پیشانی کے لیکھ: نظیر فاطمہ
’’ سکندر!مجھے یہ کچھ سامان لادیں گے۔‘‘ صدف نے ایک لسٹ سکندر کی طرف بڑھائی۔
’’ وہ میری دوست آرہی ہے آج مجھ سے ملنے اس لیے۔‘‘ صدف کا جوش دیدنی تھا۔سکندر اسے سارا سامان لا کر دے گیا۔ ایمن اور صدف پرائمری تک ایک ہی اسکول میں پڑھتی تھیں۔ ایمن کا تعلق دوسرے گاؤں سے تھا ۔ پھر ایمن کے گھر والے شہر شفٹ ہوگئے تو ان کی دوستی میں دوری ضرور حائل ہوئی مگر دوستی قائم و دائم رہی۔ ایمن جب بھی اپنے گاؤں آتی صدف سے ضرور مل کر جاتی۔اکثر فون پر بھی بات ہوجاتی تھی ۔ ایمن اپنے کسی امتحان کی وجہ سے اس کی شادی پر نہیں آسکی تھی۔ اب وہ گاؤں آئی تو اس سے ملنے آئی تھی۔ صدف کی امّاں کی زبانی اسے تمام حالات معلوم ہو چکے تھے۔
’’ صدف یہ تم نے اپنا کیا حال بنایا ہوا ہے یار؟‘‘
’’ کیوں کیا ہوا؟‘‘ صدف نے اپنے کپڑوں سے نادیدہ مٹی جھاڑی۔
’’ تم کہیں سے چند ماہ کی بیاہی دولھن نہیں لگ رہی یار بن ٹھن کر رہا کرو۔‘‘کھانے کے بعد دونوں فرصت سے بیٹھیں تو ایمن نے اس کی کلاس لی۔
’’ تم جانتی ہو نا کہ سکندر کے ساتھ میری شادی کن حالات میں ہوئی ہے پھر بھی؟‘‘ صدف شکوہ کناں تھی۔
’’ جن بھی حالات میں ہوئی ہو ، ہو تو گئی ہے نا۔‘‘
’’ کیاچاچا دین محمد یا سکندر بھائی کا سلوک تمھارے ساتھ ٹھیک نہیں ہے؟‘‘
’’ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ دونوں بہت اچھے ہیں۔‘‘ صدف نے فوراً دفاعی انداز اختیار کیا۔
’’ تو پھر تم کیوں دکھ کا اشتہار بنی ہوئی ہو؟‘‘
’’ پتا نہیں یار ، اس طرح شادی ہوجانے پر عجیب سی بے چینی گھیرے رکھتی ہے ہر وقت۔حالانکہ سکندر تو بہت پرسکون ہے۔‘‘ صدف نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائیں۔
’’ وہ اس لیے مطمئن ہیں کہ انھوں نے قسمت کے اس لکھے کو خوش دلی سے قبول کیا ہے اور تم اس لیے بے چین ہو کیونکہ تم نے اپنی قسمت کے اس لکھے کو سرے سے قبول ہی نہیں کیا۔ قبول کر لو ساری بے چینی ختم ہو جائے گی۔‘‘ایمن نے رسان سے کہا ۔
’’کیسے کر لوں قبول؟ میں کسی طرح بھی سکندر کے برابرنہیں ہوں۔‘‘
’’ یہ برابر نہیں ہوں والی فضول سوچیں ختم کرو اور خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرو، اچھے سے تیا رہو کر رہا کرو۔ہنسو بولو، کھاؤ پیئو ،اپنے ارد گرد نعمتوں کو محسوس کرو، کس چیز کی کمی ہے تمھارے پاس؟خدانخواستہ ان لالچی لوگوں کے پلے پڑ جاتیں تو روز جیتی روز مرتی تم۔ اللہ نے تمھیں اتنا نوازا ہے اور تم ناشکری کر رہی ہو۔سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ بن مانگے ملے موتیوں کی قدر کوئی نہیں کرتا۔‘‘ ایمن نے اسے آئینہ دکھایا۔ اس کے جانے کے بعد صدف بہت دیر بیٹھ کر اپنا تجزیہ کرتی رہی۔ اسے ایمن کی باتیں درست معلوم ہو رہی تھیں۔
٭…٭
’’ تم کہیں جارہی ہو؟‘‘ سکندر نے نک سک سے تیار صدف کو دیکھا تو بے ساختہ پوچھ بیٹھا۔
’’ نہیں ، کیوں؟‘‘ صدف نے حیرت سے سوال کیا۔
’’ وہ تم اتنا تیار ہوئی ہو،عموماً تم ایسے تیار نہیں ہوتی نا، اس لیے پوچھ رہا تھا۔‘‘ پھر اگلے آنے والے دنوں میں سکندر نے صدف میں بہت سی مثبت تبدیلیاں دیکھیں ۔ وہ خوش رہنے کی شعوری کوششیں کرنے لگی تھی۔ سکندر سے بات چیت کر لیتی تھی۔ رونا دھونا اور اُداس رہنا کم کر دیا تھا۔سکندر کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگی تھی پرانی صدف رفتہ رفتہ واپس آرہی تھی۔
’’ صدف یار! تم مجھے اپنی اس سہیلی کا پتا تو دینا ذرا۔‘‘صدف کچن میں مصروف تھی جب سکندر نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے روبرو کیا۔
’’ کس سہیلی کا؟‘‘ صدف اُلجھی۔
’’ وہی جو اس دن ہمارے گھر آئی تھی۔‘‘ سکندر سنجیدہ تھا۔
’’کیوں؟‘‘صدف کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ مجھے اس سے ملنا ہے؟‘‘سکندر کی سنجیدگی میں ذرا جو فرق آیا ہو۔
’’ کیوں؟‘‘ اب کے لہجے میں غصّہ تھا۔
’’ مجھے اس کا شکریہ ادا کرنا ہے؟‘‘سکندر کی آنکھیں مسکرائیں۔
’’ کیوں؟‘‘ تیسرا کیوں جھنجھلایا ہوا تھا۔
’’ کیونکہ اس کے آنے کے بعد میری زوجہ محترمہ میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں اور میں اسے کہوں گا کہ وہ گاہے بگاہے چکر لگاتی رہے ،ہوسکتا ہے اس غریب کا ادھورا کام بن جائے ۔‘‘ سکندر نے اس کے چہرے پر نظریں جمائیں تو وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر رخ موڑ گئی۔ اسے سکندر کے انداز پر بے طرح شرم آئی تھی۔اس کے انداز پر سکندر لبوں میں مسکراہٹ دبا کر کچن سے باہر چلا گیا اور صدف نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
٭…٭
’’ صدف تیاری کر لینا پرسوں ہم شہر جا رہے ہیں۔ تین چار روز کا کام ہے مجھے۔ تم بھی ساتھ چلو، کچھ گھوم پھر لیں گے۔‘‘ دونوں شہر سدھارئے۔وہاں سکندر کے منجھلے بھیا کا گھر تھا ۔ شام کو یہ لوگ بھیا کے ہاں پہنچے تھے اور اگلی روز صبح ہی صبح بھابھی کی بہن زونی آن وارد ہوئی۔
’’میں دوپہر تک آجائوں گا ، شام کو گھومنے چلیں گے ۔‘‘سکندر توناشتا کر کے کام سے نکل گیا اور صدف بھابھی اور زونی کے ہتھے چڑھ گئی۔
’’ارے یہ سکندر تو پاگل تھا میری بہن زونی کے پیچھے ، وہ تو زونی ہی نہیں مانی کہ اسے گاؤں میں نہیں رہنا ۔شاید وہ زونی کی محبت میں مان بھی جاتا شہر آکر رہنے کو مگر ابّا جی کے مجبور کرنے پر کر لی تم سے شادی۔ اب بے چارے کو گلے پڑا ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔‘‘منجھلی بھابھی نے ابرو اُچکا کر کہا۔
’’ چھوڑیں باجی ، اس بے چاری کو کیا کہتی ہیں ؟کسی پر مسلط ہو کر رہنا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ بے چاری اس مشکل سے گزر رہی ہے۔‘‘زونی نے چہرے پر مصنوعی ہم دردی سجا ئی۔ صدف کے لیے ان کی باتیں برداشت کرنا مشکل ہو گیا تو اُٹھ کر باہر چلی گئی۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے کو دیکھ کر کمینگی سے مسکرا دیں۔
’’ اُف اللہ ! میں کیا کروں ، ذرا نارمل ہوتی تو پھر کوئی نا کوئی مجھے میری اوقات یاد دلا دیتا ہے۔ مالک میری یہ بے چینی ختم کر دے۔‘‘ صدف دلگرفتہ سی گھر کے پچھلے حصّے میں بنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی آئی اور وہاں سیمنٹ کی بنی دو سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔کچن کی کھڑکی اِدھر ہی کھلتی تھی۔ وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ اسے بھابھی اور زونی کی باتوں کی آواز آئی۔
’’ یہ لو زونی ناشتہ کرو۔ ویسے صبح جلدی اُٹھ جاتیں تو سکندر کے ساتھ ناشتہ کر لیتیں۔‘‘
’’ لائیں دیں بہت بھوک لگ رہی ہے اور رہی بات صبح اُٹھنے کی تو مجھے پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ میں صبح صبح اُٹھ کر سکندرکے آگے پیچھے پھروں۔ میں کون سا اس کے عشق میں مری جا رہی ہوں یا وہ میرے عشق میں آخری دموں پر ہے۔‘‘زونی کا لہجہ تحقیر لیے ہوئے تھا۔
’’ صدف کو تکلیف دینے کے لیے ایسی باتیں کرنا کہ سکندر مجبور ہو گیا تھا ، الگ چیز ہے مگر ہم سب یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سکندر کو کوئی بھی کسی کام پر مجبور نہیں کر سکتا ۔ وہ وہی کرتا ہے جس پر اس کا دل راضی ہوتا ہے۔‘‘ کھڑکی کے نیچے بیٹھی صدف دونوں بہنوں کی باتیں بخوبی سن رہی تھی۔
’’ ویسے زونی، ایک دفعہ پھر کوشش کر کے دیکھ لو ۔ اب توگاؤں میں صدف نامی اللہ میاں کی گائے ہے اگر وہ تم سے شادی کر کے تمھیں یہاں شہر میں رکھ لے تو کتنا اچھا ہو جائے گا۔‘‘ سکندر کی بھابھی نے بہن کو نئی راہ دکھائی۔
’’آئیڈیا برا نہیں ہے، مستقبل تو سکندر کا بہت روشن ہے ۔ سنا ہے اس کا ڈیری فارم والا پراجیکٹ بھی تکمیلی مراحل میں ہے اور وہ چاولوں کی ایکسپورٹ بھی شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔کاش اس سڑے ہوئے گاؤں میں رہنے کی ضد نہ کرتا تو آج میں اس کی بیوی ہوتی۔ لیکن چلو خیر ابھی بھی کوشش کرتی ہوں شاید بات بن جائیں ۔‘‘ زونی نے قہقہہ لگایا۔
صدف پر دونوں بہنوں کی حقیقت پوری طرح آشکار ہو چکی تھی ۔ وہ ہلکی پھلکی ہو کر وہاں سے اُٹھ گئی۔ شام کو سکندر اسے گھمانے پھرانے لے گیا۔ زونی نے ساتھ جانے کی پوری کوشش کی جسے سکندر نے رسان سے ناکام بنادیا ۔صدف نے گردن گھما کر ساتھ چلتے سکندر کو پہلی بار محبت کی نظر سے دیکھا تھا۔ اس کی نظروں کا ارتکاز تھا کہ سکندر نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور سوالیہ انداز میں سر ہلا یا۔ صدف نفی میں سر ہلا کر سامنے دیکھنے لگی۔ البتہ اس کے ہونٹ مسکرا رہے تھے۔
’’ پاگل ہے پوری۔‘‘ سکندر اس کے انداز پر سر جھٹک کر خود بھی مسکرا دیا۔
٭…٭
صدف کانچ کے کسی برتن کے زور سے زمین پر گرکر ٹوٹنے کی آواز سے جاگی تھی۔ وہ ایک دم اُٹھ کر کمرے سے باہر آئی۔بھابھی کے کمرے سے زونی کے زور زور سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔
’’تم اس جاہل گنوار دیہاتین کے لیے مجھے ٹھکرا رہے ہو۔‘‘زونی پھنکاری۔
’’ ہاں کیونکہ وہ دیہاتن تم جیسی الٹرا ماڈرن شہریوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ جس میں وفا ، خلوص اور سب سے بڑ ھ کر کردار ہے۔موقع پرست بھی نہیں ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ صدف میری پیشانی کا لیکھ ہے۔قدرت کا انعام ہے وہ میرے لیے۔‘‘زونی کا ذلت اور غصے کے مارے برا حال ہو گیا ۔اس نے بہن کو مدد طلب نظروں سے دیکھا۔
’’ تمھاری یہ جرأت کہ تم میرے ہی گھر میں کھڑ ہو کر میری ہی بہن کو ذلیل کر رہے ہو۔‘‘ بات بگڑتی دیکھ کر بھابھی فوراً بہن کی مدد کو آئیں ۔
’’ میری جرأت ابھی آپ نے دیکھی کہاں ہے۔رہ گئی بات آپ کے گھر کی تو آپ کی یادداشت کی بحالی کے لیے یاد کروا دوں کہ یہ گھر ’’ابھی تک ‘‘میرے بھائی کی ملکیت ہے ۔‘‘ سکندر کی بات پر بھابھی تلملا گئیں کہ وہ کافی عرصے سے اپنے شوہر پر زور دے رہی تھیں کہ یہ گھر ان کے نام کر دیا جائے ۔
’’ آپ کا یہ گھر اور بہن آپ سنبھالیں میں جا رہا ہوں۔‘‘ سکندر کمرے سے نکلا تو برآمدے میں بت بنی صدف کو دیکھ کر ٹھٹکا ۔ پھر خود کو سنبھال کر آگے بڑھا اور اسے بازو سے پکڑ کر کمرے میں لے آیا۔
’’ چلو جلدی سامان سمیٹو ہمیں ابھی گاؤں جانا ہے۔‘‘صدف ابھی بھی وہاں کھڑی تھی جہاں سکندر نے اسے کھڑا کیا تھا۔اس کی بات سن کر چونکی اور سامان سمیٹنے لگی۔سارا راستہ وہ دونوں چپ رہے۔ پہلی دفعہ تھا کہ سکندر کی باتیں سن کر صدف کا دل ان پر ایمان لایا تھا ۔پہلی دفعہ تھا کہ کسی کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر صدف نے آنسو نہیں بہائے تھے ۔پہلی دفعہ تھا کہ سکندر نے صدف کو کوئی تسلی نہیں تھی۔ اسے سکندر کی طرف سے روایتی تسلی کا انتظار تھا جو گھر پہنچنے تک انتظار ہی رہا۔
گھر آتے ہی سکندر کسی کام سے چلا گیا ۔ اب رات کے دس بج رہے تھے ابھی تک اس کی واپسی نہیں ہوئی تھی ۔ وہ صحن میں ٹہل ٹہل کر اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ دین محمد اندر کمرے میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ساڑھے دس بجے کے قریب سکندر گھر آیا۔
’’ کھانا؟‘‘
’’ کھا کر آیا ہوں، ایک کپ چائے دے دو پلیز۔‘‘وہ دین محمد کو سلام کر کے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔صدف چائے لے کر کمرے میں آئی تو وہ فریش ہو کر آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے ہاتھوں سے بال سنوار رہا تھا۔
صدف نے چائے میز پر رکھی اور پلٹ کر اس کے مقابل جا کھڑی ہوئی۔ سکندر نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔ وہ دونوں ہاتھ باہم پھنسائے ، سر جھکائے کھڑی تھی۔
’’آپ چائے پی لیں۔‘‘ وہ متذبذب سی پلٹ گئی اور بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی ۔سکندر نے کندھے اُچکائے ، کرسی پر بیٹھ کر اطمینان سے چائے ختم کی ،کپ سائیڈ پر رکھا اور اپنا لیپ ٹاپ آن کرنے لگا۔
’’ سکندر۔‘‘ صدف اُٹھ کر اس کے پاس آئی۔ سکندر نے گردن اُونچی کر کے اسے دیکھا۔وہ پھر خاموش ہو گئی۔
’’ کیا بات ہے صدف؟‘‘جواب دینے کی بجائے صدف نے اس کا دایاں ہاتھ تھام کر اپنے ماتھے سے لگا لیا۔وہ اس کے ردِ عمل پر حیران رہ گیا۔
’’ آج میرا مان رکھنے اور میری ذات کو معتبر کرنے کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔‘‘ وہ یک دم رو دی۔
’’ارے۔‘‘ سکندر نے فوراً کھڑے ہو کر اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔وہ سر جھکائے کھڑی تھی۔آنسو گالوں پر پھسل رہے تھے۔
’’ صرف آج نہیں، بلکہ شروع سے میں تمھارا مان رکھتا آیا ہوں اور جب تک زندگی ہے رکھتا رہوں گا ، ان شاء اللہ ۔‘‘ سکندر نے اس کے ہاتھ چھوڑ کر اس کا جھکا ہوا سر تھپتھپایا ۔
’’ مجھے پتا ہے۔‘‘روتی ہوئی صدف سر اُٹھا کر مسکرائی۔ بھیگی آنکھیں ، گالوں پر آنسووں کی لکیریں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ۔ سکندر نے اس کے اس الوہی روپ کو نظروں کی زد پر رکھا۔
’’ اچھا کب سے پتا ہے؟‘‘ سکندر نے اسے چھیڑا۔
’’ پتا تو پہلے سے ہی تھا یقین آج ہی آیا ہے۔‘‘ اس نے اپنے گال رگڑے۔سکندر مسکرایا۔
’’تو اس کا مطلب ہے کہ اب تمھارا دل راضی ہو گیا ؟‘‘ سکندر نے لو دیتی نظروں سے اسے دیکھا۔صدف نے اس کے بدلے لہجے کو شدت سے نوٹ کیا۔
’’کس بات پر؟‘‘ صدف نے تجاہل عارفانہ سے کہا۔
‘‘ ہمارے اس نئے رشتے کی شروعات کرنے کے لیے۔‘‘ سکندر اس کی طرف جھکا۔
’’ بالکل نہیں۔‘‘ صدف نے دروازے کی طرف دوڑ لگائی ، سکندر نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تو صدف کھکھلاتے ہوئے اس کے ساتھ آن لگی۔
ختم شد