رنگ حنا : دوسرا حصہ
اس بار زینب ملنے کے لیے آئی تو سب اصرارکرنے لگے کہ رات قیام کرے ۔ خواہش تو اس کے دل میں بھی تھی مگر اسفند سے اجازت لینے کا مسئلہ تھا۔
’’تمہارے بغیر مجھے نیند نہیں آتی ۔ ‘‘ اس نے جب بھی قیام کی خواہش کا اظہار کیا اسفند نے یہی جواز پیش کیا۔
’’لو بھلا شادی سے پہلے تو جیسے آپ سوتے ہی نہ تھے۔‘‘ زینب خفا ہونے لگی۔
’’شاد ی سے پہلے اور بات تھی ۔‘‘ وہی قصہ اور وہی باتیں جو نوبیاہتا جوڑے کی نشانی ہیں مگر اس بار زینب نے اصرار کیا اور کچھ خود انہیں بھی احساس ہونے لگا کہ پچھلی ساری زندگی اِس گھر میں گزارنے والی کو اب بھی انہیں یہاں رات گزارنے کی اجازت دینی چاہیے۔ اس بار تو نبیلہ نے بھی کہا۔
’’دولہا بھائی ، زینب آپا تو ہمیں بھول گئی ہیں ۔ کتنی منتیں کرلی ہیں ‘پر رات ٹھہرنے پر مانتی ہی نہیں ۔ ‘‘ جواباََ زینب اسفند کو شکایتی نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’آج رات اپنی آپا کو ٹھہرا لینا اور دل کی ساری باتیں کرلینا۔‘‘ نبیلہ خوش ہوگئی ۔ زینب بھی مسکرانے لگی۔
’’آپ بھی ہمارے ہاں قیام کریں۔‘‘ ساتھ بیٹھی حنا نے پیش کش کی۔
’’پھر کبھی۔‘‘ اسفند نے سلیقے سے منع کردیا۔
رات کو جب زینب اور حنا کو تنہائی میسر آئی تو قبل اس کہ حنا کچھ بتاتی زینب نے پوچھ لیا۔
’’بہت خوش محسوس ہوتی ہو ۔ ‘‘ حنا نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
’’اس خوشی کا راز کیا ہے؟‘‘
اور حنا آہستہ آہستہ اسے تمام باتیں بتانے لگی ۔ زینب سنتے ہوئے غور سے بہن کے تاثرات دیکھتی رہی۔
’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر لڑکا کس ذات برادری کا ہے، والدین کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں ؟‘‘
’’ان باتوں کی اہمیت نہیں ۔‘‘ حنا مزید کچھ کہتی مگر زینب نے اس کی بات درمیان میں اچک لی۔
’’میری بہن رشتے کرنے اور خاندان جوڑنے کے لیے انہی باتوں کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘
’’وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘
’’تم کہہ رہی ہو اچھا ہے تو وہ بہت اچھے سے بھی زیادہ اچھا ہوگا مگر حنا زندگی کی حقیقتیں…‘‘ تبھی نبیلہ ٹرے میں چائے کے کپ لیے چلی آئی۔ زینب کو بات بدلنا پڑی۔ نبیلہ نے یوں زینب کا ٹھٹکنا اور بات بدلنا محسوس تو کیا لیکن کچھ بولی نہیں۔
’’تمہارا کالج کیسا جارہا ہے ؟ ‘‘ زینب نبیلہ سے پوچھ رہی تھی۔
’’دلاور بھائی جان سے مار ڈالیں گے ۔ ‘‘ یہ نبیلہ کا جواب تھا ۔ حنا کے ہاتھ سے چائے چھلک پڑی ۔ سی کی آواز لبوں سے برآمد ہوئی ‘ پائوں جل گیا ۔
’’ حنا احتیاط سے۔‘‘ زینب آگے بڑھ کر پائوں کا معائنہ کرنے لگی ۔ کچھ زیادہ نہ جلا تھا ۔ نبیلہ چپکے سے اٹھی اور فریج سے جلے زخموں پر لگانے والی کریم لے آئی۔
’’ حنا احتیاط کرنی چاہیے۔‘‘ نبیلہ کہہ رہی تھی۔ دونوں بڑی بہنیں اسے دیکھنے لگیں ۔ یقیناََ اس کا اشارہ چائے چھلکنے کی جانب نہ تھا ۔ اس کے لہجے میں غیر معمولی پن تو تھا جو انہیں ٹھٹکنے پر مجبور کرتا تھا۔
’’میں نے تمہارے موبائل میں چیٹنگ پڑھ لی تھی ۔ میں شعیب کے متعلق کہہ رہی ہوں۔‘‘ نبیلہ کا لہجہ کچھ ایسا سپاٹ تھا کہ حنا کو سمجھ ہی نہ آیاکہ کیا تاثرات پیش کرے۔ شرمندہ ہو یا کوئی تاویل دے۔
’’حنا نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اگر وہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں تو اس میں برا ہی کیا ہے۔‘‘ زینب اس کی وکیل بنی تھی۔
’’یہ بات دلاور بھائی کو کون سمجھائے گا ؟ ‘‘ نبیلہ کچھ ایسی غلط بات بھی نہیں کررہی تھی۔
’’دلاور کو سمجھانا ضروری بھی نہیں ہے ۔ ابو سے بات میں خود کروں گی۔‘‘ زینب اور نبیلہ کی باتیں شائد ابھی طول پکڑتی مگر حنا کی آنکھوں سے بہتے پانی اور ہچکیوں نے انہیں خاموش کردیا۔
’’میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ۔ مجھے نہیں پتہ مگر میرا دل میرے قابو میں نہیں رہا ۔ مجھے جینے کی تمنا رہی ہے اور نہ کوئی اور خواہش سوائے اس کے کہ وہ میرا ہاتھ تھام لے ہمیشہ کے لیے ، زندگی بھر کے لیے۔‘‘
وہ روتی رہی اور زینب دلاسے دینے لگی۔
بھلا حنا کا کوئی قصور تھا بھی کہ نہیں؟
٭٭ …٭٭
اور یونیورسٹی میں ان دونوں کی باتیں ‘ باتیں اور ملاقاتیں ۔ شعیب پرشوق نگاہوں سے دیکھتا۔
’’تم پر ہرا رنگ جچتا ہے۔‘‘
’’سبھی کہتے ہیں ۔ ‘‘ حنا بے نیاز ی سے کہتی۔
’’سب کے کہنے میں اور میرے کہنے میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ نگاہیں ہنوز جمی ہوتیں۔
’’آں آں ن…‘‘ حنا جیسے سوچ رہی ہوتی۔
’’شاید نہیں…‘‘ تان نہیں پر ٹوٹتی۔
’’چلو میں تم سے نہیں بولتا ۔‘‘ شعیب ناراض ہونے لگتا۔
’’موبائل میسجز کے جواب تو دوگے ؟ ‘‘ حنا یقین دہانی چاہتی۔
اور شعیب ناچاہتے ہوئے بھی ہنس دیتا۔
’’مجھے تم اس دنیا کی نہیں لگتی۔‘‘
’’تم بھی اس دنیا کے نہیں لگتے۔‘‘
’’کہاں کا لگتا ہوں ۔‘‘ شعیب اشتیاق سے پوچھتا ۔ اور حنا کوئی اچھا سا جواب ڈھونڈنے لگتی۔
’’پرستان کے شہزادے لگتے ہو۔‘‘
’’سچ …؟‘‘ شعیب خوش ہوجاتا۔
’’اچھا تو میں … ؟ ‘‘ حنا چاہتی کہ اب شعیب اسے پرستان کی شہزادی سے تشبیہ دے۔
’’ تم یار خلائی مخلوق لگتی ہو۔ کھڑی پیشانی ، بیٹھی ہوئی ناک اور ہرا رنگ … ‘‘ اور بس اتنا سن کر حنا اسے کتاب کھینچ مارتی ۔
’’تمہیں جینے کا کوئی حق نہیں ۔‘‘ وہ ناراض ہوکر جانے لگی۔
’’اچھا رکو…‘‘ اور جیسے باتیں ختم ہی نہ ہوتیں۔
شعیب کی سالگرہ کے موقع پر وہ بیکری سے کیک اور خود سے پلائو بنا کر لائی۔
’’ ام …‘‘چاولوں کا پہلا چمچہ ہی منہ میں ڈالتے ہی شعیب سے رہا نہ گیا۔
’’ کیا ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں ۔‘‘
’’ابو کہتے ہیں میرے ہاتھوں میں بالکل دادی کے ہاتھ ساذائقہ ہے۔‘‘ وہ فخریہ بتاتی ۔
’’مجھے توکھانا پینا ویسے ہی پسند ہے ۔ شادی کے بعدایسے لذیذ پکوان پکائوگی تو یہ توند نکل آئے گی۔‘‘ شعیب پیٹ کی طرف اشارہ کرتا ۔
حنا ہنس ہنس کر بے حال ہوجاتی۔
’’اور میرا تحفہ…؟‘‘ وہ مطالبہ کرتا ۔
’’یہ تحفہ ہی تو تھا۔‘‘ حنا کیک اور پلائو کی طرف اشارہ کرتی۔
’’نا بابا مجھے تحفہ چاہیے۔‘‘ وہ اصرار کرتا۔
’’مجھے پتہ تھا تمہارا پیٹ نہیں بھرے گا۔‘‘ حنا اپنے بیگ کو ٹٹولنے لگتی۔
’’ پیٹ بھر گیا ہے‘ دل نہیں بھرا۔‘‘ شعیب کی باتیں اسے نروس کیے دیتیں ۔
بیگ سے گھڑی نکالی ۔ یہ بیش قیمت گھڑی چھ مہنیوں کی بچتوں کا نتیجہ تھا ۔ شعیب خوشی سے گھڑی کلائی پر سجا لیتا۔
’’ یہ گھڑی تب تک میری کلائی پر سجی رہے گی …‘‘ شعیب وقفہ کرتا ۔
’’جب تک میں زندہ ہوں۔‘‘ حنا اس فقرے کی توقع کرتی مگر شعیب کا جواب ہوتا۔
’’جب تک تم مجھے نئی گھڑی تحفے میں نہ دو گی ۔ ‘‘ کہتے ہوئے وہ ہنسنے لگ جاتا اور حنا اسے کتاب کھینچ مارتی۔
کتا ب سے حملہ تو جیسے ان کی ملاقات کا حصہ ہوتا ۔ لاشعوری طورپر دونوں اس لمحے کا انتظار کرتے۔
’’میرے گھر جامن کا درخت ہے ۔ گرمیوں میں میٹھے جامن لگتے ہیں۔‘‘
’’میرے گھر شہتوت کا درخت ہے ۔ اب جامن کی جگہ شہتوت کھانے کی عادت ڈالو۔‘‘
’’جامن کے ٹہنے میں ہم نے جھولا ڈال رکھا ہے۔‘‘
’’شہتوت کا درخت کمزور ہے، جھولا ڈالا تو ٹوٹ نہ جائے۔‘‘
’’کوئی ٹہنا ہوگا جو مضبوط ہوگا ۔ میں ڈھونڈ کر ضرور جھولا ڈالوں گی ۔‘‘ باتوں باتوں میں وہ بے اختیار کہہ جاتی اور شعیب کے ذومعنی مسکرانے پر شرما جاتی۔
’’میرے ساتھ سمندر دیکھنے چلو گی ۔ ‘‘ایک دن شعیب پیش کش کرتا۔
’’ نا بابا نا ۔‘‘ حنا گھبر ا جاتی۔
’’کسی نے دیکھ لیا تو ۔‘‘
’’کوئی نہیں دیکھتا ۔ ‘‘ شعیب مختلف زاویو ں سے حنا کو قائل کرتا۔
’’ اچھا کیسے جائیں گے۔‘‘ حنا مان جاتی۔
’’میری بائیک پر‘ تمہیں بائیک کی سیر بھی کرائوں گا ۔ ‘‘ شعیب جھٹ کہتا۔
حنا کا سر ایک بار پھر نفی میں ہلتا۔
