سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران
’’کہاں ڈھونڈوں گا میں تمہیں ۔ کیسے ہوگا ازالہ ممکن؟ تم سے جڑی کسی ڈور کا کوئی سرا میرے ہاتھ میں نہیں ۔ تم بے قصور ہو مگر میں بے قصور ہو کر بھی قصوروار ہوں ۔ ہاں اصل قصور میرا ہے ۔ میں نے ایک کوٹھے پر تو تمہارا اعتبار کیا مگر اپنے گھر کی چار دیواری میں میں تمہارا اعتبار نہ کر سکا ۔ تمہیں محفوظ نہ رکھ سکا ۔ ‘‘ وہ مرد ہو کر بھی اس وقت پھوٹ پھوٹ کا رونا چاہتا تھا اور جب انسان بے بس ہو جاتا ہے ۔ دنیاوی رشتوں سے، سہاروں سے ۔ اس کا اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو بس ایک ہی ذات اسے یاد آتی ہے ۔ اللہ کی ذات ، اپنے رب کی ذات ، اپنے پروردگار کی ۔ جو حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نکالتا ہے ۔ جو حضرت موسی کے لیے سمندر میں راستہ بناتا ہے ۔ جو حضرت ابراہیم کو آگ میں بھی محفوظ رکھتا ہے ۔ جو ہر شے پر قادر ہے ۔
وہ تھکا تھکا سا ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ بے وجہ ادھر ادھر گھوم رہا تھا جیسے وہ کسی سڑک پر چلتی نظر آجائے گی۔ اذان عصر کی صدائیں فضا میں گونج رہی تھیں ۔ اس نے قریبی مسجد کے آگے گاڑی روک دی تھی ۔ جیب سے رومال نکال کر سر پر باندھتے ہوئے وضو خانے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔ نماز ادا کر کے وہ کتنی ہی دیر تک سجدے میں گرا اپنے رب سے میں محو کلام رہا۔
’’بھاری ہوتا دل کیسے قرار پائے گا ؟ کوئی معجزہ، کوئی کرشمہ دکھا میرے مولا ۔‘‘ وہ مسجد کے صحن میں آ بیٹھا تھا جب کسی نے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’صاحب۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا تھا ۔
وہ شاید مسجد کا مجاور تھا۔ سفید شلوار قمیض ۔ سر پر ٹوپی اور کندھے پر پڑا رنگین رومال۔
’’میں عبداللہ۔‘‘ وہ عارفین کے قریب بیٹھتا ہوا بولا تھا۔
’’عرف چنبیلی ۔‘‘ عارفین کا پورا وجود سماعت بن گیا تھا۔
’’چنبیلی …‘‘ عارفین نے اس کے چہرے میں مانوسیت کو کھوجا تھا اور بس چند سیکنڈ میں ہی عارفین کی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ اتر آئے تھے۔
’’بی بی کے جانے کے بعد جہاں آرا بیگم بھی چل بسیں ۔ دل ایسا گھبرایا کہ میں نے بھی ٹھان لی وہاں سے نکلنے کی ۔ سیٹھ نواز اور ماہ پارا بیگم کی دشمنی اتنی بڑھی کہ ماہ پارا بیگم نے شہر چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ۔ ان کے شہر چھوڑنے سے ایک رات پہلے موقع پا کر میں بھی نکل پڑا ۔ کئی دن در بدر پھرتا رہا ۔ سڑکوں پر بھیک مانگ کر گزارہ کرتا مگر حلیے کی وجہ سے لوگ مذاق بناتے طعنے دیتے‘ تنگ کرتے تھے ۔ یوں ہی چلتے چلتے ایک دن اس مسجد میں چلا آیا ۔ سارا دن کسی نے کچھ بھی نہیں دیا تھا ۔ کھانا کھائے کئی گھنٹے گزر چکے تھے ۔ مولوی رحمت اللہ نے روٹی دی ۔ ساری کہانی سن کر مجھے سہارا دیا ۔ مسجد کا مجاور بنا دیا تب سے یہیں رہتا ہوں ۔ مسجد کی خدمت کرتا ہوں سارا دن‘ کچھ پیسے بھی ملتے ہیں ۔ اس سے اچھی گزر ہو جاتی ہے میری ۔ ‘‘وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ عبداللہ اپنی کہانی سنا رہا تھا عارفین خاموشی سے سن رہا تھا ۔ کچھ ثانیے یوں ہی خاموشی کی نظر ہو گئے کچھ دیر بعد اس خاموشی کو عبداللہ کی آواز نے توڑا تھا۔
’’صاحب بی بی کے ساتھ ایسا کیوں کیا آپ نے ؟‘‘عارفین نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔
’’تمہیں… تمہیں کچھ خبر ہے ماہ لقاہء کی ۔ وہ کہاں ہے، کیسی ہے ۔ بتاؤ عبداللہ؟‘‘ عارفین کے لہجے میں بے قراری تھی ۔ عبداللہ نے ٹھنڈی سانس بھری تھی ۔
’’کوٹھے سے نکلنے سے پہلے‘ ایک بار خیام بھائی سے ملاقات ہوئی تھی تب ان سے آپ کے اس گھر کا پتہ لیا تھا جہاں بی بی ٹھہری ہوئی تھیں ۔ سوچا تھا وہاں سے نکل کر ایک بار ان سے ملوں گاضرور مگر یہ ملاقات ایسے ہوگی خبر نہ تھی ۔ ‘‘عبداللہ کے لہجے میں شکوہ بول رہا تھا۔
’’کہاں ملی وہ تمہیں‘پلیز مجھے بتاؤ۔ کہاں ہے وہ ؟ ‘‘
’’آپ کے گھر کی ساتھ والی سڑک پر ۔ اتفاق سے اسی دن میں آپ کا پتہ ڈھونڈتا ہوا آ رہا تھا ۔ وہیں سڑک پر مجھے گمان گزرا کہ یہ تو ماہ لقاہء بی بی ہیں ۔ دور سے آواز دی تھی میں نے مگر انہوں نے ڈر کے بھاگنا شروع کر دیا تھا شاید اس لیے کہ میرا حلیہ مختلف تھا ۔ وہ جس چنبیلی کو جانتی تھیں میں اب وہ نہیں رہا تھا ۔ بڑی مشکل سے انہیں روک کر اپنا تعارف کروایا ۔ انہیں بتایا کہ میں چنبیلی ہوں تب کہیں جا کر وہ کچھ سکون میں آئی تھیں ‘ورنہ تو جی بہت ٹوٹی بکھری ہوئی حالت میں تھیں۔ زار و قطار رو رہی تھیں ۔ سوچتا ہوں اگر میں نہ ملتا اس دن تو وہ کہاں جاتیں ؟ اکیلی تنہا بے یار و مددگار چھوڑ دیا آپ نے ۔ اعتبار ہی نہ کیا ان کا‘ یہی سب کرنا ہوتا تو کوٹھا کیوں چھوڑتیں وہ ؟ میرے پاس نہ گھر نہ ٹھکانہ ۔ کہاں لے کر جاتا ۔ یہیں لے آیا مولوی صاحب کے پاس ۔ بڑے غریب پرور ہیں جی‘ بے سہاروں کا سہارا ۔ میری زندگی سنوار دی ۔ بی بی کے سر پر بھی دست شفقت رکھا ۔ اپنی ملانی جی بھی بڑی رحم دل اور شفیق خاتون ہیں ۔ بی بی انہی کے پاس ہیں جب سے ۔ یہاں مسجد کے ساتھ ہی بچیوں کا مدرسہ بنا ہے ۔ ملانی جی اور ان کی بیٹیاں وہ مدرسہ چلاتی ہیں ۔ بی بی درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور مدرسے کی بچیوں کو پڑھاتی بھی ہیں ۔ ‘‘عبداللہ کی بات سن کر عارفین کو تسلی ہوئی تھی کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں تھی۔ اس پر کرم تھا رب کا‘ بھٹکنے نہیں دیا ۔ تھام لیا تھا۔ ’’مجھ پر کیا بیتی یہ بعد میں بتاؤں گا فی الحال میرا اس سے ملنا بہت ضروری ہے ۔ اس سے میری ملاقات کروا دو ۔‘‘عارفین نے بے قراری سے کہا تھا۔
’’چھ بجے مدرسے کی چھٹی ہوتی ہے ۔ ابھی چھ بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔‘‘وہ دونوں ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ ملانی جی کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہورہا تھا جہاں وہ دشمن جاں موجود تھی ۔ملانی جی مکمل شرعی پردے میں ایک باوقار سی بزرگ خاتون تھیں انہوں نے عارفین سے بے جا سوالات نہیں کیے تھے ۔ وہ ان کے لیے ایک مکمل اجنبی شخص نہیں تھا ۔ ماہ لقاہء کی زبانی وہ اس کے بارے میں کافی کچھ جانتی تھیں ۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتا اس کمرے میں داخل ہوا تھا ۔ ماہ لقاہء کی اس طرف پشت تھی ۔ آہٹ پر وہ پلٹی تھی ۔ سیاہ عبایا اور حجاب میں شفاف دل کا آئینہ دار۔ صاف و شفاف چہرہ عارفین کے سامنے تھا۔
’’ماہ لقاہء بیٹا یہ تمہارا شوہر تم سے ملنا چاہتا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تم اس سے مل لو ایک بار کیونکہ میاں بیوی کے بیچ ہونے والے اختلافات کوئی تیسرا حل نہیں کر سکتا ۔ تمہاری ماں تمہارے ساتھ ہے ۔ ‘‘ملانی جی نے ماہ لقاہء کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلایا تھا اور کمرے سے چلی گئی تھیں۔
اس کی حیران نگاہیں جھک گئی تھیں۔ عارفین کو ان آنکھوں میں چھلکتی نمی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اب وہ اس کے عین سامنے کھڑا تھا۔
’’میری ماں نے اپنا کیا بھگت لیا۔ سلیم اور سکینہ کو بھی ان کے کیے کی سزا مل گئی ہے ۔مجھے جو سزا رب نے دی وہ بھگت آیا ہوں جو سزا تم دوگی وہ بھگتنے کو تیار ہوں۔‘‘
’’آج اعتراف کر رہا ہوں کہ میری بیوی سے زیادہ پاک دامن عورت کوئی نہیں ہے ۔‘‘ عارفین کے ٹوٹے ہوئے لہجے میں بھی ایک مان بول رہا تھا۔
وہ رخ موڑ گئی تھی۔ تواتر سے بہتے آنسوؤں نے چہرہ تر کر دیا تھا۔
’’ایک بار تم نے مجھ سے مدد مانگی تھی ۔ میں نے تمہیں مشکل سے نکالا تھا ۔ اب مجھے تمہاری ضرورت ہے ۔ مجھے معاف کر دو، میری مشکل آسان کر دو ۔ میرے دل پر بہت بھاری بوجھ ہے ۔ مجھے اس بوجھ سے آزاد کر دو ماہ لقاہء…‘‘ وہ احسان جتا رہا تھا ۔ وہ اعتراف کر رہا تھا اپنی خطا کا ۔ وہ پشیماں تھا، شرمسار تھا ۔
وہ کیا کہتی سارے اسرار کھل گئے تھے ۔ کھلی آنکھوں سے دیکھے منظر کے پیچھے چھپے سارے پوشیدہ راز آشکار ہو گئے تھے ۔ کچھ بچا ہی نہیں تھا کہنے کو ۔ سامنے بیٹھا مجرم وہ محرم تھا جو من پسند ہوتا ہے ۔ دل کے بہت پاس اور دل بہت بے ایمان ہے جناب جن سے محبت ہو انہیں سزا نہیں دیتا ۔ رعایت دیتا ہے اور ماہ لقاہء کا دل عارفین ہسبانی کو رعایت دینے کو تیار تھا ۔ مگر پھر بھی حفظ ماتقدم کے طور پر ایک سوال اس کے ہونٹوں پر مچلا تھا ۔
’’کیا ہر بار میرے کردار کی گواہی دوسرے دیں گے؟‘‘
’’ نہیں، میرا دل دے گا ۔‘‘ عارفین نے دل پر ہاتھ رکھا تھا اور سوال کرنے والی کی نگاہ بے ساختہ جھکی تھی۔
اب وہ پوری عزت و وقار کے ساتھ ہتھیلی پھیلائے کھڑا تھا اور بس یہیں سے کہانی کو خوبصورت موڑ لینا ہے ۔ دھیرے سے ماہ لقاہء نے اپنا ہاتھ اس کی ہتھیلی پر رکھا تھا جسے مضبوطی سے تھام لیا گیا تھا۔
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کئی چراغ راہ میں جل گئے
ایک تپتے ہوئے صحرا کے پرپیچ راستوں سے گزر کر۔ وہ ایک پھولوں سے گھرے نخلستان میں پہنچ گئی تھی ۔
حالات صرف بہانہ ہیں ۔ راستہ آپ نے خود چننا ہوتا ہے اور منزلیں انہی پر سہل ہوتی ہیں جو راستے کی صعوبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔
٭…٭…٭
فلاں شہر میں ایک مشہور طوائف کا کوٹھا تھا
شوقین نوابوں کا جہاں مجمع لگا ہوتا تھا
کوٹھے کے کسی کمرے میں بند ایک حور تھی
پرنور تھی وہ اس قدر جیسے خدا کا نور تھی
بھید بھری اس دنیا میں ہر شخص بھیدی ہے اور دلوں کی بھید صرف میرا اور آپ کا رب جانتا ہے ۔ کون پاک ،کون ناپاک ، کون باکردار اور کون بد کردار … یہ اسرار صرف اسی پر آشکار ہیں ۔ انہیں جاننا بندہ بشر کے بس کی بات نہیں…
ختم شد