مکمل ناول

رنگِ حنا : تیسرا حصہ

اور آج پروفیسر احتشام اس کے سامنے بیٹھے تھے۔
’’اگر تم یوں کلائی کاٹو گے تو باقی دنیا کیا کرے گی۔ تم جیسے لوگ تو زندگی کی علامت ہوتے ہیں ۔ ‘‘ احتشام اس کا گال تھپتھپائے ہوئے کہہ رہے تھے۔
وہ خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگا ۔ کتنی دیر احتشام اور عمر باتیں کرتے رہے ۔ کچھ اس کی سمجھ میں آئیں اور کچھ اس کی غائب دماغی کی نذر ہوگئیں۔
جاتے ہوئے احتشام نے اس کی طرف ایک پین اور پیڈ بڑھایا۔
’’ یہ کس لیے ؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا ۔
’’تمہارا تحفہ ۔‘‘ وہ مسکرا رہے تھے۔ اس نے ان چیزوں کا کیا کرنا تھا۔
’’لکھو وہ تمام جذبات اور کیفیات جو تم نے حنا کے لیے محسوس کی، حنا کے نام … ‘‘ وہ اسے ایک راہ دکھا رہے تھے۔
’’تم نے دوبارہ میرے لیے اشعار نہیں لکھے۔‘‘
’’ اب میں تم پر پوری کتاب لکھوں گا ۔‘‘ ماضی کی آوازیں بازگشت بن کر گونجنے لگیں اور اس نے پیڈ اور قلم تھام لیا۔
اور یہ زندگی کی طرف لوٹنے کا اشارہ تھا۔
پہلے پہل تو اس نے سوچا کہ جب حنا تک جذبات پہنچا ہی نہیں سکتا تو لکھنے کا فائدہ مگر ہوتے ہوتے دل مائل ہو ہی گیا۔
پہلے اس نے یادوں اور ملاقاتوں پر کچھ غزلیں لکھیں۔
پھر محبت کی پرت کھولتی نظمیں تھیں۔
ان دنوں میں سائیکاٹرسٹ نے اسے ڈسچارج کردیا ۔ زاہدہ اور زوالفقار کو بہت ساری نصیحتیں کی کہ کیسے اس خیال رکھا جائے لازماََ ہفتہ وار چیک اپ کرایا جائے۔
گھر آکر اس نے پھر سے قلم تھاما۔
اب اس نے ہجر و فراق پر لکھا۔
حنا سے معافی مانگی ۔ کچھ معذرت نامے کہ وہ بے وفا نہیں۔
اپنی بے قراریاں لکھیں ، اس کی واپسی کے لیے چند التجائیں ، اس کی خیریت کے لیے دعائیں۔
وہ سب اس نے لکھا جو اس کے دل میں تھا۔
نظمیں ، غزلیں ، اشعار ، قطعات ، آزاد شاعری ،ہر طبع پر اس نے لکھا۔
لکھتا رہا ، روتا رہا … روتا رہا ، لکھتا رہا…
یہاں تک کہ پیڈ ختم ہونے کو آیا ۔ اور یہ مواد اتنا تھا کہ ایک شعری مجموعہ بن سکتا تھا۔
’’ لو حنا اب تو میں نے تمہارے لیے کتاب ہی لکھ ڈالی ، مزید مت روٹھو ، آجائو اب ۔‘‘ وہ اپنے موبائل کی سکرین کو تکے جاتا کہ ابھی کسی انجان نمبر سے کال آئے گی۔
’’ ہیلو …‘‘ وہ کہے گا۔
’’ ہیلو شعیب یہ میں ہوں حنا ۔‘‘ موبائل سے آواز اس کے کانوں تک پہنچے گی اور …
’’حنا کہا ں ہو اور کیسی ہو ؟‘‘ وہ بے تابی سے پوچھے گا۔ اور حنا کیا جواب دے گی ۔ وہ سوچتا رہتا یہاں تک کہ اس کا تخیل ٹوٹ جاتا ۔
’’ رنگِ حنا …‘‘ پیڈ کے ابتدائی صفحے پر اس نے بڑا بڑا کرکے لکھا ۔ یہ کتاب کا عنوان تھا ۔
’’ بہت خوب جوان ، ہم اسے چھپوائیں گے ۔ ‘‘ پروفیسر احتشام الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ وہ اکثر اس سے ملنے آتے تھے۔