’’شادی سے پہلے تمہارے ساتھ بائیک پر نہیں بیٹھوں گی۔‘‘
’’ کس کی شادی ۔ ‘‘ شعیب انجان بننے لگتا اور حنا اسے کتاب کھینچ مارتی۔
’’شیبو ۔ ‘‘ ایک دن حنا اسے پکارتی۔
’’شیبو…‘‘ شعیب نام بگاڑ کر دہراتا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’تمہارا نک نیم ۔‘‘
’’اچھا حنو۔‘‘
’’حنو…؟‘‘ سوال پوچھنے کی باری حنا کی ہوتی ۔
’’تمہارا نک نیم ۔‘‘
’’حنا اتنابڑا نام نہیں ہے کہ نک نیم کی ضرورت پڑے۔‘‘
’’اور شعیب تو جیسے کہنے کے لیے ایک منٹ درکار ہے۔‘‘
’’تم بھی ناں ۔‘‘ آج کتاب نہ تھی تو حنا نے بال پین دے مارا۔
’’ تمہارا پین ادھار مل سکتا ہے ۔‘‘ حنا کو ابتدا ء سے ہی شعیب کا پین بے حد پسند تھا۔
’’ ضرور ۔‘‘ شعیب جیب میں اٹکا مونٹ بلیک کا پین حنا کی طرف بڑھاتا۔
’’ تمہارا ہو ا۔‘‘
’’نہیں ‘ نہیں ۔ ‘‘ حنا واپس کرنے لگ جاتی۔
’’تم اس سے شاعری لکھا کرو۔‘‘
’’شاعری دس روپے کے بال پین سے بھی لکھی جاسکتی۔‘‘
’’پھر بھی مجھے نہیں چاہیے۔‘‘
’’میری نشانی سمجھ کر رکھ لو۔‘‘
’’نشانی تو ان کی رکھی جاتی ہے جو جدا ہورہے ہوں۔‘‘
’’پھر بھی پلیز… ‘‘ حنا واپس کرکرکے تھک جاتی مگر شعیب واپس نہ لیتا ۔
’’تم نے دوبارہ مجھ پر کچھ نہیں لکھا۔‘‘ اور یہ سچ بھی تھا ۔
’’اب میں تم پر پوری کتاب لکھوں گا۔ ‘‘
’’ سچ ؟‘‘ حنا خوش ہوجاتی ۔
’’ وعدہ ۔ ‘‘ شعیب وعدہ کرنے میں دیر نہ کرتا۔
اور یہ باتیں ، ملاقاتیں جاری رہیں یہاں تک کہ یادوں کا حصہ بننے لگی ۔ اور وقت اپنی رفتار سے گزرتا چلا گیا ۔ امتحان ‘ سمسٹر ‘ امتحان‘ سمسٹر یہاں تک کہ ڈگری مکمل ہونے کو آئی۔
’’ بس اب مزید دوریاں نہیں ۔ میرے والدین چند دنوں میں تمہارے گھر رشتہ لے کر آرہے ہیں ۔ ‘‘ یہ یونیورسٹی کا آخری دن تھا ۔ جب جدائی کا خیال حنا کی آنکھوں میںوقفے وقفے سے پانی لارہا تھا۔ اور شعیب حنا سے کہہ رہا تھا۔
زندگی کی راہوں میں
محبتوں کی چھائوں میں
لمحے سجائیں گے
وعدے نبھائیں گے۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر ۴
قضا
’’ اسفند کے ماموں کے بیٹے کا دوست ہے ۔ اسفند کے ماموں کے گھر آنا جانا بھی ہے ۔ سلجھا ہوا لڑکا ہے ‘ سلجھی ہوئی فیملی ہے ۔ عمر بہت تعریفیں کررہا تھا۔‘‘ زینب اپنے رشتے کے دیور کا حوالہ دے رہی تھی۔
’’ برادری ؟ ‘‘ افتخار صاحب پرسوچ انداز میں پوچھ رہے تھے۔
زینب نے برادری بتائی تو افتخار صاحب کی تسلی ہوئی۔
’’ عمر تو اپنی حنا کا کلاس فیلو ہے ‘ میں نے بھی پہلے بھی آپ کو بتایا تھا۔‘‘ افتخارصاحب نے سر اثبات میں ہلایا۔
’’شعیب بھی کلاس فیلو ہے‘غالباََ کلاس میں ہی پسند کیا ہے ۔ ‘‘ زینب نے دھیمے لہجے میں بتایا۔
’’کیا تم بھی کبھی لڑکے سے ملی ہو ۔ ‘‘ شبنم نے بیٹی سے پوچھا۔
’’ نہیں امی ‘ میں تو کبھی نہیں ملی مگر اسفند بہت تعریف کررہے تھے ۔ ‘‘
ساتھ والے کمرے سے رونے کی آواز آئی ۔ غالباََ ببلو جاگ گیا تھا ۔ گزرے سالوں نے زینب کو ببلو کا تحفہ دیا تھا ۔ زینب جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ٹھیک ہے‘ لڑکے کے والدین کو چائے پر بلا لو ۔ لڑکے کی تصویر بھی لیتے آئیں ۔ مناسب لگا تو سوچیں گے۔‘‘
تصویر تو زینب اپنے موبائل میں لے چکی تھی ۔ جلدی سے فوٹو گیلری میں سے شعیب کی تصویر نکال کر ماں کو موبائل تھمایا۔
’’ اسفند سے تصویر لی ہے۔‘‘ حالانکہ تصویر حنا نے دی تھی ۔ یہ کہتی وہ ببلو کو دیکھنے چلی گئی۔
’’ لڑکا تو خوش شکل ہے ۔ ‘‘ شبنم نے تصویر خاوند کی طرف بڑھائی ۔ چہرہ دائیں ہاتھ کے پیالے پر سجائے شعیب بلاوجہ مسکرا رہا تھا۔
’’ ہمم …‘‘ شعیب کی تصویر دیکھتے ہوئے افتخار گہری سوچ میں گم تھے۔
’’ ابو مان جائیں گے نا۔‘‘ حنا کے دل کو جانے کیوں وسوسے کھائے جاتے تھے۔
’’انشاء اللہ ظاہراََ تو کوئی وجہ نہیں‘ رشتے سے منع کرنے کی ۔‘‘ زینب تسلی دے رہی تھی۔
ظاہراََ وجہ بھی تھی اور گزرتے سالوں میں وہ اس وجہ سے واقف بھی ہوچکی تھی مگر یہ وجہ وہ زینب کو بتانے کی ہمت نہ کرپائی تھی کجا کہ دوسرے گھر والوں کو سنائی جاتی۔
٭٭ …٭٭
’’ شعیب ۔‘‘ عمر نے پکارا تھا۔ وہ شعیب کے گھر تھا۔
’’ یار رشتے سے پہلے اس بات کو مخفی نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘
’’ زمانہ ایڈوانس ہوچکا ہے، ان باتوں کی اہمیت نہیں ۔‘‘ شعیب خود کو زیادہ تسلی دیتا تھا۔
’’ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔‘‘ عمر نے زیر لب کہاتھا۔
دونوں نے ذوالفقار صاحب اور زاہدہ کو الوداع کہا۔
سفید کرتا جس کے گلے پر تار کشی کا نفیس کام تھا، ذوالفقار صاحب کی جسم کی زینت تھا ۔ گاڑی ڈرائیوکرتے ہوئے وہ زاہدہ سے پوچھ رہے تھے۔
’’ بیٹے کے لیے رشتہ دیکھنے جارہی ہو اتنی پریشان کیوں ہو۔‘‘
’’دل گھبراتا ہے۔‘‘ زاہدہ خودبھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔
’’ایک تو تم عورتیں بھی…‘‘ ذوالفقار قدرے جھنجھلائے اور ریکارڈ آن کرنے لگے۔
بغیر موسیقی کے ان کے بیٹے کے الفاظ اس کی ہی آواز میں گاڑی میں گونجنے لگے اور سفر یونہی کٹتا گیا۔
باہر گلی میں گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی ۔ حنا کا دل جو پہلے ہی عجب لے پر دھڑک رہا تھامزید بے ترتیب ہوا ۔دروازے پر دستک کی آواز آئی۔