رشتے : تابندہ طارق عکس
وہ معصوم چہرے پر اداسی لیے،جھیل کنارے بیٹھی اپنے چھوٹے نازک ہاتھوں سے پتھر پانی میں پھینک رہی تھی۔کسی الجھن کو سلجھانے کی کوشش کرنا چاہتی تھی۔لیکن وہ چھوٹی سی جان سلجھنے کی عمر میں الجھی بیٹھی کچھ خائف سی لگ رہی تھی۔کسی دل سوز ساز نے اس چونکا دیا تھا۔
’’ میرب!تم یہاں کیا کل (کر)رہی ہو ۔میں تمہیں کب شے(سے) ڈھونڈ رہی ہوں ۔ ‘‘ سفید فراک میں ملبوس وہ دونوں ہاتھوں کے اشارے سے گویا ہوئی۔
میرب نے اس پر ایک نظر دوڑاتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’ کچھ نہیں۔‘‘
پری ننھے ننھے قدموں سے اس کے قریب آکر بیٹھ گئی۔
’’ بتاؤ تو شحیح (صحیح) ہوا کیا ہے۔ہم تو تمہالی(تمہاری) دوست ہیں نا۔‘‘
’’ ہاں پری !تم ہمالی(ہماری) شب شے (سب سے) اچھی دوست ہو۔‘‘
’’ تو پھر بتاؤ،کیوں اداش(اداس) ہو۔‘‘
’’ پری!!ہمالے (ہمارے) بابا نہیں ہیں نا،شب (سب) بچے اپنے بابا کے شاتھ (ساتھ) کھیلتے ہیں ، اشکول(اسکول)جاتے ہیں،لیکن ہم جب دیکھتے ہیں نا ہمالا (ہمارا) بھی دل کرتا ہے ہمالے (ہمارے) بابا ہوں،ہم بھی ان کے شاتھ مشتی (ساتھ مستی) کریں۔لیکن اللہ تعالی نے اتنا جلدی کیوں ہمالے (ہمارے) بابا کو اپنے پاش (پاس) بلا لیا؟‘‘
وہ معصوم چہرے کی نزاکت دونوں ہاتھوں میں سموئے رونے لگی ۔ پری بھی اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکی ۔ اس کی آنکھیں بھی بے ساختہ چھلکنے لگیں ۔ پری اپنی نازک انگلیوں سے میرب کے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’ پری!!تم مت رو،تمہیں پتہ ہے ۔ میلی (میری) امی کہتی ہیں ۔ میلی نانی اماں کو اللہ تعالی ہمالی (آنکھوں) شے (سے) اجھل کر دیا ہے،لیکن وہ آشمان(آسمان) پر بیٹھی شب (سب) دیکھ رہی ہیں۔تو اش (اس) کا مطلب ہے،تمہالے(تمہارے) بابا بھی شب (سب) دیکھ رہے ہیں۔تم رو نہیں ورنہ وہ بھی اداش (اداس) ہو جائیں گے کہ ان کی لاڈلی رو رہی ہے۔”
میرب نے اپنے ٹپکتے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ ہاں ہمالی (ہماری) مور جان بھی کہتی ہیں، تمہالے (تمہارے) بابا ہر وقت ہمالے (ہمارے) شاتھ (ساتھ) ہیں ۔ ‘‘ پری نے میرب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’ چلو شام ہو رہی ہے گھر چلتے ہیں ۔ ہمالی اور تمہالی (ہماری اور تمہاری) امی ہم دونوں کے راہ دیکھ رہی ہوں گی۔‘‘
سورج بھی ہولے ہولے آسمان کی بلندیوں سے نیچے اترتے ہوئے اپنی حدت کم کر رہا تھا۔اس کی کرنیں کسی کوہسار کے پیچھے چھپتی جا رہی تھیں۔کسی پیپل کے درخت پر بیٹھی کوئل کی کوکو اداس دلوں کو پرسکون کرنے میں کار آمد ثابت ہوتی تھی۔شام کا یہ منظر بہت دلکش تھا۔
٭…٭
وہ کچن میں کھڑی پکوڑے بنا رہی تھی ۔ ایک دم سے دروازہ کھولا تو اس کے ہونٹوں پر مسکان چھلک اٹھی اور بے ساختہ گویا ہوئی۔
’’ اتنی دیر کر دی ، آپ کو پتہ ہے نا رمضان المبارک ہے اور افطاری سے پہلے پہلے دستر خوان سجانا ہوتا ہے ۔ آپ کے بابا کے لیے فاتحہ خوانی کرنی ہوتی ہے ۔ اب جلدی سے افطارکا سامان ٹیبل پر لے جانے میں ہماری مدد کریں۔‘‘
’’ جی مور جان!!ہم ابھی آپ کی مدد کر دیتے ہیں۔‘‘ وہ سر ہلاتے ہوئے گویا ہوئی۔
ماں بیٹی نے دستر خوان سجایا اور دعا کے لیے ہاتھ بلند کر لیے ۔ روزہ افطار کرنے کے بعد میرب اور اس کی امی نے مل کر نماز مغرب ادا کی۔
٭…٭
افطار کے بعد نماز مغرب ادا کی ۔اور پھر سب حال میں ایک ساتھ بیٹھ گئے۔
’’ بابا!!ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ پری، پوچھیں کیا پوچھنا چاہتی ہیں۔‘‘
’’ بابا!میرب آپ کو تایا ابو کیوں کہتی ہے؟‘‘
سلمان اس بہت پر عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔
’’ پری بیٹا!کیونکہ اس کے بابا میرے چھوٹے بھائی تھے اور میں تمہارے چاچو جان سے بڑا ہوں عمر میں اس لیے،وہ مجھے تایا ایو کہتی ہے۔‘‘
’’ پھر تو مطبل (مطلب) آپ میرب کے لیے اش کے (اس) بابا جیشے (جیسے) ہو؟ہیں نا۔‘‘
’’ جی بالکل پری !میں میرب کے بابا جیسا ہی ہوں۔‘‘
’’بابا!میرب تو آپ کی بیٹی ہوئی،جیشے (جیسے) ہم آپ کی بیٹی ہیں۔‘‘
’’ پری!درست کہہ رہی ہیں آپ،وہ بالکل آپ کی طرح ہماری بیٹی جیسی ہے۔‘‘
’’ تو پھر آپ ان کا ویشے (ویسے) ہی خیال کیوں نہیں رکھتے،جیشے (جیسے) آپ ہمالا (ہمارا) خیال رکھتے ہیں؟‘‘
پری کے سوالوں کا سلمان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ ان سوالوں نے اس جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ پری انگڑائی لینے لگی اس نیند آرہی تھی ۔ وہ سلمان کی گود میں کب سر رکھ کر سو گئی ۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکا ۔ ایک دل سوز آواز نے اس گہری کھائی کی سوچوں سے باہر نکالا تھا۔
’’ سلمان صاحب!پری سو گئی،میں اس کمرے میں لے جاتی ہوں۔آپ تب تک عشاء کی نماز ادا کر لیجیے۔‘‘
سلمان بامشکل ہممم کرتے ہوئے سر ہلا دیا ۔ نماز کے بعد کمرے میں بے سود بیٹھ کر خود سے ہمکلام ہوا۔
’’ کتنا بد نصیب،کتنا مطلبی و خود غرض انسان ہوں میں …بھائی کے گزرنے کے بعد کبھی سوچا ہی نہیں اس کی معصوم بیٹی جیسے باپ کے پیار کی، خلوص کی،ساتھ کی کس قدر ضرورت ہے ۔ اور میں اپنی زیست کی گہما گہمی میں اس قدر اندھا ہو گیا کہ فرض عین کو بھول گیا ۔ قیامت کے دن اپنے بھائی کا اپنے رب کریم اور اس کے پیارے محبوب حضرت محمد ﷺ کا سامنا کیسے کروں گا۔‘‘
سلمان اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر آنسوؤں کے چشمے انڈیل دیے ۔اس کے کندھے پر محبت بھرا لمس رکھ کر گویا ہوئی۔
’’ سلمان صاحب!کیا ہوا ہے آپ کو؟‘‘
’’ مہربانو!!آج ہماری پری نے میرے سوئے ہوئے ضمیر کو پتھر دل کو جھنجھوڑ دیا ہے ۔ میں کیسے میرب اور بہن جیسی بھابھی کو فراموش کر بیٹھا ، اپنی زیست سے لطف اندوز ہونے میں مگن ہو گیا۔‘‘
’’ سلمان، کہتے ہیں‘ جب جاگو تب سویرا… آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو اب دیر کیسی۔‘‘
’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ان شاء اللہ اب کوئی کوتاہی نہیں ہوگی۔‘‘
٭…٭
عید کے دن میرب کی آنکھیں بھی جگمگانے لگی،اس کے آنگن میں بھی پھر سے شفقت بھرے گل کھلنے لگے۔
ختم شد