’’ نہیں جب تک حنا نہیں ملتی ۔ یہ مسودہ نہیں چھپے گا۔‘‘ اس نے انکار کردیا۔
’’ کتاب چھپے گی تو بازار کی زینت بنے گی اور ممکن ہے حنا کی نظروں سے بھی گزرے ۔‘‘ بات تو دل کو لگتی تھی مگر وہ خاموش رہا ۔
ذوالفقار اور اس کے درمیان اب بات چیت نہ ہوتی ۔ جو ہوا تھا اس میں ذوالفقار کا قصور ہی کتنا تھا ۔ وہ باپ تھے ، اپنے بیٹے کی پسند کو مسترد کرسکتے تھے اور انہوں نے مسترد ہی کیا تھا ۔ اب وہ قائل کرتا تو وہ قائل نہ ہوتے یا کچھ اور … اور اسی کچھ اور کی تو حنا او ر اس نے منصوبہ بندی کی تھی۔ مگر سب خاک میں مل گیا ۔ بہرحال جو بھی تھا وہ اس سیسہ ملے الفاظ کے حق دار نہ تھے جو شعیب نے کہے تھے۔
’’ کیا ابھی تک ناراض ہو ۔ ‘‘ وہ بیٹے سے صلح کرنے آئے تھے ۔ شعیب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
’’ میری زبان کاٹ لیں۔‘‘ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’ نہ بیٹے ۔‘‘ وقت اتنا ظالم کیوں تھا ۔ ان کی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں اور انہوں نے بیٹے کو ساتھ لگا لیا۔
’’پھر مجھے معاف کردیں ۔ ‘‘ اس نے ہاتھ جوڑ دیے ۔
ذوالفقار نے اس کے جڑے ہاتھ چوم لیے۔
’’ ہم مل کر حنا کو ڈھونڈتے ہیں۔‘‘
ذوالفقار چاہتے تھے کہ اخبار میں تلاش گمشدگی کا اشتہار دیا جائے اور اس کے لیے وہ ایک بار پھر افتخار کی چوکھٹ پر آئے ۔ وہی چوکھٹ جہاں سے پچھلی بار رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے نفرت سے تھوکا تھا۔
افتخاراس ڈیڑھ سال بہت کمزور ہوگئے تھے ۔ بیٹیاں گھر چھوڑ کر چلی جائیں تو باپ کمزور ہوجاتے ہیں ،غم سے یا شرم سے ۔آج ذوالفقار کا ہاتھ ماتھے پر لگے ٹانکوں کے نشان تک نہ رینگا اور نہ آج افتخار کو یاد آیا کہ سامنے بیٹھا شخص کافر ہے ۔
’’ میں چاہتا ہوں حنا کی گمشدگی کااخبارمیں اشتہار دیاجائے ۔ ‘‘ ذوالفقار اجازت طلب نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔ افتخار چپکے سے اٹھے اور چند لمحوں بعد واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں اخبار تھا ۔ وہ اخبار انہوں نے ذوالفقار کو پکڑا دیا۔
اس اخبار میں حنا کی گمشدگی کا اشتہار اوراطلاع دینے والے کو انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ وہ یہ کام کرچکے تھے۔
‘‘مگر آپ نے تو اپنے محلے اور خاندان میں مشہور کیا تھا کہ حنا مرگئی ہے۔‘‘
’’ بعد میں جھٹلا دیا۔‘‘ سر کا بوجھ کبھی اِس کندھے اور کبھی اس کندھے پر لڑھکتا تھا اور وہ ذوالفقار کے سوالوں کے جواب دیتے تھے ۔ تبھی دلاور چائے لے کر آیا۔
وفا ت کا سوگ منانے کے لیے اس نے لوگ اکھٹے کرلیے تھے اور پھر ایک دن اس کے والدنے اپنے بہن بھائیوں کو اکھٹا کیا اور روتے ہوئے حنا کی وفات کی تردید کرتے ہوئے گھر سے چلے جانے کی روداد سنائی ۔ دلاور کو برا تو لگا مگر ماں باپ کا یوں غم زدہ رہنا بھی خوشگوار قصہ نہیں تھا۔
’’شکریہ ۔‘‘ ذوالفقار دو گھونٹ سے زیادہ چائے نہ پی پائے اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
٭٭ …٭٭
رنگ حنا چھپ کر بازار میں آئی ۔ نوجوانوں میں خوب مقبول ہوئی ۔ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام پر دھڑا دھڑ اس کی شاعری شئیر کی جانے لگی اور شعیب کے چرچے طول وعرض میں پھیل گئے ۔ اسے نوجوانوں کا علمبردار شاعر کہا جانے لگا ۔ غالب ، میر ، اقبال ، فیض ، پروین شاکر ، وصی شاہ اور ا ب شعیب ذوالفقار ۔ کچھ منچلوں نے تو ایسا سلسلہ جوڑ لیا۔
مگر شعیب جس معجزے کے ظہور پذیر ہونے کا انتظار کررہا تھا ۔ وہ ظاہر ہوااور نہ کسی انجان نمبر سے کال آئی ۔ نہ کوئی ای میل اور نہ ہی کوئی خط جو واضح یا اشارتاََ حنا کی طرف سے ہو۔
اور یہ وقت بھی گزر گیا۔
عمر کی منتوں اور پروفیسر احتشام کی کوششوں سے ایک دن اس نے ایک جاب کے انٹرویو کے لیے ہامی بھر لی ۔ انٹرویو کا دن دور تھا اور وہ یوں ہی برآمدے میں بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ جانے کا دل تو نہ کیا مگر اس نے جا کر دروازہ کھولا ۔ سامنے بلال کھڑا تھا ۔ وہی بلال جو کسی زمانے میں اس کا طالب علم تھا ۔ اور مغربی پاکستان سے مراد ساؤتھ افریقہ کہتا تھا۔
گزرتے وقت میں اور زمانے میں اٹھنے بیٹھنے نے اس پر بھی اثر ڈالا تھا ۔ اب وہ ویسا بونگا محسوس نہ ہوتا بلکہ سمجھ دار ہوگیا تھا۔
’’ آپ اچھے آدمی ہیں، میں نے آپ جیسا اچھا آدمی نہیں دیکھا ۔ ‘‘ بلال غلط بیانی سے کام نہیں لے رہا تھا ۔ کم از کم اس کا شعیب سے زیادہ اچھے انسان سے پالا نہ پڑا تھا۔ شعیب چپ چاپ اسے دیکھے گیا ۔ جب دل ہی نہ رہا تھا تو اس دل میں تعریف سننے کی تمنا کہاں رہتی۔
’’ امی کتنے عرصے سے کہہ رہی تھیں کہ آپ کو جاکر سمجھائوں ۔ وہ بہت سادہ ہیں یہ بات نہیں سمجھتیں کہ میری اوقات نہیں کہ آپ کو سمجھائوں ۔‘‘
’’ تمہارے ابو کیسے ہیں؟‘‘ شعیب کو خیال آیا۔
’’اچھے ہیں، نابینا ہونے کے بعد گھر پر ہی رہتے ہیں ۔ کھوکھا بند کردیا ہے ۔ مجھ سے خوش ہیں اور دعائیں دیتے ہیں ۔ آج کل امی ابو میری بھی شادی کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘
’’ اچھی بات ہے ۔‘‘ بلاآخر شعیب کے ہونٹوں پر بھی مسکرا ہٹ آگئی۔ پھیکی سی ہی سہی آئی تو سہی۔
’’مگر میں ابھی سال دو سال شادی نہیں کروں گا ۔ ابھی پیسے اکھٹے کروں گا پھر اپنا کاروبار ، اور کاروبار جم جائے تو شادی …‘‘ بلال اسے بتاتا رہا ۔ وہ سنتا رہا ۔
’’ بھائی ایک بات مانیں گے ۔‘‘
’’کہو ۔‘‘ بلال ہچکچایا ۔
’’آپ شادی کرلیں ۔‘‘ شعیب چپ چاپ اسے دیکھتا رہا اب اسے کیسے بتاتا اور کیا کہتا۔
٭٭ …٭٭
انٹرویو کے بعد اسے منتخب کر لیاگیا اور ناچاہتے ہوئے بھی ملازمت شروع ہوگئی ۔ زندگی ایک معمول کے مطابق گزرنے لگی ۔
’’ اب تو آجائو حنا ۔‘‘ وہ کہتا مگر حنا نہ آتی۔
یہ شام کا وقت تھا ۔ جاب سے آنے کے بعد وہ کسلمندی سے لیٹا تھا ۔ کیا وقت اتنا بڑا مرہم ہے کہ انسان کو سب بھلا دیتا ہے ۔ وہ اب اپنے کھانے پینے کی روٹین ، جاب کی روٹین ، سونے جاگنے کی روٹین پر خود بھی حیران تھا۔ اس پر تو یہ سب چیزیں حرام ہونی چاہیئے تاوقتیکہ حنا مل جاتی ۔
تبھی موبائل پر بپ بجی ۔ سیدھا ہوکر اس نے موبائل اسکرین کودیکھا ۔ حنا کی بڑی بہن کی کال آرہی تھی ۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ زینب اسے کال کررہی تھی ۔ اس سے پہلے ہمیشہ اس نے حنا سے متعلق پوچھنے کے لیے فون کیا تھا اور ہمیشہ جواب نہ میں ملا تھا ۔ لمحے بھر کو اس کا دل دھڑکنا بھول گیا ۔ شاید حنا کی کوئی خبر …
’’ ہیلو ۔‘‘ اس نے فون ریسیو کیا ۔
’’السلام علیکم زینب بات کررہی ہوں۔‘‘
’’وعلیکم السلام باجی کیسی ہیں آپ ؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں ، تم کیسے ہو ۔‘‘
’’کیسا ہوسکتا ہوں ۔‘‘ زینب لمحے بھر کو خاموش ہوگئی۔
’’اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا ہے ۔‘‘
’’بہت بہت مبارک ہو ۔‘‘
’’میں بیٹی کا نام جو رکھنا چاہتی تھی ۔ سارے سسرال نے مخالفت کی مگر میں نے وہی نام رکھا ۔ پوچھو گے نہیں کہ کیا نام ہے میری بیٹی کا۔‘‘
’’کیا نام رکھا ہے آپ نے ؟‘‘ زینب نے لمحے بھر کو توقف کیا ۔
’’حنا ۔‘‘ شعیب کے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا۔
مرنے والوں کے نام پر تو نومولود کا نام رکھا جاتا ہے تو کیا گم ہوجانے والوں کے نام بھی یاد کے طور پر رکھے جاتے ہیں۔
فون پھسل کر چارپائی پر گرا تھا ۔ مردہ ہاتھو ں سے شعیب نے فون اٹھایا ۔ کال ڈس کنیکٹ نہیں ہوئی تھی۔
’’ہیلو شعیب ۔‘‘
’’جی باجی ۔‘‘ اس نے زینب کو اپنے آن لائن ہونے کی یقین دہانی کرائی۔
’’میں گھر میں سب سے بڑی تھی ۔ نبیلہ مجھ سے کئی سال چھوٹی تھی وہ مجھے آپی بلاتی تھی ۔ میری خواہش تھی کہ حنا مجھے باجی بلائے آخر پتہ تو چلے کہ وہ مجھ سے تین سال چھوٹی ہے مگر اس نے کبھی مجھے باجی نہ پکارا ۔ اب تم باجی کہتے ہو تو … ‘‘ آنسوئو ں نے بات بھی پوری نہ کرنے دی اور شعیب اسے روتا سنتا رہا ۔
’’ایک گزارش تھی تم سے ۔‘‘ آنسو پونچھتے ہوئے زینب کہہ رہی تھی۔
’’آپ حکم کریں باجی ۔‘‘ زینب خاموش رہی یہاں تک کہ خاموشی طول پکڑتی گئی۔
’’جی باجی فرمائیں ۔‘‘
’’شادی کر لو۔‘‘
’’یوں بھی حنا کو گئے ہوئے سال ہونے کو آئے ہیں ۔ اسے واپس آنا ہوتا تو آجاتی یا کم از کم رابطہ ہی کرلیتی ۔‘‘
