رنگِ حنا : پہلا حصہ
’’کتنی دیر لگادی کب سے تمہارا انتظار کررہا ہوں۔‘‘ بوجھل دل شعیب اسے اپنے دیر سے آنے کی وجہ بھی نہ بتا سکا۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے وہ یونہی چہل قدمی کرنے لگے۔ سست روی سے چلتے چلتے جب وہ کولڈ کارنر تک پہنچے تو عمر سوفٹ ڈرنک لینے آگے بڑھا۔
’’رکو عمر…‘‘ عمر رک گیا اور استفہامیہ نظروں سے شعیب کو دیکھنے لگا۔
’’یار ان پیسوں سے کولڈ ڈرنک پینے کی بجائے ہم انہیں جمع کرلیتے ہیں اور جب یہ بہت سارے ہوجائیں گے تو کسی غریب کی مدد کریں گے۔‘‘ یہ سب خاموشی سے سننے کے بعد عمر نے اثبات میں سر ہلایا۔اور پھر جاکر دو کولڈ ڈرنک پکڑ لایا۔
’’آج کس غریب کی دکھ بھری داستان سن لی۔‘‘ جواباََ شعیب نے اسے شکوہ بھری نگاہوں سے دیکھا تھا۔
’’مجھے زندگی میں کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آتا جب تم نے میری بات مانی ہو ۔ میں نے نہیں پینا یہ ڈرنک ۔ تمہارا زیادہ دل کررہا تھا تو صرف اپنے لیے لے لیتے ۔ میرے حصے کے پیسوں سے کسی غریب کی مدد ہوجاتی ۔‘‘ یہ سن کر عمر کا دل تو چاہا کہ کہے غریب کی مدد ضرور کر مگر یہ کیا کہ خود پر چند روپے خرچ کرنے سے بھی گریز شروع کردو ۔ مگر وہ اس وقت گفتگو کو بے جا طول دینے سے گریز کررہا تھا ۔ اور یوں بھی یہ گفتگو کونسا پہلی بار ان دونوں کے درمیان ہورہی تھی ۔
’’اچھا آج تو پی لو ۔ کل تمہاری باری ہے ناںتو ان پیسوں سے کچھ نہیں کھائیں پئیں گے ۔ وہ کسی غریب کو دے دیں گے ۔‘‘ اور طویل سانس لیتے ہوئے شعیب نے بوتل پکڑ لی۔
چھوٹے چھوٹے سپ لیتے ہوئے دونوں دوست ایسے ہی چہل قدمی کرتے رہے اور شعیب اسے بلال کی ماں سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتانے لگ۔ عمر اسے سنے گیا ۔ یہ آج کی کہانی نہ تھی ۔ شعیب کا دل ایسا ہی نرم دل تھا ۔ آس پاس کے تمام غریبوں کے حالات پر کڑھتااور اپنی استطاعت سے بڑھ کر ان کی مدد کرتا۔
’’یار اس مادہ پرست دنیا میں اب جب ہر سو استحصال ہورہا ہے اور جب تم ایسی باتیں کرتے ہو مجھے اس دنیا کے ہی نہیں لگتے۔‘‘ لمحہ بھر کو شعیب کو رک گیا اور اچھنبے سے عمر کو دیکھے گیا۔
’’رک کیوں گئے چلو بھی سہی…‘‘
’’تعریف کے لیے شکریہ میرے دوست مگر میرے منہ پر میری ایسی تعریف نہ کرو جو مجھے مغرور بنا دے اور غرور میری اچھائی پر غالب آنے لگے ۔‘‘ عمر نے اسے پیار سے دیکھا۔ اس کا دوست واقعی اس دنیا کا نہیں لگتا اور نہ اس دنیا کی باتیں کرتا تھا۔
’’جو حکم آپ کا۔‘‘ عمر نے بازو سے پکڑ کر شعیب کو دھکیلا اور دونوں ایک بار پھر سے چہل قدمی کرنے لگے۔
٭٭ …٭٭
باب نمبر۲ : یونیورسٹی
’’شعیب ناشتہ ڈھنگ سے کرو۔‘‘ زاہدہ نے ٹوکا۔
’’امی دیر ہورہی ہے۔‘‘ توس کا نوالہ لینے کے بعد اس نے چائے کا بڑا سا گھونٹ بھرا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
’’دیر ‘ نو بجے تمہارا لیکچر ہے اور ابھی سات بجے ہیں۔‘‘
’’اوہ امی ایک تو آپ روایتی امیوں کی طرح برتائو کرتی ہیں ۔ ‘‘ کھانے سے متعلق زاہدہ کی ہدایات کھانے کا حصہ ہی ہوتیں۔
’’ماں کے جذبات ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے ۔ ‘‘ انہوں نے بیٹے کو گھور کے دیکھا۔
’’کیا تم لوگ مجھے اخبار پڑھنے دو گے ۔ ‘‘ یہ ذوالفقار تھے۔
’’بیٹے کا آج یونیورسٹی میں پہلا د ن ہے اور انہیں اخبار کی پڑی ہے۔‘‘ زاہدہ کی بڑبڑاہٹ ناشتے کی میز پر بیٹھے باقی دو نفوس تک باآسانی پہنچی۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ مجھے اپنے بیٹے کے اہم دن کا احساس نہیں ۔ میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے ۔ شاعری بھی بے مثال اور اکیڈمک ریکارڈ بھی بہترین ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ کھانے پینے سے متعلق پریشانی کا اظہار ہی محبت کا ثبوت ہو ۔ اگر اسے یونیورسٹی میں بھوک لگے گی تو وہاں سے کچھ کھا پی لے گا۔‘‘
’’نہ بیٹا وہ کینٹین کے مضر صحت کھانے مت کھانا ۔‘‘ زاہدہ یک دم بول اٹھیں۔ اور شعیب ماں کو دیکھ کررہ گیا۔
’’آپ دونوں ہی روایتی ماں باپ ہیں ۔ ‘‘ موبائل کی بپ بجی ۔ عمر کا پیغام تھا وہ گھر کے باہر اس کا انتظار کررہا تھا۔
’’اچھا چلتا ہوں۔‘‘ وہ بیگ اٹھاتا جانے لگا۔
’’رکو تو ۔‘‘ زاہدہ نے پاس بلا کر بوسہ دیا وہ جانے لگا تو ذوالفقار نے روک لیا۔
’’کیا باپ کا کوئی حصہ نہیں ۔‘‘ وہ قدرے شرمندہ ہوا۔ یونیورسٹی جانے کی جلدی میں وہ آداب ہی فراموش کرنے لگا تھا ۔ ذوالفقار نے شفقت سے اس کے گھنے بالوں پر ہاتھ پھیرا ۔ جوان اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر انہیں اپنی جوانی کے شوخ دن یاد آنے لگے۔
ہاتھ جیپ کی طرف سرکا اور جب نکالا تو اس میں بیش قیمت پین تھا۔
’’اوہ ابو بہت شکریہ ، مگر اس قدر مہنگا پین لینے کی کیا ضرورت تھی ۔‘‘ مونٹ بلینک کا وہ موتی جڑابیش قیمت پین شعیب کے دل کی دھڑکن تیز کیے دیتا تھا۔
’’تاکہ تم اچھے سے لیکچر نوٹ کرو۔ اور جب کبھی شاعری کا دل کرے تو یہ پین تمہارا مددگار ہو۔‘‘
’’بہت شکریہ ابو۔‘‘ وہ مسکراتا ہوا رخصت ہوااور بائیک پر عمر کے پیچھے بیٹھتے ہی اسے پین دکھایا۔
’’واہ اتنا قیمتی تحفہ ، اکلوتے ہونے کے مزے ہیں۔‘‘
’’وہ تو ہے مگر والدین کی حد سے زیادہ توجہ اب تمہیں اپنے کیا دکھ سنائوں…‘‘
شعیب ہنس دیا۔ مسکراتے ہوئے عمر نے بائیک کو کک لگائی اور بائیک زن سے اپنی منزل کی جانب دوڑنے لگی،یونیورسٹی کی اور…
اسی شہر میں سڑکوں کو پارکرتے ‘ سبزہ زاروں سے ہوتے ‘ گلیوں اور گلیاروں سے گزرتے دور ایک گھر میں شبنم اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی۔
’’میں تعلیم یافتہ نہیں ہوں، مگر میں نے تعلیم کو لوگوں کی قسمت بدلتے دیکھا ہے ۔ تم جانتی ہو کہ دلاور تمہاری پڑھائی کے کس قدر خلاف ہے اگر آج تمہارے ابو اور میں تمہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ کل تم ہم ہمارا فخر بنو ۔ کوئی ایسا کام مت کرنا کہ ہمارے کندھے شرم سے جھک جائیں۔ تم سمجھ رہی ہو ناں میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’جی امی۔‘‘ سرجھکائے حنا نے جواب دیااور باہر دلاور بائیک کے ہا رن پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا۔
’’چلو جائو، دلاور خفا ہورہا ہوگا اور یہ رکھ لو۔‘‘ دوپٹے کے پلو سے بندھے نوٹ کو انہوں نے حنا کی ہتھیلی پر رکھا۔
’’اس کی ضرورت نہیں امی ۔ ابو نے جیب خرچ دیا ہے۔‘‘
’’اچھا اب کھڑی مت رہو ، جائو۔‘‘ اور ٹانگوں میں دوڑتی سنسناہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ گلی میں کھڑی بائیک پر دلاور کے پیچھے آبیٹھی۔ کرخت چہرہ لیے دلاور نے کک لگائی اور بائیک منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
دوسری طرف عمر اور شعیب یونیورسٹی کے سامنے تھے اور قبل اس کے کہ عمر بائیک یونیورسٹی گیٹ سے اندر لے جاتا شعیب نے اسے روکا۔
’’رکو ،رکو۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ عمر نے بریک لگائی تو شعیب بائیک سے اتر گیا۔
’’تم چلو میں آتا ہوں۔‘‘ شعیب وہیں یونیورسٹی گیٹ سے باہر کھڑا کامیابی اور نصرت سے متعلق وظیفے دہرانے لگا ۔ عمر نے اسے دیکھا اور دیکھ کر رہ گیا ۔ کچھ کہنے سے اجتناب کرتے ہوئے وہ بائیک اندر لے گیا۔ شعیب گیٹ پر کھڑا زیرلب وظائف دہراتا رہا۔ یہ نہیں تھا کہ آج اس نے پہلی بار یونیورسٹی کی سرزمین پر قدم رکھنا تھا۔ فارم لینے ‘ جمع کرانے کے سلسلے میں اس کے یونیورسٹی میں کئی چکر لگے تھے۔ مگر آج وہ پڑھنے کے لیے آیا تھا۔ اور برکت چاہتا تھا۔ وظائف پڑھنے کے بعد اس نے خود پر پھونک ماری اور اس سے پہلے کہ وہ اندر جاتا ایک بائیک گیٹ کے سامنے آرکی۔ ناراض تیور لیے اس کا ہم عمر لڑکا بائیک چلارہا تھا۔ اور پیچھے بیٹھی لڑکی شکل و صورت سے اس کی بہن لگتی ۔
سبز آنچل چہرے کے گرد ہالہ کیے۔ اور یہ چہرہ اسے کچھ اسیر کرنے لگاکہ وہ لمحہ بھر کے لیے بھول گیا کہ وہ کہاں ہے۔ لڑکے نے غصے سے کچھ کہا تو لڑکی سر ہلاتی یونیورسٹی گیٹ پار کرگئی۔ شعیب مزید اس لڑکی کے بارے میں سوچتا مگر اس نے خود کو سرزنش کی اور یونیورسٹی کے اندر قدم رکھا۔
٭٭…٭٭
اور وہ جوسوچ رہا تھا کہ پہلے دن سے کوئی لیکچر تو ایک طرف پروفیسر کا کہا ایک لفظ بھی نہیں مس کرے گا ، کہاں جانتا تھا کہ یونیورسٹی کا پہلا دن ایسے گزرے گا ۔ زیادہ تر لیکچر خالی گزرے اور جو پروفیسر آئے انہوں نے بھی تعارفی کلاسزلیں۔ لیکچر ہال میں بلاوجہ بیٹھے بیٹھے اکتا گئے تو دونوں دوست لان میں بنے چوبی بنچوں پر آبیٹھے۔ اور جیسے آبیل مجھے مار کی کہاوت پر صد فیصد عمل کیا۔ سینئرز کا ایک ٹولہ آیا اور مرغوں کو جال میں پھنسا لیا ۔ مرغے بیچارے ککڑکوں بھی نہ کرسکے ۔اب دونوں سینئر کے ہاتھ تختہ مشق تھے ۔ اور وہ جو یہ سوچ رہے تھے کہ مرکزی لان ہے سنیئرز تھوڑا لحاظ کریں گے مگر لحاظ کس چڑیا کا نام ہے وہ اس سے ناواقف تھے ۔ سب سے پہلے تو انہوں نے دونوں کی شرٹیں اتروا لیں ۔ یوں کھلے آسمان کے نیچے جہاں لڑکے اور لڑکیاں گھوم رہے تھے اور دوونو ں دوست بغیر شرٹس کے عرق عرق ہورہے تھے ۔ پھر بھونڈے سے انداز میں ان سے ان کا تعارف لیا گیا۔
’’میرا نام شعیب محمود ہے لپ اسٹک لگا کر … میں لپ اسٹک لگا کر گلستان جوہر میں رہتا ہوں … میں نے میٹرک ڈی پی ایس سکول سے کیا اور ایف ایس سی…‘‘
’’بھائی اس نے میٹرک کرتے ہوئے لپ اسٹک نہیں لگائی۔‘‘ ایک چیلے نے سرغنہ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ سرغنہ نے آنکھیں دکھا کر تنبیہ کی ۔ خدا خدا کرکے تعارف مکمل ہوا تو ان سے ٹھمکے لگانے کی فرمائش کی گئی۔ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ان دونوں نے ٹھمکے بھی لگائے ۔ ایک منچلے سنیئر نے جم جوائن کرنے کا مشورہ دیا اور دوسرا کچھ وزن بڑھانے کا کہہ رہا تھا۔ اور وہ شرٹ اتارے جی جی کرتے رہے۔
’’یہ شاعر بھی ہے، شاعری بھی کرتا ہے۔‘‘ شعیب کا دل چاہا عمر کو آج قتل تو کرہی دے۔
ہوہوکار کرتے ہوئے سنیئرز اب اس سے شعر سنانے کی فرمائش کرنے لگے ۔ یوں تو شعیب بھرے مجمعے میں اپنی شاعری سنانا پسند کرتا تھا مگر ایسی انجمن میں ہرگز نہیں۔
’’یہ عمر… اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔ ان لوگوں سے جان چھوٹے تو میں خبر لیتا ہوں۔‘‘ عمر کو کینہ توز نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ اپنا کوئی شعر سوچنے لگا۔ اور جب شعر سنایا تو مجمع ایسا خاموش ہوا کہ کوئی ذی روح موجود ہی نہ ہو۔
ان کہی اپنی لگاتار لکھی میں نے
پھر بھی لگتا ہے کہ بے کار لکھی میں نے
ایک ہی زخم کئی بار دیا ہے اس نے
ایک ہی نظم کئی بار لکھی میں نے
’’یہ تمہارا اپنا شعر ہے؟‘‘ ایک حیرانی میں ڈوبی آواز ابھری۔
’’جی۔‘‘
’’دوبارہ سنائو۔‘‘
شعیب نے دوبارہ سنایا۔ وہ تھے ہی ایسے موتی جڑے الفاظ کہ مسحور کردیتے۔
’’کوئی اور شعر سنائو۔‘‘
’’کیا شرٹ واپس مل سکتی ہے۔‘‘ شعیب کی منمناتی آواز ۔
’’جو کہا ہے وہ کرو…‘‘ لڑکا مزید کچھ کہتا لیکن دوسرے نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کیا اور شرٹ آگے بڑھائی ۔ تن ڈھکنے پر جیسے جان میں جان آئی اور چند گہرے سانس لے کر اس نے اپنی ایک غزل گنگنا کر سنائی ۔ وہ غزل جو اس کے خیال میںاس کی شاعری میں سب بہترین غزل تھی۔ اور لڑکے بت بنے اسے سنتے رہے ۔ جب وہ خاموش ہوا تو تالیاں بجنے لگی۔
یہ ہم نے کب کہا کہ سارا عالم چاہیے تھا
بھری دنیا میں ہم کو ایک ہمدم چاہیے تھا
میں خوش ہوں تم میری بربادیوں پر مسکرائے
مگر اس بات پر ہونا تو ماتم چاہیے تھا
میرے ہر دوست نے دل کھول کر حصہ ملایا
مجھے اک شام رونے کے لیے غم چاہیے تھا
میری دستک کا کوئی دوسرا مطلب نہیں تھا
میرے زخموں کو بس تھوڑا مر ہم چاہیے تھا
مجھے لگتا ہے جتنا پیار دے بیٹھا ہوں اس کو
میرے کم ظرف کو اس سے بہت کم چاہیے تھا
’’بے مثال ۔‘‘
’’لازوال ۔‘‘ بلاشبہ اس کی شاعری انہی تعریفی کلمات کے قابل تھی۔
اور جب یونیورسٹی اوقات کے بعد دونوں دوست بائیک پر بیٹھے گھروں کو جارہے تھے اور اس بار بائیک شعیب چلا رہا تھا۔ شعیب نے عمر سے کہا تھا۔
’’یونیورسٹی میں فولنگ بھی ہوگی یہ تو کبھی سوچا ہی نہ تھا ۔ اور عمر کے بچے تم نے تو مجھے مروا دیا کیوں بتایا کہ میں شاعری بھی کرتا ہوں۔‘‘
’’تیری شاعری نے ہی تو جان بچائی۔ ورنہ جانے کتنی دیر یوں یونیورسٹی میں مسل مین بنے کھڑے رہتے۔‘‘ بغیر شرٹ کے یوں یونیورسٹی کے بیچ کھڑے ہونے کے لمحات ذہن میں آئے تو ہونٹوں پر مسکراہٹ سج گئی۔
’’ویسے شعیب تمہاری شاعری میں کچھ تو ایسا ہے جو بھی سنتا ہے مسحور ہوجاتا ہے۔کچھ چھپنے چھپوانے کا سوچو۔‘‘
’’سوچیں گے ، ضرور سوچیں گے ۔ پہلے یونیورسٹی سے ڈگری تو حاصل کرلیں۔‘‘ شعیب نے ریس دی اور بائیک ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
٭٭ …٭٭
’’لیکچر کیا خاک ہوئے۔ میری قسمت پھوٹی جو پیٹ میں اٹھتے مروڑ پر قابو پانے کے لیے کینٹین کا رخ کرلیا اور وہاں سنیئرز لڑکیوں کے ایک ٹولے نے گھیر لیا سنیئرز بھی کیسے، یونیورسٹی سٹوڈنٹ کم اور کسی بدمعاش کمپنی کے ممبر زیادہ لگتے تھے ۔ ‘‘ حنا کا انداز کچھ ایسا جلا کٹا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی زینب مسکرا دی۔
’’سچ تمہیں سنیئرز نے پکڑ لیاتو پھر انہوں نے تمہاری کیا فولنگ کی ؟ ‘‘ تازہ پڑھے گئے ناول میں فولنگ اور پرانک کے کئی قصے تھے اسی لیے تو نبیلہ کے لہجے میں اشتیاق سمویا تھا ۔ اور نبیلہ کے اشتیاق پر حنا کا اندر تک جل گیا۔
’’بس یہ پرانک کے قصے کہانیوں میں ہی اچھے لگتے ہیں ۔ آج سہے تو ستم ظریفی کا اندازہ ہوا۔ میری توبہ جو اپنی جونئیرز کی فولنگ کروں۔‘‘
’’اچھا اچھا آپ اپنی سادگی اور نیک دلی کے بارے میں بعد میں بات کرنا ‘ ابھی بتائو انہوں نے کیا کیا۔‘‘
’’کیا کرنا تھا ان مسٹنڈیوں نے ، امی نے جاتے ہوئے ایک نیلا نوٹ دیا تھا ۔ میرے پرس سے نکال کر سموسوں پر اڑادیا ۔ ہائے اللہ کبھی ہزار روپے کے بھی سموسے کھائے جاتے ہیں ۔ مگر ان لڑکیوں نے کھائے اور پھر میرے جوتے بھی اتروا لیے۔ پورے ڈیپارٹمنٹ میں ننگے پائوں گھمایا ، ایک بار بھی نہیں دو بار ۔ ‘‘ حنا روہانسی ہوتی تفصیل بتارہی تھی ۔ نبیلہ قہقہہ لگاکرہنس دی زینب نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
باہر برآمدے کے تخت پر بیٹھا دلاور جو اپنی نئی دوست کو محبت بھرے پیغام فارورڈ کررہا تھا، کے کانوں میں بہنوں کے قہقہوں کی آواز پڑی تو تن میں ایسی آگ لگی کہ وہ لمحہ بھر میں بہنوں کے سر پر تھا۔
’’ابھی یونیورسٹی کا پہلا دن ہے اور یہ چلن ہیں۔‘‘ دلاور کا دل چاہا حنا کو تھپڑ ہی جڑ دے۔
’’قہقہے وہ نہیں میں اور نبیلہ لگارہے تھے ۔ تم جائو اپنا کا م کرو۔‘‘ زینب بڑی تھی تو دلاور پر دھونس جمانے کی کوشش کرلیتی ۔
’’ہونہہ، ہم بھی دیکھتے ہیں،یہ بیل کہاں منڈھے چڑھتی ہے۔‘‘ دلاور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا چلا گیا۔
’’اچھا تو یونیورسٹی میں لڑکے بھی ہوگے ۔ ہینڈسم ‘ہینڈسم ۔‘‘ نبیلہ نے شرارتی لہجے میں مدھم آواز میں پوچھا تو حنا کے تخیل میں لمحے بھر کے لیے وہ لڑکاآگیا جو اسے یونیورسٹی گیٹ پر خود پر دم کرتا نظر آیا تھا۔
’’نبیلہ بری بات۔فیس بک اور ناولوں نے تمہارا دماغ خراب کیا ہوا ہے ۔ ابھی دلاور کیسے لہجے میں بات کرگیا ہے ۔ اور اب تم ایسی باتیں کررہی ہو۔ تمہاری سرگرمیوں پر پابندی لگانی پڑے گی ۔ اور حنا میری بہن یہ مت بھولنا کہ تم یونیورسٹی پڑھنے گئی ہو ۔‘‘ زینب بڑی تھی اور بڑے ہونے کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پورا کرتی تھی۔
٭٭ …٭٭
چند دن میں باقاعدگی سے کلاسز کاآغاز ہوگیا۔ وہ تمام طلباء جو اچھا مستقبل چاہتے تھے انہوں نے محنت کرنا شروع کردی ۔ لیکچرز ، ڈسکشنز ، پریکٹیکلز ، کوئز نصابی سرگرمیاں اور غیر نصابی سرگرمیاں۔
اور شعیب تو تھا ہی لاکھوں میں ‘ محنتی ، تابع فرمان ۔ اساتذہ کو عزت دینے والا ۔ لیکچر کے درمیان ایسے نکات اٹھا تا کہ لیکچرارز اور پروفیسر بھی شاباش دیتے ۔ کلاس میں بھی طلباء نصاب سے متعلق اپنے مسائل کے لیے اس کا رخ کرتے ۔
’’شاعری بھی کرتا ہے۔‘‘ جو بھی جانتا حیران ہوتا۔
یونیورسٹی میں مڈ کے بعد کلچرل ویک شروع ہوا۔ ان کی کلاس کے ہیڈ پروفیسر احتشام مقرر ہوئے۔ جوان پروفیسر تھے حال ہی میں بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر آئے تھے۔
کلچرل شو میں حصہ لینے کے خواہش مند طلباء کی آڈیشن طے ہوئی۔
اور جب شعیب نے اپنی تحریر کردہ غزل سنائی تو مجمع لمحہ بھر کو مبہوت سا ہوکر رہ گیا ۔ جب وہ خاموش ہوا تو تالیاں بجاتے ہوئے سب سے پہلے احتشام ہی اپنی نشست سے کھڑے ہوئے۔
’’بہترین جوان، ناقابل یقین کہ تم اتنی اچھی شاعری کرتے ہو ۔ ہمارے درمیان ایک گوہر نایاب چھپا ہے اور ہم کیونکر اس کی دمک سے محروم ہیں۔‘‘ اس تعریف پر شعیب جھینپ ساگیا۔
’’بس سر ‘ اللہ نے صلاحیت دی ہے ‘ دو لائنیں سیدھی لکھ لیتا ہوں۔‘‘ پروفیسر احتشام مسکرا دیے۔
’’جب میں سٹوڈنٹ تھا۔ زیادہ پرانی بات نہیں ، میں نے بھی شاعری کی تھی ، لیکن وہ فنی تقاضوں کو پورا نہ کرتی تھی۔ تم فارغ وقت میں میرے آفس کا چکر کیوں نہیں لگاتے۔‘‘
’’ضرور سر۔‘‘ شعیب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
اور جب وہ فرصت کے لمحات میں پروفیسر صاحب سے ملنے گیا تو وہ بڑے تپاک سے ملے ۔ نشست سے کھڑے ہوکر مصافحہ کیا۔
’’سر شرمندہ نہ کریں۔‘‘
’’نہیں جوان ‘ یہ تکریم مستقبل میں تمہارا مقدر ہے۔‘‘ احتشام مسکرادیے۔ اور یہ ان کی دوستی کی ابتداء تھی ۔ یوں بھی ان کی عمرو ں میں بہت زیادہ فرق نہ تھا۔
’’سر شاعری میرا شوق ہے۔ میں باقاعدہ شاعر تو نہیں مگر زندگی نے وفا کی تو کبھی اپنا مجموعہ شائع کروانے کی کوشش کروں گا ۔‘‘ پروفیسر صاحب کے سوال کے جواب میں شعیب گویا ہوا۔