مکمل ناول

سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران

’’کہاں گم ہے بھائی۔‘‘خیام کی آواز اسے حال میں لائی تھی ۔
’’ دیر ہو گئی ہے بہت گھر ڈراپ کردے بس۔‘‘ڈنر کے بعد خیام نے اسے گھر کے سامنے اتارا تھا اور پھر خود بھی اپنے گھر کی راہ لی تھی۔
گھر آ کر مام ڈیڈ سے ملنے کے بعد کمرے میں آنے تک عارفین کے ذہن سے وہ رقعہ مہو ہو چکا تھا ۔ وہ بستر پہ لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا جب اچانک ہی اسے خیال آیا تھا اٹھ کر وارڈ روب کھولی تھی اور شرٹ کی جیب سے رقعہ نکال کر واپس بیڈپر آ کر بیٹھ گیا تھا ۔
’’ بہت مجبور ہوں ۔ بڑی مصیبت میں ہوں پلیز میری مدد کریں ۔ ایک بار ملنے کی خواہش مند ہوں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔ (ماہ لقاہء) ‘‘
عجلت میں لکھا گیا تھا ۔آدھی ادھوری سی چھوٹی سی تحریر تھی ۔ کچھ بھی واضح نہیں تھا ۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ عارفین مزیدالجھ گیا تھا۔
عجیب معاملہ ہے جہاں بندہ تین لائنیں لکھ رہا ہے ۔ چھ بھی لکھی جا سکتی تھیں ۔ بات پوری بھی بتائی جا سکتی تھی ۔ اب پتہ نہیں یہ ماہ لقاہء کون ہے ۔ جس نے یہ رقعہ دیا تھا اسے تو سب وہاں چنبیلی کے نام سے پکار رہے تھے ۔ سوچتے سوچتے نا جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں چلا گیا تھا۔
دو چار دن یوں ہی بزنس کی مصروفیت میں گزر گئے تھے ۔ عارفین کی بالکل سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس پرچے کا کیا کرے ۔ آیا خیام کو بتائے یا راز ہی رکھے ۔ کئی طرح کے وسوسے بھی اسے گھیر رہے تھے ۔ کہیں یہ کوئی چال نہ ہو مجھے پھنسانے کے لیے ۔ لیکن اگر کسی کوواقعی میری مدد کی ضرورت ہوئی تو…کیا کروں یار ۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو رہی تھی ۔ سوچ کے تانے بانے رہ رہ کر وہیں مڑ رہے تھے بار بار اور پھربلآ خر اس نے ایک فیصلہ کر ہی لیا۔ ڈرتا وہ کسی سے نہیں تھا۔ ایڈونچرز کا بھی شوقین رہا تھا سو اس نے وہاں جا کر معاملے کی تہہ میں جانے کی ٹھان لی۔
٭…٭…٭
سورج اس وقت اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔ جب وہ وہاں پہنچا ماہ پارا بیگم نیند سے بھری آنکھیں لیے اپنے تخت پر براجمان تھیں ۔ آج وہ تنہا آیا تھا ۔ عارفین کو دیکھ کر ماہ پارابیگم کے ساتھ ساتھ چنبیلی کی آنکھیں بھی چمک اٹھی تھیں ۔
’’اس ٹائم کیسے میاں ؟ یہ محفل کا وقت نہیں ہے ۔ محفل تو رات کو ہوگی۔‘‘ امیر زادے کو دیکھ کر دل میں پھوٹتے لڈو چھپا کر بظاہر بیزار لہجے میں پوچھا تھا ۔
’’ مجھے ماہ لقاہء سے ملنا ہے۔‘‘ عارفین نے سیدھی بات کی تھی۔
’’ یہاں ایسے ملاقاتیں نہیں ہوتیں میاں۔‘‘ ماہ پارا بیگم نے پھر منہ بگاڑا تھا ۔
آج تو اس عورت کے مزاج ہی نہیں مل رہے تھے ۔ وہ مسلسل عارفین کا ضبط آزما رہی تھی ۔ عارفین نے دانت پردانت جمع کر اپنے آپ کو کوئی بھی سخت بات کہنے سے روکا تھا ۔ ماہ پارا بیگم کی اٹھی ہوئی سوالیہ ابرو سے وہ جان گیا تھا کہ بات کا مفہوم کیا ہے ۔ اس نے جیب سے بھاری لفافہ نکالا تھا اور ماہ پارا بیگم کے تخت پر رکھ دیا تھا ۔ ماہ پارا بیگم کے تیور ہی بدل گئے تھے ۔
