سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران
’’ پانی…‘‘ عارفین نے گلاس اس کی آنکھوں کے سامنے کیا تھا ۔ جسے اس نے خاموشی سے تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا تھا ۔ کپکپاتے ہاتھوں سے گلاس واپس اسے تھما کر وہ نگاہ جھکائے بیٹھی تھی ۔ کامنی سی تو تھی ۔ ذرا سے بخار نے ہی نقاہت زدہ کر دیا تھا۔
بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے عارفین نے اس کی کلائی تھامی تھی۔
’’ بخار کچھ کم ہوا یا نہیں ۔ مجھے کال کیوں نہیں کی؟ سکینہ بی بتا رہی ہیں کہ تمہیں صبح سے تیز بخار ہے۔‘‘ وہ فکر مندی سے پوچھتا اب اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار کی شدت کا اندازہ کر رہا تھا۔
’’بخار ابھی بھی ہے ۔دوا کب لی تھی؟ چلو ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں۔‘‘ عارفین نے اس کے چہرے پر آئی بکھری لٹھوں کو کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے جھک کر اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا ۔ وہ بے انتہا گھبرائی ہوئی تھی ۔ وہ اس کے بے حد قریب بیٹھا تھا اور اس کے لہجے میں بلا کیا اپنائیت تھی ۔
’’دوپہر میں لی تھی دوا ۔ اب کم ہے بخار ۔ دوا لے لوں گی تو ٹھیک ہو جائے گا ۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ وہ دقت سے بولی تھی ۔ وہ سحر انگیز شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے کلون کی خوشبو ماہ لقاہء کے حواسوں پر چھا رہی تھی ۔
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہارے لیے سوپ اور ٹیبلیٹ لے کر آتا ہوں۔ کھانا بھی لے آؤں؟‘‘ وہ جاتے جاتے پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں، کھانا نہیں کھایا جائے گا ۔ میں لے لیتی ہوں سوپ خود ہی‘ آپ…‘‘ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔
’’ بیٹھی رہو۔‘‘ عارفین نے اسے کندھوں سے تھاما تھا ۔
’’بلکہ ہمت کر کے تھوڑا فریش ہو جاؤ شاباش ‘میں آتا ہوں ابھی۔ ‘‘وہ اس کے گال تھپتھپا کر چلا گیا تھا ۔ وہ حیرانی سے اس فرشتے کو دیکھ رہی تھی جو نا جانے کس کی دعاؤں کا ثمر تھا۔ منہ ہاتھ دھو کر ماہ لقاہء نے اپنے بکھرے بال سمیٹے تھے ۔ عارفین بڑی سی ٹرے اٹھائے چلا آیا تھا ۔ وہ تکیے کے سہارے بیٹھی تھی۔ درمیان میں ٹرے رکھ کر وہ سامنے بیٹھ گیا تھا۔
’’میرا کھانا ، تمہارا سوپ…‘‘ اس کے سوپ کے ساتھ وہ اپنا کھانا بھی لے آیا تھا۔
’’ چلو یہ سوپ ختم کرو پھر دوا بھی لینی ہے۔ ‘‘اس کے سامنے سوپ کا باؤل رکھ کر وہ اپنا کھانا شروع کر چکا تھا۔
وہ چھوٹے چھوٹے سپ لے رہی تھی جبکہ وہ کھانے سے بھرپور انصاف کر رہا تھا۔
’’ صبح فجر میں آنکھ نہیں کھلی کیا؟‘‘ یاد آنے پر اس نے پوچھا تھا۔
’’کھلی تھی‘ پڑھ لی تھی نماز۔‘‘ ماہ لقاہء نے نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا (وہ کیوں پوچھ رہا تھا)۔
’’ لان میں نظر نہیں آئیں تم۔ ‘‘لہجہ بظاہر سرسری تھا۔
’’بخار کی وجہ سے ہمت ہی نہیں ہوئی ۔ ‘‘یہ خیال خوش کن تھاکہ وہ اس سے غافل نہیں تھا۔
’’ آپ کو کیسے پتا کہ میں لان میں نہیں آئی ۔ آپ تو نہیں اٹھتے نا اتنی صبح؟‘‘ کچھ خیال آنے پر ماہ لقاہء نے پوچھا تھا۔
’’جی نہیں ، میں اتنی ہی صبح اٹھتا ہوں اور روز تمہیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتا بھی ہوں ۔‘‘ عارفین کے لہجے میں شرارت تھی۔
’’جی…‘‘ ماہ لقاہء کی آنکھیں حیرانی سے پھیلی ہوئی تھیں ۔
’’آپ فجر کی نماز پڑھتے ہیں؟‘‘ ماہ لقاہء نا جانے کیوں بے یقین سی تھی۔
’’کیوں؟ میں مسلمان نہیں ۔ مجھ پر فرض نہیں پانچ نمازیں؟‘‘وہ ذرا سا خفا ہوا تھا۔
’’سوری…‘‘ وہ سر جھکا گئی تھی۔
’’سوپ ختم کرو۔ ‘‘وہ رعب سے بولا تھا ۔
’’مگر یہ دیکھتے کیوں ہیں کھڑکی سے روز صبح…‘‘ ماہ لقاہء نے صرف سوچا تھا ۔ پوچھا نہیں تھا ۔ وہ کھانا ختم کر چکا تھا ۔ اسے دوا دے کر وہ ٹرے اٹھا رہا تھا۔
’’میں رکھ آتی ہوں۔ ‘‘ماہ لقاہء نے ٹرے اس کے ہاتھ سے لینی چاہی تھی ۔ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اس کی وجہ سے یہ سارے کام کرے۔
’’بالکل نہیں، بیمار بیوی کی خدمت پر ثواب تو ملتا ہوگا ناں۔ ‘‘نرمی سے اس کے ہاتھ ہٹا کر وہ کھڑا ہو گیا ۔
ماہ لقاہء بس دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ لوٹا تھا۔
’’اب تم آرام کرو ۔ ‘‘وہ کاؤچ پر آرام دہ پوزیشن میں بیٹھ گیا تھا اور گود میں لیپ ٹاپ رکھے مصروف سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔
’’یہ لائٹ تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کرے گی؟‘‘
اس نے کاؤچ کی دیوار کے ساتھ لگی لائٹ کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ جسے اپنے کام کی وجہ سے اس نے آن کر رکھا تھا ۔ ماہ لقاہء نے نفی میں سر ہلایا تھا (تو کیا یہ یہیں بیٹھے رہیں گے)
’’کیا کروں لیٹ جاؤں۔‘‘ ماہ لقاہء نے اپنے دکھتے ہوئے سر کو تھاما تھا۔ وہ سامنے ہی بیٹھا تھا۔
’’لیٹ جاؤ ۔ میں اپنے کام میں مصروف ہوں ۔‘‘
وہ جانتا تھا کہ وہ جھجھک رہی ہے اس کی موجودگی میں ۔ ماہ لقاہء نے حیرانی سے دیکھا تھا ۔ اس کی نظریں ہنوز لیپ ٹاپ کی اسکرین پرتھیں وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا (کیا یہ سوچیں بھی پڑھ لیتے ہیں ) وہ آنکھیں موند کر لیٹ گئی تھی ۔ پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا تھا ‘جب اس نے لیپ ٹاپ آف کر کے ٹیبل پر رکھا تھا ۔ بوجھل ہوتی آنکھوں کو بند کر کے اس نے کاؤچ سے سر ٹکایا تھا ۔ ایک نظر اس پر بھی ڈالی تھی وہ دوا کے زیر اثر اب گہری نیند میں تھی۔ وہ وہیں کاؤچ پر نیم دراز ہو گیا تھا۔
اس کی روح کا جو رشتہ اپنے رب سے جڑا تھا وہ بے حد مضبوط تھا ۔ اذانوں کی آواز کے ساتھ ہی معمول کے مطابق اس کی آنکھ کھلی تھی ۔ طبیعت بہت بہتر محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ نماز کے لیے اٹھی تھی مگر سامنے کاؤچ پر نیم دراز عارفین کو دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی ۔ وہ ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے سو رہا تھا ۔ وہ دبے قدموں واش روم کی طرف گئی تھی ۔ بنا آہٹ کیے اس نے نماز ادا کی تھی ۔ نماز ادا کر کے وہ بیڈ پر بیٹھی مسلسل اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی ۔ نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔
’’کیا کروں اٹھا دوں ؟ یہ اٹھ کیوں نہیں رہے ۔ ‘‘وہ اسے نیند سے جگانے کے لیے قریب آئی تھی۔
’’کیا کہوں؟‘‘ اسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی ۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد ماہ لقاہء نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا تھا اور وہ فوراََ ہی جاگ گیا تھا ۔ آنکھوں سے بازو ہٹا کر اس نے ماہ لقاہء کو دیکھا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔
’’وہ نماز کا وقت نکل رہا ہے۔‘‘ ماہ لقاہء نے نگاہ چرائی تھی۔
’’اوہ، سوری میری آنکھ ہی نہیں کھلی ۔‘‘ وہ تیزی سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھاتھا ۔ ماہ لقاہء نے دیکھا تھا اس نے بے حد خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی تھی ۔ اس نے کسی مرد کو اس قدر عاجزی سے دعا مانگتے نہیں دیکھا تھا ۔ نماز ادا کر کے وہ اس کے قریب آ بیٹھا تھا۔
’’اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘عارفین نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔
’’بہت بہتر ہے۔‘‘ ماہ لقاہء نے نگاہیں ملانے سے اب بھی گریز کیا تھا۔
’’اج بھی لان میں کھلے پھول اداس ہوں گے ۔‘‘ اس نے بھاری پردوں سے ڈھکی گلاس وال کی جانب اشارہ کیا تھا۔
’’جی…؟‘‘ماہ لقاہء نے نا سمجھی سے دیکھا تھا۔
’’بھئی تم آج بھی ان کے پاس نہیں گئیں نا ںمگر میں خوش ہوں کیونکہ تم آج میرے پاس ہو ۔‘‘ وہ ہنسا تھا مگر لہجہ گھمبیر تھا وہ سر جھکا گئی تھی ۔ یہ رشتہ، یہ تعلق، یہ شخص، بیش قیمت انمول (مگر کیا میں اس قابل تھی)
’’سب میرے رب کی عنایت…‘‘
’’تم رو رہی ہو ۔ یہ کیا ہے؟‘‘ عارفین نے اس کے رخسار پر امڈ آنے والے آنسو اپنے پوروں پر سمیٹے تھے۔ وہ حیران تھا۔
’’ شکرانہ…‘‘ وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی ۔ دھوپ میں بارش کا منظر…
’’کس بات کا شکرانہ؟‘‘ عارفین نے دلچسپی سے دھوپ میں بارش کا یہ منظر دیکھا تھا ۔
’’آپ کا ساتھ ۔ یہ جاہء پناہ… میں اس قابل کہاں تھی ‘اسی بات کا شکرانہ ۔ یہ سب میرے رب کی عنایت ہے ۔ احسان ہے اس کا۔‘‘وہ بولی تو اس کا لہجہ عقیدت و عاجزی سے لبریز تھا۔
’’تم کیوں قابل نہیں تھیں ؟ تم نے رب کا وہ فرمان نہیں سنا کیا؟‘‘
’’سورہ نور میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہیں ۔ اسی لیے مجھ جیسے نیک مرد کے لیے تم جیسی نیک…‘‘
’’مگر میں…‘‘ ماہ لقاہء نے بات کاٹی تھی مگر عارفین نے وہیں روک دیا تھا۔ نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
’’سنو! آج صرف سنو … میں جانتا ہوں تم گلٹ فیل کرتی ہو اس رشتے کو لے کر ۔ میرے والدین کی ناراضگی کو لے کر ، اپنے ماضی کو لے کر ۔ یہ باتیں تمہیں خوش نہیں ہونے دیتیں ۔ تم اداس رہتی ہو ۔ ماضی کو بھول جاؤ۔ اچھے پہلو کیوں نہیں دیکھ رہیں ۔ تم ایک پاکیزہ رشتے میں بندھی ہو ۔ تم وہاں سے نکل آئی ہو ‘جہاں تمہاری روح بے چین رہتی تھی ۔ تم یہ کیوں نہیں دیکھتیں کہ اللہ نے تمہاری غیب سے مدد کی ہے ۔ تمہیں کیا خبر تھی کہ میں کیسا انسان ہوں ۔ کیا پتا میں آوارہ اور بدچلن ہوتا ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ میں وہاں کی کسی لڑکی کی اس طرح مدد کروں گا ۔ میں جو وہاں بے دلی سے گیا تھا مجھے کیا خبر تھی کہ وہاں وہ لڑکی ہے جو میری ہی پسلی سے بنی ہے ۔ جسے میری زوجیت میں آنا ہے ۔ یہ رشتہ، یہ تعلق، یہ رابطہ ‘سب رب نے ہموار کیا ۔ تمہاری مدد ہونی تھی میرے ذریعے ۔ تمہارے لیے خیر رکھی ہے اللہ نے اس رشتے میں تو میرے لیے بھی خیر ہی ہوگی ۔ میاں بیوی کا نفع و نقصان سب سانجھا ہوتا ہے ۔ الگ الگ تو نہیں ہوتا نا؟‘‘ ایک لمبی تقریر کے بعد عارفین نے اس کے تاثرات جانچے تھے ۔ ماہ لقاہء کا ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ مسکرائی تھی مگر اس کی آنکھوں میں بولتے خدشات۔
’’مام ڈیڈ مان جائیں گے ۔ میں جانتا ہوں انہیں وقت درکار ہے ۔ تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم صرف مجھے جانو ‘ حال میں جیو۔ مستقبل ان شاء اللہ بہت اچھا ہوگا ۔‘‘ عارفین کی مسکراہٹ امید افزاء تھی۔
’’یہ رشتہ ہمدردی کی وجہ سے یا ترس کھا کر نہیں ‘ میں نے دل سے قبول کیا تھا ۔ تم نے مجبوری میں؟‘‘ عارفین کی سوالیہ نگاہیں وہ سچ مچ گھبرا گئی تھی فوراََ نفی میں سر ہلایا تھا۔
’’دل سے۔ ‘‘ وہ تیزی سے بولی تھی ۔
عارفین اس کی گھبراہٹ سے محظوظ ہوا تھا ۔ بے ساختہ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا ۔ کاغذی رشتے نے دل تک رسائی حاصل کر لی تھی ۔ آج صبح کا منظر مکمل تھا ۔ چند لمحوں کے لیے ہی صحیح مگر زندگی مسکرائی تھی۔
٭…٭…٭
یہ ایک بڑی مسجد کا احاطہ ہے۔ عشاء کی نماز ہوئے گھنٹہ گزر چکا ہے۔ دھیرے دھیرے مسجد نمازیوں سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ اکا دکا لوگ جو نظر آرہے تھے وہ بھی اب جا چکے تھے۔ ان دنوں مسجد کے مجاور فضل دین کی ماں سخت بیمار تھی۔اب کے وہ گاؤں گیا تو لوٹا ہی نہیں۔ اس کی ماں کو اس کی ضرورت تھی اس وقت۔ صحن کے احاطے کے ایک طرف مولوی صاحب کے گھر کے لیے جگہ مختص تھی۔ وہیں پر ان کا چھوٹا سا گھر بنا دیا گیا تھا جہاں وہ اپنی بیوی اور تین بیٹیوں کے ہمراہ رہتے تھے۔گھر کا ایک دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا اور دوسرا مسجد کے صحن میں تاکہ مولوی صاحب کو مسجد آنے اور جانے میں کوئی دقت نہ ہو۔
مولوی رحمت اللہ معمول کے مطابق مسجد کے مرکزی دروازے کو تالا لگانے کے لیے آگے بڑھے تو گھاس کے قطعے کے ساتھ ٹھنڈے فرش پر کسی کو بیٹھا ہوا دیکھا۔
’’ برخودار مسجد کے بند ہونے کا وقت ہے ۔‘‘ مولوی رحمت اللہ کی راعب دار آواز اندھیرے میں گونجی تھی گم صم بیٹھا وجود ہلکا سا کانپا تھا۔ قریب آنے پر مولوی رحمت اللہ نے اچھنبے سے اس شخص کو دیکھا تھا۔ حیرانی سے استفسار کیا تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘ جواب میں اس شخص نے ہاتھ جوڑے تھیاور آنسووں سے بے آواز رو پڑا تھا۔
٭…٭…٭
سہ پہر کا وقت تھا ۔ وہ بے خبر سوئی ہوئی تھی آنکھ کھلنے پر اٹھنے کی کوشش بھی کی مگر یوں لگتا تھا پلکوں پر بھاری بوجھ دھرا ہو ۔ آنکھیں نیم وا ہو کر پھر بند ہو جاتی تھیں ۔ نہ جانے کون سی نیند تھی جو ٹوٹ کے نہیں دے رہی تھی ۔ یوں ہی شعور اور لاشعور کے درمیان ۔ نیم مدہوشی کی کیفیت میں اسے لگا تھا کہ کوئی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا ہے اور سرہانے بیٹھ کر دھیرے دھیرے اس کے بالوں کو سہلا رہا ہے ۔
’’عارفین…‘‘وہ نیند میں مسکرائی تھی۔
بیدار ہونے کی کوشش میں دھندلا سا ہیولہ نظر آیا تھا ۔ کسی غیر معمولی احساس کے تحت ماہ لقاہء نے اپنی نیم وا آنکھوں کو بڑی دقت سے کھولنے کی کوشش کی تھی ۔ وہ دھندلا سا ہیولا جانا پہچانا نہیں تھا ۔ اس کے کلون کی خوشبو وہاں آس پاس کہیں نہیں تھی۔اس کے لاشعور نے اندر کہیں خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