پیشانی کے لیکھ: نظیر فاطمہ
صدف اُٹھ کر اپنے لیے پانی لینے جا رہی تھی جب سکندر کے ساتھ کمرے کے دروازے پر اس کی مڈبھیڑ ہوئی۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ گئی ۔ سکندر اندر آیا ، وہ سر جھکائے کھڑی تھی۔
’’ کدھر کا ارادہ تھا؟‘‘ سکندر کے پوچھنے پراس نے سر اُٹھایا ۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کافی دیر روتی رہی ہے۔ سکندر کو اس پر ترس بھی آیا ۔ وہ کتنی بڑی ذہنی اذیت سے گزری تھی ۔
’’ مجھے پیاس لگ رہی تھی تو پانی پینے جا رہی تھی ۔‘‘
’’ اچھا تم یہاں بیٹھو ، میں لاتا ہوں پانی، ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی دیکھتا ہوں۔بلکہ ایسا کرو تب تک تم کپڑے وغیرہ بدل کر ایزی ہو جائو۔‘‘ سکندر وہیں سے پلٹ گیا ۔
تھوڑی دیر بعد صدف کے گھر سے آیا کھانا سلیقے سے ٹرے میں جمائے ساتھ پانی کا جگ اور دو گلاس رکھے سکندر پھر اس کے روبرو تھا۔صدف کپڑے بدل کر منہ ہاتھ دھو چکی تھی ۔
’’ چلو مل کر کھاتے ہیں ، مجھے بھی کھانا کھانے کا وقت نہیں ملا تھا۔‘‘ سکندر نے ٹرے صدف کے سامنے چارہائی کے بیچوں بیچ رکھ دی اور خود دوسری طرف یوں بیٹھ گیا کہ ٹرے ان کے درمیان میں تھی اور وہ دونوں آمنے سامنے۔ صدف نے گلاس میں پانی ڈال کر ایک ہی سانس میں پی لیا۔سکندر نے پلیٹ میں چاول اور سالن نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔
’’ یہ لو کھاؤ اور پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ اسے پلیٹ تھما کر اب وہ اطمینان سے کھانا کھا رہا تھا۔ گاہے بگاہے ایک نظر صدف پر بھی ڈال لیتا جو پلیٹ تھامے بیٹھی تھی۔
’’ کھائو ناں ، صرف کھانے کو دیکھنے سے پیٹ نہیں بھرے گا۔‘‘
’’ وہ…‘‘
’’کیا وہ؟‘‘
’’ آپ کے سامنے مجھ سے کھایا نہیں جا رہا۔‘‘ صدف بے چارگی سے بولی۔
’’ کیوں؟‘‘
’’ پتا نہیں۔‘‘ صدف کے ہاتھ دھیرے دھیرے لرز رہے تھے۔ سکندر نے اس کو بغور دیکھا۔ پلیٹ اس کے ہاتھ سے لے کر سامنے رکھی۔
’’تم ریلیکس ہو جاو ،اور ایک بات یاد رکھو ہمیں اب ساری زندگی ساتھ رہنا ہے ۔ نئی زندگی کا آغاز ہم تب ہی کریں گے جب تم اس تعلق کو قائم کرنے اور نبھاہنے کے لیے دل سے راضی ہو جاؤ گی۔ اس لیے اپنے دل سے ہر خوف اور خدشے کو نکال دو۔‘‘ صدف نے سکندر کو ایک نظر دیکھ کر پھر سے سر جھکا لیا ۔ آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
’’ آپ… آپ بہت اچھے ہیں ۔ آج جس طرح آپ نے سب کے سامنے میری ذات کو ذلت سے بچا کر عزت کی چادر میں چھپایا ہے ، میں اس کا احسان مر کر بھی نہیں اُتار سکتی مگر میں …‘‘ اس کے منہ سے نکلنے والی سسکی کی بدولت اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
’’ مر کر تو تم واقعی میرا احسان نہیں اُتار سکو گی، میرا احسان اُتارنے کے لیے تو تمھیں زندہ رہنا پڑے گا ۔‘‘ سکندر نے قدرے شرارت سے کہا تو صدف چٹخ گئی۔
’’ آپ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں سکندر پ…‘‘ اس سے پہلے کہ وہ عادت کے مطابق سکندر پا جی پورا کرتی ، سکندر نے ہاتھ اُٹھا کر اسے روکا ۔
’’ بس بس، اب مجھے مشہور زمانہ ’’سکندر پا جی ‘‘ میں سے ’’پا‘‘ بالکل نہیں سننا البتہ پہلے اور آخری لفظ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ سکندر کی بات پر اس کی پلکیں لرز کر جھک گئیں۔
’’چلو شاباش تم آرام سے کھانا کھاؤ میں چائے لاتا ہوں۔ دم پر رکھ کر آیا تھا۔‘‘ صدف کو شرمندگی سی ہوئی۔
’’ آپ رہنے دیتے میں بنا لیتی چائے۔‘‘ اس نے ہونٹ کاٹے۔
’’ اب دو گھنٹوں کی دولھن سے کام کرواتا اچھا لگوں گا۔ پھر تم نے ہی کرنا ہے سب کچھ ، آج کے دن یہ پروٹوکول تمھارا حق ہے۔ ‘‘ سکندر باہر چلا گیا تو صدف اطمینان سے کھانا کھانے لگی۔
’’ تم سو جاو آرام سے ، میں یہاں ساتھ والے کمرے میں ہوں ۔ ‘‘ چائے پی کر سکندر ااُٹھ گیا۔
٭…٭
ٓسکندر اور صدف کا ولیمہ ایک ہفتے بعد تھا۔
’’ چاچا ، چاچی مجھے یہ سامان نہیں چاہیے ۔‘‘ صدف کا سامان واپس آگیا تھا ۔ اس کے اماں ابا یہ سامان سکندر کے گھر بھجوانا چاہتے تھے اور وہ انکاری تھا۔ جانتا تھا صدف کے ماں باپ نے یہ سامان کیسے اکٹھا کیا تھا۔
’’ یار صدف ، تم سمجھاؤ نا پلیز۔‘‘ سکندر نے مدد طلب نظروں سے اسے دیکھا۔سب کے سامنے اس طرزِ تخاطب پر صد ف شرمندہ سی ہو گئی۔ ایک ہی دن میں اتنی بے تکلفی اسے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
کافی دیر بحث کے بعدصدف کے امّاں ابّا کی خواہش پر بیڈروم فرنیچر اور صدف کے کپڑوں والا اٹیچی سکندر کے گھر پہنچا دیے گئے۔ جنھیں سکندر نے محلے کے کچھ لڑکوں کے ساتھ مل کر سیٹ کرلیا تھا۔ باقی سارا سامان پیک شدہ حالت میں سکندر جا کر خود واپس کروا آیا اور وصول شدہ رقم میں بیڈ روم فرنیچر کی قیمت بھی شامل کر کے کمال دین کے ہاتھ پر رکھ دی۔
جمعے کے روز کمال دین کا گھر مہمانوں سے بھر گیا ۔ اس کے سارے بیٹے بہوویں، ان کی اولادیں اور دیگر رشتہ دار سب پہنچ چکے تھے۔ رات کو خوب رونق لگی۔ ان سب کے درمیان صدف تھوڑی بے چینی محسوس کر رہی تھی ۔
’’ارے صدف تمھاری تو لاٹری نکل آئی ۔ کیا شان دار بندہ لے اُڑی ہو۔‘‘ یہ سکندر کی سب سے بڑی بھابھی تھی ۔جن کی فطرت دوسروں کو آزار پہنچا کر تسکین حاصل کرنا تھا۔ صدف نے ان کے لہجے اور انداز پر ایک نظر انھیں دیکھا۔ کمرے میں موجود کچھ چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی اور کچھ کے چہروں پر ناگواری۔
’’ ہاں ہمارا سکندر تو ہے ہی اتنا نرم دل، کسی کو مشکل میں دیکھ ہی نہیں سکتا۔ قربانی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ سکندر کی پھوپھی تھی جو سکندر کی منجھلی بھابھی کی والدہ محترمہ تھیں اوراپنی چھوٹی بیٹی زونیرہ عرف زونی کی شادی سکندر سے کروانا چاہتی تھی۔ مگر ان کی شرط تھی کہ شادی کے بعد ان کی بیٹی یہاں نہیں رہے گی بلکہ سکندر شہر آجائے گا۔ سکندر نے یہ شرط ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ ان کی بیٹی ابھی تک شادی کے انتظار میں تھی سو وہ صدف پر طنز کر کے اپنا دل ہلکا کرنے لگی۔ زونی احتجاجاً شادی میں شریک نہیں ہوئی تھی ۔سب جانتی تھیں کہ یہ باتیں صدف کے دل کو زخمی کر رہی ہیں پھر بھی مزے لے لے کر یہی باتیں دہرائی جا رہی تھیں۔
’’ تو اور کیا کڑیے تم تو ساری زندگی سکندر کے پیر دھو دھو کر پیئو تو بھی کم ہے ، ورنہ جس کڑی کی جنج واپس چلی جائے اسے پھر سکندر جیسے شہزادے نہیں ملتے۔‘‘ یہ سکندر کی خالہ تھیں۔
نا جانے کیسی عورتیں تھیں جو دوسروں کا دل سلگا کر سکون محسو س کرتی تھیں۔صدف کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ۔ کمرے میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کی سائیڈ لیتا ۔ وہ آنسو روکنے کی کوشش میں بے حال ہوئی بیٹھی تھی۔
’’ یہ تم لوگ کس قسم کی باتیں لے بیٹھی ہو؟ صدف چلو دھی جا کر اپنے کمرے میں آرام کرو۔ تھک گئی ہو گی بیٹھے بیٹھے۔‘‘ باہر کھڑے دین محمد کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں تو اس نے کمرے میں آکر سبھاؤ سے سب کو ٹوکا اور صدف کو وہاں سے اُٹھایا۔صدف کمرے میں آئی۔کمرے میں آتے ہی اس کا ضبط جواب دے گیا اور وہ بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھی، سر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما اور سسک سسک کر رونے لگی۔
’’ اب یہ باتیں ساری زندگی میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔‘‘ وہ جو ایک ہفتہ دین محمد اور سکندر کے ساتھ رہ کر سمجھ رہی تھی رات گئی بات گئی اور آگے بڑھنے لگی تھی۔ آج اسے معلوم ہوا کہ نہیں رات چلی جاتی ہے، بات وہیں رہ جاتی ہے سب کی زبانوں پر اور زبان کے نشتر وں کے ذریعے واپس پلٹائی جاتی ہے۔سکندر کمرے میں آیا تو اسے یوں روتے دیکھ کر ایک لمحے کو تھم سا گیا ۔
’’ کیا ہوا صدف ، ایسے کیوں بیٹھی ہو؟ ‘‘ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو صدف نے ایک دم سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ سرخ متورم آنکھیں، لال ناک آنسوؤں سے تر بتر گال ، آنسو گالوں سے بہہ کر اس کی تھوڑی سے قطروں کی صورت نیچے گرتے تھے۔صدف نے دوپٹے سے چہرا رگڑکر یوں صاف کیا جیسے رونے کے تمام شواہد مٹا دینا چاہتی ہو۔
’’ کیا ہوا؟کسی نے کچھ کہا ہے۔‘‘ دوبارہ پوچھنے پر نفی میں سر ہلایا تو کتنے ہی آنسو پھر گالوں پر لڑھک گئے۔
وہ چند قدموں کا فاصلہ مٹا کرکے قریب آگیا اور اس کی تھوڑی پکڑ کر اس کا چہرا اُونچا کیا۔ صدف بے ساختہ اس کے بازو سے سر ٹکا کر رو دی۔سکندر نے اسے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایااور اسے اپنے بازو کے حلقے میں لے لیا۔ سارا غبار آنسوؤں کی صورت نکل گیا تو صدف نے سیدھا ہونے کی کوشش کی۔سکندر نے شرارت سے گرفت مضبوط کرلی ۔صدف نے گھبرا کر سر اُٹھایا۔ اس کی گھبراہٹ اور خوف دیکھ کر سکندر نے اپنا بازو ہٹا لیا۔
٭…٭
’’ سکندر رکو، مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘ چھوٹی بھابھی نے اسے آواز دی۔
’’ جی بھابھی؟‘‘ چھوٹی بھابھی اس خاندان کی سب عورتوں سے مختلف تھیں۔خاموش طبع، حساس اور ہم درر طبیعت رکھنے والی۔
’’تم نے صدف کو اپنایا ہے تو پوری عزت سے اپناو اور دوسروں سے بھی اس کی عزت کرواو کیونکہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے اس میں اس کا رتی بھر قصور نہیں ہے۔ تو پھر سزا اسے کیوں ملے؟‘‘
’’ کیا ہوا بھابھی؟‘‘
’’ کل رات سب نے مل کر اس کا بہت دل دکھایا ہے۔‘‘ بھابھی نے سکندر کو ساری تفصیل بتائی تو وہ غصّے سے بل کھا کر رہ گیا۔
’’ آپ بے فکر رہیں ۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘سکندر نے کچھ سوچ کر بھابھی کو اطمینان دلایا۔
٭…٭
ولیمہ شان دار طریقے سے ہوا۔ صدف بہت پیاری لگ رہی تھی تو سکندر کی آن بان بھی شہزادوں جیسی تھی۔ ان کو ساتھ دیکھ کرکئی آنکھوں میں رشک تھا تو کچھ آنکھوں میں حسد بھی تھا۔
’’ ہماری شادی جن حالات میں ہوئی ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ مگر ایک بات آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میں نے اس شادی پر مجبور ہو کر نہیں بلکہ دل سے راضی ہو کر حامی بھری تھی ۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ سب صدف کو خاندان میں وہی مقام اور عزت دیں جو اس خاندان کی باقی سب بہوؤں کو حاصل ہے۔ یہ میری عزت ہے اور میں کسی کو یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ اسے بے عزت کرے۔‘‘ سکندر نے ساتھ کھڑی صدف کے کندھے پر بازو پھیلایا تو وہ سب کے سامنے اس التفات پر اس کی نظریں زمین سے چپک گئیں۔
’’ اُمید ہے آپ سب میری اس درخواست کو قبول کریں گے اور مجھے دوبارہ کبھی شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔‘‘ سکندر کا لہجہ بہت مضبوط اور انداز بہت سنجیدہ تھا۔ اس کے صاف گو انداز سے پہلے ہی اکثریت اس سے خائف رہتی تھی ۔ اب اس لہجے پر کسی کو کچھ کہہ کر اپنی بے عزتی نہیں کروانی تھی ۔
’’ چلو صدف۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے کمرے میں لے گیا۔
’’ آپ نے باہر جھوٹ کیوں بولا؟‘‘
’’کون سا جھوٹ؟‘‘
’’ یہی کہ آپ نے یہ شادی اپنی مرضی سے کی ہے۔‘‘
’’ تو مرضی سے ہی کی ہے۔ دیکھو شادی تو مجھے کرنی ہی تھی ،تم سے ہو گئی تو کیا بُرا ہوا؟‘‘ سکندر کا انداز دوستانہ سا تھا۔وہ اس کی الجھن کو سمجھ رہا تھاسو تسلی دینے کو بات کا آغاز کیا۔
’’میں سمجھ سکتا ہوں جو تم پر…‘‘سکندر کے آدھے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
’’نہیں سمجھ سکتے آپ بالکل نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے مجھے پاگل مت بنائیں۔‘‘ صدف نے اس کی بات درمیان سے اچک لی۔
’’بنی بنائی کو میں اور کیا بناوں گا بھلا؟‘‘سکندر کمرے سے باہر چلا گیا ۔ وہ دیر تک بیٹھی جلتی رہی۔
٭…٭
قدرت نے صدف کو بڑی آزمائش سے بچا کر بہت زیادہ نواز دیا تھا۔ مگر ابھی وہ لوگوں کی باتوں اور طعنوں کے طفیل یہ بات محسوس کرنے کے قابل نہیں تھی ۔ اس صورت ِ حال میں اس کی خود اعتمادی اور عزت ِ نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی اور ایک احساس اس کے دل سے چپک گیا تھا کہ سکندر نے اس وقت سب کے سامنے اس کے سر پر عزت کی چادر ڈال دی تھی اور وہ زبردستی اس کی زندگی میں شامل کر دی گئی تھی۔
زندگی معمول پر آگئی۔ صدف کی توجہ نے اس گھر اور اس گھر کے مکینوں کی زندگیوں میں آسودگی بھر دی تھی مگر اس کی اپنی زندگی اور دل بے چینی کا شکار تھی۔
دین محمد اور سکندر اس کی دل جوئی کی پوری کوشش کرتے ، وقتی طور پر وہ بہل بھی جاتی مگرپھر وہی پہلے والی حالت طاری ہو جاتی۔ سجتی سنورتی نہ خود پر توجہ دیتی۔ نئے کپڑے اور سامان اس کی توجہ کے منتظر تھے کہ مالکن کب انھیں استعمال کرتی ہے۔
’’ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں میں شکل و صورت ، مال و دولت اور تعلیم کسی چیز میں سکندر کے برابر نہیں ہوں۔‘‘ وہ کڑھ کر رہ جاتی۔وہ اپنا اور سکندر کا موازنہ کرتی رہتی اور ہر دفعہ سکندر کا پلڑا بھاری رہتا ۔ اور یہ بھاری پلڑا اس کے بے چین دل کے بوجھ کر مزید بڑھا دیتا تھا۔
’’ آپ کو نہیں لگتا آپ کو کسی پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی لڑکی کا ساتھ ملنا چاہیے تھا۔‘‘ سکندر آج کل ڈیری فارمنگ کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا سو اس وقت کرسی میز سنبھالے لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف تھا جب صدف کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ اس نے گردن ترچھی کر کے صدف کو دیکھا جو بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے گھٹنے سینے سے لگا کر ان کے گرد باز لپیٹے ہوئے تھے۔ وہ منتظر نگاہوں سے سکندر کو دیکھ رہی تھی۔
’’اَن پڑھ تو تم بھی نہیں ہو ، ایف اے پاس ہو اور میرے نزدیک تم بھی ایک سلجھی ہوئی لڑکی ہو۔‘‘سکندر مختصر جواب دے کر پھر کام میں مشغول ہو گیا۔اس کے انداز پر صدف کے اندر ایک غبار سا اُٹھا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کے دائیں جانب جا کر کھڑی ہو ئی ۔
’’ آپ خود کو فرشتہ کیوں ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کہتے کیوں نہیں کہ آپ نے مجبوراً یہ شادی کی ہے۔‘‘ صدف نے ہاتھ مار کر اس کے لیپ ٹاپ کا لڈ بند کر دیا ۔ سکندر نے اس کے ہذیانی انداز کو اُلجھ کر دیکھا۔لب البتہ خاموش تھے۔
’’ آپ نہ کہیں زبان سے مگر آپ کا ہر ہر انداز بتاتا ہے کہ آپ اس رشتے کو مجبوری میں نبھا رہے ہیں۔‘‘ سکندر خاموشی سے سوچتا رہ گیا کہ اس کا کون سا ایسا انداز ہے جس نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے ۔اس کی خاموشی پر وہ مزید بھڑک اُٹھی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کے مقابل آیا۔اس کی حالت بتا رہی تھی کہ اسے کسی کی بات پھر بری طرح چبھی ہے۔
’’ کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘ سکندر کا لہجہ ابھی بھی دھیما تھا۔
’’ ہاں کہا ہے اور آپ دونوں باپ بیٹا ہم دردی کے یہ ڈرامے بند کریں اور مجھ جیسی لڑکی سے وہی سلوک کریں جس کی میں مستحق ہوں۔جس لڑکی کی بارات دروازے سے واپس چلی جائے اور جس سے مجبوری میں شادی کر لی جائے اسے پاؤں کی جوتی بناکر رکھا جاتا ہے۔آپ دونوں بھی اپنا یہ دکھاوا ختم کریں اب۔‘‘صدف کی آواز بلند ہو گئی تھی۔
’’صدف!‘‘ سکندر کا انداز تنبیہی تھا ۔ اسے صدف کے اس انداز پر شدید ناگواری ہوئی۔ وہ خاموشی سے پلٹ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس وقت اس کی کوئی بات یا عمل صدف کی مزید دل آزاری کا سبب بنے۔
’’ بس یہ اوقات ہے میری کہ میری بات کاجواب تک دینا گواراہ نہیں اور دعوے دیکھو ذرا۔‘‘ وہ بیڈ پر بیٹھ کر زورو شور سے رونے لگی۔کوئی اس وقت اسے دیکھ لیتا تو اس کی عقل پر ماتم ہی کرتا کہ خود ہی جھگڑا کیا اوراب خود ہی مظلوم بنی رو رہی تھی۔
سکندر کافی دیر باہر ٹہلتا رہا ۔ غصّہ جب کم ہوا تو واپس کمرے میں آیا۔ صدف بیڈ پر کروٹ لیے جاگ رہی تھی۔ اس سے آتا دیکھ کر سوتی بن گئی ۔ سکندر نے لیپ ٹاپ اُٹھایا اور دوبارہ اپنا کام کرنے لگا۔ کام مکمل کر کے وہ بیڈ پر اپنی سائیڈ پر لیٹ گیا۔ تھکا ہوا تھا سو جلد ہی گہری نیند میں چلا گیا ۔ صدف ابھی تک جاگ اور کلس رہی تھی ۔ رات کے نجانے کس پہر اس کی آنکھ لگی تھی۔
٭…٭
اگلے روز جب وہ اُٹھی تو سکندر جا چکا تھا اور دین محمد چائے بنا کر اس کے ساتھ پاپے کھا رہا تھا۔ صدف کو بہت شرمندگی ہوئی۔
’’ چاچا! ٹھہر جائیں میں آپ کو ناشتہ بنا دیتی ہوں ۔ آپ مجھے آواز دے لیتے ، مجھے پتا ہی نہیں چلا اور دن چڑھ آیا۔‘‘
’’ سکندر کہہ کر گیا تھا تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ دین محمد نے پاپوں کی پلیٹ سائیڈ پر رکھی اور چائے کا بڑا سا گھونٹ بھرا۔
’’ نہیں میں ٹھیک ہوں اب، آپ چھوڑ دیں یہ چائے پاپے۔‘‘ صدف کچن کی طرف چلی گئی۔
اس کے دل و دماغ میں جنگ چھڑی تھی ۔ دل کہتا سکندر کی بات پر ایمان لے آئے اور دماغ سو دلیلیں دیتا کہ وہ یہ سب مجبوری میں کر رہا ہے۔ باپ کا حکم تھا جو اس سے ٹالا نہ گیا اور اسے اپنی زندگی میں شامل کر لیا۔ اس پر لوگوں کی باتیں ۔ کل دوپہر بھی وہ امّاں ابّا سے مل کر واپس اپنے گھر کے دروازے پر پہنچی تو سامنے والے گھر کے دروازے پر کھڑی ماسی بلھاں اور اس کی بہو ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگیں۔
’’ ہائے وچارا سکندر قربانی کا بکرا بن گیا۔ اسے بھلا کڑیوں کی کمی تھی۔ بس دین محمد کی بات نہ ٹالی اس نے اور یہ کڑوا گھونٹ بھر لیا۔‘‘وہ ان کی بات سن کر وہی ساکت ہو گئی۔ اتنی ہمت نہ رہی کہ دو قدم بڑھ کر اپنے گھر داخل ہو کر دروازہ بند کر کے ان کی تکلیف دہ باتیں سننے سے بچ جائے۔
’’ ہاں ماسی ویسے بڑا بیبا ہے سکندر ورنہ آج کل منڈے تو منڈے کڑیاں بھی قابو نہیں آتیں ۔ ‘‘ان کی باتوں نے اس کا ایسا دل جلایا کہ رات وہ بغیر کسی وجہ کے سکندر سے لڑ پڑی اور اس سے شدیدبدتمیزی کر گئی تھی ۔ اب اسے اپنے رویے پر افسوس ہورہا تھا۔اس نے ان دونوں کی باتوں کا غصّہ خوامخواہ بے چارے سکندر پر اتارا تھا ۔
’’اماں ابا نے سمجھایا تھا کہ قسمت نے تمھاری جھولی میں ہیرا ڈال دیا ہے اب اس کہ قدر کرنا اور میں نے رات کو اتنی بدتمیزی کی سکندر سے۔‘‘ اس کے اندر ابھی بھی جنگ سی چھڑی ہوئی تھی۔
’’تو اسے کون سا فرق پڑا میری باتوں سے، فرق پڑتا بھی کیوں میری اوقات ہی کیا ہے بھلا اس کے نزدیک۔ ‘‘وہ پھر بدگمان ہو گئی۔
رات کے کھانے کے لیے صدف نے بریانی اور سوجی کا میووں والا حلوا بنایا، ساتھ رائتہ سلاد۔یہ دونوں چیزیں سکندر کو بہت پسند تھیں ۔اپنی طرف سے صدف اپنے رات کے رویے کی تلافی کر رہی تھی ۔ موسم خوشگوار ہو رہا تھا مگر شام کے ساتھ ساتھ اس کی اُداسی بھی گہری ہوتی جاتی تھی۔ سکندر کے آنے کے بعد اس نے چٹائی بچھا کرکھانا لگایا۔ تینوں کھانا کھانے بیٹھے تو دین محمد ہر ہر نوالے پر صدف کی تعریف اور اللہ کا شکر ادا کرتا رہا۔ سکندر خاموشی سے کھاتا رہا۔ صدف اسے جانچتی نظروں سے دیکھتی رہی کہ ناراض ہے یا نہیں ۔سکندر اس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا مگر اسے اگنور کر کے یوں کھانا کھاتا رہاجیسے دنیا میں اس سے زیادہ ضروری کوئی اور کام نہ ہو۔
’’دھیے یہ ساری چیزیں دیوار پار اپنی اماں ابا کو دے آئی ہو نا؟‘‘
’’نہیں چاچا۔‘‘اس نے ہلکی آواز میں کہا۔
’’وہ کیوں بھلا؟،جب تم دیوار کے اس پار تھیں تو جو بھی اچھا بناتی تھی تو سب سے پہلے ہم باپ بیٹے کو دے کر جاتی تھی تو اب دیوار کے اس پار آکر ادھر والوں کو کیوں بھول گئی ہو۔ جاؤ سب چیزیں نکالو میں دے کر آتا ہوں۔ ‘‘
’’ اس لیے ابّا کہ یہ سمجھتی ہے ہم دونوں اس…‘‘ سکندر نے بات ادھوری چھوڑ کر صدف کو دیکھا ۔
جو یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید وہ اس کی رات والی بات بتانے لگا ہے ۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے سکندر کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔وہ ان دونوں کے خلوص کی دل سے قائل تھی ۔بس رات کو ایسے ہی زبان سے نکل گیا تھا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ چاچا دین محمد کو یہ بات پتا چلے اور ان کا دل دکھے۔
’’ کیا بھئی ، گل تو پوری کرو۔‘‘ دین محمد اس کی بات پوری ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’ یہ سمجھتی ہے کہ شاید ہم دونوں اسے منع کریں گے مگر اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اب یہ اس گھر کی مالکن ہے ، سیاہ کرے یا سفید ہم اسے بالکل نہیں روکیں گے ، نا اسے یہ طعنے دیں گے کہ سب کچھ اپنے پچھلوں کو دے آتی ہے۔‘‘ آخر میں سکندر کا لہجہ شرارت سے بھرپور ہو گیا تھا۔ اس کی بات سن کر صدف کا رکا ہوا سانس بحال ہوا اور وہ سر جھکا گئی۔
’’ہاں تو میری دھی مالکن ہے اب اس گھر کی اور تیری بھی ۔‘‘ دین محمد قہقہہ لگا کر ہنس پڑااور ہاتھ دھونے چلاگیا۔صدف نے ٹرے تیار کر کے دین محمد کو تھمائی۔
’’ کل رات کی بدتمیزی کے لیے میں معافی چاہتی ہوں۔‘‘ صدف سکندر کے روبرو تھی۔
’’ بقول ابّا اب آپ اس گھر کے ساتھ ساتھ اس ناچیز کی بھی مالکن ہے۔ اب آپ غلاموں سے جیسا چاہیں سلوک کریں ، غلام کی کیا مجال کچھ کہہ سکے۔‘‘ سکندر کا انداز ہلکا پھلکا تھا۔صدف قدرے شرمندہ ہو گئی۔اس نے خود سے عہد کیا تھا کہ آئندہ دوسروں کے لگائے گئے نشتر کا زہر وہ اپنی زبان کے ذریعے سکندر تک نہیں پہنچائے گی۔
٭…٭