رنگ حنا : دوسرا حصہ
یہ آنکھوں کا دھوکا نہیں تھا۔ اس جھرمٹ میں وہ بھی تھا جس نے اس کا جینا مشکل کردیا تھا۔ اور اسے ایسی دنیا کا باسی بنا دیا تھا کہ وہ جی رہی تھی نہ مررہی تھی۔
’’چلو اب ۔ ‘‘ نبیلہ ایک بار پھر سے اسے کھینچتی نیچے لے آئی کہ بارات میں آئی مہمان خواتین کا استقبال انہوں نے مرکزی دروازے پر کرنا تھا۔
پھول کی پتیاں آنے والے مہمانوں پر نچھاور کی گئیں ۔ کچھ وقفے بعد مولوی صاحب تشریف لے آئے اور نکاح کی مسنون سنت پائیہ تکمیل کو پہنچی۔
’’ یار تو خوامخواہ مجھے ساتھ لے آیا ۔ ‘‘ وہاں مردوں میں بیٹھا شعیب عمر سے کہہ رہا تھا ۔ اور میزبان بنے دلاور کو غور سے دیکھتے ہوئے یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اسے کہاں دیکھا ہے۔
’’ فنکشن انجوائے کرنے دو۔‘‘ عمر نے شعیب کے لفظوں پر دھیا ن ہی نہ دیا ۔ اس کے پھوپھی زاد بھائی کی شادی تھی۔ اب اگر وہ اپنے ساتھ کمپنی کے لیے شعیب کو لے آیا تھا تو خوامخواہ والی بات ہی کیا تھی۔
’’پھوپھا اور یہ دلہن کے والد آپس میں بچپن کے دوست ہیں ۔ اور آج یہ دوستی رشتہ داری میں بدل رہی ہے‘ تم بھی کر لو ۔ اگر تم نے میرے بیٹے کے لیے اپنی بیٹی کا ہاتھ نہ دیا تو میری تمہاری دوستی بھلے ابھی سے ختم سمجھو ۔ ‘‘ مستقبل بعید سے بھی بعید کی بات پر آج دوستی ختم کرنے کی پیش کش ایسی بری بھی نہ تھی۔
’’ٹھیک ہے اللہ حافظ میرے سابقہ دوست چلتا ہوں ۔ ‘‘ شعیب اٹھ کھڑا ہوا تو عمر نے کھینچ کر اسے بٹھایا۔
’’چپ کرکے بیٹھے رہو یا دو جھانپڑ کی کمی محسوس ہورہی ہے ۔ ‘‘ اور شعیب کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
دوسری طرف حنا چاہ کر بھی شعیب کو کوئی پیغام نہ بھیج سکی ۔ آخر کیا پیغام بھیجتی اور کس قاصد کے ہاتھ بھیجتی ۔ دعائوں کے سائے میں زینب رخصت ہونے لگی ۔ وہ گھر جو اس کا تھا پرایا ہونے لگا تھا۔ آنسو تھے کہ بہے چلے جاتے تھے۔
’’ بس میری بیٹی ۔ ‘‘ شبنم زینب کے ساتھ خود کو بھی تسلی دیتی ۔
’’ روز ملنے آنا۔‘‘ نبیلہ کی تاکید۔
’’اللہ حفظ وامان میں رکھے۔‘‘ افتخار نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا۔
دلاور نے بھی سر پر ہاتھ پھیرکر اچھی زندگی کی دعا دی۔
ایک حنا ہی تھی جو بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کچھ کہہ نہ پاتی تھی۔
’’مجھے یاد تو کروگی۔‘‘ زینب پوچھ رہی تھی ۔
بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات تھی ۔ ساری زندگی زینب کو دل کی باتیں سناتے ، اس سے ہمدردیاں اور محبتیں وصول کرتے ، اس سے لڑتے جھگڑتے اور روٹھتے گزاری تھی۔اور اب وقت رخصت کیسے اجنبیت والے سوال جواب کررہی تھی۔ حنا اثبات میں سر بھی نہ ہلا سکی۔ بس آنسو بہاتی رہی۔
’’سب ٹھیک ہوجائے گا ،اپنا خیال رکھنا ۔ ‘‘ زینب کا اشارہ جس طرف تھا حنا سمجھ گئی تھی ۔ بہن کو ڈبڈباتی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئی۔
’’بس اب جانے دو بہن کو۔‘‘ زینب نے دہلیز پار کی اسے گاڑی میں بٹھایا گیا۔
الوداع … الوداع …
حنا نے دوپٹہ درست کیا اور مجمع چیرتی دروازہ پار کرکے گاڑی کے پاس آئی ۔
’’اللہ حافظ زینب ۔‘‘ وہ روتے ہوئے گاڑی کی کھڑکی کے پار کہہ رہی تھی۔
دلاور کے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی۔ اب اس کی کیا ضرور ت تھی۔
دولہے بھائی نے مسکراتے ہوئے اپنی سالی کا سر تھپتھپایا ۔ دلاور نے آگے بڑھ کر حنا کو سنبھالا اور اندر لے آیا ۔
مجمع میں کھڑا شعیب لمحے بھر خلا کا باسی بن چلا۔
’’تو یہ حنا کا گھر ہے۔‘‘ وہ درودیوار کو غور سے دیکھنے لگا۔
’’یار یہ اپنی کلاس فیلو تھی نا۔‘‘ عمر تصدیق چاہ رہا تھا ۔ شعیب نے دھیمے سے سر اثبات میں ہلا دیا۔
٭٭ …٭٭
کلاس سے فارغ ہوکر وہ گھاس کے قطعے پر بنے سنگی بینچ پر آبیٹھا ۔ عمر کی اسائنمنٹ نامکمل تھی اس لیے وہ اپنی اسائنمنٹ کی تکمیل کے لیے لائیبریری چلا گیا ۔ اب وہ اکیلا بیٹھا فرصت کے لمحات سے حظ اٹھا رہا تھا ۔ سامنے پھولوں کی کیاریا ں تھیں ۔ ان پھولوں کی کیاریوں کی زینت گلاب اور موتیے کے پودے تھے ۔ گلاب اور موتیا کی خوشبو یہاں تک آرہی تھی ۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے خوشبو اس نے اپنے اندر اتاری ۔
امجد بھائی اسے ان کیاریوں کے درمیان سے اپنی طرف آتے دکھائی دیئے ۔ امجد ان سے سنیئر تھا ۔ شعیب کی فولنگ کرنے میں پیش پیش تھا اور اب تو شعیب کی شاعری کا گرویدہ تھا۔
’’ کیسے ہو یار ۔‘‘ مصافحہ کرنے کے بعد اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ سگریٹ کا ایک لمبا کش لگا کر نیچے پھینکا اور پائوں سے مسل دیا۔
’’میں ٹھیک ہوں ‘آپ سنائیں۔‘‘
’’بہترین یار …اور سنا یونیورسٹی لائف انجوائے ہورہی ہے ؟ ‘‘ وہ کچھ زیادہ فرینک تھے ۔ اب بھی شعیب کے کندھے پر بازوں پھیلا لیا۔
’’جی ۔‘‘ شعیب نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔
’’یار تو تو یونیورسٹی کا ہیرو بن گیا ۔ تمہارے مڈ کا رزلٹ نوٹس بورڈ پر دیکھا ۔ قسم سے یار تیری تیسری پوزیشن دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ میں سمجھتا تھا بس شاعری پر توجہ ہوگی ۔ پڑھائی میں نہلا ہو گا مگر جناب تو کلچرل شو میں آدھی یونیورسٹی کو اپنا فین بنا چکے ہیں اور رزلٹ بھی اعلا ۔ واہ بھئی واہ … ‘‘ وہ اس کا شانہ تھپکنے لگے ۔ تبھی عمر بھی آگیا اور سلام کرکے بینچ پر بیٹھ گیا۔
’’تمہاری اسائنمنٹ مکمل ہوگئی ۔‘‘ شعیب پوچھ رہا تھا ۔
’’ہاں یار بس ایک فائنل ریڈنگ دینی ہے ۔ کل انشاء اللہ جمع کرائوں گا ۔‘‘ عمر نے اسائنمنٹ فائل شعیب کی طرف بڑھائی ۔ شعیب نے تھام لی ۔
’’یار تم دونوں ہر وقت اکھٹے نظر آتے ہو ۔ کہیں’ ’وہ ‘‘ تو نہیں ہو ۔ ‘‘ ایسی بے ہودہ بات کہہ کر امجد ہنسنے لگا ۔ دونوں دوست خاموش بیٹھے رہے ۔ ایسی واہیات باتیں مذاق میں کہنا بھی ان کے مزاج کا حصہ نہ تھا ۔ شعیب فائل کھول کر دیکھنے لگا۔ امجد نے ہاتھ بڑھا کر بند کردی ۔
’’جب کوئی سینئر پاس بیٹھا باتیں کررہا ہو تو پڑھا نہیں جاتا ۔‘‘ یہ نادر قول امجد کا اپنا تھا ۔
’’یار تجھ پر لڑکیاں مرتی ہوگی۔‘‘
’’ایسی بات نہیں بھائی ۔‘‘
’’چل چل اب زیادہ کاکا نہ بن ۔ کسی پٹاخہ کا نمبر ہی دے دو ۔ تیری کلاس کی لڑکیاں تو قسم سے … ‘‘ وہ آنکھ دبا کر لبوں پر زبان پھیرنے لگا ۔
تبھی فون بجنے لگا ۔ یقیناََ ضروری کال ہوگی وہ فون کان سے لگاتا ، انہیں ہاتھ ہلاکر بائے کرتا چلا گیا اور وہ دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک طویل سانس لیا ۔
’’ایسے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہیے ۔ ‘‘ عمر کہہ رہا تھا ۔ شعیب نے تائید میں سر ہلایا ۔ پھر کچھ خیال آیا تو کہنے لگا ۔
’’اگر ایسے ہی تمام اچھے لوگ دور ہوگئے تو ان کی درستی کا ذمہ کس کے سر ہوگا ۔ برائی سے نفرت کرنی چاہیے ، برائی کرنے والے انسان سے نہیں ۔ ہم ملیں گے تو ممکن ہے کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں ۔ ‘‘ عمر نے ہاتھ جوڑے ۔
’’فرشتہ صاحب جانے دیں اپنے کام سے کام رکھیں ، گھر چلیں اب ۔‘‘ کتابیں سنبھالتا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور شعیب نے بھی اس کی پیروی کی۔
٭٭ …٭٭
وہ لڑکی جو اس کے خیالوں میں آبسی تھی ۔ اور سوچ و سمجھ پر حاوی ہونے لگی تھی۔ اتنی حاوی کہ گمان یقین میں بدلنے لگے تھے ۔ ایک رنگ دار قزح اس کے چاروں اور بکھری رہتی اور دل ایک نا معلوم تپش میں جلتا رہتا۔ یہ کیسا جذبہ تھا جسے کوئی نام دینا ممکن نہ لگتاجو اس کی فرزانگی میں دیوانگی گھولنے لگا تھا۔
محبت… کیا یہ محبت تھی ۔ ہاں یہی کیفیت تھی جس کا وہ اسیر ہوچلا تھا ۔ شاعر تھا اور اس موضوع پر شاعری کرچکا تھا ۔ پر پہلی بار اس جذبے کا اسیر ہوا تھا۔
’’پیاری حنا …‘‘
آنکھیں موند کو وہ سوچنے لگا۔
کٹورا آنکھیں، سانولی رنگت اور دوپٹے کے ہالے میں قدرے گول چہرہ ۔
سراپا خیال ہونٹوں پر تبسم بکھیرنے لگا ۔ اور اس نے آنکھیں کھولیں ۔ جیب سے اپنا پیارا پین نکالا ۔میز کی درازکھول کر پیڈ نکالا اور لکھنے لگا۔
آج تک اس نے شاعری قریباََ ہر موضوع پر کی تھی ۔ مذہب ، محبت ، دوستی ، جنگ و امن ، غم دنیا ، غم روزگار ،معاشرتی اقدار ۔ آج جس موضوع پر اس کا قلم موتی انڈیل رہا تھا وہ اس کے لیے نیا موضوع ہرگز نہ تھا۔
محبت…
مگر آج نیا لگ رہا تھا تو اس کی وجہ تھی کہ یہ جذبہ ا ب اس پر آشکار ہوا تھا ۔ لکھنے کے بعد وہ پڑھنے لگا ۔ محب کی اپنے محبوب سے محبت کا اظہار تھا اور کیا خواب اظہار تھا۔
’’کیا زندگی بھر کے لیے میرا ہاتھ تھامو گی ؟‘‘ شعیب تخیل میں حنا سے مخاطب تھا۔
’’ہاں ضرور ۔‘‘ حنا نے شعیب کے بڑھے ہاتھ میں اپنا نرم موم ہاتھ دے دیااور شعیب اس تخیل پر مسکرا دیا۔
اگلا دن پوری تمازت کے ساتھ نمودار ہوا ۔ وہ اور عمر بائیک پر یونیورسٹی پہنچے اور کلاس روم میں اپنی سیٹوں پر براجمان ہوئے ۔ پہلا لیکچر پروفیسر احتشام کا تھا ۔ شعیب کو پروفیسر احتشام کو سننا ہمیشہ اچھا لگتا تھا مگر آج دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ نہ آئیں اور وہ یونہی کن انکھیوں سے حنا کو دیکھتا رہے ۔ حنا سبز رنگ میں ملبوس تھی ۔ غالباََ وہی سوٹ تھا جو اس نے اس دن پہنا تھا جب اس کا جوتا ٹوٹا تھا اور شعیب نے مرمت کی خدمات سرانجام دی تھی۔
’’اے لڑکی تم اس قدر حسین کیوں ہو۔‘‘ وہ خود کلام ہوا۔
’’کن سوچوں میں گم ہو ؟‘‘ عمر نے اسے مخاطب کیا۔
’’کچھ نہیں ۔‘‘ وہ آپ ہی آپ مسکرادیا۔
کچھ دیر تک کلاس روم اٹینڈنٹ نے اطلاع دی کہ پروفیسر احتشام ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے نہ آئیں گے۔ کلاس میں ہڑبونگ مچ گئی۔ اس نے کن انکھیوں سے حنا کو دیکھنے کا شغف جاری رکھا ۔
’’اگر میں غلط نہیں تو تم بار بار حنا کو دیکھ رہے ہو۔‘‘ عمر نے چوری پکڑ لی اور وہ مسکرادیا۔
کلاس میں یکدم شور مچ گیا تھا ۔ اس کے ساتھی اس سے شاعری سننے کی فرمائش کرنے لگے ۔ وہ مسکراتا ہواآیا اور روسٹرم کے پیچھے جاکھڑاہوا۔
’’یہ اشعار میں رات کو ہی ضبط تحریر لایا ہوں اور میں اسے منسوب کرتا ہوں … ‘‘ اس نے وقفہ کیا کلاس میںہو ہوکار مچ گئی ۔
’’حنا کے نام ۔‘‘ کلاس میں یکدم خاموشی چھاگئی اور طلباء مڑ مڑ کر حنا کو دیکھنے لگے۔
حنا کا دل جو پہلے ہی اپنی لے پر نہ تھا اب تو جیسے اچھل کر حلق میں اٹک گیا ۔ سرخ چہرہ لیے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ تالیاں گونجنے لگی اور قبل اس کے کہ حنا کلاس روم سے چلے جانے کے فیصلے کو عملی جامہ پہناتی ۔ سدرہ نے اسے کھینچ کر دوبارہ بٹھا دیا۔
’’اسے مزاح کا حصہ سمجھو ۔ یونیورسٹی میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔‘‘ سدرہ حنا کی غیر معمولی سنجیدگی کو دیکھ کر کہہ رہی تھی۔
شعیب نے اشعار پڑھے ۔ محبت کے سرخ رنگ میں ڈوبے الفاظ اظہار محبت کے مصرعو ں سے سجے تھے۔
میری نظروں سے کبھی دیکھ جو لیتے تجھ کو
تیرے دشمن بھی تیرے پیار میں جھوما کرتے
تیری آنکھوں پہ میں بس ایک غزل لکھ دیتا
میروغالب میرے دیوان کو چوما کرتے
کلاس تالیوں سے گونجنے لگی ۔ حنا سے بیٹھنا دو بھر ہوگیا اور وہ کلاس روم سے چلی گئی اپنے پیچھے بہت ساری آوازو ں کو چھوڑتے ہوئے ۔ کوریڈور میں تیز قدموں سے چلی جاتی تھی جب کسی نے اسے پکارا تھا۔
’’ حنا ۔‘‘ وہ پتھر ہو گئی ۔ اپنے قدم آگے بڑھا سکی اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھ سکی ۔ شعیب دوڑتا ہوا آیا اور حنا کے سامنے ایستادہ ہوگیا۔
’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ یہ اشعار میں نے تمہارے لیے لکھے ہیں ۔ ‘‘ ایک رول کیا ہوا کاغذ جس پرسرخ پٹی بندھی تھی شعیب نے حنا کی جانب بڑھایا۔
’’اسے قبول کرکے زندگی بھر کے لیے میرا ہاتھ تھام لو ۔ ‘‘ پتھر بنی حنا کبھی اس کاغذ کو دیکھتی اور کبھی شعیب کو ۔پھر پتھر میں جیسے جان آئی اور اس نے کاغذ تھام لیا۔
’’یہ الفاظ نہیں صور ہے جو تم نے پھونکا ہے اور مجھے امر کردیا ہے ۔ ‘‘ حنا نے خود کو کہتے سنا اور شعیب کے چہرے پر ایک سرشار سی مسکراہٹ آن ٹھہری۔ پھر وہ وہاں رکی نہیں کوریڈور پار کرتی چلی گئی ۔
’’تمہارے ابواور میں تمہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کل تم ہمارا فخر بنو ۔ کوئی ایسا کام مت کرنا کہ ہمارے کندھے شرم سے جھک جائیں ۔ ـ‘‘ شبنم کی آواز بازگشت سی گونجی۔
’’کیا ضرورت ہے یونیورسٹی پڑھنے کی۔‘‘
’’ہم بھی دیکھتے ہیں یہ بیل کہاں منڈھے چڑھتی ہے۔‘‘ دلاور کی آواز نے تعاقب کیا اور حنا نے آنکھیں میچ لیں جیسے نظریں چرا رہی ہو۔
٭٭ …٭٭
اس کے ٹوٹ جانے پر افسوس ہے جو محبت کرتا ہے ۔ وہ دل کتنا عظیم ہے جو یہ لاحاصل امید کرتا ہے۔
وہ محبت کرنے لگے تھے مگر شاید یہ بھول رہے تھے کہ معاشرہ ان سے آہنی ہونے کی توقع کرتا ہے ۔ آہنی چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ یہ تو موم کی خاصیت ہے کہ جس قالب میں ڈھالو ، ڈھل جائے۔
ناشتے کی میز پر ذوالفقار نے بیٹے کے ہشاش بشاش چہرے کو دیکھا ۔ یوں تو وہ ہر وقت خوش و مطمئن رہتا تھا مگر کچھ دنوں سے خوشی اور اطمینان معمول سے زیادہ محسوس ہوتی۔
’’برخوردار تم مجھے کچھ دنوں سے زیادہ خوش دکھائی دیتے ہو۔‘‘
’’ابو آپ بھی مجھے کچھ دنوں سے زیادہ جوان دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
’’لو بھئی میں بوڑھا ہی کب ہوا تھا ۔ ‘‘ ذوالفقار ہنس دیے ۔ باہر بائیک کے ہار ن کی آواز سنائی دی اور وہ چائے کا گھونٹ بھرتا ، ماں باپ کو سلام کرتا یہ جا وہ جا۔
’’ اس کی تعلیم مکمل ہو تو اس کے لیے دلہن ڈھونڈوں ۔ ‘‘ زاہدہ کی سوچ کا محور کئی دنوں سے یہی بات تھی۔
’’تم فکر مت کرو‘ برخوردار زمانے کے رسیا ہیں ۔ یہ کام خود کرلیں گے۔‘‘ ذوالفقار ہاتھ پونچھتے ہوئے اٹھے اور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر برش کرنے لگے ۔
زاہدہ ہائیں ہائیں ، بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کرتی رہ گئیں۔
برش کرتے ہوئے ان کا ہاتھ لمحہ کو رکا ۔
’’آپ کچھ دنوں سے زیادہ جوان دکھائی دے رہے ہیں ۔ ‘‘ شعیب کی آواز گونجی اور ان کی نظریں چہرے پر پھیلتی جھریوں کے جھال میں الجھنے لگیں ۔ بھلا اب وہ کہاں جوان رہے تھے۔ یونہی اپنا عکس دیکھتے ہوئے ہاتھ ماتھے کے نشان پر رک گیا ۔ یہ زخم کی سلائی کے لیے لگے ٹانکوںکا نشان تھا ۔ جوانی کے دنوں میں یہی جب وہ شعیب کی طرح بانکپن کا پیکر تھے ۔ ایک ساتھی کے ساتھ ہاتھا پائی کے نتیجے میں زخم پڑا تھا اورزخم اس قدر گہرا تھا کہ ٹانکے لگانے پڑے تھے۔
’’لو جی بیٹے نے جوان کہااور انہوں نے مان لیا ۔ اپنے عکس کو ایسے گھورتے ہیں جیسے نوبیاہتا دولہا اپنی دلہن کو گھورتا ہے ۔ ‘‘ حسب معمول زاہدہ کی خود کلامی ان تک باآسانی پہنچ رہی تھیں۔ وہ مسکرا دیے اور اپنا بیگ اٹھائے دفتر کے لیے روانہ ہوئے۔
٭٭ …٭٭
’’شعیب اس محبت کا انجام کیا ہوگا۔‘‘ عمر کو کئی وسوسے لاحق تھے۔
’’یہی کہ میری شادی اس سے ہوگی اور ہمارے ڈھیر سارے بچے ہوں گے ۔ ‘‘ شعیب قہقہہ لگا کر ہنس دیا ۔ عمر چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکا۔
’’زرا تیز بائیک چلائو دیر ہورہی ہے ۔ ‘‘ شعیب نے عمر کو ٹہوکا دیا تو عمر نے ریس بڑھائی۔ یونیورسٹی پہنچ کر اس نے معمول کے مطابق لیکچر لیے اور فارغ وقت میں حنا کے ساتھ گھاس کے ایک قطعے کا رخ کیا۔
’’ میرا کوئی بھائی بہن نہیں ۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے والدین کی توجہ کس طرح آپ کو مشکلات میں ڈالتی ہیں یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔‘‘
’’عمر میرا بچپن کا دوست ہے ۔ ہم سارا وقت ایک ساتھ گزارتے ہیں ۔ سکول اور کالج میں ہم جماعت تھے ، یونیورسٹی میں بھی ساتھی ہیں ۔ ہم یونیورسٹی ایک ہی بائیک پر آتے ہیں۔ ایک دن وہ اپنی بائیک لے آتا ہے تو دوسرے دن میری باری ہوتی ہے۔‘‘
’’صبح سے میں ہی بولے جارہاہوں ‘ تم بولتی ہی نہیں ۔‘‘ شعیب حنا کی خاموشی سے تنگ آکر بولا۔
’’شعیب کچھ غلط تو نہیں۔‘‘ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے کوشش کی کہ آنکھوں کو نم ہونے سے روکے مگر کم بخت آنسو قابو میں ہی نہ آئے اور رخساروںپر لڑھکتے چلے گئے۔
’’ایک تو تم روتی بہت ہو۔ تمہارے یہ آنسو کسی دن مجھے اِس دنیا سے اس دنیا میں ہی نہ لے جائیں ۔ پیاری حنا کچھ غلط کیسے ہوسکتا ہے ۔ میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گا ۔ سب ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی رہے گا۔‘‘ شعیب اسے تسلی دے رہا تھا اور حنا نے بھی مسکرانے کی کوشش کی۔
٭٭ …٭٭
بلال کی چھوٹی بہن گلی میں کھیل رہی تھی ۔ شعیب کا گزر ہوا تو اس نے بچی کو بلایا ۔
’’ جی انکل ۔‘‘ شعیب کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ کیا اب وہ اتنا بڑا ہوچکا تھا کہ بچے اسے بھائی کی جگہ انکل بلانے لگے تھے۔
’’بلال نظر نہیں آتا ۔‘‘
’’بھائی مصروف ہوتے ہیں‘ دوجگہ کام کرتے ہیں ۔‘‘
‘‘ اسے کہنا فارغ ہو تو مجھ سے ملنے آئے۔‘‘ بچی اثبات میں سر ہلاتی چلی گئی اور پھر سے اپنی ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے لگی ۔
اگلا دن جمعہ کا تھا اور رائج اصولو ں کے مطابق جمعے کے دن بازار بند ہوتا تھا اس لیے بلال کو دکان سے چھٹی تھی ۔ سو شام کو وہ شعیب سے ملنے چلا آیا۔
وہی کھلنڈرا پن چہرے پر جما تھا ۔ البتہ کچھ کمزور ہوگیا تھا۔
’’بہت مصروف رہتے ہو۔‘‘
’’جی بھائی جان ، ابو بیمار ہیںاور پیسوں کی کمی ہے اس لیے دو جگہ کام کرتا ہوں اور رمشہ کی شادی بھی امی نے طے کردی ہے۔‘‘
’’ رمشہ کی شادی …‘‘ شعیب حیران رہ گیا ۔
رمشہ بلال سے چھوٹی تھی ۔ تیرہ چودہ سال کی ہوگی ۔ محلے دار ہونے کی وجہ سے شعیب واقف تھا۔
’’جی بھائی ، دعا کریں سب خیریت سے ہوجائے ۔ ‘‘ شعیب کا دل ان مانا سا ہونے لگا ۔ شاید اسے ہی زندگی کے اصولو ں سے سمجھوتا کرلینا چاہیے۔
کچن میں جاکر اس نے فریج کھول کر معائنہ کیا کہ کھانے کے لیے کیا چیز میسر ہے۔
جوس کے ڈبے سے گلاسوں میں جوس انڈیلا اور لیے چلا آیا۔
’’ شکریہ بھائی جان۔‘‘ گلاس تھام کر بلال جوس پینے لگا۔ شعیب بھی پاس بیٹھ کر بے خیالی سے جوس کے گلاس سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگا۔
’’ بھائی جان آپ کب شادی کریں گے؟‘‘ شعیب مسکرانے لگا۔
’’ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد‘ دعا کرو سب خیروعافیت سے ہو ۔‘‘ شعیب نے والٹ سے کچھ پیسے نکالے اور بلال کی جانب بڑھائے۔
’’نہیں بھائی جان اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’تمہارے لیے نہیں رمشہ کے لیے ہیں ۔ اس کے جہیز کے لیے کچھ خریدلینا ۔ ‘‘ بلال قدرے ہچکچایامگر پھر اس نے پیسے لے لیے۔
’’مجھے بلانا رمشہ کی شادی پر بارات کے استقبال کے لیے۔‘‘
’’ضرور بھائی جان۔‘‘
’’بھائی جان ۔‘‘ شعیب سوچنے لگا ۔ کتنا اچھا لگتا تھا جب وہ اسے بھائی جان پکارتا تھا۔
٭٭ …٭٭