اور شعیب سوچنے لگا اتنا وقت بیت گیا۔ کیا وقت پیچھے کی طرف سفر نہیں کرسکتا ۔ جب یونیورسٹی کے دنوں میں وہ اور حنا درخت کے سائے میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ چلو پیچھے کی طرف محو سفر نہیں تو کم از کم رک جائے۔
’’ تمہاری امی مجھ سے ملنے آئی تھیں ۔ بہت پریشان تھیں ۔ مجھ سے درخواست کی کہ سفارش کروں اور تمہیں شادی کا کہوں …‘‘ زینب کہہ رہی تھی ۔
اور جب وہ خاموش ہوئی تو شعیب نے کہا۔
’’اپنا خیال رکھیئے گا باجی ، اللہ حافظ ۔‘‘ شعیب نے فون بند کردیا۔
برآمدے میں بیٹھی زاہدہ کن آنکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔ گو کہ مکالمہ ان کی دسترس میں نہ تھا مگر وہ جانتی تھیں کہ زینب کا فون ہوگا ۔ انہوں نے تو ہی تو اسے اس وقت فون کرنے کا کہا تھا۔
اب جانے شعیب نے کیا رد عمل ظاہر کیا ۔ وہ تو خود کتنے عرصے سے اسے قائل کرنے کی کوشش کررہی تھیں مگر اس کی نہیں کی قطعیت میں کمی نہ آتی بلکہ ناراض ہونے لگتا۔
’’یااللہ رحم ۔‘‘ وہ اللہ سے آسانیوں کی دعا مانگنے لگیں۔
٭٭ …٭٭
وہ اپنی فرم کے ایک مین آفس کام کے سلسلے میں گیا تھا ۔ منیجر کے کمرے میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا جب منیجرکے کمرے کا دروازہ پار کرکے کوئی اندر آیا ۔
’’ شعیب …؟‘‘ آنے والے نے تصدیق چاہی ، چہرہ جانا پہچانا تھا ۔ اسے یاد نہ آیا کہ کہاں ملاقات ہوئی ہے ۔
’’ جی ۔ ‘‘ اس نے تصدیق میں سر ہلایا ۔
اور آنے والا بڑی گرم جوشی سے اس کے گلے لگ گیا ۔
’’کیسے ہو ؟‘‘
’’ ٹھیک ہوں ، آپ سنائیں ۔‘‘ تب غور کرنے پر اسے یاد آیا کہ یہ امجد بھائی ہیں اور یونیورسٹی میں اس کے سینئر تھے۔
’’ میں بھی ٹھیک ہوں ‘ یہاں کیسے ؟ ‘‘ شعیب انہیں بتانے لگا کہ اسی فرم کی برانچ میں ملازم ہوں اور کام کے سلسلے میں آیا ہوں ۔
’’ میں ہی منیجر ہوں ۔‘‘ امجد نے آگے بڑھ کرمنیجر کی کرسی سنبھال لی تھی۔
’’ اوہ سوری سر … ‘‘ یوں غیر رسمی باتوں پر اسے شرمندگی ہونے لگی۔
’’سوری کی ضرورت نہیں ۔ چلو پہلے کام نبٹاتے ہیں پھر حال احوال … ‘‘ شعیب انہیں بتانے لگا ۔ امجد نے فائل دیکھنا چاہی، فون کرکے تصدیق چاہی اور یوں کام لگ بھگ پون گھنٹے میں مکمل ہوگیا ۔ تب تلک چائے بھی پی جاچکی تھی اور لنچ کا وقفہ ہوا چاہتا تھا ۔
’’ تھینک یوسر ۔‘‘ وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ۔ مسکراتے ہوئے امجد نے نفی میں سر ہلایا ۔
’’ لنچ ساتھ کرنا پڑے گا ۔‘‘ و ہ اسے لیے قریبی ریسٹورنٹ میں آگئے۔
’’سنائو شاعری کرتے ہو اب بھی ۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘ بوجھل دل کے ساتھ اس نے نفی میں سر ہلایا ۔ رنگِ حنا کے بارے میں وہ بتانا پسند نہیں کرتا تھا اور گزرتا ہوا وقت بھی اسے ماضی کا حصہ بنا رہا تھا ۔
’’ کیا کرو یار ، ٹیلنٹ ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ یہ کام تو ہوتے رہتے ہیں ۔ ‘‘ امجد نے اسے شاعری پر مائل کرنے پر جیسے پورا لیکچر دے دیا۔
’’اور شادی ؟‘‘
’’ابھی نہیں ہوئی ۔‘‘
’’اوہ میرے یار تم تو ابھی وہی یونیورسٹی کے کاکے ہو ۔ شادی کرو یہی تو صحیح عمر ہے ۔ ‘‘ اب انہوں نے اِس عمر میں شادی کرنے کے فوائد گنوائے ۔ کھانا سرو ہوگیا اور انہوں نے کھانا شروع کردیا ۔
’’تم تو اپنی ایک کلاس فیلو کو پسند بھی کرتے تھے ۔ ‘‘ کہتے ہوئے وہ جیسے کچھ یاد آیا اور خاموش سے ہوگئے۔
’’ حنا ۔‘‘ انہیں نام بھی یاد تھا مگر چہرے پر چھائی سوچ کی پرچھائیاں کسی اور چیز کی تھیں ۔ شعیب چپ چاپ میز کی سطح کو دیکھتا رہ گیا ۔ کھانے سے دلچسپی بتدریج کم ہونے لگی ۔
’’کچھ پتہ ہے کہاں ہوتی ہے وہ ؟ ‘‘ شعیب کا دل بڑے زور سے دھڑکا ۔ امجد کا لہجہ ایسا تھا جیسے وہ جانتے ہوں۔
’’بس یار لڑکی ذات ایسی ہی ہے ۔‘‘ وہ اپنی پلیٹ میں چاول ڈالنے لگے ۔
’’آپ جانتے ہیں وہ کہاں ہے ؟ ‘‘ شعیب کی سنجیدگی نے انہیں متوجہ کیا ۔
کچھ دیر وہ خاموش سے بیٹھے رہے اور پھر منہ قریب کرکے مدھم سے بولے ۔
’’ یقین تو نہیں پر سنا ہے ۔ ریڈ ایریا میں ہوتی ہے ، دھندہ کرتی ہے ۔‘ ‘ شعیب کے ہاتھ سے کانٹا گرگیا ۔بے یقینی آنکھوں میں ایسی سمائی ، اضطراری انداز میں کھڑا ہوگیا ۔ مٹھیاں میزپر جمائیں ، نتیجے میں کچھ برتن میز سے زمین بوس ہوئے ۔ تبھی ایک ویٹر جلدی سے قریب آیا ۔
’’سر ، سر آپ ٹھیک تو ہیں ۔‘‘ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔
وہ ٹھیک کیسے ہوسکتا تھا ۔
٭٭ …٭٭
بدنام سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ پل پل مرتا تھا ۔
حنا اس جگہ پر ہوگی اس نے کبھی نہ سوچا تھا ۔
کاش کہ تم مرچکی ہو ۔ اس نے لمحہ لمحہ خواہش کی ۔ امجد اس کے ساتھ تھا۔
’’ مجھے یقین نہیں کہ وہی ہے ۔‘‘ امجد اسے بتانے لگا کہ کیسے اسے شک ہے یا کیسے اس تک خبر پہنچی ۔
ریشمی رنگین پردے ، رنگین روشنیاں ، فانوس ، گلاب کی خوشبو اور عورتوں کے الگ انداز ۔ وہ سب کچھ تھا جو وہ ٹی وی فلموں پر اس علاقے کی مناسبت سے دکھایا جاتا ہے ۔
سیڑھیاں ختم ہوگئیں ۔ امجد آگے بڑھا اور سامنے ڈیسک کے پار بیٹھے آدمی سے بات کرنے لگا ۔
’’تو دلال بھی میز سجا کر بیٹھے ہیں ۔ ‘‘ وہ اس شخص کو دیکھنے لگا ۔ پان چباتا ، نظریں ایسی جیسے سامنے والے کو تولتا ہو۔
وہیں کھڑے اس نے جیب تھپتھپا کر چاقو ہونے کا اطمینان کیا ۔ وہ پوچھے گا حنا سے کہ وہ مر کیوں نا گئی ،یہاں کیوں آگئی ۔ اور پھر چاقو اس کے سینے میں گھونپ دے گا۔
تو کیا وہ اس رویے کی حقدار ہے کہ چاقو اس کے سینے میں اتار دیا جائے ۔ اس کی آنکھیں نم ہونے لگی ۔ اگر وہ اس دن ٹرمینل پہنچ جاتا تو کیا وہ آج ادھر ہوتی ؟
چاقو تو اس کے اپنے سینے میں گھونپنا چاہئے۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے