رنگ حنا : دوسرا حصہ
’’نبیلہ۔‘‘ حنا نے نبیلہ کو پکارا۔
’’اب کیوں رورہی ہو۔ تم اس پر مر مٹی ہو تو کوئی تو بات ہوگی ۔ ابو ہرگز منع نہیں کریں گے۔‘‘ نبیلہ نے اسے تسلی دیتی تھی۔
دلاور نے دروازہ کھولا ۔ معزز مہمانوں کو بیٹھک میں بٹھایا ۔ معقول اور سوبر لوگ تھے۔ دلاور کو تو مناسب لگے۔
حال احوال دریافت کرنے کے بعد دلاور اٹھا ۔ اور گلاسوں میں مشروب لے آیا۔
’’ اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ذوالفقار نے گلاس اٹھاتے ہوئے کہا ۔ چند ثانیے بیٹھنے کے بعد دلاور والدین کو بلانے چلا گیا۔
افتخار بھی سفیدکرتے میں ملبوس تھے۔
’’ چلیں ۔‘‘ تھوڑی سی پرفیوم خود پر انڈیلنے کے بعد افتخار نے آئینے میں بیوی کے عکس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ جی ۔‘‘ شبنم اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں میاں بیوی ہم قدم ہوکر اپنے کمرے سے نکلے۔
اور جب کامیابی ملتی ہے۔
تو لوگ گروہ در گرو اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں۔
پس تم اپنے رب کی حمدو ثنا بیان کرو۔
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
حنا کو کسی نے بتایا تھا کہ کامیابی درکار ہوتو سورۃ النصرکثرت سے پڑھنی چاہیے ۔ اور وہ سورت کا ورد کثرت سے کیے جاتی تھی۔
افتخار اور شبنم کمرے میں داخل ہوئے۔
’’ السلام علیکم …!‘‘ افتخار نے سلام کیا۔
’’ وعلیکم…‘‘ ذوالفقار اور زاہدہ تعظیم میں کھڑے ہوگئے ۔
انہوں نے ابھی پورا سلام کا جواب بھی نہ دیا تھا کہ رک گئے ۔ افتخار کو دیکھ کر جہاں کے تہاں رہ گئے ۔ یوں ہی اندھیرا سا چھانے لگا ۔ منظر تحلیل ہونے لگا ۔ تیز ہوا چلی اور وقت پیچھے کی اور دوڑا تو ان کی جوانی کے ان لمحوں میں جا رکا جو قضاکے تھے۔
’’کافر کافر‘ تم لوگ کافر ہو۔‘‘ فرقہ وارانہ گروہ بندیاں کالج میں عروج پر تھیں ۔
ذوالفقار سامنے کھڑے مخالف گروہ کو دیکھتے ہوئے نعرہ زن تھے۔
’’ کسی کے کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔‘‘ دوسرے گروہ سے افتخار سامنے آئے۔
’’ نماز تم لوگوں کی ٹھیک نہیں ‘ کلمے میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کرتے ہو ۔ سنتوں سے تمہارا تعلق نہیں ۔ روزے اپنے طے شدہ وقت پر رکھتے اورکھولتے ہو اور کہتے ہو کسی کے کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوجاتا ۔ ‘‘ آخری فقرہ ذوالفقار نے کچھ ایسے منہ بگاڑ کر کہا تھاجیسے افتخار کی نقل اتار رہے ہوں۔
افتخار جو باتوں اور نعروں میں ذوالفقار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے اور پہلے ہی سے مشتعل تھے ۔ مزید مشتعل ہوگئے اور انہیں پتہ نہیں چلا کیسے انہوں نے ساتھ پڑا پتھر اٹھایااور ذوالفقار کو کھینچ مارا ۔ پتھر نوکدار تھا سیدھا ماتھے پر جالگا اور ماتھے سے خون کا فوارہ ابلنے لگا۔
یہ ابتدا ء تھی ۔ اب دونوں گروہ گتھم گھتا ہوگئے ۔ جوان اس قدر جنون میں تھے کہ کالج انتظامیہ سے سنبھالے نہ جاتے تھے۔
منظر ڈوب کرابھرا تو زندگی کا ایک دور گزارنے کے بعد ذوالفقار اور افتخار ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ۔ ذوالفقار کا ہاتھ سرکا اور ماتھے پر لگے ٹانکوں کے نشان پر جا رکا ۔یہ نشان ساری زندگی ان کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح نمایاں رہا۔
’’چلو زاہدہ ۔‘‘ ذوالفقار نے کہا۔ زاہدہ جو پہلے ہی دونوں مرد حضرات کے یوں خاموش کھڑے ہونے پر حیران تھی ‘پریشان ہونے لگیں۔
’’ ہوا کیا ہے؟‘‘ دھیمے لہجے میں شوہر سے ایک قدم پیچھے چلتے ہوئے زاہدہ نے پوچھا تھا۔ ذوالفقار نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ آئندہ میرے گھر آنے کی زحمت نہ کرنا ۔ ‘‘ابھی ذوالفقار نے چوکھٹ پار نہ کی تھی کہ افتخار کی آواز نے تعاقب کیا ۔
وہ لمحے بھر کو رک گئے ۔ پیچھے مڑ کر ایک نظر افتخار کو دیکھا اور پھر زمین پر تھوک دیا۔
’’ بے فکر رہو کبھی نہیں آئوں گا۔‘‘
اور جب کامیابی ملتی ہے
پس تم اپنے رب کی حمدو ثنا بیان کرو
اپنے کمرے میں بیٹھی حنا ورد کیے جاتی تھی۔
’’کب تک آئیں گے؟‘‘ اپنے گھر میں صوفے پر لیٹا شعیب بار بار گھڑی کو دیکھتے ہوئے عمر سے پوچھتا تھا۔
٭٭ …٭٭
’’زینب تم نے کافروں کو رشتے کے لیے بھیج دیا ۔ تو کیا چاہتی ہے تیری بہن کافروں کے گھر جائے ، کافر بچے جنے اور جہنم کا ایندھن بنے ۔ ‘‘ افتخار کی آواز میں گرج تھی، غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔
’’ابو میں خود بھی اس بات سے ناواقف تھی ۔ ‘‘ زینب چاہ کر بھی تاویل نہ پیش کرسکی۔
’’وہ آدمی‘ اس کا باپ شر پسند انسان ہے ۔ کالج کے زمانے میں فرقے کی بنیاد پر اس نے جو آگ لگائی تھی اس کے شعلے آج بھی سینے میں دہکتے ہیں۔‘‘
’’ اچھا اب جانے بھی دیں۔‘‘ شبنم نے کوشش کی خاوند کو ٹھنڈا کرنے کی۔
’’ کیا جانے دوں ‘ اب کافرگھر میں رشتہ لے آئیں گے تو ہم شور بھی نہ مچائیں ۔ میری پھول جیسی بیٹی ‘پوری اماں حضور پر گئی ہے ۔ اپنے شایان شان لوگوں میں رخصت ہوکرجائے گی ۔ ہنہ کافر ، شیطان ۔‘‘ نبیلہ نے پانی کا گلاس پیش کیا ۔ انہوں نے تھام لیا اور غٹ غٹ پینے لگے۔
سڑکیں پار کرتے ، گلیوں راہداریوں سے ہوتے کچھ دور بھی حالات کچھ مختلف نہ تھے۔
’’ یہ سب عمر کا قصور ہے ‘اب دیکھو کیسے بھاگ گیا۔‘‘ ذوالفقار کی آواز تو اونچی نہ تھی مگر رنج و غصہ ان کے چہرے سے واضح تھا۔
’’ابو میں حنا کو پسند کرتا ہوں ۔‘‘ شعیب نے کہنا چاہا۔
’’ ہونہہ جوانی میں ہر لڑکا تین چار لڑکیوں کو پسند کرلیتا ہے اور ایک دو محبتیں بھی لڑا لیتا ہے۔‘‘ ذوالفقار نے جیسے ناک سے مکھی اڑائی۔
’’لیکن ابو…‘‘
’’شعیب بہتر ہے تم خاموش رہو ۔ تمہیں اس لیے نہیں پلا بڑھا کر اپنے برابر کیا کہ سامنے دیوار کی طرح کھڑے ہوجائو ۔ ‘‘ شعیب ذوالفقار کے الفاظ پر کٹ کر رہ گیا ۔ کیا اب وہ کھلانے پلانے اور پالنے کو احسان کی طرح جتائیں گیاور طعنے دیں گے۔ اور اب وہ زاہدہ کو مخاطب ہوکرکہہ رہے تھے۔
’’میں تو اسی وقت ہی کھٹک گیا تھا جب تم نے بتایا کہ اس کی ماں کا نام شبنم ہے ۔ شبنم بھی بھلا شریف گھرانوں کا نام ہے ۔ ایسے نام کوٹھے پر دھندا کرنے والیوں کے ہوتے ہیں۔‘‘
’’ ابو بس کردیں۔‘‘ شعیب کی خواہش ہوئی کہ سماعت ہی چھین لی جائے۔
’’ غصے میں آپ آپے سے باہر ہورہے ہیں۔‘‘ زاہدہ انہیں نرم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
’’یہ ایسی الٹی سیدھی فرمائشیں کرے گا تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔‘‘
’’ابو میں اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ شعیب کے لہجے میں التجا آن ٹھہری ۔
وہ التجا جو لوہے کو گرما دے، پتھر کو پگھلا دے مگر …
’’ محبت کو مذہب پر فوقیت نہیں دی جاتی۔‘‘ یہ ذوالفقار صاحب کا جواب تھا۔
’’یوں تو میں نے سوچا تھا جو بیٹا کہے گا ‘ وہی ہوگا ۔ پر اگر وہ ہیروں کی چمک کو نظر انداز کرکرے کوئلے کی کالک کی طرف متوجہ ہوگا تو میں اس پر زبردستی کا اختیار رکھتا ہوں ۔ برخوردار کے لیے لڑکی دیکھنا شروع کرو۔ ہم چند ماہ کے اندر اس کی شادی کردیں گے۔‘‘
٭٭ …٭٭
خاور … دلاور کا دوست ۔ عادات میں دلاور جیسا تھا ۔ چار بھائی تھے ، کوئی بہن نہ تھی اور جب کبھی دلاور بہنوں کو کہیں چھوڑنے ، لے آنے یا ان کے کسی کام میں مصروف ہوتا تو باتوں ہی باتوں میں خاور کہہ دیتا۔
’’ یار بہنیں تو نام ہی ذمہ داری ہے ۔ میں تو شکر ادا کرتا ہوں کہ میری کوئی بہن نہیں ۔ ‘‘ اور خاور کا بار بار شکر ادا کرنے نے دلاور کو سوچنے پر مجبور کردیا۔
’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر میری بھی کوئی بہن نہ ہوتی۔‘‘ بہرحال یہ ہر وقت کی صورتحال نہ تھی۔ جب کبھی ضرورت پڑنے پر بہنوں نے جھٹ پٹ چائے تیار کردی۔ اس کے آنے والے دوستوں کو کھلانے کے لیے کوئی چیز ٹرے میں سجاد دی۔ اس کے کہنے پر فوراََکپڑے استری کردیے تو وہ سوچتا۔
’’ایویںہی میں زندگی کے اصولوں سے خفگی رکھتا ہوں۔ رشتے تو فطرت کاحسن ہے۔‘‘
زینب کی شادی ہوگئی اور وہ پرائے گھر کی ہوگئی ۔ تو اسے بھی زینب کی کمی محسوس ہوتی ۔دوسری بہنیں چھوٹی تھیں ۔ وہ ناراض ہوتا تو اس کی ناراضی کی وجہ دور کرنے کی کوشش کرتیں ۔ زینب بڑی تھی ۔ وہ ٹوکتا تو زینب کوئی نہ کوئی توجیہہ پیش کردیتی۔
اور جب زینب ہی گھر کا حصہ نہ رہی اور کوئی توجیہات پیش کرنے والا نہ رہا تو کمی محسوس ہونا کوئی ایسے اچنبھے کی بات نہ تھی۔
اور اپنے سے چھوٹی حنا ۔ دلاور خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ اسے حنا سے بلاوجہ کی چڑ کیوں تھی۔ کیا اس لیے کہ وہ ہر وقت مگن و مست رہتی یا پھر اس لیے کہ وہ پڑھائی میں اچھی تھی۔ اتنی اچھی کہ یونیورسٹی تک پڑھنے کے لیے جارہی ہے ۔ یا پھر ابو کی حنا سے حد درجہ لگائو اور توجہ اسے نہ بھاتا تھا۔ وہ تعین نہ کرپایا ۔ ہاں البتہ زینب کی رخصتی کے بعد اس نے حنا سے تھانے داروں والی تفتیش اور اس پر اعتراض کرنا کم کردیا کہ وہ بھی اس گھر میں مہمان ہے ۔کسی روز چلی جائے گی۔
حنا کے لیے رشتہ آیا ابو نے منع کردیا ۔ اسے ٹھیک لگا ۔ غیر فرقے میں شادی کرنی بھی نہیں چاہیے مگر جس چیز نے اسے ٹھٹکنے پر مجبور کیا وہ حنا کے نہ رکنے والے آنسو تھے۔
ایک رشتے سے منع کرنے پر وہ اس طرح کیوں روئی تھی کہ روئے ہی چلی جاتی تھی۔
اور غم کی کچھ ایسے تصویر تھی کہ جیسے کوئی بہت قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہو ۔ اور رشتہ بھی اس کے کلاس فیلو کا آیا تھا۔
وہ الجھ گیا اور اسی الجھن میں اس نے حنا کو موبائل چیک کیا۔
ونڈر لینڈ کے نام سے ایک نمبر سیو تھا اور اس نمبرسے میسج پر کی جانے والی گفتگو…
غصہ کچھ ایسے عود کر آیا کہ دلاور کا خود پر قابو پانا مشکل ہو گیا ۔ بہرحال اس نے نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف فون دوسری گھنٹی پر ریسیو کرلیا گیا۔
’’ حنا میں تمہیں فون کرنے والا تھا ۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا ۔ ابو تو راضی نظر نہیں آتے ۔ ‘‘ شعیب بہت پریشان تھا ۔ حنا نے آگے جواب نہ دیا۔
’’حنا کیا آواز آرہی ہے؟ہیلو ، ہیلو …‘‘ شعیب ہیلو ہیلو ہی کرتا رہ گیا۔
رابطہ منقطع ہوگیا ۔ اس نے دوبارہ ڈائل کیا ۔ کئی بار ڈائل کیا مگرجواب ’’آپ کے ملائے ہوئے نمبر سے جواب موصول نہیں ہورہا ‘‘ ملا۔
موبائل ہاتھ میں بھینچے دلاور حنا کو ڈھونڈنے لگا ۔ حنا آنگن پار جامن کے درخت کے ٹہنے پر بندھے جھولے پر سرٹکائے بیٹھی تھی ۔ آنکھیں نم تھیں ۔ دلاور کو آتے دیکھ کر جلدی سے آنکھیں خشک کیں اور جھولے سے کھڑی ہوگئی۔
’’جی بھائی جان ۔‘‘
دلاور نے ایک نظر اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے ایک تھپڑ حنا کے گال پے رسید کرتے ہوئے ایک نئی قضا کو جنم دیا
’’کونسا عاشق ہے اور کس ونڈر لینڈ کی اس نے تجھے سیر کرائی ہے کہ اس کا غم ہی کم نہیں ہوتا۔ بھائی کی عزت کو پیروں کی ٹھوکروں پر رکھتے تجھے لاج نہ آئی، اس سے قبل تو مر کیوں نہیں گئی۔‘‘ دلاور نے ایک تھپڑ پر اکتفا نہ کیا۔ ایک کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا ۔ حنا اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی تو گرگئی ۔ دلاور پر کچھ ایسا غصہ طاری تھا کہ اس نے جوتے سے ٹھوکریں لگانا شروع کردیں۔
وہ بھائی تھا ۔ بہن کو اس طرح مارنا اسے کہاں زیب دیتا تھا ۔ مانا کہ اس سے غلطی ہوئی کہ اس نے محبت کرلی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یوں کھلے آنگن کے بیچ اسے جوتوں کی ٹھوکروں پر رکھے۔ شور کی آواز سن کر نبیلہ کمرے سے باہر آئی اور جامن تلے کا منظر دیکھ کر جیسے اس کا سانس رک گیا۔ دوڑتی ہوئی آئی اور مٹی میں مٹی ہوتی حنا سے لپٹ گئی۔
’’ بس کریں بھائی جان ۔‘‘
’’ہٹ جائو نبیلہ۔‘‘
’’کیا جان سے ماردیں گے۔‘‘
’’تو کیا اسے باپ بھائی کی عزتیں نیلام کرنے کے لیے زندہ رہنے دوں ۔ ‘‘
شور کی آواز نے شبنم کا دل دہلا دیا ‘وہ باہر آئی ۔ افتخار بھی گھر پر تھے ۔ کوئی کتاب پڑھ رہے تھے ۔ انہیں بھی انہونی کا احساس ہوا۔ باہر آئے اور باہر کا منظر خون آلودہ نہ تھا مگر خون آلوددکھتا۔
’’ وہیں رک جائو دلاور۔‘‘ افتخار کی آواز میں گرج تھی۔
’’کیا کررہے ہو؟‘‘ افتخار کو آنکھوں دیکھے پر یقین نہ آیا۔
’’اپنی دلاری سے پوچھیں ۔ عشق کی پینگ میں جھولے جھول رہی ہے ۔ وہ جو کافروں کا رشتہ آیا تھا عاشق ہے اس کا ۔ یونیورسٹی پڑھائی کے نام پر …‘‘ دلاور مغلظات بکتا رہا۔
نبیلہ نے حنا کو اٹھانے کی کوشش کی مگر اس کے وجود میں حرکت نہ ہوئی جیسے مر گئی ہو۔
’’ اگر ایسا کچھ تھا تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا ۔ خود سے قد م نہیں اٹھانا چاہیے ۔ چلو میرے کمرے میں اور شبنم … ‘‘ حنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اسے سمجھائو ایسی کوئی بات ہے تو خود کو سنبھالے، کافروں میں رشتے نہیں کیے جاتے ۔‘‘ دلاور پائوں پٹختا چلا گیا ۔ افتخار اس کے پیچھے روانہ ہوئے۔
’’حنا اٹھو تو۔‘‘ نبیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
حنا یونہی بے حس و حرکت مٹی میں مٹی کا حصہ بنی رہی۔
’’ کیا بات ہے ہماری حنا کی‘ اماں مرحومہ کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
’’ میری بیٹی تمام بچوں میں میرا فخر ہے۔‘‘
حنا کے کانوں میں باپ کی ماضی کی کہی باتیں یاد آتی رہی ۔تو کیا آج اس میں دادی کا عکس نہ تھا۔ کیا آج وہ فخر نہ تھی ۔افتخار صاحب نے اس سے کچھ کیوں نہ کہا تھا۔ اسے زمین سے اٹھانا تک گوارا نہیں کیا۔
کیوں؟
نبیلہ اور شبنم اسے سنبھالتی رہیں ، دلاسے دیتی رہیں ۔ اندر لا کر اس کے مٹی ہوتے کپڑے تبدیل کرائے ۔ کوشش کی کہ وہ کچھ کھائے، کھاتی نہیں تو کچھ بولے ۔ چلو بولتی نہیںتو رو ہی دے۔ مگر حنا یونہی چپ چاپ ساکن رہی جیسے انسان سے مجسمہ بن گئی ہو۔
شاید یہ پتھر کے زمانہ تھا اور یہا ں رہنے کے لیے انسان نہیں پتھر ہونا پڑے گا ۔
دودن اسی طرح گزرگئے ۔ تیسرے دن حنا نے نبیلہ سے کچھ کہا تو یہ…
’’میں شعیب سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’مگر حنا …‘‘ نبیلہ پریشان ہونے لگی۔
’’اب ایسا مت کرنا کہ تم بھی مجھے مارنا پیٹناشروع کردینا۔‘‘ حنا پتھر کی ہوچکی تھی۔ نبیلہ رونے لگی۔
’’ یوں مت کہو بہن ۔‘‘ بہانے سے والد صاحب سے فون لے آئی اور آکر حنا کو تھما دیا ۔ اور حنا نے نبیلہ کے سامنے بات بھی نہ کی۔
’’ ہیلو شعیب یہ میں ہوں حنا ۔‘‘
’’ہیلو کہا ں تھی حنا ؟ تمہارا فون بند جارہا تھا ۔ میں سخت پریشان تھا۔‘‘
’’اسی دنیا میں تھی۔‘‘
’’تمہاری آواز کو کیا ہوا؟‘‘
’’میرے ساتھ کورٹ میرج کرو گے؟‘‘
’’ہیلو حنا یہ کیا کہہ رہی ہو۔‘‘
’’مجھے ان لوگوں نے مارا پیٹا ، تھپڑ مارے لاتیں ماریں ۔ ‘‘ حنا رونے لگی ۔
’’ہیلو حناروئو مت ۔ میری بات سنو۔‘‘
’’میں نے تمہاری بات سننے کے لیے فون نہیں کیا ۔ یہ بتانے کو فون کیا ہے کہ نصف شب کو میں بس ٹرمینل پر تمہارا انتظار کروں گی ۔ میرے پاس فون نہیں ہوگا ۔ مجھے ٹرمینل پر ڈھونڈ لینا ۔ وہاں سے ہم کسی اور شہر چلے جائیں گے ۔ کورٹ میرج کرکے الگ سے رہیں گے۔‘‘ حنا روتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
’’لیکن حنا …‘‘
’’اگر تم نہ آئے تو میں وہی کسی بس کے نیچے آکر جان دے دوں گی کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ۔‘‘
’’حنا میری بات تو سنو ۔‘‘
’’نصف شب کو میں تمہارا انتظار کروں گی۔ اللہ حافظ ۔‘ ‘ فون بند کرکے اس نے موبائل صوفے کی طرف اچھال دیا۔
٭٭ …٭٭