مکمل ناول

رنگ حنا : آخری حصہ

اور پھر باقاعدہ طور پر ایک تقریب منعقد ہوئی ۔
یہ اتوار کا د ن تھا ۔ عبادت گاہ کی زیبائش یوں تو عام دنوں میں بھی دیدنی تھی لیکن جو تھوڑی کمی روپ کو لگی اس نے آرائشی سامان سے مزید سنوار دی اور اب تو سج دھج آنکھوں کو خیراں کرتی ۔ وہ سفید کپڑو ں میں ملبوس تھی ۔ سفید فراک جس پربنفشی پھول کڑھے تھے ۔ سر میں بھی کچھ بنفشی پھول اٹکے تھے ۔ جوتا سفیدتھا ۔ یہاں تک کہ روپ نے اسے بنفشی دستانے بھی پہنائے تھے ۔ پیشوا کے سامنے بیٹھی وہ کلمات دہرائے جاتی ۔
’’ میں تسلیم کرتی ہوں … ‘‘ جو جوپیشوا نے کہا اس نے دہرایا ۔
’’ تم خوش قسمت ہو کہ سچائی نے تمہیں اپنا لیا ۔ جہنم کی آگ ہمیشہ تم سے دور رہے گی ۔ ‘‘ پیشوا اسے بشارتیں سنانے لگے اور پھر روپ ایک تھال جس کے اوپر سرخ مخمل رومال پر ایک مذہبی لاکٹ سجا تھا ، لیے آئی اور ایک خاتون نے لاکٹ اس کے گلے میں پہنادیا ۔
اس نے لاکٹ کو گلے کی زینت بنتے دیکھا اور اپنے سانسوں کے زیرو بم کے ساتھ اسے حرکت کرتے ۔
’’ ہر کسی نے اپنے گفتار اور کردارکا بوجھ خود اٹھانا ہے مگر ہمارے گروہ پر الگ رعائیتں ہیں … ‘‘ پیشوا وعظ کرتے رہے اور وہ سنتی رہی ۔ وعظ کے بعد دعا ہوئی ۔ دعا میں خاص طور پر اس کا نام لیا گیا اور پھر اس کے سچے اور سیدھے راستہ اپنانے پر خوشی کا اظہار کیا جانے لگا ۔
’’ جب تم ہائوس میں آئی ، میں تبھی سمجھ گئی کہ یہ تم نہیں بلکہ رہنما تمہیں لایا اور دیکھو آج تم خوش قسمت ہو ۔ ‘‘ الیکا میڈم نے اسے مبارکباد دی اور تحفہ دیا ۔ یہ تحفہ کچھ اور نہیں مقدس کتاب کے نئے ایڈیشن کا نسخہ تھا ۔
وہ ہاتھوں میں نسخہ لیے ہاتھوں کی پوروں سے محسوس کرنے لگی ۔
صبح کی تلاوت اس کے معمول کا حصہ تھی ۔ کبھی چھوٹ جائے تو اور بات تھی ورنہ وہ ضرور تلاوت کرتی ۔ صبح کی تلاوت وہ اب بھی کیا کرے گی ۔ بس کتاب ہی تو بدلی ہے قرآن مجید کی جگہ یہ مقدس کتاب ۔
جیسے وہ خود بدلی ۔
گھر سے بے گھر ہوئی تھی ۔
ہاتھ کی انگلیوں سے وہ کتاب کو محسوس کرتی رہی ، یہاں تک کہ تقریب اختتام کو پہنچی اور وہ روپ کی قیادت میں اپنے کمرے میں آئی ۔
کیا یہ نئے سفر کا آغاز تھا ؟ یا پھر سفر در سفر کا حصہ ۔ جہاں اس نے پڑائو کیا تھا ۔
٭٭ …٭٭
جس طرح ابتداء میں حنا نے مزاحمت کی اور اگر وہ اسے کچھ بتانے لگتی تو و ہ مدلل اسلامی عقائد بیان کرنے لگ جاتی ۔ روپ کو لگا کہ وہ کبھی ان کا مذہب قبول نہ کرے گی تاوقتیکہ زبردستی کی جائے ۔ یہ دارلامان جسے یہاں کی انتظامیہ ہائوس کے نام سے پکارتی تھی ،مشنری کا حصہ تھا ۔ مغربی آسودہ حال ممالک فنڈنگ کرتے اور وہ اسلامی ممالک میں اپنی شناخت بنانے کی سعی کرتے ۔ این جی اوزکی خفیہ پالیسیوں میں یہ شامل تھا کہ غریب بے سہارہ لوگوں کو امارت کا لالچ دے کر ان کے مذہب کی طرف راغب کیا جائے اور وہ کسی حد تک کامیا ب بھی تھے ۔ پانچ سالوں میں ایک پورا مسلمان خاندان ان کا حصہ بنا تھا ۔ اور اوسطاََ پانچ سے سات مرد عورتیں ہر سال ان کے پیروکاروں میں شامل ہوتے ۔ صرف مسلمان ہی نہیں قریبی ہندو آبادی میں سے بھی ایک جوڑا ان کی تبلیغ سے سچائی کا حصہ بنا تھا ۔
اور ایسے ہائوس ملک کے بڑے اور مرکزی شہروں کی بجائے نسبتاََ چھوٹے شہروں میں کیوں تھے ؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ بڑے شہروں میں وہ اپنا کام اس قدر جانفشانی سے نہ کرپاتے ، جس طرح چھوٹے شہروں میں کر رہے تھے ۔ اور بڑے شہروں میں ان کو کام کرنے کے سلسلے میں نسبتاََ زیادہ مشکلات پیش آتی اس لیے ان کا محور چھوٹے شہر تھے ۔
بہرحال حنا نے مذہب بدل لیا ۔ یہ روپ کی کامیابی تھی اور شائد خوش قسمتی بھی اور اب حنا پر ویسی پابندیاں بھی نہ تھیں اور نہ ہی اس پر ویسی کڑی نظر رکھی جانے لگی جو ابتدائی دنوں میں تھی۔
حنا کی جاب کی بات چل رہی تھی ۔ کچھ دنوں تک اس نے باقاعدہ جوائننگ دینی تھی ۔ یونہی ایک فرصت کے دن روپ نے اسے بازار چلنے کا کہا تو وہ راضی ہوگئی اور شہر کے مرکزی بازار کا رخ کیا ۔ روپ نے جوتے اور کپڑے لیے ، حنا کو بھی ایک ہینڈ بینگ پسند آیا مگر اس نے پرائس ٹیگ دیکھ کر چھوڑدیا ۔
’’ لے لو ، قیمت زیادہ ہے تو اتنا عرصہ چلے گا ۔ ‘‘ روپ نے اسے مشورہ دیا ۔
’’ ابھی اتنے پیسے نہیں ہے ۔ ‘‘ حنا نے مسکرا کر منع کیا تو روپ نے تحفتاََ دینے کی پیش کش کی ۔ حنا نے انکار کیا مگر روپ نے خرید لیا ۔
’’ اس تہوار پر تمہیں تحفہ دوں گی ۔ ‘‘ وہ منصوبہ بناتی رہی ۔ ایک جوتوں کی دکان پر روپ جوتے بدل بدل کر دیکھ رہی تھی کہ باہر پاپ کارن والاگزرا ۔
’’ پاپ کارن کھائو گی ؟‘‘ حنا نے پوچھا ۔ روپ نے اثبات میں سر ہلایا تو حنا لینے کے لیے جانے کو اٹھی ۔
’’ رکو اکھٹے چلتے ہیں ۔‘‘ روپ نے کہا ۔ ابھی بھی اسے حنا کو اکیلا نہ چھوڑنے کی تاکید تھی ۔
’’ دور ہی نہ چلا جائے ، تم جوتا منتخب کرو میں بس آئی ۔ ‘‘ اور حنا چلی گئی ۔
روپ نے جوتا پسند کیا۔ قیمت ادا کردی مگر حنا نہ آئی ۔
اور اس نے آنا بھی نہیں تھا ۔ دکان سے باہر نکل کر روپ نے نظریں دواڑئیں ، حنا کہیں نہیںتھی ۔ اس کی معمولی سی غلطی سے چڑیا پنجرے میں قید نہ رہی تھی ۔ کوفت سے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ فون ملانے لگی کہ اگر کوئی کاروائی ہوسکے تو کی جائے مگر دیر ہوچکی تھی ۔
٭٭ …٭٭
کہہ دو اللہ ایک ہے ۔
اللہ بے نیاز ہے ۔
نہ اس نے کسی کو پیدا کیا اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ۔
وہ سورۃ اخلاص کا ورد پوری شدت سے کیے جاتی ۔ دل دھڑکا جاتا ۔ ان لوگوں کی اصل قوت کا اسے اندازہ نہ تھا اگر خدانخواستہ اسے پکڑ لیا جاتا تو پھر کیا سلوک کیا ہوتا ۔ اپنے اعصاب کی ڈور پر مکمل دسترس رکھتے ہوئے اس نے خود کو پانا چاہا اور پالیا ۔
بازار میں جو رکشہ ملا اس میں بیٹھ گئی اور وہاں سے بس ٹرمینل ۔ بس ٹرمینل پر جو تیار بس ملی اس میں سوار ہوگئی ۔ بس کے چلنے تک تو اسے یہ خوف لاحق رہا کہ ابھی روپ مردوں کے ساتھ آئے گی اور وہ اسے گھیسٹتے ہوئے لے جائیں گے مگر اللہ کا شکر ایسا کچھ نہ ہوا۔ بس چلی تو اس کی سانس میں کچھ توازن آنے لگا ۔ اور یونہی بیٹھے بیٹھے نظر گلے میں لٹکتے مذہبی لاکٹ پر پڑی تو اسے کھینچ کر اتار اور بس کی کھڑکی سے ہوا سپرد کیا ۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اسے یوں مذہب بدل کر رہنے کی اداکاری کرنی پڑے گی ۔ کہاں اس کے گھر والوں نے فرقے کی بنیاد پر اس کا رشتہ ٹھکرا دیا اور کہاں اسے دنیا والے مذہب بدلنے پر مائل کرتے تھے ۔ تھک کر اس نے آنکھیں موند لی اور سر سیٹ کی پشت سے لگالیا ۔
اور یوں ایک بار پھر وہ اپنے شہر پہنچ گئی ۔
وہ شہر جو سمندر کنارے ہے
جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے
جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے
وہ حنا بتول تھی اور وہ ہمیشہ مسلمان ہی رہے گی ۔ وہ خود کو باور کرواتی رہی ۔ بس سے اتر کر اس نے گہرے سانس لیے اور لائحہ عمل تیار کرنے لگی ۔ اب وہ روتی اور غم زدہ حنا نہ تھی ۔ زندگی کے اس تجربے نے ہی اسے کیا کچھ سکھا دیا تھا ۔ اس نے اب زندگی خود جینی تھی ۔
اعتماد سے اور لگن سے ۔ وہ اپنی رہائش کا سوچنے لگی ۔ اس کے پاس پیسے نہ تھے ۔
مگر … اس نے اپنا ہینڈ بیگ کھول کر اطمینان کیا ۔ سونے کا کنٹھ اور جھمکے موجودتھے ۔ یہ اس کا اپنا زیور تھا جو گھر سے نکلتے وقت اس کے کانوں اور گلے کی زینت تھی ۔ اور اس نے اپنی نئی زندگی کی ابتدا ء انہی کو بیچ کر کی اورایک ہوسٹل میں مقیم ہوئی ۔
وہ پروفیشنل ڈگری ہولڈر تھی ۔ جاب کے لیے ہاتھ پائوں مارے ، دقت تو ہوئی مگر ہمت اس کا سہارا تھی ۔ بلا ٓخر جاب مل ہی گئی اور زندگی گزارنے کا سامان ہو ا۔
ان سالوں میں اس نے تین ادارے بدلے ، اس ہسپتال کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے اسے سال ہونے کو آیا تھا ۔ زندگی بدل گئی ، وقت گزر گیا ، زمانے بدل گئے مگر وہ …
منظر تحلیل ہو کر ابھرا ۔ وہ ہسپتال سے ملحقہ ہوسٹل کے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی ۔ موبائل کی آواز نے اسے متوجہ کیا ۔ اس نے آسمان کی اور دیکھا ۔ آسمان کی سیاہی میں اب جامنی رنگ گھل گیا تھا ۔ دور کسی مسجد سے مئوذن کی آواز آرہی تھی ۔ وہ موبائل کی طرف بڑھی ۔ موبائل سکرین پر معید کا نام جگمگا رہا تھا۔
’’ جی معید حیدر ‘ اس وقت خیریت …‘‘ یہ فون کرنے کا وقت نہ تھا حیرت تو لازمی ہونی ہی تھی ۔
’’میں نے سوچا کہ تمہیں صبح کاذب کا وقت پسند ہے ۔ اس سمے پوچھ کر دیکھوں کیا خبر ہاں کہہ دو ۔ سنا ہے اسی دنیا میں ہی معجزے ہوتے ہیں ۔ کیا خبر آج معجزہ ہوجائے ۔‘‘ معید کی آواز میں خمار تھا ۔
’’کیا تم نے یہی ہانکنے کے لیے فون کیا ہے ؟‘‘
’’میرے دل کی باتوں کو ہانکنا مت کہو ۔‘‘
’’میں فون بند کرنے لگی ہوں ۔‘‘
’’رکو ، رکو تو ۔‘‘ معید نے فوراََ کہا ۔
’’اب کیا ہے ؟‘‘
دوسری طرف چند ثانیے کو خاموشی چھائی رہی ۔
’’کیا مجھ سے شادی کرو گی ؟‘‘ اور یہ سوال معید حیدر پہلی دفعہ نہیں پوچھ رہا تھا ۔
’’ نہیں ۔‘‘ معید نے جب بھی پوچھا حنا نے یہی جواب دیا مگر اب سوچنے لگی کہ نہیں کہنے کا جواز کیا ہے ۔
’’ ہیلو ، کہاں رہ گئی ہو تم ۔‘‘
’’ادھر ہی ہوں ۔‘‘
’’ہاں کہنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ کہہ دو ہاں ۔ میں پھر سے پوچھتا ہوں کیا مجھ سے شادی کرو گی ؟‘‘
’’ ہاں ۔‘‘ اور حنا نے ہاں کہہ دیا۔
’’یہ ہاں سننے کے لیے میں نے کتنا انتظار کیا ، بتانا ممکن نہیں …‘‘ معید کی آواز چہکنے لگی ۔
حنا نے مزید کچھ سننے کی بجائے فون بند کردیا ۔ قبل اس کے کہ معید دوبارہ کال کرتا ۔ اس نے موبائل آف کردیا اور دوبارہ سے کھڑکی میں آن کھڑی ہوئی ۔
چند گہرے سانس لے کر تازہ ہوا کو اندر اتار ا۔
’’صبح بخیر …‘‘ وہ خود سے کہہ رہی تھی ۔
٭٭ …٭٭
ننھے سفیان کی میت کو شعیب نے بانہوں میں بھرا اور تمام مردقبرستان کی اور چلے گئے ۔
لیلیٰ نے نہ روکا ، نہ چلائی اور نہ ہی اسے جھنجھوڑا کہ نہیں میرا بیٹا زندہ ہے اسے مت لے کر جائو ۔ بس روتی رہی اور اس کا یوں بے آواز رونا جیسے دل کاٹ کر رکھ دیتا ۔
’’ لیلیٰ ۔‘‘ ساتھ بیٹھی نادیہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی ۔ دلاسے کے دو بول مگر وہ روتی رہی اور روتی رہی۔
یہ کیسی آزمائش تھی ۔
کیا اس نے ساری زندگی اپنے جان سے پیاروں کو یوں ہی سفر اجل پر روانہ ہوتے دیکھناتھا اور دیکھتے ہی رہنا تھا ۔
اس کی آنکھیں پتھر کیوں نہیں ہوجاتیں ، وہ خود کیوں نہیں مرجاتی ۔ آنکھ سے آنسو بہتے رہے ۔
’’سفیان میرے بیٹے اٹھ جائو ۔‘‘سفیان اٹھنے کا نام نہ لیتا ۔
’’سفیان روٹی کھائو ۔‘‘ سفیان ایک نوالہ نہ لیتا ۔
’’سفیان اب سو جائو ۔‘‘ اور سفیان جاگتا رہتا ۔
’’سفیان دھوپ میں مت کھیلو ۔‘‘ مگر سفیان کھیلتا رہتا ۔
’’اور آج …‘‘ آنسوئوں نے چہرہ تر کردیاتھا ،۔ وہ سر جھکائے روتی رہی ۔
سائنس نے اتنی ترقی کردی ۔ میڈیکل سائنس کہاں سے کہاں جا پہنچی مگر اس کے بیٹے کو دست و قے ہی لے گئے ۔
’’ سفیان …‘‘ اس نے پکارا تھا ۔ درد سے ‘ کرب سے … مگر سننے والا کوئی نہ تھا ۔ اور زاہدہ پر اپنی بہو کا صبر یوں کھلا ۔ ان کا دل چاہا کہ لیلیٰ سے کہیں خوب زور زور سے روئے چلائے ‘ اپنے غم کی شدت کا چیخ چیخ کر اظہارکرے مگر وہ چپکے سے روتی رہی ۔ اس سے زیادہ اور صبر کیا ہوسکتا تھا ۔
انہوں نے ایک گلاس پانی منگوایا ۔ خود اٹھ کر گئیں اور لیلیٰ کی طرف گلاس بڑھایا۔
’’ لیلیٰ پانی پی لو ۔‘‘ آنسو بہاتی لیلیٰ نے سر اٹھا کر ساس کو دیکھا اور نفی میں سر ہلایا ۔ اس نے اب کبھی پانی نہیں پینا یوں ہی پیاس سے مر جانا ہے ۔
’’ امی اللہ سے دعا کریں مجھے بھی اپنے پاس بلالے ۔ یہ درد مجھ سے سہا نہیں جاتا ۔‘‘ وہ ساس کے سینے سے لگ گئی اور روتی رہی۔
جانے کیوں درد مسلسل کا صبرسے کا کنارہ نہیں ۔
’’ بابا مجھے طوطے چاہئے ۔‘‘
سفیان کو قبر میں اتاردیا گیا ۔
’’ تم ماں بیٹا فیصلہ کرلو کہ اصلی چاہیے کہ نقلی ، مجھے بتا دینا حکم کی تعمیل ہوگی ۔‘‘
قبر پر مٹھیاں بھر بھر کر مٹی ڈالی جارہی تھی ۔
’’ دادا ابو میرے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتے ہیں ۔ آپ بھی کھیلا کریں ۔‘‘
قبر کو مٹی سے بھرنے کا کام مکمل ہوا تو گورکن مٹی برابر کرنے لگا ۔
’’ بھئی تمہارے دادا ہی تمہارے ایسے لاڈ اٹھا سکتے ہیں ۔ انہی سے فرمائش کرو ۔‘‘
ذوالفقار ساتھ آ کھڑے ہوئے، اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا ۔
’’ابو ، سفیان کہاں ہے ۔ میرا سفیان …‘‘ شعیب دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ ذوالفقار کے پاس تسلی کے دوبول بھی نہ تھے ۔
٭٭ …٭٭
لیلیٰ خریداری کی کوئی ایسی شوقین نہ تھی ۔ اپنے جوتے کپڑوں کی خریداری تو خود کر آتی مگر گھر کا سامان اور گروسری کے لیے ایک لسٹ شعیب کو پکڑا دیتی اور وہ ہی سامان لے آتا ۔ مگر آج وہ خاص الخاص خریداری کے لیے گئی ۔
واپسی ایک پنجرے کے ساتھ ہوئی جس میں دو طوطے قید تھے۔
پنجرہ لیے وہ آئی اور الگنی کے ساتھ لٹکا دیا۔
’’ لو سفیان طوطے آگئے ۔ اب ان سے کھیلنے کے لیے آجائو ۔‘‘ وہ سفیان کو پکارنے لگی ۔
آنگن کے بیچوں بیچ سفیان کی تین پہیوں والی سائیکل کھڑی تھی ۔ آنگن میں ہی اس ایک جوتے کا پائوں کہیں اور دوسرا پائو ں کہیں پڑا تھا ۔ اور کھلونے بھی ایسے ہی بکھرے پڑے تھے ۔ عجیب بات تھی کہ پہلے وہ ان بکھری ہوئی چیزوں کو سمیٹا کرتی اور اب خود ان کو بکھیرتی ۔ عجیب زندگی تھی ۔ عجیب قرینے تھے ۔
طوطوں نے چہچہاناشروع کردیا ۔ اس کی آنکھیں آنسو ئوں سے بھر گئیں ۔ جلد ی سے اپنے کمرے میں گئی اور سفیان کا وارڈ روب کھول لیا ۔
سرخ شرٹ اور سفید جینز۔ آج کل یہی سفیان کا پسندیدہ سوٹ تھا ۔ موسم سے مطابقت نہ رکھتا اس لیے لیلیٰ پہنانے سے گریز کرتی مگر وہ پھر بھی فرمائش کرتا رہتا ۔ سوٹ لیے اور جوتوں میں بھی سفیان کا پسندیدہ جوڑا لیے وہ آنگن میں چلی آئی ۔
’’ سفیان … ‘‘ وہ پکارنے لگی ۔ چند دن پہلے بھی تو ایسے پکارتی تھی ۔ تب آجاتا تھا تو اب بھی آجائے گا ۔
’’ سفیان ۔ ‘‘ وہ رونے لگی ۔ وہ آخر کیوں نہ آتا تھا ۔
سائیکل ‘ کپڑے ‘ جوتے ‘ کھلونے سب کچھ تھا ۔ بس ایک وہ خود ہی نہ تھا ۔ اچانک اسے لگا کہ سفیان شہتوت کے ٹہنے کے پیچھے کھڑا ہے ۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے گنتی گن رہا ہے ’’ایک… دو …تین … ‘‘جیسے چھپن چھپائی میںباری دے رہا ہو ۔ وہ دوڑ کر ٹہنے کے پیچھے گئی ۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ تھک کر آنگن میں بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔
’’ سفیان میرے بچے ‘ ماما کی جان…‘‘ وہ روتی جاتی اور اس کے کپڑوں کو چومتی جاتی ۔
برآمدے میں بیٹھا بت بنا شعیب لیلیٰ کو دیکھے جاتا مگر خود بھی اتنی ہمت نہ پاتا کہ جاکر اسے سہارا دے ، غم ہی بانٹ لے ۔
’’بیوی کے پاس جائو اور اسے اندر لے آئو ۔‘‘ زاہدہ نے اس سے نرمی سے کہا ۔ بمشکل تمام ہمت اکھٹی کرکے وہ اٹھا اور لیلیٰ کے قریب چلا آیا ۔
’’شعیب میرا سفیان … ‘‘لیلیٰ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر آنسوئوں نے کہنے نہ دیا ۔ شعیب بھی اس کے ساتھ آنگن کے بیچوں بیچ بیٹھ گیا اور اس کا سر سہلانے لگا ۔
’’اللہ نے مجھ سے امی ابو ‘ بہن بھائی چھین لیے میں نے صبر کیا اور اب بیٹا بھی چھین لیا ۔ میں کیسے صبر کروں ۔ ‘‘ وہ روتی رہی کرلاتی رہی ۔ نم آنکھوں سے شعیب اس کا سر سہلاتا رہا کہ دلاسے کے لیے الفاظ نہ تھے ۔ برآمدے میں کھڑی زاہدہ یوں لٹے پٹے بہو بیٹے کو دیکھتی رہی ۔ اور الگنی پر ٹنگے پنجرے میں قیدطوطے چہچہاتے رہے ۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر ۹
انجام بخیر
اور پھر شعیب اس سے ملنے آیا ۔حنا جانتی تھی کہ وہ ملنے آئے گا ۔ اس وقت وہ کچھ دفتری امور میں مصروف تھی ۔ شعیب کو لگ بھگ آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا ۔ وہ کام کے دوران گلاس وال سے اسے دیکھتی رہی ۔ وہ سرجھکائے بیٹھا فرش کو تکتا رہا ۔ اور جب وہ فارغ ہوئی اور اس کا ہم منصب ساتھی اپنے کیبن میں جا بیٹھا تو اس نے ملازمہ سے شعیب کو اندر بلانے کا کہا ۔ شعیب رفتگی سے اٹھا ۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آیا اور شیشے کا دروازہ دھکیلتا اس کے مقابل تھا ۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ جانتی تھی کہ زندگی میں کبھی نہ کبھی وہ دونوں مقابل آئیں گے ۔ اس کا دل کہتا تھا کہ زندگی میں ایسا لمحہ ضرور آئے گا جب ان کی ملاقات ہوگی ۔
’’ اور میں پہچاننے سے انکار کردوں گی ۔‘ ‘ اس نے ہمیشہ یہی سوچا تھا ۔
’’ وہ اگر تعارف کرائے گا یا کچھ یاد کروانے کی کوشش کرے گا تب بھی اجنبیت دکھائوں گی ۔‘‘ اس نے بار بار خود کو باور کروایا تھا ۔ لیکن برسوں بعد جب چند دن پہلے ملاقات ہوئی تب بھی اور آج بھی وہ کوئی لاتعلقی ، کوئی اجنبیت نہ دکھا پائی ۔
وہ زیادہ نہیں بدلا تھا ۔ پہلے چہرے کی زینت مونچھیں ہوا کرتی تھیں ۔ اب مونچھوں کے ساتھ داڑھی بھی تھی ۔ پہلے سے کچھ دبلا دکھتا تھا یا شائد وہ ہی اتنے سالوں دیکھ رہی تھی کہ اسے اندازہ نہ ہورہا تھا ۔
’’ بیٹھو ۔ ‘‘ اس نے کرسی کی جانب اشارہ کیا ۔ وہ چپکے سے کرسی دھکیلتا بیٹھ گیا ۔
کمرے میں خاموشی بسیرا کرنے لگی اور یہ خاموشی طول پکڑتی گئی ۔ وہ دونوں کچھ یوں خاموش تھے جیسے کہنے سننے کے لیے کچھ نہ ہو ۔
’’تم پر ہرا رنگ جچتا ہے ۔‘‘ ماضی کے دریچوں سے صدا ئیں آنے لگیں ۔
’’ سبھی کہتے ہیں ۔‘‘
’’ سب کے کہنے اور میرے کہنے میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘
’’ آںں ں … ‘‘ ماضی کی حنا کچھ لمحہ سوچتی ۔
’’ نہیں ۔ ‘‘ تان نہیں پر ٹوٹی ۔
’’ جائو میں تم سے نہیں بولتا ۔ ‘‘ شعیب ناراض ہورہا تھا ۔
’’ موبائل میسجز کے جواب تو دوگے ۔ ‘‘ حنا یقین دہانی چاہ رہی تھی ۔ اور شعیب ہنس دیتا ۔
مگر یہ سب تو ماضی کا حصہ تھا ۔ ماضی جو جھوٹ اور فریب تھا ۔
’’ کیسی ہو ؟ ‘‘ بلا ٓ خر شعیب نے پوچھ لیا ۔
’’ ٹھیک ہوں ۔‘‘ وہ بھی دو لفظی جواب دے کر خاموش ہوگئی ۔
’’ تم پر ہرا رنگ آج بھی جچتا ہے ۔ ‘‘ اتفاق سے آج بھی وہ ہرے لباس میں ملبوس تھی ۔
وہ اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھتی رہی ۔ کیا وہ آج بھی اسے باتوں میں الجھائے گا اور بہلائے گا ۔ اسے نفرت ہونے لگی۔خود سے بھی اور سامنے بیٹھے شخص سے بھی ۔
’’ تمہاری بیوی ٹھیک ہے ؟ تمہارے بیٹے کی وفات کا دکھ ہوا ۔ ‘‘ حنا کہہ رہی تھی ۔
’’ نہیں وہ بہت غمگین ہے ۔ ہر وقت روتی رہتی ہے ۔ میں صبر کی تلقین نہیں کرپاتا کہ میں خود کو بھی بے بس پاتا ہوں ۔ ‘‘ اور ایک بار پھر خاموشی آن ٹھہری مگر اس بار وقفہ طویل نہ تھا ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے