مکمل ناول

سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران

بالکونی کی بیرونی دیوار سے ٹیک لگائے وہ سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی ۔ آنکھیں نم تھیں، بے بسی، اکیلا پن، پریشان دل … گھٹنوں سے سر اٹھا کر اس نے اپنی کلائی کودیکھا تھا ، وہاں اب کوئی نشان باقی نہیں تھا مگر ماہ لقاہء کو ابھی بھی اپنا ہاتھ سیٹھ نواز کی گرفت میں محسوس ہو رہا تھا ۔ ایک انگارہ سا تھا جو دہک رہا تھا ۔ وہ کتنی اکیلی تھی ۔وہ یہاں کے ماحول میں رچ بس کیوں نہیں سکی تھی ۔ اسے وہ ناز و ادا کیوں نہیں آتے تھے جو یہاں کی ہر لڑکی میں تھے ۔ یہاں کی لڑکیاں ہاتھ چھڑا کر دامن بچا کر نہیں نکلتی تھیں ۔ وہ تو ایک نظر التفات کی منتظر ہوتی تھیں کہ کسی کی نظر کرم ان پر ٹھہرے اور ان کی دل لگی کے بدلے وہ اپنی دولت ان طوائف زادیوں پر لوٹائے ، پھر وہ ایسی کیوں تھی ؟ اسے خود پر ٹھہرنے والی ان نگاہوں سے خوف کیوں آتا تھا ؟ سیٹھ نواز نے اس کی دن رات کی نیندیں اڑائی ہوئی تھیں ۔وہ جن نگاہوں سے ماہ لقاہء کو دیکھتا تھا لگتا تھا کھا ہی جائے گا ۔ خانم نے ماہ لقاہء کے بے پناہ حسن اور خوبصورتی کی بہت تگڑی قیمت لگائی تھی ۔ سیٹھ نواز نے وعدہ کیا تھا کہ اگلے چند دنوں میں خانم کی مطلوب رقم ادا کر دے گا اور پھر ماہ لقاہء پرسیٹھ نواز کیا اجارہ داری ہوگی ۔ سیٹھ نواز کی گستاخیاں بڑھتی ہی جا رہی تھیں ۔ یہاں کوئی مہربان نہیں تھا جو ماہ لقاہء کو بچا لیتا ، کوئی سائبان نہیں تھا اس کے سر پر جس کے سائے میں وہ پناہ لے لیتی ۔ یہی اکیلا پن اور یہی بے سروسامانی اسے ہولاتی تھی ۔اس رات بھی اگر وہ نوجوان نہیں ہوتا تو وہ کیا کر لیتی سیٹھ نواز کا، وہاں تو سب تماش بین تھے ‘ سو تماشہ دیکھ رہے تھے نہ جانے وہ کون تھا ۔
’’ماہ لقاہء بی بی ۔‘‘ آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا تھا ۔ وہ چنبیلی تھی، اسی کی طرح بھٹکی ہوئی روح جیسی…
’’ ایسے کیوں بیٹھی ہو ؟ ‘‘
چنبیلی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا، ماہ لقاہء نے ایک سرد آہ بھری تھی ۔ آہ یہ درد کے رشتے بھی ناں، ہاں کچھ لوگوں سے آپ کا درد و غم کا رشتہ ہوتا ہے جو درد آنکھوں سے پڑھ لیتے ہیں‘ جو غم بانٹ لیتے ہیں ۔ اس کا چنبیلی سے ایسا ہی بے لوث تعلق تھا ۔
’’یوں ہی بس اپنی قسمت پر ماتم کدا ہوں۔ ‘‘ ماہ لقاہء کی بات سن کر چنبیلی اس کے سامنے آ بیٹھی تھی۔
’’ کیسی باتیں کر رہی ہو بی بی، خیر تو ہے ؟ ‘‘ چنبیلی کے لہجے سے فکرمندی چھلک رہی تھی۔
’’ تم نے دیکھا تھا آج کیسے سیٹھ نواز نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ، مجھے وہ اچھا نہیں لگتا ۔مجھے خوف آتا ہے اس سے چنبیلی۔‘‘ وہ بات کرتے ہوئے دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی، سیٹھ نواز چالیس کے لگ بھگ تھا ۔ بھاری بھرکم وجود اور خبیث نگاہیں ، چنبیلی نے تاسف سے اس کامنی سی لڑکی کو دیکھا تھا، جو یہاں کی لگتی ہی نہ تھی بلا کی خوبصورت تھی مگر قسمت ماڑی تھی بیچاری کی۔
’’چھوڑو بی بی یہاں تو روزکا ہے، تم دل سے لگا کر کیوں بیٹھ گئیں۔‘‘
’’ تم جانتی ہو اس کو کون تھا چنبیلی۔‘‘وہ غالباََ اس اجنبی کی بابت پوچھ رہی تھی۔
’’ نہیں بی بی وہ تو پہلی بار یہاں آیا تھا، خیام کا کوئی دوست ہے۔‘‘ چنبیلی کو جتنی معلومات تھیں وہ اس نے دے دی تھیں ۔ باقی تو اسے بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کون تھا۔
’’عجیب بے نیاز سا بندہ تھا کسی جانب نگاہ نہیں اٹھائی اس نے۔ ‘‘ چنبیلی نے مزید کہا۔
’’ ہاں نہ جانے کون تھا مگر آج میرے اوپر تو احسان کر گیا ‘ ورنہ ہم تو بنے ہی ان تماشوں کے لیے ہیں، دل لگی کی چیز …ہماری بھلا کون ڈھال بنتا ہے ۔ ہمارا تو لوگ تماشہ ہی دیکھتے ہیں۔” ماہ لقاہء کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔
’’ہاں بی بی ، صحیح کہہ رہی ہو، نڈر بہادر تھا ۔اللہ بھلا کرے اس کا ۔ جائو بی بی ‘ جا کر آرام کر لو۔ دن نکل آیا ہے اب تو۔‘‘ چنبیلی نے اٹھتے ہوئے ماہ لقاہء کو بھی ہاتھ پکڑ کر کھڑا کر دیا تھا۔ دونوں نے اپنے اپنے کمروں کی راہ لی تھی۔
٭…٭…٭
ماہ لقاہء نے بمشکل دو گھنٹوں کی ہی نیند لی تھی ۔ آنکھ کھلنے کے بعد کئی کروٹیں بدلنے پر بھی نیند دوبارہ نہیں آئی تو وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔ باقی سب ہی لڑکیاں ابھی سو رہی تھیں ، ظاہر ہے رات جاگنے والے دن میں سوتے ہی ہیں ۔
جہاں آرا بیگم آج جلدی اٹھ گئی تھیں ، چاک و چوبند سی تکیے کے سہارے بیٹھی تھیں ۔چنبیلی انہیں ناشتہ کروا رہی تھی ۔ ماہ لقاہء بھی پاس ہی آکر بیٹھ گئی تھی ۔چنبیلی نے اسے بھی چائے لا دی تھی۔ مگ تھامے وہ چپ چاپ سی بیٹھی تھی ۔ جہاں آرا بیگم آج ہشاش بشاش سی لگ رہی تھیں ۔ چنبیلی سے ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں۔ زبان میں اگرچہ کچھ لکنت سی تھی مگر بات سمجھ میں آ جاتی تھی۔
’’چھوٹی سی تھی جب منوہر داس نے لا کر ماہ پارا کی گود میں ڈال دیا۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ نہ جانے کہاں نکل گئی تھیں ۔ یہ ان کی عادت تھی وہ ماضی کو ہی یاد کرتی رہتی تھیں ‘شاید اپنے اچھے وقت کی یادیں تازہ کرتی تھیں۔ اب تو لاچار تھیں ، بستر مرگ پر تھیں مگر یاداشت آج بھی غضب کی تھی۔ یہ جملہ ان کے اپنے ماضی سے نہیں جڑا تھا۔
’’کس کی بات کر رہی ہیں بڑی خانم۔‘‘ جنبیلی نے سرسری انداز میں پوچھا تھا۔
’’ارے یہی اپنی بچی۔‘‘ جہاں آرا بیگم نے برا سا منہ بنا کر چنبیلی کو دیکھا تھا جو ان کی بات ہی ناسمجھی تھی،مگر جواب اب بھی نہ سمجھ میں آنے والا تھا ۔ یہاں جس جس کے نام مشکل تھے ان کی زبان سے ادا نہیں ہو پاتے تھے ۔ اسے وہ بچی ہی کہتی تھیں۔
’’ اے بچی، ارے بچی سن…‘‘
ماہ لقاہء کو بھی وہ نام سے نہیں بلا پاتی تھیں ۔ اس لیے وہ ان کی بات سن کر چونک گئی تھی کہ کہیں یہ اس کی بات تو نہیں ہو رہی تھی۔
’’کون بڑی خانم ؟ میں؟ میری بات کر رہی ہیں ؟ کون تھی چھوٹی سی ؟‘‘ اس نے اشتیاق سے پوچھا تھا ۔ دل نا جانے کیوں تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔
’’ ہاں تو اور کس کی ، تو چھوٹی سی تھی منوہر داس لایا تھا تجھے۔ ‘‘ یہ جملہ ایسا تھاکہ ماہ لقاہء کے دل پر لگا تھا ۔
وہ تو خود کو یہیں کی پیدائش سمجھتی تھی‘ یہیں کسی طوائف کی بیٹی ناجائز… کسی کے ماں باپ کی کسی کو خبر نہیں ، سب کی ماں ماہ پارا بیگم تھیں ‘بس اور کسی کو کچھ خبر نہ تھی ۔ اپنے بارے میں، اس سے زیادہ انہیں بتایا ہی نہیں جاتا تھا، اب یہ بڑی خانم کیا کہہ رہی تھیں، اس کا روم روم سماعت بن گیا تھا۔
’’تیز برستی بارش تھی ، ٹرین کسی اسٹیشن پر رکی تھی ۔ دو گھڑی اس عورت کی آنکھ لگی ہوگی، منوہر داس نے اس کے پہلو سے اٹھا کر تجھے اپنی چادر میں چھپا لیا اور اتر گیا اسٹیشن پر، سیدھا لا کر ماہ پارا کی گود میں ڈال دیا تھا۔‘‘ جہاں آرا بیگم بات مکمل کرنے میں ہی ہانپ سی گئی تھیں ۔ چپ ہو کرآنکھیں موند لی تھیں ، ماہ لقاہء کی آنکھیں پانی سے بھر گئی تھیں ۔ بات چنبیلی کی بھی سمجھ میں آگئی تھی۔ چنبیلی نے اپنا ہاتھ ماہ لقاہء کے ہاتھ پر رکھا تھا ۔ دلاسا دیتی نظروں سے دیکھا تھا، ماہ لقاہء تو تڑپ ہی اٹھی تھی۔
”آنکھ کھلنے پر میری ماں نے اپنا پہلو خالی دیکھا ہوگا تو کتنا تڑپی ہوگی ۔ اسے کیا خبر تھی کہ اس ٹرین میں ایک دلال بھی سوار ہے جو ان کی پھول سی بیٹی کو لے گیا تھا ۔ ایک کانٹوں سی بھری زندگی دینے کے لیے۔‘‘ بدقسمتی کا مفہوم آج پوری طرح واضح ہوا تھا ماہ لقاہء پر ۔ لاکھ اس نے پوچھنا چاہا کہ کس شہر کی ٹرین تھی؟ کہاں سے آرہی تھی؟ کہاں جا رہی تھی؟ مگر جہاں ہمارا بیگم نے مزید کوئی بات نہیں کی یوں ہی تکیے سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے پڑی رہیں ۔وہ ضبط اور برداشت کی آخری حدوں پر تھی۔
سارا دن پریشان،رات بھر جلے پیر کی بلی کے مانند بالکو نی میں چکراتی ماہ لقاہء کو چنبیلی نے کندھے سے تھام کر روکا تھا۔
’’ بس کرو بی بی کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو، جو ہونا تھا سو ہو گیا، اب کیا ہو سکتا ہے بھلا۔‘‘
’’ نہیں چنبیلی ، اس بات نے تواور پریشان کر دیا مجھے کہ میں یہاں کی نہیں ہوں ۔میری رگوں میں شریف ماں باپ کا خون دوڑ رہا ہے ۔ اس گناہوں سے بھرے دلدل میں مجھ سے نہیں رہا جائے گا چنبیلی۔‘‘ وہ الجھی الجھی سی تھی۔
’’ نا بی بی ، ایسا مت سوچو یہاں سے نکل کر کہاں جاؤ گی ۔ یہ دنیا نہیں قبولتی ہم جیسوں کو، تمہارے ماں باپ کا کچھ بھی اتا پتا نہیں ، نا جانے کون سے شہر کی ٹرین تھی، کہاں سے آرہی تھی، کہاں منزل تھی اس کی، کیا خبر‘…‘ چنبیلی نے اپنے تعین رسان سے سمجھانا چاہا تھا مگر ماہ لقاہء کا دماغ تو کسی اور ہی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’نہیں چنبیلی، وہ اذان، وہ خواب یوں ہی نہیں آتا تھا ۔ وہ اشارہ ہے، میری ماں کی دعا ہے شاید ، مجھے یہاں سے نکالنے کے لیے ۔ آج نہیں تو کل سیٹھ نواز نے رقم ادا کردینی ہے، میں مٹی میں مل جاؤں گی چنبیلی ۔ صحیح کہتی ہیں نیلو فر یہاں سب بکتا ہے، میرے دل کو قرار نہیں ہے ‘میری مدد کرو چنبیلی۔‘‘ ماہ لقاہء نے لجاجت سے کہا تھا۔
’’بی بی میرے بس میں کیا ہے ، میں تو خود انہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں ۔ َ تم بھی کوئی ایسی ویسی غلطی مت کر بیٹھنا ۔ بغاوت کرنے والوں کا بہت برا انجام دیکھا ہے میں نے یہاں۔‘‘ چنبیلی نے سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔
اس بار ماہ لقاہء نے کوئی جواب نہیں دیا تھا وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’ کہاں کھو گئیں بی بی۔‘‘ چنبیلی کو خوف سا آیا تھا ماہ لقاہء کے ارادوں سے۔
’’ تمہیں وہ اجنبی نوجوان یاد ہے چنبیلی، وہی خیام کا دوست، کیا وہ میری مدد کرے گا؟‘‘
’’پتا نہیں بی بی خود کو کسی مصیبت میں مت ڈال لینا ، اجنبی تھا کیا خبر کیسا انسان ہے۔‘‘
’’انسان تو اچھا تھا ۔ جبھی تو سیٹھ نواز کی اس غلط حرکت کو برداشت نہیں کر سکا، وہاں موجود سب انسانوں سے الگ لگا تھا ۔‘‘
’’بی بی مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا پتہ نہیں وہ پھر یہاں آئے گا بھی یہاں نہیں۔‘‘
’’آئے گا چنبیلی ، دعا پر یقین کی طاقت اسے کھینچ لائے گی ۔ خدا کے بعد خدا کے بندے سے امید باندھ لی ہے میں نے …اسے تو آنا ہی ہوگا۔‘‘ وہ دور کہیں آسمانوں میں دیکھتی کہہ رہی تھی۔ چنبیلی کو جی بھر کر اس لڑکی پر ترس آیا تھا۔ نا جانے کیا سوچ بیٹھی تھی۔
’’بی بی جو بھی کرو بس اپنا خیال رکھنا راستے میں مت بھٹک جانا ۔ کسی مصیبت میں مت پھنس جانا ، چنبیلی سے جو بن سکا وہ کرے گی تمہارے لیے۔‘‘ چنبیلی نے دلاسا دیا تھا ۔ ساتھ دینے کا یقین دلایا تھا ۔ماہ لقاہء نے ممنون نگاہوں سے اپنے اس اکلوتے خیر خواہ کو دیکھا تھا ۔
یہ انکشاف بہت درد آمیز تھا کہ وہ کسی شریف گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ وہ یہاں کے خراب ماحول کے پیداوار نہیں ہے۔ اس کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ پاک ہے،صاف ہے ۔ وہیں یہ خیال جان لیوا تھا کہ وہ اپنے حقیقی ماں باپ کو کھو چکی ہے ۔وہ کبھی بھی اپنے ماں باپ کو ڈھونڈ نہیں پائے گی ۔کبھی اپنی دکھی ماں کے سینے سے نہیں لگ سکے گی ۔ اس کی ماں کی پیاسی ممتا کبھی سیراب نہیں ہو پائے گی ۔ وہ ہچکیوں کی زد میں تھی۔ لبوں پر ورد جاری تھا دعاؤں کا… یہاں پر آنا اس کے اختیار میں نہیں تھا مگر یہاں سے نکلنا تو اس کے اختیار میں تھا ۔وہ جان کی بازی لگا کر یہ بازی کھیل جائے گی ۔ اس نے آنسووں سے تر چہرے پر دعاؤں سے بھری ہتھیلی پھیری تھی۔
٭…٭…٭
آج کل وہ بزنس کے مختلف معاملات میں پھنسا ہوا تھا ۔ ابھی بھی ہوٹل سے ایک سیمینار اٹینڈ کر کے نکلا تھا ۔ جب خیام کی گاڑی اس کے سامنے آ کر رکی تھی۔
’’ کہاں مصروف ہے یار ہمیں بھی لفٹ کروا لیا کر کبھی کبھی ۔‘‘ خیام کا وہی مخصوص شگفتہ انداز تھا۔
’’آجا…‘‘ خیام نے دوسری طرف کا دروازہ کھولا تھا ۔
عارفین نے اپنا کوٹ اور لیپ ٹاپ اپنے ڈرائیور کے حوالے کیا تھا اورٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔
’’باقی کہاں غائب ہیں؟‘‘ اس نے عمر اور علی کے بارے میں استفسار کیا تھا۔
’’کسی فیملی فنکشن میں بزی۔‘‘ وہ دونوں آپس میں کزن بھی تھے ۔ دونوں کا خاندان مشترک ہونے کی وجہ سے اکثر مصروفیت بھی مشترکہ ہی ہوتی تھی ۔ عارفین نے سر ہلایا تھا ۔خیام نے گاڑی آگے بڑھا دی تھی ۔ کافی دیر وہ دونوں سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے رہے ۔ خیام نے گاڑی کا رخ ایک دم موڑا تھا ۔
’’ چلے گا؟‘‘ خیام نے رائے تو لی تھی مگر اس رائے کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔گاڑی تو اپنی منزل کی جانب ہنوز روا دوا تھی ۔
’’ اوہ بھائی‘ مجھے معاف کر دے ۔میرے گھر چھوڑ پھر جہاں جانا ہے جا۔‘‘ عارفین نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے ۔
’’آجا ذرا دیر بیٹھیں گے بس۔ ‘‘ منزل سامنے تھی ۔
گاڑی مخصوص جگہ پارک کر کے خیام اتر آیا تھا ۔ عارفین نے چاروں ناچار اس کی تقلید کی تھی ۔ وہی مخصوص آوازیں ‘ گھنگروں کی چھنک ، طبلے کے تھاپ ۔ تنگ سیڑیاں عبور کر کے وہ دونوں گول کمرے میں پہنچے تھے ۔ وہی ماحول تھا ۔ آج سامنے اس دن والی لڑکی نہیں تھی ۔ بلکہ کوئی اور تھی ۔ ہاں وہ مرد نما عورت جو اس دن بھی موجود تھی ۔ آج بھی اپنے کاموں میں مشغول نظر آرہی تھی ۔ تماش بینوں کا رش بڑھنے کے بعد موقع دیکھ کر وہ عارفین کے پاس آئی تھی ‘شاید کچھ پیش کرنے پان یا جام وغیرہ ۔ عارفین نے بنا اس کی طرف دیکھے نفی میں سر ہلایا تھا تبھی تیزی سے ایک رقعہ چنبیلی نے عارفین کی ہتھیلی میں تھمایا تھا ۔
’’ صاحب مدد چاہیے ۔ یہ راز ہے کسی کا ۔‘‘ آواز سرگوشی سے زیادہ بلند نہیں تھی ۔
عارفین نے حیرانی سے وہ رقعہ دیکھا تھا اور غیر ارادی طور پر کسی کے متوجہ ہونے سے پہلے ہی جیب میں ڈال لیا تھا ۔ اس کے بعد جتنی دیر وہاں بیٹھا متجسس ہی رہا کہ آخر ماجرہ کیا ہے ۔ کچھ دیر بعد ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ خیام کو چلنے کا اشارہ کیا تھا ۔ چار و ناچار خیام کو بھی اٹھنا پڑا۔
’’ بڑی جلدی ہے یار تجھے۔‘‘ وہ چڑ گیا تھا ۔
’’آگیا یہ بہت نہیں ہے۔‘‘ عارفین نے الٹا سوال داغا تھا ۔ ایک خیال آیا تھا کہ خیام کو بتا دینا چاہئے مگر پھر رازداری کا خیال آتے ہی اس سوچ کو جھٹک دیا تھا ۔ پہلے خود تو جان لوں کہ آخر ماجرہ کیا ہے ۔ کئی طرح کی سوچیں تھیں جنہوں نے عارفین کو گھیر رکھا تھا ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page