مکمل ناول

رنگِ حنا : تیسرا حصہ

اگلے دن کا قصہ تھا کہ زاہدہ گھر دھونے اور دھوبی کے پاس بھیجنے والے کپڑے الگ الگ کررہی تھیں۔
’’ یہ الگ الگ کیوں کررہی ہیں ۔ ‘‘ لیلیٰ ساتھ آبیٹھی۔
’’دھوبی کو بھیجنے ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک ڈھیر کی جانب اشارہ کیا۔
’’مردوں کے کپڑے مجھ سے نہیں دھوئے جاتے۔‘‘ زاہدہ استفسار کرر ہی تھیں۔
’’چلیں اب تو میں آگئی ہوں ،میں خود ھوئوں گی۔ ‘‘ اس نے ڈھیر واپس ملانا چاہا ۔
’’ لیکن بہو جب دھوبی کو بھیجے جاتے ہیں … ‘‘
’’پتہ نہیں وہاں دھوبی کے پاس دھونے کا کیا سسٹم ہوتا ہے ۔ کیا خبر سارے جہان کے کپڑے ایک ساتھ دھوتے ہوں ۔ دھوبیوں کے پاس ان لوگوں کو جانا چاہیے جن کے گھر میں کپڑے دھونے کی سہولت نہ ہو ۔‘‘ اس کی اپنی منطق تھی۔
ذوالفقار کام سے تھکے آئے ۔ کھانے کی میز پر برتنوں کا ڈھیر دیکھ کر حیران رہ گئے ۔
’’ کس کی دعوت کا اہتمام ہے ؟‘‘ وہ پوچھ رہے تھے۔
’’اپنی بہو سے پوچھ لیں۔‘‘ زاہدہ نے لیلیٰ کی طرف اشارہ کیا ۔ لیلیٰ شرما کر کچن سے سلاد لینے چلی گئی۔
’’ گھر میں رونق لگ گئی ہے ۔‘‘ ذوالفقار کہہ رہے تھے۔
’’بالکل ، اللہ نے بیٹی نہیں دی تو اسی کی تلافی ہے ۔ بہو نہیں بیٹی کی طرح رہ رہی ہے ۔‘‘ زاہدہ تو جیسے اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھیں۔ اور پاس بیٹھا شعیب یوں تولا تعلق اور خاموش سا بیٹھا تھا مگر دل میں بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
’’ کیسے لیلیٰ گھر کا حصہ بنتی جارہی ہے ۔‘‘ اسے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
اور رات کی کہانی بھی مختلف ہونے لگی تھی۔
حنا بھولی نہیں تھی ۔ وہ اسے بھول بھی کیسے سکتا تھا مگر اپنے کمرے میں یوں ہر وقت ایک حور سا وجود موجود ہوتا ۔ وہ اپنے اٹھتے شوریدہ جذبات کو دبانے کی کوشش کرتا رہتا ۔
اور لیلیٰ بھی کون سا پیچھے ہٹنے والی تھی ۔ اصولاََ تو جتنی شعیب نے سردمہری اورلاتعلقی دکھائی تھی اسے ناراض ہو جانا چاہئے تھا ۔ میکے میں شکایتیں لگانی چاہئے تھیں ۔ اس کے میکے سے باز پرس کرنے کے لیے سربراہان کو آنا چاہئے تھا ۔ اس کی سردمہری کو دیکھتے ہوئے وہ لیلیٰ کو لے جاتے مگر ایسا کچھ نہ ہوا تھا ۔ وہ شعیب سے باتیں کرنے کی کوشش کرتی۔
ایسے جیسے دل جوئی کررہی ہو ۔
ایسے جیسے پتھر میں شگاف چاہتی ہو ۔
’’ آپ نے مجھے منہ دکھائی کا تحفہ نہیں دیا ۔ ‘‘ وہ پاس ہی بیٹھی ہوتی اور کہتی ۔ شعیب کا دل تو چاہا کہ ٹھس بیٹھا رہے مگرجانے دل میں کیا آیا کہ اٹھا ۔ الماری کھول کر سر الماری میںگھسائے کھڑا رہا اور چیک بک سے ایک چیک بھر کر لے آیا اور آکر لیلیٰ کے پہلو میں رکھ دیا۔
اور وہ توقع کررہا تھا ۔ لیلیٰ کہے گی مجھے پیسے نہیں تحفہ چاہیے مگر لیلیٰ نے کہا ۔
’’اتنے زیادہ پیسوں کی کیا ضرورت ۔ چلیں منہ دکھائی کون سا روز ملتی ہے ۔ آپ کو اتوار کو چھٹی ہوگی نا تو بازار چلیں گے ۔ میں پلاٹینم کی انگوٹھی لوں گی ۔ مجھے پلاٹینم پہننے کا بہت شوق تھا مگر قسمت جہیز ‘ بری کوئی زیور پلاٹینم کا نہ تھا ۔ ‘‘ وہ اپنی دھن میں کہے جاتی اور شعیب نظریں چراتا کبھی ٹی وی پر نظریں جماتا ، کبھی صوفے کے پاس پڑا میگزین کھول لیتا ۔
’’ آپ تو بے مثال شاعر ہیں ۔ ‘‘ ایک رات وہ رنگ ِحنامیں انگلی پھنسائے شعیب کے سامنے آبیٹھی ۔
’’میں حیران رہ گئی اس قدر خوبصورت شاعری ۔ پروین شاکر کی شاعری کا گمان ہوتا ہے اور اگر میں غلط نہیں تو پروین شاکر ہی آپ کی پسندیدہ شاعرہ ہیں ۔ ‘‘ شعیب خاموش بیٹھا رہا اور لیلیٰ نے جیسے اس کی خاموشی کی پروا نہیں کی۔
’’ اور یہ …‘‘ تبھی لیلیٰ نے رنگ ِحنا سے تصویر نکالی ۔ یہ حنا کی تصویر تھی ۔
’’ بہت خوبصورت ہے ۔‘‘ تصویر دیکھتے ہوئے لیلیٰ کے چہرے پر دھیمی مسکان تھی ۔
’’ واپس رکھ دو ۔‘‘ شعیب تھکنے لگا تھا ۔ سر مسہری کی پائینتی سے ٹکا لیا اور آنکھیں موند لیں ۔
’’مجھے مرحومہ کے بارے میں نہیں بتائیں گے ۔‘‘
’’مرحومہ … ‘‘ شعیب نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور سیدھا ہوکر بیٹھا۔
’’ وہ مری نہیں ہے ، زندہ ہے ۔‘‘ شعیب نے شدت سے تردید کی ۔ لیلیٰ اپنی جگہ حیران رہ گئی ۔ اسے تو یہی بتایا گیا تھا کہ حنا مر چکی ہے ۔ کچھ دیر خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے۔ پھر اس خاموشی کو لیلیٰ کی آواز نے توڑا ۔
’’ مجھے حنا کے بارے میں نہیں بتائیں گے ۔‘‘ وہ نرمی سے کہہ رہی تھی۔ شعیب اسے دیکھے گیا ۔ آخر وہ کون تھی ؟ یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں رشک ، حسد اور کینہ کیوں نہ تھا ۔ اس کی مسکراہٹ اتنی نرم کیوں تھی۔
’’اپنے اور حنا کے بارے میں بتائیں ، شروع سے … ‘‘ لیلیٰ دوبارہ کہہ رہی تھی اور شعیب نے کہنا چاہا ۔
’’نہیں ہرگز نہیں ۔‘‘ مگر کہہ نہ پایا بلکہ ایک طویل سانس بھرتے ہوئے بتانے لگا ۔
’’حنا اور میں یونیورسٹی میں کلاس فیلوز تھے ۔ میں نے پہلی دفعہ اسے یونیورسٹی کے پہلے دن یونیورسٹی گیٹ پر دیکھا تھا ۔ وہ اس دنیا کی نہیں لگتی تھی …‘‘ شعیب اسے بتانے لگا۔ رفتہ رفتہ ، سب کچھ وہ بتاتا رہا ۔ رات سرکتی رہی اور بھیگتی رہی ۔ بالکل ایسے جیسے اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ لیلیٰ نے ایک ٹشو آگے بڑھایا ۔ اس نے ٹشو لے کر آنسو پونچھے ۔ ٹشو اتنا گیلاہوگیا کہ مزید آنسو پونچھنا ممکن نہ رہا ۔
’’ اتنا مت روئیں ۔ ‘‘لیلیٰ آگے بڑھی اور اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کا چہرہ خشک کرنے لگی ۔ ایک لمس نے اس کے چہرے کو چھوا اور پہلو میں جاگرا ۔ اس کے رونے میں مزید شدت آگئی۔
’’ میںحنا سے بہت پیار کرتا تھا ، کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔‘‘ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
لیلیٰ اسے روتے ہوئے دیکھتی رہی ۔ اس کی آنکھیں گیلی ہورہی تھیں ۔ آگے بڑ ھ کر اس نے شعیب کا سر اپنے ساتھ لگا لیا اور آہستہ آہستہ تھپکنے لگی ۔ شعیب روتا رہا ۔ روتے ہوئے اسے بھی پتا نہ چلا کب اس نے لیلیٰ کے گرد اپنے بازو پھیلا لیے ۔
اور یوں رات مزید بھیگنے لگی ۔
یہ ان دونوں کے درمیان دوستی کا آغاز تھا ۔
دوستی اور محبت کا ۔
وہ دونوں جو زندگی بھر کے ساتھی تھے۔
جنہیں نکاح نے جوڑا تھا ۔
٭٭ …٭٭
عمر نے دونوں کو ڈنر پر بلایا تھا ۔ اصولاََ تو اسے گھر بلانا چاہیے تھا مگر وہ خود اپنے گھر کے ماحول سے نالاں تھا ۔
’’یہ کیسا گھر ہے جہاں میلہ لگا رہتا ہے ۔‘‘ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا ۔ اور وہ جوائنٹ فیملی کی رونق کو میلے سے تشبیہ دیتا ۔ اور ان دونوں کی دعوت کے نام پر وہ نہیں چاہتا تھا کہ پورا گھر جوش و خروش سے افراتفری کا شکار ہو ۔ دعوت کے نام پر دیگچے کے دیگچے چڑھائے جائیں (باوجود اس کے کہ یہ دیگچے روز ہی چڑھا کرتے تھے ) اس لیے اس نے انہیں ہوٹل پر بلایا۔
’’ گھر پر بلاتے تو اچھا تھا ۔ ان کا گھر بھی دیکھ لیتی اور سب سے مل لیتی …‘‘ لیلیٰ نے کوئی دس بار خیال آرائی کی مگر خیر …
اچھے سے ہوٹل میں پہلے سے ہی میز ریزرو کرلی گئی ۔ جب وہ لوگ پہنچے عمر اور صنم پہلے سے ان دونوں کا انتظار کررہے تھے ۔ دونوں خواتین کچھ ایسی گرم جوشی سے ملیں جیسے ایک دوسرے کو جانتی ہوں اور کچھ ایسے خوش گپیوں میں مصروف ہوگئیں جیسے روز کا ملنا ہو ۔ اور وہ دوست ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئے ۔
’’کیا تم دونوں کی پہلی ملاقات ہے ؟‘‘ عمر سے رہا نہ گیا تو پوچھ لیا ۔
’’ ظاہر سی بات ہے شعیب بھائی اور بھابی کی شادی پر ملی تھی ۔‘‘
’’ اور اس سے قبل … ‘‘ عمر پوچھ رہا تھا۔ صنم نے مجازی خدا کو کچھ جزبز ہوکر دیکھا جیسے کہہ رہی ہو یہ کیسا انٹرویو ہے ۔
’’ اس سے پہلے کیسے مل سکتے تھے ۔‘‘ صنم نے جواب دیا ۔ عمر نے اثبات میں سرہلایا اور شریر نگاہوں سے شعیب کو دیکھا ۔دونوں مسکرا دیے جیسے ان کے گھلنے ملنے کی وجہ سمجھ میں آگئی ہو ۔ ویٹر آرڈر لینے آیا ۔
’’بھابی آرڈر کیجئے ۔‘‘ عمر نے مینو کارڈ لیلیٰ کی طرف بڑھایا ۔
شعیب کی طرح اس نے بھی سوچا کہ وہ نہیں شکریہ کہہ کر ان مرد حضرات سے آرڈر کرنے کا کہے گی مگر اس کے بر عکس اس نے مینو تھامتے ہوئے شکریہ کہااور صنم سے مشورہ کرتے ہوئے آرڈر نوٹ کروانے لگی ۔
’’ آپ مرد حضرات کچھ خاص لینا چاہیں گے ۔‘‘ لیلیٰ نے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ شعیب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے عمر کی جانب اشارہ کیا ۔ عمر نے بھی کندھے اچکا دیے۔
’’ آدمیوں کو مٹن مرغوب ہوتا ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مٹن کی ڈش منتخب کرنے لگی ۔
’’ اور ڈیزرٹ کھانے کے بعد سرو کیجئے گا۔‘‘ لیلیٰ اب ویٹر سے کہہ رہی تھی اور جب وہ چلا گیا تو کھنکھار کے گویا ہوئی ۔
’’عمر بھائی آپ کا دوست تو بہت کم گو ہے ۔ امید ہے آپ ایسے نہیں ہوں گے ۔‘‘عمر نے ابھی کچھ کہنا ہی چاہا کہ شعیب کی آواز کانوں سے ٹکرائی ۔
’’نہیں بالکل نہیں، اللہ نے پہلے دوست اور اب بیوی دونوں ہی باتونی دیے ہیں ۔ ‘‘ عمر خوشگوار حیرت سے شعیب کو دیکھنے لگا ۔ تو کیا لیلیٰ تبدیلی کا پیش خیمہ تھی ؟ لیلیٰ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور صنم سے خوش گپیوں سے مصروف ہوگئی۔
جلد ہی ان خواتین کا کپڑوں ، جوتوں کے رنگوں اور برانڈ کے علاوہ بھی دلچسپی کا پہلو نکل آیا ۔ اور وہ پہلو تھا ناول پڑھنا ۔
خواتین کے ناولز سے بات شروع ہوئی تو عمیرہ احمد دونوں کی پسندیدہ مصنفہ نکلی۔
’’ عکس ۔‘‘ صنم عکس کو عمیرہ کا بہترین ناول قرار دے رہی تھی ۔
’’ نہیں ، پیر کامل …‘‘ یہ لیلیٰ کی خیال آرائی تھی ۔
’’ آہ ، عمر جہانگیر اور زینب ضیا ء … ‘‘ دونوں خواتین اب فکشن کرداروں کے مرنے کا غم منانے لگیں تو بات حضرات مصنفین تک آگئیں ۔ دونوں نے مرد مصنفین کو بھی پڑھا ہو ا تھا۔
’’للکارپڑھا آپ نے ‘ ہائے عمران تو ہمارا ہیرو تھا اور اس کے مرنے پر میں اتنا روئی اور تین دن کھانا نہیں کھایا ۔ طاہر جاوید مغل کی تو کیا بات ہے ۔ ‘‘ للکار صنم نے بھی پڑھا تھا ۔ چند منٹ للکار دونوں کے بیچ زیر بحث رہا ، ثروت کے لتے لیے گئے اور تابش سے ہمدردی ۔ للکار کے بعد مرحوم کاشف زبیر کی بات چھڑی تو سراب پر تبصرہ شروع ہوگیا ۔
کھانا آیا تو دونوں دوستوں نے شکر ادا کیا ورنہ کتابی دنیا سے ان کا نکلنا مشکل لگ رہا تھا ۔ (شوہر حضرات کے ہوتے ہوئے عمر جہانگیر اور عمران کا غم، ہونہہ …)
کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا ۔ عمرکوسب کی پلیٹوں میں چیزیں ڈالنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑی ۔ یہ کام لیلیٰ کرتی رہی اور کہیں کہیں صنم نے اس کا ہاتھ بٹایا ۔کھانے کے بعد ڈیزرٹ آگیا۔
’’ واہ کیا آئسکریم ہے ۔ ایسی آئسکریم پورے شہر میں کہیں نہیں ملے گی ۔‘‘ لیلیٰ کہہ رہی تھی ۔
اور شعیب کی سوچوں میں حنا چھن سے آبسی ۔ حنا بھی آئسکریم کی رسیا تھی اور شعیب کے استفسار پر معلوم ہوا تھا کہ اس نے اس ہوٹل کی آئسکریم نہیں کھائی ۔
’’ پھر تم نے کھایا ہی کا ہے ۔‘‘ شعیب نے آئسکریم کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیے اوراس مبالغہ آرائی میں کچھ سچائی تھی ضرور کہ آئسکریم بہت اچھی تھی مگر اتنی نہیں جتنی تعریفیںشعیب کررہا تھا۔
’’ ایسا لگتا ہے جیسے جنت سے تیار ہوکر آئی ہو ۔ مجھے یقین ہے جنت میں بھی آئسکریم کا یہی ذائقہ ہوگا ۔ ‘‘ شعیب نے تو انتہا کردی ۔ حنا اسے گھور گھور کر دیکھتی رہی ۔
’’چلو پھر کبھی کھائیں گے ۔‘‘
’’تو کیوں نہ اسی ویک اینڈ پر چلیں ۔ ‘‘ شعیب نے جھٹ پیش کش کی ۔
’’بالکل نہیں ، شادی سے پہلے ڈیٹ ، ہرگز نہیں ۔‘‘
’’پلیز …‘‘ شعیب اصرار کرنے لگا اور حنا نے مسکراتے ہوئے اسے کتاب کھینچ ماری ۔ شعیب اپنے خیال سے چونک کر باہر آیا ۔
’’شعیب ۔‘‘ وہ چونک کر عمر کو دیکھنے لگا ۔ عمر اسے پکار رہا تھا ۔
’’ہم۔‘‘
’’کن سوچوں میں گم ہو۔‘‘
’’کہیں نہیں ۔‘‘ اب آئسکریم کھانے کا دل نہ رہا۔
’’آپ تو آئسکریم کھاہی نہیں رہے ، کھائیے نا پلیز ۔‘‘ لیلیٰ کہہ رہی تھی ۔
چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے شعیب نے آئسکریم کا چمچ منہ میں ڈالا ۔ بل آیا ، عمر نے ادائیگی کی۔
اور یوں یہ خوبصورت ڈنر اختتام کو پہنچا ۔
’’آپ کے دوست کی بیوی تو بہت اچھی ہے ۔‘‘ واپسی پر صنم عمر سے کہہ رہی تھی۔
’’ بالکل ‘ اور اس سے اچھی بات جو میں نے محسوس کی ہے وہ یہ کہ شعیب کی اداسی میں کمی تھی۔ وہ مطمئن نظر آتا تھااور قدرے خوش بھی ۔‘‘ عمر صنم کو بتا رہا تھا ۔
دوسری طرف شعیب اور لیلیٰ اپنے گھر کی طرف روانہ تھے ۔ان کی گاڑی مین روڈ پر آچکی تھی ۔
’’یہ ایک خوبصورت شام تھی ۔‘‘ لیلیٰ تبصرہ کررہی تھی ۔
ونڈسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے شعیب منہ سے تو کچھ نہ بولا مگر چہرے پر ایک تائیدی مسکراہٹ لے آیا ۔
٭٭ …٭٭
دور دور تک سمندر پھیلا تھا ۔ اتنا پانی کہ آنکھیں دیکھنے کی مجاز نہ تھی ۔ پانی کی لہریںآتیں اور ساحل پر کھڑے لوگوں کے پیروں کا گیلا کر جاتیں ۔ ہوا میں نمی تھی اور اس نمی میں نمکین ذائقہ گھلا تھا ۔ اور یہ ہوا جیسے لوگوں کے لیے تازگی کا پیامبر تھی۔
لیلیٰ نے ہوا سے اڑتے ہوئے بالوں کو کیچر میں مضبوطی سے باندھا اور گویا ہوئی۔
’’ عروہ سب سے چھوٹی بہن تھی ،بالکل گڑیا لگتی تھی ۔ وہ زلزلہ اتنا بے رحم تھا کہ سب لوگ لقمۂ اجل بن گئے ۔ امی ابو ، بہن بھائی ، رشتہ دار سب … ہم چند لوگ ہی بچے تھے ۔ گھر کشمیر کی جس وادی میں تھا وہاں کچھ نہ رہا ، سب تباہ ہوگیا ۔ دو سال پہلے گئے تھے ماموں اس علاقے میں کچھ بھی نہ تھا ۔ خالی خشک کٹے پھٹے پہاڑ تھے ۔‘‘ لیلیٰ ماضی میں کھوئی بتارہی تھی۔
شعیب اس کے چہرے کے نرم تاثرات کو دیکھتا رہا ۔ ایک صبر کی تحریر ان تاثرات میں کندہ تھی۔
شعیب نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور سمندر کی اور بڑھنے لگا ۔
’’تمہیں برا تو نہیں لگے گا گر میںساری زندگی حنا سے محبت کرتا رہوں ۔‘‘
’’ ہرگز نہیں …‘‘ پانی ان کے پیروں سے اونچا ہوگیا تھا ۔
’’میں حنا کے ساتھ یہاں آنا چاہتا تھا ۔ کئی دفعہ اسے کہا تھا ، ضد کی تھی ، منت کی تھی ، لڑا تھا ، ناراض ہوا تھا مگر وہ نہیں مانی ۔ وہ کہتی تھی شادی سے پہلے ہرگز نہیں۔‘‘
’’اچھی لڑکی تھی ۔‘‘ لیلیٰ نے خیال آرائی کی۔
’’تھی مت کہو وہ ہے ۔ اسی دنیا میں اور میرے دل میں…‘‘
’’کیا میں بھی آپ کے دل میں ہوں ۔‘‘شعیب لمحے بھر کو رک گیا جیسے سوچنے لگا ہو۔
’’شاید ہاں ۔ کوئی چھوٹا سا خانہ تمہارے نام کا بھی ہے ۔‘‘ لیلیٰ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
’’چلو شکر ہے خدا کا ، میرے لیے چھوٹا سا خانہ بھی کافی ہے ۔‘‘ وہ سمندر کی اور بڑھتے ہی جاتے تھے۔
’’تمہاری ہنسی بہت خوبصورت ہے اور تمہاری اردو بھی ۔ جو گلابی گلابی محسوس ہوتی ہے ۔ اتنے سال یہاں رہنے کے بعد بھی کشمیری لہجہ نمایاں ہے اور اچھا لگتا ہے ۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے ، تم بولتی رہو اور میں سنتا رہوں ۔‘‘ سمندر کا پانی ان کی نصف پنڈلیوں تک آپہنچا تھا۔
٭٭ …٭٭
’’جب آنگن میں میں نے درخت دیکھا تو بہت مسرور ہوئی ۔ وہاں کشمیر میں ہر گھر میں درخت ہوتا تھا ۔ خوبانی کا یا پھر سیب کا ۔ میری خواہش تھی کہ میں اپنے گھر میں پھلدار درخت لگاؤں گی ۔ خوبانی اور سیب تو میدانی علاقوں میں اگاناممکن نہیںمگر یہ شہتوت بھی برا نہیں ۔‘‘ دونوں میاں بیوی درخت کے تنے کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔
’’ تمہاری عادتیں حنا سے بے حد ملتی جلتی ہیں ۔ اسے بھی درخت پسند تھے ۔ اس کے اپنے گھر میں جامن کا درخت تھا ۔ جس کے ٹہنے میں اس نے رسہ ڈال کر جھولا بنا رکھا تھا ۔ اس جھولے پر بیٹھ کر وہ جھولتی رہتی ۔ کہتی تھی کہ یہاں آکر شہتوت میں بھی جھولا ڈالے گی ۔‘‘
’’ آپ کی اجازت ہو تومیں جھولا ڈال لوں ؟‘‘ لیلیٰ پوچھنے لگی ۔
شعیب چند لمحے تو خاموش ہی کھڑا رہ گیا ۔
’’ڈال لو ۔‘‘ بلاآخر شعیب نے اجازت دے دی ۔ لیلیٰ مسکراتے ہوئے اندر گئی اور ایک موٹا رسہ لے آئی ۔ ایسے جیسے پہلے سے ہی جھولے کی نیت سے رکھا ہو ۔
’’ تو پھر خود ہی ڈال دیں۔‘‘ دونوں میاں بیوی نے مل کر جھولا ڈالا ۔
بیٹھنے کے لیے ایک چھوٹا سا گدا فٹ کیا ۔ جھولا تیار ہونے میں لگ بھگ چالیس منٹ لگے اور اکتالیسویں منٹ لیلیٰ جھولے میں بیٹھی تھی ۔ شعیب اسے جھولا دیتا اور وہ جھولے میں بیٹھی ہوا سے باتیں کرتے ہوئے قلقل ہنسے جاتی ۔
کون کہتا ہے آسمان کو ہاتھ لگانے کی چاہت پوری نہیں ہوتی۔
لیلیٰ نے توہاتھ لگا لیا تھا ۔
کمرے کی کھڑکی سے بہو بیٹے کو یوں گھلتے ملتے ، ہنستے مسکراتے دیکھ کر زاہدہ نہال ہوگئیں اور ذوالفقار سے کہنے لگیں ۔
’’نظر نہ لگے میرے بیٹے کو ، کس قدر خوش ہے ۔‘‘
’’ ماشاء اللہ ۔‘‘ ذوالفقار بلند آواز سے کہتے ۔
’’اچانک لیلیٰ نے جھولا روکنے کو کہا اور جھٹ سے جھولے سے اتر گئی۔
’’ کیا ہوا ؟‘‘ شعیب نے پوچھا ۔
’’مجھے اتنے زور زور سے جھولے نہیں لینے چاہیے۔‘‘
’’ کیوں ۔‘‘ وہ اچنبھے سے پوچھنے لگا۔
’’وہ … ‘‘ لیلیٰ شرمانے لگی ۔
’’آپ کے لیے خوشخبری ہے ۔‘‘
’’کیا …؟‘‘ اسے اب بھی پتا نہ چلا ۔
لیلیٰ کچھ دیر مسکراتی شرماتی رہی اور پھر گویا ہوئی ۔
’’ آپ بابا جانی بننے والے ہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ وہاں رکی نہیں اور جلدی سے کمرے کی طرف چلی گئی۔ شعیب وہیں کھڑا رہا ۔ شہتوت کے تنے کو تھامے ، اپنے مسرور ہوتے دل کو قابو کرتے ہوئے ۔ اور پھر وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا ۔ وہ اپنی رفتار سے محو سفر رہا اور یہاں تک کہ گھر میں ایک ننھا مہمان آیا۔
’’ سفیان ۔‘‘ پوتے کا نام ذوالفقار نے منتخب کیا تھا ۔ تب کتنی مدت بعد شعیب نے قلم تھاما ۔ اولاد کی نعمت ملنے پر اظہارِ تشکر کے اظہار کے لیے ۔
مدتوں بعد سینے میں ہلچل ہوئی
مدتوں بعد یہ دل مچلنے لگا
اس اداسی کا سورج بھی ڈھلنے لگا
مستقل حبس کی قید سے
زنگ آلود کھڑکی میں کھلنے کی خواہش برآمد ہوئی…
گویا اک دشت میں پھر بہاروں کی آمد ہوئی…
کوئی مانوس سی ایک آواز ہے
جو زمانے کے اس شور کو چیر کر
کان میں اپنے جادو کا رس گھولنے کو بہت ہے…
اے میری جان!
اے میری لیلائے جان
اب تیرے ہاتھ کے لمس سے
دل کے ٹوٹے ہوئے تار ملنے لگے ہیں
اپنے آنگن میں اب پھول کھلنے لگے ہیں…

٭٭ …٭٭
جارہی ہے

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے