رنگِ حنا : تیسرا حصہ
’’ لو اپنے گناہ گار کو سزا دو ۔‘‘ وہ چاقو حنا کو تھما دے گا ۔
سوچتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوتی رہیں ۔ امجد چلتا ہوآیا ۔ شعیب نے جلدی سے آنکھیں صاف کی مگر یہ نمی امجد کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
’’ یار ساتھ والا چوبارہ ہے ۔‘‘ امجد نے اسے سیڑھیاں اترنے کا اشارہ کیا۔
’’یار تو تو سچ مچ اس سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ وہیں سیڑھیاں اترتے ہوئے سرخ و سفید میلے بلبوں کی روشنی میں امجد نے اس کے چہرے کے تاثرات جاننے چاہے ۔
شعیب نے کچھ نہ کہا بس سیڑھیاں اترتا رہا ۔ اگلے چوبارے پر ویسے ہی میز سجی تھی مگر میز کے پار مرد کی بجائے عورت بیٹھی تھی ۔ ویسے ہی پان چبا رہی ، ویسے ہی نگاہوں سے تولتی ہوئی ۔
’’ حنا … ؟ ‘‘ عورت نے تصدیق چاہی ۔
’’نام بھی تبدیل نہ کیا ۔‘‘ وہ کٹ کر رہ گیا ۔
امجد پیسے ادا کرنے لگا اور وہ مرنے لگا ۔
امجد عور ت سے عاشقانہ باتیں کرنے وہیں رک گیا ۔ شعیب اپنا جسم لادتا ایک شخص کی سربراہی میں ایک کمرے کی طرف گیا ۔ کمرے میں بیڈ اور سنگھار میز تھا ۔ سیج سجی تھی جیسے نوبیاہتا کا کمرہ ہو ۔ جانے اس سیج میں کتنی راتیں سیاہ کی گئی ہوںگی ۔ محترمہ منہ دوسری طرف کیے بیٹھی تھیں ۔ پشت سے حنا ہی لگتی تھی ۔
’’کاش کوئی اور ہو … ‘‘ اس نے دل سے دعا مانگی ۔
’’ حنا ۔‘‘ اس نے پکارا ۔دل جیسے ان لمحوں میں سینے سے باہر آنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔
خاتون نے مڑ کر دیکھا ۔ دعاقبولیت کے شرف کو پہنچی تھی ۔ قدرے سفید رنگت والی سجی سنوری لڑکی اس کی حنا نہیں تھی ۔ اس کا سانس جیسے بحال ہوا ۔ وہ زندہ تھی یا مر گئی مگر صد شکر کہ یہاں نہیں تھی۔
’’آئو نا صاحب ! رک کیوں گئے ہو ۔‘‘ ہاتھ بڑھا کر وہ اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کررہی تھی ۔ وہ واپس مڑا اور دروازہ پار کرتا چلا گیا ۔
٭٭ …٭٭
وہ برآمدے میں لیٹا یونہی آنگن میں لگے شہتو ت کے درخت کو تکتا تھا ۔ تکتے تکتے وہ اٹھا اور درخت کے پاس چلا آیا ۔ درخت کے اردگرد گھوم کرجیسے جائزہ لینے لگا ۔ ہاںایک ٹہنا ایسا تھا جس پر جھولا باندھا جاسکتا تھا ۔
’’ حنا … ‘‘ اس نے چپکے سے پکارا۔تھک کر سر شہتوت کے ٹہنے کے ساتھ لگا لیا اور آنکھیں موند لیں ۔
’’ برس کے برس بیتے جاتے ہیں ، کہاں ہو تم ۔‘‘ وہ یونہی سوچے گیا۔
’’ کبھی کبھی سوچتا ہو ںخوامخواہ محبت کا روگ پالا ۔ تمہیں بھی رسوا کیا اور خود بھی نامراد ٹھہرا ۔ ‘‘ خیالات کی اڑان ہر سمت ہوتی ۔ آسمان پر بادل جمع ہونے لگے جیسے بارش کا ارادہ رکھتے ہوں۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں ۔ آنگن میں لگے واش بیسن کے اوپر آئینہ لگا تھا ۔ تیز ہوا سے وہ اپنے کیل سے نکلا اور زمین بوس ہوگیا ۔ زاہدہ کمرے سے آئیں اور ٹوٹے ہوئے آئینے کو دیکھ کر افسوس کرنے لگیں ۔
’’ کتنی دفعہ آندھیوں نے اس جگہ آئینے کو توڑا ہے ۔ تمہارے ابو کو کہہ کہہ کر تھک گئی کہ مضبوطی کا بندوبست کریں مگر نا جی ۔ اور تم بھی کہاں سنتے ہو ۔‘‘
شعیب آگے بڑھا اور آئینے کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں کے پاس بیٹھ گیا ۔ چھوٹی بڑی ہر کرچی میں اس کا اپنا عکس جھلملانے لگا ۔
ہر عکس میں وہ خود کو تنہا پاتا تھا ۔ ہاتھ بڑھا کر وہ ان ٹکریوں کو جمع کرنے لگا ۔
’’ دھیان سے کہیں خود کو زخمی ہی کرلینا ۔ ‘‘ زاہدہ وہیں برآمدے میں بیٹھی ٹوک رہی تھیں ۔ مگرایک تیز دھاری نوک نے اس کا ہاتھ زخمی کر ہی دیا اور سر خ خون بہنے لگا ۔
’’اوہ میرے اللہ ۔‘‘ زاہدہ جلدی سے پاس آئیں ۔
’’کچھ نہیں امی معمولی سا زخم ہے ۔‘‘ وہ وہیں واش بیسن پر زخم دھونے لگا ۔
چند لمحوں میں خون بہنا بندھ ہوگیا ۔ اتنی دیر میں بونداباندی ہونے لگی اور اس بوندا باندی نے موسلا دھار بارش کا روپ دھارنے میں وقت نہ لگایا ۔
’’ امی میں ذرا چہل قدمی کو جارہا ہوں ۔ ‘‘ اس نے کہا اور مرکزی دروازے کی جانب بڑھا ۔ زاہدہ کے د ل میں آیا اسے روک لیں ۔ مگر روک نہ پائیں۔
’’ چند دن ہیں ، پھر بیوی آجائے گی تو تمام تنہائیاں اور اداسیاں دور ہوجائیں گی ۔ انشاء اللہ ۔‘‘ انہوں نے صدق دل سے تمنا کی تھی ۔
بارش میں نہانا اسے کہاں پسند تھا ۔ وہ ہمیشہ دور کھڑے ہوکر چائے کی چسکی لے کر بارش ہوتا دیکھنا پسند کرتا تھا ۔ لڑکپن میں جب بھی عمر بارش میں اسے لینے کے لیے آیا ۔ اس نے عمر کو بھی وہیں اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔
’’ بارش کا اصل مزہ تو یوں ہے ۔ ‘‘ وہ بیٹھک میں بیٹھتے ہوئے کھڑکی سے برستی بارش کا مزہ لیتے ہوئے کہتا ۔
’’یہ مزہ تم خود لو میں چلا ۔ ‘‘ عمر جانا چاہتا مگر وہ اسے زبردستی بٹھا لیتا ۔ اور عمر اس کا دوست جب سے اس کی شادی ہوئی تھی ملنا جلنا کم ہوگیا تھا ۔ اور پچھلے چند ماہ سے تو وہ اسے شادی کے لیے اتنا کہنے لگا تھا کہ اس نے خود بھی ملنا ترک کردیا تھ ۔
یونہی برستی بارش میں وہ بھیگتا چلا جارہا تھا ۔ گلی کے نکڑ پر بلال اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ بارش میں نہا رہا تھا ۔ خوب ہو ہو ہا ہا کار مچا رکھی تھی ۔ شعیب کو دیکھا تو دوڑتا چلا آیا ’’سلام بھائی ، بارش کے مزے لے رہے ہیں ۔ ‘‘ بلال کہہ رہ تھا ۔
’’ ہاں ۔ ‘‘
’’ آئیں ہمارے ساتھ آجائیں ۔‘‘ وہ اسے اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دے رہا تھا ۔
’’ نہیں تم بچوں کے ساتھ کھیلو ۔‘‘ وہ گلی کا موڑ مڑ آیا ۔ سامنے چوراہا تھا ۔ چوراہے پر وہ سیدھا چلتا گیا ۔ آگے دائیں ہاتھ پر چائے کا ہوٹل تھا ۔ بارش نے چائے کے شوقین لوگوں کے شوق کو مزید ہوا دی تھی ۔ اس لیے تو وہاں معمول سے زیادہ رش تھا ۔
چند منچلے لڑکے اپنے چائے کے کپ لیے ہوٹل سے باہر شیڈ میں کھڑے تھے ۔ انہیں دیکھ کراسے اپنے یونیورسٹی کے آخری دنوں کی بارش یاد آگئی ۔
وہ اور حنا چائے کے کپ لیے شیڈ میں کھڑے تھے۔
’’کتنا اچھا لگتا ہے یوں چائے پیتے ہوئے بارش کوبرستے دیکھنا ۔‘‘ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔ جواباََ حنا نے خشمگیںنگاہوں سے دیکھا ۔ تھوڑا آگے سرکی اور ہاتھ بڑھا کر اپنا چائے کا کپ برستی بارش کے نیچے کردیا ۔ ٹپ ‘ ٹپ ‘ ٹپ … کپ میں بارش کے قطرے گرنے لگے ۔
’’ یہ کیا کررہی ہو ؟‘‘
’’چائے میں بارش ملا رہی ہوں ۔‘‘وہ ہنسنے لگا اور جب کپ چھلکنے لگا توحنا نے ہاتھ کھینچ لیا ۔
’’ یہ لو بارش والی چائے پیو، اس کا اپنا ہی سواد ہے ۔‘‘
’’ یہ سواد تم خود تک محدود رکھو ۔‘‘
’’جیسے تمہاری مرضی۔‘‘ حنا نے کپ ہونٹوں سے لگا لیا اور اس کی مسکراہٹ بھرپور ہنسی میں بدل گئی۔
منچلے لڑکوں میں سے ایک لڑکا غالباََ آدھا کپ پی کر ہی سیر ہوگیا تھا یا پھر یونہی مستی کا دل کررہا تھا ۔ اپنا ڈسپوزل کپ اس نے بارش میں اچھال دیا۔ بارش کے اکھٹے ہوئے پانی میں چائے گھلنے لگی ۔
کہا جاتا ہے آپ خوش ہوں یا غمگین ‘بارش آپ کے جذبات کو ہوا دیتی ہے ۔ آپ کی خوشی یا غمی کو بڑھاتی ہے ۔ اور اس کی اداسی بھی تو بڑھتی جاتی تھی ۔
سب اس پر کتنا زور دینے لگے تھے مگر وہ نہ مانا ۔
زینب نے دو تین دفعہ فون کیا۔
عمر ہر بار کہتا ۔ پروفیسر احتشام جب ملتے ، جب ان سے فون پر بات ہوتی وہ زور دیتے ۔
ماں باپ تو ہر روز ہی کہتے مگر اس نے اہمیت نہ دی ۔ لیکن اب چند دن پہلے جب ذوالفقار کو دوسری دفعہ ہارٹ اٹیک ہوا ۔ اور ڈاکٹروں نے سٹنٹ ڈالنے کا مشورہ دیا۔
سٹنٹ ڈالنے کے لیے انہیں ہسپتال داخل کروادیا گیا اور کچھ دیر بعد ان کا آپریشن تھا ۔
’’ بیٹا زندگی بڑی بے وفا ہے ۔ آج ہم ہیں کل کیا خبر ہو نا ہوں۔‘‘ ذوالفقار کہہ رہے تھے۔
’’ابو یوں نہ کہیں ۔‘‘ وہ ان کے سرہانے بیٹھا تھا ۔ ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔
’’ میری ہٹ دھرمی نے تمہاری زندگی برباد کردی ۔‘‘ ان کی آنکھیں بھر آئیں ۔
’’ابو بس کردیں ۔‘‘ اس نے بمشکل خود کو رونے سے روکا ۔
’’اب میں مر گیا تو کیا ہوگا ۔‘ ‘
’’آپ کو کچھ نہیں ہوگا ۔‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ تمہارا گھر ہنستا بستا دیکھوں ۔ تمہارے بچے آنگن میں کھیلتے ہوں۔‘‘ وہ چپ بیٹھا سنتا رہا ۔
کمرے میں زاہدہ بھی بیٹھی تھیں اورخاموشی سے باپ بیٹے کا مکالمہ سن رہی تھیں ۔ دل کچھ ایسا بے قابو ہوا کہ زار زار رونے لگیں ۔ شعیب نے سر اٹھا کر ایک نظر روتی ہوئی ماں کو دیکھا اور ایک نظر لیٹے ہوئے بیمار باپ کو ۔
’’ ٹھیک ہے ابو … آپ ٹھیک ہوجائیں ‘ پھرآپ جہاں کہیں گے میں شادی کرلوں گا ۔‘‘
بارش کی روانی میں کمی نہ تھی ۔ اس کا پائوں کسی پتھر سے جاٹکرایا اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایااور وہیں کیچڑ میں گرگیا ۔
گرنے کے بعد اس نے اٹھنے کی زحمت نہ کی یونہی گرا پڑا رہا بلکہ کچھ کیچڑ ہاتھوں میں لے کر منہ پر مل دی ۔ بارش ہنوز برستی رہی ۔ اور کانوں میں یو نہی رنگِ حنا کی ایک نظم گونجنے لگی۔
تیری فرقت میں آنکھیں برستے ہوئے
تیری موجودگی کو ترستے ہوئے
تیرے یادوں کی حدت سے جلتے ہوئے
ایک معصوم دل کو پگھلتے ہوئے
زندگی موت کی کشمکش میں نجانے ہمیں
آج کتنے برس ہو گئے
اِس کھلے گھر کے اتنے کشادہ سے کمرے بھی
گویا قفس ہو گئے
تیری آواز کانوں میں بے سمت سی ایک دستک کی مانند بجتی ہے
تو جیسے سجتی ہے
تیرا وہ چہرہ ابھی بھی سبھی منظروں پر ہے چھایا ہوا
تیری خوشبو ہواؤں میں موجود ہے
تیرا سائے سے روشن میرے گھر کی ہر ایک دیوار ہے
میرا دل تیری یادوں سے سرشار ہے.
پر مجھے علم ہے
یہ میرے واہمے کا محل ہے
حقیقت میں تُو تو کہیں بھی نہیں…
اور تو جو نہیں ہے تو اک سانس لینا بھی دشوار ہے
تیرے آنے کی امید پر
اب ہر اک پل
عذابِ مسلسل کے جیسے
گزرنے لگا ہے.
لوٹ آ!
ورنہ یہ دیوانہ تیرا
اے میری جان!
ورنہ یہ دیوانہ تیرا
تیرے ہجر میں
آج مرنے لگا ہے
٭٭ …٭٭
’’ہائے اللہ انگوری دلہن ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم ایسی خوبصورت ہو۔‘‘ لیلیٰ تیار ہوگئی تھی ۔ ساتھ بیٹھی نادیہ کب سے تعریف کیے جارہی تھی اور لیلیٰ مسکرائے جاتی۔
’’ اچھا اب کچھ تعریفیں اپنے دولہا بھائی کے لیے بھی بچا رکھو ۔ یہ نہ ہو کہ تمہاری تعریفوں سے میں ہی سیر ہوجائوں ۔‘‘ لیلیٰ نے کہا تو دونوں ہنسنے لگیں۔
بھلا کسی دلہن کا عروسی جوڑا انگوری رنگ کا بھی ہوتا ہے؟مگر لیلیٰ کا تھا ۔ اور کیا خوب جچ رہا تھا ۔
میرج ہال کے دوسری طرف مردانے میںسٹیج پر شعیب دولہا بنا بیٹھا تھا ۔ سفید سوٹ اور سیاہ واسکٹ میں اس کی چھب ہی نرالی تھی ۔
’’ تھوڑا مسکرا بھی دو ۔‘‘ عمر نے اس کے کان میں گھس کر کہا ۔ وہ پھر بھی مسکرا نہ سکا۔
’’ کشمیری دلہن ، میں کام کے سلسلے میں لیڈیز سائڈ پر گیا تو حیران ہی رہ گیا ۔ بھابھی تو جنت سے آئی حور لگ رہی ہیں ۔ ‘‘ عمر اب پروفیسر احتشام سے مخاطب تھا ۔ وہ بھی شرکت کے لیے آئے تھے اور اس سمے دونوں دولہے کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔
’’ کشمیر تو ہے ہی جنت ، تمہیں پتہ ہے وہاں کے لوگوں کا شمار دنیا کے حسین ترین لوگوں میں ہوتا ہے ۔ ‘‘احتشام خیال آرائی کررہے تھے اور شعیب یوں بیٹھا تھا جیسے سن ہی نہ رہا ہو۔
مولوی صاحب تشریف لے آئے۔ انہیں شعیب کے ساتھ بٹھایا گیا ۔ انہوں نے خطبہ نکاح پڑھا یا اورپھر وہ نکاح کے بول پڑھا رہے تھے۔
’’ محمد شعیب ذوالفقار ولد محمد ذووالفقار کیا آپ کو لیلیٰ خالدولد محمد خالد سے بعوض دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت اورچار تولے سونا حق مہر نکاح قبول ہے ۔ ‘‘ مولوی صاحب پوچھ رہے تھے۔
ہال میں خاموشی چھاگئی تھی ۔ سب شعیب کے منہ سے کہے الفاظ ’’قبول ہے ‘‘ سننے کے منتظر تھے مگر شعیب خاموش بیٹھا رہا ۔ خاموشی طول پکڑنے لگی تو مولوی صاحب نے دوبارہ الفاظ دوہرائے۔
’’ محمد شعیب ذوالفقار ولد محمد ذووالفقار کیا آپ کو لیلیٰ خالدولد محمد خالد سے بعوض دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت اور چار تولے سونا حق مہر نکاح قبول ہے ۔ ‘‘ شعیب خالی نگاہوں سے کبھی باپ کو کبھی مولوی صاحب کو اورکبھی عمر کو دیکھنے لگا ۔ ہال میں موجود لوگ شعیب کی غیر معمولی خاموشی محسوس کرکے چہ مگوئیاں کرنے لگے ۔ لیلیٰ کے ماموں بھی اچھنبے سے شعیب کو دیکھنے لگے اور ذوالفقار کے قریب آکر دھیمی آواز میںکچھ کہنے لگے۔
عمر آگے بڑھا اور شعیب کے قریب چلا آیا۔
’’حنا …عمر مجھے لگ رہا حنا آرہی ہے ۔‘‘ شعیب ہال کے دروازے کی طرف اشارہ کررہا تھا۔
’’کوئی نہیں آرہا شعیب ، قبول ہے کہو ۔‘‘ عمر شعیب کا ہاتھ دباتے ہوئے نرمی سے کہہ رہا تھا ۔ شعیب نے ایک آخری نظر مرکزی دروازے کی اور ڈالی ، کیا خبر آہی جائے مگر …
’’ پانی …‘‘ شعیب کا ہاتھ اب گلے پر رینگ رہا تھا ۔ جیسے گلے میں کانٹے اگ آئے ہو ۔
عمر نے سامنے میز پر پڑی منرل واٹر کا سیل کھولا اور شیشے کے گلاس میں پانی بھر کر شعیب کی طرف بڑھایا ۔ شعیب غٹ غٹ پانی پینے لگا ۔
’’محمد شعیب ذوالفقار ولد محمد ذووالفقارکیا آپ کو لیلیٰ خالدولد محمد خالد سے بعوض دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت اور چار تولے سونا حق مہر نکاح قبول ہے ۔‘‘ مولوی صاحب نے تیسری دفعہ پوچھا تھا ۔
’’ہاں قبول ہے ۔‘‘ شعیب نے خود کو کہتے سنا ۔
مبارک ہو ، مبارک ہو ۔ ہال میں شور گونج اٹھا ۔ ذوالفقار آگے بڑھے اور صاحبزادے کو گلے لگا لیا ۔
کہانی مختصر کرنے لگی ہے
تھکن آنکھوں میں گھر کرنے لگی ہے
بسر کرتے تھے ہم جس زندگی کو
وہ اب ہم کوبسر کرنے لگی ہے۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر ۷
کتاب زندگی کے کچھ نئے باب ہیں
وہ عروسی لباس میں ملبوس یوں مسہری پر درمیان میں بیٹھی تھی ۔ کہنی گھٹنے پر ٹکائے ، شعیب کا انتظار کرتے ہوئے۔
تبھی دروازے پر کھٹکا ہوا اور شعیب اندر آیا ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی ۔ شعیب قدم قدم چلتا آیا اور مسہری کے ایک کونے پر ٹک گیا ۔ یوں ہی سر جھکائے بیٹھا رہا ۔ یہ شب زفاف تھی۔ اس رات کی کی دلکشی تو نوعمری میں ہی دل میں بسنے لگ لگ جاتی ہے مگر اس کا دل خالی تھا ۔ اور شاید بنجر بھی ۔ نظریں اٹھا کر اس نے دلہن بنی شریک حیات کو یکھا ۔ تو کیا وہ اس کی شریک حیات تھی؟ پہلے تو اس بات نے چبھونے چبھو ئے ۔
لیلیٰ …
وہ واقعی بہت حسین تھی۔ اتنی حسین کہ حور کا گمان ہوتا۔
ایک طویل سانس لے کر اس نے واسکٹ اتارکر ساتھ پڑی کرسی پرڈالی اور مسہری کے ایک طرف لیٹ گیا ۔
’’ رات کافی ہو چکی ہے سوجائو۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
لیلیٰ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔ کچھ حیرت اور کچھ بے یقینی سے۔ کیا وہ اس قدر اَن چاہی تھی۔وہ کچھ دیر یونہی بیٹھی رہی ۔
’’ کچھ کہیں گے نہیں …‘‘ وہ متامل تو تھی مگر اس نے پوچھ لیا ۔
’’ سونے سے پہلے لائٹ بجھا دینا ۔‘‘ شعیب نے کہا اور کروٹ بدل لی۔ لیلیٰ کا دل کٹ سا گیا ۔
یہ نئی زندگی کی پہلی رات تھی۔ آگے زندگی کیا ہوگی ؟ وہ بے دلی سے اٹھی اور واش روم جاکر کپڑے تبدیل کر آئی اور لیٹنے سے قبل لائٹ بجھا دی۔
اور یوں انہوں نے پہلی رات گزاری ۔
مگر ضروری تو نہیں ابتداء بے رنگ ہو تو آئندہ کوئی دلکشی اور رنگینی مقدر نہ ہوگی۔
٭٭ …٭٭
کچھ ہی دنوں میں وہ کچھ یوں گھر میںگھل مل گئی کہ گمان ہوتا کہ برسوں سے اس گھر کا حصہ ہے ۔ یہ شادی کا تیسرا دن تھا جب وہ کچن کے دروازے پر کھڑی تھی۔
’’آؤ ، آؤ بہو ۔‘‘ زاہدہ نے اسے دیکھا تو پیار سے بلایا ۔ وہ اندر چلی آئی ۔
’’ کیا بنارہی ہیں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔
’’میں آپ کی مدد کروں ۔ ‘‘ساتھ ہی وہ پیش کش کررہی تھی۔ زاہدہ نثار ہوگئیں۔
’’ نا بیٹا، ابھی نہیں ساری زندگی کام ہی تو کرنے ہیں ۔ جب تک تمہارے ہاتھوں کی مہندی نہیں اترتی ۔ تب تک ہرگز نہیں۔‘‘ وہ مسکرانے لگی۔
’’ امی جب کل بھی یہ کام کرنے ہیں تو آج سے کیوں نہیں ۔ آج سے بھلے ابھی سے کیوں نہیں ۔ ‘‘ زاہدہ نہیں نہیں کرتی رہی مگر وہ تمام وقت ساتھ کھڑی رہی۔