سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران
’’کیا ہوا نیند پوری نہیں ہوئی اب تک؟‘‘ دوستانہ لہجہ تھا۔
’’جی‘ بس آنکھ ہی نہیں کھلی۔‘‘ اس نے خمار آلود نگاہیں جھکائی ہوئی تھیں۔
’’کوئی بات نہیں ۔ رات کافی ہو گئی ہے ۔ سکینہ بی کھانا لگانے کی وجہ سے ابھی تک جاگ رہی ہیں ورنہ وہ جلدی سونے کی عادی ہیں ۔ کھانا کھا لو پھر آرام کر لینا۔‘‘وہ سب کا خیال رکھنے کا عادی تھا ۔ سکینہ بی کی اپنی وجہ سے ہونے والی بے آرامی بھی اسے کھل رہی تھی ۔
’’جی۔ ‘‘ماہ لقاہء نے سر ہلایا تھا ۔ عارفین نے دروازہ کی جانب قدم بڑھائے تھے۔جاتے جاتے وہ پلٹا تھا۔
’’ڈونٹ وری! اتنا مت گھبراؤ‘میں محرم ہوں۔‘‘ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا ۔
وہ جو اس کے اس طرح کمرے میں آجانے سے گھبرا گئی تھی،سٹپٹا سی گئی ۔ وہ اپنا اور اس کا رشتہ باور کروا گیا تھا اسی حق سے وہ اندر چلا آیا تھا ۔ ماہ لقاہء نے اپنے بکھرے بال سمیٹے تھے اور دوپٹہ درست کرتی باہر آئی تھی ۔ ڈائننگ ٹیبل پر وہ اس کا منتظر تھا ۔ ماہ لقاہء کے بیٹھتے ہی اس نے اس کی پلیٹ میں ہر چیز اپنے ہاتھ سے سرو کی تھی ۔وہ کہاں ان مہربانیوں کی عادی تھی۔ آنکھیں نم ہوئی تھیں۔
’’ ٹھیک سے کھانا کھاؤ۔ ‘‘وہ اپنی پلیٹ پر جھکا ہوا تھا مگر اس سے غافل نہیں تھا۔
’’تھوڑی سی زحمت کرنا پڑی گی۔یہ سب سمیٹ کر میرے اور اپنے لیے چائے بنانا ہوگی۔ بہت رات ہو گئی تھی سکینہ بی کو میں نے بھیج دیا ہے۔‘‘
وہ کھانا کھا چکا تھا۔نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ماہ لقاہء سے مخاطب تھا۔
’’جی اچھا۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
’’اوکے! میں باہر لان میں ہوں ۔ شوگر ہاف ٹی اسپون۔‘‘ وہ اٹھ کر چلا گیا تھا۔
اس کی موجودگی کئی جگہ دل کو ڈھارس دیتی تھی مگر اس کی شخصیت کا راعب بہت تھا ۔ اس کے جانے کے بعد ماہ لقاہء نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔ کچن سمیٹ کر اس نے دو کپ چائے بنائی تھی اور لان میں چلی آئی تھی ۔ وہ لان چیئر پر بیٹھا فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا ۔ سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا ۔ ماہ لقاہ نے ٹرے ٹیبل پر رکھی تھی ۔ عارفین کی پوری توجہ اس فون کال پر تھی ۔ وہ کوئی بزنس ٹاک تھی ۔ ماہ لقاہء ہنوز کھڑی اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی ۔ جب عارفین نے سر کے اشارے سے اسے بیٹھنے کو کہا تھا ۔ کال ختم کر کے اس نے لیپ ٹاپ بند کیا تھا ۔ مگ اٹھا کر اب وہ پوری طرح ماہ لقاہء کی طرف متوجہ تھا ۔
’’ تم کس الجھن میں ہو؟ کھل کر بولو کیا کہنا چاہ رہی ہو؟‘‘ عارفین نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا تھا وہ مسلسل انگلیاں مروڑتی کسی کشمکش میں تھی اب کہ اس نے کہنے کی ٹھان لی تھی۔ جب سے وہ اپنے والدین کے گھر سے نکلا تھا تب سے وہ عجیب سے احساس جرم کا شکار تھی ۔
’’ میری وجہ سے آپ اپنا گھر مت چھوڑیں ۔ اپنے والدین کو منالیں۔ میں کہیں بھی رہ لوں گی‘ مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ میری وجہ سے آپ اتنی بڑی مشکل میں گھر گئے ہیں آپ کو اپنا گھر بھی چھوڑنا پڑا۔‘‘ ماہ لقاہء کی بات سن کر وہ پھیکا سا مسکرایا تھا ۔ والدین کے روٹھ جانے کا قرب اس کے چہرے سے واضح تھا مگر وہ ایک مرد تھا ۔ مضبوط اعصاب کا مالک۔ اپنے احساسات کو چھپا لینے والا۔
’’وہ مان جائیں گے۔ آج نہیں تو کل۔ میں ان کا لاڈلا بیٹا ہوں۔ انہوں نے کبھی میری کوئی بات نہیں ٹالی ہے۔ یہ بات ہی ایسی ہے انہیں یہ ساری سچویشن سمجھنے میں تھوڑا ٹائم تو لگے گا نا۔‘‘ اپنے والدین کے ذکر پر عارفین کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی ۔
’’تم چائے لو نا ں۔‘‘ عارفین نے اس کی توجہ ٹھنڈی ہوتی چائے کی جانب دلوائی تھی ۔ ماہ لقاہء نے اپنا مگ اٹھایا تھا ۔
’’ میں جانتا ہوں۔ تم بھی میری ہی طرح یقین اور بے یقینی ہی کیفیت میں ہو ۔ بٹ ڈونٹ وری ہم دونوں بہت جلد ان حالات میں نکل آئیں گے ۔ ماں باپ زیادہ دیر تک اپنے اولاد سے ناراض نہیں رہ سکتے ۔ میرا تمہارے ساتھ ایک جائز اور شرعی رشتہ ہونا بہت ضروری تھا ۔ اسی کی بنیاد پر میں تمہارے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہوں ۔ بغیر کسی رشتے کے میرا اور تمہارا تعلق دنیا کی نگاہ میں مشکوک ہو جاتا ۔ اس لیے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا ۔ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات؟‘‘بات کرتے کرتے عارفین نے ماہ لقاہء کو مراقبے کی کیفیت سے نکالا تھا ۔ اسے شک ہوتا تھا کہ یہ لڑکی اسے سن بھی رہی ہے یا نہیں اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ہر وقت ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں ہوتی تھی ہاں فقط اس کی آنکھیں ہی تھیں جو کبھی حیران ہوتی تھیں ۔ کبھی پریشان اور کبھی نم، چھلکنے کو تیار…
’’جی میں سمجھ رہی ہوں مگر وہ خانم … مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے ڈھونڈ نہ لیں ۔ ‘‘اب وہ تھوڑی پرسکون تھی اور اسی لیے اس نے اپنا ڈر عارفین سے شیئر کیا تھا۔
’’ہاں خیام کا فون آیا تھا ۔ تمہاری خانم نے بہت اودھم مچایا ہوا ہے اور اس سے بھی زیادہ اس سیٹھ نواز نے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں ہی الجھ پڑے ہیں ۔ سیٹھ نواز کو لگتا ہے کہ خانم نے اس سے رقم ہتھیا کر تمہیں غائب کر دیا ہے تاکہ مزید رقم کا تقاضا کر سکے ۔ اس نے خانم کا جینا محال کیا ہوا ہے میرے بارے میں انہیں یہی خبر ہے کہ میں جہاں سے آیا تھا وہیں سدھار گیا ہوں ۔ رہی تمہاری بات تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جو بھی آئے گا پہلے مجھ تک آئے گا پھر تم تک‘ میں کھڑا ہوں نا تمہاری ڈھال بن کر ۔ اپنے اندر کے ڈر کو ختم کر دو ۔ اب تم عارفین ہسبانی کی بیوی ہو ۔ خانم تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔‘‘ عارفین نے بہت تفصیل سے اسے ساری بات بتائی تھی۔
’’ مگر وہ سیٹھ نواز، وہ بہت خطرناک ہے۔ ‘‘اسے نیا غم ستایا تھا۔
’’ یہ چھوٹے موٹے بدمعاش ان کو صرف پولیس کے اونچے عہدے پر موجود آفیسر کی فون کال ہی سمندر کے جھاگ کی طرح بٹھا دے گی ۔ خانم ہو یا سیٹھ نواز دونوں سے نمٹنے کے لیے ہمارا نام اور تعلقات کافی ہیں ۔ اب تم فکر نہیں کرو‘ سو جاؤ جا کر شاباش ۔‘‘ عارفین نے جیسے بچوں کی طرح اسے بہلایا تھا۔
وہ ٹرے اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھی۔عارفین نے دوبارہ اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا تھا۔
’’ چائے بہت اچھی بنی تھی۔ ‘‘لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نگاہ اٹھائے بغیر ہی اس نے کہا تھا۔ ماہ لقاہء نے مسکرا کر سرخم کیا تھا اور اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
٭…٭…٭
وہ رات سے پہلے ہی اتنا سو چکی تھی کہ اب نیند ندارت تھی ۔ ساری رات کر وٹیں بدلتے گزر گئی تھی ۔ اس نے اٹھ کر تہجد پڑھی اور سجدہ شکر ادا کیا تھا ۔ ڈھیروں آنسو تھے جو پلکوں کی باڑ توڑ کر چلے آئے تھے ۔ ایک عجیب سا سکون تھا جو اس کی روح میں قطرہ قطرہ اترتا جا رہا تھا ۔ فجر ادا کر کے اس نے گلاس وال سے پردے ہٹائے تھے ۔ سیاہی اور سفیدی کا ملاپ … دھندلا سا منظر تھا جو لمحہ بہ لمحہ صاف ہوتا جا رہا تھا۔
وہ کرسی پر بیٹھی طلوع ہوتے سویرے کو دیکھ رہی تھی ۔ اجالا پوری طرح پھیلا تو لان میں کھلے رنگ برنگے اوس میں بھیگے پھولوں نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ۔ وہ دبے قدموں باہر لان میں نکل آئی تھی۔
ساتھ والے کمرے میں سویا ہوا شخص بھی فجر میں اٹھنے کا عادی تھا ۔ نماز پڑھ کر عارفین نے کمرے کے پردے کے سرکانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا اور وہیں منجمد ہو گیا تھا ۔ پردے کی اوٹ سے گلاس وال کے اس پار … نماز کے لیے باندھے گئے گلابی رنگ کے دوپٹے کے ہالے میں شفاف چہرہ،ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے دھیرے دھیرے سرکاتی ۔ وہ لڑکی گلاب اور موتیے کی باڑ کے پاس نیچے گھاس پر بیٹھی ہوئی ایک جذب کے عالم میں رب کی حمد و ثنا میں مصروف تھی ۔ پردے ہٹانے کا ارادہ عارفین نے موقف کر دیا تھا ۔ اس کی نگاہوں کا ارتکاز اس لڑکی کو ڈسٹرب کر سکتا تھا جو اس وقت انتہائی پرسکون کیفیت میں تھی ۔ وہ چند ثانیے یوں ہی اسے دیکھے گیا ۔
’’یہ لگتی ہے اس جگہ کی … نہیں لگتی یار۔‘‘ اپنے آپ سے کہتا ہوا وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔
٭…٭…٭
غیر معمولی دن اور رات اب کچھ کچھ اپنے معمول پر آنے لگے تھے ۔ عارفین نے آفس جانا شروع کر دیا تھا ۔ آفس میں ہسبانی صاحب سے روز ملاقات ہوتی تھی مگر وہ بزنس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے تھے ۔ ایک بار اس نے بات کرنی بھی چاہی تو ہسبانی صاحب نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ اس جگہ صرف کاروباری معاملات ہی طے ہوں گے گھریلو نہیں۔
وہ گھر جا کر اپنی ماں سے بھی مل آیا تھا ۔ وہ خفا تھیں مگر ماں تھیں آخر‘ گلے سے نہیں لگایا تو دھتکارا بھی نہیں تھا ۔ وہ ان کے قدموں میں بیٹھا رہا تھا ۔ مسسز ہسبانی نے اس سے صرف ایک ہی بات کی تھی کہ وہ اس لڑکی کو چھوڑ دے ۔ پیار سے،غصے سے ہر طرح سے وہ صرف ایک ہی بات عارفین سے کر رہی تھیں اور وہ اس معاملے میں کتنا بے بس تھا ۔ مسسز ہسبانی کو اس کا اندازہ بھی نہیں تھا ۔ یہی ایک خطا تھی ان کے فرماں بردار بیٹے کی جو ناقابل معافی قرار پائی تھی ۔ وہ تھکا تھکا سا لوٹ آیا تھا دن یوں ہی گزر رہے تھے ۔ عارفین آفس میں بزی رہتا اور وہ سارا دن گھر میں یہاں سے وہاں چکراتی رہتی تھی۔
سلیم اور سکینہ دونوں ہی اپنے صاحب کی اس غیر معمولی روٹین سے پریشان تھے ۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ آخر یہ لڑکی ہے کون؟ دونوں ہی اپنے صاحب کے مضبوط کردار سے واقف تھے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی اجنبی لڑکی کو اپنے ساتھ رکھ لے مگر پھر یہ الگ الگ کمرے کیوں؟ ایک بار سکینہ بی نے ماہ لقاہء سے پوچھنے کی جسارت بھی کی تھی مگر اس نے محض یہی جواب دیا تھا کہ یہ سوال اپنے صاحب سے پوچھنا اور اسی دن سکینہ بی نے ڈنر سرو کرتے ہوئے عارفین سے پوچھ لیا تھا۔
’’صاحب یہ بی بی جی کون ہیں؟؟‘‘ عارفین نے مزے سے جواب دیا تھا۔
’’گھر والی …‘ ‘ سکینہ بی کے ساتھ ماہ لقاہء نے بھی حیرانی سے دیکھا تھا۔
’’ ہاں گھر والی ہے ۔ تمہاری زبان میں یہی کہتے ہیں نا بیوی کو؟‘‘ عارفین نے برجستگی سے سکینہ بی سے پوچھا تھا ۔ سکینہ بی جھینپ سی گئیں تھیں ۔
’’جی صاحب۔‘‘ دل میں اٹھتے ہزاروں سوال تھے ۔ جو پوچھنے والے تھے مگر ادب مانع آرہا تھا۔
’’میں پانی لے کر آتی ہوں۔‘‘ سکینہ بی نے بہانے سے کچن کی راہ لی تھی۔
عارفین نے دلچسپی سے ماہ لقاہء کے چہرے پر رنگ اترتے دیکھے تھے جو ماہ لقاہء کی اندرونی خوشی کا غماز تھے ۔ وہ اسے اون کر رہا تھا‘اپنا کہتا تھا۔ زمانے کے سامنے، ساری دنیا کے سامنے۔ ’’میری بیوی ۔ عارفین ہسبانی کی بیوی ۔ گھر والی…‘‘ وہ من ہی من مسکرائی تھی۔
٭…٭…٭
آج صبح وہ فجر کے بعد لان میں اسے دکھائی نہیں دی تھی ۔ پردے کی اوٹ سے نظر آتا وہ صبح کا منظر کچھ ادھورا سا تھا ۔ آج گلابوں کی چمک کچھ مانند تھی ۔ رنگ بھی پھیکے سے تھے۔ موتیے اور چنبیلی کے پھول بھی کچھ روٹھے روٹھے ۔ بوگن ویلیا سر نیہواڑے اداس ۔ ان کی وہ صبح کے ساتھی آج نہیں آئی تھی جو ان کے پاس بیٹھی گھنٹوں اپنے رب سے محو کلام رہتی تھی ۔ جس کے وجود سے پاکیزگی اور سکون قلب کی شعائیں پھوٹتی تھیں ۔ جس کے گرد ایک سفید روحانی ہالہ روشن تھا ۔ لان میں موجود وہ سارے جاندار اداس تھے تو کھڑکی کے اس پار کھڑا شخص بھی عجیب تشنگی سی محسوس کر رہا تھا ۔ آج صبح کا منظر نامکمل تھا ۔ نگاہوں کو خیراں کرتا وہ نورانی چہرہ نہ جانے کہاں گم تھا ۔ وہ بے دلی سے وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ ناشتہ کر کے آفس جانے تک اس کی توجہ ماہ لقاہء کے کمرے کے بند دروازے پر ہی رہی مگر اندر خاموشی تھی کیا خبر رات دیر تک جاگتی رہی ہو ۔ صبح آنکھ نہ کھلی ہو ۔ وہ خیالوں میں کئی جواز تراشتا آفس چلا گیا تھا اور آفس کی مصروفیت میں نہ وہ یاد رہی تھی۔ اور نہ وہ ادھورا منظر۔
٭…٭…٭
رات لیٹی تو طبیعت کچھ مضحمل سی تھی ۔ سر بھاری، نیند ندارت … نیم شب تک بے خوابی ۔ ماضی کے دیپ چلتے رہے‘ شب بھر کی بے خوابی ، بے چینی کے باوجود وہ مؤذن کی پہلی صدا پر چکراتے سر کو تھامتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی ۔ درد کی شدید لہریں سر میں اٹھتی محسوس ہوئیں ۔ جسم جیسے آگ دہک رہی ہو ۔ بڑی دقت سے اٹھ کر اس نے نماز ادا کی تھی ۔ دوبارہ لیٹی تو رات بھر کی جاگتی آنکھیں غنودگی کے زیر اثر ایسی بند ہوئیں کہ پھر ہوش ہی نہ رہا ۔ دن ڈھلے سکینہ بی نے آ کر خبر لی تو پتہ چلا کہ وہ تو بری طرح سے بخار میں پھنک رہی ہے ۔ناشتے کے ساتھ بخار اور سر درد کی دوا لے کر وہ پھر سے بستر پر ڈھے گئی تھی ۔ سکینہ بی نے لنچ تیار کر دیا تھا مگر اس نے کھانے سے منع کر دیا تھا۔
شام ڈھلے وہ لوٹا تھا ۔ لان سے لاؤنج… لاؤنج سے کچن تک ۔ غیر ارادی طور پر اس کی نگاہیں جس کی متلاشی تھیں وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی ۔ عارفین کی نگاہیں اس کے کمرے کے بند دروازے سے مایوس پلٹ آئی تھیں ۔ وہ فریش ہو کر آیا تو سکینہ بی چائے لے آئیں۔
عارفین کو بالآخر پوچھنا ہی پڑا وہ صبح سے نہ جانے کہاں غائب تھی۔
’’ صاحب بی بی جی کو تیز بخار ہے صبح سے ۔‘‘ سکینہ بی نے خبر دی تھی۔
’’ بتایا کیوں نہیں کال کر کے مجھے ۔ دوا لی بی بی نے؟‘‘ وہ فکر مند ہوا تھا۔
’’جی صاحب ناشتے کے بعد دوا دے دی تھی ۔ دوپہر کے کھانے کا بی بی جی نے منع کر دیا تھا ۔ آرام کررہی ہیں مگر بخار ابھی بھی ہے ۔ ‘‘سکینہ بی نے تفصیل سے ساری بات بتائی تھی۔ ’’اچھا کھانا تیار ہے؟‘‘ عارفین نے پوچھا تھا۔
’’ جی صاحب! بس پھلکے بنانے باقی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے تھوڑا سا سوپ بھی بنا دیں بی بی کے لیے ‘ پھر آپ چلی جائیے گا ۔ کھانا میں لیٹ کھاؤں گا ۔‘‘عارفین کو اندازہ تھا کہ ماہ لقاہء کی وجہ سے سکینہ بھی سارا دن یہیں رہی ہوگی اس لیے انہیں کام ختم کر کے جانے کا کہہ دیا تھا۔
چائے پی کر وہ اس کے کمرے میں چلا آیا تھا ۔ اس کی بے آرامی کے خیال سے دستک دینے کا تکلف بھی نہیں کیا تھا ۔ کمرے میں نیم اندھیرا تھا بس سائٹ لیمپ روشن تھے ۔ وہ بے خبر سوئی ہوئی تھی بخار کی شدت سے تپتا سرخ چہرہ… عارفین نے دھیرے سے اس کے چہرے پر بکھرے بال ہٹائے تھے ۔ وہ ذرا سا کسمسائی تھی مگر اس کی نیند نہیں ٹوٹی تھی۔ عارفین نے اسے سونے دیا تھا ۔ وہ دبے قدموں واپس آیا تھا ۔ اپنا موبائل، لیپ ٹاپ اور ضروری فائلز اٹھا کر وہ واپس اس کے کمرے میں چلا آیا تھا ۔
سارا سامان ٹیبل پر رکھ کر وہ خود بھی کاؤچ پر نیم دراز ہو گیا تھا ۔ محض کچھ پل ہی گزرے تھے ۔ آہٹ پر وہ چونک کر اٹھاتھا۔
’’سکینہ بی پانی…‘‘
وہ سکینہ بی کو مخاطب کرتی اٹھ کے بیٹھی تھی ۔ جب آنکھیں اس نیم اندھیرے سے مانوس ہوئیں اور ہوش مکمل بحال ہوئے تو سامنے موجود شخص کو حیرانی سے تکتی وہ پانی کا گلاس تھامنا بھی بھول گئی تھی ۔