مکمل ناول

رنگ حنا : آخری حصہ

’’ نہیں … ‘‘ لیلیٰ نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے کو ہٹنے لگی ۔ قبل اس کے کہ گرپڑتی شعیب نے اسے تھام لیا ۔ ڈاکٹر اور نرس باہر نکلے اور افسوس کا اظہار کرنے لگے ۔
’’پانی کی شدید کمی ۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔‘‘ وہ جانے کیا کہہ رہے تھے دونو ں میاں بیوی سننے اور سمجھنے سے قاصر تھے۔
اگر آنگن میں کچھ پھول کھلیں اور کوئی آندھی ان کو تباہ کر دے ۔ تب اجڑے پودے بھی گریہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ تو انسان تھے۔ مگر زمانے سے عداوت کس انسان کے بس میں ہے۔
’’ میرے سفیان کو کچھ نہیں ہوسکتا ۔‘‘ لیلیٰ دوڑتی ہوئی گئی اور سفیان کے مردہ وجود سے لپٹ گئی ۔
’’سفیان ، سفیان ۔ مما کی جان اٹھ جائو ،سفیان … ‘‘لیلیٰ کی آہ و بکا در ودیوار ہلاتی تھی ۔
حنا نے کچھ لمحے یوں کرلاتی لیلیٰ کو دیکھا اور ایک نظر ساکت کھڑے شعیب کو اور وہاں سے چلی آئی کہ اس کے وہاں ٹھہرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ وارڈ سے باہر نکلی تو مفاہ عامہ کے لیے لگے بورڈ پر نظر پڑی ۔
’’ ننھے پھول مرجھا نہ جائیں ۔ دست اور اسہال بچوں کا دشمن ۔‘‘ ڈاکٹر کی معاون نرس ادھر ہی کھڑی تھی اور اپنی ساتھی سے کہہ رہی تھی ۔
’’ یہ چھوٹے بچوں کا یوں دنیا سے روٹھ جانا ۔ ہائے اللہ آسانیاں فرما۔‘‘نرسیں افسوس کررہی تھی ۔
٭٭ …٭٭
یہ ایک تاریک رات تھی ۔ اس سے بھی زیادہ تاریکی کمرے کو اپنے حصار میں لیے ہوئی تھی۔ اپنے بستر پر لیٹی حنا کی نگاہیں اس اندھیرے میں ساکت تھیں ۔ بیتے ہوئے نو سال اور وہ …
اور نو سال بعد اس نے شعیب کو دیکھا اور دیکھا بھی کس حال میں ۔
’’ ان نو سالوں میں میں نے کیا کیا نہیں سوچا ۔ سوچا تمہاری شادی ہوگئی ہوگی ، بیوی بچے ہوں گے اور تم خوش رہتے ہوگے ۔مگر تمہارا برا کبھی نہیں چاہا ۔ آج تمہیں یوں دیکھ کر…‘‘اس کی آنکھوں میں آنسو ٹھہرنے لگے ۔
’’اور تم نے اپنے بیٹے کو آج اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھا ۔ مجھے افسوس ہے ‘ میں تمہارے غم میں شریک ہوں ۔‘‘ وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرنے لگی ۔
وہ شعیب کو دکھ اور تکلیف میں گھرا دیکھ کر اس کے لیے غمزدہ تھی ۔ اپنی زندگی ، اپنے گزرے ماہ سال ، اپنی تکلیفیں پس پشت چلے گئے کیونکہ وہ حنا تھی اور اس سے محبت کرتی تھی ۔ سچ ہی کہتے ہیں محبت سے جنگ بہتر ہے ، کیونکہ جنگ میں یا تو آ پ زندہ رہتے ہیں یا پھر مر جاتے ہیں مگر محبت یہ آپ کو زندہ رہنے دیتی ہے اور نہ مرنے دیتی ہے ۔
