رنگ حنا : آخری حصہ
’’میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’کس بات کی ؟‘‘
’’اس رات میں بس ٹرمینل نہ پہنچ سکا ۔‘‘
اور حنا لمحہ بھر کو یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔
’’تم خود مختار تھے ۔ تمہیں جو مناسب لگا وہی تم نے فیصلہ کیا ۔ معافی کیسی ؟‘‘ اس نے فقرہ ترتیب دیا مگر جب بولی تو زبان سے کچھ اور الفاظ ہی نکلے ۔
’’ معافی ‘کیا معافی سے تلافی ہوسکتی ہے ۔ میری زندگی برباد ہوگئی اور تم کہتے ہو معافی۔‘‘ حنا کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ وہ اپنی بے بسی پر رونے لگی ۔ وہ بے بسی جو اس نے سالوں پہلے بس ٹرمینل پر بیٹھے محسوس کی تھی ۔ وہ بے بسی جو آج محسوس کررہی تھی ۔ اس نے جلدی سے ٹشو باکس سے ٹشو نکالا اور آنکھیں پونچھیں ۔ وہ کمزور نہیں تھی ۔ وہ خود کو مضبوط دکھانا چاہتی تھی ۔
’’ میں آرہا تھا ۔ ابو کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ انہیں ہسپتال لے جانا پڑا ۔ ہسپتال سے بس ٹرمینل آرہا تھا میرا اپنا ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔‘‘ شعیب وضاحت دے رہا تھا ۔ حنا کے لبوں پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ آن ٹھہری ۔ کیا شخص تھا یہ بھی ،ایک بھی نہیں اکھٹے دو بہانے ‘ واہ …
’’ تم نے کہا اور میں نے مان لیا ۔ پوری دنیا میں اس رات صرف تمہارے ابو کی ہی طبیعت خراب ہوئی ہوگی ۔ اور شاید ایکسیڈنٹ بھی صرف تمہارا ہی ہوا ہوگا ۔‘‘سر جھکائے بیٹھے شعیب نے سر اٹھا کر حنا کو دیکھا ۔
حنا … جس کے لیے وہ دنیا تیاگ سکتا تھا ۔ تیاگ سکتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آن ٹھہرے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
’’ میں سچ کہہ رہا ہوں ۔‘‘ روتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔
وہ کچھ ایسے زار زار روتا تھا کہ حنا کے دل کوکچھ ہونے لگا ۔ اور دل اسے سچا ماننے کو ہمکنے لگا ۔ بوجھل ہوتے وجود کے ساتھ وہ اٹھی اور واٹر ڈسپنسر سے پانی لے آئی ۔
’’ یہ پانی پی لو ۔‘‘ حنا نے اس کی طرف گلاس بڑھایا ۔ شعیب نے گلاس تو تھام لیا مگر پانی کا گھونٹ نہ بھرا ۔
’’ تم میرے سہارے گھر سے نکلی اور میں تمہیں اکیلا چھوڑ دیا ۔ اور زندگی کے سا ل ر یت کی طرح پھسلتے چلے گئے ۔ میں بے بس تھا ۔ میں اس رات آنا چاہتا تھا مگر … ‘‘ ایک بار پھر آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں اور وہ رونے لگا ۔ کتنی دیر روتا رہا اور حنا اسے روتا دیکھتی رہی ۔
’’ میںنے تمہیں ہر جگہ ڈھونڈا ۔ تمہیں ہر جگہ پکارا مگر شاید بدنصیب تھا کہ تمہیں پانہ سکا ۔‘‘
’’ بدنصیب تم نہیں میں تھی ۔ تم تو اپنے گھر والوں کے ساتھ رہے ، گھر بھی بسالیا ۔ بیوی اور بچے ۔ اور میں عورت ذات ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی ۔ کبھی سوچا کہ کیسے گزرے ہوں گے میرے سال؟ اپنا مردہ وجود لیے میں آج بھی جیتی ہوں ۔ ‘‘حنا بھی رونے لگی ۔
زندگی کے نو سال ، نصف شب کو بس ٹرمینل پر اس کا انتظار میں بیٹھی حنا اور آج اس آرام دہ آفس میں بیٹھی حنا ۔ یہ سفر یونہی تو طے نہیں ہوا تھا ۔ نہ کوئی ساتھی تھا نہ کوئی غمگسار ۔
وہ دونوں اپنی اپنی جگہ روتے رہے ۔ اور مسافتوں کے سلسلے طے تو نہ ہو سکے البتہ کم ہونے لگے ۔
’’تم میرے ساتھ چلو ۔‘‘ اچانک شعیب نے کہا تھا ۔
’’کدھر ؟‘‘
’’میرے گھر ۔‘‘ حنا قہقہہ لگا کر ہنس دی ۔
’’ کس رشتے سے ، اگر تم بھول گئے ہو تو میں تمہیں یاد دلادوں کہ تم شادی شدہ ہو اور تمہارے گھر تمہاری بیوی ہے ۔‘‘ اور شعیب لاجواب ہوگیا ۔ کہنے کے لیے کچھ نہ بچا ۔
میرے ہم رقص
تو ہے بے خبر
میری زندگی
ہے ادھار کی ۔
٭٭ …٭٭
اور شام کو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے دیکھا ۔
کیا واقع سبز رنگ اس پر جچتا ہے ؟ آئینے نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ وہاں سے ہٹ گئی ۔
اسی سمے معید کی کال آگئی اور وہ جو صبح سے اس کی کئی کالز نظر اندا ز کر چکی تھی ۔ اس بار اس نے ریسیو کرلی ۔
’’ کیسی ہو ؟ ‘‘ معید کی ازلی چہکتی آواز ۔
’’میں ٹھیک ہوں ، تم کیسے ہو ؟‘‘
اور یونہی بے معنی ‘ بے مطلب سی باتیں ہوئیں ۔ جانے کیوں معید سے بات کرتے ہوئے دل اکتاتا تھا مگر اسے دل مائل کرنا تھا کہ زندگی کے اتنے سال اکیلے گزارے ۔ فلرٹ تو کئی مردوں نے کرنے کی کوشش کی مگر ایک معید ہی تھا جس نے ہاتھ بڑھایا اور شادی کی پیش کش کی ۔
’’ میرے خیال میں ہمیں اگلے مہینے شادی کرلینی چاہیئے ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ ‘‘ اس نے حامی بھری تو معید مزید چہکنے لگا ۔
’’ شادی کا جوڑا کہاں سے لو گی اور کیسا لوگی ؟‘‘ معید اسے اپنی پسند کے متعلق بتانے لگا اور یہ بھی کہ وہ خود شادی پر کیا پہننا پسند کرے گا ۔
’’ معید پھر بات کریں گے ۔‘‘ اس نے باتیں ادھوری چھوڑکرہی فون بند کردیا اور وہیں بیڈ کے ایک کونے پر ٹک کر بیٹھ گئی ۔
’’ شعیب ۔ ‘‘
ا س نے سوچا اور شعیب سوچوں میں براجمان ہوا۔وہ شعیب جو اس کی زندگی میں نہ آتا تو اس کی زندگی کس قدر مختلف ہوتی ۔ اس کی بھی کہیں شادی ہوچکی ہوتی ۔ ایک دو بچے بھی ہوتے اور وہ اپنے ماں باپ اور بہنوں سے ملتی جلتی ۔ ایک نارمل زندگی گزارتی اور اب …
اب وہ ہاسٹلو ں میں رہتی تھی ۔ کوئی ایسی دوست تھی نہیں ۔ تنہائی کا وقت یو ٹیوب ویڈیوزاور فلموں کے سہارے گزرتا مگر کتنی یو ٹیوب اور فلمیںدیکھتی…دنیا کی کوئی چیز رشتوں کا بدل نہیں ہوتی ۔
تو کیا قصور صرف شعیب کا ہی تھا ؟ اور وہ محبت جو اس نے شعیب سے کی تھی ۔ جس کی باقیات وہ آج بھی اپنے دل میں پاتی ہے ۔ جب اسے دیکھتی ہے تو دل چاہتا ہے اسے دیکھتی رہے ۔ اس کے کہے پر یقین کرنے کا دل کرتا ہے ۔ تو وہ صرف شعیب کو کیوں ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے ۔ اگر اس رات اس کے والد کو ہسپتال لے جانا پڑا اور بعد میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور اس کا موبائل کھوگیا تھا تو پھر کس کا قصور تھا ۔شاید اس کا اپنا ۔ اس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ اتنی عجلت میں کیوں کیا ؟ بلکہ سرے سے کیا ہی کیوں ۔ دلاور نے مارا تھا ، ذودکوب کیا تھا تو یہ دلاور کا ظرف تھا ۔ عمل کے رد عمل میں اس نے کونسی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ گھر چھوڑ کر آگئی ۔ یہ بھی نہ سوچا کہ گھر والے بدنامی کہاں سہہ پائیں گے ۔ اس کی بہنوں کی زندگی پر اس کا یوں چلے جانا کتنا پر اثر انداز ہوگا ۔
’’ بدنامی اور اثر انداز …‘‘ وہ ہنسنے لگی ۔
گھر والوں نے بھی ٹھیک حل نکالا ۔ مجھے مردہ قرار دے کر میرے قل کے چاول بھی محلے داروں اور رشتہ داروں کو کھلا دیے ، لو مر گئی بات ختم …
کیا گھر والے اتنے بھی سنگدل ہوتے ہیں ؟ غلطیوں پر مردہ قرار دے دیں اور جیتے جی انسان بے روح زندگی گزار ے ۔ آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔ اس نے بھی گرنے دیے ۔ یوں رونا اور روتے ہی جانا شاید اس کا نصیب تھا ۔ وہ کس قدر حرماں نصیب تھی ۔ تبھی ہوسٹل کی ملازمہ نے اطلاع دی کہ کوئی خاتون اس سے ملنے آئی ہے ۔ وہ آنسو پونچھتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس سے کو ن ملنے آسکتی ہے ۔ اس کی کوئی دوست ایسی نہ تھی جو ملنے آتی ،تو کیا شعیب نے اپنی بیوی کو بھیجا ہے ۔
تو پھر شعیب کی بیوی سے وہ کس طرح ملے گی اور کیا باتیں کرے گی ،مگر شعیب کی بیوی آئی ہی کیوں ہوگی ۔ خیالات اپنی راہ پر گامزن رہے ۔ و ہ منہ دھو کر اور بال سنوار کر ہوسٹل سے ملحقہ گیسٹ روم میں آگئی ۔ مہمان خاتون صوفے پر پشت کیے بیٹھی تھیں ۔ اسے اندازہ نہ ہوا کون ہے ۔
’’ السلام علیکم … ‘‘ اس نے آنے والی کو متوجہ کیا ۔ آنے والی اٹھ کھڑی ہوئی اور مڑ کر دیکھا ۔ اور وقت لمحے بھر کے لیے تھم سا گیا ۔
وہ زینب تھی اس کی بڑی بہن ۔
حنا وہیں پتھر کی ہوگئی ۔ تو کیا اس کی بہن اس سے ملنے آئی ہے ۔ وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکی ۔ زینب خود ہی آگے بڑھی اور روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی ۔
’’ حنا میری بہنا ۔‘‘ زینب اسے بھینچے جاتی اور روتے جاتی ۔
’’اس طرح بھی کوئی کرتا ہے ۔‘‘ اب وہ اسے چوم رہی تھی ۔ اور حنا کی آنکھوں میں آنسو آنے میں بھی وقت نہ لگا ۔ اور وہ بھی بہن کے گلے لگے رونے لگی ۔
ایک ہی شہر رہتے ہوئے کتنی بار اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ اسے فو ن کرے یا اس سے ملنے چلی جائے ۔ چلو یہ نہ سہی ۔ کہیں سرراہ اچانک ملاقات ہوجائے ۔ بازار میں گھومتے ، سڑک پر کھڑے ہوئے اچانک وہ دونوں آمنے سامنے آجائیں مگر ہائے قسمت ایسا کبھی نہ ہوا ۔
اور آنسو کچھ اس قدر تیزی سے بہتے تھے کہ شکوہ شکایات کرنے کا موقع ہی نہ ملا مگر پھر بھی زینب نے کہہ دیا ۔
’’ گھر والوں سے ناراض تھی مگر مجھ سے … میں صرف بہن تو نہ تھی دوست بھی تو تھی ۔ مجھ سے رابطہ تو کرسکتی تھی ۔ مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا ۔‘‘ اور وہ کہہ نہ پائی کہ آپ لوگ تو میرے مرنے پر سوگ منا چکے تھے اور شائد میری بخشش کے لیے قرآ ن پڑھتے ہوں ۔ میں کیسے آپ سے رابطہ کرتی ۔
’’ یہ تو شعیب نے مجھے بتایا تو میں دوڑی چلی آئی ۔ یہاں پر بھی مجھے شعیب لے آیا ۔ وہ باہر گاڑی میں بیٹھا انتظار کررہا ہے ۔ چلو گھر چلیں ۔‘‘ زینب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔
’’گھر کون سے گھر ؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی ۔
٭٭ …٭٭
اور پھر ایک مدت بعد اس نے اس گھر کی چوکھٹ کو پار کیا ۔ وہ گھر جہاں وہ پیدا ہوئی ‘ پلی بڑھی ‘ بچپن ‘ لڑکپن گزارا اور جہاں سے ایک رات چلی گئی ۔ آنسو پونچھتے ہوئے اس نے چاروں اور دیکھا ۔ آنگن کی ساخت میں تبدیلی نہ آئی تھی ۔ ہاں البتہ جامن کا درخت نہ رہا تھا ۔ جانے گردش زمانہ سے خود ہی گرگیا یا پھر مکینوں نے مصلحت کے تحت کٹوادیا ۔ اور اس جگہ جہاں جامن کا درخت تھا وہاں تین چھوٹی بچیاں کھیل رہی تھیں ۔
’’ یہ دلاور کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ نے رحمت سے نواز ا ہے ۔ چار بیٹیاں ہیں ، بیٹا کوئی نہیں ۔‘‘ زینب بتارہی تھی ۔
لو جی‘ خدا کی مصلحت جو بہنوں کے وجود سے نالاں تھا ۔ اسے اللہ نے بیٹیوں سے خوب نواز ا ۔
آنگن پار کر کے وہ برآمدے میں آئی ۔ برآمدے میں ہی شبنم بیٹھی تھی ۔ بے چینی اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔ زینب اسے مطلع کرچکی تھی کہ وہ حنا کو لے کر آرہی ہے ۔ زینب کے ساتھ حنا کو آتے دیکھا تو جیسے وہ خود میں نہ رہی ۔ جلدی سے اٹھی اور بیٹی کی اور بڑھنے لگی اور اس عجلت میں گرگئی ۔
حنا کا دل جیسے مٹھی میں آگئی ۔
’’ امی …‘‘ وہ گری ہوئی ماں کے پاس گئی اور ان کی گرد جھاڑنے لگی ۔ شبنم یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔ ہاں یہ اس کی حنا تھی ۔ جسے اس نے نو مہینے پیٹ میں رکھا تھا اور جسے اس نے پال پوس کر جوان کیا تھا مگر ایک دن وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی ۔ قبل اس کے کہ حنا انہیں اٹھاتی شبنم نے اسے بھینچ لیا اور سینے سے لگا کر رونے لگی ۔
’’میری حنا یہ بھی نہ سوچا کہ تیری ماں تیرے بغیر کیسے جیتی ہوگی ۔‘‘ وہ ماں کے سینے سے لگی اشک بہاتی رہی ۔
’’اچھا امی اب اٹھیں ۔ ‘‘ قبل اس کے کہ وہ کہتی زینب سہارا دے کر شبنم کو اٹھانے لگی ۔ اس کی ماں لنگڑا کر کیوں چل رہی تھی ۔ اور اسے اٹھنے کے لیے مدد کی کیوں ضرورت پڑ گئی ۔ وہ ماں کے پیروں کو دیکھنے لگی ۔ وہ پیر جہاں اس کی جنت بستی تھی مگر …
اسے دھکا سا لگا ۔ کیا یہ اس کا وہم تھا یا واقعی اس نے ہاتھ بڑھا کر ماں کی بائیں ٹانگ کو چھوا اور کراہ کر رہ گئی ۔ شبنم کی بائیں ٹانگ لکڑی کی تھی ۔
’’ ذیابیطس کازخم بگڑتا چلا گیا مجبوراََ ٹانگ کٹوانی پڑی ۔ ‘‘ زینب بتارہی تھی اور وہ اس مصنوعی ٹانگ پر ہاتھ رکھے روئے جاتی ۔
’’ امی انسولین میں بھی ناغے کرتی ہیں ۔ اب تم آگئی ہو تو سمجھانا ۔‘‘ زینب کیا کہہ رہی اور کیا کہنا چاہ رہی تھی ۔ وہ کچھ نہ سن پائی ایک بار پھر ماں کے سینے سے لگ گئی ۔
’’ بیٹا ۔ ‘‘ اور پھر اس کے کانوں میں آواز پڑی ۔ اس کے ابو اسے ہمیشہ بیٹا کہہ کر پکارتے تھے ۔ اس نے تڑپ کر مڑ کر دیکھا ۔ افتخار اس کے عین پیچھے کھڑے تھے ۔ کس قدر بوڑھے اور کمزور ہوگئے تھے ۔ اسے اپنے نو سال پرانے تنومند والد یاد آئے تو د ل کٹ گیا ۔
افتخار نے بانہیں پھیلائیں اور وہ ان کے سینے سے جالگی ۔ اور باپ بیٹی روتے رہے ۔
’’ ناراض ہوکر گئی تھی تو ایک دو ماہ یا چلو چھ ماہ بعد واپس آجاتیں نو سال لگا دیے ۔ ‘‘ وہ اس کے بالوں پر بوسہ دے رہے تھے۔
’’میں آئی تھی، آپ میرے مرنے کے چاول کھارہے تھے ۔ واپس پلٹ گئی ۔‘‘ وہ روتے ہوئے بتا رہی تھی ۔ جواباََ افتخار اور زور سے رونے لگے ۔ اپنی کم عقلی اور کم ظرفی کو قصور وار ٹھہرانے لگے ۔ اور وہ نفی کرنا چاہتی تھی مگر کر نہ پائی ۔
انہوں نے اسے خود سے علیحدہ کیا ۔ دونوں بازوئوں سے تھامے اسے غور سے دیکھنے لگے اور دیکھتے ہی رہے ۔
’’ آج بھی ہو بہو اماں مرحومہ کی طرح لگتی ہو ۔ دیکھو شبنم اماں ایسے ہی ہوا کرتی تھیں۔ ‘‘ وہ بیوی سے تصدیق چاہ رہے تھے ۔ حنا تڑپ کر ایک بار پھر باپ کے سینے سے جالگی ۔
٭٭ …٭٭
نبیلہ کی شادی بھی ہوچکی تھی ۔ وہ بھی ملنے آئی تو جیسے گلے شکوے کرنا بیکار لگا ۔ اس کے لیے یہ ہی شکر کا مقام تھا کہ اس کی بہن گھر واپس آگئی ہے ۔
اور دلاور…
وہ تو دلاور ہی تھا ۔
’’ میں تو حیران رہ گئی ۔ کیسے آپ کے ماں باپ نے اس جنم جلی کا استقبال کیا ۔ کوئی غیرت والے ہوتے تو اس وقت تیل چھڑک کرآگ لگا دیتے ۔ یہ نہ تو کم از کم گھر میں گھسنے نہ دیتے ۔‘‘ یہ دلاور کی بیوی صاعقہ تھی ۔ جیسا وہ خود تھا اللہ نے بیوی بھی ویسی دی تھی ۔
’’ چار بیٹیاں ہیں ہماری ۔ ان کی پھو پھو ایسی ہے تو کون ان کے رشتے لائے گا ۔‘‘ دو بیٹیوں نے تو ابھی سکول جانا بھی شروع نہیں کیا تھا مگر صاعقہ کو ان کے رشتوں کی فکر لاحق تھی ۔
’’ پتہ نہیں کہاں کہاں منہ کالا کر کے آئی ہے ۔‘‘ صاعقہ کی بڑبڑاہٹ ختم نہ ہورہی تھی ۔
’’کیا تم اپنی بکواس بند نہیں رکھ سکتی ۔‘‘دلاور دھاڑا ۔
’’لو جی ، سچی بات بکواس ہی لگے گی ۔ بندہ اپنا دامن بچائے تو بھی گناہ گار ٹھہرے ۔ میں تو اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہوکر سچ بیان کررہی ہوں ۔ یہ چار بیٹیاں … ‘‘ صاعقہ کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ دلاور نے درمیان میں ہی بات کاٹ لی ۔
’’ تو کس نے کہاں تھا ۔ بیٹیو ں کی فوج پیدا کرو ۔‘‘
’’ یہ بھی میرا قصور ٹھہرا ۔ بھئی آپ کی تین پھپھیاں ہیں ۔ آپ کی والدہ ماجد ہ نے تین بیٹیوں کو جنم دیا ۔ یہ تو آپ کے خاندان میں ہی زیادہ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ میں تو پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں ۔ ‘‘ صاعقہ فخر سے نسل در نسل قصہ سنا رہی تھی ۔
ایک لمحے کو تو دلاور کا دل چاہا ایک تھپڑ ہی گال پر جڑ دے مگر بعد میں جو ہنگامہ آرائی ہونی تھی اس سے بہتر تھا کہ دل کی خواہش پر قابو پالیا جائے ۔ چنانچہ وہ غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا کمرے سے چلا آیا ۔ اور یوں ہی برآمدے میں آبیٹھا ۔حنا کا یوں واپس آنا اسے بھی اچھا نہیں لگا تھا مگر ایک تو بوڑھے ماں باپ خوش تھے دوسرا گزرے سالو ں میں اس نے ما ں سے اتنے طعنے سنے تھے کہ اگر وہ نہ ہاتھ اٹھاتا تو حنا گھرسے نہ جاتی ، اس لیے اس نے خود کو کچھ کہنے سے باز رکھا ۔
’’ ہاں جی لڑکیاں گھر سے باہر عشق مٹکا کرتی ہیں اور ہم باز پرس بھی کرلیں تو گناہ گار …‘‘ وہی پرانے خیالات ، اور ان خیالات سے جان چھڑاتے ہوئے اپنے کاروبار کے متعلق سوچنے لگا ۔ وہ محنتی تھا ، کاروبار کو پورا وقت دیتا تھا مگر قسمت ہی ساتھ نہ دے رہی تھی ۔ کتنے سال گزر گئے لوگ مٹی میں ہاتھ ڈالتے سونا بنا دیتے ۔ وہ سونے کو ہاتھ میں لیتا تو راکھ میں بدل جاتا ۔ یہ گزرتے سالوں میں تیسرا کاروبار تھا جس کا دیوالیہ بس ہوا چاہتا تھا ۔ اور وہ سوچ سوچ کر پاگل ہواجارہا تھا ۔
’’ کیا کچھ رقم ادھار مل سکتی ہے ۔ آپ کے پاس ہوں یا پھر کسی دوست سے لے دیں میں واپس کردوں گا ۔ ‘‘ اگلے دن اس نے افتخار سے جھجکتے ہوئے بات کرنے کی کوشش کی ۔افتخار کی اور اس کے درمیان لمبی بحث چھڑ گئی ۔
افتخار اسے اتنی دفعہ پیسے دے چکے تھے کہ اب تو اسے پیسے دینے اور کنویں میں ڈالنا برابر خیال کرتے تھے ۔ اور اب ان کے پاس اتنا سرمایہ تھا بھی نہیں ۔ باپ اور بھائی کے درمیان ہوتی بحث سامنے کمرے میں بیٹھی حنا سن رہی تھی ۔ وہ ماں کو گزرے نو سالوں کا قصہ سنا رہی تھی کہ اٹکنے لگی ۔ دماغ بار بار باہر سے آتی گفتگو میں الجھنے لگا اور پھر اس نے فیصلہ کیا ۔
’’ ایک منٹ ۔‘‘ کہتی وہ اٹھی ، اپنے سامان میں سے ایک چیک بک نکالی اور چیک پر کرکے دستخط کیے اور آکر بھائی کے سامنے رکھ دیا۔
’’یہ رکھ لیں ۔ میں ملازمت کرتی رہی ہوں ۔ پیسے خرچ کرنے کا مصرف کوئی تھا نہیں اس لیے جمع ہوتے رہے ۔ ‘‘ دلاور نے ایک لمحہ چیک میں لکھی ہوئی چھ ہندسہ رقم دیکھی اور رقم دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن ہی عجب ہوگئی ۔
’’ میں تمہیں واپس کردوں گا ۔‘‘ و ہ چیک پکڑتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
’’اس کی ضرورت نہیں ۔‘‘ حنا نے مسکرانے کی کوشش کی ۔
اور جب رات کوصاعقہ نے چیک دیکھا تو استہزائیہ سی ہنس دی ۔
’’ کیا خبر جسم فروشی کی رقم سے ہی بینک اکائونٹ بھرا ہو ۔ لاکھوں روپے یوں ہی تو اکھٹے نہیں ہوجاتے ۔ ‘‘ صاعقہ کی زبان کے آگے تو جیسے خندق تھی ۔
’’ بکواس بند کرو ، وہ یونیورسٹی کی پڑھی لکھی ہے ۔ ملازمت کے بارے میں بتایا ہے اور اب بھی ملازمت جاری رکھنا چاہتی ہے ۔‘‘ دلاور بتارہاتھا اورصاعقہ میں نہ مانوں کی تصویر بنی بیٹھی رہی ۔ ویسے ایک پل کو دلاور کے ذہن میں بھی ’’وہ‘‘ خیال آیا تھا ۔ جسے صاعقہ نے لفظوں میں بیان کردیا تھا ۔
’’ لیکن خیر … ‘‘ اس نے ذہن کو جھٹکا ۔ اس بار اس نے پیسے ڈبونے نہیں ۔ یہ دلاور کا خود سے عز م تھا ۔
اور رات کے اسی پہر دوسرے کمرے میں وہ تینوں بہنیں اکھٹی تھیں ۔ زینب کے بچے تو بڑے تھے وہ تنگ نہ کرتے تھے مگر نبیلہ کے چھوٹے بچے سوگئے تو ہی وہ بہن سے حال احوال بانٹنے بیٹھی ۔ وہ حنا کو اپنی زندگی کا احوال اور حنا انہیں اپنا احوال سناتی رہی ۔
’’ لو آفس میں کام کرتے ہوئے کسی کولیگ یا کسی خاتون نے اپنے بھائی بیٹے کے لیے تمہیں پسند نہ کیا ۔ ‘‘ نبیلہ پوچھ رہی تھی ۔
حنا چپ رہ گئی ۔ برسوں پہلے بھی تو اسے کسی نے اور کسی کو اس نے پسند کیا تھا ۔ تب کیا ہوا تھا ؟ اور آج نبیلہ کا یہ سوال …
’’ایک معید حیدر ہے ۔‘‘ ٹھنڈی سانس بھر کر وہ بتانے لگی ۔
٭٭ …٭٭
گھر میں تو جیسے خاموشی نے بسیرا کرلیا تھا ۔
سفیان کے جانے کے بعد گھر پر یوں خاموشی چھائی رہتی جیسے گھر نہ ہو خالی چار دیواری ہوجہاں کوئی ذی روح نہ بستا ہو۔ لیلیٰ جو پہلے گھر کے غیر ضروری کام بھی جانفشانی سے کرتی ۔ اب ضروری کام بھی نہ کرتی اور ہاتھ میں البم لیے سفیان کی تصویریں دیکھتی رہتی ۔ جب وہ پیدا ہوا تھا ، جب اس نے بیٹھنا شروع کیا ، جب اس نے واکر کی سیریں کی، جب اس نے چلنا شروع کیا … البم ختم ہوجاتا ۔ وہ دوبارہ سے دیکھنا شروع کردیتی ۔ اور یہی شب و روز کا قصہ تھا ۔
’’ امی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔‘‘ یہ ایک عام سا دن تھا جب شعیب زاہدہ کے ساتھ آبیٹھا ۔
’’ میں بھی تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔‘‘ زاہدہ نے کہا تو وہ ماں کے بولنے کا انتظار کرنے لگا ۔
’’تم لوگوں کو دوسرے بچے کا سوچنا چاہئے ۔ لیلیٰ زندگی کی طرف واپس ہی نہیں آرہی ۔ نیا مہمان آئے گا تو اس کا بھی دل لگ جائے گا ۔‘‘ شعیب نے دھیمے سے سر اثبات میں ہلایا اور کچھ کہنے سے پہلے کئی لمحے خاموش رہا ۔
’’ حنا واپس آگئی ہے ، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ زاہدہ یک ٹک بیٹے کو دیکھے گئی ۔ تو حنا زندہ تھی ۔
’’ لیلیٰ کے ساتھ تم خوش تو رہ رہے ہو ۔‘‘ وہ ماں کو دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا ۔
اور زاہدہ کو بھی گزرے وہ دن یاد آنے لگے جب شادی سے قبل وہ حنا کی یاد میں تڑپتا رہتا مگر وہ شادی سے پہلے کی باتیں تھی۔ اب تو اس کی زندگی میں لیلیٰ تھی ۔
’’ امی خوشی مکمل نہیں ہے ۔ وہ لڑکی میرے سہارے گھر چھوڑ کر چلی گئی اور میں کیا کرتا رہا … ‘‘ شعیب کو سمجھ نہ آیا کہ مزید کیا کہے یہاں تک کہ آنکھ سے آنسو ٹپک پڑے ۔ وہ آنسو جو درد کی کہانی سناتے تھے ۔
’’اور لیلیٰ … لیلیٰ کا کیا ہوگا ؟‘‘ زاہدہ دھیمے سے کہہ رہی تھی ۔
مزیدکچھ کہے بغیر شعیب اسی وقت وہاں سے اٹھا اور ساتھ والے کمرے میں بیٹھی لیلیٰ کے پا س آبیٹھا ۔ لیلیٰ البم میں تصویر دیکھ رہی تھی ۔ اس تصویر میں سفیان نے آنکھوں پر شعیب کا چشمہ لگایا تھا ۔ چشمہ بڑا تھا ۔ سفیان کا چہرہ چھپ گیا تھا مگر وہ مسکرائے جارہا تھا ۔
’’ لیلیٰ ۔ ‘‘ شعیب نے اسے پکارا ۔
’’ جی ۔‘‘ وہ چونک کر شعیب کو دیکھنے لگی ۔
’’میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ لیلیٰ نے اسے کہتے سنا ۔
٭٭ …٭٭
معید حیدر پہلے سے شادی شدہ تھا ۔ اس کی بیوی عمر میں اس سے بڑی (سولہ ماہ بڑا ہونے کو معید یوں بڑا ہونا کہتا جیسے سولہ سال ہوں ) اور بدصورت تھی ۔ اس لیے اسے پسند بھی نہ تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا تھا مگر قسمت جس لڑکی سے شادی کا خواہش مند ہوتا وہ نہ مانتی ۔ عمر بھی پچاس کے قریب تھی مگر یوں چہکتا پھرتا جیسے پچیس سال کا نوجوان ہو ۔ آفس میں حنا سے پہلے اسے نے امبر کو پرپوز کیا ۔ امبر نوعمر لڑکی تھی ۔ غریب تھی مگر ایسی لالچی نہ تھی کہ دولت کے لالچ میں اپنی سے دوگنی عمر کے آدمی سے شادی کرلیتی ۔ امبر نے یہ بات چٹخارے لے لے کر پورے آفس کو بتائی ۔ معید کے کانوں تک تک پہنچی تو وہ اور زیادہ چہکا ۔ وہ مرد تھا کہہ سکتا تھا ، کہہ رہا تھا ۔ ایسی باتوں سے مردوں کو گزند نہیں لگتے ‘ امبر نہیں تو حنا ۔
حنا دوسرا انتخاب ٹھہری ( اس آفس میں ورنہ اس سے قبل … ) یہاں تک کہ حنا نے کہیں اور ملازمت شروع کردی ۔ پھر بھی وہ اس سے رابطے میں رہا ۔ آخر حنا دوسری شادی کے لیے اچھا آپشن تھی ۔ اور اب تو وہ ہاں بھی کہہ چکی تھی ۔
اور معید حیدر کے بارے میں جان کر زینب اچھنبے سے حنا کو دیکھنے لگی ۔
’’ تو تم ایسے آدمی سے شادی کروگی ۔‘ ‘ حنا کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ آن ٹھہری ۔ اس کی شادی کسی ایسے ہی شخص سے تو ہوگی ۔ نہیں تو کیا وہ کتنا عرصہ اس گھر میں بیٹھے ۔ یوں بھی گھر کی نئی ملکہ صاعقہ بھابھی کی آنکھیں ماتھے پر تھیں ۔
’’ میرے لیے تو ایسے ہی رشتے ملیں گے ۔ ‘‘ اس نے حقیقت پسندی سے کہا ۔ تبھی صاعقہ کمرے میں آئی ۔
’’ تمہاری کوئی سہیلی ملنے آئی ہے ۔ڈرائنگ روم میں بٹھایا ہے ۔‘‘ صاعقہ کہہ کر جانے لگی ۔
’’ میری کون سی سہیلی ؟ ‘‘ حنا کو حیرت ہوئی ۔
’’ میں کیا جانوں ۔‘‘صاعقہ نے بیزاری سے کہا اور باہر نکل گئی ۔
حنا بہنوں کو دیکھتی اٹھی اور ڈرائنگ روم کی جانب بڑھی ۔ اسے دروازے پر ہی رک جانا پڑا ۔ سہیلی کو دیکھ کر وہ پتھر ہوگئی تھی ۔
’’ میں لیلیٰ ہوں ۔ ‘‘ لیلیٰ اس سے ملنے آئی تھی ۔
٭٭ …٭٭
نکاح کے وقت افتخار اور ذوالفقار ایک ساتھ کھڑے تھے ۔
وہ دونوں مختلف فرقوں کے پیروکار ہیں ۔ اس سمے ان دونوں کو یاد نہ تھا ۔ تقریب کے لیے مہمان ہی کتنے مدعو تھے ۔ گھر کے افراد یا بہت قریبی عزیز اور ان کے علاوہ عمر ۔ شعیب کا دوست ۔
’’ دوست نہیں بھائی ہے میرا ۔‘‘ شعیب نے کسی بات کے جواب میں کہا تھا ۔
’’ تو پھر اپنے بھائی کے لیے بھی دعا کرو کہ تمہاری طرح اس کی بھی دوسری شادی ہوجائے ۔‘‘ سب قہقہے لگانے لگے ، سوائے صنم کے ۔ وہ شوہر نامدار کو گھور گھور کر دیکھتی رہی مگر عمر ایسے بیٹھا رہا جیسے انجان ہو ۔
’’ خبردار جو تم نے دوسری شادی کا سوچا ۔ سینے میں خنجر گاڑدوں گی ۔‘‘ تنہائی میسر آئی تو صنم نے عمر کو تنبیہ کی ۔ عمر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے ۔
’’ میں جانتا ہوں ہر کسی کا نصیب شعیب کی طرح تھوڑی ہوتا ۔‘‘ اپنی بات پر وہ خود ہی ہنسنے لگا اور صنم نروٹھے سے اسے دیکھتی رہی ۔
اور لیلیٰ جس کا خمیر کشمیر کی وادی سے تھا ۔ وہ مطمئن سی دکھتی تھی ۔ آج اس نے بھی اپنا وہ انگوری عروسی لہنگا زیب تن کیاتھا ۔ لہنگا تنگ ہوچکا تھا مگراس نے پھر بھی پہن لیا ۔
صبر … یہ وہ نعمت تھی جس کی چاشنی سے اللہ نے اسے نوازا تھا ۔ تب جب اس کا سارا خاندان عدم کا مسافر ہوا ۔ تب جب اس کا سفیان اس دنیا میں نہ رہا ۔ زندگی کی بے ثباتی سے یوں آگاہ ہونے والی لیلیٰ نے بڑھ چڑھ کر اس نکاح کے لیے کوششیں کی ۔
’’میں نے اس زندگی میں بہت دکھ دیکھے ہیں ۔ میرے والدین اور بہن بھائی سب دیکھتے ہی دیکھتے مٹی کا حصہ بن گئے ۔ میرے ہاتھو ں میں میرے بیٹے نے دم توڑ دیا ۔ ‘‘ اس کی آنکھیں نم ہوگئیں مگر اس نے بات جاری کی ۔ یہ تب کی بات تھی ہے جب وہ حنا سے ملنے آئی تھی ۔ اور اس کے سامنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی ۔
’’میں شعیب کی بیوی ہوں گوکہ وہ مجھے بہت عزیز رکھتا ہے اور محبت بھی کرتا ہے مگر تم اس کی پہلی محبت ہو ۔ میں نے اپنی اذدواجی زندگی کے سال تمہارا تذکرہ سنتے گزارے ہیں ۔ میری اور شعیب کی باتوں سے تمہارا ذکر نکال دیا جائے تو پھر باتیں ہی کتنی رہ جائیں گی ۔ ‘‘ حنا یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔
کیا کوئی عورت محض اس لیے اپنے شوہر کی وکالت کرسکتی ہے کے اس کا شوہر اپنے محبت پالے ۔ کیا کسی عورت کا دل اتنا بڑا ہوسکتا ہے کہ وہ خود سے اپنے شوہر کی دوسری شادی کی باتیں کرے ۔ اور دوسری شادی کی وجہ بھی کیا ہو ۔ محبت … محض محبت اور کوئی مادی وجہ نہیں ۔ شاید کچھ لوگوں کے لیے محبت محض نہیں ہوتی ۔ اور شائد دنیا میں اتنے اچھے لوگ بھی بستے ہیںکہ ان کی اچھائی کو ناپا نہیں جاسکتا ۔
’’جو ہوا اسے قسمت سمجھ لو اور نئی زندگی شروع کرو ۔ اور شعیب کے لیے ہا ں کہہ دو ۔ ‘‘ لیلیٰ اور حنا آمنے سامنے بیٹھی تھیں ۔ لیلیٰ اپنی جگہ سے اٹھی اور حنا کے ساتھ آبیٹھی اور اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
’’ مان جائو ۔ ‘‘ لیلیٰ التجا کررہی تھی ۔
حنا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔ وہ کیسے نہ مانتی ۔ وہ آج خود کو بھی شعیب کی ملکیت سمجھتی تھی ۔ وہ آج بھی اس شعیب سے محبت کرتی تھی ۔ وہ آج بھی جذبۂ محبت کے سامنے بے بس تھی ۔
یہ جذبۂ محبت
ہے کیسی یہ عادت
جس کے بنا
لگے سب کچھ ادھورا
حنا رونے لگی ۔
’’ شعیب سے کہنا وہ بہت برا ہے۔ اور میں اس سے نفرت کرتی ہوں ۔‘‘ حنا روتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔اور لیلیٰ روتے ہوئے مسکرانے لگی ۔ وہ اس فقرے کا مفہوم سمجھتی تھی ۔
’’ اوہ مس انگور ۔ ‘‘ نادیہ نے اسے پکارا تو وہ اپنے خیالات سے چونکی ۔
ماموں اس سے اور شعیب سے سخت ناراض تھے ۔ اس سے اس لیے کہ وہ کیوں خالہ بنی نکاح میں پیش پیش ہے اور شعیب سے اس لیے کہ وہ کیوں دوسرا نکاح کرکے ان کی بیٹی جیسی بھانجی کا حق مار رہا تھا ۔ وہ اپنی جگہ حق بجانب تھے ۔ پاکستانی معاشرہ دوسرے نکاح کو معیوب نظروں سے دیکھتا ہے۔ اور انہوں نے ساری زندگی اسی معاشرت میں گزاری تھی حالانکہ دوسرا نکاح کوئی جرم نہیں ۔ ابتدائے اسلام اور اب بھی دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں عقد ثانی معمول کی بات ہے ۔ جب لیلیٰ انہیں تقریب کا بلاوہ دینے گئی تو سخت مشتعل ہوئے ۔ وہ مسکرانے لگی ۔ اس کی محبت میں وہ ایسا کررہے تھے ۔ وقت کے ساتھ ان کی بھی خفگی بھی نہ رہے گی ۔ ماموں ممانی تو نہ آئے اور ماموں نے نادیہ کو بھی آنے سے روکا تھا مگر لیلیٰ کی خفگی اور مسلسل اصرار کے سامنے ٹک نہ پائی ۔
’’جی فرمائیے ،کھانا صحیح طرح کھایا ۔ کچھ منگوائوں ۔‘ ‘ لیلیٰ نادیہ سے کہہ رہی تھی ۔
’’ کھانا میں سیر ہوکر کھا چکی ہوں ۔ اب تم کم از کم مجھ سے روایتی میزبانوں کی طرح برتائو مت کرو ۔‘‘ لیلیٰ کے چہرے کی مسکراہٹ اور کھل گئی ۔نادیہ اس کے چہرے کے اطمینان کو دیکھ کر رہ گئی ۔
’’ یہ لہنگا تمہیں تنگ ہوگیا ہے مس انگور ۔‘‘ نادیہ اس کے لباس کی طرف اشارہ کرنے لگی ۔
’’ جی مگر آج کی تقریب کچھ ایسی خاص ہے کہ میں کچھ اور پہنتی تو نہ جچتا ۔‘‘
’’ اور کیا تم نے ٹیسٹ کروایا ۔‘‘ نادیہ کی آواز مدھم تھی ۔
’’ہا ں ، پوزیٹو ہے ۔‘‘ لیلیٰ کا ایک ہاتھ اپنے پیٹ پر جا ٹھہرا ۔
’’ اللہ سے دعا ہے کہ بیٹا دے میں اس کا نام سفیان رکھوں گی اور مزید کوئی آزمائش مجھ پر نہ اتارے ۔ میں اپنے کسی پیارے کی میت دیکھنے کی طاقت اب نہیں رکھتی کہ صبر بھی آسان نہیں۔‘‘
’’ اللہ مہربان ہے ۔‘‘ نادیہ کہہ رہی تھی ۔
’’اس میں کوئی شک نہیں ۔‘‘
اور پھر رخصتی کا سمے آن پہنچا ۔
’’ میری بیٹی کا خیال رکھنا ۔‘‘ افتخار نے کہتے ہوئے شعیب کے سامنے ہاتھ جوڑدیے ۔
شعیب نے تڑپ کر ان کے ہاتھ تھامے اور ان کے سینے سے جالگا ۔ اور وقت رخصت زینب اور نبیلہ، حنا کے دائیں بائیں تھیں اور وہ بہنوں کے درمیان چلتی آئی ۔ دلاور نے سجی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھنے میںاس کی مدد کی ۔ اور خیر کی دعا مانگی ۔ جو کچھ بھی تھا اب اس کی بہن دوسرے گھر سدھار رہی تھی ۔ اور اسے وہاں خوش و مطمئن رہنا چاہئے ۔
بارات دلہن کو لیے روانہ ہوگئی ۔
دلہن والے گاڑیوں کو دور جاتا دیکھتے رہے ۔
٭٭ …٭٭
بستر عروس پر وہ سجی سنوری بیٹھی تھی ۔ جب شعیب اندر آیااور اس کے مقابل آکر بیٹھ گیا ۔ چند ثانیے خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا۔
’’ کیسی ہو ؟ ‘‘ اس نے نظریں اٹھا کر شعیب کو دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا ۔ اور شعیب اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا ۔
’’ کیا تم مجھے معاف کرچکی ہو ۔ ‘‘ وہ پوچھ رہا تھا ۔
’’ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔‘‘ اور ایک بار پھر خاموشی چھا گئی ۔
’’کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو ۔‘‘
’’میں تم سے کبھی محبت نہیں کروں گی ۔‘‘
’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘
’’میں تم سے نفرت کرتی ہوں ۔‘‘
’’تم اچھی لگ رہی ہو ۔‘‘
’’تم بہت برے لگ رہے ہو ۔‘‘
’’ایسے باتیں کیوں کررہی ہو۔‘‘
’’میں ایسے ہی باتیں کروں گی ۔‘‘ اور حنا کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگی ۔
’’ میں بہت تھک گئی ہو ں شعیب ۔ ‘‘ شعیب نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے تو وہ سسک پڑی ۔
’’پلیز روئو مت ، میں اب تمہارے ساتھ ہوں اور ہمیشہ تمہارے رہوں گا ۔‘‘
’’ اور پھر زندگی میں کبھی تم مجھے طعنہ بھی دوگے کہ میں گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی ہوں ۔‘‘
’’ایسا کہنے سے پہلے میں مرنہ جائوں ۔‘ ‘ پھر شعیب کو کچھ یادآیا اور اٹھا ۔ ہاتھ میں کتاب لیے آیا اور حنا کی گو دمیں رکھ دی ۔
’’ یہ تمہارے منہ دکھائی کا تحفہ ہے ۔‘‘
یہ رنگِ حنا تھی ۔ حنا اس عنوان کو تکے گئی اور شعیب اسے آہستہ آہستہ بتانے لگا کہ اس کے جانے کے بعد اس نے زندگی کیسے گزاری ۔ کہاں کہاں ڈھونڈا ۔ کب کب یاد کیا بلکہ ہر وقت یاد کیا ۔ کلائی کا وہ زخم دکھایا جہاں اس نے کبھی رگ کاٹی تھی ۔
اور پھر حنا نے اسے اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتایا ۔ بس ٹرمینل پر اس کا نہ آنا ، دارلامان ، روپ ، اس کا بالجبر مذہب بدلوانا ، واپس اسی شہر آمد اور بے انت تکلیفیں اور مشکلات ۔ رات بھیگتی رہی اور وہ غم بانٹتے رہے ۔
صبح کے وقت جب وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف رخ کیے ایک ہی تکیے پر لیٹے تھے تب اچانک شعیب اٹھ بیٹھا اور دراز کھنگالنے لگا ۔
’’کیا ہوا ؟ ‘‘ حنا پوچھنے لگی ۔
’’پین ڈھونڈ رہا ہوں ۔‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘ وہ حیرانی سے پوچھنے لگی ۔
’’ تم کچھ ایسی خوبصورت لگ رہی ہو کہ کچھ لکھنے کا دل چاہ رہا ہے ۔‘‘ کاغذ مل گیا تھا اور پین کی تلاش جاری تھی
’’رکیے ، یہ لیجئے ۔‘‘ حنا نے پانئتی پر اپنا عروسی پرس اٹھایا اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی ۔ شعیب مڑ کر اسے دیکھنے لگا ۔ وہ پین شعیب کی طرف بڑھا رہا تھا ۔
’’ عروسی پرس میں بھلا کون دلہن پین رکھتی ہے ۔‘‘ وہ ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ پین پر اس کی نظرپڑی ۔ وہ لمحوں میں پہچان گیا ۔ یہ وہی مونٹ بلینک کا پین تھا جو یونیورسٹی لائف میں ذوالفقار نے اسے تحفتاََ دیا تھا ۔ اور بعد ازاں حنا کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے اس نے پین حنا کو دے دیا تھا ۔
’’ یہ توو ہی پین ہے ۔‘‘
’’ہاں ‘ تمہاری نشانی سمجھ کر سنبھال کر رکھا ۔‘‘ شعیب کے چہرے پر مسکراہٹ جگمگا اٹھی ۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘
’’نہیں میں کبھی تم سے محبت نہیں کروں گی ۔‘‘ شعیب ہنسنے لگا اور حنا منہ بسورنے لگی ۔
’’ چلو یونہی سہی ۔‘‘ شعیب نے کاغذ سامنے کیا اورنظم لکھنے لگا ۔
اور اس انجام بخیر پر ابن اسحق نے اپنا قلم روک لیا ۔
اگر میں کہہ دوں کہ تم حسیں ہو
کسی فلک پر چمکتے چاند اور ستارے جیسی
تو میرا بالکل یقیں نہ کرنا
میرا یوں کہنا
تمہاری تعریف میںانہی بے سوادلفظو ں ،ضعیف جملوں سے نظم لکھنا
بہار
گلشن
برستی بارش
سیاہ بادل
یا اس طرح کے سبھی اشاروں سے کام لینا
تمہارے حسن وجمال کے خدوخال کے آگے ایک بھونڈا مذاق ہوگا
وہ جھوٹ ہوگا
سو میرا بالکل یقیں نہ کرنا
کہ سچ تو یہ ہے تمہارا حسن وجمال قدرت کے سب حوالوں سے ماورا ہے
تمہیں تراشاگیا ہے جس سے
سبھی زمانوں کے کوزہ گر ایسی مٹی کی کھوج میں ہیں
طویل سنجیدگی کے بعد
ایک پل اچانک سے مسکراکرتمہارا کون و مکاں کے کینوس میں رنگ بھرنا
مصوروںکی ،خلانوردوں کی عقل سے بالاتر ہے جاناں
ہوائوں میں، کہکشائوں میں
ساری کائنات کی وسعتوں میں
تمہارا اپنا ہی گھر ہے جاناں
تمہاری خوشبوکا استعاراتلاش کرنے کو
غوطہ زن اس جہاں سے باہرکسی سمندر کی تہہ سے نایاب پھول چننے گئے ہوئے ہیں
میں منتظر ہوں
وہ لوٹ آئیں
تو تم پہ تازہ غزل کہوں گا
میں پھر جیوں گا۔
ختم شد