صحرائے عشق : پہلا حصہ
ہواکے گرم تھپیڑے تھے جو بڑے زور سے اس کے منہ سے آکر ٹکرائے تھے ۔ پورا جسم گویا اس گرم ہوا سے جلنے لگا تھا، اس نے مندی مندی آنکھوں سے دیکھنا چاہا مگر آنکھوں میں تیزی سے جاتی ریت پر وہ بے اختیار آنکھیں دوبارہ بند کرنے پر مجبور ہوا ۔ اس نے ہاتھ جیب میں ڈال کر سن گلاسز نکالنے چاہے مگر وہ ہاتھ ہلانے سے قاصر تھا ۔ اس کے ہاتھ ریت میں دب چکے تھے ۔ ایک زبردست طوفان تھا ریت کا جو ہر طرف آیا ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بہت زور سے بجی تھیں ۔ پوری طاقت اور زور لگا کر وہ اٹھا تھا، سنگلاسز لگا کر اس نے اردگرد کچھ دیکھا تھا ۔ اس کا خیمہ اڑ چکا تھا اور نجانے کدھر تھا ۔ جیپ بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی اور جو ریت کے دھکڑ اڑ اڑ کر اس کی طرف آرہے تھے اسے لگ رہا تھا وہ اسی ریت میں دب جائے گا ۔ ہونٹ بھینچے اس نے ٹانگوں تک آئی ریت کو پیچھے ہٹا کر طوفان کی مخالف سمت میں بھاگنے کی کوشش کی مگر اس کے پاؤں بار بار ریت میں دھنس رہے تھے ۔ خاران کے صحرا میں آنے والے طوفان مشہور تھے ۔ وہ اس کے بارے میں بہت تفصیل سے پڑھ کر آیا تھا مگر اسے اب اس لمحے پر رہ رہ کے غصہ آرہا تھا جب اس نے تھکاوٹ کے باعث ادھر کیمپنگ کی تھی اور اب آنکھ کھلنے میں وہ گردو غبار کے اس طوفان میں اکیلا کھڑا خوفناک آوازوں کے ساتھ چلتے اس ریت کے طوفان کو دیکھتا گویا اپنی موت کو سامنے دیکھ رہا تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کب رکے گا اور فی الحال اس کے پاس کوئی مدد نہیں تھی ۔ یکدم ذہن میں ایک کوندا سا لپکنے پر اس نے بوٹ دھنستی ہوئی ریت سے نکالے اور اس کی سائیڈ پر ہاتھ کے انگوٹھے سے ہلکا سا دباؤ ڈالا ۔ دباؤ ڈالتے ہی ان کی نیچے کی تہ پر ایک چمکدار سی تہہ آگئی تھی ۔ آنکھوں سے بہتے پانی کو صاف کرکے اس نے شرٹ سے ہی سن گلاسز بھی صاف کرنے کی ناکام کوشش کی اور بوٹ پہنے ۔ اب وہ اندر نہیں دھنس رہے تھے لیکن اس کا پورا وجود ریت میں اس قدر اٹ چکا تھا کہ اسے اس طوفان میں چلنا تقریباََ ناممکن لگ رہا تھا ۔ پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری تھی اور بازو پر بندھی گھڑی پر سے جیپ کی سمت ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ گھڑی کے مطابق وہ جیپ سے شمالی اطراف میں کچھ ہی فاصلے پر تھا مگر طوفان کے باعث اسے پہنچتے پہنچتے بہت وقت لگ گیا تھا ۔ جیپ بھی پوری طرح ریت سے اٹی ہوئی تھی مگر طوفان کی شدت اب بہت کم ہوگئی تھی ۔ وہ نڈھال سا جیپ کے پاس آکر گرا تھا، پھر ہمت کر کے ریت ہٹا کر اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ۔ سر چکرانے کے باعث وہ اسے سٹارٹ نہیں کر سکا تھا ۔ اس نے پیچھے سے پانی کی بوتل اٹھانی چاہی مگر اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا اور ہوش و خرد سے بیگانہ وہ ادھر ہی ڈھیر ہوگیا تھا ۔ اس وسیع و عریض صحرا میں بے یارو مددگار اکیلا،بے بس … زندگی میں اس نے بہت بار موت کا سامنا کیا تھا لیکن یہ پہلی بار تھا جب وہ بے خبری میں ایسی بے بسی کا شکار ہوا تھا ۔ اسے وہ آسان مشن سمجھ رہا تھا مگر اس کی شروعات ہی کٹھنائیوں سے ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
کوئی گرم نوکیلی چیز یا کیا چبھا تھا بازو میں کہ وہ بے اختیار کراہ کر ہوش کی دنیا میں واپس آیا تھا ۔ آنکھ کھلتے ہی اس نے سامنے کھڑے خود پر جھکے وجود کو دیکھاجو کوئی انجیکشن اس کے بازو میں بڑی مہارت سے انجیکٹ کر رہی تھی ۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔ یہ گارے کا بنا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو اپنی تراش خراش سے کسی ہسپتال کا کمرہ لگ رہا تھا ۔
’’ ایکسکیوزمی ۔ ‘‘ اس نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
’’ ہوش آگیا تمہیں ۔‘‘ وہ اردو میں بولی تھی مگر لہجے میں بڑی واضح بلوچی جھلک تھی ۔
نقوش سے بھی وہ بلوچی لگ رہی تھی مگر سادہ سے قمیض شلوار اور اپنی مہارت سے وہ ڈاکٹر لگ رہی تھی ۔ اس نے ایک نظر میں کافی حد تک اس کا جائزہ لے لیا تھا۔
’’ یہ کونسی جگہ ہے اور کون لے کے آیا مجھے یہاں۔ ‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
’’ تم کدھر جارہے تھے اکیلے صحرا میں، کہاں سے آئے ہو۔ ‘‘ اس نے جواب دینے کی بجائے مزید سوال کیے ۔جواباََ وہ مشکوک سا اسے دیکھنے لگا۔
’’ میں ایک سیاح ہوں ۔ بلوچ کلچر کو دیکھنے آیا ہوں مگر صحرائی طوفان کی اتنی شدت کا اندازہ نہیں تھا ۔ مجھے تو یقین ہوگیا تھا کہ میں اپنی زندگی کی آخری رات دیکھ رہا ہوں ۔ ‘‘اس نے کاغذات کے مطابق خود کو سیاح بتایا اور ساتھ ہی وجہ بھی۔
’’ پنجاب سے ہو ؟ ‘‘ وہ اب بھی بغور اسے دیکھ رہی تھی گویا سچ جھوٹ بھانپ رہی ہو۔
’’ یس… ‘‘ اس نے یک لفظی جواب دیا۔
’’بیوقوف ہو، خاران کا صحرا تو موت کا صحرا مانا جاتا ہے ۔ سیاح تو ساری معلومات لے کر نکلتے ہیں ویسے۔ ‘‘ وہ سائیڈ پر پڑی کرسی سنبھال چکی تھی ‘ ساتھ ہی ساتھ انکوائری بھی جاری تھی ۔
’’ یہ علاقہ سیاحت کے لیے تو بالکل بھی مشہور نہیں ہے، اس لیے میں خاص معلومات اکٹھی کر نہیں سکا ۔ بس صحراؤں کی سیاحت کا شوق ہے مجھے، اس شوق میں مارا گیا ۔ ‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا ۔ اس کے اس جواب سے وہ کافی مطمئن نظر آرہی تھی۔
’’ ہم مہمان نواز لوگ ہیں لیکن تم دشمن علاقے سے آئے ہو اور غلط جگہ آگئے ہو اس لیے تمہاری قسمت کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔ ‘‘ وہ ضرورت سے زیادہ صاف گو تھی ۔
’’ کیا مطلب دشمن علاقے سے۔ میں پنجاب سے ہوں، پاکستانی ہوں ۔ اپنے ملک کی سیاحت کر رہا ہوں۔ ‘‘ وہ حیران ہوکر تیزی سے بولا تھا ۔
’’ یہ علاقہ فوج کے قبضے میں ہے۔ ‘‘ اس نے کہتے ساتھ ہی کرسی کے نیچے سے بٹن دبایا تھا ۔ بٹن دبتے ہی اس کے اردگرد الیکٹرک راڈز نے اس کے جسم کو جکڑ لیا تھا۔
’’ فوج… کون سی فوج، کیا مطلب … کیا ہے یہ سب ۔‘‘ حیرت، پریشانی اور غیر یقینی سے اس کی آواز پھٹ رہی تھی۔
’’ بلوچ فریڈم آرمی ۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور تم سے کل انکوائری کی جائے گی ‘ اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا کرنا تمہارے ساتھ ۔ ‘‘
سخت لہجے میں کہتی وہ باہر چلی گئی تھی جبکہ اس کے دل میں صحیح معنوں میں لڈو پھوٹ رہے تھے ۔ قسمت نے خود ہی اسے وہاں پہنچا دیا تھا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا ۔ وہ کافی مطمئن ہوگیا تھا مگر کھڑکی پر پڑتی سلور سی چمک پر اس نے چہرے پر وہی پریشانی کے تاثرات پیدا کرلیے تھے ۔ یقینا اس کی نگرانی کی جارہی تھی اور وہ بہرحال پکڑے جانے والوں میں سے نہیں تھا۔
٭…٭…٭
خاران کے صحرا کی سب سے خوبصورت اور انوکھی بات یہ تھی کہ یہ پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ۔ انہی پہاڑوں کے پیچھے بلوچ قبا ئل بھی کبھی کافی تعداد میں آباد تھے، مگر اب شعور اور ترقی کے ساتھ بیشتر لوگ شہروں کی طرف ہجرت کر گئے تھے ۔ اس کے باوجود یہاں کا کلچر، لوگوں کا رہن سہن اور تہذیب بہت خوبصورت اور الگ تھی ۔ وہ یہ سب ادھر آنے سے پہلے ریسرچ کر کے آیا تھا لیکن اسے افسوس تھا کہ وہ اس کلچر کو قریب سے نہیں دیکھ سکا تھا ۔ نجانے کتنا وقت گزر گیا تھا ۔ اس کے ہاتھ سے گھڑی اتار لی گئی تھی، وہ بس کھڑکی سے اترتی شام کے لمبے ہوتے سائے سے وقت کا اندازہ لگا رہا تھا ۔ اس کے بعد کوئی اس کے پاس نہیں آیا تھا ۔ راڈز کو کھولنا تقریبا ناممکن تھا ۔ وہ جانتا تھا اس کی ایسی کوشش اسے سیدھے موت کے منہ میں لے جائے گی ۔ ذرا سی چھیڑ چھاڑ پر ہزاروں وولٹ کا کرنٹ اسے ایک لمحے میں لقمہ اجل بنا سکتا تھا ۔ وہ خاموش لیٹ کے اپنے اگلے لائحہ عمل کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ حالات اتنے بھی سادہ نہیں تھے جتنا اس نے اندازہ لگایا تھا ۔ بغاوت توقع سے زیادہ مضبوط اور منظم لوگوں کے ہاتھوں ہوئی تھی ۔ اتنا تو وہ ان کے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے سمجھ گیا تھا ۔ اس کا دماغ تیزی سے تانے بانے بننے میں مصروف تھا ۔ البتہ چہرے پر وہی ہمیشہ والا ازلی سکون تھا ۔ اگر اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہے تو غلط نہیں تھا ۔ بے حد ٹھنڈے دماغ سے ہر طرح کی سچوئیشن میں ہر ایک باریک بینی کو مد نظر رکھ کر سوچنا آج تک اس کی کامیابی کی ضمانت بنا رہا تھا ۔ اس وقت بھی اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا ناممکن تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد اسے باہر سے پتوں کی سرسراہٹ کے ساتھ قدموں کی آہٹ بھی سنائی دی ۔ یقینا اس بار دو سے زیادہ لوگ ادھر آرہے تھے ۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں موند لیں ۔ توقع کے عین مطابق تھوڑی ہی دیر بعد بھاری قدموں کی آہٹ پر اس نے آنکھیں کھولیں ۔ سامنے دو تیس بتیس سالہ آدمیوں کے ساتھ وہی لڑکی تھی ۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی مگر وہ نقاب میں تھی ۔اس کے آنکھیں کھولتے ہی وہ سب بڑے استہزائیہ انداز میں مسکرائے تھے۔
’’کیا چاہتے ہو بتاؤ، کیسے تمہاری لاش بھیجی جائے تمہارے بڑوں کو‘سر کاٹ کر؟سارے اعضا کاٹ کر؟ یا بس بزدلوں کی طرح ایک گولی سے کام تمام کرکے ؟ ‘‘ یہ وہی لڑکی بول رہی تھی جو کچھ دیر پہلے اس کی مسیحا بنی ہوئی تھی مگر اس وقت اس کے الفاظ میں چھپی بربریت نے نہیں لیکن اس نفرت کی شدت نے اسے ایک لمحے کے لیے ہلا دیا تھا۔
’’ انہی سب میں سے کسی ایک آخری آپشن کو آخری خواہش سمجھ کر چن لو ۔ ویسے تو میں یہ آپشن دیتی نہیں کسی دشمن کو لیکن تم خود چل کر یہاں آئے ہو اس لیے مہمان نوازی لازم ہے۔ ‘‘ وہ اب ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کرسی پر بیٹھ گئی تھی ۔ ٹخنوں سے کچھ اوپر تنگ سادہ گرے کیپری میں اس کی سفید عریاں ہوتی پنڈلیاں ‘سادہ گرے ملگجی سی قمیض اور لاپرواہی سے گلے میں جھولتا سٹالر ۔ وہ حلیے سے کہیں سے بھی بلوچ نہیں لگ رہی تھی لیکن اس کی بلوچیوں جیسی چمکتی رنگت اور نقوش اور لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ بلوچ ہی ہے۔
’’ کیا سیاحوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے یہاں ؟ ‘‘ اس نے بہت آہستہ سے پوچھا تھا ۔
ساتھ ہی ساتھ اس کی کرسے کے پیچھے کھڑے دو آدمیوں کو بھی دیکھا تھا جو منہ لپیٹے گنیں بالکل سیدھی تان کر بے حس و حرکت کھڑے تھے۔ یوں جیسے مجسمے ہوں اور وہ دوسری نقاب پوش لڑکی دروازے کے پاس کھڑی تھی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک جدید طرز کا چاقو تھا۔
’’ تم سیاح نہیں ہو‘ یہ بات یقینی ہے ۔سیاح ایسی گھڑی نہیں پہنتے نہ ہی ایسی جدید جوتے۔ ‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
یقینا اس کی گھڑی کی ریسرچ اور جوتوں کو دیکھنے کے لیے ہی اتنا ٹائم لگایا گیا تھا ۔ جیپ کی بھی یقینا تلاشی لی گئی تھی مگر وہ جانتا تھا اس میں سے کچھ بھی ڈھونڈھنا ان کے لیے مشکل تھا۔
’’ایسے پر خطر راستوں پر میں اپنا تمام حفاظتی سامان ساتھ لے کر چلتا ہوں ۔ میرے کاغذات آپ دیکھ سکتی ہیں، میں حکومت پاکستان کی باقاعدہ اجازت سے…‘‘ اس کی بات ابھی منہ میں ہی تھی جب وہ زور سے ہنسی تھی ۔ بڑی طنزیہ ہنسی تھی ۔
’’حکومت پاکستان…‘‘ اس نے با آواز بلند دہرایا اور ایک بار پھر زور سے ہنسی۔
’’ یہ ہمارا علاقہ ہے، یہاں ہماری حکومت چلتی ہے ۔کوئی پرندہ بھی ہماری اجازت کے بغیر اڑے تو ہم اس کا شکار کرلیتے ہیں۔ ‘‘ اس کے لہجے میں تلخی، سرد مزاجی اور سفاکیت ایک ساتھ تھی۔
’’ میری اطلاع کے مطابق یہ علاقے حکومت پاکستان کے انڈر ہی ہیں ۔ ‘‘ اب کے اس کا لہجہ بھی کچھ سرد ہوا تھا۔
‘‘تمہاری اطلاع سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں ۔ تم اب حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ دوسری دنیا میں جانے کی تیاری کرو ۔ یہ آج کی آخری رات ہے تمہاری ۔ ہمارے لوگوں کو اٹھا کر جو گناہ تمہارے بڑوں نے کمائے ہیں ان کی بخشش مانگ لو ۔ جتنوں کا حساب لیا گیا تم سے لیں گے‘ ان شااللہ… ‘‘تیز لہجے میں کہتی وہ کھڑی ہوئی۔
’’اور یہ‘ اسے بھی پاس رکھ لو، قبر میں بھی ساتھ ہی ڈال دیں گے اس کو مسٹر سیاح …‘‘
وہ ایک بار پھر ہنسی اور اس کی طرف کچھ اچھالا ۔ پھر باہر چلی گئی، اس کے ساتھ ہی وہ تینوں باہر چلے گئے ۔ اس نے ہونٹ بھینچے آہستہ سے نظر نیچی کرکے گردن کے پاس گرے اس چھوٹے سے بیج کو دیکھا تھا جس پر پاک آرمی کا نشان تھا ۔ اب کے اس کے ہونٹ اتنی زور سے بھینچے تھے کہ خون رس آیا تھا ۔ تلاشی ضرورت سے زیادہ لی گئی تھی ۔ یہ اتنا چھوٹا بیج اس کی گھڑی کے اندر تھا ۔ یقینا اسے بھی کھولا گیا تھا ۔ ایک لمبی سانس بھر کے اس نے ہاتھوں کو بہت آہستی آہستی راڈز سمیت اپنی کمر کے نیچے سے نکالا ۔ تقریبا دو گھنٹوں سے ہاتھ اس کی کمر کے نیچے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اس ٹھنڈے میٹھے موسم میں ہاتھ دو گھنٹے نیچے رہنے سے پسینے سے تر ہوگئے تھے ۔ ہاتھوں پر پھسلن بڑھ گئی تھی ۔ وہ بہت بڑا رسک لینے جارہا تھا۔ ہاتھوں کو سکوڑ کر اس نے راڈز میں سے آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف نکالنا شروع کیا ۔ پسینے کی وجہ سے وہ باآسانی باہر آگئے تھے ۔ ان کے باہر آتے ہی اس نے ایک لمبی سکون کی سانس لی۔ اس کے پاس وقت کم تھا، ابھی وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا جس ریز سے اس کی نگرانی کی جارہی تھی وہ صرف سورج کی روشنی میں کام کرتی تھی ۔ ہاتھ کی مدد سے اس نے بیڈ کو زور لگا کر کرسی کی طرف گھسیٹنا چاہا مگر چرر چرر کی آواز پر وہ فورا رک گیا ۔ یہ آواز بیڈ کے گھسیٹنے سے آئی تھی ۔ وہ راڈز کو چھیڑے بغیر اس میں سے نکلنا چاہتا تھا لیکن بیڈ کی آواز پر اس نے کچھ سوچتے ہوئے نیچے کی چادر کھینچ کے زمیں پر گول مول کر کے پھینکی اور اس کے اوپر بیڈ کو کھینچا ۔ تقریبا آدھے گھنٹے کی لگاتار محتاط کوشش کے بعد وہ چند انچ دور پڑی کرسی کے پاس پہنچا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے آہستہ سے کرسی الٹی کی تھی اور اس کے نیچے موجود سسٹم دیکھ کر اس کی براؤن آنکھوں کی چمک یکدم بہت بڑھ گئی تھی ۔ اس نے احتیاط سے دونوں تاروں کو الگ کرکے بٹن آف کردیا تھا ۔ بٹن آف ہوتے ہی راڈز غائب تھے ۔ وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑا یوا اور کھڑکی کے پاس آیا۔
باہر ہر طرف اندھیرا تھا اور درختوں کے لمبے سائے ۔ وہ کھڑکی سے باآسانی باہر جاسکتا تھا مگر اسے ایسے باہر نہیں جانا تھا ۔ اس نے وہ چادر اٹھا کر اوپر ڈالی، کرسی اٹھائی اور دروازے سے باہر نکل آیا ۔ یہ ایک گارے کی ہی بنی لمبی راہداری تھی، بے آواز قدموں کے ساتھ چلتا وہ راہداری کے آخر میں بنے تین کمروں کے پاس آیا تھا ۔ دروازے سے جھانک کر اس نے دیکھا تھا جہاں وہ دونوں آدمی لیٹے ہوئے تھے، دروازے کی طرف ان کی پشت تھی ۔ ان لے فرشتوں کو بھی شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس ہزار وولٹیج کے کرنٹ سے کوئی ایسے بھی باہر آسکتا ہے ۔ وہ خاموشی سے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا ۔ کمرہ خالی تھا اور یہ کمرہ کچھ بہتر حالت میں بھی تھا ۔ اس نے اندر آکر اندر سے دروازہ بند کرلیا تھا ۔ کرسی سائیڈ پر رکھ کر وہ مڑا تھا جب پانی کی ہلکی سی آواز پر وہ چونکا ۔ آواز سائیڈ سے آرہی تھی ۔ اس طرف دروازہ تھا ایک، یقینا وہ واش روم تھا اور وہاں کوئی نہا رہا تھا ۔یقینا یہ اس کا ہی کمرہ تھا اور واش روم میں بھی وہی تھی ۔ اس کے ہونٹوں پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔
کرسی پر بیٹھنے کا اب وقت اس کا تھا ۔ وہ خاموشی سی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد دروازہ کھلا تھا اور بالوں کو ٹاول میں لپیٹے وہ باہر آئی تھی اور سامنے پڑی کرسی کو دیکھ کر شاکڈ ہوئی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی، اس نے پیچھے سے آکر اپنا مضبوط ہاتھ اس کے منہ پر رکھا تھا جس سے اس کی آواز ادھر ہی دب گئی تھی ۔ وہ غوں غاں کرتی بے یقینی اور حیرت سے اس کی مضبوط گرفت میں تڑپتی اسے دیکھ رہی تھی اور اس کا بازو پیچھے ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔ بڑے سکون سے اس نے اسے اٹھا کر بیڈ پر پھینکا تھا اور کرسی پر بیٹھ کر اس کا بٹن دبا دیا تھا ۔ راڈز اب اس کے گرد تھے اور وہ حیرت کی زیادتی سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ منہ پر بندھے کپڑے کے باعث خاموشی سے اس دیکھے جارہی تھی جو بڑی دھیمی مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا ۔ بڑی صاف ستھری کسی بھی قسم کے طنز اور تلخی سے پاک مسکراہٹ تھی ۔
’’ریسٹ کرو میں زرا باہر والوں کو گہری نیند سلا آؤں پھر بات ہوگی۔ ‘‘ بڑے دوستانہ لہجے میں کہتا وہ کرسی سمیت باہر کی طرف بڑھا تھا ۔
٭…٭…٭
ایک بار پھر وہ مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سامنے تھا ۔
’’یہ تو میں جان گیا ہوں کہ یہ ہیڈ کوارٹر نہیں ہے ، لیکن یہ کیا ہے یہ اب تم بتاؤ گی ۔ ‘‘ باہر کی طرف سے تسلی کرنے کے بعد وہ اب سکون سے اس کے منہ پر پڑا کپڑا ہٹاتے ہوئے بولا۔
’’تم…تم، یو ایڈیٹ…تم باہر کیسے آئے، کیسے باہر آسکتے ہو تم۔ ‘‘ منہ پر سے کپڑا ہٹتے ہی وہ چیخی تھی۔
’’ میرے بڑوں نے مجھے سب سیکھا کر بھیجا ہے ۔ بات کرنے کی تمیز بھی۔ ‘‘
اس کے چیخنے پر وہ برا سا منہ بناتا ہوا پیچھے ہٹتے ہوئے بولا ۔ جواباََاس کا منہ غصے سے مزید سرخ ہوا تھا۔
’’ تمہاری غلط فہمی ہے کہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی ۔ بہتر ہے تم خاموشی سے مجھے مار ڈالو ۔ ‘‘ اس کے لہجے میں وہی سختی تھی جیسے اب بھی وہی کرسی پر بیٹھی ہو ۔اس کی بات پر وہ بڑی دلکشی سے مسکرایا تھا ۔ شاید اسے بات بے بات مسکرانے کی عادت تھی۔
’’ میں کسی کو بھی مارنے نہیں آیا یہاں۔ ‘‘ دھیمے لہجے میں کہتا وہ کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔
’’ غائب کرنے آئے ہوں گے‘ لاپتہ افراد میں ایک اور اضافہ کرنے۔ ‘‘ وہ کہہ کر اب ہنسی مگر تکلیف دہ ہنسی تھی ۔ وہ سنجیدہ ہوگیا۔
’’آپ کو غلط گائیڈ کیا گیا ہے، غلط بتایاگیا ہے ۔ ہم آپ کے اپنے ہیں مس‘ آپ کو غلط ہاتھ استعمال کررہے ہیں۔ ‘‘وہ بہت سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
’’اس لیے ہی تو ان اپنوں کے پاس آپ ایسے چوروں کی طرح آئے ہیں۔ ‘‘اس کی بات پر وہ لب بھینچ گیا۔
’’ مجھے مار کر یا اس ایک چھوٹے سے اڈے پر قبضہ کرکے تمہیں کچھ نہیں ملے گا ۔ یہ تحریک بہت بڑی ہے‘ بہت بڑی… ہمارا خون اتنا سستا نہیں ۔ ہر ایک کا حساب لیں گے، ہر ایک کا… ‘‘ اس کی کانچ کی آنکھوں میں پھیلتی سرخی میں کوئی ڈر نہیں تھا۔ایک گہری سانس بھرتا وہ اس کے قریب آیا تھا۔
’’میرا خیال ہے آپ کوآرام کی اشد ضرورت ہے۔ ‘‘ گھمبیر لہجے میں کہتی ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑی شیشی اس کی ناک کے ساتھ لگائی تھی، پھر اس کے بے ہوش وجود کے گرد سے راڈز ہٹا کر اسے وہیں چھوڑتا وہ خاموشی سے باہر آگیا تھا۔
٭…٭…٭