مکمل ناول

سہل ہو گئیں منزلیں: ماریہ کامران

تیری جستجو کے حصار سے
تیرے خواب تیرے خیال سے
میں وہ شخص ہوں جو کھڑا رہا
تیری چاہتوں سے زرا پرے!
کبھی دل کی بات کہیں نہ تھی
جو کہی تو وہ بھی دبی دبی
میرے لفظ پورے تو تھے مگر
تیری سماعتوں سے ذرا پرے!
تو چلا گیا میرے ہم سفر
ذرا دیکھ مڑ کے تو ایک نظر
میری کشتیاں ہیں جلی ہوئی
تیرے ساحلوں سے ذرا پرے!
دودھیا آسمان پر ستاروں کی مدہم پڑتی روشنیاں اور مشرقی کونے سے پھوٹتی شاہ خاور کی نوخیز کرنیں،دھند میں لپٹا نیم روشن سویرا،اور دور کہیں کسی مسجد کے مینار سے بلند ہوتی موذن کی صدا…
حیاعلی الصلاۃ (آؤ نماز کی طرف)
حیا علی الفلاح (آؤ کامیابی کی طرف)
اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)
وہ ہڑ بڑا کہ اٹھ بیٹھی تھی۔ خواب تھا مگر حقیقت سے قریب تریوں لگتا تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے اس کی روح اسی صبح کے منظر میں گم ہو جاتی ہے ۔ اذان کی روح پرور صدائیں اس کی روح میں گہرا سکون اتار دیتی تھیں، چند روز سے مسلسل آتا یہ خواب بیدار ہونے کے بعد اسے بے چین کر دیتا تھا ۔ اس نے اپنے آس پاس نگاہ دوڑائی تھی، رات تھی، نہ سویرا،چڑھتا دن تھا ۔ سورج سوا نیزے پر پہنچ چکا تھا۔بکھرے درازبالوں کو سمیٹ کر اس نے بیڈ کراون سے سر ٹکایا تھا۔
٭…٭…٭
بالا خانے کی اونچی نقشین محرابوں میں نصب تمام قمقمیں روشن تھے ۔ نیچے ڈیوڑھی سے اوپر جاتا تنگ و تاریک زینہ اوپر بڑی بڑی محرابوں والی روشن بالکونی پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ درمیانی محراب کے عین اوپر ایک مستطیل تختی نصب تھی‘جس پر سنہرے حروف میں ’’ماہ پارا بیگم‘‘ درج تھا ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے ۔ رات کے اس پہر پورا علاقہ روشن تھا ۔ کھڑکیوں سے جھانکتے چاند چہرے اور بالکونیوں میں لہراتے رنگ برنگ پہرن آنے جانے والوں کو لبھاتے تھے ۔ نیچے گلی میں کئی صدائیں بلند تھیں، پھولوں کے گجرے والے ، چوڑیوں والے اور کئی گڑوی والیاں چاک و چوبند بیٹھی تھیں ۔ پورے علاقے کا سب سے اونچا کوٹھا ماہ پارہ بیگم کا تھا ۔ آس پاس کی کوئی بھی نائیکہ ماہ پارہ بیگم کا مقابلہ نہیں کر پاتی تھی ۔ تماش بینوں کے بڑھتے رش پر دیوڑھی کے باہر بیٹھا ’’منوہر داس‘‘پھولے نہ سماتا تھا آخر کو آتے جاتے رئیس اور امیر زادے کچھ نہ کچھ اسے بھی عنایت کرتے جاتے تھے ۔ جس دن کوئی خاص محفل جمتی تھی ماہ پارا بیگم کے کوٹھے کی رونق دیکھنے لائق ہوتی تھی۔
مرکزی کمرے میں رکھے تخت پر سفید بے داغ جھالر والی چادر بچھی تھی اور ماہ پارا بیگم گول تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں ۔ سفید اور سنہرے امتزاج کے خوب گھیر والے غرارے میں بھاری زیورات سے لدی ہوئی یہ عورت اپنے وقت کی مشہور طوائف زادی ‘ بنگال کے کالے جادو کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ وجہ گہری سانولی رنگت پر خوب گہری گہری غیر معمولی سیاہ آنکھیں اور بے تحاشہ نمکین حسن اچھے اچھوں کو چاروں شانے چت کر دیتا تھا ۔ تخت کے کونے پر منقش پاندان رکھا تھا۔ ماہ پارا بیگم نے پان لگا کر اس پر سونف اور کھوپڑا چھڑکا تھا۔ منہ میں پان رکھ کر وہ سیدھی ہو بیٹھی تھیں ۔ اور پاس بیٹھی چنبیلی کو ٹہوکا دیا تھا ۔
’’چل اٹھ جا کے دیکھ بی بی کو تیار ہوئی کہ نہیں آج بڑی محفل ہے ‘ یاد دلا دے کہ تیاری بھی خوب ہونی چاہیے۔‘‘چنبیلی نے اپنے کندھے پر پڑی چوٹی کو ایک ادا سے پیچھے کیا تھا اور اٹھلا کے کھڑی ہو گئی تھی۔
’’جی بہتر خانم۔‘‘
چنبیلی کا تعلق تیسری جنس سے تھا ۔ گہرے میک اپ اور شوق رنگ کے کپڑوں میں ملبوس پھرتی سے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھی ۔
’’اور سن۔‘‘ماہ پارا بیگم نے کچھ یاد آنے پر دوبارہ پکارا تھا چنبیلی نے جاتے جاتے مڑ کے دیکھا تھا ۔
’’گول کمرے میں چاندیاں بچھا دے اور طشتریوں میں پان سجا کے چاندی کے ورک لگا دے، تمام مشعلیں بھی روشن کر دے ۔ اپنے خیام کا کوئی بچپن کا یار ولایت سے لوٹا ہے ۔ امیر کبیر ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے ۔ کیا خبر آج اپنے یار دوستوں کے ساتھ ہمارے غریب خانے کو بھی رونق بخشے ۔ بس آج محفل ایسی ہونی چاہیے کہ یہاں آئے تو یہیں کا ہو کر رہ جائے ۔ جا کے خبر کر دے بی بی کو۔‘‘ چنبیلی نے تمام باتیں سن کر سرخم کیا تھا اور ہال کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
٭…٭…٭
ہال کمرے کی چہل پہل معمول کے مطابق تھی، جو آج شمع محفل نہیں تھیں وہ کسل مندی سے بستروں پر پڑی ہوئی تھیں ۔ باقی سبھی لڑکیاں متحرک تھیں ۔ مشرقی دیوار کے ساتھ رکھے پلنگ پر ایک فالج زدہ نجیف و نزار وجود حسرت و یاس کی بلکہ سچ کہا جائے تو عبرت کی تصویر بنا پڑا تھا یہ’’ جہاں آرا بیگم‘‘ تھیں ۔ نہ جانے یہ ماہ پارا بیگم کی حقیقی ماں تھیں یا محض یہاں کی سابقہ سربراہ ہی تھیں ۔ کبھی کسی زمانے میں ان کا طوطی بولتا تھا ۔ اب تو بس سب کو ٹکر ٹکر دیکھتی رہتیں یا پھر کبھی موڈ میں ہوتیں تو اپنے وقتوں کی باتیں دہراتی نظر اتی تھیں ۔ماہ پارا بیگم تو کبھی ان کے قریب بھی نہ بھٹکتی تھیں ۔ ایک صرف چنبیلی کا دم تھا جو ان کا خیال رکھتی تھی یا دوسری وہ تھی جو ہما وقت ان کے آس پاس نظر آتی تھی ۔ ابھی بھی وہ ان کے پلنگ پر جھکی انہیں پانی پلا رہی تھی۔
مونگیا رنگ کی زردوزی کے کام سے مزین گھیردار فراک اور چوڑی دار پجامے میں اس کی سنہری رنگت خوب دمک رہی تھی ۔ گول چہرے پر گھنگریالی لٹوں کا راج تھا، سنہرے بالوں کی لمبی سی چھوٹی دائیں کندھے پر جھول رہی تھی ۔ وہ بالکل ویسی ہی تیار تھی جیسی کوئی بھی روایتی طوائف ہوتی ہے۔
’’ماہ لقاء بی بی۔‘‘ چنبیلی کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔
’’خانم کا حکم ہے کہ آج خاص محفل ہے ‘ تیاری بھرپور رکھیے گا ۔ کسی ولائیتی بابو کے آنے کی اڑتی اڑتی خبریں ملی ہیں۔‘‘ چنبیلی کی بات سن کر اس نے ادائے بے نیازی سے سر جھٹکا تھا۔
’’یہاں تو روز خاص محفلیں ہو تی ہیں،ہمارا کام فن بیچنا ہے ۔ گاہک کوئی بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
’’فرق پڑتا ہے بی بی ، کیوں فرق نہیں پڑتا صرف فن نہیں‘یہاں سب کچھ بکتا ہے ۔ مجھے دیکھو عام صورت ہوں پھر بھی آواز کی لوچ وگداز کے کتنے اسیر بنے، کتنے خریدار بنے، تم تو خوبصورت ہو ۔ پھر بھی شکر کرو سیٹھ نواز ابھی تک خانم کی منہ مانگی قیمت ادا نہیں کر پایا‘جواگراس نے قیمت ادا کر دی تو کیا کرو گی، کس زعم میں ہو بی بی ۔ طوائف زادی ہو قبر تک طوائف زادی ہی رہو گی۔‘‘ نیلوفر کی چبھتی ہوئی آواز نے ماہ لقاہء کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسنا دی تھی ۔ نیلو فر اپنے وقت کی اعلیٰ پائے کی گائیکہ تھی ۔ اپنے ایک مرید سے عشق ہوا ، عزت کی زندگی گزارنے کی چاہ میں خفیہ نکاح کر کے یہ جگہ چھوڑ دی تھی مگر کم ہمت شخص نہ خود عزت دے سکا نہ اپنے خاندان سے دلوا سکا ۔ کچھ عرصے بعد عشق کا بھوت اترا تو اس نے نیلوفر کو چھوڑ دیا ۔ بے آسرا نیلو فردر در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد واپس خانم کے قدموں میں آ کر بیٹھ گئی۔
’’ یہاں کی عمر رسیدہ عورتیں بلا کی تلخ مزاج ہوتی ہیں ساری زندگی پیسے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے،چاہت اور عزت کی طلب میں خوار ہوتے گزری زندگی جب عروج سے زوال کی جانب آتی ہے تو یہی حال ہوتا ہے جو نیلوفرکا ہوا ۔ ادھر جوبن ڈھلا ادھر سب ختم ، یہ خون آشام عورتیں اپنے بعد آنے والیوں کو نہیں بخشتی ہیں ان کا بھی اپنا جیسا ہی انجام چاہتی ہیں ۔ ماہ لقاہ نے بنا کوئی جواب دیے گول کمرے کی راہ لی تھی۔
٭…٭…٭
وہ سالوں بعد لوٹا تھا اور آج دوستوں کی محفل میں خوشگوار موڈ میں بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ سارے دوست ہی ایڈونچرز کے شوقین تھے اور آج وہ سب عارفین ہسبانی کو ایک بات کے لیے منانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
’’چل یار آج ساتھ چل انکار مت کر ‘ یاروں کا دل بھی رکھ لیتے ہیں کبھی ۔ ‘‘ یہ عارفین کا سب سے قریبی دوست خیام تھا۔
’’نا وہاں جانے کی صرف تمہارے باپ داداؤں نے اجازت دی ہے ، ہمارے یہاں تو اس علاقے کے قریب سے گزرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ عارفین نے ہاتھ اٹھا کر قطعی لہجے میں کہاتھا۔
’’چل لے یار آج تیری وجہ سے ہمیں بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے گھر سے، میں نے تو کہہ رکھا ہے کہ آج تیرے اعزاز میں رات گئے تک پارٹی کریں گے۔‘‘ علی کی بات پر عمر نے بھی میسنی سی شکل بنا کر عارفین کو دیکھا تھا ۔
دونوں کے ابا بلا کے سخت گیر تھے مگر دونوں ہی حیلے بہانے بنانے میں ماہر تھے ۔ گھر والوں کو چکما دے کر نکل ہی آتے تھے۔ عارفین کا معاملہ مختلف تھا وہ اپنے ماں باپ کا لاڈوں سے پالا ایک ہی شہزادہ تھا،مگر ماں باپ کے حد درجہ لاڈ پیار نے اسے بگاڑا نہیں تھا ۔ وہ اچھی عادات کا مالک، سلجھا ہوا نوجوان تھا ۔ اس کے چہرے پر نیم رضامندی سی تھی، آج عارفین نے دوستوں کا دل رکھنے کی ٹھانی تھی۔
٭…٭…٭
گول کمرے میں جمی محفل اپنے عروج پر تھی ۔ جب چاروں نے اندر قدم رکھا تھا ۔ وہ دوستوں کے اصرار پر آ تو گیا تھا مگر اب عجیب سی الجھن محسوس کر رہا تھا ۔ تماش بینوں سے قدرے ہٹ کر وہ بیزار سا بیٹھا تھا ، بلا کی حسین لڑکی سامنے محو رقص تھی مگر وہ نظر جھکائے بیٹھا تھا ۔ جام پیش کیے گئے تھے مگر اس نے نگاہ اٹھاے بغیر ہی سر نفی میں ہلا دیا ۔ چنبیلی حیرت زدہ سی اسے دیکھتی واپس مڑ گئی تھی ۔
ایک عالم وجد میں گھومتی ماہ لقاہء کا انگ انگ مہارت سے رقص پیش کر رہا تھا ۔ تال تھمی تھی اور تماش بینوں کی داد دیتی صدائیں بلند ہوئیں ۔ اسی پل سیٹھ نواز نے بڑھ کر ماہ لقاہء کی کلائی تھامی تھی۔
’’ اتنی بھی کیا جلدی ہے جناب تھوڑا وقت ہمیں بھی دو کبھی۔ ‘‘ بے نیازی سے آگے بڑھتی ماہ لقاہء نے گھبرا کر سیٹھ نواز کو دیکھا تھا ۔چہرے پرواضح سرا سیمگی تھی ۔اندر سے دل بڑی زور سے دھڑکا تھا ۔ سیٹھ نوازکی جسارت پر وہ بھنا کر رہ گئی تھی ۔ کسمسا کر اپنی کلائی چھڑانے کے لیے سارا زور لگا دیا تھا ۔ سیٹھ نواز نے بے ہنگم سا قہقہ لگایاتھا ۔بے بسی کی شدت سے ماہ لقاہ ء کی آنکھیں چھلکنے کو تھیں ۔ تبھی عارفین کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔
’’ یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑیے ان کا ہاتھ ۔‘‘ اس نے بڑھ کر سیٹھ نواز کا ہاتھ جھٹکا تھا ۔ ایک تاسف بھری نگاہ تماش بینوں پر ڈالی تھی ۔ (مرد ہی مرد تھے مگر ان مردوں میں سے کوئی مرد بھی تھا بھلا ؟) سیٹھ نواز اس اچانک افتاد پر بوکھلا ہی گیا تھا ۔ گرفت کمزور پڑتے ہی ماہ لقاہء نے اپنی کلائی چھڑا کر باہر کی راہ لی تھی ۔ سرخ پڑتی کلائی سے عارفین نے نگاہ چرائی تھی ۔سیٹھ نواز نے گھور کر عارفین کو دیکھا تھا، تبھی خیام نے بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کروایا تھا ۔ ماہ پارا بیگم نے سارا منظر دیکھ کر بھی ان دیکھا کیا تھا ۔ بیزار سی نگاہ سیٹھ نواز پر ڈالی تھی۔
’’ اونہو، نام کا ہی سیٹھ ہے ورنہ اب تک رقم ادا نہ کر دیتا۔‘‘ سیٹھ نواز تن فن کرتا چلا گیا تھا اور ماہ پارا بیگم اپنا بھاری بھرکم وجود گھسیٹ کر خیام کے قریب پہنچی تھیں۔
’’ ارے میاں تعارف تو کروا دو اپنے دوست کا،کیا نام ہے ؟کیا حسب نسب ہے ؟‘‘
’’عارفین ہسبانی … ہسبانی ملز والوں کا اکلوتا بیٹا۔ ‘‘ خیام نے تعارد کروایا ‘ اور تعارف ایسا تھا کہ ماہ پارا بیگم کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں۔
’’ کچھ خدمت کا موقع ہمیں بھی دو لڑکے۔‘‘ اب کے وہ ڈائریکٹ عارفین سے مخاطب تھیں اور بس … اب عارفین ہسبانی کی بس ہو چکی تھی ۔ وہ جھٹکے سے اٹھاتھا اور دھڑ دھڑ سیڑھیاں اتر گیا تھا۔
’’آئے ہائے بڑا غرورپیٹا لڑکا ہے، بد دماغ نہ ہو تو۔‘‘ ماہ پارا بیگم بڑبڑا کے رہ گئی تھیں۔ وہ تینوں بھی اس کے پیچھے بھاگے تھے۔
’’پاگل ہو تم سب یہ بھی کوئی جانے کی جگہ تھی ، کیا عجیب تماشہ لگا ہوا تھا ۔ ‘‘عارفین نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی اور ایک غصیلی نگاہ ان تینوں پر ڈالی تھی ۔ عمر اور علی تو اس کی طرح پہلی بارہی گئے تھے ، کندھے اچکا کر رہ گئے۔
’’صحیح تھی یار ایسی بری جگہ بھی نہیں تھی ۔ اچھی خوبصورت لڑکی تھی بس کچھ ماحول عجیب سا تھا۔ ‘‘ عمر نے سرسری سا تبصرہ کیا تھا ۔عارفین نے گھور کر دیکھا تھا۔
’’عورت کی عزت کرنا سیکھو۔‘‘
’’تعریف ہی کی ہے یار۔‘‘ عمر منہ ہی منہ میں منمنایا تھا ۔
خیام مطمئن سا بیٹھا ان کے تبصرے سن رہا تھا ۔ خیام کا تعلق روایتی زمیندار گھرانے سے تھا ۔ اس کی ایک خاندانی بیوی گاؤں میں تھی اور ایک اپنی پسند کی بیوی شہر میں بھی تھی ۔ وہ ان سب سے بہت آگے تھا، اپنے باپ داداؤں کے نقشے قدم پر چل رہا تھا ۔اس کے باپ دادا نے بھی وہ چوکھٹیں عبور کر رکھی تھیں ۔ ان کے خاندان میں صرف ایک ہی پابندی تھی کہ بچپن کی منگ سے(جو خاندان کی ہی کوئی لڑکی ہوتی تھی) شادی لازمی کرنی ہوتی تھی باقی دوسری شادیوں کی اجازت کھیل اجازت تھی ۔ خیام نے بھی دوسری شادی اپنی پسند سے اپنی یونیورسٹی فیلو سے کر رکھی تھی۔ رنگین مزاج تھا مگر یاروں کا یار تھا ۔ تب ہی عارفین جیسے بندے سے دوستی نبھ رہی تھی۔
’’ آپ کچھ فرمائیں گے؟‘‘ عارفین کے طنزیہ لہجے پر خیام نے زوردار قہقہہ لگایا تھا۔
’’ یار تو بس یہ سوچ کے اگر آج تو نا جاتا تو اس لڑکی کو سیٹھ نواز سے کون بچاتا ؟ جہاں جا کر لوگ گنہگار ہوتے ہیں تو ‘ تو وہاں بھی نیکی کرآیا میرے یار ۔ ‘‘ خیام نے محبت سے عارفین کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’ہاں بالکل یہ بات تو صحیح ہے ۔‘‘ علی نے بھی تائید کی تھی۔
’’تم سب نے چوڑیاں جو پہن رکھی تھیں ورنہ مجھے اس قسم کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانے کا کوئی شوق نہیں۔ ‘‘ عارفین کے جواب پر خیام نے باآواز بلند کہا تھا۔
‘‘ ارے آپ جیسی جی داری ہم میں کہاں۔‘‘ سب کا بلند و بانگ قہقہہ گونجاتھا ۔ عارفین نے تاسف سے سر ہلایا تھا (تم سب کا کچھ نہیں ہو سکتا) اور زن سے گاڑی آگے بڑھا دی تھی۔
٭…٭…٭

1 2 3 4 5 6 7 8 9اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page