اور اس محبت نے اسے زندہ رہنے دیا تھا اور نہ مرنے دیا تھا ۔ یہاں تک کہ نو سال بیت گئے ۔
کمر ے میں چھائے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس کا دل گھبرانے لگا ۔ وہ اٹھ بیٹھی اور کمرے کی لائٹ جلا دی ۔ کمرہ روشنی میں نہا گیا مگر دل کی گھبراہٹ کم نہ ہوئی ۔ اس نے پانی کی بوتل سے گلاس میں پانی انڈیلا اور غٹ غٹ پینے لگی ۔
یہ ہسپتال سے ملحقہ ہوسٹل کا کمرہ تھا ۔ وہ اس ہسپتال کے ایچ آر (ہیومن ریسورس ) ڈیپارٹمنٹ میں پچھلے ایک سال سے کام کررہی تھی ۔
زندگی کا یہ ٹھہرائو اچھا تھا مگر ناکافی تھا ۔ اور اسے بھی بہتری کی تمنا تھی ۔
’’ اللہ تمہیں اور تمہاری بیوی کو صبر عطا فرمائے ۔‘‘واڑد کے باہر غم کی تصویر بنے مرد وعورت پھر سے پردۂ بصارت پر نظر آنے لگے ۔ اور وہ مرد وہی شعیب ہی تو تھا جس نے اسے دھوکا دیا اور دنیا میں تن تنہا چھوڑ دیا ۔ وہ دربدر ٹھوکریں کھاتی رہی ۔
رات بھر ستارے ٹمٹماتے بھی رہیں مگر چاند کی خواہش کرنے والوں کوستاروں کی روشنی خیراں نہ کرسکتی ۔وہ کھڑکی میں آکھڑی ہوئی اور چاند سے خالی آسمان پر ستاروں کی ٹمٹماہٹ پر نظریں جمادیں ۔ اور یہ ٹمٹماہٹ تو محض جمال ہے ۔ جمال اور خوبصورتی کے ساتھ کہاں زندگی گزرتی ہے ۔ زندگی گزارنے کے لیے کچھ اپنا چاہیئے ہوتا ہے جو پائیدار بھی ہو ۔
اور وہ وہی تھی جس نے اپنے تمام لوگوں کو شعیب کے لیے چھوڑا اور شعیب نے کیا کیا ؟
ستاروں کی ٹمٹماہٹ ڈھلنے لگی ۔ منظر تحلیل ہوکر ابھرنے لگا ۔ اور وہ برسوں پیچھے چلی گئی جب وہ ایسی ہی تاریک نصف شب میں گھر سے نکلی تھی اور بس ٹرمینل پر بیٹھے شعیب کا انتظار کررہی تھی ۔
٭٭ …٭٭
جب رات سے صبح اور صبح سے دوپہر ہوگئی ۔ اور اپنے شکست وریخت کا شکار جسم وروح کو لیے سڑک پر آگئی ۔ قریب سے ایک بس گزری ۔ وہ جان دینے کی نیت سے اس کے نیچے آنا چاہتی تھی مگر جیسے ہی وہ قریب آئی ۔ ڈرائیور نے بریک لگائی ۔
’’آئو باجی اندر آئو ۔‘‘ کنڈیکٹر اسے گاڑی کے اندر آنے کا اشارہ کررہا تھا ۔ اسے بھی کچھ سمجھ نہ آیا تو بس میں سوار ہوگئی ۔ بس مسافروں سے بھری تھی ۔ اسے ایک خاتون مسافر کے ساتھ بٹھا دیا گیا ۔ اور وہ اس بھری بس میں خود کو تنہا پاتی تھی ۔
ہاں وہ تنہا ہی تو تھی ۔
آنسو آنکھوں سے رکتے نہ تھے اور وہ بھی انہیں بہنے دیتی تھی ۔
’’ بیٹی رو کیوں رہی ہو ؟‘‘ خاتون نے شفقت سے پوچھا ۔ وہ نفی میں سرہلا کر آنسو پونچھنے لگی ۔ اس کے پاس بتانے کو کچھ نہ تھا ۔
’’فون ‘کیا ایک کال کرنے کے لیے فون ملے گا ؟ ‘‘ ممکن ہے کوئی مشکل پیش آگئی ہو یاکسی حادثے کا شکار ہوگیا ہو ۔ اور میرے پاس موبائل بھی تو نہیں کہ مجھ سے رابطہ کرتا ۔ دل نے توجیح پیش کی کہ و ہ شعیب کا وکیل ٹھہرا ۔ خاتون نے سر ہلاتے ہوئے فون اس کی طرف بڑھایا اور وہ فون نمبر ملانے لگی ۔ دوسری طرف سے فون بند تھا ۔ جیسے اس پر قسمت کا دروازہ بند ہوا تھا ۔ بمشکل تمام اس نے خود کو رونے سے روکا مگر پھر بھی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے ۔
کیا ہوگی اس کی آئندہ زندگی اور کیا وہ جی بھی پائے گی ۔ آنسو پونچھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے سوچنے کی کوشش کی کہ کیا لائحہ عمل تیار کرے پر دماغ جیسے مفلوج تھا اور کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا تھا ۔ سارا راستہ وہ خود سے لڑتی رہی ‘ خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔ وہ لڑکی ذات ہے اسے خود کو مضبوط کرنا تھا ، اپنی حفاظت کرنی تھی ۔ اس دنیا میں اسے انسان کے روپ میں جانور ملیں گے ، اسے خود کو ان سے بچانا ہوگا ۔ زندگی کی جنگ لڑنا ہوگی ۔
بس ٹرمینل پر پر وہ پان زدہ آدمی یاد آیا تو جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔ کیا پھر کوئی شخص ایسا مل گیا تو وہ کیا کر پائے گی ۔ تب اس نے صدق دل سے والد صاحب اور بھائی کو یاد کیا ۔
والد صاحب جو سایہ شفقت تھے ۔ اسے اپنی ماں سے مشابہ قرار دیتے تھے اور کس قدر محبت سے پیش آتے تھے ۔ گو دلاور سخت تھا ۔ اسے مارا پیٹا بھی تھامگر تھا تو اس کا بھائی، اس کی عزت کا رکھوالا ۔
’’ شعیب کیسے کیسے لوگوں کو تمہارے سہارے چھوڑ آئی اور تم میرے ساتھ کیا کررہے ہو ۔ ‘‘ وہ شعیب سے مخاطب تھی ۔
گاڑی سڑک بیابان میں محو سفر رہی اور دوسرے شہر کے بس ٹرمینل پر رک گئی ۔ تمام سواریاں اتر گئیں تو اسے بھی اترنا پڑا ۔
نیا شہر ، نئے لوگ ۔ وہ پریشان صورت لوگوں کو ادھر سے ادھر گھومتے دیکھتی رہی ۔
’’ باجی کدھر جانا ہے ؟‘ ‘ اس نے رکشہ والے کو دیکھا اور رکشے میں بیٹھ گئی ۔
’’کہاں جانا ہے ۔‘‘ رکشے والے نے دوبارہ پوچھا مگر و ہ اپنی منزل کا تعین کرنے سے قاصر تھی ۔
’’دالامان۔‘‘ بالآخر اس نے کہہ دیا ۔
’’ کون سے دارلامان ؟ ‘‘ رکشہ ڈرائیور پوچھ رہا تھا ۔ تو کیا شہر میں ایک سے زیادہ دارلامان تھے ۔
’’جو سب سے قریب ہو ۔‘‘ اور یوں رکشہ چل پڑا ۔ اور وہ گزرتے مناظر میں بدلے ہوئے شہر کی بدلی ہوئی رنگینیاں دیکھے گئی۔
٭٭ …٭٭
’’ میرے والدین کے انتقال کے بعد چچا اپنے گھر لے آئے ۔ چچی ظالم تھی انہوں نے گھر سے نکال دیا ۔ ‘‘ وہ انتظامیہ کو بتاتے ہوئے رونے لگی ۔
’’پانی پلائو ۔‘‘ انچارج نے ملازمہ سے کہا ۔ ملازمہ گلاس بھر پانی لے آئی ۔ کچھ پانی پیا تو سنبھلی ۔
’’ کہاں سے آئی ہو ؟‘‘ انچارج گہری نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔
’’پڑھی لکھی لگتی ہو ۔‘‘
’’کیا اور کوئی جاننے والا نہیں ۔‘‘
’’ اتنا بڑا شہر چھوڑ کر یہاں کیسے ؟‘‘ انچارج نے اس سے کئی سوال پوچھے اور وہ جوجھوٹے سچے جواب دیتی رہی اور انچارج نے بلا ٓخر یہ بھی پوچھ لیا ۔
’’گھر سے بھاگ کر تو نہیں آئی ۔‘‘ اس سوال کا اس کے پاس رونے کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا ۔ وہ روتی رہی اور انچارج اسے دیکھتی رہی ۔
’’ میں الیکا ہوں۔ ‘‘الیکا اسے اپنے ادارے کے بارے میں اور اصول وضوابط بتانے لگی ۔ یہ ایک پرائیوٹ مگر گورنمنٹ سے رجسٹر دارلامان تھا جو بے سہاراعورتوں کے لیے جائے پناہ تھا ۔ اس کی سربراہی ایک این جی او کے پاس تھی اور وہ این جی او مغربی ممالک کے فنڈ سے چلتی تھی ۔ وہ اپنی تحویل میں لینے والی لڑکیوں کی شادی بھی کراتے تھے اور شادی کے بعد بھی ان کی خیر و عافیت دریافت کرتے رہتے ۔ وہ خاموشی سے سنے گئی ۔
اور یوں وہ اس دارلامان میں میں آبسی ۔ دارلامان صاف ستھرا تھا ۔ وہاں نوعمر لڑکیوں سے لے کر بزرگ خواتین موجود تھیں ۔
’’ میں روپ ہوں ۔ ‘‘ اس کی روم میٹ نے گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ وہ الیکا اور یہ روپ ۔ یہاں رہنے والوں کے نام عام فہم نہ تھے ۔ وہ سوچتی رہی ۔
سامان کے نام پر اس کے پاس ہینڈ بینگ میںدو سوٹ تھا اور کچھ نقدی تھی ۔ گوکہ دارلامان والوں نے اسے بستر اور ضروریات زندگی کی دوسری اشیاء فراہم کی تھی مگر زندگی ایسے تو نہیں گزرنی تھی ۔ اس نے شعیب سے رابطے کی کوشش کی مگر اس کا نمبر ہی بند تھا ۔ وہ روتی رہی اور شکستگی سے تسلیم کر لیا کہ وہ جھوٹا فریبی اور بے وفا ہے ۔ چند دن گزرے تو اسے اپنے کیے پر پچھتاواہونے لگا اور ذہن میں سوچ ابھرنے لگی ۔
’’ مجھے گھر واپس چلے جانا چاہئے ۔ ‘‘ اور یہ سوچ پختہ ہونے لگی ۔
’’ تمہارے پاس تو پروفیشنل ڈگری ہے ۔ تمہیں جاب کرنی چاہئے ۔‘‘الیکا میڈم نے ایک دن اسے بلا کر کہا ۔ وہ سر ہلا کر رہ گئی ۔
’’ اپنے ڈامنٹس جمع کرادو میں تمہاری جاب کا بندوبست کروں ۔‘‘
’’ ڈگری یونیورسٹی سے ریسیو کرنی ہے ۔ میں کل لے آتی ہوں۔‘‘ اور یوں وہ یونیورسٹی کا کہہ کر ایک بار پھر اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگئی ، اپنے گھر کی طرف …
٭٭ …٭٭
اپنی کالونی سے کچھ فاصلے پر ہی اس نے رکشہ رکوا لیا ۔ اپنے وجود کا بوجھ اٹھائے وہیں کھڑ ی تھی ۔
’’ امی ابو ناراض ہوں گے ، دلاور بھائی تو ماردیں گے ۔میں سب برداشت کرلوں گی اور معافی مانگ لوں گی ۔ وہ میرے اپنے ہیں مجھے معاف کردیں گے ۔‘‘ وہ خود کو باور کرواتی رہی ، تسلیاں دیتی رہی اور قدم قدم چلتی گھر جانے والی گلی کی طرف مڑگئی ۔
سیاہ چادر میں اس نے اپنا وجود ڈھانپ رکھا تھا کہ خود کو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھ سکے۔
گھر کے باہر اسے دیگیں پڑی نظر آئی اور مردوں کا ہجوم بھی ۔ اس ہجوم میں اداس اور سنجیدہ سا دلاور بھی کھڑا تھا ۔ دلاور اس کی طرف متوجہ نہ ہوا ۔ یہاں تک کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں اندر گھر کی طرف چلا گیا ۔
’’ بھیا یہ لوگ کیوں جمع ہیں ۔ ‘‘ اس نے پاس سے گزرتے نعیم بھائی سے پوچھا تھا ۔ نعیم بھائی اس کے محلے دار تھے ۔ دو گلیوں کے فاصلے پر رہتے تھے ۔ وہ کچھ عجلت میں تھے اور کچھ حنا نے بھی خود کو ڈھانپ رکھا تھا وہ پہچان نہ پائے ۔
’’ فوتگی ہوگئی ہے ۔‘‘ وہ بتانے لگے ۔
’’ کس کی ؟ ‘‘ حنا کو جیسے دھکا سا لگا ۔
آنکھوں میں سراسیمگی اتر آئی اور پوچھتے ہوئے اس کی زبان اٹکنے لگی ۔
’’ ان کی منجھلی بیٹی ۔ اللہ جنت نصیب کرے پڑھی لکھی لڑکی تھی ۔ ایسی ایسی خطرناک بیماریاں آگئیں ہیں کہ ہسپتال والوں نے میت بھی واپس نہیں کی ۔ ‘‘ وہ بتا کر چلے گئے ۔ اور وہ وہیں کھڑی کھڑی مرگئی ۔ اس کے گھر والے اسے مردہ قرار دے چکے تھے ۔ اس کے مرنے پر لوگ یہاں چاول کھانے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے اور وہ ا ن گھر والوں کے بھرم پر واپس آئی تھی ۔ وہ کیوں بھول گئی تھی کہ گھر سے بھاگ کر منہ کالا کرنے والی لڑکیوں کے گھر والے دنیا کو یہ بتانے کے کہ ان کی بہن بیٹی گھر سے بھاگ گئی یہ بتانا زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں کہ وہ مرگئی ہے۔
وہ خود کو گھسیٹتی وہیں سے واپس مڑگئی ۔ اور نعیم بھائی کو لگنے لگا کہ جیسے وہ اس خاتون کو جانتے ہیں مگر اس کے چھپے ہوئے وجود سے پہچان نہ پائے ہوں ۔ وہ سانس بھرتے ہوئے آگے بڑھے ۔ وہ دلاور کے دوست تھے ۔ دلاور کی بہن کی وفات پر دوست کے غم کو بانٹنے کے لیے وہاں موجود تھے ۔
’’اللہ جوانی کی وفات سے بچائے ۔ مرنے والا مرجاتا ہے اور پیچھے لواحقین صبر نہیںکر پاتے ۔ ‘‘ دلاور کی والدہ کی آہ بکا یاد آئی تو نعیم کے ذہن میں سوچ کے تانے جڑنے لگے ۔
٭٭ …٭٭
اور یوں حنا دوبارہ اسی دارلامان چلی آئی۔
کھلے آسمان تلے وہ یونہی بیٹھی آسمان کو تکے جاتی تھی کہ قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ اور جلدی سے اس نے آنکھیں پونچھیں۔
’’تمہیں ڈھونڈتی آئی ہوں ،یہاں اکیلی چھت پر کیا کررہی ہو ۔‘‘ آنے والی روپ تھی ۔ وہ مسکرا کر پوچھ رہی تھی ۔
’’کچھ نہیں ۔ ‘‘ بمشکل تمام اس نے جواب دیا ۔
’’ تارے گن رہی تھی ؟ ‘‘ روپ لطیف سے لہجے میں خیال آرائی کرنے لگی ۔ جواباََ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا ۔
’’ گن گن کر تھک جائو گی مگر گنتی ختم نہ ہوگی ۔ مجھے تجربہ ہے ۔‘‘ اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی ہنسنے لگی ۔ وہ ہنستے ہوئے اس کے خدوخال دیکھے گئی ۔
‘‘اتنا روتی کیوں ہو ؟‘‘اب کی بار براہ راست پوچھنے لگی ۔
’’ نہیں تو ۔‘‘ نہیں کہتے ہوئے حنا کا لہجہ ایک بار پھر سے بھیگنے لگا ۔
’’ یہ دنیا ہے ۔ دنیا نے تو روح کے ساتھ بے وفائی کی تو کیا تمہیں چھوڑ دے گی ۔ ‘‘ روپ نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور نرمی سے سہلانے لگی ۔ اور حنا نے اس بار اپنے آنسو نہ چھپائے۔
’’ یہ دنیا مجھ پر تنگ پڑ گئی ۔‘‘ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
روپ نرمی سے اس کا ہاتھ سہلاتی رہی اور پھر اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔ کتنے عرصے بعد کوئی کندھا میسر آیا تھا ، کچھ اپنائیت کا اظہار ہوا تھا ۔ اس کے رونے میں مزید شدت آگئی ۔
’’ میرے پاس تمہارے مسائل کا حل ہے ۔‘‘ روپ اس سے کہہ رہی تھی ۔ وہ یونہی روتی رہی ۔
’’ چلو میرے ساتھ ۔‘‘ روپ نے اسے خود سے الگ کیا ۔ اس کے آنسو پونچھے، بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آئی ۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے حنا کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ روپ سے کہے کہ جو زہر وہ پھانک چکی ہے اس کا تریاق ہو ہی نہیں سکتا مگر کہہ نہ پائی ۔ روپ اسے لے کرچھت سے دوسری منزل پر آگئی اور پھر اس نے سیڑھیوں کا رخ کرتے ہوئے پہلی منزل کا رخ کیا ۔ وہ اسے کہاں لے کر جارہی تھی ۔ ان کا کمرہ تو دوسری منزل پر تھا ۔ مفلوج ہوتے ذہن نے سوچنا چاہا مگر وقت کہاں تھا ۔
وہ پہلی منزل پر پہنچ گئیں ۔ پہلی منزل پر ایک ہال کو عبا دت گاہ کا درجہ حاصل تھا ۔ رات کے اس سمے دروازہ بند تھا ۔ روپ عبادت گاہ کا دروازہ کھولنے لگی ۔
’’ روپ … ‘‘ اس نے بے یقینی سے پکارا ۔ اگر روپ اسے عبادت کی طرف متوجہ کرکے غم بھلانے کا مشورہ دے رہی تھی تو بھی غلط تھا ۔ وہ مسلمان تھی ۔ یہ اس کی عبادت گاہ نہ تھی ۔
’’ میں مسلمان ہوں ۔ ‘‘ وہ روپ کو باور کروارہی تھی ۔
’’ میں جانتی ہوں دوست ۔ ‘ ‘روپ کے چہرے پر وہی نرم مسکراہٹ تھی ۔
’’ تم اندر تو آئو ۔‘‘ وہ اندرنہیں آنا چاہتی تھی پر مزاحمت بھی نہ کرپائی اور روپ اس کا ہاتھ تھامے اسے اندر لے آئی ۔
عبادت گاہ کے سامنے کی دیوار پرکچھ ایسی نا مانوس شبیہ تھی جسے وہ محض غیر ملکی فلموں میں دیکھ چکی تھی ۔ روپ مٹھیاں دباکر شبیہ کے سامنے دوازنوبیٹھ گئی ۔ اس نے بیٹھنے سے منع کیا تو روپ نے زبردستی بٹھا دیا ۔
’’ یہ سیدھا راستہ ہے دوست ، تم ایک بار مانگو تو سہی ۔ جو سکون تمہیں یہاں مانگ کر آئے گا ۔ وہ کہیں نہیں آئے گا ۔ تمہارے سارے غم مٹ جائیں گے ۔‘‘ روپ نرمی سے اسے مانگنے پر مائل کررہی تھی اور بار بار ہاتھ اٹھا کرمٹھیاں بھینچنے کا کہہ رہی تھی ۔
تب پہلی بار اسے روپ اور اس کے لہجے کی نرمی سے خوف آیا ۔ اور اس خوف نے اس کے پیروں میں ایسی بجلیاں دوڑائیں کہ وہ اٹھی اور دوڑتے ہوئے عبادت گاہ سے باہر نکل آئی ۔روپ شبیہ کے سامنے بیٹھی مسکراتی رہی ۔
٭٭ …٭٭
اور پھر یہ سلسلہ یہیں موقوف نہ ہوا ۔ چلا تو چلتا ہی گیا ۔
’’ میں مسلمان ہوں ۔ ‘‘ و ہ روپ کو باور کرواتی اور وہ جواب میں نرمی سے مسکرادیتی ۔
گفتار کی اہمیت، نیک کردار … روپ اسے تبلیغ کرنے لگی ۔ کبھی باتوں باتوں میں اور کبھی باقاعدہ اپنی مقدس کتاب ہاتھ میں لے کر۔
’’ روپ میں مسلمان ہوں ۔اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتی ہوں ، مجھے مت بتائو ۔‘‘ وہ جھٹلاتی پر روپ نے تو جیسے عزم کرلیا تھا
’’ گناہوں کاخراج پیش کیا جاتا ہے ۔ میں تمہیں اس سنڈے پیشوا سے ملوائوں گی ۔ تم بھی ان کے سامنے اپنے گناہوں کا Confess (تسلیم ) کرلینا ۔ یوں تسلیم کرنا دل کا بوجھ کم کرتا ہے ۔‘‘
’’ میرے دل پر ایسا کوئی بوجھ نہیں ہے ۔‘‘ وہ روپ کو باور کرواتی ۔
’’ اللہ ایک ہے اور اللہ بے نیاز ہے ۔ میں اس کی وحدانیت پر یقین رکھتی ہوں ۔ اپنے گناہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہیں کیے جاتے ۔ ‘‘ حنا روپ کو اپنے عقائد بتانے لگی مگر روپ کے چہرے پر وہی مسکراہٹ جو اسے خوف میں مبتلا کیے دیتی ۔ اتوار والا دن آیا تو حد ہی ہوگئی ۔
اس نے تلخ لہجے میں روپ کوعبادت گاہ جانے سے انکار کر دیا اور بستر پر لیٹی رہی ۔ روپ خاموشی سے چلی گئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا ۔
’’ حنا دیکھو تم سے کون ملنے آیا ہے ۔ ‘‘ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد اس کے کانوں میںروپ کی آواز گونجی ۔ اس نے کروٹ بدل کر دیکھا ۔ روپ کے ساتھ کھڑے آدمی کو دیکھ کر اسے کرنٹ سا لگا ۔
سفید قمیص جو پنڈلیوں تک تھی اور پنڈلیوں سے جھانکتی جینز ، گلے میں مفلر ،گلے میں جھولتی مذہبی علامت اور ہاتھ میں مقدس کتاب کا نسخہ ، چہرے پر فرنچ داڑھی اور ایک نرم مسکراہٹ۔
’’ جب میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہ تم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا تو وہ خود ملنے چلے آئے ۔‘‘ وہ دوپٹا ٹھیک کرکے چہرے پر بیزاری لیے اٹھ بیٹھی ۔
پیشوا اور روپ اس کے سامنے بیٹھے تعلیمات دیے جاتے ۔ اسے گھر ایک بار پھر شدت سے یاد آیا ۔ وہ سمجھتی تھی کہ گھر سے باہر عزت پر ڈاکا مارنے والوں سے ہی بچنا ہوگا مگر یہاں تو لوگ اس کے ایمان پر بھی ڈاکا مارنا چاہتے تھے ۔
’’ شعیب … ‘‘ اس نے پکارا تھا ۔ محبت سے نہیں نفر ت سے ۔
’’ تم یہ پڑھو ، سچائی تمہیں اپنی اور بلا رہی ہے ۔‘‘ فادر ایک کتابچہ اسے پکڑاتے روپ کی رہنمائی میںچلے گئے ۔ اس نے کتابچہ اسی وقت پھینکااور میڈ م الیکا کے دفتر چلی گئی ۔ کمر ہ خالی تھا ۔ ملازمہ نے بتا یا وہ ہفتہ وا ر عبادت میں شرکت کے لیے گئی ہیں ۔ وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی اور ان کا انتظار کرنے لگی ۔ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ۔الیکا جلد آگئی۔
’’ میڈم مجھے کسی مسلمان لڑکی کے ساتھ شفٹ کردیں ۔‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘ اس کیوں کا جواب اس نے بتا دیا کہ کس طرح روپ صبح شام اسے اپنے دین کی تعلیمات دے رہی ہے اور اسے مرتد بنانا چاہتی ہے ۔ وہ مسلمان ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی اور مذ ہب قبول کرلے۔الیکا نے غور سے اس کی باتیں سنی اور جب وہ خامو ش ہوئی تو کہنے لگیں ۔
’’ تو اس میں برائی کیا ہے ؟‘‘
’’ کیا مطلب ؟ ــ‘‘ اسے سمجھ نہ آیا ۔
’’ سچائی تمہیں اپنی اور بلا رہی ہے تو تم کیوں پہلو تہی کررہی ہو ۔ ‘‘ الیکا کے لہجے میں بھی وہی نرمی تھی جو روپ کا خاصہ تھی ۔ حنا کے پیروں تلے سے تو لمحے بھر کے لیے زمین ہی سرک گئی۔
’’ کیا تم نہیں جانتی کہ اس دارلامان میں تم اکیلی مسلمان لڑکی ہو ۔ تم سے قبل ایک مسلمان عورت آئی تھی ۔ اب وہ پیشوا کے رحم کی وجہ سے ان کی پیروکار ہے ۔ کانتا کو بلائو ۔ ‘‘ انہوں نے ملازمہ کو کہا ۔ ملازمہ کی قیادت میں پانچ منٹ کے اندر کانتا صاحبہ آگئی ۔ وہ چالیس پچاس کے درمیانی عمر کی عورت تھی۔
’’ یہ سچا مذہب ہے ۔ اسی لیے تو دنیا میں اس کے پیروکار بڑھتے جا رہے ہیں ۔ میں نے سچائی پالی ، تم بھی پالو ۔ ‘‘کانتا اسے اپنی کہانی سنارہی تھی کہ کس طرح زمانے نے اسے ٹھکرایا اور وہ یہاں آئی ۔ یہاں اس کے زخموں پر مرہم رکھے گئے اور جب اس نے دوسرا مذہب قبول کرلیا تو اس کی بیرون ملک رہنے والے ایک رئیس سے شادی ہوگئی ۔ اب وہ بیرون ملک ہی مقیم ہے اور بے حساب مال و دولت کی مالک ہے ۔ پاکستان تبلیغ کے سلسلے میں آئی ہے ۔
’’ تو تم کب سیدھے راستے پر آرہی ہو ؟ ‘‘ کانتا پوچھ رہی تھی ۔الیکا کی نظریں بھی حنا پر جمی تھی ۔
’’جلد ہی …‘‘ حنا نے خود کو کہتے سنا تھا ۔
٭٭ …٭٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے