مکمل ناول

رنگِ حنا : تیسرا حصہ

یہی تو ان کی حنا بیٹھا کرتی تھی۔
بادل نخواستہ انہیں اٹھنا پڑا۔
دروازے کے کواڑ واکیے ۔ ایک تھکا ہارا لڑکا کھڑا تھا ۔ یوں لگتا تھا زندگی کی لوازمات سے روٹھا ہوا ہو ۔
’’ میں شعیب ہوں۔‘‘
’’ دلاور گھر پر نہیں ہے۔‘‘ وہ سمجھے دلاور کا کوئی جاننے والا ہوگا۔
’’ حنا گھر پر ہے ؟‘‘ وہ ٹھٹک کر رک گئے اور غور سے دیکھنے لگے ۔ تو یاد آیا یہ تو وہ شعیب ہے جس کے ساتھ ان کی بیٹی گھر سے بھاگی ہے ۔ یہ یہاں کیا کررہا ہے ؟ اور حنا کدھر ہے؟ اور یہ پوچھ کیا رہا ہے ؟ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جارہی تھی۔
’’ انکل پلیز مجھے تسلی دے دیں کہ حنا گھر پر ہے اور خیریت سے ہے ۔ میں برا لڑکا نہیں ہوں۔ وہ عمر سے پتہ چلا کہ … ‘‘ عمر کے ذریعے شعیب ان کے گھر میں ہونے والی میت کے بغیر سوگ سے واقف تھا۔
’’ انکل …‘‘ شعیب رونے لگا ۔
’’ کہہ دیں حنا زندہ ہے‘ میرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے۔‘‘ افتخار نے اسے بازو سے دبوچا اور گھسیٹتے ہوئے اندر لے آئے۔
’’ یہ تو تم بتائو کہاں ہے میری بیٹی؟‘‘ افتخار کا لہجہ تڑختا تھا۔
شعیب اپنی جگہ ساکن رہ گیا ۔
’’مجھے نہیں پتہ ۔‘‘
’’تمہیں نہیں پتہ ۔‘‘افتخار خود پر قابو نہ رکھ سکے اور ایک تھپڑ شعیب کے گال پر پڑا۔
’’ سیدھی طرح بتاؤ کہاں ہے میری حنا ۔‘‘ افتخار پر ہذیان طاری ہونے لگا ۔
شور سن کمرے سے شبنم اور نبیلہ دوڑی چلی آئیں ۔ نبیلہ شعیب کی تصاویر دیکھ چکی تھی ۔ اسے پہچاننے میں دقت نہ ہوئی ۔ مگر وہ اکیلا …؟ کیوں …؟
کہاں ہے حنا ؟
صرف ذی روح ہی نہیں درو دیوار بھی اپنے مکین کو پکارتے تھے۔
٭٭ …٭٭
یہ اس رات کی بات ہے جب شعیب نے ٹرمینل پہنچنا تھا ۔ پہلے پہل تو وہ یوں قائل ہی نہ تھا مگرفون پر حنا نے کچھ کہنے کی مہلت ہی کہاں دی تھی ، اس کی بات ہی کہاں سنی تھی ۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اسے ٹھیک لگا ۔ اپنے والد صاحب کے خیالات سے تو آگاہ ہوچکا تھا اور یہ خبر بھی تھی کہ حنا کے گھر کیا صورتحال ہے ۔ چنانچہ اس نے بھی اپنا بیگ تیار کرلیا۔
’’ یہاں سے دارلحکومت چلے جائیں گے ، کورٹ میرج کرلیں گے ۔ چند دن گزار کر واپس آجائیں گے ۔ نکاح کے بعد چاہے جتنے اختلاف سہی ، حنا اور مجھے کوئی جدا نہیں کرپائے گا ۔امی اور ابو کتنا عرصہ خفا رہیں گے ۔ خالی گھر میں جب الو بولیں گے تو خود ہی مان جائیں گے ۔ ‘‘ وہ خود سے ہم کلام تھا ۔ شام کے وقت عمر کا فون آیا تھا۔ وہ اپنے گھر آنے کا کہہ رہا تھا۔
’’نہیں عمر طبیعت اچھی نہیں ہے ۔ صبح سے سر میں درد ہے ۔ ابھی میڈیسن لی ہے اب آرام کروں گا ۔ ‘‘ دل میں تو آیا کہ عمر کو اپنے پلان سے آگاہ کردے مگر پھر رک گیا، ابھی نہیں ۔
ایک تہائی رات گزرچکی تھی ۔ وہ بس روانہ ہوا چاہتا تھا ۔ کلائی پر گھڑی باندھی ۔ پیروں کو جوتوں میں مقیدکرکے تسمے باندھے ، بیگ اٹھایا ۔ گربہ پائی سے چلتا کہ آہٹ نہ ہو وہ برآمدہ پار کرتا جانے لگا ۔ ابھی وہ مین گیٹ تک پہنچا ہی تھا ۔ کنڈی نہیں کھولی تھی۔
’’شعیب ، شعیب ۔‘‘ زاہدہ کی چیختی آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔ وہ لمحے بھر کو رک گیااور ایک پل کو دل میں آیا کہ مت رکے اور چلا جائے مگر …
’’ شعیب …‘‘ زاہدہ کی آواز ایک بار پھر گونجی ۔ اس آواز میں درد اور کرب تھا۔ وہ درد جس نے اس کے پیروں کو جکڑ لیا۔ وہ تیز قدموں سے واپس مڑا ۔
اندر کمرے میں جو منظر تھا اس نے جیسے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا۔
ذوالفقار فرش پر لیٹے تھے ۔ ایسے جیسے چارپائی سے گرگئے ہوں ۔ ہاتھ سینے پر بائیں جانب ڈھیلی گرفت سے جما تھا ۔ پسینے سے شرابور اور درد سے بے حال ۔ زاہدہ ان کو سنبھالنے کی کوشش کررہی تھی۔
اس نے اسی وقت ایمبولینس کا نمبر ملایا اور باپ کوسہارا دینے لگا۔
’’ ابو ‘ ابو سنبھالیں خود کو۔‘‘ اس نے باپ کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور ان کا ہاتھ مسلنے لگا۔
ذوالفقار کا سانس رکتا تھا ۔ سینے میں بائیں جانب کچھ ایسا درد تھا جیسے سینے میں سلاخیں پروئی جارہی ہوں ۔ بیٹے اور بیوی کو انہوں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا ۔ شاید ان کا آخری وقت تھا۔
وہ کچھ کہنا چاہ رہے تھے پر کہہ نہ پارہے تھے۔
’’بیٹا اپنی ماں کو اکیلا مت چھوڑنا ۔‘‘ دماغ میں آدھی ادھوری سی سوچ ابھر کر معدوم ہوگئی اور وہ درد سے کراہتے رہے۔
ایمبولینس آگئی ۔ کوئی بھی لمحہ ضائع کیے بغیر انہیں ہسپتال لے جایا گیا ۔ وہاں ایمر جنسی میں ڈاکٹروں کی ایک مستعد ٹیم موجود تھی ۔ فوراََ علا ج شروع ہوگیا ۔ ایمر جنسی میں مریض کے ساتھ ایک رشتہ داررکنے کی اجازت تھی۔ زاہدہ اندر رک گئیں اور شعیب ایمرجنسی کے گیٹ کے باہر کھڑا والد صاحب کی صحت کاملہ اور لمبی عمر کی دعائیں کرنے لگا۔
اور حنا …
حنا پس پشت چلی گئی۔ مگر وہ اپنے حواسوں میں تھا ۔ عمر کو فون کیے دیتا ہوں ۔ وہ بس ٹرمینل جاکر حنا کو لے آئے گا یا اس کے گھر چھوڑ آئے گا۔ وہ عمر کو کال کرنے لگا۔
عمر کا آج کادن بہت مصروف گزرا تھا ۔ رات کو بہت تھکاوٹ طاری تھی ۔ سوتے ہوئے اس نے فون سائلنٹ موڈ پر کردیا تھا کہ مجھے رات کو کون سی ضروری کالز آنی ہیں ۔ اور شعیب کال پر کال کرتا رہا مگر عمر نے فون نہ اٹھایا۔ تھک ہار کر شعیب نے فون جیب میں ڈال لیا۔
’’ حناگھر لوٹ جائو۔‘‘ وہ کہتا رہا مگر حنا کہاں سن سکتی تھی۔
اور پھر پہر کے پہر ڈھلنے لگے ۔ ڈاکٹر ادویات منگواتے رہے ، وہ ایمرجنسی سے فارمیسی کے چکر لگاتا رہا ۔
یہاں تک کہ پو پھوٹنے کے آثار نموادر ہونے لگے ۔ ڈاکٹر نے اسے اندر بلا یا۔
’’ بہت کم مریض ہوتے ہیں جو ایسا شدید ہارٹ اٹیک برداشت کرپاتے ہیں ۔ آپ کے والد انہی خوش نصیب لوگوں میں ہیں۔ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔ انہیں وارڈ میں شفٹ کیے دیتے ہیں ۔ ‘‘ اور اس کا دل سجدہ شکربجالانے کو چاہا۔ اور اس نے دیر بھی نہیں کی ۔ وہیں راہداری کے ٹھنڈے فرش پر سجدہ ریز ہوگیا۔
’’بس ابو کو وارڈ میں شفٹ کرنے کے بعد حنا کو لے آتا ہوں ۔ یہاں سے بس ٹرمینل آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہوگا۔ کل ڈیڑھ گھنٹے میں واپسی ہوجائے گی۔ حنا میں آرہا ہوں۔‘‘
ذوالفقار کو وارڈ میں شفٹ کرنے میں آدھا گھنٹہ لگا اور جب سٹینڈ سے بائیک نکال رہا تھا اس وقت صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
بائیک سڑک پر دوڑاتے ہوئے وہ آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتا تھا ۔ اللہ نے کیسی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔
بائیک کی رفتار تیز تھی ۔ سڑک پر ٹریفک بھی زیادہ تھی ۔ تیز رفتاری میں بھی اس نے احتیاط کا دامن نہ چھوڑا کہ اسے ہر حال میں بس ٹرمینل پہنچنا تھا۔ مگر جب قسمت میں وہاں نہ پہنچنا لکھا تھا تو وہ چاہتے جتنی بھی کوشش کرتا کہاں پہنچ سکتا تھا۔
ایک بچہ دوڑتا ہوا آیا ۔ اس نے بچے کو بچانے کی بہت کوشش کی ۔ بچہ تو بچ گیا مگر وہ تواز ن نہ قائم رکھ پایا اور ساتھ سے گزرتی گاڑی میں کچھ ایسی ٹکر ہوئی کہ ساری دنیا ہی گھومنے لگی ۔ سر پر شدید چوٹ لگی ، سر پھٹ گیا۔ وہ ہوش سے بیگانہ ہونے لگا۔
اسے ہوش میں رہنا ہے، بے ہوش نہیں ہونا ۔ حنا اس کا ٹرمینل پر انتظار کررہی ہے ۔ والد صاحب ہارٹ اٹیک کے زیر اثر ہسپتال میں داخل ہیں۔ اسے بے ہوش نہیں ہونا۔
وہ غنودگی کے عالم میں خود کو باور کرواتا رہا اور اپنی تمام کوششیں بروئے کار لے آیا مگر بے ہوش ہوگیا۔
ٹرمینل پر بیٹھی حنا کی آنکھیں اس کے انتظار میں پتھرانے لگی تھیں۔
’’ شعیب آخری بار پکارتی ہوں ، آجائو … زندہ نہیں تو میرا مردہ وجود ہی لے جائو ۔‘‘ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس کی نگاہیں دروازے پر لگی تھی جہاں سے شعیب نے آنا تھا۔ مگر وہ نہ آیا۔
شب شکستگی کا عالم
سانس ساکن
وقت ظالم
٭٭ …٭٭
آسمان کی وسعتوں سے زمیں کی گہرائیوں تک ۔ وہ کون سی ممکنہ جگہ تھی جہاں اسے نہ ڈھونڈا ۔
سمندر کنارے سے شہر کی ان حدود تک جہاں شہر بیابان میں تبدیل ہوجاتا تھا۔
کوچوں میں ، گلیوں میں…
بس پر، موٹر سائیکل پر ، پیدل …
شعیب نے ہر جگہ ہر طریقے سے ڈھونڈا ، ہرجگہ پکارا مگر وہ نہ ملی۔
شہر سے باہر نہ چلی گئی ہو ۔ وہ شہر سے باہر اسے ڈھونڈنے جانا چاہتا تھامگر کہاں جائے‘ کس شہر اور کس گائوں۔
ہوگی بھی کہ نہیں ۔ یہ سوچتے ہوئے اس کا سانس رکنے لگتا۔
بس ٹرمینل ، ریلوے اسٹیشن جاتا اور گھنٹوں اترنے چڑھنے والے مسافروں کو دیکھتا رہتا۔
ہر میانہ قد لڑکی پر حنا کا گمان ہوتا ۔
’’ پیاری حنا ، میں شرمندہ ہوں کہ وعدہ وفا نہ کرسکا اور ٹرمینل نہ پہنچ سکا مگر میرا قصور نہ تھا۔ حالات کچھ اس نہج پر پہنچ گئے تھے ۔ مجھے معاف کردو اور واپس آجائو ۔ ‘‘ گلوبل ویلج کے اس دور میں اس کے پاس اپنا پیغام بھیجنے کا ذریعہ نہ تھا ۔ وہ ہوا اور فضا کو اپنے پیغام سپرد کرتا۔
ہوائیں اور فضائیں کہاں پیغام لے جاتی ہیں۔ انتظار تھا کہ لاحاصل کی شکل اختیار کرلیتا اور وہ پھر بھی منتظر رہتا ۔
’’ شاید تم نے فون کیا ہو ‘مگر ایکسیڈنٹ کے بعد فون کھوگیا اور چند دن بند رہا ۔ یا اللہ تمام حالات کیوںاس نہج پر پہنچے کہ میں بے بس ہی رہ گیا۔‘‘
’’ اپنی بہن ، بھائی یا باپ کسی کے نمبر پر تو رابطہ کرو۔‘‘ عمر کے ذریعے اس نے زینب کا نمبر لے لیا اور حنا کے بارے میں پوچھتا رہتا ۔
ذوالفقار اور زاہدہ جنہوں نے اپنے بیٹے کو لال گلال ، خود اعتماد اور ہمیشہ خوش دیکھا تھا ۔ اب اس کی تنزلی دیکھ رہے تھے اور کچھ نہ کرپاتے تھے ۔ وہ پیلا اور کمزور ہوتا جارہا تھا ۔ کھانے کے نام پر چند لقمے حلق سے نیچے اتار لیتا اور ہمہ وقت پریشان اور منتظر رہتا ۔ رونے سے بھی دریغ نہ کرتا۔
زاہدہ سمجھاتیں، پچکارتیں اور رونے لگ جاتیں مگر شعیب کا معمول تبدیل نہ ہوا۔
ایک دن ذوالفقار ہمت کرکے اس کے پاس آئے ۔ ہاتھ میں اخبار تھا۔
’’ بہت اچھی فرم میں واک ان انٹرویو کے لیے بلایا ہے۔ تم انٹرویو کیوں نہیں دے آتے ۔‘‘ وہ اخبار میں چھپا اشتہار اسے دکھانے لگے ۔
’’ذہن بٹے گا ، کچھ تبدیلی آئے گی۔‘‘ ذوالفقار کہہ رہے تھے۔
وہ بہرہ بنا بیٹھا رہا۔
’’میری غلطی تھی اس وقت فرقے فساد کی بات نہ کرتا ۔‘‘ ناگہانی بیماری اور بیٹے کی حالت نے اس نہج پر سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
’’اب فرقے کا تاج سر پر سجا رکھیں ۔‘‘ وہ چیخ اٹھا۔
ذوالفقار اپنی جگہ پر ششدر رہ گئے۔ وہ ان سے کس لہجے میں بات کررہا تھا۔
’’ شعیب باپ سے ایسے بات کرتے ہیں ‘ معافی مانگوان سے ۔‘‘ ساتھ بیٹھی زاہدہ سخت لہجے میں بولیں ۔ وہ نفرت انگیز نگاہوں سے ماں باپ کو دیکھتا رہا۔
’’لوگ تو ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں ، یہ کیوں زندہ ہیں۔ ‘‘ یہ انتہا تھی اور انتہا ہمیشہ بدترین ہوتی ہے۔
’’ شعیب …‘‘ زاہدہ کا ہاتھ اٹھا اور شعیب کے گال پر نشان چھوڑ تا گیا۔
’’صرف تھپڑ نہ ماریں جان سے مار ڈالیں۔‘‘ وہ رونے لگا ۔ روتا ہوا اٹھا اور دوسرے کمرے میں جاکر چٹخی لگادی۔
’’ بیٹا سخت پریشان ہے ۔ اس لڑکی کے مفرور ہونے کی وجہ خود کو سمجھتا ہے ۔ پریشانی اور غصے میں تو انسان کی زبان شیطان کی ترجمان بن جاتی ہے۔ آپ دل پر مت لیں۔‘‘ زاہدہ نرم لہجے میں خاوند کی دلجوئی کررہی تھیں۔ ذوالفقار خالی نگاہوں سے بیوی کو دیکھتے رہے۔
اندر کمرے میں دروازے کے ساتھ دوازنوں بیٹھا شعیب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔ یہ کیا ہوگیا،یہ کیا ہورہا تھا ۔ آنسو پانی کی طرح بہتے تھے اور یوں لگتا تھا کبھی نہ رکے گے۔
’’ شعیب ۔‘‘ کسی نے نرم آواز میں پکارا ۔ اور پھر اس کا گھٹنا چھوا ۔ شعیب نے سر اٹھا کر دیکھا ۔ وہ عمر تھا ۔ بند کمرے میں وہ کیسے آگیا تھا۔ شعیب حیرانگی سے اسے تکنے لگا۔
’’ روئو مت ۔‘‘ عمر کہہ رہا تھا۔
’’تو اور کیا کروں ؟‘‘ وہ روتا رہا۔
’’ تلافی ۔‘‘ وہ رک گیا ۔سامنے اب عمر نہیں وہ خود بیٹھا تھا ، اس کا اپنا عکس تھا۔
’’ تلافی مطلب …؟‘‘ وہ اپنے عکس سے پوچھ رہا تھا۔
اس نے پلکیں جھپکیں اور اس وقفے میں اب اس کی جگہ حنا بیٹھی تھی۔
اس کی حنا،سبز رنگ کے سوٹ میں ملبوس اور اسے ہمیشہ اسی سوٹ میں وہ زیادہ حسین لگتی تھی۔ چہرے پر مدھم مسکراہٹ لیے۔
’’ تمہارے خون میں زہر شامل ہوگیا ہے۔‘‘ حنا مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
’’اس زہر کو باہر نکالو۔‘‘ وہ سمجھ نہ پایا۔
’’اپنے اندر پنپنے والے زہر کو باہر نکالو۔‘‘ حنا کی مسکراہٹ میں کمی نہ آئی ۔
’’ کیسے ؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
حنا کھکھلا کر ہنس پڑی ۔
’’ زہر تو نکالنا پڑے گا۔‘‘ اب عمر بھی ساتھ چلا آیااور اس کا اپنا ہیولہ بھی ‘ اور پھر ماں باپ بھی چلے آئے ۔ سب اسے ترغیب دینے لگے ۔ اور خودبخود اس کے ذہن میں اپنے خون میں دوڑتے زہر کو تلف کرنے کا طریقہ آگیا ۔ واش روم میں جاکر اس نے شیونگ کٹ سے بلیڈ نکالا ۔ بلیڈدائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میںدبا کر بائیں کلائی پر پھیر دی۔
دوہری دھاری والا بلیڈ کلائی کو چیرتا چلا گیا۔
فرش خون سے سرخ ہونے لگا اور وہ خون کے ساتھ زہر کو نکلتے دیکھتا رہا تھا ۔ پرسکون ہوتا رہا ۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر ۶
رنگِ حنا

بے شک شعیب ان طلباء میں سے تھا جو ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں اور یوںبھی اس کی اضافی خوبی شاعر ہونا اسے ممتاز کرتی تھی ۔ پروفیسر احتشام کو بھی وہ پسند تھا ۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد شعیب نے ان سے تھوڑا زیادہ رابطہ رکھا ۔ اب کچھ عرصے سے اس نے رابطہ نہ کیا تھا ۔ ایک دفعہ انہوں نے کال کی ۔ اس نے کال ریسیو کی اور نہ کال بیک کی ۔ اور وہ بھی اپنی زندگی کی مصروفیات میں گم رہے کہ ایک دن عمر ان سے یونیورسٹی ملنے آیا۔
’’ جی جوان اپنی جاب کا سنائو۔‘‘ اور عمر انہیں اپنی جاب کی نوعیت اور دوسری تفصیلات بتانے لگا ۔ درمیان میں کام کے سلسلے میں انہوں نے اسے کچھ مشورہ بھی دیا۔
’’سر آپ سے ایک فیور چاہیے تھی۔‘‘ عمر بلاآخر مدعے پر آیا ۔
’’ جی کہو ۔‘‘ وہ ہمہ تن گوش تھے۔
حقیقتاََ وہ پروفیسر وں کی اس خال جماعت سے تھے جو طلباء کو صرف طلباء ہی نہیں انہیں اپنا دوست اور جونئیر کولیگ کا درجہ دیتی ہے۔
’’ سر وہ شعیب ، میرا دوست…‘‘
’’ہاں‘ ہاں تمہارے بیج میں میرا فیورٹ سٹوڈنٹ ۔ کچھ عرصے سے اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا ۔ کہنا مجھ سے مل جائے اور شادی ہوگئی حنا اوراس کی ۔‘‘ وہ حنا سے متعلق اس کی پسندیدگی سے واقف تھے۔
’’سروہ آج کل بڑے کڑے وقت سے گزرہا ہے ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ سر اس نے کچھ دن پہلے خود کشی کی کوشش کی ہے ۔ ‘‘ احتشام حق دق رہ گئے۔
وہ زندگی سے بھرپور لڑکا جس کی باتیں زندگی سے مزین ہوتی تھی ، وہ بھلا کیوں کر خودکشی کرے گا ؟
’’ کیوں؟‘‘ وہ پوچھ رہے تھے ۔
عمر نے مختصر مختصر انہیں سب تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ اور جب وہ چپ ہوا تو احتشام گہری سوچ میں گم ہوگئے۔
’’آج کل کہا ں ہے وہ ؟‘‘
’’ایک سائیکاٹری سنٹر میں ایڈمٹ ہے ۔ سائیکاٹرسٹ کا کہنا ہے دوبارہ سے خود کشی کی کوشش کرسکتا ہے ۔ اس لیے ڈاکٹر کی زیر نگرانی رہنا ضروری ہے۔‘‘
’’ کیا کل تم مجھے اس کے پاس لے جاسکتے ہو؟‘‘
’’ضرور سر ۔‘‘ وہ یہی درخواست لے کر تو ان کے پاس آیا تھا مگر انہوں نے خود سے کہہ دیا۔ دراصل یہ بھی سائیکاٹرسٹ کی تجویز تھی کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگو ں سے ملوایا جائے ، خاص طور پر ان لوگوں سے جنہیں وہ پسند کرتا ہو۔
کلائی کاٹنے کے بعد بروقت طبی امداد سے اس کی زندگی تو بچ گئی ۔ سرجن کے ساتھ سائیکاٹرسٹ کو بھی اس کے علاج کے لیے معمور کیا گیا۔
’’تم نے اپنی کلائی کیوں کاٹی؟‘‘ کونسلنگ سیشن کے درمیان سائیکاٹرسٹ نے اس سے پوچھا ۔
’’مجھے حنا نے مشورہ دیا تھا۔‘‘
’’کیا وہ تم سے ملنے آئی تھی۔‘‘
’’ہاں ۔‘‘
’’اکیلی؟‘‘
’’نہیں ‘ عمر بھی تھا اور میں خود بھی ۔‘‘
’’ تم خود بھی …؟‘‘ سائیکاٹرسٹ نے دوہرایا ۔
’’جی ۔‘‘
’’کیا ایسا ممکن ہے ؟‘‘
’’میں نہیں جانتا ۔ ‘‘ اور اس سیشن کے بعد ہی سائیکاٹرسٹ نے ذوالفقار اور زاہدہ سے کہا۔
’’اس طرح کی Situations Crisis میں ہیلوسی نیشنز اور الوژنز کا ہونا بہت غیر معمولی نہیں اس کو کچھ عرصہ ہمارے پاس رہنے دیں ۔ ‘‘ اور یوں سائیکاٹری سنٹر میں اس کے قیام کا انتظام کیا گیا ۔ جہاں ادویات کے ساتھ ساتھ تھراپی بھی چلتی رہی ۔

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے