’کیا وہ فوج والے چلے گئے ؟ ‘‘ اس کا لہجہ پھر بھرایا تھا ۔ بابا جان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’ عمر کے اس حصے میں ماں کا بہت ضرورت ہوتا بچی کو ،ہم جانتاہے۔ ‘‘ ان کی بات سن کر اس کے آنسو پھر آنکھوں کی دہلیز پار کر گئے تھے ۔ بات بے بات بلا وجہ،بے ضرورت رونا آرہا تھا ۔
’’ شاید تم ہم سے یا مہروز سے وہ نہیں کہہ سکتا جو اپنی مورے سے کہہ پاتا آرام سے۔ ‘‘ بابا جان کی بات پر وہ سن ہوگئی تھی ۔ وہ کتنا صحیح سمجھے تھے ۔
’’ ایسا نہیں ہے بابا جان،بس رات کو ایک کہانی پڑھی تو مورے یاد آگئی۔ ‘‘ اس نے بے اختیار کہا ۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔
’’ آرام کرلو تم‘ہم مہمانوں کو رخصت کر کے آئے۔ ‘‘
وہ کہہ کر چلے گئے جبکہ اس کا وجود ایک بار پھر بے جان ہونے لگا تھا ۔ تو وہ جا بھی رہا تھا ۔ وہ بے اختیار اٹھ کر کھڑکی کے پاس آئی تھی دیکھنے۔لیکن پھر اسے ایک لمحے کے لیے لگا تھا کہ اس کی واقعی دھڑکن رک گئی ہے ۔ کھڑکی میں پڑی وہ کیپ … اس کا دل دھڑ دھڑ کرتا باہر آنے کو تھا ۔ بے یقینی،حیرت،خوشی اسے نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے ۔ کپکپاتے ہاتھ سے اس نے اس کیپ کو چھوا تھا پھر اٹھایا تھا ۔ یہ اس کی کیپ تھی ۔ وہ یہی پہنے ہوا تھا یونیفارم پر‘وہ آیا تھا ادھر ، کیا تب وہی آیا تھا ۔ وہ آہٹ اس کے قدموں کی ہی تھی۔ وہ دل پر ہاتھ رکھے اس اچانک ملنے والی خوشی کو بے قابو ہونے سے روکنا چاہ رہی تھی ۔ ایک طاقت تھی جو اس کے پورے وجود میں بھر گئی تھی ۔
کیا چیز تھی یہ دل لگی… اس کے تو دل کو ہی لگ گئی تھی سچ مچ ۔ تو وہ آیا تھا اس کے پیچھے ادھر تک ۔ بے اختیارانہ مسکراہٹ تھی جو کھل کر اس کے ہونٹوں پر کھلی تھی ۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تھا ۔ وہ سب سے آخر میں تھا ۔ براؤن بال دھوپ میں دور سے ہی بکھرے سے نظر آرہے تھے بغیر کیپ کے ۔ اسی وقت اس نے سر اٹھا کر اس طرف دیکھا تھا وہ فوراََ پیچھے ہو گئی تھی ۔ جبکہ وہ ٹینشن میں گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔ اس کی کیپ وہیں رہ گئی تھی اور اسے واپس لانے کا موقع ہی نہیں مل سکا تھا۔
٭…٭…٭
ایک بار پھر وہی صحرا تھا اور وہی رستہ …
بس فرق یہ تھا کہ وہ اس بار اکیلا نہیں تھا ۔ جابجا خیمے اور ٹینٹ لگائے تھے ۔ فوج آپریشن شروع کرنے جارہی تھی اور یہ ایک طرح سے سینٹر میں مین ہیڈ کوارٹر بنایا گیا تھا جس میں صحرائی موسم سے نپٹنے کے نہ صرف تمام انتظامات موجود تھے بلکہ ایک باقاعدہ الگ سے اس کے لیے سیل قائم کیا گیا تھا ۔ اپنے ٹینٹ میں وہ اس وقت اکیلا بیٹھا تھا ۔ دھیان کے پردوں میں چادر نیچے کیے خود کو بے یقینی سے دیکھتی دو آنکھیں تھیں ۔ باہر کسی نے میوزک لگایا تھا شاید۔
بلوچ گانا تھا شاید کوئی ۔ اسے تھوڑی بہت سمجھ آرہی تھی مگر میوزک بہت خوبصورت تھا ۔ وہ اٹھ کر باہر آگیا جہاں بہت سارے سپاہی مل کر دائرہ بنا کر بیٹھے تھے ۔ درمیان میں روشنی کے لیے دو ٹارچز ملا کر رکھی گئی تھیں ۔ وہ سب اس وقت مستی کے موڈ میں تھے ۔ اس کو باہر آتا دیکھ کر وہ قدرے خاموش ہوگئے تھے ۔ مین ہیڈ کوارٹر اس کودیا گیا تھا، کچھ فاصلوں پر اور کیمپس بھی لگائے گئے تھے جو مختلف کیپٹنز کے زمے تھے ۔ ایک وہ سینیئر تھا دوسرا تھا بھی سپیشل ونگ سے اس لیے وہ سب ہی تقریباََ اس سے جھجھک رہے تھے ۔ وہ مسکراتا ہوا ان کے درمیان آگیا۔
