رنگ حنا : دوسرا حصہ
سیاہ رات نے گھنگھور سائے چاروں اور بکھیر دیے تھے ۔ اس سیاہی میں بہت کچھ نگلنے کی صلاحیت موجود تھی ۔ جہاں شہر کی سرحدیں ختم ہونے کو آتی تھیں ، ادھر ہی مدھم روشنیوں میں بس ٹرمینل تھا ۔ نصف شب بیت چکی تھی ۔ ہر چیز پر ایک سوتی کیفیت کا اثر تھا ۔ ٹکٹ گھر کے دوسری طرف بیٹھے عملے کے کام کی رفتار ڈھیلی تھی۔ مختلف مقامات کو جانے والی بسوں کے کنڈیکٹر وں کی آوازوں میں بھی کمی تھی۔ کینٹین والے کی آنکھوں میں کچھ ایسی نیند تو نہ تھی لیکن وہ بھی خواب کے اثر میں دکھائی دیتا۔
مسافروں کے لیے بنائی گئی نشستو ں میں سے نسبتاََ پیچھے والی نشست پر سیاہ چادر میں ایک سکڑا سمٹا وجود بیٹھا تھا ۔ سامان کے نام پر اس کے پاس ایک ہینڈ بیگ تھا ۔ جس میں دو سوٹ اور نقد رقم تھی ۔ وہ حنا تھی۔
چونکہ نصف شب بیت چکی تھی ۔ شعیب کے آنے میں زیادہ وقت نہیں رہتا تھا ۔ بس آتا ہوگا ۔ یوں تو اسے پہلے سے موجود ہونا چاہیے مگر شاید کوئی مسئلہ در پیش آگیا ہو ۔ بس پہنچنے والا ہوگا۔
ایک ذرا انتظار …
تبھی ایک شخص آیا اور آکر حنا کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا اور جس طرح وہ استحقاق سے آکر بیٹھا تھا لمحے بھر کو حنا نے فرض کرلیا کہ شعیب ہے مگر جب دیکھا تو دل کی دھڑکن مزید تیز ہوگئی ۔ پان چباتا ، توند نکلی غلیظ سا جو کہ دور سے ہی اچھا آدمی نہ لگتا تھا۔
’’ گھر سے بھاگی لگتی ہو۔‘‘
’’آپ ادھر سے اٹھ جائیں۔‘‘
’’ اٹھ جائیں گے ۔‘‘ آدمی پان زدہ دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔
’’میرے خاوند آتے ہوں گے۔‘‘ آدمی ہنسنے لگا ۔
’’اتنا تو ہمیں بھی تجربہ ہے کہ آدھی رات کو خاوند نہیں محبوب آتے ہیں اورزیادہ تر وہ بھی نہیں آتے ۔ ‘‘ اپنی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دیا ۔
حنا مزید سکڑ سمٹ کر بیٹھ گئی۔ شعیب آئے گا تو اس کمینے کا منہ توڑ دے گا۔
’’ میرے ساتھ چلو گی، قسم سے خوش کردوں گا اور رانی بنا کر رکھوں گا۔‘‘
’’ آپ یہاں سے اٹھتے ہیں یا میں سیکیورٹی کو بلائوں ۔‘‘
’’ سیکیورٹی گارڈ بھی آکر تجھ پرہی فقرے کسے گیا ۔ ‘‘ وہ پھر قہقہے لگانے لگا۔
’’ چل پھر بھی میری ضرورت ہو تو ۔ ‘‘ آدمی نے اپنی جیب سے بٹوہ نکالا اور وزیٹنگ نکال کر حنا کی گود میں اچھال دیا ۔
’’برا ضرور ہوں مگر برائی کو شرافت کے دائرے میں رکھنے کا قائل ہوں ۔‘‘ آدمی آنکھ دباتا اٹھ گیا۔
لرزتے وجود کے ساتھ حنا نے کارڈ پر لکھے متن کو دیکھا۔
’’ پرنس ارباز خا ن ۔ ‘‘ ساتھ مختلف نیٹ ورک کے کوئی چار فو ن نمبر لکھے تھے ۔ حنا نے کارڈ زمین پر پھینک دیا۔
’’جلدی آئو شعیب دیکھو تمہاری حنا کو لوگ کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ ‘‘ ذرا سا انتظار طویل کیوں ہوتا جارہا تھا۔
