رنگِ حنا : پہلا حصہ
باب نمبر۱ : نہیں ہیں دونوں اس دنیا کے
گو کہ وقت کی رفتارازل سے یکساں ہے مگر چال کبھی بھی ایک سی نہیں ہوتی ۔ وقت اسی کا ہے جو اس کی قدر جانتا اور کرتا ہے دن مہینوں، مہینے سال اور سال دہائیوں میں بدل جاتے ہیں ۔ ایک نسل کی جگہ دوسری اور دوسری کی جگہ تیسری آ لیتی ہے ۔ اور ان بدلتے موسموں میں یہ احساس بہت بعد میں ہوتا ہے کہ زمانے کے انداز وہ نہیں رہے ۔ وقت کی ان بھول بھلیوں سے گزرتے ہم اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہیں جو شروع ہوتی ہے زمانہ جدید کی ایک گرم دوپہر سے ۔اس لمبی دوپہرمیں دھوپ کی تمازت ہرذی روح کو خود سے دور رہنے پر مجبور کرتی ۔ کبھی کبھی اٹھنے والے ہوا کے جھونکے زندگی کا پتہ دیتے ۔ اور جب یہ جھونکے شہتوت کی ٹہنیوں کے درمیان سے گزرتے تو پتوںمیں سرسراہٹ سی پیدا کرتے ۔ آنگن میں بکھری تیز دھوپ سے پرے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھا شعیب اپنے طالب علم کو پڑھا رہا تھا۔
شعیب … درمیان سے تھوڑا سائڈ پر بالوں کی مانگ نکالے، آنکھوں میں جوش اور کچھ کرگزرنے کی لگن ، نوعمری کے رنگ چہرے پر دھنک بکھیرے وہ بلال کو پڑھاتا تھا ۔ اور آج کا موضوع تھا ۔
’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات‘‘
بلال یہی کوئی چودہ سال کا لڑکا تھا ۔ ایک دکان پر بطور سیلز بوائے کام کررہا تھا ۔ اگر آج وہ آٹھ جماعتیں پاس کرچکا تھاتو اس کی وجہ پاکستان میں رائج آسان طریقہ امتحان اور سرکاری سکولوں میں امتحان میں ہونے والی نقل کی سہولتیں تھیں۔
’’ہندو اساتذہ کا کردار‘ زمینی فاصلہ ، زبان کا مسئلہ …‘‘ شعیب عبادت دہرانے لگا۔
’’ چلو اب تم سنائو۔‘‘ شعیب ، بلال سے کہہ رہا تھا ۔ بلال ہونق چہرہ لیے شعیب کو دیکھنے لگا۔
’’بھائی جان یہ … ہندو اساتذہ کی زبان ۔‘‘ بلال حسب روایت باتو ں کا ملغوبہ بنانے لگا۔
شعیب کے ماتھے پر شکن تو ابھری مگر وہی جوش زندگی اور کچھ کرگزرنے کی لگن…
’’بلال دھیان سے سنا کرو ۔ یہ اتنی مشکل باتیں تو نہیں کہ تم سمجھ نہ پائو ۔ جب 1947 ء میں پاکستان بنا تو مشرقی پاکستان ہمارا حصہ تھا۔ مگر زمینی فاصلہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا، اسی لیے تو مشرقی پاکستان…‘‘ شعیب لمحے بھر رک گیا۔
’’مشرقی پاکستان سے کیا مطلب ہے؟‘‘ بلال کے چہرے کے کورے پن نے شعیب کو کچھ باور کروایا تھا۔ اور بلال جواباََ خالی نگاہوں سے شعیب کو دیکھے گیا۔
’’مشرقی پاکستان یہ … بھائی جان … مشرقی پاکستان آآآآ …‘‘ بلال کی آئیں بائیں شائیں ۔ طویل سانس بھرتے ہوئے شعیب نے اسے بتایا ۔
’’مشرقی پاکستان سے مراد بنگلہ دیش ۔ پہلے بنگلہ دیش بھی ہمارے پاکستان کا حصہ تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ …‘‘ ابھی شعیب مزید کچھ بتاتاکہ رک گیا اور بلال سے پوچھنے لگا۔
’’مغربی پاکستان سے کیا مراد ہے ؟ ‘‘ اور بلال نے تھوک نگل کر بھائی جان کو دیکھا ۔
آج بھائی جان کو کیا ہوا تھاکہ پڑھانے کی بجائے سنے جارہے تھے۔ اب ساری باتیں یاد کرنا تو اس کے بس میں نہیں۔
’’مغربی پاکستان سے مراد سائوتھ افریقہ ۔‘‘ بلال نے سوچ سمجھ کر جواب دیا کہ غلط نہ ہو ۔ اور شعیب پر تو جیسے ساتوں آسمان گرگئے اور بے یقینی سے بلال کو دیکھے گیا۔
’’مغربی پاکستان سے مراد سائوتھ افریقہ ؟‘‘ شعیب نے تصدیق چاہی مبادا اسے سننے میں غلطی تو نہیں ہوئی۔
’’نہیں،نہیں مغربی پاکستان سے مراد آسٹریلیا ۔ ‘‘ بلال نے فوراََ تصحیح کی۔
’’آسٹریلیا؟‘‘ شعیب کو سمجھ نہیں آیا کہ اپنی سماعت پر کیسے یقین کرے۔
’’نہیں زمبابوے ۔‘‘ بلال نے جھٹ سے ملک تبدیل کیا اور شعیب میں اتنی ہمت نہ تھی کہ مزید کرکٹ ٹیموں کے نام سنتا۔
’’ٹھیک ہے بچے جائو چھٹی کرو‘کل پڑھیں گے ۔‘‘ اور بلال کو لگنے لگا کہ جیسے اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے۔
’’نہیں ، بھائی جان آپ پڑھائیں ۔‘‘ عموماََ چھٹی کی نوید بلال کو گلنار کردیتی تھی مگر آج اسے کچھ گڑبڑ کا احساس تھا۔
’’میری طبیعت خراب ہے تو کل پڑھیں گے۔‘‘ مغربی پاکستان سے جو بلال کی مراد تھی اسے سن کر طبیعت خراب ہو ہی سکتی ہے۔
بلال بھی سرہلاتا رخصت ہوا ۔ اور شعیب طویل سانس بھر کر رہ گیا ۔ یہ پاکستان کے مستقبل کا حال تھا ۔ اب وہ کس طرح سدھار لاسکتا ہے ۔ بازو کا تکیہ بنائے وہ وہیں برآمدے میں بچھی چارپائی پر لیٹ گیا اور بلال کے متعلق ہی سوچے گیا۔
غریب گھرانے کا پہلا بیٹا ۔ والد صاحب کی بینائی ، نابینا ہونے کے ابتدائی مراحل میں شامل تھی مگر وہ پھر بھی ہمت سے کا م لیتے ہوئے جیسے تیسے اپنا پان سگریٹ کا کھوکھا چلاتے۔ والد ہ گھروں میں کام کرتیں ۔ ان دونوں کا سہارا بلال جو سکول سے سیدھا دکان پر جاتا اور رات گئے واپس آتا ۔ جسے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی سوجھ بوجھ نہ تھی۔
’’ کیا ہوگا اس لڑکے کا مستقبل…‘‘ شعیب اس کی فکر میں گھلتا ہی رہا کہ موبائل کی بپ نے اسے متوجہ کہا۔
’’ جاگ رہے ہو تو آجاؤں ؟‘‘ یہ عمر کا پیغام تھا ۔ عمر اس کے بچپن کا گہرا دوست۔
’’جلدی آؤ ،میں انتظار کررہا ہوں ۔‘‘ شعیب نے جواب بھیجا اور غالباََ عمر صاحب دروازے میں ہی کھڑے تھے کہ فوراََ ہی دھیمے سے دستک ہوئی۔
شعیب اٹھا، بیٹھک کا دروازہ کھول کر عمر کو وہاں لے آیا ۔ دونوں دوست ایک جیسے تھے ۔ عادتیں بھی ایک سی تھیں ۔ دونوں کو ہی دوپہر کو سونانا پسند تھا اور گرمیوں کی یہ لمبی دوپہریں یونہی ادھر سے ادھر ہوتے گزارتے۔
’’کچھ پریشان لگتے ہو۔‘‘ عمر کچھ اسنیکس ساتھ لے آیا تھا۔ ایک پیکٹ شعیب کو تھماتے ہوئے پوچھنے لگا۔
’’بس یار وہ بلال … ‘ ‘ مختصراََ بلال کے گھریلو حالات سے شروع ہوا اور آج کے واقعے پر چپ ہوا ۔ اور شعیب جو بلال کے منہ سے مغربی پاکستان کا مطلب سائوتھ افریقہ سن کر غمگین ہوا تھا ۔ عمر اس کے برعکس اپنی ہنسی نہ روک پایا اور قلقل ہنسنے لگا۔
’’ یہ ماتم کا مقام ہے اور تم ہنسے جاتے ہو۔‘‘ شعیب ملامتی نظروں سے عمر کو دیکھے گیا۔
’’ وہ بس یار،یہ کرکٹ کل کے بچوں پر اتنی اثر انداز ہوگی میں نہ جانتا تھا ۔‘‘ عمر نے بمشکل ہنسی قابو کی ۔
شعیب اور عمر کی عمر ہی کیا تھی ۔ زندگی کے تیسرے عشرے کے ا بتدائی سال تھے ۔ مگر دنیا کی اصلاح کی لگن تھی جو انہیں خود سے چند سال چھوٹے لڑکوں کو بچے کہہ کر پکارتے اور خود کو بڑا بڑا ہونے کا احساس دلاتے ۔
’’اچھا میری بات سنو یار ۔ میرے خیال میں بلال کے تلوں میں تیل نہیں ۔ تمہیں یہ توانائی کسی اور سمت کسی اور بچے پر خرچ کرنی چاہئے ۔‘‘ شعیب قائل تو نہ تھا مگر اس سے قبل کہ کچھ کہتا عمر کو یاد آیا اور وہ جوش سے سیدھا ہوبیٹھا۔
’’مجھے یونیورسٹی کی جانب سے ای میل آگئی ہے۔ اگلے پیر سے کلاسز ہیں۔‘‘
’’سچ …‘‘ شعیب بھی خوش ہوگیا ۔
’’مجھے بھی آگئی ہوگی۔ میں بھی چیک کرتا ہوں۔‘‘ شعیب نے بھی موبائل ڈیٹا کونیکٹ کیا اور میل چیک کرنے لگا۔
اور چند لمحوں بعد وہ چلا رہا تھا۔
’’یاہو… !یونیورسٹی میںآرہا ہوں ۔ تم سے ملنے ، تم سے سیکھنے ، تم سے لڑنے اور تمہیں فتح کرنے…‘‘ خوشی سے شعیب نے ہاتھ میں پکڑے اسنیکس ہوا میں اچھال دیے ۔ قالین پر اسنیکس بکھرتے چلے گئے۔
لڑکوں کے ہنسنے کی آوازیں بیٹھک کی دیواروں سے ٹکرانے لگی۔ اور وہ وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کی خواہش لیے مستقبل کے حسین خواب جینے کی تیاری کرنے لگے ۔ اس بات سے بے خبرکہ و قت بھلا قید ہوا ہے۔مگر خوابوں میں حسن دیکھنا بھی تو کوئی خطا نہیں۔
حسین خواب دیکھو
حسین خواب جیو
کہ مرنے سے پہلے
تم مسکرا سکو…
٭٭ …٭٭
گرمیوں کی دوپہروں میں حنا کو بھی نیند نہیں آتی تھی ۔ اور یہ دوپہریں شام ہونے کے انتظار میں گزرتیں ۔ چلو کالج کے زمانے میں کورس کی کتابیں تھیں، ناول تھے ۔ وہ پڑھا کرتی اور کالج آنا جانا ۔ دن بھی اچھا گزر جاتا ۔ اب جب سے کالج ختم ہوا تھا وہ صبح شام ناول پڑھ پڑھ کراور سوشل میڈیا اکائونٹس پر سکرول کر کرکے جیسے اکتا چکی تھی ۔ اور اب بھی وہ لیٹے لیٹے تھک گئی تو بے آواز دبے پائوں ماں اور بہنوں کو سوتا چھوڑ کر باہر آگئی۔
برآمدہ، برآمدے سے آگے کھلا صحن اور صحن میں لگا جامن کا درخت ۔ وہ وہیں جامن کے سائے میں آگئی ۔ چھٹیوں میں وہ اتنے جامن توڑ چکی تھی کہ اب درخت پر لگے جامن بھی دل کو اپنی اور مائل نہ کرتے ۔ درختوں پر لگے جامن کو بھی وہ یونہی بیزاری سے تکے گئی ۔ ایک تو یونیورسٹی پیر سے شروع ہوگی ۔ پورے سات دن ، ہائے اللہ سات دنوں میں فوت ہی نہ ہوجائوں ۔ سوچتے سوچتے وہ جامن کے ٹہنے کے ساتھ بندھے جھولے میں آن بیٹھی اور یونہی جھولا جھولنے لگی۔
یہ جامن کا درخت بھی کیسے اس کی زندگی کا ہمسفر تھا ۔ سارا بچپن اس کے گرد کھیلتے گزرا ۔ بلکہ بچپن میں تو یونہی … یادوں کی پٹاری کھلی تو ایک واقعہ ذہن پر دستک دینے لگااور سوچتے ہوئے لب مسکرا اٹھے۔
جب وہ ننھی بچی تھی‘ یہی پانچ چھ سال کی اور شبنم کا تو پوچھ پوچھ کر سر کھالیا تھا۔
’’ امی! یہ گلہریاں اتنا تیز کیوں بھاگتی ہیں ۔‘‘ گلہری کو پکڑنے کی کوشش کرنا حنا کا دیرینہ مشغلہ تھا۔
اور شبنم نے جو پہلے بھی اس سوال کے مختلف جہت کے جواب دے چکی تھی اس بار ایک اور جواب گھڑ لیا۔
’’گلہریوں کے پیٹ کے اندر پیسے ہوتے ہیں‘ یہ اسی لیے تیز بھاگتی ہیں کہ کوئی انہیں پکڑ کر ان کے پیٹ میں سے پیسے نہ نکال لے۔‘‘
’’ان کے پیٹ میں پیسے ہوتے ہیں‘ سچ ۔‘‘ حنا کی آنکھیں چمکیں تھیں اور اس نے ایک بار پھر تائید چاہی ۔
’’ہاں بابا ہاں …‘‘ شبنم اس کے سوال سے تنگ تھی ۔ اس کی کوئی اولاد اتنے سوال جواب نہ کرتی جتنی حنا کو عادت تھی۔
اور اس دن کے بعد حنا اور زیادہ جوش اور تندہی سے گلہریوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگی مگر ہائے رے قسمت بچپن گزر گیا اور وہ ایک بار بھی گلہری نہ پکڑ پائی ۔ اب بھی ایک گلہری پھدک پھدک کر ٹہنی ٹہنی گھوم رہی تھی ۔ اور جھولے میں بیٹھی حنا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔
تبھی بے آواز ہیولا پیچھے سے گربہ پائی سے چلتا ہوا آیا ۔ حنا کو یوں اکیلے بیٹھے اور مستزاد مسکراتا دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا ۔ بہنوں خاص کر حنا کے رنگ ڈھنگ اسے بالکل پسند نہ تھے۔
’’ حنا…‘‘ دلاور کی دھاڑتی آواز پر لمحے بھر کو حنا ڈر ہی گئی۔
’’جی بھائی جان ۔‘‘ جھولے سے اتر کر وہ بھائی کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’تم اکیلی یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘ دلاور کے ماتھے پر تیوری تھی۔
’’ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس فقرے میں ’’اکیلی‘‘ نہ ہوتا۔‘‘ کلستے دل کو سنبھالتے ہوئے حنا نے سوچا اور بھائی کو جواب دیا۔
’’بھائی وہ نیند نہیں آرہی تھی اس لیے…‘‘
’’نیند نہ آرہی ہو تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ سنسان آنگن میں جھولے پر آن بیٹھو، چلو اندر…‘‘ دلاور کے لہجے میں ناراضی کم نہ تھی۔ سر جھکائے حنا نے اندر کی جانب قدم بڑھائے ۔ برآمدے تک پہنچتے ہوئے اس کے ذہن میں یونہی آیا تو اس نے مڑ کر دیکھا ۔ دلاور وہیں جامن کے سائے میں کھڑا زمین پر بنے پیروں کے نشان تک رہا تھا ۔ ایسے جیسے کسی دوسرے کی موجودگی کا سراغ چاہتا ہو ۔ حنا کا دل کٹ سا گیا۔ اور بازگشت سی آواز سیسے کی طرح کانوں میں اترنے لگی۔
’’امی زمانہ خراب ہے۔ لڑکیاں تو جدت کے نام پر جو کچھ کرتی پھر رہی ہیں۔ استغفراللہ … اور آپ برا مت منائیے گا ۔ یہ ہماری حنا کے بارے میں مجھے کچھ شبہات ہیں اور کئی تحفظات بھی ۔ ‘‘ شبنم سے یہ کہنے والا دلاور ہی تھاجب اس کے یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے فارم بھرے گئے تھے۔ اور وہ گھر کا فرد واحد تھا جسے حنا کے یونیورسٹی جانے پر اعتراض تھا۔
’’ہونہہ‘ یوں تو یوں ہی سہی۔‘‘ سر جھٹک کر جیسے حنا نے تمام معاملات سے لاتعلقی اختیار کی تھی‘ باوجود اس کے کہ لاتعلقی اختیار کر نا کبھی بھی آسان نہ تھا۔ چاہے وہ انسانوں سے ہو یا معاملات سے…
٭٭ …٭٭
مئوذن کی پہلی آواز کے ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی ۔ کچھ دیر یونہی لیٹی اذان کے کلمات سنتی اور دہراتی رہی پھر اٹھی اور نماز کی تیاریوں میں مشغول ہوگئی ۔ وضو کرکے آئی تو بہنوں کو اٹھایا ۔ ماں کو آواز دی تو وہ بھی جاگ گئیں اور اس دوران ہونے والی تھوڑی زیادہ کھٹکے سے والد صاحب بھی جاگ گئے ۔ نہ جاگا تو نمازوں کا چور دلاور نہ جاگا۔اور یہ تو روز کا معمول تھا ۔ یو ں تو گھر میں سحر خیزی اور صبح نماز پڑھنے کی روایت ابتداء سے تھی ۔ اور کتنے سال ہونے کو آئے تھے کہ گھر میں سب سے پہلے حنا ہی اٹھتی ۔ نماز پڑھنے کے بعد کوئی نصف پارہ تلاوت کی، اور کچن میں آکر ناشتے کا سامان کرنے لگی ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ دفتری اوقات نسبتاََ دیر سے شروع ہوتے مگر افتخار کا دفتر قدرے دور ہونے کی وجہ سے وہ جلدی روانہ ہوتے۔ اب بھی حنا ٹرے میں ناشتہ لیے والد صاحب کے پاس آئی تو وہ صبح کی تلاوت سے فارغ ہوئے کچھ وظائف پڑھ رہے تھے۔ منجھلی بیٹی کو دیکھ کر مسکرااٹھے اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔ وہ بھی مسکرا دی اور جب دوسرے چکر پر وہ چائے کا کپ لیے باپ کے پاس آئی تو افتخار ناشتے سے فارغ ہوچکے تھے ۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے وہ گویا ہوئے۔
’’کیا ذائقہ ہے ہماری حنا کے ہاتھوں میں ۔ پراٹھے تو بالکل اماں مرحوم جیسے بناتی ہے۔ اور کھانوں کا ذائقہ بھی بالکل ان جیسا ہوتا ہے۔‘‘ مسکراتے ہوئے وہ شبنم سے کہہ رہے تھے ۔
شبنم دھیمی مسکان لیے بیٹی کو تکے گئی ۔ یہ آج کی بات نہ تھی ۔ افتخار کو ہمیشہ حنا اپنی والدہ مرحومہ کا عکس دکھائی دیتی ۔ شکل و صورت، عادات و اطوار اور جب وہ کھانا پکانے اور کچن کے دوسرے کام کرنے لگی تھی تو ہاتھ کے ذائقے میں بھی والدہ مرحومہ سے مشابہت ڈھونڈ چکے تھے ۔ شبنم نے ہمیشہ مسکراتے ہوئے ان کی تائید کی تھی ۔گوکہ شکل و صور ت میں بلاشبہ حنا نے دادی کے نین نقش چرائے تھے مگر عادات کے معاملے میں انہیں اختلاف تھا ۔ ساس محترمہ سخت مزاج ہوا کرتی تھیں ان کی حنا تو ہنس مکھ اور کھلی طبیعت کی مالک تھی ۔ ایسے اونچے اونچے قہقہے لگاتی کہ انہیں ٹوکنا پڑتا۔ یہ الگ بات ہے اپنے اختلاف کی غیر جانبداری کی وہ خود بھی کچھ ایسی قائل نہ تھیں۔
’’ہاں تو کب سے تمہاری یونیورسٹی شروع ہورہی ہے ۔ ‘‘ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے افتخار پوچھ رہے تھے۔
’’پرسوں سے۔‘‘ حنا وہیں ماں کی چارپائی پر پائنتی سے لگی بیٹھی تھی۔
’’اچھا ہے ، چلو اب ہمارے گھر میں بھی کوئی اتنا پڑھا لکھا ہوگا کہ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرے گا۔‘‘ آج اگر حنا کا یونیورسٹی کا داخلہ ہوا تھا تو اس کی وجہ والد صاحب کی حمایت ہی تھی۔
دلاور جاگ چکا تھا اور ساتھ والی چارپائی پر سستی سے لیٹا تھا ۔ اسے باپ کی بات حسب معمول زیادہ نہ بھائی۔
’’کیا ضرورت ہے اتنا پڑھنے کی ۔چولہا جلانے کے لیے بھی کبھی یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت پڑی ہے ۔ ‘‘ حنا جو باپ کے کہے پر مسکرا رہی تھی بھائی کے الفاظ سن کر اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
جواباََ افتخار نے ابرو کے اشارے سے دلاور کو تنبیہ کی۔ دلاور بڑبڑاتا ہوا منہ ہاتھ دھونے چلا گیا۔
’’بھائی کی بات کا برا نہیں مناتے۔ جو بھائی بہنوں سے متعلق حساس ہوتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ باپ کی منطق حنا کو قائل تو نہیں کرپائی لیکن خیر…
’’کسی چیز کی ضرور ت ہو تو بتانا۔‘‘ دفتر جاتے سمے افتخار نے بطور خاص حنا سے کہاتھا۔ اور ان کا یہ کہا ہی حنا کو سرشار کرگیا۔
’’شکریہ ابو کسی چیز کی ضرورت نہیں۔‘‘
اور یہی کوئی دس گیارہ بجے کی بات ہے جب وہ بہنیں گھر کی صفائی ستھرائی کے کاموں سے فارغ ہوکر بیٹھیں تو بات سے بات چل نکلی۔
’’بڑی خوش نصیب ہو حنا ، یونیورسٹی بھی پڑھنے جاؤ گی اور ابو کی خاص نظر کرم بھی واہ … ‘‘ یہ زینب تھی، حنا اور دلاوردونوں سے بڑی ۔ میٹرک کرنے کے بعد پڑھائی کی طرف وہ خود مائل ہوئی اور نہ کسی کہا۔
’’بس زینب اللہ کی مہربانی ہے۔ اس میں میرا کیا کمال ہے۔‘‘ چھوٹی نبیلہ نے حنا کے انکسار میں ڈوبے الفاظ غور سے سنے ۔
’’پھر بھی حنا ابوکی باقی تمام بہن بھائیوں سے محبت ایک طرف اور تم سے محبت ایک طرف ، رشک تو تم پر ہر وقت ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی حسد ہونے لگتا ہے اور کبھی سوچتی ہوں صرف دادی سے مشابہت ہی ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے جو تمہیں ابو ہم سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ۔‘‘ زینب کا لہجہ مدھم تھا اور قبل اس کے کہ حنا کوئی جواب دیتی نبیلہ بول اٹھی۔
’’آپی اور وجہ ہی ہے۔‘‘
’’کیسی وجہ …‘‘ زینب کے لہجے میں تجسس آن ٹھہرا اور حنا نے بھی سوالیہ نظروں سے نبیلہ کو دیکھا کہ جانے اور کون سی وجہ سامنے آنے والی ہے۔
’’سب کام ہنسی خوشی کرنا، پڑھائی میں اتنی محنت، یہاں تک یونیورسٹی پہنچ جانا اور حددرجہ انکساری‘ مجھے لگتا ہے کہ حنا اس دنیا کی ہے ہی نہیں ۔‘‘ حنا حیرانی سے نبیلہ کو دیکھنے لگی۔ اور اس حیرانی میں زینب کی آواز نے خلل ڈالا۔
’’بالکل یہ تو ہے ہماری حنا اس دنیا کی نہیں لگتی۔‘‘ بہنوں کی اس گفتگو نے اسے مسکرانے پر مجبور کردیا۔
٭٭ …٭٭
شعیب جو یہ سوچ رہا تھا کہ یونیورسٹی میں کلاسز شروع ہونے کے بعد وہ نکمے بلال کو کس طرح سے وقت دے پائے گا ۔ قبل ا س کے کہ کوئی حل ڈھونڈتا بلال کی والدہ سے ملاقات ہوگئی۔ گلی میں سرراہ ہونے والی ملاقات میں انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بلال کو مزید پڑھانے سے منع کردیا۔
’’فیکٹری میں کام مل گیا ہے۔ چائے سے بھرے لفافے ڈبوں میں ڈالنے ہیں ۔زیادہ مشکل کام بھی نہیں ہے اور تنخواہ…‘‘ تنخواہ کی بابت بتاتے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
’’اس کا سکول اور ٹیوشن …‘‘ شعیب جتنا حیران ہوتا کم تھا۔
’’غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گا ۔ افسر بننے سے تو رہا، سکول سے چھٹی کروادی ہے ۔ تمہارا شکریہ کہ بغیر پیسوں کے ٹیوشن پڑھاتے رہے ۔ اب اس کی ضرورت بھی نہیں۔ ‘‘
’’مگر شام کے وقت ایک دکان پر جاتا تو ہے۔‘‘
’’ہاں وہاں تو اب فیکٹری سے واپسی پر جایا کرے گا ۔ اللہ کا شکر ہے وقت کا بہت اچھا مصرف ڈھونڈا اس خدا نے ۔ ‘‘ شعیب سے کچھ کہنا دوبھر ہوگیا۔
’’ابھی سے اتنی محنت کی کیا ضرورت ہے۔ اسے پڑھنے دیں خالہ جو مستقبل پڑھائی دے سکتی ہے وہ محنت مزدوری میں نہیں ۔ ‘‘ شعیب کی باتوں میںحقیقت تھی کوئی بہت جذباتی پن تو نہ تھا مگر بلال کی والدہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
’’شکریہ بیٹا کہ تم خوش نیتی سے سوچتے ہو ۔ مگر جن گھروں میں والد نابینا ہونے والے ہوں، گھر کی چھت اس قدر بیٹھ گئی ہو کہ خدشہ لاحق ہونے لگے کہ گرنہ جائے اور غربت مستقل ان چاہا مہمان ہو ان گھروں کے بیٹوں کو پڑھائی نہیں محنت مزدوری کرنی چاہیئے اور ویسے بھی میرے بلال کا پڑھائی میں کہاں دل لگتا ہے ۔ محنت مزدوری سے تو وہ ہرگز نہیں گھبر اتا، میں چلتی ہوں۔‘‘ خاتون کی آنکھیں مسلسل نم ہوتی رہیں اور وہ رخصت ہوگئیں ۔ بوجھل دل لیے شعیب بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا گلی پار کرنے لگا۔ گلی کے پارنکڑپر عمر کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا۔