’’ لگاؤ یار‘رک کیوں گئے۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ سب خوش ہو گئے تھے۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہ ان سب میں ایسے گھل مل گیا تھا جیسے ہمیشہ سے وہاں کا ہو ۔ ان کے ساتھ گاتے ہوئے، بھنگڑا ڈالتے ہوئے،ہنستے ہوئے وہ خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ یہ اس کی عادت تھی ۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کو آرام دہ محسوس کروانا اس کے نزدیک زندگی یہی تھی ۔ کم از کم اتنا تو آپ کی شخصیت کو خوبصورت ہونا چاہیئے کہ کوئی بھی آپ سے بنا ڈرے اپنا دکھ، خوشی شیئر کردے ۔ برابری،مساوات،دوسروں کو نہ پرکھنا ۔ وہ ان چیزوں پر بہت زیادہ یقین رکھتا تھا ۔ ویسے بھی اگلی صبح سے وہ سب اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام شروع کرنے والے تھے ۔ پھر کیا حرج تھا اگر دوپل کو خوش ہولیتے ۔ وقت تو رعب ڈال کر ڈرا کر بھی گزر ہی جاتا اور ایسے بھی گزر جاتا۔
’’ ہماری بیوی صاب بہت کام کراتی ہم سے جب گھر جاتا ہم۔ ‘‘ یہ زاہد خٹک تھا ۔اس کی بات پر وہ سب ہنسنے لگ گئے تھے۔
’’ کہتی ہے فوج کو کھانے بنا بنا کھلاتا ہے مجھے بھی کھلا۔ ‘‘ وہ کک تھا۔
’’ پھر تو ٹھیک کہتی ہے ۔ سب کو بنا کر کھلاتے ہو تو اس کا بھی حق ہے۔ ‘‘ وہ محفوظ ہوتے ہوئے بولا۔
’’ صاب یہ عورت کا کام ہے ہمارا تھوڑی ہے ۔پر وہ بہت تنگ کرتی ہے، پھر ہم کو بنانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘ آخر میں وہ بہت معصومیت سے بولا تھا۔ وہ بے اختیار ہنستا چلا گیا۔
’’ اگر نہیں بناؤ گے تو وہ کیا کرے گی؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا تھا۔
’’ لڑائی کرتا ہے ہم سے پھر، ایسے طعنے مارتا ہے ۔ ناراض ہوجائے گی پھر منانا بھی خود ہی پڑتا ۔ اس لیے پھر میں کھانا ہی بنا دیتا ہوں۔ ‘‘ وہ اسی طرح معصومیت سے بولا تھا ۔ روحان کے حلق سے فلک شگاف قہقہہ نکلا تھا۔
’’ آپ کاشادی ہوا ہے صاب ؟ ‘‘ وہ کھانا اب اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا۔
’’نہیں، ابھی نہیں ہوئی… ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کھانے کی ٹرے سامنے کی۔
’’ خوش قمست ہو آپ تو بہت۔ ‘‘ اس کے حسرت سے کہنے ہر وہ پھر ہنسا تھا۔
’’ ایسے ہی لگا ہوا یہ تو صاب‘ ہر ہفتے اسے چھٹی کی پڑی ہوتی ۔ کہتا ہے گھروالی یاد آرہی اور باتیں دیکھو۔ ‘‘ ایک دوسرے سپاہی کے کہنے پر وہ کھانا رکھتے رکھتے رکا۔
’’ رہ بھی تو نہیں سکتا نہ صاب اس کے بغیر‘ یہ لڑائی وڑائی تو چلتا رہتا ہے۔ ‘‘ خالص سادہ سے لہجے میں کہی گئی بات تھی ۔
روحان چپ چاپ اسے دیکھتا رہا ۔ کتنا لکھتے تھے لوگ محبت پر، ڈھونڈتے تھے ۔ محبت تو یہیں تھی ہمارے اردگرد ۔ وہ جو اس نے ابھی زاہد خٹک کے لہجے میں دیکھی تھی ۔ جو صحرا کے بیچ بھی اسے یاد کر رہا تھا ۔ اسے ہمیشہ ایسے لوگ بہت قیمتی لگتے تھے ۔سادہ،خالص دنیا کے فریبوں سے بہت دور۔ اپنی چھوٹی دنیا میں بہت خوش رہنے والے۔
اس نے سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے کھانا شروع کیا اور پہلے ہی نوالے پر ہاتھ رک گیا تھا ۔ ذہن میں پھر سے لالہ رخ آگئی تھی۔
’’ پتہ نہیں اب کیسی طبیعت ہوگی ۔کیا اسے کوئی ٹینشن ہے۔ ‘‘ ذہن میں آتی سوچوں کو جھٹکتا وہ دوبارہ کھانے پر فوکس کرنے لگا لیکن ناکام ہو رہا تھا ۔
٭…٭…٭
’’ بی بی آپ کا طبیعت ٹھیک نہیں، سردار نے منع کیا ہے اکیلے آپ کو نہ جانے دیا جائے کہیں بھی۔ ‘‘ اسے چادر لپیٹے باہر کی طرف بڑھتا دیکھ کر گل مینا تیزی سے اس کے پیچھے آئی تھی۔
’’ ضروری کام ہے گل مینا،میں جلدی آجاؤں گی۔ ‘‘ وہ بنا مڑے جواب دیتی باہر نکل گئی تھی ۔ جیپ کی طرف اسے آتا دیکھ کر اسماعیل پیچھے ہوگیا تھا ۔
اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر جیپ بیک کر کے اس کے پاس روکی ۔ وہ جانتی تھی وہ بابا جان کا خاص مخبر ہے۔
’’ فوج کا کیمپ جانتے ہو کدھر لگا ہے ؟ ‘‘ اس نے قدرے سر باہر نکال کر پوچھا۔
’’ صحرا میں لگا ہے ۔ہم صبح گیا تھا ایک خبر پہنچانی تھی ادھر ۔ ‘‘ اس نے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا۔
’’بابا جان کو بتا دینا ہم زرا میڈیکل کیمپ کے لیے جگہ دیکھنے جارہے ہیں۔ ‘‘ اس نے کہہ کر جیپ سٹارٹ کردی تھی ۔
سورج آج خوب آگ برسا رہا تھا ۔ علاقے سے نکلتے ہی اس نے چادر چہرے سے ہٹا دی تھی اور پھر پسینہ صاف کر کے جیپ کو ریس دیتی پہاڑ کے دوسری طرف آگئی تھی ۔ آگے خاران کا لق و دق صحرا تھا ۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے جیپ مشرق کی طرف موڑی تھی ۔کافی دور آنے کے بعد بھی اسے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے کسی قسم کی کیمپنگ کے ۔ ہونٹ بھینچے اسے کسی غلطی کا احساس ہوا تھا مگر اس سے پہلے کے وہ واپس مڑتی ۔ تیز گاڑیوں اور جیپوں کی آوازیں کانوں میں پڑتے ہی وہ چونکی تھی ۔ اس نے جیپ آگے کی طرف دوڑائی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسے آگے پیچھے فوجی جیپیں جاتی نظر آئی تھیں اور ان کے پیچھے لگے ٹینٹ ۔ گویا وہ نکل رہے تھے ۔ وہ جیپ روک کر اتر کر ٹینٹ کی سائیڈ پر آگئی تھی جہاں ایک تیئس چوبیس سالہ نوجوان لکڑیوں پر کچھ پکا رہا تھا۔
اسے ادھر آتا دیکھ کر وہ کھڑا ہوگیا ۔ رنگ و روپ سے وہ پٹھان لگ رہا تھا۔
’’ او بی بی،کون ہو تم‘ادھر کیا کرتا ہو۔ ‘‘ اس کے کڑک لہجے پر لالہ رخ نے نقاب میں سے قدرے گھور کر اسے دیکھا تھا۔
’’ مجھے ایک مخبری کرنی ہے ،یہاں کمانڈ کس کے پاس ہے ؟ ‘‘ وہ تیزی سے بولی ۔ جواباََ وہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔
’’ کیا مخبری کرنا ہے‘بتاؤ ہم کو ۔ ‘‘ دونوں ہاتھ عورتوں کی طرح کمر ہر رکھے وہ اس کے پاس آگیا تھا۔
’’ اپنے کسی افسر کے پاس لے کر چلو ۔ ‘‘ لالہ رخ نے اس کے انداز پر ناک چڑھائی تھی ۔
’’ ہم تمہارا نوکر ہے کیا ؟ ہم کو پاگل سمجھا ہے کیا ؟ جلدی بتاؤ، کیوں آیا ہے ادھر ورنہ… ‘‘ لالہ رخ کو لگا تھا کھانا بناتے بناتے دھوپ اس کے دماغ کو چڑھ گئی ہے ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اسے سلیوٹ مارتا دیکھ کر وہ حیرت سے مڑی اور پیچھے کھڑے وجود سے بری طرح ٹکرائی تھی ۔ مقابل نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سنبھالا تھا ۔ لالہ رخ نے سر اٹھانا چاہا تھا مگر نظریں شرٹ کے بائیں طرف سینے پر گندھے اس نام پر اٹک گئی تھیں ’’روحان ابراہیم‘‘ بڑا بڑا انگلش میں لکھا تھا ۔ اس کی نگاہ مڑنے سے انکاری ہوئی تھی ۔ ہمیشہ جب اس کا دل کہتا تھا کہ وہ اس کے آس پاس کہیں ہے تو وہ واقعی ہوتا تھا وہا ں ۔ بمشکل اس نے سر اٹھایا تھا ۔ براؤن سن گلاسز لگائے ہلکی سی بڑھی شیو کے ساتھ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ ہاتھ ابھی بھی اس کے کندھوں پر تھے جبکہ کچھ فٹ کے فاصلے پر کھڑا زاہد خٹک حیران ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’ صاب یہ عورت،کہتا ہے مخبری کرنا ہے افسر کے پاس لے کر چلو۔ ‘‘ اس کی آواز میں بھی حیرت تھی ۔ اس کی آواز پر وہ قدرے چونک کر پیچھے ہوا۔
’’ ان کو رحیم صاب سے ملوا دو۔ ‘‘ تیزی سے کہہ کر وہ ٹینٹ کے اندر چلا گیا تھا جبکہ اس کے الفاظ باہر کھڑی لالہ رخ کو ایک مرتبہ پھر سن کر گئے تھے ۔
اہانت کا،بے قدری کا احساس اس قدر شدید تھا کہ اسے کھڑا رہنا مشکل لگا تھا ۔ دو دن سے وہ کیپ لیے جس خوش فہمی میں تھی دھڑا دھڑ ہی فرش ہر آگئی تھی ۔ضبط سے اس کی آنکھیں اور چہرہ دونوں سرخ ہوئے تھے۔
’’ آؤ بی بی…‘‘ زاہد کا لہجہ اب تمیز والا تھا۔
’’ یہ… یہ تمہارا باس کیا سمجھتا ہے خود کو ۔ کیا ہے وہ…ہے کیا وہ؟ ‘‘اس کے اندر کی لالہ رخ باہر آگئی تھی جبکہ اس کے اس طرح چیخ کر بولنے ہر زاہد گھبرا کر پیچھے ہوگیا۔
’’یہ تم کیا کر رہا بی بی‘ ایسا لگتا دورہ پڑ رہا تم کو، تمہارا گھر کدھر ہے۔ ‘‘ وہ گھبرا گیا تھا جب کہ اس کی بات پر وہ مزید تپ گئی تھی۔
’’ شٹ اپ،جہنم میں جاؤ تم اور تمہارا وہ ۔ ‘‘ پیر پٹخ کر وہ مڑی تھی ساتھ ہی اپنے اوپر لعنت بھی بھیجی تھی جو منہ اٹھا کر ادھر آگئی تھی۔
’’مگر وہ رحیم صاب تو ادھر بیٹھتا ہے۔‘‘ اس کو مڑتا دیکھ کر زاہد نے آہستہ سے کہا ۔ کچھ اور سپاہی بھی اکٹھے ہوگئے تھے۔
’’ میری بلا سے جہاں مرضی بیٹھے۔ ‘‘ وہ دانت پیس کر پسینہ صاف کرتی پھر سے چیخی تھی۔
’’ام کو تو یہ پاگل لگتا ۔‘‘ زاہد نے پاس کھڑے شخص کے کان میں سرگوشی کی تھی ۔
اسی وقت ہی وہ ٹینٹ سے باہر آگیا تھا ۔ اس کے باہر آتے ہی وہ سب سیدھے ہوگئے تھے ۔ اس کے چہرے پر رقم سنجیدگی بتا رہی تھی کہ یقینا وہ اندر ساری آوازیں سن رہا تھا ۔
’’ آپ سب اپنا اپنا کام کیجیے اور آپ میرے ساتھ آئیں۔ ‘‘ ان سب کو کہہ کر وہ لالہ رخ سے مخاطب ہوا جو اسے ہی گھور رہی تھی۔
’’ نو تھینکس،میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ نخوت سے کہتی جیپ کی طرف مڑ گئی تھی ۔ دبی دبی سی مسکراہٹ وہاں سب کے ہونٹوں پر کھلی تھی ۔ وہ واقعی کوئی سائیکو کیس لگ رہی تھی جبکہ روحان اس ساری سچوئیشن میں گھرا سر پکڑے اس کے پیچھے آیا تھا۔
’’ میرے ساتھ آؤ…‘‘ اس کے پاس آکر وہ سرد آواز میں بولا تھا مگر وہ سنی ان سنی کرتی گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے