سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران
’’پہلی بات تو اب یہ لفظ (طوائف) تمہاری زبان پر نہ آئے ۔ دوسری بات میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔ دارالعلوم پر اعتبار کیا جا سکتا تھا اگر تم اتنی کم عمر اور حسین نہ ہوتیں۔ ایک کوٹھے سے اٹھا کر دوسرے کوٹھے میں چھوڑ آتا تمہیں تو کیا دل مطمئن ہو جاتا میرا ؟ اورتیسری بات تم روئے بغیر کوئی بات نہیں کر سکتی کیا؟‘‘
آخری بات عارفین نے ڈپٹنے والے انداز میں کی تھی ۔ ساتھ ہی ٹیبل سے ٹشو اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا تھا ۔ اس کی بے تحاشہ سرخ ناک اور آنکھیں دیکھ کر ارد گرد نگاہ دوڑائی تھی ۔
’’اب بھی مجھے لوگ مشکوک نگاہوں سے ہی دیکھ رہے ہیں ۔‘‘ عارفین کے لہجے میں شکایت تھی۔ ماہ لقاہء کو شرمندگی نے گھیر لیا تھا۔
’’سوری …‘‘
ویٹر نے ناشتہ سرو کیا تھا۔
’’ کھاؤ مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے ۔‘‘
وہ ہر شے سے انصاف کر رہا تھا جبکہ ماہ لقاہء نے بس چائے اور ٹوسٹ ہی لیا تھا ۔ وہاں سے نکل کے وہ پھر سے ایک سفر میں تھے۔
’’اب ہم گھر جا رہے ہیں ‘ اوکے ۔ ‘‘عارفین نے گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے اسے بتا دیا تھا اور ماہ لقاہء کا دل کانپ اٹھا تھا ۔
اپنی حیثیت ، اس کا رتبہ ، اس کے گھر والوں کا رد عمل … نہ جانے آگے زندگی نے کون سے رنگ دکھانے ہیں ۔ ماہ لقاہء نے محض سر ہلا دیا تھا ۔ اب کے گاڑی کسی عام عمارت یا گھر کے آگے نہیں بلکہ ایک محل کے سامنے رکی تھی ۔ باوردی گارڈ نے عارفین کو دیکھتے ہی گیٹ وا کر دیے تھے ۔اندر بڑے سے پورچ میں عارفین نے گاڑی رو کی تھی ۔ ماہ لقاہء دور تک پھیلے قیمتی گھانس والے سرسبزلان کو مرعوب نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ عارفین نے اس کو ساتھ آنے کا اشارہ کر کے اندر قدم بڑھائے تھے ۔ بڑی سی لابی عبور کر کے وہ لاؤنج میں پہنچے تھے ۔ باوردی ملازم حیرت سے آتے جاتے عارفین کو سلام کر رہے تھے ‘ان کی حیرانی کی وجہ وہ لڑکی تھی۔ جو ان کے صاحب کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔ دن اچھا خاصا چڑھ چکا تھا چھٹی کا دن تھا اس لیے ناشتہ دیر سے ہی ہوتا تھا۔ عارفین نے ڈائینگ روم کی راہ لی تھی۔
’’ گڈ آفٹر نون … مام ‘ڈیڈ ۔‘‘ بے حد گرم جوشی سے عارفین نے ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے اپنے ماں باپ کو مخاطب کیا تھا۔
’’آؤ ‘آؤ جنٹلمین…‘‘ ہسبانی صاحب کی عارفین کی جانب سے پشت تھی وہ اخبار سے نگاہ اٹھا کر بولے تھے مگر مسز ہسبانی کی نگاہیں بیٹے کے پیچھے کھڑی اس لڑکی پر تھیں جس نے چھوٹے سے بیگ کو سینے سے لگایا ہوا تھا ۔ کالی چادر میں چمکتا چاند چہرہ… وہ ٹھٹک ضرور گئی تھیں مگر لہجہ نارمل رکھا تھا۔
’’آؤ عارفین بڑی دیر کر دی۔ مجھے تو لگا تھا کہ رات کی گیدرنگ ختم ہوتے ہی تم واپس آ جاؤ گے۔‘‘
’’ اب آ گیا نا … لنچ ساتھ کریں گے۔‘‘
’’پہلے اس لڑکی کا تعارف تو کروا دو ۔ ‘‘ مسز ہسبانی کی برداشت بس اتنی ہی تھی۔
’’کون سی لڑکی؟‘‘ ہسبانی صاحب نے مڑ کر دیکھا تھا کیونکہ وہ ماہ لقاہء کی وہاں موجودگی سے لا علم تھے ۔ ماہ لقاہء کو دیکھتے ہی انہوں نے بھی سوالیہ نگاہیں بیٹے کی جانب اٹھا دی تھیں اور یہیں سے عارفین ہسبانی کا اصل امتحان شروع ہوا تھا ۔
’’مام، ڈیڈ … میری بات کو جس طرح آپ لوگوں نے ہمیشہ سنا ہے ،سمجھا ہے ۔ مجھے یقین ہے آج بھی آپ میرا ساتھ دیں گے ۔‘‘ عارفین کی بات کو مسزہسبانی نے کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔
’’تمہید مت باندھو ‘ کون ہے یہ لڑکی اور تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہے؟‘‘ وہ لمحے کے ہزاروں میں حصے میں جان لینا چاہتی تھیں۔
’’ یہ میری بیوی ہے ۔‘‘ عارفین نے بالآخر وہ بات کہہ دی تھی جو کہنی بہت ضروری تھی ۔
’’ واٹ؟ کیا مذاق ہے یہ عارفین؟‘‘ مسز ہسبانی اب جھنجھلا گئی تھیں۔
’’مذاق نہیں ہے مام … شی از مائی وائف اور یہ سب بہت اچانک ہوا میں آپ لوگوں کو ساری بات بتانا چاہتا ہوں دراصل…‘‘ عارفین کی ادھوری بات کو ہسبانی صاحب نے پورا نہیں ہونے دیا تھا ۔
’’ یہ کب ہوا یہ اہم نہیں ہے عارفین ۔ یہ کیوں ہوا؟ اتنا بڑا قدم تم نے کیسے اٹھا لیا؟ کون ہے یہ لڑکی؟ اس کا حسب نسب کیا ہے؟‘‘ وہ غضب ناک لہجے میں پوچھ رہے تھے ۔ عارفین نے گہرا سانس لے کر خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیا تھا اور مختصراََ ا لفاظ میں اس نے ساری بات بتا دی تھی۔
’’ یہ کیا کیا تم نے عارفین ۔ ایک طوائف کو کوٹھے سے اٹھا کر ہسبانی ہاؤس لے آئے وہ بھی اپنا نام دے کر ۔‘‘ مسزہسبانی کے لہجے میں حقارت تھی ۔ وہ بت بنی کھڑی اس بے تحاشہ حسین لڑکی کو اپنے نگاہوں سے ہی بھسم کر دینا چاہتی تھیں ۔
’’میرے ارمان ، تمہاری شادی کے لیے دیکھے گئے میرے خواب، سب مٹی کر دیے تم نے عارفین ۔ یہ چڑیل کہاں سے چمٹ گئی ۔ یہ تربیت تو نہ تھی میری‘اوہ مائی گاڈ ۔ ‘‘وہ غصے سے تن فن کرتی اب سر تھامے کرسی پر بیٹھ گئی تھیں اور وہ ان کے قدموں میں بیٹھا نہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا جسے وہ نہ سننا چاہ رہی تھیں نہ سمجھنا چاہ رہی تھیں۔
’’نہیں،نہیں عارفین تمہیں نہیں پتا تم نہیں جانتے ۔ اس نے اپنے حسن کے جال میں تمہیں پھنسا لیا ہے ۔ یہ دولت کے پیچھے بھاگنے والی عورتیں ۔ یہ طوائف زادیاں…وفا نہیں ہوتی ان میں ۔ یہ بس کوٹھے آباد کرتی ہیں گھر نہیں ۔ ‘‘ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں۔
’’مام پلیز،پلیز ٹرائی ٹو انڈراسٹینڈ می ۔ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ ‘‘ وہ اپنی بات نہیں سمجھا پا رہا تھا۔
’’بہت راستے تھے مدد کے عارفین مگر تمہیں دکھائی دے تب ناں ۔ تم تو اندھے ہو گئے ہو گے اس کے حسن کی چکا چوند دیکھ کر ۔مدد کرتے ‘میں کب منع کر رہی ہوں ۔ پیسہ دے دیتے ہیں ‘گھر دے دیتے ۔ اپنا نام تو نہ دیتے ۔ میرا ہیرا بیٹا … ایک طواف زادی کو اپنا نام دے بیٹھا ۔ یہ وقت دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہ گئی ۔ ‘‘ وہ باقاعدہ بین کر رہی تھیں۔
’’مام یہ اب میری بیوی ہے آپ پلیز یہ لفظ بار بار استعمال مت کریں ۔ ‘‘
عارفین کے لہجے کے ساتھ ساتھ چہرے پر بھی کرب کے تاثرات تھے ۔ یوں جیسے یہ لفظ اس کی روح کو گھائل کرتا ہو ۔ ماہ لقاہء ڈری سہمی سی اپنے اس محسن کو دیکھ رہی تھی جو اس کی ڈھال بنا ہوا تھا ۔ خود کو مشکل میں ڈال کر اس کے لیے آسانیاں کرتا یہ شخص کیا ان سختیوں کا عادی تھا؟ہرگز نہیں۔
’’کیوں نہ کروں ۔ طوائف کا تعارف طوائف ہی ہوتا ہے بس ۔یہ بہن،بیٹی، بیوی نہیں ہوتی ہیں ۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے انہوں نے ۔ یہ کسی ایک مرد کا ہو کر نہیں رہ سکتیں ۔ یہ تمہارا گھر آباد نہیں کرے گی ۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہے ہو کون سی پٹی بندھی ہے تمہاری آنکھوں پر جو تمہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔‘‘مسز ہسبانی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کن الفاظ میں بیٹے کو سمجھائیں ۔ عارفین نے عقیدت سے اپنی ماں کے ہاتھ تھامے تھے ۔
’’ مام آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں ‘یہ سب آپ کے لیے قبول کرنا ۔ وہ بھی اتنا اچانک آسان نہیں ہے مگر میں نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا ہے ۔ ایک کار ثواب کے لیے،ایک بے سہارا کو سہارا دینے کے لیے…‘‘
’’ہزاروں طریقے تھے عارفین ۔ ثواب صرف اس طوائف کو گھر میں بسانے سے نہیں ملے گا۔ بہر حال اس لڑکی سے تعلق رکھو گے تو ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس لڑکی کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔‘‘ ہسبانی صاحب جو اب تک خاموش کھڑے تھے ۔انہوں نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا تھا اور ڈائننگ روم سے باہر چلے گئے تھے ۔
’’ مام پلیز۔‘‘عارفین نے مددطلب نگاہوں سے ماں کو دیکھا تھا ۔
’’ تم نے ہمارا مان توڑا ہے عارفین ۔ جو فیصلہ ہسبانی صاحب کا ہے وہی میرا بھی ہے ۔ جس دن اس لڑکی کو چھوڑ کر آؤ گے ‘ہسبانی ہاؤس کے دروازے تمہیں کھلے ملیں گے ۔ ‘‘مسز ہسبانی نے کرسی سے اٹھ کر چند قدم آگے بڑھائے تھے ۔ ایک تنفر سے بھری نگاہ ماہ لقاہء پر ڈالی تھی جو اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔
’’اور ہاں اگر یہ لڑکی تم سے وفا کرلے تو میرا نام بدل دینا ۔ اب بھی وقت ہے عارفین چند لاکھ دے کر اسے فارغ کر دو ‘ ورنہ یہ تمہارا نام اور ساکھ دونوں مٹی میں ملا دے گی ۔ ‘‘
عارفین نے تھک کر اپنے چکراتے سر کوتھاما تھا جو مرحلہ اسے سب سے آسان لگ رہا تھا وہی سب سے مشکل ہو گیا تھا ۔ اسے لگا تھا کہ زندگی بھر اسے نیکی کا سبق پڑھانے والے اس کے والدین اپنے اکلوتے لاڈلے بیٹے کے جذبات کو سمجھ جائیں گے مگر شاید کسی غریب مسکین کی مالی مدد کرنے میں ،کسی زخمی پرندے کے زخموں پر مرہم لگانے ، کسی غریب لڑکی کی شادی کروانے اور ایک طوائف کو عزت کی زندگی دینے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ وہ کیسے اسے مردوں سے بھرے اس معاشرے کے حوالے کر دیتا ہے ۔ یہاں تو قدم قدم پر کئی سیٹھ نواز ملیں گے ۔ کوئی بھی مرد اس کی زندگی میں آتا تو کیسے ممکن تھاکہ ماضی کا طعنہ نہیں دیتا ۔ سب سے بڑا طعنہ تو خود عارفین کی ذات ہے ۔ کس رشتے،کس تعلق کی بنا پر اس نے ماہ لقاہء کی مدد کی تھی ؟ کون مانتا کہ محض انسانیت کا ناطہ تھا ۔ ایک جوان اجنبی مرد اور ایک جوان حسین لڑکی کے بیچ بھی بھلا کوئی انسانیت کا تعلق ہوتا ہے ۔ لوگ مذاق میں اڑا تے ۔ کون یقین کرتا؟ کوئی بھی نہیں… بس اسی لیے یہ قربانی عارفین ہسبانی نے خود دی تھی ۔ جو کچھ وہ آنکھوں سے دیکھ چکا ۔ دل سے محسوس کر چکا‘ وہ کسی اور کو دکھانا، سمجھانا بہت مشکل تھا ۔ زندگی بہت بڑی ہے اور یہ دنیابھری پری ۔ اس بھری پری دنیا میں یہ لمبی سی زندگی گزارنے کے لیے اس لڑکی کو ایک شریک سفر کی ضرورت تھی ۔ ایک شخص جو ماضی کے طعنوں سے اس کی روح کو چھلنی نہ کرے ۔ جواسے اس کے سیاہ ماضی کے ساتھ اپنا لے اور ایسا شخص عارفین ہسبانی کے سوا اور کون ہوگا بھلا ۔ یہ ظرف بس اسی کے پاس ہے جو پڑھ چکا تھا اس لڑکی کے من کو ۔
وہ اٹھا تھا اپنی ساری ہمت مجتمع کرکے ۔ اس کے پاس سے گزر کر وہ سامنے لاؤنج سے اوپر جاتی سیڑھیاں عبورکر گیا تھا ۔ کچھ دیر بعد لوٹا تو ایک بیگ ،چند فائلز اور گاڑی کی چابی اس کے پاس تھی۔
’’چلو۔‘‘وہ نگاہیں ملائے بغیر ماہ لقاہء سے مخاطب تھا ۔
وہ کہہ دینا چاہتی تھی کہ وہ بھلا کیوں نگاہیں چرا رہا ہے ‘وہ تو جھیل رہا تھا اپنی ذات پر سب کچھ ۔ بنا کسی خطا کے اس کی خاطر گھر سے دربدر ہو رہا تھا ۔ نگاہیں تو ماہ لقاہء کو چرانی چاہیے تھیں وہ خطا وار تھی ۔ اس کی خاطر وہ لاڈلا شہزادہ یہ سختیاں برداشت کر رہا تھا ۔ احساس شرمندگی سے وہ زمین میں گڑی جا رہی تھی ۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا بیرونی دروازے کی جانب جا رہا تھا ۔ اس کے قدموں سے قدم ملانے کے چکر میں وہ تقریباََ بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔ پورچ میں کھڑی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر اس نے دوسری طرف کا دروازہ ماہ لقاہء کے لیے کھولا تھا وہ بیٹھ تو گئی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ یہاں بیٹھنے کی اس کی حیثیت نہیں ہے ۔ پرکچھ باتیں حیثیت سے نہیں قسمت سے جڑی ہوتی ہیں ۔ وہ سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔ دونوں کے بیچ حائل گہری خاموشی کو کسی نے بھی توڑنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ کچھ بھی کہنے سننے کو نہیں تھا دونوں ہی ایک دوسرے کی دلی کیفیت سے واقف تھے ۔ گاڑی اب شہر کے نواحی علاقے میں داخل ہو گئی تھی ۔ سڑک کے دونوں اطراف بنے سر سبز کھیتوں کے درمیان بنی سیدھی سڑک سے ہوتی ہوئی ایک اور شاندار سے گھر کے سامنے رک گئی تھی گیٹ پر موجود چوکیدار نے ہاتھ ماتھے تک اٹھا کر’’سلام صاحب‘‘کا نعرہ لگایا تھا اور دروازہ وا کر دیا تھا ۔ گاڑی پارک کر کے وہ دونوں ہی گاڑی سے اتر ائے تھے۔
’’سلیم ! سکینہ بی کہاں ہیں؟‘‘ عارفین نے اسی چوکیدار دار سے پوچھا تھا جس نے گیٹ کھولا تھا۔
’’جی صاحب سکینہ اندر ہے میں بلا کے لاتا ہوں ۔‘‘ سلیم تیزی سے ایک طرف بنے سرونٹ کوارٹر کی جانب گیا تھا ۔ کچھ دیر بعد ایک درمیانی عمر کی عورت دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی آگئی تھی ۔
’’السلام علیکم صاحب بڑے دنوں بعد آج یوں اچانک ۔‘‘ خوش دلی سے اس نے عارفین سے استفسار کیا تھا۔
’’وعلیکم السلام ! سکینہ بی یہ بیگم صاحبہ کو اندر لے جائیں اور گھر میں راشن وغیرہ کا انتظام ہے ؟ نہیں ہے تو کرلیں ہم لوگ یہیں رہیں گے کچھ دن ۔‘‘عارفین نے سکینہ بی کو ہدایات دی تھیں اور اب سلیم کی جانب متوجہ ہو گیا تھا ۔
سکینہ بھی گم صم کھڑی ماہ لقاہء کو لیے اندر کی جانب بڑھ گئی تھیں ۔ ماہ لقاہء نے اندر جاتے جاتے بھی مڑ کر دیکھا تھا وہ وہیں سلیم کے ساتھ کھڑا گفتگو میں مصروف تھا ۔ بڑا سا لان عبور کر کے وہ گھر کے اندر داخل ہو گئی تھیں ۔ یہ ایک شاندار سا گھر تھا جو عارفین کی ملکیت تھا ۔ یہاں قریب ہی ان کی ملز بھی تھیں ۔ ملز کے معاملات دیکھنے وہ اکثر ہی یہاں آتا رہتا تھا ۔ دو چار دن ٹھہر کے چلا جاتا تھا ۔ سلیم اور سکینہ دونوں میاں بیوی نے گھر کا نظام سنبھالا ہوا تھا ۔ اندر کی سجاوٹ نے ماہ لقاہء کی نگاہوں کو خیراہ کر دیا تھا ۔ بہتر دیکھ بھال کی وجہ سے پورا گھر چمچما رہا تھا ۔ سکینہ بی اسے لیے بیڈ روم میں آگئی تھیں ۔ سفید اور آسمانی رنگ کے امتزاج سے سجا کمرہ‘ کمرے کی ایک دیوار شیشے کی تھی ۔ سکینہ بی نے پردے ہٹائے تھے جہاں سے پورا لان بخوبی دکھائی دے رہا تھا ۔
’’بی بی! آپ نہا دھو کر فریش ہو جائیں ۔ میں آپ کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں ۔‘‘ سکینہ بی کی بات سن کر وہ چونک کر اپنی گم صم سی کیفیت سے نکل آئی تھی۔
’’نہیں مجھے اس وقت بھوک نہیں ہے ۔ میں کچھ دیر آرام کر لوں ۔‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
’’ جی بیگم صاحبہ! جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ سکینہ بی کے جانے کے بعد اس نے بیگ سے اپنے کپڑے نکالے تھے اور واش روم میں گھس گئی تھی ۔ شاور لے کر نکلی تو نیند سے آنکھیں بوجھل تھیں ۔ مسلسل جاگتے کئی گھنٹے گزر گئے تھے وہ بے دم سی بیڈ پر گر گئی تھی ۔ سلیم کو ساری ہدایات دے کر جب وہ اندر آیا تو ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ سے برا حال تھا ۔ چند گھنٹوں کے سفر میں زندگی کہاں سے کہاں لے آئی تھی ۔ سکینہ بی کچن میں کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں ۔
’’سکینہ بی! کسی چیز کی ضرورت تو نہیں تھی بی بی کو؟‘‘ غالباََ وہ اس کی خیریت دریافت کرنا چاہ رہا تھا۔
’’ نہیں صاحب بی بی نے کہا ہے کہ وہ کچھ دیر آرام کریں گی ۔‘‘ سکینہ بی کا جواب سن کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔ کمرے میں آکر بستر پر گرتے ہی عارفین ہسبانی دنیا اور مافیا سے بے خبر ہو گیا تھا ۔ نا جانے کتنے گھنٹے بیت گئے تھے ۔ جب عارفین کی آنکھ کھلی بھوک سے برا حال تھا ۔ صبح ناشتے کے بعد سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا ۔ آگے بڑھ کر اس نے پردے سرکائے تھے ۔ لان میں رات پوری طرح اتر آئی تھی ۔ فریش ہو کر وہ لاؤنج میں چلا آیا تھا پورا گھر اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبوں سے مہک رہا تھا ۔ سکینہ بی کچن ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھی اونگھ رہی تھیں ۔ آہٹ پر چونک کر اٹھی تھیں۔
’’صاحب کھانا لگا دوں؟‘‘ وہ اسے دیکھ کر لاؤنج میں چلی آئی تھیں ۔عارفین نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا تھا۔
’’جی کھانا لگا دیں۔بی بی نے کھایا ہے کچھ ؟ ‘‘
’’نہیں صاحب بی بی تو ابھی تک سو رہی ہیں ۔‘‘ سکینہ بی نے عارفین کو جواب دیا تھا اور خود کچن میں چلی گئی تھیں کھانا لگانے کے لیے ۔ وہ جو کہنے والا تھا کہ بی بی کو جا کر اٹھا دیں۔ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آف کیا تھا۔
ہلکی سی دستک دے کر اس نے ناب گھمائی تھی۔کمرہ اندر سے لاک نہیں تھا۔وہ اندر چلا آیا تھا ۔ وہ بیڈ پر نیم دراز گہری نیند میں تھی جب ہی آہٹ پر اس کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔ گھنگھریالے بالوں کا سنہرا آبشار عارفین نے پہلی بار دیکھا تھا ۔ اس کے گھنے اور بے تحاشہ لمبے بال تکیے پر پھیلے ہوئے تھے ۔ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔نا جانے کس کے گھر کی رحمت نہیں جو یہاں وہاں بھٹک رہی تھی ۔ بیڈ کے قریب آ کر عارفین نے دھیرے سے اسے پکارا تھا ’’ماہ لقاہء‘‘ دوسری بار آواز دینے پر وہ کسمسائی تھی ۔ دھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں اور عارفین کو سامنے کھڑا دیکھ کر جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی ۔ تکیے کے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر اپنے گرد لپیٹا تھا ۔ کمر تک آتا سنہرا آبشار دوپٹے کے نیچے سے ہنوز جھانک رہا تھا ۔ عارفین نے کرسی گھسیٹ کر بیڈ کے قریب کی تھی اور اطمینان سے بیٹھ گیا تھا۔