’’ جا چنبیلی ‘ مہمان کمرے میں لے جا صاحب کو۔‘‘
اور چنبیلی تو حکم کے انتظار میں تھی ۔ وہ اسے لیے سامنے بنے چھوٹے سے کمرے میں چلی آئی تھی ۔ جہاں پرانی طرز کے صوفے اور ایک میز موجود تھی ۔ ادھ کھلے دروازے سے ماہ پارا بیگم بھی بخوبی نظر آرہی تھیں ۔ چنبیلی اسے بیٹھنے کا کہہ کر چلی گئی تھی ۔ کچھ دیر بعد وہ ماہ لقاہء کے ساتھ لوٹی تھی ۔
’’صاحب۔‘‘ وہ جو جیبوں میں ہاتھ دیے کھڑا تھا ‘چنبیلی کی آواز پر چونک کر مڑا تھا ۔ چنبیلی ماہ لقاہء کو وہیں کھڑا چھوڑ کر کمرے کی چوکھٹ پر کھڑی ہو گئی تھی ‘جیسے بظاہر پہرا دے رہی ہو ماہ پارابیگم کو مطمئن کرنے کے لیے مگر ماہ پارا بیگم کو کیا خبر تھی کہ ’’چوکیدار ہی چور ہے ‘‘ ماہ لقاہء چند قدم آگے آئی تھی ۔ عارفین نے غور سے اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔ وہ اس لڑکی کو پہلے بھی دیکھ چکا تھا ۔ ہاں وہ وہی رقاصہ تھی ۔ عارفین کو ٹھیک سے یاد آگیا تھا ۔ آج وہ یکسر مختلف حلیے میں تھی ۔ سر سے پیر تک کالے سیاہ لباس میں ملبوس تھی ۔ اس کا صبیح چہرہ سیاہ دوپٹے کے ہالے میں ایسے دکھ رہا تھا جیسے بدلی میں چھپا چاند ۔ وہ با مشکل سترہ‘ اٹھارہ سال کی انتہائی حسین لڑکی تھی ۔
’’ جی فرمائیے ؟ ‘‘ عارفین کے مخاطب کرنے پر اس نے سر اٹھایا تھا۔
’’ بیٹھیے۔ ‘‘ اسے بیٹھنے کا کہہ کر وہ خود بھی سامنے والے صوفے پر ٹک گئی تھی ۔
’’ کیوں ملنا چاہتی تھیں آپ مجھ سے ؟ میں تو ڈھنگ سے آپ کو جانتا بھی نہیں ۔‘‘ عارفین کے سوال پر اس نے محتاط انداز میں دروازے کی اور دیکھا تھا اور پھر دھیمی سرگوشی نماں آواز میں بولی تھی ۔
’’ مجھے مدد کی ضرورت ہے میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں ۔ مطلب اس گناہ کی زندگی سے ۔ پلیز میری مدد کیجئے ۔ آپ نے اس دن بھی میری مدد کی تھی ۔‘‘
’’دیکھیے ہماری کوئی شناسائی نہیں ۔ میں آپ پر کیسے اعتبار کروں ؟ میرے خیال سے تو یہاں کے لوگ اعتبار کے قابل نہیں ہوتے ہیں ۔ پھر یہاں آپ کی فیملی ہے ۔آپ یہاں سے نکل کر کہاں جائیں گی؟‘‘ ماہ لقاہء کے محتاط انداز کو دیکھتے ہوئے عارفین نے بھی اپنی آواز دھیمی رکھی تھی۔
’’نہیں یہ میری فیملی نہیں ہے۔‘‘ وہ جیسے تڑپ اٹھی تھی۔
’’مجھے تو یہاں اغوا کر کے لایا گیا تھا ۔ مجھے اپنے گھر اور گھر والوں کا کچھ علم نہیں ہے ۔ میں تو بس یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں ۔ کہیں بھی ‘کسی بھی دارلعلوم میں رہ لوں گی ۔ وہ سیٹھ نواز وہ بس آج یا کل میں خانم کو رقم… پھر میں کیا کروں گی۔‘‘ وہ بولتے بولتے ہیں آخر میں خود کلامی کی کیفیت میں چلی گئی تھی ۔ بے ربط جملے بھی عارفین کو بہت کچھ سمجھا رہے تھے ۔ وہ چہرے سے ہی پریشان دکھائی دے رہی تھی ۔ تھک کر اس نے اپنا سر تھام لیا تھا ۔
’’ ریلیکس‘ ریلیکس ۔ یہاں سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ چھپ کر؟‘‘ عارفین ابھی بھی الجھن کا شکار تھا ۔
’’جی ہاں ۔ پتا نہیں کیسے ۔ منوہر داس تو سوتا بھی ہے تو لگتا ہے آنکھیں کھول کر سو رہا ہے ۔ ذرا سی آہٹ پر اٹھ بیٹھتا ہے۔‘‘ ماہ لقاہء نے پریشانی سے اپنی انگلیاں مڑوڑی تھیں ۔
’’آپ کو پلیز اللہ کا واسطہ ہے ۔ مجھے اس جگہ سے نکال دیں کسی طرح ۔ میں نے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں ورنہ میں اکیلی ہی۔‘‘
’’ مجھ پر اعتبار کی وجہ؟ میں تو یکسر اجنبی ہوں؟‘‘ عارفین نے اس کی بات کاٹی تھی اور بغور اس کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں سچائی رقم تھی۔
’’ بس پتا نہیں مجھے آپ کا خیال کیوں آیا شاید اس لیے کہ آپ نے اس دن بھی میری مدد کی تھی ۔ آپ ان سب سے الگ لگے تھے جو روز یہاں آتے ہیں ۔ یہاں لوگ بس تماشہ دیکھتے ہیں ۔ کوئی ہمارا احساس نہیں کرتا ۔ ‘‘
عارفین نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس کے چہرے پر سے نگاہ ہٹائی تھی ۔اس لڑکی نے سارے کا سارا بوجھ عارفین کے کندھے پر ڈال دیا تھا ۔ خود تو اس کے پاس ہر بات کا بس یہی جواب تھا کہ پتا نہیں۔
’’دیکھو میں وعدہ نہیں کر رہا لیکن میں کوشش کروں گا ۔ پہلے تو اپنے دل کو تم پر اعتبار کرنے کے لیے آمادہ کروں گا ۔ پھر ہی کچھ ممکن ہے ‘تم سے دوبارہ رابطے کا ذریعہ ؟یہ میڈم تو بہت نک چڑھی ہے بھئی ۔‘‘ عارفین نے ماہ پارا بیگم کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’ یہی جو طریقہ میں نے اپنایا تھا ۔چنبیلی میری ہم راز ہے۔‘‘
’’اوکے…‘‘ عارفین اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھتے بڑھتے وہ لمحہ بھر کو رکا تھا۔
’’یاد رکھنا کوئی وعدہ کر کے نہیں جا رہا ہوں۔‘‘بنا مڑ کے دیکھے وہ دروازے کی چوکھٹ عبور کر گیا تھا ۔
ماہ لقاہء نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا تھا ۔ ماہ پارا بیگم کو بھی مطمئن کر دیا تھا کہ’’شمع سے پروانے کی ملاقات تھی بس‘‘ ماہ پارا بیگم خوش تھیں ۔ وہ بڑی رقم دے گیا تھا چھوٹی سی ملاقات کی۔
٭…٭…٭
وہ تینوں دم بخود بیٹھے تھے ۔ علی نے تو باقاعدہ بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ بھی کر لی تھی ۔
’’چھپا رستم نہ ہو تو۔‘‘یہ خیام تھا۔ غضب ناک نگاہوں سے عارفین کو دیکھتا ہوا ۔
’’ ہم وہاں عرصے سے جا رہے ہیں ۔ وہیں دامن جھٹک کر آ جاتے ہیں ۔ ہمارے باپ داداؤں نے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا اور تُودو دن گیا اور گلے میں گھنٹی باندھ کر لے آیا۔‘‘
’’بس، بس، بس …‘‘ عارفین نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی خلاصی چاہی تھی ۔ باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے ۔
’’ معاف کر دو تم سب مجھے ۔ ایک مشورہ کیا مانگ لیا طعنے مل رہے ہیں بالٹیاں بھر بھر کر ۔‘‘ اس نے خفا خفا سی نظر تینوں پر ڈالی تھی ۔
’’ طعنے تو ملیں گے ناں ۔ کیسا گپا سا منہ بنا کر بیٹھا تھا اس دن ۔ تن فن کرتا سیڑھیاں پھیلانگ گیا تھا ۔ پتا بھی ہے کہ کم کم ملتے ہیں ایسی عیاشی کے مواقع ہمیں ۔‘‘ عمر نے اپنا ہی دھکڑا رو دیا تھا۔
’’ہاں اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی ۔ ایسی رازدارانہ ملاقات توبہ ‘توبہ ۔‘‘ علی نے کانوں کو ہاتھ لگائے تھے ۔ عارفین نے ایک چپت رسید کی تھی علی کے۔
’’بس کر دو ۔ وہ ایک ضروری کام تھا ۔ ملاقات نہیں تھی ۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔ وضاحتیں دے دے کر تھک گیا تھا۔
’’ مذاق ختم ۔ اب میں تجھے ایک بات بتاؤں ۔ وہ خانم ماہ پارا بیگم …بہت پہنچی ہوئی چیز ہے ۔ اونچے تعلقات ہیں اس کے‘ اس سے پنگا نہ لے ۔ وہ ایسے آسانی سے اپنا ہیرا نہیں گنوانے دے گی تجھے ۔ منہ اٹھا کر ملنے بھی پہنچ گیا مجھ سے تو پوچھ لیتا ۔‘‘خیام نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ علی نے بھی تائید کی تھی۔
’’ مجھے سب پتہ ہے۔ساری پریشانیاں،مشکلات ، خطرات سب کچھ مگر ان سب باتوں سے ہٹ کر دیکھو تم ‘ وہ ایک چھوٹی سی کم عمر لڑکی ہے ۔ بالکل بے یار و مددگار اور وہ آدمی دیکھا تھا وہ موٹا سیٹھ … کیا نام تھا اس کا؟‘‘ عارفین نے اپنا ماتھا سہلایا تھا۔
’’سیٹھ نواز ۔‘‘ خیام نے ٹکڑا لگایا تھا۔
’’ ہاں وہی۔ وہ کیا حشر کرے گا اس لڑکی کا سوچو ۔ مانا وہ لڑکی وہاں کی ہے مگر در حقیقت وہاں کی نہیں ہے ۔ اغوہ کر کے لائی گئی تھی ۔وہ اس دن بھی سراسیمہ ہو گئی تھی اور کل بھی وہ بہت پریشان تھی اور سب سے بڑھ کر وہ اس گناہوں کی زندگی کو چھوڑنا چاہتی ہے ۔ ایک صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتی ہے ۔ پھر کیا ہرج ہے مدد کرنے میں؟‘‘ عارفین نے تینوں کے چہروں کو باری باری دیکھا تھا۔
’’اور اگر اس چھوٹی کم عمر لڑکی نے تجھے کسی بڑی مصیبت میں پھنسا دیا پھر؟‘‘ علی کی بات عارفین نے چٹکیوں میں اڑائی تھی۔
’’ خطروں کا کھلاڑی ہے تمہارا دوست ۔ ‘‘عارفین نے فرضی کالر جھاڑے تھے۔
’’ہمیں تو تم دونوں دور ہی رکھو ۔ہم دونوں غریب مسکین ۔ تم دونوں جانو تمہارا کام جانے ۔‘‘ عمر نے اپنا اور علی کا بچاؤ کیا تھا۔
’’ہاں یار اگر ابا کو پتہ لگ گیا تو دونوں کی خیر نہیں ہے ۔‘‘ علی نے بھی آنکھوں میں خوف سجا کر کہا۔
’’ میری کیا مدد چاہیے؟‘‘ یہ خیام تھا ۔یاروں کا یار۔
’’مشورہ…‘‘ عارفین کو اس وقت یہی چاہیے تھا ۔
’’ دوبارہ مت جانا وہاں ۔‘‘ خیام نے فوراََ ہی مشورہ دے ڈالا تھا۔
’’یار کوئی اچھی بات کر ۔ ٹائم زیادہ نہیں ہے اس لڑکی کے پاس وہ موٹا سیٹھ تاک لگائے بیٹھا ہے ۔ ‘‘ عارفین سنجیدہ تھا اور فکر مند بھی ۔
پتانہیں کیا بات تھی وہ دامن جھٹک نہیں پا رہا تھا ۔ سوچتا بھی تھا کہ چھوڑ دے اس معاملے سے دور رہے مگر اس لڑکی کا چہرہ نگاہوں کے سامنے آجاتا تھا ۔ بظاہرہٹے کٹے ‘ سخت جان سے عارفین کے پہلو میں ننھا سا دل تھا جو بے انتہا نرم تھا ۔ بچپن سے ہی راہ چلتوں کی، پرندوں کی، زخمی جانوروں کی سب کی مدد کرنے کا عادی تھا ۔ کافی دیر سر جوڑ کے بیٹھنے کے بعد خیام اور عارفین نے مسئلے کا حل نکال لیا تھا۔
٭…٭…٭
آج بڑی محفل تھی ۔ وہ کاسنی رنگ کی انارکلی فراک میں تیار کھڑی تھی ۔ دل عجیب سی مایوسیوں میں گھرا ہوا تھا ۔ جانے والا کوئی وعدہ کر کے نہیں گیا تھا پھر وہ کس آس پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ عجیب بے دلی سی کیفیت تھی ۔ گول کمرہ تماش بینوں سے بھرا ہوا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھا ۔ماہ لقاہء کا دل ڈوب گیا تھا ۔ آج اس نے خوب رقص پیش کیا تھا ۔ ایک وجد کا عالم تھا ۔ وہ ایک دائرے میں گھوم رہی تھی ۔ کئی گھنگرو اس کی پازیب سے ٹوٹ کر پیروں میں چبھ رہے تھے ۔ گھنگریالی لٹیں پسینے سے شرابور چہرے سے چپک گئی تھیں مگر وہ ہر شے سے بے نیازتھی ۔ جیسے یہاں موجود ہی نہیں تھی کسی اور ہی جہاں میں پہنچی ہوئی تھی ۔ خود فراموشی کے جہاں میں‘ ہر درد ہر غم سے بے نیاز ۔ طبلہ نواز نے بھی خوب تھاپ لگائی تھی ۔ تال تھمی تو وہ بے دم سے ہو کر گر گئی تھی ۔ زخمی پاؤں،زخمی نگاہیں… چنبیلی نے بڑھ کر اسے تھاما تھا ۔ تماش بینوں کی داد دیتی صدائیں خوب بلند تھیں ۔ ہمیشہ کی طرح اس نے محفل لوٹ لی تھی اپنے آپ کو ہار کر۔
٭…٭…٭
پورے ماحول پر ہو عالم طاری تھا ۔ رات جاگنے والے اس وقت خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے مگر ماہ لقاہء کو وہی بے چینی لاحق تھی ۔ وہ نہیں آیا تھا اس کا دل شکوہ کناہ تھا۔ حالاں کہ شکوہ بنتا ہی نہیں تھا ۔ وہ کوئی وعدہ کر کے نہیں گیا تھا ۔ پھر بھی ماہ لقاہء کا دل ٹوٹ گیا تھا ۔ چنبیلی نے آ کر ایک خاکی لفافہ اس کی ہتھیلی پر رکھا تھا اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا ۔
’’وہ نہیں آیا اس کا پیغام آیا ہے۔‘‘ چنبیلی نے مسکرا کر کہا تھا ۔ جیسے ماہ لقاہء کے جسم میں نئی روح پھونکی ہو ۔
’’سچ کہہ رہی ہو چنبیلی ۔ ‘‘وہ ایک دم ہی خوش ہو گئی تھی۔
’’ ہاں اب جلدی سے کھولو ۔ دیکھو کیا ہے اس میں۔ اس سے پہلے کہ کوئی آجائے۔‘‘ چنبیلی نے دھیمی آواز میں کہا تھا ۔
ماہ لقاہء نے بے قراری سے لفافہ چاک کیا تھا ۔ ایک پرچہ اور چند گولیاں … دونوں نے نا سمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔
’’ پرچے میں دیکھو کیا لکھا ہے بی بی ۔‘‘ چنبیلی کے کہنے پر اس نے جلدی سے وہ پرچہ کھول کر پڑھنا شروع کیا تھا ۔
’’ یہ نیند کی گولیاں ہیں ۔ کل رات ایک گولی چائے میں ڈال کر منوہر داس کو دے دینا جب وہ گہری نیند میں چلا جائے تو تم نکل آنا ۔ گلی کا موڑ مڑتے ہی جو پھولوں والا ٹھیلہ ہے۔ وہاں میں تمہارا انتظار کروں گا ۔ یہ پیغام خیام کے ہاتھ بھجوا رہا ہوں تاکہ خانم کو مجھ پر شک نہ ہو ۔ میرے نا آنے کی وجہ بھی یہی ہے(عارفین)۔ ‘‘
یہ محض ایک پیغام نہیں تھا آزادی کا پروانہ تھا ۔ خوشی کا استعارہ تھا اور ماہ لقاہء کے لیے تو یہ حیات تھا ۔
آب حیات… آب جل…
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے