مکمل ناول

صحرائے عشق : آخری حصہ

یہ جو ہم ہیں احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم اگر زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے
ایف ایم پر نجانے کون تھا ۔ کوئی غیر معروف سنگر تھا مگر آواز ایسی تھی جو سیدھے دل میں اتر رہی تھی۔
’’ہم اگر زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔ ‘‘
روحان نے زیر لب دہرایا پھر ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھر گئی تھی ۔ ہیڈ کوارٹر کے سامنے پہنچ کر اس نے جیپ پارک کی اور تیزی سے اندر کی طرف بڑھا تھا ۔ میٹنگ ہال میں اس کے داخل ہوتے ہی کئی سر اس کی طرف اٹھے تھے ۔ وہ دس منٹ لیٹ تھا لیکن آج کے لیے اس کوچھوٹ تھی کیونکہ وہ بہت دور سے آیا تھا ۔ وہ سلیوٹ کرتا ہوا کیپ سیٹ کرکے اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا تھا۔
’’میٹنگ کی کاروائی آگے بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے ان جوانوں اور شہیدوں کو سلام جنہوں نے حالیہ حملے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔ ان کا خون اور قربانی ضائع نہیں جائے گی ‘انشاء اللہ … ‘‘ ونگ کمانڈر جنرل عبدالرحمان کے کہنے پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی تھی۔
’’ دشمن ہمارے سر پر پہنچ چکا ہے ۔ اب ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹے جائیں۔اب وہ عام لوگوں ہر حملہ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اس لیے اسے اپنی سب سے بڑی دشمن اس وقت فوج لگ رہی ہے ۔ ہائیر اتھارٹیز کی ہدایات کے مطابق بلوچستان ونگ کو فوری آپریشن کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ۔ بغاوت کا سر کچل کر ہم اپنا اور اپنے وطن کا دفاع یقینی بنائیں گے ہر صورت۔ ‘‘ ونگ کمانڈر کا بولتے ہوئے جوش سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔
روحان جانتا تھا ایک عام سپاہی کی شہادت کو بھی فوج میں ایک بہت بڑے نقصان کے طور پر مانا جاتا تھا ۔ فوج اپنے لوگوں کے لیے حد سے زیادہ فکرمند تھی۔
’’ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی فورس کے ساتھ جان کی پرواہ کیے بغیر اس مشن کی تکمیل کو یقینی بنائے گا ضرور انشاء اللہ…‘‘ یہ کرنل احمد تھے ۔
اس کے بعد کافی سینیئر اور جونیئر آفیسرز نے اپنا ہائی مورال ونگ کمانڈر کو شو کیا تھا۔
’’آپ میں سے کچھ لوگ شاید جانتے ہیں اور کچھ نہیں کہ سپیشل ونگ سے میجر روحان ابراہیم پہلے سے ہی اس ٹاسک پر کام کر رہے تھے ۔ آج وہ ہم سب کے بیچ موجود ہیں اور میری سپیشل ریکویسٹ ہر وہ اس آپریشن میں ہمارے ساتھ ہی کام کریں گے ۔ ‘‘ جنرل عبدالرحمان نے اب اس کی طرف اشارہ کیا جو اپنا نام سنتے ہی فوراََ کھڑا ہوگیا تھا۔
سب کی نظریں اب اس پر تھی۔
’’ ان کی رپورٹ کے مطابق‘ ہمسایہ ممالک کی طرف سے کی جانے والی فنڈنگ سے چلنے والی ایک این جی او پچھلے بیس سالوں سے قبائلی نوجوانوں کی ذہن سازی پر بہت محدود پیمانے پر کام کر رہی ہے ۔ پہلے یہ کاروائیاں بہت بار ہمارے نوٹس میں آئی مگر این جی او کے خلاف ایکشن پراپرلی نہیں ہوسکا کیونکہ وہ باقاعدہ ونائیٹڈ نیشنز سے منسلک ہے مگر ان کی رپورٹ کے مطابق بلوچ فریڈم آرمی کا ایک وسیع نیٹ ورک بہت ہی منظم طریقے سے این جی او کے تحت بڑے خفیہ طریقے سے چلایا جارہا ہے ۔ اس آرمی میں نہ صرف پڑھے لکھے با صلاحیت نوجوان بھرتی کیے جاتے بلکہ ان کو اس قدر ٹرین کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان دے کر حملہ کرنے کو سب سے مقدس مانتے ۔ اور خودکش حملہ آوروں کی الگ سے ونگ قائم ہے جس میں نوحوان فوج میں آنے کے بعد خود خواہش ظاہر کرتے کہ وہ اس ونگ کا حصہ بن کر جان دینا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ وہ کافی تفصیل سے بتا رہے تھے۔
’’ آرمی کا مین نیٹ ورک بھارت اور را کی مدد سے افغانستان سے چلایا جارہا ہے ۔ ہماری کچھ سیاسی مقامی شخصیات بھی اس کا حصہ ہیں ۔ ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے۔ ۔ ‘‘ وہ کہتے ہوئے اب کچھ آگے کو ہوئے۔
’’ دشمن کی کوئی پہچان نہیں ہے ‘نہ کوئی وردی ۔ وہ ہمارے جیسے ہمارے مذہب کو ماننے والے ہمارے اردگرد ہمارے ہی لوگ ہیں ۔ ہمیں نیٹ ورک اتنا وسیع بنانا ہے کہ یہ آپریشن کامیاب ہوسکے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس میں کتنا وقت لگے گا ۔ ہوسکتا ہے ہم میں سے بہت سے لوگ اس کامیابی کو دیکھنے سے پہلے چل بسیں لیکن شروعات ہم نے ہی کرنی ہیں۔ ‘‘ ان کا لہجہ اب مدھم ہوگیا تھا۔
’’ جب اصل زمہ داروں کا تعین ہوچکا ہے کافی حد تک تو آپریشن سے پہلے ان کو پکڑنا چاہئے ۔ جڑ نہیں رہے گی تو بہت کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ روحان کی سنجیدہ آواز پر ایک بار پھر سر اس کی طرف مڑے تھے۔
’’ این جی او‘ پر ڈائریکٹ ہاتھ ڈالنا خود کو بہت سی مصیبتوں میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ ہم ان کا سپورٹ ختم کریں گے تو این جی او خود ہی ختم ہوجائے گی ۔ اگر ہم نے ڈائریکٹ ان کو چھیڑا تو انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ اور یہ سب صحافی مقامی اور بین الاقوامی میڈیا ہمیں بہت پریشرائز کرے گا ۔ جس مقصد کے لیے وہ اتنے سالوں سے محنت کر رہے جب وہ آرمی ہی ختم ہوجائے گی تو این جی او کا جواز بھی ختم ہوجائے گا ۔ ہم انہیں چھوڑیں گے تو نہیں لیکن مارنا ایسے ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔‘‘ان کا نقطہ نظر اپنے حساب سے ٹھیک تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ کتنی بین الاقوامی پچیدگیاں حائل ہوجاتیں اور پھر پاکستان پر جو پابندیاں لگتی اس سے بھی نقصان اپنا ہی ہوتا۔
’’ جس آرمی کو ختم کرنے ہم جارہے ہیں ۔ وہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ۔ ان کو مدد کی ضرورت ہے‘مرنے کی نہیں ۔ ریاست کو یہ بات سمجھنی چاہئے ۔ ان کے خلاف آپریشن میں بہت سے بے گناہ لوگ بھی نشانہ بنیں گے ۔ بہت وفادار بھی غدار قرار دیئے جائیں گے ۔ یہ کس کا نقصان ہے ؟ یہ ہے ہمارا اصل نقصان ۔ جس کو اٹھائیں گے ہم یا جس کو ماریں گے ۔اس کی فیملی انتقاماََ بندوق اٹھائے گی ۔ آپریشن حل نہیں ہے ۔یہ بغاوت اس طرح کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ‘‘ اس کے قدرے تلخ لہجے میں کہنے ہر ہال میں ایک سناٹا چھا گیا تھا ۔
وہ وہاں سب سے جونیئر تھا شاید لیکن وہ سپیشل ونگ سے تھا ۔ پھر بھی اپنے قائم مقام باس کے سامنے ایسے بات کرنا‘آرمی ڈسپلن اور رولز کے مطابق ایسی جرات کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا۔
’’آپ کے خیال میں پھر کیا حل ہے ؟ جا کر این جی او بین کر دیں اور پھر پوری دنیا ہمیں بین کردے ؟‘ ‘ جنرل عبدالرحمان کا لہجہ اب قدرے سخت تھا۔
’’ دنیا کو مطمئن کرتے کرتے ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے سر… ‘‘ وہ اب مسکرایا تھا۔
’’مگر درمیانہ حل بھی نکل سکتا ہے ۔ قبائلی اضلاع کو اعتماد میں بھی تو لیا جاسکتا ہے ۔ سرداران سے بات کی جاسکتی ہے کہ ہم آپریشن شروع کرنے سے پہلے ان کو موقع دیں کہ وہ اپنی وفاداری ثابت کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیں ہر طرح ۔ بدلے میں فوج ان کے لوگوں کو نہیں اٹھائے گی پوچھ گچھ کے لیے ‘ بلکہ سردار سے کہے گی جس پر شک ہو گا سرداراس کی تحقیق کرے ۔ جو قبائل ساتھ نہیں دیں گے پھر واضح ہوجائے گا کہ کون دشمن ہے ۔کم از کم وہ لوک جو خالص ہیں وہ تو نشانہ بننے سے بچ جائیں گے اور ریاست پر ان کا اعتماد بھی بحال ہوجائے گا ۔ آنے والے وقتوں میں ‘ اس کے ہمیں بہت فائدے ہوں گے۔ ‘‘وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنا پوائنٹ آف ویو رکھ رہا تھا ۔وہاں بہت سے لوگوں کے چہرے پر قائل ہونے کے آثار تھے مگر عبدالرحمان صاحب کچھ تزبزب کا شکار تھے۔
’’ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ‘‘ ان کے کہنے پر وہ مسکرایا۔
’’وفد بھیجنے میں ایک دن لگتا ہے سر ۔ اس ایک دن کے بدلے میں میری طرح بہت سے لوگوں کے ضمیر سے یہ بوجھ ہٹ جائے گا کہ انہوں نے اپنوں کے خلاف بندوق نہیں اٹھائی ۔ دنیا کی بھی تو بہت پرواہ کر رہے ہیں ہم‘ یہ تو ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ ‘‘ وہ تسخیر کرنا جانتا تھا اور کر رہا تھا۔
’’معاہدہ ہوجائے گا اگر تو فوج کو دیکھ کر کم از کم جو ہمارے ساتھ ہوں گے ڈریں گے نہیں ۔ انہیں یقین ہوگا کہ ان کے قبیلے محفوظ ہیں ۔ اعتماد بڑھے گا، خوف اور ہراس کی فضا ختم ہوجائے گی۔ ‘‘ اس نے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی تھی ۔
’’ مجھے اعتراف ہے کہ یہ ایک قابل قبول حل ہے ۔میں اس بارے میں احکامات جاری کرنے سے پہلے ایک بار مین ہیڈ کوارٹر بات کروں گا ۔ اس کے بعد وفود بنا کر بھیجے جائیں گے ۔ آپ سب کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ‘‘ جنرل عبدارحمان کہتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان کے اٹھتے ہی باقی سب بھی تعظیماََ کھڑے ہو گئے تھے۔
’’ روحان آپ مجھ سے آفس میں ملیں۔ ‘‘باہر نکلتے ہوئے انہوں نے کہا اور تیزی سے مڑ گئے ۔ روحان بھی مسکراتا ہوا ان کے پیچھے چل پڑا تھا۔
٭…٭…٭
’’ بابا جان تمہیں پوچھ رہے تھے لالہ رخ ۔ جب سے تم آیا ہے ٹھیک سے ان سے ملا بھی نہیں‘ کسی سے بات وات بھی نہیں کیا ۔ چپ بیٹھا رہتا ہے بس ہر وقت۔ ‘‘ زرمینے کی آواز پر اس نے تکیے سے سر باہر نکال کر دیکھا تھا ۔
’’ بالوں کا کیا حشر بنایا ہوا ہے دیکھو تو ذرا۔ ‘‘ زرمینہ نے اس کے سنہری بالوں کو سمیٹا تھا پھر قدرے پریشانی سے اس کی بھوری آنکھوں میں پھیلی سرخی کو دیکھا تھا۔
’’ تم ایسا تو نہ تھا لالہ رخ‘ تم کو کیا ہوگیا ہے۔ ‘‘ وہ اس قدر پریشان تھی کہ لالہ رخ کو بے اختیار اٹھ کر بیٹھنا پڑا۔
’’ کچھ نہیں ہوا زرمینے، بس تھکاوٹ ۔ ‘‘ اس نے مسکرانے کی کو شش کی مگر وہ روحان جیسی نہیں تھی ۔ اگر اس کا دل نہیں ہوتا تھا تو وہ مسکرا نہیں سکتی تھی ۔ اسے یاد کرتے ہی وہ ایک بار پھر ساکت ہوگئی تھی ۔ اس ایک ہفتے میں وہ اسے کتنی بار اور کب کب یاد نہیں آیا تھا۔
’’ پہلے بھی تو تم جاتا ہے کیمپ پر۔کیا اس دفعہ بہت دور گئی تھی۔ ‘‘ زرمینے نے حیرت سے پوچھا ۔ اس طرح تو وہ کبھی نہیں تھکی تھی۔
’’ ہاں بہت دور‘ بہت دور چلی گئی تھی میں۔ ‘‘ وہ ہوا میں نظریں جمائے کھوئے کھوئے بولی تھی۔
’’ خیر تم پریشان نہ ہو‘میں جا رہی بابا جان کے پاس۔ ‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ ابھی رکو‘تمہارے لالہ نے منع کیا ہے ۔ فوج کا لوگ آنا ہے ادھر ۔ رات میں مل لینا۔ ‘‘ زرمینے کی بات پر وہ بے اختیار جاتے جاتے مڑی۔
’’ فف…فوج…کون سی فوج۔ ‘‘اس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی۔
’’کون سی فوج؟‘‘ زرمینے کواس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا۔
’’ ایک ہی تو فوج ہے ہمارا اور کتنا فوج ہے ۔ اسی کا لوگ آئے گا ۔ ‘‘ وہ لالہ رخ کو حیرت سے دیکھتے ہوئے بتارہی تھی۔
’’ مگر آئے گی کیوں ۔ ‘‘ اس کے سوال پر زرمینہ سر پکڑ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’ ہم تو پاگل ہوگیا ہے لالہ رخ ۔ ہم کو کیا معلوم کیوں آئے گا ۔ ‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر چلی گئی تھی ۔
جبکہ وہ تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ مردانے کی طرف بھاگی تھی یوں جیسے وہی آئے گا ۔ اس کے لیے تو بس وہ ایک ہی بندہ فوج میں تھا ۔
’’ یہ امن معاہدہ ہماری نسلوں تک کو فائدہ دے گا ۔ہم کتنے خوش ہیں ہم بتا نہیں سکتے۔ ‘‘ یہ آواز بابا جان کی تھی ۔
لالہ رخ کے پاؤں تھم گئے تھے ۔ وہ کس معاہدے کی بات کر رہے تھے ۔ اس نے چادر سے چہرہ ڈھک کر دروازے کی درز سے اندر کی طرف دیکھا تھا ۔ بابا جان کے سامنے وہ پانچ وردی میں ملبوس لوگ بیٹھے تھے ۔ بیجز اور بیٹھنے کے انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہائی رینک آفیسرز ہیں ۔ عمر میں بھی زیادہ تھے مگر وہ نہیں تھا ان میں ۔ دھڑکن مدھم ہوگئی تھی اور ہر رنگ پھیکا ۔ وہ مایوس سی مڑی اور اپنے عین پیچھے کھڑے مہروز لالہ کو دیکھ کر بے اختیار گڑبڑائی۔
’’ ڈرادیا لالہ…‘‘ اس نے چادر چہرے سے نیچے کی۔
’’ تم کیا کر رہی ہو ادھر۔ ‘‘ مہروز نے قدرے سختی سے پوچھا۔
’’ فوج کے لوگ کیوں آئے ہیں۔ ‘‘ اس نے الٹا سوال کیا تھا۔
’’ فوج آپریشن کرنے جارہی ہے مگر جو وفادار ہیں ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کیا جارہا ہے کہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا ۔ صرف سلیپر سیلز اور باغیوں کو پکڑا جائے گا ۔ اپنی قبیلی کی تحویل سردار خود کرکے گارنٹی دے گا ۔ ‘‘ مہروز جانتا تھا جانے بغیر وہ نہیں ٹلے گی ۔وہ حیرت اور بے یقینی سے سب سن رہی تھی۔
’’ کیا واقعی ؟ ‘‘ اس نے یقین مانگا۔
’’ہاں واقعی اور اب تم جاؤ ۔ میرے ساتھ بھی آفیسر ہیں ان کو کال کرنا تھی تو باہر لے کر آیا تھا ۔ تم جانتی ہو وہ پہلے مسافرکے طور پر آیا تھا ادھر میں تو تب ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔ ‘‘ مہروز کو بھی ہر بات اس کو بتائے بغیر سکون نہیں آتا تھا۔
’’کون مسافر…‘‘ لالہ رخ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا مگر اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا پیچھے آتے قدموں کی آواز پر وہ فوری مڑا ۔
لالہ رخ نے فورا سیاہ شیشوں والی چادر سے چہرہ ڈھانپ کر اوپر دیکھا اور پھر ساکت ہوگئی تھی ۔ چادر ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی ۔ سامنے وہی تھا ‘ فل آرمی یونیفارم میں سر پر کیپ پہنے ۔ لالہ رخ کو لگا تھا اس کا دل سینے سے نکل کر باہر آجائے گا ۔ اس نے بھی مہروز کی کسی بات کا مسکراتے ہوئے جواب دے کر اس کے عقب میں کھڑی لالہ رخ کو دیکھا تھا مگراس کی آنکھوں میں کوئی شناسائی نہیں ابھری تھی ۔ایک نظر ڈال کر وہ نظر جھکا کر کمرے میں داخل ہوگیا تھا اور وہ وہیں بے حس و حرکت کھڑی رہ گئی تھی ۔ اندر بہت زور سے کچھ ٹوٹا تھا ۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت کچھ سہا تھامگر اف تک نہیں کی تھی لیکن یہ نظر،یہ اجنبیت …اسے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ سب ہار گئی تھی اس بندے کے آگے ۔ وہ مسکراہٹ اس کے لیے نہیں تھی ۔ وہ ہفتے بھر کی بے چینی جو اس کو دیکھتے ہی ختم ہوئی تھی ایک پل میں وہ اب تکلیف میں بدل گئی تھی۔ بہت سارا نمکین پانی تھا جواس کی آنکھوں میں آیا تھا ۔ وہ اپنے وعدے کے مطابق کوشش کر رہا تھا اپنے لوگ بچا رہا تھا مگر اسے اجنبیت کی مار مارگیا تھا ۔ اس نے بے اختیار گھومتے ہوئے سر کو تھا م کر آنکھوں سے نکلتے اس سیل رواں کو روکنا چاہا مگر ہر چیز دھندھلاتے دھندلاتے مدھم ہوگئی تھی اور وہ وہیں چکرا کر گر گئی تھی ۔ اندر بیٹھے لوگ یہ دھماکے کی آواز سن کر بے اختیار اچھلے ۔ مہروز تیزی سے باہر آیا تھا۔
’’لالہ، لالہ رخ… ‘‘ مہروز کی بے تاب آواز پر روحان کا رنگ سفید ہوا تھا دوسرے ہی لمحے وہ ہر چیز بھول کرتیزی سے بھاگا تھا ۔جہاں وہ فرش بے جان سی پڑی تھی ۔
سامنے فرش پر گرے اس کے بے جان وجود کو دیکھ کر وہ بے اختیار جھکا مگر اس سے پہلے مہروز اسے اٹھا چکا تھا ۔ اور ان سب کو باہر دیکھ کر اس نے چادر لالہ رخ کے اوپر پھیلا دی تھی ۔
’’بابا جان، لالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں، زرمینے نے بتایا کہ اس نے صبح سے کچھ کھایا نہیں تھا، میں اس کو لے کے جارہا ہوں، آپ لوگ بیٹھیں۔ ‘‘ وہ تیز لہجے میں کہتا مڑ گیا تھا ۔
اس کے جاتے ہی سردار نے ان سب کو بھی اندر آنے کے لیے کہا مگر وہ وہیں کھڑا تھا ۔ اس کا ہمیشہ کا پرسکون رہنے والا چہرہ آج پرسکون نہیں تھا ۔ بے چینی حد سے سوا تھی ۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے قدم زنان خانے کی طرف بڑھائے تھے ۔ ایک بار پہلے بھی وہ اس کے لیے ہی وہاں چھپ کر گیا تھا ۔ آج پھر اس کے لیے ہی جارہا تھا ۔ یہ تو طے تھا کہ پیچھے اسے ہی جانا پڑے گا ۔ عقبی طرف سے آکر اس نے دیوار پھلانگی تھی ۔ وہی لمبی راہداری اور اس میں پڑا سنگھار میز‘ سب کچھ ویسے ہی تھا ۔ بائیں طرف اسے کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی تھی، وہ فوری میز کے عقب میں ہوگیا تھا ۔ آنے والا مہروز تھا اور ساتھ کوئی اور لڑکی بھی تھی۔

1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page