’’ شعیب …‘‘ نم آنکھوں کو پونچھتے ہوئے حنا نے پکارا ۔
’’ میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ یہ اشعار میں نے تمہارے لیے لکھی ہے اسے قبول کرکے زندگی بھر کے لیے میرا ہاتھ تھام لو۔‘‘
رات ڈھل گئی ۔ صبح کاذب ہوچلی۔
شعیب نہ پہنچا …
’’ میں مرجائوں گی شعیب مزید دیر مت کرو ۔‘‘
’’ پیاری حنا کچھ غلط کیسے ہوسکتا ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارے ساتھ ہی رہوں گا ۔ سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہی رہے گا۔‘‘
اور صبح کاذب نے آکر جیسے اندھیرے کی روح ہی قبض کرلی مگر شعیب ابھی بھی نہ آیا۔
میرے محبوب
تیرے بھروسے میں دنیا کو چھوڑ آئی ہوں
اب تو آجا
کہ میری سانس چل پائے
’’سب کے کہنے میں اور میرے کہنے میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘
’’مجھے تو کھانا پینا بہت پسند ہے ‘ شادی کے بعد ایسے لذیز پکوان پکائو گی تو یہ توند نکل آئے گی۔‘‘
اور دوپہر ہونے کو آئی ۔ شعیب نہ آیا وہ وہیں بیٹھی رہی ۔ یہاں تک کہ اسے اٹھنا ہی پڑا ۔ دھوپ میں تمازت تھی اور دھوپ میں اپنا ہینڈ بیگ لیے وہ چلی جارہی تھی۔
’’ دلاور صرف تھپڑوں اور ٹھوکروں تک مت محدود رہتے جان سے ہی مارڈالتے ۔ ‘‘ اب تو آنکھیں کچھ ایسی پتھرا گئیں تھیں کہ ان سے آنسو بھی نہیں نکلتے تھے۔
چاروں اور دن کا اجالا تھا۔ مگر وہ پھر بھی اس اجالے میں خود کو نہ دیکھ پارہی تھی ۔ پاس سے اک بس گزری اور وہ جان دینے کی نیت سے اس کے سامنے آگئی۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر ۵
ایک اور لیلیٰ
بال اس کے گھنگھریالے تھے ، رنگت گندمی، چہرہ بیضوی ، روشن آنکھیں اور اس سے بڑھ کر چہرے پر ہمہ وقت رہنے والی مسکراہٹ ۔زندگی کے کتنے ہی سال یونہی کشمکش اور بیچارگی میں گزرگئے مگر اب روشن آنکھیں حسین خواب دیکھنے کی عادی ہوچلی تھی اور دل … دل ان خوابوں کی تعمیل چاہتا تھا ۔بچپن کشمیر کی وادیوں میں حسن ڈھونڈتے گزرا ۔ اب بھی دل کشمیر جانے اور وہاں جاکر رہنے کو ہمکتا مگر ظاہری اسباب تو کچھ ایسے تھے کہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔
ماں ‘ باپ… اتنے سال گزر جانے کے بعد ماں باپ کو یاد کرتے ہوئے دل ویسے افسردہ نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ ایک مدھم مسکراہٹ چہرے پر احاطہ کرلیتی اور لبوں پر یہ دعا آکر رکتی ۔
’’ یااللہ میرے والدین کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرما ۔‘‘
کشمیر کی سرزمین اس کی آبائی سرزمین تھی ۔ ماں باپ دونوں کشمیری تھے ۔ باپ پوسٹ آفس میں اچھی پوسٹ پر تھے اور ماں گھریلو خاتو ن ، کشیدہ کاری کے فن کی دلدادہ ۔ میزپوش ‘ پلنگ پوش ‘ ٹی کور ‘ خوان ڈھکنے کے لیے رومال اور خود ان کے پہننے اوڑھنے کے کپڑے ۔ گھر میں کوئی ایسا کپڑا نہ تھا جو ماں کی کشیدہ کاری کا نمونہ نہ ہوتا ۔ بیل بوٹے ، رنگے برنگے دھاگے اور دیدہ زیب ڈیزائن ۔
وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی ۔ چھوٹے بہن بھائی اس کی شخصیت کے ایسے گرویدہ تھے کہ اٹھنے بیٹھے ، کھانے پینے اور دیگر تمام باتوں میں اس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ۔ اور رات کا وہ سمے جب وہ انہیں نیلم پری کی کہانی سناتی ۔
’’ اور نیلم پری کے دل میں رحم جاگا ۔ اس نے اپنی جادو کی چھڑ ی گھمائی …‘‘
نیلم پری اس کا اپنا تخلیق کردہ کردار تھا ۔ نرم دل پری پرستان سے آتی اور غریب لوگوں کی مدد کرتی ۔ اسے غرباء کی مدد کرنا اچھا لگتا اور جب کبھی وہ پرستان سے آتی تو غریبوں کے لیے تحائف لے کر آتی ۔
’’ آپی نیلم پری سے کہیں نا ں کہ ہمارے لیے بھی تحفے لائے۔‘‘ سب سے چھوٹی عروہ کہتی۔ وہ مسکرا دیتی۔
’’ نیلم پری غریبوں کے لیے تحفے لاتی ہے اور ہم لوگ تو غریب نہیں۔‘‘
’’ تو ہم غریب کیسے ہوسکتے ۔ ‘‘ چھوٹے بچوں کی بچپن کی باتیں۔
’’ ام م م …ایسے کرتے ہیں کہ میں نیلم پری سے درخواست کروں گی کہ وہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے بھی کوئی تحفہ لے آئے۔‘‘ یہ بات وہ تینوں کو باور کرواچکی تھی کہ نیلم پری اس کی بہت اچھی سہیلی ہے اور اس سے ملنے بھی آتی ہے ۔ بچے بھی اس کی بات پر یقین رکھتے تھے۔
اگلے دن وہ سکول کے بعد قریبی سٹور پر گئی ۔ بہن بھائیوں کے پسندیدہ چاکلیٹس اور بسکٹ خریدے اور شام کو انہیں دیتے ہوئے کہا۔
‘‘نیلم پری نے تحفے بھیجے ہیں ۔ ‘‘ بہن بھائی خوش ہوگئے۔
اور شب و روز اسی خوش قسمتی سے گزرتے رہے کہ ایک دن …
ایک دن بدقسمتی آئی اور کشمیر کی وادیوں سے زندگیاں نگلتی چلی گئی۔
2005 ء میں آنے والا زلزلہ اس پر کچھ ایسی قیامت لے کر آیا جس کی انت نہ تھی ۔ وہ اس وقت آٹھویں کلاس کی طالبہ تھی ۔ سکول میں پیپر دے رہی تھی جب زلزلے نے دردیوار ہلائے اور پھر انہیں زمین بوس کردیا ۔ سب بچے ملبے کے نیچے آگئے اور وہ ان چند خوش نصیب بچوں میں سے تھی جو محفوظ رہے تھے۔
مگر وہ کہاںخوش نصیب تھی۔ اس کے امی ابو ، بھائی بہن سبھی کو تو زلزلہ نگل گیا۔
یہ کیسی ادا ہے تیری زندگی۔
وہ اس دنیا میں اکیلی رہ گئی ۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ، ذہنی کشمکش اور تباہ ہوتی نفسیات کے زیر اثر ۔
ان کے علاقے میں زلزلہ کچھ ایسی شدید نوعیت کی تباہی لے آیا تھا کہ چند ذی روح ہی بچے تھے ۔ اس کے چچا ، ماموں ، خالائیں ، پھوپھیاں اور اس کے تمام کزنز سب کے سب اس زلزلے کی وجہ سے ماضی کا قصہ بن گئے ۔ سوائے اس کے ایک ماموں اور ان کی ایک بیٹی کے۔
ماموں ، نادیہ اس کی ماموں زاد بہن اور وہ کئی دن امدادی کیمپوں میں پڑے رہے ۔ امدادی ٹیمیں مدد کے نام پر گرم کپڑے ، بستر اور بھر پور غذائی طاقت والی بند ڈبوں میں محفوظ غذا مہیا کرتی رہیں اور یونہی کئی ہفتے گزر گئے ۔
ماموں اسے اور نادیہ کو لے کر سمندر کنارے بسنے والے شہر میں آبسے ۔ کشمیر میں رہنے کے لیے کچھ رہا تھا اور نہ وہ خود میں اتنی ہمت پاتے تھے ۔ یہاں آکر نئی زندگی شروع ہوئی ۔ وقت نے گر بے رحم زخم دیے تو اب مرہم بھی رکھنے لگا تھا۔ آتے آتے صبر بھی آگیا اور پھر سے وہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ۔
گوکہ اب شوخیاں نہ رہیں مگر سکول کی استانی نے اسے بتاتے بتاتے یہ باور کرادیا کہ خدا کی رضا اور انسان کی بے بسی مسلم باتیں ہیں ۔اللہ نے اسے نئی زندگی دی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے جیے ۔ والدین کے لیے دعائے مغفرت کرے اور یہ خواہش دل میں رکھے کہ اللہ پھر کبھی اسے اور دنیا کے کسی انسان کو ایسی زمینی آفات سے محفوظ رکھے۔
نئی زندگی شروع ہوگئی ۔ نادیہ اور وہ ہم عمر تھیں ۔ دکھ سکھ کی ساتھی بن گئیں ۔ ماموں پڑھے لکھے تھے ، کچھ کوشش کرنے سے مناسب ملازمت مل گئی اور گزرتے سالو ں میں انہوں نے دوسری شادی بھی کرلی۔
فضیلہ ممانی اچھی خاتون تھیں ۔ دل میں ان دونوں کے لیے نرم گوشہ تھا ۔ خود بھی ملازمت کرتیں اور جب ان کی گود میں قلقاریاں گونجنے لگیں تو بچے اور ملازمت میں توازن رکھنا مشکل ہوگیا ۔ تب نادیہ اور وہ ہی تھیں جو علی کو سنبھالتیں اور ممانی ملازمت پر جاتیں ۔ اور یوں ان کی ہم آہنگی بڑھتی گئی۔
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا ۔ وہ لڑکیاں جو کشمیر سے آئی تھی تو مرجھائی ہوئی اور غم کی ستائی ہوئی چھوٹی بچیاں تھیں ۔ اب کھلتے ہوئے گلاب کی سی تھیں ۔ ماموں ممانی دونوں، ان گلابوں کو حقدار کے حوالے کرنا چاہتے تھے ۔ نادیہ کی شادی ماموں کے کولیگ کے بیٹے سے ہوگئی ۔ اور ایک سال میں اس کی گود میں کومل نے آکر رونق بخشی۔
اور وہ …
’’لیلیٰ تمہاری شادی تو مجنوں سے ہی ہوگی ۔ ‘‘ نادیہ مذاق مذاق میں کئی بار کہہ چکی تھی۔
ہاں وہ لیلیٰ تھی۔ ایک اور لیلیٰ …
بال اس کے گھنگھریالے تھے ، رنگت گندمی، چہرہ بیضوی ، روشن آنکھیں اور اس سے بڑھ کر چہرے پر سجی مدھم مسکراہٹ ۔
اور پھر ماموں نے اس کی بات بھی قریبی محلے میں رہنے والے لڑکے سے طے کردی۔
اچھا لڑکا تھا ۔ خوب پڑھا لکھا تھا اور برسرروزگار تھا ۔ سنا تھا کسی سے محبت بھی کرتا تھا مگر اس بے چاری کے نوعمری میں اچانک انتقال سے غمزدہ اور اکیلا ر ہ گیا مگر ماموں کہتے تھے۔
’’ سنبھل جائے گا، میں بھی تو سنبھل گیا تھا ۔ لڑکا ہیرا ہے ۔ میرا تجربہ غلط نہیں کہتا۔‘‘ اور اگر فرض کرلیا جائے کہ ماموں کا تجربہ غلط ہوبھی جاتا ہے تو پھر بھی اسے کوئی شکوہ نہ ہوتا ۔ ماموں نے اسے تب جوڑا جب وہ ٹوٹ کر بکھر چکی تھی ۔ وہ اسے کے صرف ماموں نہ تھے ماں باپ بھی تھے۔ اور ا ن کی صدا پر لبیک کہنا اس پر فرض تھا۔
اور یوں اس کی بات طے ہوگئی ۔ نادیہ کہیں سے اس کی تصویر کا بھی بندوبست کر آئی۔
درمیان سے سائڈ پر بالوں کی مانگ ، سیاہ آنکھیں ، کشادہ پیشانی اور چہرے کی زینت جاندار مسکراہٹ۔
’’تصویر سے دھوکا مت کھانا اب تو کافی کمزور ہوگیا ہے ۔ اس عکس کی روح بلکہ بدروح لگتا ہے ۔ ‘‘ نادیہ ہنسنے لگی اور لیلیٰ اسے گھورنے لگی۔
’’میں تو زیادہ قائل نہیں تھی اس رشتے کے لیے لیکن ابو نے کچھ سوچ کر ہی ہامی بھری ہوگی۔ اور شادی تو تمہاری مجنوں سے ہی ہو رہی ہے یہ اور بات ہے کہ وہ کسی مرحومہ کے عشق میں مجنوں ہے۔‘‘
’’ نادیہ ۔‘‘ باہر سے فضیلہ کی آوازآئی۔ کاٹ میں سوئی کومل رونے لگی۔
’’ لو پکڑو اپنے شیبو کی تصویر ۔‘‘
’’ شیبو ۔‘‘ نک نیم پر لیلیٰ کی ہنسی نکل گئی۔
’’شعیب بھائی کہو تم ۔‘‘ کمرے سے باہر جاتی نادیہ کو اس نے ٹوکا۔
’’اچھا ‘ اچھا ۔‘‘ نادیہ کمرے سے چلی گئی۔ اور لیلیٰ تصویر پر نظر جمائے مسکرانے لگی۔
یہ شعیب کی تصویر تھی۔
٭٭ …٭٭
کوئی چیز بھی چند سال تک گھر کا حصہ رہے اور اچانک اس کے غائب ہونے سے کس قدر فرق پڑتا ہے ‘ وہ تو پھر اس گھر کا مکین تھی ، گھر کا حصہ …
کہاں گئی حنا …
کہاں ہو حنا …
گھر میں ایک کہرام سا مچ گیا ۔
’’ سچ سچ بتائو نبیلہ تمہیں اس نے آگاہ کیا ہوگا۔‘‘ دلاور کی آواز کڑکتی تھی۔
’’ نہیں بھائی جان مجھے نہیں پتہ ۔‘‘ بتاتے ہوئے نبیلہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’ جھوٹ بولتی ہو ۔ ‘‘ دلاور آپے میں نہ رہا تو چہرے پر تھپڑ رسید کردیا ۔
’’ بس دلاور …‘‘ شبنم آگے بڑھیں اور دلاور کو دھکیلنے لگیں۔
’’ اتنی زور سے میری بیٹی کو مارا تھا ۔ یوں بھی کوئی بھائی کرتا ہے جیسے تم نے کیا ۔ اس کا گناہ کیا تھا بس یہی کہ پسند سے شادی کرنا چاہتی تھی۔‘‘
’’گناہ …‘‘ دلاور چیخ اٹھا۔
’’ہمارے منہ پر کالک مل کر رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگ گئی اور آپ کہتی ہیں گناہ کیا تھا۔‘‘
’’ابو آپ بتائیں اب کیا کریں ۔کیسے زمانے کو منہ دکھائیں گے ۔ ‘‘ دلاور کا بس چلتا تو دنیا ہی تباہ کردیتا ۔
افتخار چپ چاپ سے بیٹھے رہے ۔ ایسے جیسے معاملے سے لاتعلق ہو ں ۔ ان کی سب سے لاڈلی بیٹی نے یہ قدم اٹھایا تھا ۔ وہ ماننے کو تیار نہ تھے۔ زینب کو پتا چلا تو دوڑتی آئی ۔ اسفند کو اس نے وجہ نہ بتائی مگر گھر آیا ہاتھی بھی کسی سے مخفی رکھا جاسکتا ہے ۔ اسے بھی پتہ چل گیا۔
’’ عمر سے پتہ کرتے ہیں یقیناََ اس لڑکے کے ساتھ ہی معاملات طے کیے ہوگے ۔ ‘‘ اسفند دل کا اچھا تھا ۔ بجائے اس بات پر زینب کو لعنت ملامت کرتا وہ خود گتھی سلجھانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ نہیں اس کی ضرورت نہیں اب ۔‘‘ یہ دلاور تھا۔
’’ جو ہاتھ منہ پر کالک ملتے ہیں انہیں عقیدت سے چوما نہیں جاتا ۔ وہ اس گھر سے بنا بتائے گئی ہے‘ سمجھو ہمارے لیے مرگئی ۔ میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے ۔‘‘ دلاور الگ نہج پر سوچ رہا تھا۔
’’ حنا کو ایسی خطرناک جان لیوا متعدی بیماری لاحق ہوئی کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ اور آن کی آن میں وہ دار فانی سے کوچ کرگئی ۔ بیماری میں مبتلا کرنے والا وائرس ایسا جان لیوا اور خطرناک ہے کہ ڈیڈ باڈی سے بھی پھیل سکتا ہے ۔ اسی لیے سرکاری ہسپتال کی انتظامیہ نے میت بھی حوالے نہ کی ۔ وہ خود جلا کر دفن کر چکے ہیں یا ہوں گے۔‘‘ یہ کہانی دلاور نے محلے اور خاندان میں مشہور کردی اور لوگ تعزیت کرنے کے لیے آنے لگے۔
’’ہیں اچانک …؟ ‘‘
’’ایسا کون سا وائرس ہے ؟‘‘ کہانی کے جھول لوگوں سے برداشت نہ ہوتے مگر دلاور نے بھی ہر سوال کا جواب گھڑ لیا۔
بہنیں روتی رہیں اور شبنم کرلاتی رہی ۔ افتخار خاموش نظروں سے بت بنے رہے ۔ ان سب کے نا چاہتے ہوئے بھی رشتہ داروں اور محلے داروں نے ان کے گھر تین دن اکھٹے ہوکر مرنے والی کا سوگ منایا ۔
’’ارے ہسپتال والے کیسے ظالم ہیں ۔ یہ حکومت کی پالیسیاں ہی سخت ہیں ۔ کوشش تو کرتے کہ میت مل جاتی ۔‘‘ لوگ کہتے رہتے اور یہاں تک کہ تین دن کا سوگ ختم ہوگیا۔
تو یوں حنا مر گئی۔
لوگوں نے اس کے اس کے دنیا سے چلے جانے کی حقیقت تسلیم کرلی ۔
عنوان افسانہ … ستم گر ہے زمانہ …
اور یہ افتخار تھے ۔ خاموش تھے اور یوں ظاہر کرتے تھے جیسے انہیں اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں مگر باپ تھے ۔ غیرت جوش بھی مارتی مگر خون بھی اپنی جانب کھینچتا ۔
’’اسی لڑکے کے ساتھ گئی ہوگی‘رابطہ کرے گی ، کبھی نہ کبھی واپس آجائے گی۔‘‘ انہوں نے جیسے بہت دور کا مستقبل دیکھ لیا۔
’’ماروں گا ، بلکہ بہت ماروں گا ۔ بات نہیں کروں گا ۔ وہ روئے گی ، گڑگڑائے گی ، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے گی ۔ میں لاتعلق بیٹھا رہوں گا ۔ شبنم اور بچیاں سفارش کریں گی ۔ پہلے کان نہیں دھروں گا اورپھر معاف کردوں گا۔‘‘ سارا لائحہ عمل بھی طے ہوگیا بس اب انتظار تھا کہ کب یہ کہانی شروع ہو۔
’’ اور اگر میں اس وقت حامی بھرلیتا۔ بیٹی کی آنکھوں کے آنسوئوں نے مجھے بھی تو حقیقت آشنا کردیا تھا مگر فرقہ ، مذہب اور کیا کیا … ؟ ‘‘ اور بلآخر آنکھ سے آنسو گر ہی پڑے۔
یوں ہی دن گزرتے چلے گئے ۔ گھر میں ہونے والا واویلا خاموشی کی دبیز تہہ کے نیچے دب گیا ۔ اب گھر میں جیسے زندگی نہ بستی تھی ، کچھ ایساسناٹا رہتا تھا۔
دلاور گھر پر نہ تھا۔ افتخار آنگن میں بیٹھے جامن کے ٹہنے کے ساتھ بندھے جھولے کو تکے جاتے۔
اور دروازے پر دستک ہوئی ۔
جاری ہے