مکمل ناول

رنگِ حنا : پہلا حصہ

’’اتنی خوبصورت شاعری ‘ یہ محبت کی آئینہ دار لگتی ہے ۔ کیا کبھی محبت کی ہے ؟‘‘
’’ محبت …‘‘ شعیب نے جھینپتے ہوئے دہرایا ۔
’’نہیں سر محبت کی تو نہیں مگر میری خواہش ہے کروں ۔ لیکن سر کرنا کیا، محبت تو ہوجاتی ہے اورمیرا دل کرتا ہے مجھے بھی محبت ہوجائے ۔‘‘
اس سمے حنا کوریڈور کی سڑھیوں پر بیٹھی اپنی سہیلی سے کہہ رہی تھی۔
’’سدرہ میں کلچر ویک میںشاید نہ آپائوں ۔ میرے بھائی تھوڑے سخت مزاج ہیں وہ تو میری یونیورسٹی کی تعلیم کے بھی خلاف تھے۔ اب میںنہیں چاہتی کہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنوں کہ میرے بھائی کو برا لگے۔‘‘
’’نہیں حنا ، پلیز آجائو ۔ ایک تم ہی تو میری یونیورسٹی کی دوست ہو‘ تمہارے بغیر میں بور ہوجائوں گی۔ پلیز پلیز پلیز…‘‘ حالات اس رخ بہنے کو تیار تھے جس رخ اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جاسکتے تھے۔
٭٭ …٭٭
کلچرل شو کا آغاز ہوچکا تھا ۔ طلباء کی پرفارمنس عروج پر تھی ۔ رنگوں کی یہ انجمن ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑنا چاہتی تھی۔ بیک اسٹیج بیٹھا شعیب خوش تھا ، مطمئن تھا ، شاداں تھا، فرحاں تھا…
اس کی پرفارمنس ایک گھنٹے بعد تھی ۔ وہ آج اپنی وہی غزل سنانے والا تھا جو کہ اس کی پوری یونیورسٹی میں پہچان بن چکی تھی ۔ کئی دفعہ ریہرسل کرنے کے بعد دل میں آیا کہ اکیلے میں ایک بار پھر سے پرفارم کرنا چاہئے ۔ چنانچہ وہ انتظامیہ کو پندرہ منٹ کا کہتا اسٹیج کے پیچھے سے آڈیٹوریم کے عقب میں واقع طول و عرض پر پھیلے گھاس کے قطعے میں چلا آیا اور ٹہل ٹہل کر غزل کے مصرعے دہرانے لگا۔
تیری چاہت کی فصیلوں سے اتر جانا ہے
ہم نے اک روز ہوائوں میں بکھر جانا ہے
اس نے چھائوں سے اٹھاتے ہوئے سوچا ہی نہیں
دھوپ پڑنے پہ مجھے اور نکھر جانا ہے
اک تیری یادوں کا ناسور رہے گا باقی
ورنہ اس دل کے ہر اک زخم نے بھر جانا ہے
جلدی ہوتی تھی جسے گھر سے نکلنے کی کبھی
اب وہ روتے ہوئے کہتا ہے کہ گھر جاناہے
پارسا کتنا ہے کوئی یہ ابھی طے ہوگا
بوڑھا ہوکر تمہیں ویسے بھی سدھر جانا ہے
یوں تو چھوٹی بڑی محفلوں اور کلاس میں کئی دفعہ وہ شعر پڑھ چکا تھا ، غزلیں گا چکا تھا۔ مگر اتنے بڑے مجمعے کے سامنے پرفارم کرنے کا پہلا موقع تھا ۔ وہ خوش تھا اور اپنی بہترین پرفارمنس دینا چاہتا تھا۔
گھاس کے قطعے پر دور سنگی بینچ پر ایک لڑکی بیٹھی نظر آرہی تھی۔
غزل پڑھتے ہوئے ا س نے تھوڑافاصلہ طے کیا تو واضح ہواوہ لڑکی حنا تھی۔
لمحے بھر کے لیے اس کا دل تیز دھڑکنے لگا۔ جانے کیوں اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی تھی۔
وہ نظر انداز کرنا چاہتا تھا مگر نظر انداز نہ کرپایا۔
تھوڑا اور فاصلہ طے کیا تو محسوس ہوا کہ وہ رو رہی ہے۔
غزل کا مصرعہ منہ میں ہی رہ گیا اور وہ پریشانی کا سبب دریافت کرنے کے لیے قریب چلا آیا۔ حنا واقعی رو رہی تھی۔
’’محترمہ کیا میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہوں ۔‘‘ محترمہ جو چہکوں پہکوں رونے میں مصروف تھیں نظراٹھا کر شعیب کو دیکھا ۔ اس کا ہم جماعت شاعر لڑکا پوچھ رہا تھا۔
سرخ کٹورا آنکھیں اور ان سے پھسلتے آنسو ‘جیسے موتیوں سے بھرے کٹورے سے موتی پھسلتے ہوں ۔ شعیب کا دل بے قابو ہونے لگا۔ آنکھیں پونچھتے ہوئے حنا نے دایاں پائوں آگے کیا۔
’’میرا جوتا ٹوٹ گیا۔‘‘ انگوٹھے والی دیدہ زیب چپل یوں ٹوٹی تھی کہ حنا کے لیے چلنا اب ممکن نہ تھا۔
ایک مسکراہٹ شعیب کے لبوں پر بکھرتی چلی گئی ۔ یہ سکول کا زمانہ تھا جب اس کا جوتا ٹوٹا تھا مگر وہ لڑکا تھا اور بہادر بھی تھا ۔ سارا وقت ننگے پائوں گھوما تھااور بالکل پریشان نہ ہوا تھا۔
’’محترمہ آپ پریشان مت ہوں اور پلیز رونا بند کردیں ‘ کچھ کرتے ہیں ۔‘‘ حنا کو تسلی دیتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے؟ کیا اپنا جوتا اتار کر اسے دے ۔ اسے آج بھی ننگے پائوں گھومنے میں کوئی قباحت نہ ہوگی۔
’’آپ میرا جوتا پہن لیں ۔‘‘ مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد کرنا تو اپنا فرض سمجھتا تھا۔
قبل اس کے کہ وہ سٹرپ کھول کر جوتا اتارتا حنا بول اٹھی۔
’’نہیں ‘ نہیں ۔‘‘ بھلا وہ کیسے ایک مردانہ جوتا پہن کر گھوم سکتی تھی۔
’’تو پھر … ‘‘ شعیب سوچنے لگا کیا کیا جائے ۔
سوچتے سوچتے وہ زمین پر کچھ ڈھونڈنے لگا ۔ گھاس کے قطعے پر تو ملنا مشکل تھا ہاں البتہ پتھاروں اور راہ گزر کے کونوں میں … وہ کونوں کھدروں میں ڈھونڈنے لگا ۔بلاآخر اسے ایک کیل مل ہی گیا ۔ یہ زنگ آلودہ کیل تھامگر شکر کہ سالم تھا ۔ ایک پتھر لیے وہ حنا تک آیا اور زمین پر بیٹھ کر اس کے جوتے میں کیل ٹھونکنے لگا ۔ یہ منظر عمر نے دور سے دیکھا اور حیران رہ گیا کہ پریشان صورت لڑکی بینچ پر بیٹھی ہے اور شعیب صاحب اس کا جوتا مرمت کیے دیتے ہیں۔
’’ شعیب …‘‘ عمر نے دور سے ہی آواز لگائی۔
’’یہ لیں آپ کا جوتا ، بس اتنی سی بات تھی ۔ ‘‘ جوتا حنا کے پیر کے قریب رکھا اور ہاتھ جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔
’’شکریہ۔‘‘ حنا کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہ پائی ۔ وہ مڑ کر جاچکا تھا۔
’’کیا کر رہے تھے وہاں؟‘‘
’’یار اس بیچاری کا جوتا ٹوٹا گیا تھا۔‘‘
’’ تو اسے یونیورسٹی میںایک توہی موچی ملا تھا ۔‘‘
’’عمر تمہیں کتنی دفعہ سمجھائوں کہ اگر کوئی انسان مشکل میں ہو تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘
’’موچی صاحب اس مدد کے چکر میں وہاں بیک اسٹیج ہڑبونگ مچی ہے ۔ پانچ منٹ بعد آپ کی پرفارمنس ہے اور آپ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں ۔ میں آپ کو ڈھونڈتا ہی آرہا ہوں اور موبائل بھی یقیناََ آپ کا سائلنٹ موڈ پر ہوگا ۔ کوئی دس بندوں نے سو دفعہ آپ کو کال کی ہے مگر آپ نے فون اٹینڈ کرنے کی زحمت نہیں کی … ‘‘ لڑکے گھاس کے قطعے پر چلتے چلتے دورسے دور ہوتے گئے اور ان کی آوازیں مدھم ہوتی گئیں۔
حنا نے دور جاتے ہوئے لڑکے کو دیکھا اور ایک نظر پیر کے پاس پڑے مرمت شدہ جوتے کو۔ چہرے پر اب کلفت کے تاثرات نہ تھے۔
اور پھر اسے جوتے کے پاس ایک سنہرا پین نظر آیا ۔ اس نے جھک اٹھا لیا ۔ وہ پین اس قدر دلکش تھا کہ بے ساختہ اس پر انگلیاں پھیرنے لگی اور پین کی کیپ میں جڑا نگینہ … یو ں لگتا تھا جیسے ہیرا ہی ہو۔
’’یقیناََاسی سے شاعری لکھتا ہوگا۔‘‘ حنا نے پین اپنے پرس میں ڈال لیا۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر ۳
داستانِ محبت
’’لیٹ ہوگئے یار ، کہیں سر کلاس میں آہی نہ گئے ہوں ۔ ایک تو پروفیسر ظفر لیٹ ہونے پر کلاس میں آنے بھی نہیں دیتے ۔ ‘‘ راستے میں بائیک پنکچر ہوگئی تھی ‘اس لیے دونوں کو دیر ہوگئی۔ دونوں دوست تیز قدموں سے چلتے کوریڈور پار کرہے تھے ۔ کلاس روم کے دروازے پر پہنچ کر شعیب نے اندر جھانک کر دیکھا ۔ پروفیسر صاحب ابھی نہیں آئے تھے ۔ شکر ادا کرتے ہوئے اس نے عمر کو اندر آنے کا اشارہ کیا ۔ جب اس نے دروازے سے اندر قدم رکھا ۔ طلباء اسے کلاس میں آتا دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ پورا کلاس روم تالیوں سے گونجنے لگا۔
یہ کلاس کی طرف سے اپنے ساتھی کو خراج تحسین تھا ۔ اور وہ اپنے ساتھی پر کیونکر فخر نہ کرتے ۔ اگر آج ڈیپارٹمنٹ اور پوری یونیورسٹی میں ان کی کلاس کی تعریفیں ہورہی تھیں تو اس میں شعیب کی کلچرل شو میں ہونے والی پرفارمنس کا بڑا ہاتھ تھا۔
’’شکریہ۔ ‘‘ ہاتھ ہلا کر اس نے شکریہ ادا کیا ۔ اور مسکراتے ہوئے نشست پر جا بیٹھا۔
’’یار تو تو کالج کی سیلیبرٹی بن گیا ہے۔‘‘ عمر نے کان میںسرگوشی کی تھی اور اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
پروفیسر ظفر تشریف لے آئے ۔ کلاس میں اٹھتا شور خاموشی میں تبدیل ہوگیا، پروفیسر سنیئرز اور سنجیدہ مزاج تھے ۔ لیکچر بے انتہائی معلوماتی ہوتا اور طلباء کوشش کرتے کہ ان کا لیکچر مس نہ کریں مگر وہ اپنے لیکچر میں نصاب سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرتے ۔آج انہوںنے بھی اپنی رسم توڑ دی۔
’’کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ کتاب کی آخری صدی ہے ۔ اور کتاب ختم ہوئی تو یقینا نصاب سے پہلے غیر نصابی کتب ختم ہوگی مگر شعیب جیسے ہونہار ایسی بے مثال شاعری کرتے رہے تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو شاعری کو زوال نہ آئے گا ۔‘‘ کلاس ایک بار پھر تالیوں سے گونجنے لگی۔ اور شعیب کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔ یہ پذیرائی ایک انعام ہی تو تھی…
’’بات سنیں … ‘‘ لیکچر کے بعد وہ لائبریری کی طرف جارہا تھا ۔ عمر کسی دوسرے دوست کے ساتھ خوش گپیوں میںمصروف تھا اس لیے ساتھ نہ تھا ۔ تب حنا نے اسے پکارا تھا۔
شعیب نے مڑ کر دیکھا اور نظریں چرا کر رہ گیا۔
’’شکر یہ آپ نے میری مدد کی …‘‘ شعیب نے کوئی جواب نہ دیا نظریں جھکائے کھڑا رہا۔
’’وہ آپ کا پین ادھر ہی رہ گیا تھا ۔ ‘‘ حنا پرس میں ہاتھ ڈال کر پین نکالنے لگی اور اگلے ہی لمحے وہ مونٹ بلینک کا پین جو والد صاحب نے یونیورسٹی کے پہلے دن تحفے میں دیا تھا اس کی طرف بڑھا رہی تھی۔
’’شکریہ میںا س کی گمشدگی پر پریشان تھا۔‘‘ پین لے کر وہ جانے لگا۔
’’آپ بہت اچھی شاعری کرتے ہیں۔‘‘
’’شکریہ ۔‘‘ شعیب نے یونہی رخ موڑے جواب دیا۔
’’کیا اسی پین سے لکھتے ہیں؟‘‘ حنا کے لہجے میں ہچکچاہٹ ضرور تھی مگر جیسے وہ ساری باتیں پوچھ لینا چاہتی تھی۔
’’ یہ پین چند ماہ پہلے میرے والد صاحب نے تحفے میں دیا تھا۔ تب سے اسی سے پین سے لکھتا ہوں۔‘‘
’’یہ پین بہت خوبصورت ہے ۔‘‘
’’جی ۔‘‘ شعیب چلا گیا اور حنا وہیں کھڑی رہی گئی۔
آخر وہ کیوں اس لڑکے سے باتیں کرنا چاہتی ہے ۔ اسے کیا ہوگیا ہے۔ وہ اپنی کیفیت نہ سمجھ پارہی تھی ۔ اس نے خود کو باور کروانا چاہا کہ اس کا بھائی دلاور کتنا سخت مزاج ہے اسے پتہ چل گیا کہ یوں وہ سراہ لڑکوں سے بات کرتی ہے تو وہ دنیا تہس نہس کردے گامگر …
یہ مگر حاوی ہونے لگا اور وہ کسی سوال کا جواب ڈھونڈنے پر قادر نہ تھی۔
یہ کیسا استعارہ ہے
کہ اپنا دل
مجھے اپنا نہیں لگتا
وہ وہیں کوریڈور سے اترتی سیڑھیوں پر ایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور تھک کر آنکھیں موند لیں۔
٭٭ …٭٭
زینب سب سے بڑی تھی۔ پہلی اولاد سے لگائو اور نسبت کچھ اور طرح کا ہوتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے ماں کے عہدے پر فائز کرتی ہے ۔ وہی سب سے پہلے اپنے قدموں تلے جنت ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ شبنم کو بھی زینب خود سے زیادہ قریب محسوس ہوتی اور زینب تھی بھی بڑی ذمہ دار ۔ وہ گھریلو مسائل جو اپنے دیگربچوں سے خفیہ رکھتی زینب سے کہہ لیتی اور اس کے مشورے دل کو لگتے تو ان پر عمل بھی کرتی ۔ اور جب سے زینب کی شادی طے ہوئی تھی شبنم کے دل کو سکون نہ آتا ۔ بوجھل ہوتی طبیعت کے ساتھ وہ خاموشی سے کام نبٹائے جاتی۔
’’کچھ خاموش خاموش رہتی ہو۔‘‘ شادی سے دو راتیں قبل افتخار اپنی نصف بہتر سے پوچھ رہے تھے۔
’’ہاں سوچ رہی تھی‘ جہیز میں کسی چیز کی کمی تو نہیں رہ گئی۔‘‘ شبنم نے بمشکل اپنی آنکھوں کو نم ہونے سے روکا۔
’’کیا صرف یہی بات ہے۔‘‘
’’اور کیا بات ہوسکتی ہے۔‘‘ کہتے ہوئے شبنم رونے لگی۔ اور افتخار صاحب جو اپنی آدھی زندگی اس خاتون کے ساتھ گزار چکے تھے۔ پرسکون سے اسے روتا دیکھتے رہے۔
’’جب بیٹیاں پیدا کی تھیں تو کہاں سوچا تھا کہ ایک دن ہمیشہ کے لیے ان کو خود سے جداکردوں گی ۔ میری زینب عمر بھر کے لیے پرائی ہونے والی ہے ۔ ہائے اللہ میں کیسے سہوں گی۔‘‘ نم آنکھوں کو مسلتے ہوئے شبنم کہہ رہی تھی۔ افتخار زوجہ کے قریب آئے اور محبت سے اس کا سر تھپکنے لگے۔
’’اللہ جب بیٹی دیتا ہے تو صبر کی گٹھری بھی ساتھ عطا کرتا ہے۔ تم فکر مت کرو ۔ یہ صبر کی گٹھری چند دنوں میں کھل جائے گی اور ابھی تو دو اور امانتیں بھی گھر کی زینت ہیں ۔ بس دعا کرو ہماری بیٹیاں جہاں جائیں ، خوش رہیں۔‘‘ یہ باتیں شبنم کو بھی پتہ تھیں ۔ بس وہ کیا ہے نا انسان کو تجدید کی اور دلاسوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ شوہر کی تسلی نے ان کی ہمت بھی بندھائی اور آنکھیں پونچھتے ہوئے انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی۔
دوسرے کمرے میں تینوں بہنیں خاموش بیٹھی تھیں ۔ وہ بہنیں جو بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں مگر جدائی کا سوچ کر بولنے کی ہمت نہ پاتیں کہ کہیں گستاخ آنکھیں آنسو ہی نہ بہانا شروع کردیں۔
’’ جھولا جھولنے چلیں۔‘‘ یہ زینب تھی ۔ مایوں کے پیلے جوڑے میں، ابٹن کی مہک سے بسی۔
’’چلو ۔‘‘ تینوں بہنیں آنگن کی طرف چلی آئیں ۔
آسمان پر موجود پورے سے تھوڑا کم چاند چاروں اور چاندنی بکھیرتا تھا ۔ اس چاندنی میں ٹھنڈک تھی ۔ گرمیوں کو رخصت ہوئے ہفتے گزرچکے تھے مگر سردیاں ہنوز دور تھیں۔
’’کتنے عرصے بعد ہم بہنیں یوں جھولا جھولنے آئی ہیں۔‘‘ جامن کے ٹہنے کے ساتھ بندھے جھولے میں زینب بیٹھ گئی۔ نبیلہ اسے جھولا دینے لگی اور حنا یوں ہی تنے کے ساتھ جڑ کر کھڑی ہوگئی۔
’’اور شاید پھر کبھی موقع ملے نہ ملے۔‘‘ زینب کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
’’رونا نہیں‘ رونا نہیں ۔ تمہیں تو دولہے بھائی کے بارے میں سوچ سوچ کر مسکرانا چاہیے، شرمانا چاہیئے۔‘‘ نبیلہ نے جھولے کی رفتار تیز کی۔
زینب نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھیں اور آس پاس کی چیزوں کو غور سے دیکھنے لگی ۔ جیسے ان کا عکس اپنی آنکھوں میں اتار لینا چاہتی ہو۔ اور یونہی غور کرتے کرتے یادوں کا تسلسل بچپن سے جاجڑا۔ جب ان بہنوں کا دل اسی جھولے میں اٹکا رہتا۔
’’میری باری ‘ میری باری ۔‘‘ نبیلہ تب کافی چھوٹی تھی۔ جھولے پر قابو ہوکر نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ بیٹھ بھی جاتی تو گرجاتی، مگر پھربھی جھولے پر بیٹھنا اسے محبوب ہوتا۔
’’تم چھوٹی ہو ‘ جب بڑی ہوجائو گی تب بیٹھنا۔‘‘ دلاور کہتا۔ تب وہ بھی بہنوں کا بھائی ہوتا یوں کھنچا کھنچا نہ رہتا۔
’’زینب زور سے جھولا دوکہ میں آسمان کو ہاتھ لگا آئوں ۔ ‘‘ حنا کو ہمیشہ سے بلندیوں کو چھونے کی تمنا ہوتی۔
’’زینب۔‘‘ حنا کی آواز نے یادوں کا تسلسل توڑا۔
’’جی ۔‘‘ زینب نے پائوں کی ٹھوکر سے جھولے کو روکا۔
’’میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ اور زینب جو پہلے ہی محسوس کررہی تھی کہ حنا کی سنجیدگی کی وجہ صرف اس کی رخصتی نہیں۔ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
’’جی میری جان کہو جو کہنا ہے۔‘‘ یہ اپنائیت کا اظہار تھا تاکہ حنا جو کہنا چاہتی ہے اس میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔
’’نبیلہ کے سامنے نہیں۔‘‘
’’نبیلہ تم اندر جائو۔‘‘ زینب نے رخ موڑ کر نبیلہ سے کہا ۔ نبیلہ کوئی ایسی بچی نہ تھی کہ اس سے باتیں چھپائی جاتیں ۔ اور نبیلہ نے بھی مزاحمت کرنا چاہی کہ میں نہیں جائو ں گی مگر پھر حنا کی سنجیدگی دیکھ کر چپ ہوگئی۔ اور کچھ کہے بنا وہاں سے چلی گئی۔
’’کہو اب ۔‘‘ جھولے کی رسی سے سر ٹکائے زینب پوچھ رہی تھی۔
حنا نے ایک نظر بہن کو دیکھا اور پھر نظریں چرا لیں۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر الفاظ ہی نہ ملے۔ آنکھوں میں آنسو جمع ہونے میں وقت نہ لگا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔زینب کے د ل کو دھکا سا لگا۔ جھولے سے اتر کر بہن کے پاس آئی اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’کیا ہوا میری بہن یوں رو ئو مت۔‘‘ زینب سر تھپکتے ہوئے دلاسا دینے لگی۔
’’میں ایسا نہیں چاہتی تھی مگر شاید میرے بس میں بھی نہیں ۔ وہ مجھے کیوں اچھا لگنے لگا ہے ۔ میرے پاس کوئی وجہ نہیں‘سب چیزیں پس پشت چلی گئی ہیں اور میں بے بس ہوں اب تو وہ میرے خوابوں میں بھی آنے لگا ہے ۔‘‘ زینب کا ہاتھ لمحہ بھر کو تھما مگر پھر سے حنا کا سر سہلانے لگا۔
’’امی نے کہا تھا میں نے ان کا سر فخر سے بلند کرنا ہے ‘ جھکانا نہیں۔ دلاور بھائی کو الگ تحفظات ہیں ‘ لیکن زینب میں نے کچھ نہیں کیا ۔ مجھے نہیں پتہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ ‘‘ حنا یونہی پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔
’’کیا وہ لڑکا جانتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’لڑکیوں تم وہاں اندھیرے میں کیا کررہی ہو۔‘‘ شبنم کسی کام کے سلسلے میں کچن کی طرف آئی تھی۔ بیٹیوں کو جامن تلے کھڑا دیکھ کر برآمدے سے آواز لگائی۔
’’کچھ نہیں امی بس ایسے ہی چہل قدمی کررہی تھیں۔‘‘ حنا نے آنسوپونچھے اور زینب اس کا ہاتھ تھامے برآمدے کی طرف چلی آئی۔
’’نیندیںپوری کرلولڑکیو، آگے تقریب کی راتو ں میں سونے کا وقت نہیں ملے گا ۔‘‘ شبنم کچن کی طرف چلی گئیں۔
اور زینب حنا کو دلاسا دینے لگی۔
’’سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
٭٭ …٭٭
’’بارات آ گئی ، بارات آگئی۔‘‘ شور گونجا تو رخصتی کے لیے جمع مہمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ مردوں کے لیے قریبی ہمسائیوں کے آنگن میں کرسیاں لگائی گئی تھیں اور عورتوں کے لیے گھر میں ہی انتظام تھا ۔ نبیلہ جو دولہے بھائی کو بارات کے ساتھ دیکھنے کی چاہ رکھتی تھی ۔ حنا کو کھینچتی چھت پر آگئی اور جھری سے بارات کو دیکھتی رہی۔
اسفند ، زینب کے ہم زاد ۔سر پر کلغی ٹوپی رکھے ، سرخ شیروانی میں ملبوس گاڑی سے اترے اور گلی کی اور بڑھنے لگے ۔ بارات کے ساتھ آئے لڑکے بالے دولہے کے گرد اکھٹے ہوگئے ۔ کچھ لڑکوں نے سیٹیاں بجائیں اور کچھ پٹاخے اور پھلجڑیاں پھوڑنے لگے۔ حنانے ایک نظر مجمعے پر دوڑائی اور نظریں ساکت ہوگئی۔اس کا دل زور سے دھڑکا ۔

جاری ہے

پچھلا صفحہ 1 2 3

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے