مکمل ناول

سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران

جسم کی تمام طاقت اس نے اپنی حسیات کو بیدار کرنے میں لگا دی تھی ۔ ساری ہمت مجتمع کر کے اس نے اپنی آنکھیں کھول دی تھیں ۔ پہلو میں بیٹھے شخص کو دیکھ کر وہ بدک کر بستر سے نیچے اتری تھی ۔ وہ شخص، وہ اجنبی شخص… چکراتے سر کو تھامے لڑکھڑاتے قدموں سے وہ دروازے کی جانب بھاگی تھی ۔
’’سکینہ بی۔‘‘انجانے خوف سے اس کی آواز اس کے اندر ہی کہیں دب گئی تھی ۔ اس شخص نے سرعت سے اٹھ کر ماہ لقاہء کو کندھوں سے جکر لیا تھا ۔ وہ تڑپ کے رہ گئی تھی ۔ عین اسی وقت تیز قدموں کی آواز آئی تھی ۔ اس شخص کی پناہ میں مچلتی ماہ لقاہء کے لبوں پر اس کا نام ٹھہرا تھا۔
’’عارفین…‘‘ وہ دروازے کے بیچ و بیچ کھڑا حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ لب بھینچے، دانت پر دانت جمائے وہ آگے بڑھا تھا اور گھسیٹتا ہوا اس شخص کو باہر لے گیا تھا ۔ سلیم اور سکینہ بھی حواس باختہ سے وہاں کھڑے تھے ۔ پے در پہ کئی مکے عارفین نے اس کے رسید کیے تھے ۔
’’کون ہے تُو؟‘‘ وہ دھاڑا تھا مگر وہ ڈھیٹ شخص مسکرائے چلے جا رہا تھا۔
’’میڈم سے پوچھو جی ‘ پرانے تعلقات ہیں ہمارے۔ ‘‘ وہ ڈھٹائی سے بولا تھا اور اس بکھرے بالوں ، اجڑے حلیے والی لڑکی کی روح تک کانپ گئی تھی۔
’’نن… نہیں ، میں نہیں جانتی اسے۔ ‘‘
’’تم… تمہاری ہمت کیسے ہوئی اندر آنے کی۔‘‘ عارفین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔
’’روز کا آنا جانا ہے بھولے بادشاہ ۔ ‘‘ وہ ایک آنکھ بند کر کے مکاری سے مسکرایا تھا ۔ ماہ لقاہء کے پیروں سے جان نکلی جا رہی تھی۔
’’یا اللہ! یہ کیا تماشہ ہے۔‘‘ اس نے ستون کا سہارا لیا تھا۔
’’بے غیرت انسان۔‘‘ عارفین نے لپک کر اس کا گریبان پکڑا تھا۔
’’بے غیرت توتم ہو۔ ‘‘ اس شخص نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑوایا تھا ۔
’’کوٹھے سے اٹھ کر آئی ہے بھول گیا کیا ۔ پوچھ لے نا ان سے‘ تیرے گھر میں ۔ پھر گھر سے کمرے تک ۔ کس کی اجازت سے آتا ہوں ۔‘‘ اس نے سلیم اور سکینہ بی کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
’’یہ جھوٹ ہے۔ جھوٹ بول رہا ہے ۔‘‘
ماہ لقاہء نے بڑھ کر عارفین کا بازو تھاما تھا ۔ عارفین نے دیکھا ہی نہیں تھا اس کی طرف ۔ وہ سلیم سے مخاطب تھا۔
’’سلیم تمہارے ہوتے ہوئے یہ کیسے اندر آگیا۔ ‘‘
’’صاحب دو چار لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے آپ کے دفتر جانے کے بعد ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہے صاحب مگر بی بی کی اجازت سے ‘ بی بی کا حکم … ہم تو ملازم ہے جی۔ حکم کی تعمیل…‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ کیوں جھوٹ بول رہے ہو ۔ خدا کا خوف کرو ۔ عارفین یہ جھوٹ ہے‘ سب جھوٹ ہے ۔‘‘ اب وہ عارفین سے مخاطب تھی ۔ عارفین نے اس بار بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا ہاں مگر جھٹکے سے اپنا بازو اس کی گرفت سے آزاد کراتا وہ سکینہ بی کے سامنے کھڑا تھا۔
