سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران
آج کا سورج جو طلوع ہوا وہ نئی امنگیں لیے ہوا تھا ۔ ماہ لقاہء کئی طرح کے وسوسوں کے باوجود پر امید تھی ۔ کہیں دل کے کسی کونے میں ڈر اور خوف بھی کنڈلی مارے بیٹھا تھا ۔ ننھا سا دل ڈوبا جا رہا تھا ۔ دور کہیں روشنیوں کا ایک جہاں نظر آرہا تھا اور وہاں تک جانے کا تاریک راستہ اس اجنبی نے روشن کرنا تھا ۔ جس سے کوئی شناسائی نہیں تھی مگر پھر بھی ایک انجانا سا تعلق بن چکا تھا ۔ چنبیلی کی آنکھیں صبح سے کئی بار بھیگی تھیں ۔وہ خیر خواہ تھی، وہ راز دار ، وہ ہمدرد، وہ سہیلی، وہ دوست وہ ایک واحد رشتہ ۔ جو یہاں اس جگہ ہی بنا تھا ۔ ماہ لقاہء کے دل کے قریب تھا ۔ چنبیلی سے الوداعی ملاقات تھی ۔ وہ دونوں ہی اس وقت بھاری دل کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں ۔
’’ بی بی اپنا بہت خیال رکھنا تم واقعی یہاں کی نہیں ہو ۔ تمہاری روح پاک ہے ۔ میری نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں تمہیں تمہاری منزل ملے ۔ تمہارے دل کو اطمینان نصیب ہو ۔‘‘چنبیلی کا لہجہ اس کی اندرونی کیفیت کا ترجمان تھا۔
’’ تم بھی میرے ساتھ چلو چنبیلی! تم پر بھی تو میری طرح یہاں کے رنگ نہیں چڑھتے ۔ ‘‘ماہ لقاہء کی بات سن کر چنبیلی مسکرائی تھی ۔
’’نہ بی بی ! ہماری جنس تو ویسے ہی باہر والوں کے لیے ایک مذاق ہے ، تماشہ ہے ۔ ہم یہاں سے نکل کر مزید تماشہ بن جائیں گے ۔ یہاں تو ہمیں اچھی یا بری کسی بھی نگاہ سے دیکھنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا اور یہی ہمارے حق میں بہتر ہے ۔ میں تمہاری طرح بہادر نہیں ہوں میں اکیلی تنہا باہر کی دنیا کا سامنا نہیں کر سکتی۔‘‘
’’سامنا تو کرنا پڑے گا چنبیلی ۔ خود کو مضبوط کرنا پڑے گا ۔ ایک روشن سحر کی خواہش میں لمبی سیاہ طویل رات کا سفر ہے ۔ میری کشتی نے تو یہاں بھی ڈوب ہی جانا ہے پھر طوفانوں کے حوالے کرنے میں کیا حرج ہے بھلا ۔ سوچو اگر پار لگ گئی ۔ کنارے پہنچ گئی تو زندگی کتنی شانت ہوگی ۔ من مرضی کی… دنیاوی رشتہ تو کوئی بھی نہیں ہے میرے پاس ۔ حقیقی رشتہ میرے رب سے جو جڑا ہے کم سے کم اس رشتے کی لاج تو رکھ پاؤں گی ۔ وہ خواب ، وہ سحر ، وہ اذانوں کی آوازیں نجانے کیا کہہ رہی ہوتی ہیں ۔ مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے وہ میرے والدین کی جانب سے کی گئی دعائیں ہیں جو میری راہیں روشن کر رہی ہیں ۔ مجھے فلاح کی طرف بلا رہی ہیں اور جس کے ساتھ ماں باپ کی دعائیں ہیں وہ کبھی ناکام ہو سکتا ہے بھلا ۔ تم میرے لیے پریشان مت ہونا بس دعا کرنا ۔ ‘‘ماہ لقاہء کے چہرے پر پھیلے اطمینان ۔ اس کے لہجے کے ٹھہراؤ نے چنبیلی کے دل کو ڈھارس دی تھی۔
’’ کسی پریشانی میں ہو تو کہلوا دینا ۔ کسی طرح اپنی منزل‘ اپنے ٹھکانے کا پتہ دینا ۔ اپنی خیریت کی اطلاع کرنا ۔ زندگی رہی اللہ نے چاہا تو کسی اچھی جگہ ملاقات ہوگی ۔ میں ہر پل دعا گو رہوں گی۔‘‘ چنبیلی نے بھاری دل اور نم آنکھوں سے ماہ لقاہء کو الوداع کہا تھا۔
٭…٭…٭
رات ہونے والی محفل اب تھم چکی تھی ۔ کوٹھے پر موجود ہر زی روح نیند سے بوجھل آنکھیں لیے اپنے بستر پر دراز ہو چکا تھا ۔ منوہرداس کی چائے میں چنبیلی نے نیند کی گولی ڈال دی تھی ۔ گھنٹہ بھر سے جمائیاں لیتے لیتے منوہر داس تھک ہار کر اب اپنی چارپائی پر نیم دراز ہو چکا تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گہری نیند میں بے سدھ پڑا تھا ۔ چنبیلی نے پاس جا کر تصدیق کی تھی اور ماہ لقاہء کو اشارہ کر دیا تھا ۔ پوپھٹنے میں ابھی چند لمحے باقی تھے ۔ چھوٹے سے سیاہ بیگ میں اپنے چند جوڑے رکھے وہ یہاں سے نکل جانے کے لیے تیار کھڑی تھی ۔ بالکونی سے نیچے جاتا تنگ زینہ اور نیچے دیوڑھی میں بنا بیرونی دروازہ عبور کرنا اس وقت پل صراط پار کرنے کے برابر لگ رہا تھا۔ وہ سیاہ چادر کی بکل مارے‘ رات کے آخری پہر کی سیاہی سے فائدہ اٹھاتی دھڑکتے تیز دل کے ساتھ دبے قدمو ں زینہ اتر کر گیٹ پار کر گئی تھی ۔ باہر اندھیری ویران گلی میں بھونکتے آوارہ کتوں کی تیز آواز نے اس کے قدم لڑکھڑائے تھے۔ دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا مگر وہ تیز تیز چلتی گلی کا موڑ مڑ گئی تھی ۔ پھولوں والے ٹھیلے کے پاس وہ وعدہ کے مطابق موجود تھا ۔ دور سے آتے وجود کو دیکھ کر عارفین نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تھا ۔ ماہ لقاہء کے قریب آتے ہی عارفین نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
’’ بیٹھو ۔ ‘‘
وہ ڈری سہمی سی بیٹھ گئی تھی اور دو انجان لوگوں کا انجانی منزل کی جانب سفر شروع ہوا تھا اور یہ وہی وقت تھا بس کچھ ہی دیر بعد اذان کی صدائیں بلند ہوئی تھیں ۔ سیاہ آسمان کے کناروں سے جھانکتے دودھیارنگ نے پوپھٹنے کی نوید دی تھی ۔ پنچھیوں نے اپنے رب کی حمد و ثنا سے سحر کا استقبال کیا تھا ۔ وہی خواب آج مجسم تھا ۔ ماہ لقاہء کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں ‘ وہی خواب جس نے از حد بے چین کیا تھا اسے ‘جس نے جسم میں فلاح کی روح پھونکی تھی ۔ جو دعاؤں کا ثمر تھا ۔ اسی خواب نے آج سیاہ رات سے نکال کر روشن سویروں کے حوالے کر دیا تھا ماہ لقاہء کو ۔ وہ اس اندھیر نگری سے نکل آئی تھی مگر باہر کی اس بھری پری دنیا میں اب بالکل تنہا تھی ۔ یہ شخص جو اس کے ساتھ بے حد خاموشی سے محو سفر تھا یہ تو بس چند گھنٹوں کا ہم سفر تھا ۔ ماہ لقاہء کی منزل آتے ہی اس مہرباں نے چلے جانا تھا ۔ یہ خیال ماہ لقاہء کی آنکھیں ڈبڈبا رہا تھا کہ وہ کتنی بے بس ہے ‘ کتنی اکیلی… اپنے گھر اپنے ماں باپ سے بچھڑی ہوئی ۔ کاش اسے کچھ علم ہوتا ۔ کاش وہ یہاں سے نکل کر سیدھا اپنے گھر جا سکتی تو زندگی کتنی سہل ہو جاتی ۔ ابھی تو نہ جانے کتنے امتحان باقی تھے اسے خبر ہی نہیں تھی کہ وہ کب سے زار و قطار رو رہی تھی ۔ گاڑی ایک جگہ رکی تو ماہ لقاہء اپنے الجھے ہوئے خیالات سے نکل کر حال میں لوٹ آئی تھی۔
’’آپ کی منزل ۔‘‘ عارفین نے گاڑی کے شیشے سے باہر کی جانب اشارہ کیا تھا۔
ماہ لقاہء نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تھا ۔ وہ خواتین کے کسی دار العلوم کی عمارت تھی ۔ وہ سر جھکائے عار فین کے سامنے کھڑی تھی ۔
’’ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں۔‘‘ بھیگا لہجہ، بھیگی آنکھیں اور سرخ پڑتی ناک … عارفین نے غور سے اس لڑکی کے چہرے کو دیکھا تھا جو واقعی قابل رحم حالت میں تھی ۔
’’اس کی ضرورت نہیں مگر آپ رو کیوں رہی ہیں ؟ ‘‘ عارفین کے سوال پر ماہ لقاہء کی آنکھیں پھر چھلک پڑی تھیں ۔ اس قدر کے وہ کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی ۔ عارفین نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا تھا شکر ہے کہ اس وقت لوگ نہ ہونے کے برابر تھے کیونکہ دن ابھی پوری طرح نہیں نکلا تھا ۔
’’دیکھیں میری پوزیشن کمزور ہو رہی ہے ۔ آپ اس طرح مت روئیں ۔‘‘ عارفین کی بات سمجھ کر ماہ لقاہء نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے وہ اس کا محسن تھا ۔ اس کی وجہ سے وہ کسی مشکل میں گرفتار ہو یہ ماہ لقاہء کو گوارا نہیں تھا ۔
’’ مجھے اپنے ماں باپ یاد آرہے ہیں ۔ مجھے پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ اس دنیا میں کہاں ہیں ۔ میرے والدین بہن بھائی سب کہیں نہ کہیں تو ہوں گے نا مگر میں اس پوری دنیا میں بالکل اکیلی ہوں ۔ ایک امتحان سے میں گزر آئی ہوں آگے بھی اللہ مالک ہے ۔ ‘‘ ماہ لقاہء نے اپنے رونے کی وضاحت کی تھی اور اس کا شکریہ ادا کر کے دارالعلوم کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔
اس کے اٹھتے قدموں نے عارفین کے دل کو جکڑ لیا تھا ۔ وہ اکیلی تنہا لڑکی اور ستم یہ کے بلاکی حسین و خوبصورت اور اس دنیا میں موجود لاکھوں بھیڑیے ۔ جو انسانوں کے روپ میں یہاں وہاں دندناتے پھرتے ہیں ۔ یہ نئی جگہ نہ جانے اسے راس آنے والی تھی یا نہیں ۔ اس کے ماں باپ کو ڈھونڈنا تو تقریباََ ناممکن تھا اور ان کے علاوہ کوئی بھی رشتہ کوئی بھی اپنا اس روئے زمین پر نہیں تھا ۔ جو اس ڈری سہمی لڑکی کو سہارا دے سکتا اور بس چند لمحے لگے تھے عارفین ہسبانی کو سوچنے میں ۔ دوسرے لمحے اس نے یکدم ہی ماہ لقاہء کو پکارا تھا۔
’’سنو رک جاؤ ۔‘‘ عارفین کی آواز پر اس نے رک کر سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’تم نے مجھ پر اعتبار کیا تھا نا ۔ بنا کسی کے کہے ‘ بنا مجھے جانے ۔ اس بار میرے کہنے پر مجھ پر اعتبار کر کے دیکھو۔ میرے ساتھ چلو۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ عارفین کی بات سن کر ماہ لقاہء نے حیرانی سے استفسار کیا تھا ۔
’’کہا نا اعتبار کر کے دیکھو پھر سے ۔‘‘ عارفین نے دوستانہ مسکراہٹ اچھالی تھی اور گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی ۔ جیسے یقین ہو کہ وہ ضرور ساتھ چلے گی ۔ ماہ لقاہء نے چند پل ہی سوچا تھا اس شخص کے ساتھ وہ ایک رات کا سفر کر آئی تھی ۔ نہ جانے انسان تھا یا فرشتہ ۔ وہ خاموشی سے آ کر گاڑی میں گئی تھی اور ایک بار پھر اپنے آپ کو انجانی منزل کے حوالے کر دیا تھا ۔ گاڑی ایک عمارت کے احاطے میں رکی تو خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھی ماہ لقاہء نے چونک کر دیکھا ۔ یہ سٹی کورٹ کی عمارت تھی ۔ شاید عارفین کو یہاں کوئی کام ہو ۔ آخر کو اتنا بڑا بزنس مین ہے ۔ سو طرح کے قانونی معاملات ہوتے ہیں ۔ اپنے تئیں اس نے سوچا تھا ۔ عارفین نے اسے یہیں رکنے کا اشارہ کر کے گاڑی سے باہر نکل کر مصروف سے انداز میں کال ملائی تھی ۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھا ۔ کچھ دیر تو دھیمے لہجے میں بات کی تھی مگر اب وہ زور و شور سے کسی کو منا رہا تھا ۔
’’ میں کہہ رہا ہوں کہ بس تو ابھی اسی وقت یہاں پہنچ مجھے ضرورت ہے تیری ۔ سمجھا کر یار یہ وقت نہیں ان باتوں کا ۔ پوری کہانی تجھے سنا تو دی ہے ۔‘‘ عارفین کی آواز قدرے اونچی ہونے کے باعث ماہ لقاہء کے کانوں تک بھی بخوبی پہنچ رہی تھی ۔
’’ ہاں ٹھیک ہے ۔ ٹھیک ہے ۔ آجا بس جلدی ۔‘‘ عجلت میں عارفین نے بات ختم کی تھی پھر اس کی طرف واپس آیا تھا ۔
’’آؤ میرے ساتھ۔‘‘ عارفین کے کہنے پر ماہ لقاہء نے اس کی پیروی کی تھی ۔ وہ پوری طرح اس شخص کے بھروسے اور سہارے پر تھی ۔ نہ جانے یقین اور اعتبار کی کیسی ان دیکھی ڈور تھی جس نے ان دونوں کو اس وقت باندھا ہوا تھا ۔ وہ اسے لیے ہوئے ’’ایڈوکیٹ امتیاز لغاری‘‘ کے کیبن میں داخل ہوا تھا جو عارفین کو دیکھتے ہی اپنی سیٹ سے کھڑے ہو گئے تھے ۔ خو شدلی سے مصافہ کیا تھا ۔ برسوں کی شناسائی لگتی تھی ۔ انہوں نے اس کے والدین کی خیریت بھی دریافت کی تھی ۔ عارفین نے ماہ لقاہء کو دیوار کے ساتھ رکھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا تھا اور خود وکیل صاحب کی ٹیبل کے ساتھ والی سیٹ سنبھال لی تھی۔
اب وہ اتنے دھیمے لہجے میں ان سے محو گفتگو تھا کہ ماہ لقاہء کے پلے کچھ بھی نہیں پڑ رہا تھا ۔ ویسے بھی اسے یہاں ہونے والی کسی بھی بات میں دلچسپی نہیں تھی ۔ وہ یہ جانتی تھی کہ یہ اس کی منزل نہیں ۔ بس راستے میں پڑنے والا پڑاؤ ہے ۔ وہ اس وقت بے حد ذہنی انتشار کا شکار تھی ۔ تھکا ہوا ذہن کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں تھا ۔ پتا ہی نہیں چلا یونہی بیٹھے بیٹھے وہ کچھ دیر بعد غنودگی میں چلی گئی تھی ۔ صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر اس نے آنکھیں موند لی تھیں۔
٭…٭…٭
دور سے آتی اپنے نام کی صدا پر ماہ لقاہء کا ذہن دھیرے دھیرے بیدار ہو رہا تھا ۔ بھاری پلکوں کو کھولنے کی کوشش کرتی ماہ لقاہء کا کندھا عارفین نے جھجھک کر ہلایا تھا ۔ تب یکدم ہی اس نے اپنی آنکھیں پوری کھول دی تھیں ۔ بے اختیار وہ سیدھی ہو بیٹھی تھی اور اپنی چادر کندھوں پر درست کی تھی ۔ اس نے اتنی بڑی چادر لی ہوئی تھی جس نے اسے سر سے پیر تک ڈھانپا ہوا تھا ۔ عارفین نے صوفے پر اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے دھیرے دھیرے اسے کچھ سمجھایا تھا ۔ اس نے حیرانی سے عارفین کے چہرے کی طرف دیکھا تھا جو اس وقت بے حد سنجیدہ تھا ۔ اس کے نیم بیدار ذہن کو اس تمام سچویشن کو سمجھنے کے لیے چند ثانیے لگے تھے ۔ ماہ لقاہء کا ذہن اب پوری طرح بیدار ہو چکا تھا وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی ۔ اس نے پورے کمرے کا جائزہ لیا تھا ۔ کمرے میں ان تینوں کے علاوہ اب وکیل صاحب کی لیڈی اسسٹنٹ ۔ خیام اور ایک دو لوگ اور بھی موجود تھے ۔
’’تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں؟‘‘ عارفین نے جھک کر اس کے بے یقین چہرے کو دیکھا تھا۔
’’مگر آپ… آپ کیوں میری وجہ سے۔‘‘ الفاظ اس کی زبان سے ادا ہی نہیں ہو رہے تھے ۔ادھوری بات،بے ربط جملے جنہیں عارفین نے کوئی اہمیت ہی نہیں دی تھی ۔
’’کچھ مت سوچو ۔ چھوڑ دو سب کچھ ۔ کرو گی بھروسہ مجھ پر؟‘‘ اور ماہ لقاہء کے پاس اس وقت عارفین پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ لیڈی اسسٹنٹ ماہ لقاہء کے برابر آ بیٹھی تھی ۔ خیام کے کہنے پر وکیل صاحب نے اپنی کاروائی شروع کی تھی ۔ ماہ لقاہء نے دھڑ کتے دل کے ساتھ تین بار اپنی رضامندی دی تھی ۔ وکیل صاحب نے پیپرز اس کے سامنے کیے تھے ۔ کپکپاتے ہاتھوں سے ماہ لقاہء نے اپنا نام لکھا تھا ۔ عارفین نے بے ساختہ خیام کو گلے لگایا تھا ۔وہ دونوں دیر تک بغل گیر رہے ۔
’’مجھے پتا تھا اس مشکل وقت میں تو ہی میرا ساتھ دے گا ۔ تیرے جیسا یار کہاں۔ کہاں ایسا یارانہ۔‘‘ عارفین نے ممنونیت سے کہا تھا۔
’’تجھے اپنی منوانی بھی خوب آتی ہے ۔ سلامت رہو ‘خوش رہو ۔‘‘ خیام کے لہجے میں دوست کی محبت بول رہی تھی مگر چھیڑنے سے باز کہاں آنے والا تھا ۔
’’آگے آنے والے طوفانوں ‘زلزلوں کے جھٹکوں سے بھی خدا تجھے بچائے ۔ خیر منا اپنی ۔اب تو جانے تیرا کام جانے ۔ گہری نیند سے جگا دیا تو نے ۔اب مجھے اجازت د۔‘‘
’’اجازت ہے ‘بس دعا کرنا ۔ اللہ خیر کرے گا۔‘‘ عارفین نے گرم جوشی سے ایک بار پھر خیام کو گلے لگایا تھا ۔
’’ضرورت پڑے تو یاد کر لینا ۔‘‘ خیام نے جاتے جاتے بھی صدا لگائی تھی ۔
خیام کے جانے کے بعد عارفین نے وکیل صاحب کے ساتھ کچھ ضروری قانونی معاملات نبٹائے تھے اور اب وہ’’ماہ لقاہء عارفین ہسبانی‘‘ کے سامنے پورے حق سے کھڑا تھا۔
’’ چلیں؟‘‘ وہ بنا اس کی جانب دیکھے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ گو کہ اس نئے تعلق سے دونوں ہی نفوس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا مگر بہرحال ایک بندھن بندھ چکا تھا ۔ ایک شرعی اور قانونی رشتہ۔ماہ لقاہء کا دل عجیب سی الجھن اور احسان مندی سے بھرا ہوا تھا جبکہ عارفین ہسبانی پہلے کی نسبت زیادہ پرسکون محسوس کر رہا تھا ۔ ایک گلٹ جو وہ ایک انجان لڑکی کے ساتھ محسوس کر رہا تھا وہ اب نہیں رہا تھا اب وہ حقیقتاََ اس کا سرپرست تھا۔
ایک بار پھر سے سفر شروع ہوا تھا ۔ ماہ لقاہء کے لیے منزل انجانی تھی مگر ہم سفر اب اجنبی نہیں رہا تھا ۔ چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے آگے عارفین نے گاڑی روک دی تھی۔
’’آئو کچھ کھا لیتے ہیں ۔‘‘ وہ آگے آگے چل رہا تھااور ماہ لقاہء اس کے قدم سے قدم ملانے کی کوشش کرتی اس کے پیچھے پیچھے ۔ عارفین نے ناشتے کا آرڈر دیا تھا اور تھکے تھکے انداز میں اپنے بکھرے بالوں کو درست کیا تھا ۔ گہرا سانس بھر کر وہ اس سے مخاطب تھا۔
’’ تم جانتی ہوں میں نے یہ کیوں کیا ہے ؟ تمہیں پروٹیکٹ کرنے کے لیے ۔ میں ایک اجنبی لڑکی کو ساتھ لیے نہیں پھر سکتا ۔نہ ہی تمہیں اپنے ساتھ رکھ سکتا تھا ۔ یہ بہت ضروری تھا کہ میرا تم سے ایک جائز رشتہ ہو جس کے بل بوتے پر میں تمہارے لیے کھڑا ہو سکوں ‘اسٹینڈ لے سکوں ۔‘‘
ماہ لقاہء نے سر اٹھا کے دیکھا تھا وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا ۔ جسمانی تھکاوٹ کے علاوہ یقینا وہ اس وقت اعصابی تھکن کا شکار بھی تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس کی ایک فیملی بھی تھی ۔ جنہیں وہ اپنے اس فعل کا جوابدہ تھا ۔ اسے ابھی بہت سے پڑاؤ پار کرنے تھے ۔ اس کی خاطرخود کو مصیبت میں پھنسا بیٹھا تھا ۔ وہ اس کی ہمت اس کی جرات کو من ہی من میں سلام پیش کر رہی تھی ۔
’’آپ نے میری وجہ سے خود کو مشکل میں کیوں ڈالا ؟ میں ایک طوائف زادی ہوں اور آپ کا اعلیٰ خاندان ۔ میرا اور آپ کا کیا جوڑ بھلا ۔ مجھے آپ کے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا۔ سیکڑوں لڑکیاں رہتی ہیں دارالعلوم میں ۔ میں بھی رہ لیتی ۔ میں نے بہت…بہت پریشان کر دیا آپ کو ۔‘‘ وہ لہجے کی نمی کو چاہ کر بھی چھپا نہیں پا رہی تھی۔