’’بتائیں سکینہ بی۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘ سکینہ بی کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور لب سختی سے آپس میں پیوست تھے۔ انہیں ہنوز خاموش دیکھ کر وہ پھر بولا تھا۔
’’سکینہ بی کچھ پوچھا ہے میں نے؟‘‘
’’جی صاحب! یہ سچ ہے۔ ‘‘دھیمے لہجے میں مجرموں کی طرح اقرار کرتی سکینہ بی کودیکھتے ماہ لقاہء بے دم سی ہو کر نیچے بیٹھ گئی تھی۔
’’تم دونوں میرے وفادار تھے یا اس عورت کے؟‘‘وہ چیخا تو دکھ اس کے لہجے سے چھلک رہا تھا۔
’’میرے گھر میں ۔ میری ناک کے نیچے کیا کچھ ہوتا رہا مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ ‘‘
’’صاحب کئی بار سوچا تھا مگر ہمت نہ ہوئی بس آج ہمت کر کے…‘‘ سلیم نے مجرموں کی طرح سر جھکایا تھا۔
’’اس شخص کو ابھی کے ابھی پولیس کے حوالے کرو ۔ میرے گھر میں گھسنے کی ہمت کیسے ہوئی اس کی ‘ اس کا تو میں وہ حشر کروں گا۔‘‘ عارفین کی کنپٹیاں سلگ رہی تھیں ۔ سلیم نے حکم کی تعمیل کی تھی اورگھسیٹتا ہوا اس آدمی کو لے گیا تھا ۔ اب وہ بے دم سی بیٹھی ماہ لقاہء کے سامنے دوزانو بیٹھا تھا ۔
’’میری ماں نے ٹھیک کہا تھا تم وفا کر ہی نہیں سکتیں ۔ تم جیسی عورتیں صرف کوٹھے آباد کرتی ہیں گھر نہیں ۔ کیا کچھ نہیں کیا میں نے تمہارے لیے اور تم… تم نے یہ صلہ دیا ہے مجھے ۔ میرے گھر میں تمہارے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے ۔ طلاق…‘‘ اور وہ جو حواس کھونے لگی تھی یک دم ہی ہوش میں آئی تھی۔
’’نن،نہیں مجھے طلاق نہیں چاہیے ۔ میں چلی جاتی ہوں مجھے کچھ نہیں چاہیے ‘مجھ سے اپنا نام مت چھینیں پلیز ۔ سکینہ بی میری چادر لا دیں ۔ ‘‘پتا نہیں کتنی ہمت کر کے یہ چند جملے اس نے بولے تھے۔
’’کیا فرق پڑتا ہے تم جیسیوں کو شادی سے اور طلاق سے ۔‘‘ عارفین کے لہجے میں استہزا اور آنکھوں میں نفرت تھی ۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر چلا گیا تھا ۔ بنا کسی بھی سمت دیکھے اس نے چادر کو اپنے گرد لپیٹا تھا اور شکستہ قدموں سے اس پناہ گاہ کا دروازہ پار کیا تھا۔ جہاں اسے پناہ نہیں ملی تھی۔
وہ سیدھی سڑک پر چلتی چلی جا رہی تھی ۔ سکینہ بی نے چادر کے ساتھ اس کے چند جوڑوں کا ایک بیگ بھی لا دیا تھا ۔ وہ بیگ کو سینے سے لگائے قطار میں بنے درختوں کے ساتھ چلتی جا رہی تھی ۔آنسوں سے تر چہرہ، بے تحاشہ سرخ ہوتی ناک اور آنکھیں۔
’’کہاں جاؤں؟ کیا کروں؟ ‘‘یہ کیسا ستم تھا ۔ کیسا کہر ٹوٹا تھا اس پر‘ کیا وہ قابل اعتبار نہیں تھی عار فین کے لیے ۔ اس کا ماضی اس کے حال پر غالب آگیا تھا ۔ وہ ایک بار پھر سے وہیں کھڑی تھی ۔ بھری دنیا میں تنہا ، اکیلی…
’’ماہ لقاہء بی بی، رک جاؤ۔‘‘ کسی نے پیچھے سے اسے پکارا تھا ۔
آواز مانوس تھی ۔ اس نے یکدم پلٹ کر دیکھا تھا مگر وہ شخص وہ شناسا نہیں تھا (سفید شلوار قمیض، سر پر ٹوپی اور کندھے پر پڑا رنگین رومال ) وہ تیز قدموں سے چلتا ماہ لقاہء کی طرف آ رہا تھا ۔ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی اس نے تقریباََ بھاگنا شروع کر دیا تھا۔
’’نہیں بی بی، ڈرو مت… بھاگو مت ‘ رک جاؤ۔‘‘ وہ بھاگتے ہوئے درمیانی راستہ عبور کر کے ماہ لقاہء تک پہنچا تھا ۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا ۔ ماہ لقاہء کو اس کے چہرے کے نقوش جانے پہچانے لگے تھے۔
’’تم…‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔
’’میں عبداللہ …‘‘اور جب اس نے اپنا مکمل تعارف کروایا تو ماہ لقاہء نے سکھ کا سانس لیا تھا اور تھک کر وہیں درختوں کے ساتھ بنی چھوٹی سی منڈیر پر بیٹھ گئی تھی ۔ ایک زاد راہ مل گیا تھا ۔ ایک ہمسفر،کوئی اپنا اس کے رب نے اسے اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔
٭…٭…٭
وہ بالکونی میں کھڑا سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا ۔ کئی مہینوں سے اس کا یہی معمول تھا ۔ دن بھر وہ خود کو اتنا مصروف رکھتا تھا کہ لمحے کی فرصت نہیں ملتی تھی مگر رات… یہ راتیں اس کے لیے عذاب تھیں ۔ نیندیں روٹھی ہوئی، آدھی رات تک جاگنے کے بعد رات کی کسی پہر چند گھنٹوں کی آنکھ لگتی تھی بس مگر پچھلے ڈیڑھ ماہ سے تو وہ چند گھنٹے بھی سکوں کے نہ مل پاتے تھے ۔ راتیں اب اذیت ناک ہوتی جا رہی تھیں ۔ اندر کمرے میں بیٹھی وہ سائیکو عورت اس کے اعصاب کے لیے امتحان تھی ۔مسلسل اس کا ضبط آزماتی وہ عورت حمل سے تھی مگر اس کے بطن میں سانس لیتے وجود سے عارفین ہسبانی کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس کی غیرت پر تازیانہ پڑا تھا ‘جب پہلی رات کی دلہن نے اس سے اپنے غیر ملکی بوائے فرینڈ سے تعلق کا اقرار کیا تھا ۔ وہ ضبط و برداشت کی انتہا پر تھا ۔ بڑے خاندان سے آئی وہ لڑکی جس کے ماں باپ نے اپنی سو کالڈ عزت بچانے کے لیے عار فین ہسبانی کی بلی چڑھائی تھی ۔ وہ ڈرگ ایڈیکٹڈ لڑکی مسلسل اپنے اس غیر ملکی آشنا سے رابطے میں تھی ۔ اسے عارفین سے کوئی غرض نہیں تھا ہاں مگر وہ اپنے مہر میں لکھی وہ فیکٹری چھوڑنا نہیں چاہتی تھی ۔ اسی لیے خلع لینے کے بجائے وہ مسلسل عارفین سے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ اس لڑکی کے اذیت ناک ساتھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس فیکٹری کی قیمت کچھ بھی نہیں تھی ۔ عارفین ہسبانی کے ذہنی سکون کے آگے تو کچھ بھی نہیں ۔ وہ طلاق کے تین لفظ اس کے منہ پر مارنا چاہتا تھا مگر انہی دنوں اس کی شادی کے محض پندرہ دن بعد مسز ہسبانی کو سیریس اسٹروک پڑا تھا ۔ وہ جاہ و جلال،شان و شوکت والی اس کی ماں پہلے بیڈ پر اور پھر مستقل ویل چیئر پر آگئی تھیں ۔ ان کے دماغ کے ساتھ جسم کا دایاں حصہ بھی شدید متاثر ہوا تھا ۔ ایسے میں ان کے لیے بیٹے کی ازدواجی زندگی کی ناکامی کی خبر ناقابل برداشت ثابت ہوتی ۔ وہ شادی جو انہوں نے بڑے مان سے خوب دھوم دھام سے کی تھی ۔ اس کا ٹوٹ جانا ان کی درگوں ذہنی حالت کے لیے اچھا نہیں ہوتا بس اسی لیے وہ ڈیڑھ ماہ سے شدید اذیت میں تھا ۔ آج بھی اس عورت پر دوڑہ پڑا تھا ۔ چیختی چلاتی وہ عورت مسلسل طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ آج عارفین ہسبانی کا ضبط بھی جواب دے رہا تھا ۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔ وہ کمرے سے نکل کر مسز ہسبانی کے پاس چلا آیا تھا ۔ وہ اپنی وہیل چیئر پر بیٹھی تسبیح کرنے میں مشغول تھیں ۔ بیماری کے بعد سے ان میں بڑا بدلاؤ آیا تھا ۔ مسٹر ہسبانی ان دنوں بزنس کے سلسلے میں بیرون ملک گئے ہوئے تھے ۔ عارفین نے کسی ننھے بچے کی طرح ماں کی آغوش میں سر رکھ دیا تھا ۔ وہ ماں تھیں۔ غمگسار تھیں اس کی کئی ان کہی باتیں سمجھتی تھیں۔
’’بیٹے کیا ہوا؟ اس وقت تم یہاں ۔‘‘ انہیں بولنے میں مشکل ہوتی تھی مگر بہترین علاج کی وجہ سے اب وہ کافی بہتر تھیں۔
’’آپ کا بیٹا تھک گیا ہے مام ۔‘‘ عارفین کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا ۔ اپنا غم اٹھا کر اس نے اپنی ماں کی جھولی میں ڈال دیا تھا ۔
اب بس ہو گئی تھی ۔ اب برداشت ختم اور ساری کہانی سن کر مسز ہسبانی ہکا بکا رہ گئی تھیں ۔پہلے دن سے دونوں کے تعلق میں غیر معمولی پن ان سے چھپا نہیں تھا مگر وہ اس کی وجہ کچھ اور سمجھ رہی تھیں ۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے بیٹے کا جھکاؤ پہلے کسی اور طرف تھا تو تھوڑا وقت تو لگے گا نئے رشتے کے کو سمجھنے میں ۔ پھر بڑے گھر کی لڑکیاں تو ایسی ہی ہوتی ہیں نازک مزاج مگر جو کچھ آج ان کے بیٹے نے بتایا وہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔
’’تم نے اتنا وقت کیوں لیا میری جان ۔ میرے ہوتے ہوئے‘ اپنے بابا کے ہوتے ہوئے تم اس اذیت میں کیوں رہے؟ اس لڑکی کو چھوڑ دو عارفین ۔ آزاد کر دو وہ ناپاک ہے ۔ اس گھر کو بھی ناپاک کر دے گی ۔ اسے چھوڑ دو‘ طلاق دے دو ۔ کوئی بھی قیمت چکاؤ‘کچھ بھی کرو ۔ اسے خود سے دور کر دو ۔‘‘ وہ ایک دم ہی رو پڑی تھیں ۔ عارفین گھبرا گیا تھا ان کی طبیعت کے بگڑنے کا خدشہ تھا۔
’’اوکے‘اوکے مام ۔ میں کل ہی پیپرز بنوا لوں گا ۔ آپ پریشان مت ہوں ۔ ‘‘اس نے انہیں ریلیکس کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ مسلسل سر نفی میں ہلا رہی تھیں منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھیں۔
’’ وہ ناپاک ہے‘ اسے چھوڑ دو ۔ وہ پاک دامن تھی۔ وہ پاک تھی…‘‘ وہ ہذیانی انداز میں بولے جا رہی تھیں۔
’’سسٹر عینا…‘‘ عارفین نے آواز لگائی تھی۔
ان کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس مسلسل ان کے پاس ہوتی تھی جو اس وقت ساتھ والے کمرے میں موجود تھی ۔ عارفین کی ایک آواز پر سسٹر عینا فوراََ ہی حاضر ہو گئی تھی۔ عارفین کی مدد سے اس نے مسزہسبانی کو پہلے بیڈ پر شفٹ کیا تھا اور اب سکون آور انجیکشن لگا رہی تھی ۔کچھ دیر بعد مسز ہسبانی پرسکون ہو چکی تھیں اور انجیکشن کے زیر اثر انہیں اب نیند آنے لگی تھی مگر وہ نیند میں بھی مسلسل بڑبڑا رہی تھیں۔ عارفین کو ان کے منہ سے نکلے الفاظ بالکل سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ وہ رات گئے تک ان کے پاس بیٹھا رہا تھا۔
٭…٭…٭
زرنش کو طلاق دینے کے بعد یوں لگا تھا کہ کندھوں سے کوئی بھاری بوجھ سرک گیا ہو ۔ وہ ایک عفریت تھی جو اس کے سر پر سوار ہو گئی تھی ۔ مسٹر ہسبانی نے بھی اس وقت اس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ باپ ہونے کا پورا پورا فرض ادا کیا تھا ۔ عارفین کے چہرے کی مانند پڑتی چمک اور بے رونق زندگی نے اس کے ماں باپ کو بے حد اداس کر دیا تھا ۔ مسز ہسبانی کی بیماری کی وجہ سے ہسبانی ہاؤس کی روشنیاں ویسے ہی معدوم سی ہو گئی تھیں اوپر سے اکلوتے بیٹے کی زندگی میں ہونے والے یہ دو حادثات…
ان گزرے چند ماہ نے چاک و چوبند رہنے والے مسٹر ہسبانی پر بھی بڑھاپا طاری کر دیا تھا ۔ وہ بہت کمزور اور بے بس سے دکھائی دینے لگے تھے ۔ ماں باپ کی خاطر عارفین نے خود کو تھوڑا بدلنے کی کوشش کی تھی ۔ جتنا وقت گھر پر ہوتا ہنستا بولتا رہتا تھا مگر اندر کے دکھ۔ دل کی ویرانی۔ محبت کی نئی نئی پھوٹی نازک سی کونپل کے مرجھانے کا غم۔ اپنی جگہ ہنوز موجود تھا۔
٭…٭…٭
وہ ابھی ابھی آفس آیا تھا ۔ اس کے فون پر سکینہ بی کی کال آرہی تھی ۔ اس نے کال پک کی تھی۔
’’سکینہ بی خیریت ہے؟ صبح صبح کیسے فون کیا؟‘‘
’’نہیں صاحب! خیریت نہیں ہے ۔ میرا عظیم ہسپتال میں پڑا ہے جی ۔ بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہے ۔‘‘ سکینہ بی رو رہی تھیں۔
’’سکینہ بی آپ روئیں مت ۔ مجھے بتائیں کیا ہوا ہے عظیم کو؟‘‘ عظیم ان کا بڑا بیٹا تھا جس کی عمر تقریبا پندرہ سال تھی۔
’’ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے صاحب عظیم کا ۔ بری حالت ہے جی ۔آپ آکر مل لو صاحب ہمیں اس وقت آپ کی ضرورت ہے ۔‘‘ سکینہ بی کا رو رو کر برا حال تھا ۔
عارفین نے بامشکل انہیں تسلی دلا سے دے کر چپ کروایا تھا ۔ ہسپتال کا نام پوچھ کر اپنے آنے کی یقین دہانی کروائی تھی ۔ لنچ ٹائم سے پہلے وہ آفس سے اٹھ گیا تھا ۔ ہسپتال پہنچ کر اس نے عظیم کی عیادت کی تھی ۔ اس کا پورا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔ اس کی بائیک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی تھی‘ جس کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا ۔ ایک ٹانگ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوئی تھی جس کا آپریشن ہونا تھا مگر ڈاکٹر زیادہ پر امید نہیں تھے ۔ سکینہ بی کا رو رو کر برا حال تھا ۔ اس نے انہیں اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔
’’میرا مینیجر کچھ دیر میں یہاں پہنچ جائے گا ۔ وہ سارے معاملات دیکھ لے گا۔ بہترین ہسپتال سے عظیم کا علاج کروائیں گے ۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ ۔ ‘‘ہسپتال کے کاریڈور میں کھڑا وہ سلیم اور سکینہ بی کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔جب سکینہ بی نے اچانک ہی اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے ۔
’’صاحب مجھے معاف کر دیں سلیم نے مجھے طلاق کی دھمکی دی تھی ورنہ میں کبھی بھی جھوٹی گواہی نہ دیتی اس دن ۔‘‘ سکینہ بی کے پیچھے کھڑے سلیم نے بھی ہاتھ جوڑ رکھے تھے۔ عارفین نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں سکینہ بی کو دیکھا تھا۔
’’صاحب میں نے اسے بہت سمجھایا تھا ۔ یہ گناہ ہے کسی پاک دامن پر تہمت لگانا ۔ اس کا حساب دینا ہوگا ‘ قیمت چکانی پڑے گی ۔ آج دیکھو کتنی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے ۔ چلا گیا نا بیٹا موت کے منہ میں۔‘‘
سکینہ بی نے آخری جملے ادا کرتے وقت سلیم کی طرف غصے سے دیکھا تھا ہاں ایک عورت کمزور ہوتی ہے مگر ایک ماں نہیں ۔ کل سلیم کے سامنے ایک کمزور عورت تھی جسے اس نے طلاق کی دھمکی دے کر جھوٹی گواہی دینے کے لیے مجبور کیا تھا مگر آج اس کے سامنے ایک ماں کھڑی تھی۔ نڈر، بہادر اپنے بچے کی زندگی بچانے کے لیے جان وارنے کو تیار یہ تو پھر محض ایک معافی تھی جو وہ اپنے صاحب سے مانگ رہی تھی۔
’’سلیم یہ سب کیا ہے؟‘‘ عارفین لمحے کے ہزارویں حصے میں جان لینا چاہتا تھا۔
’’تم نے… مجھے یقین نہیں آرہا تم نے کیوں کیا یہ سب؟‘‘ اور سلیم کی نظریں زمین میں گڑی جا رہی تھیں۔
’’صاحب میں مجبور تھا بڑی بیگم صاحبہ نے کہا تھا کہ اگر میں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو میرے اور میرے بیوی بچوں کے لیے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے ۔ میں کہاں جاتا صاحب ؟ کیسے پالتا ان سب کو ۔ مجھے تو کوئی ہنر بھی نہیں آتا ۔ ہمیشہ آپ کا نمک کھایا ہے جی ۔ بڑی بیگم صاحبہ نے مجھے بڑی رقم بھی دی تھی شاید میری آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ گئی تھی ۔ مجھ سے گناہ ہو گیا جی‘ میں ایک رات سکون سے نہیں سویا اس دن کے بعد سے۔‘‘ عارفین نے اپنے چکراتے سر کو تھاما تھا ۔
قریب پڑی بینچ کا سہارا لے کر وہ اس پر بیٹھ گیا تھا۔
’’صاحب ماہ لقاہء بی بی بے قصور تھیں ۔ ان کا کردار پاک صاف ہے ۔ میں نے خود دیکھا ہے انہیں سارا دن نمازیں پڑھتے ، سجدوں میں روتے ہوئے ۔ ان کی آہ لگ گئی میرے بیٹے کو ۔ ہمیں سزا مل گئی کیے کی‘ ہمیں معاف کر دو صاحب ۔ بی بی کا پتا د و۔ میں ان کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگوں گی ۔‘‘ سکینہ بی نا جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں مگر عارفین سکتے کی کیفیت میں خاموش بیٹھا تھا ۔ کس سے گلہ کرتا، کس سے شکایت کرتا ۔ جب اس کی ماں نے… اس کی سگی ماں نے ہی یہ سب کروایا۔
’’مام آپ بڑا ظلم کر گئیں ۔ بڑا ظلم…‘‘ وہ دل ہی دل میں اپنی ماں سے شکوہ کناہ تھا۔
’’سلیم تمہیں جتنی رقم چاہیے تھی مجھ سے لیتے ۔ مجھے بتاتے‘ ایک بار تو مجھے بتاتے ۔ یہ سب کرنے سے پہلے ایک بار تو سوچتے ۔ کتنا مان تھا مجھے تم دونوں پر‘ تمہاری گواہی کے آگے تو میں نے دوسری کوئی بات سنی ہی نہیں ۔ وہ کہتی رہی یہ جھوٹ ہے مگر میں نے اس کا اعتبار نہیں کیا ۔ تمہارا اعتبار کیا تھا میں نے ۔‘‘ عارفین کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا۔
’’صاحب بس دماغ خراب ہو گیا تھا میرا ‘ چریا ہو گیا تھا میں ۔ جیسا بڑی بیگم صاحبہ نے کہا میں نے سب ویسا ہی کر دیا ۔ انہوں نے بی بی کے کھانے میں نشہ آور دوا ملوائی تھی۔
تاکہ وہ پورے حواسوں میں نہ ہوں ۔ جب تک ان کی نیند ٹوٹی تب تک میرے فون کرنے پر آپ وہاں آ چکے تھے صاحب۔ جب ہی ان کے کمرے میں وہ آدمی…‘‘
’’بس کرو سلیم‘ مت دہراؤ ۔ تم لوگوں نے منظر اس قدر مکمل کر دیا تھا کہ جو میری آنکھوں نے دیکھا میں نے اس پر یقین کیا ۔ جو تم نے کہا میں نے اس پر یقین کیا ۔ ایک بس اس کا ہی اعتبار نہیں کیا میں نے جو بے بس اور مظلوم تھی ۔ تم نے جان بوجھ کر اور میں نے انجانے میں بڑا ظلم کر دیا اس لڑکی پر ۔ ‘‘عارفین کی آنکھیں شدتیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں ۔
سلیم نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا تھا۔
’’صاحب بہت گنہگار ہوں۔ بڑی خطا ہو گئی۔ جب خود پر پڑی تو احساس ہوا دوسرے کی تکلیف کا ۔ مجھے سزا دو صاحب‘ رب نے تو دے دی ہے ۔ تم بھی دو مجھے مارو برا بھلا کہو۔‘‘
عارفین نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ روکے تھے ۔ سلیم اور سکینہ تو بس کٹھ پتلی تھے ۔ اس سارے تماشے میں مرکزی کردار تو اس کی ماں کا تھا ۔ اس کی اپنی ماں کا … وہ دونوں تو اپنے کیے کی سزا پا چکے تھے ۔ معافی مانگ رہے تھے۔ ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑے تھے۔
وہ بہت ٹوٹا بکھرا ہوا سا ہسپتال کی عمارت سے باہر نکلا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page