پیشانی کے لیکھ: نظیر فاطمہ
صدف کی مایوں کا دن آن پہنچا۔ اس کی مایوں اور مہندی کی رسمیں رات گئے تک ہوتی رہیں۔ جس میں رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ محلے والوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔رات گئے تک خوب رونق لگی رہی۔
’’امّاں!‘‘ رات کو جب سب سو گئے تو صدف نے سوئی ہوئی امّاں کو ہلایا۔
’’ہوں!‘‘ امّاں نے اس کی طرف کروٹ لی اور اسے روتے ہوئے دیکھ کر اُٹھ بیٹھی ۔
’’ کیا ہوا ؟ دھیے کیوں رو رہی ہے؟‘‘ وہ اسے اس طرح روتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔اُس نے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا تو اس کے رونے میں اور شدت آگئی۔ امّاں کی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں۔دونوں کافی دیر ایک دوسرے سے لپٹی رہیں۔پھر امّاں نے اُسے خود سے الگ کر کے اس کے آنسو صاف کیے اور اس کے چہرے پر سے بال ہٹائے۔
’’ چل چپ کر جا پگلیے! کیوں رو رہی ہے؟‘‘ امّاں نے اُسے تسلی دی۔
’’امُاں ! میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے؟ مجھے نیند نہیں آرہی۔‘‘ اُس نے بے بسی سے کہا۔
’’ چل ادھر آکر میرے ساتھ لیٹ جا، میری دھی۔‘‘ امّاں نے اُسے اپنے بالکل قریب لٹاکر اس کا سر سہلانا شروع کر دیا۔اُس نے آنکھیں بند کر لیں لیکن اس کا دل ابھی تک عجیب سی پریشانی سے بھرا ہوا تھا۔
٭…٭
صدف پر دلہن بن کر بہت روپ آیاتھا ۔ ساری رشتہ دار خواتین نے اس کی بلائیں لیں اور اس کی سہیلیاں اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگیں۔سب کی باتوں پر بظاہر مسکراتی ہوئی صدف کے دل کو گویا پنکھے لگے ہوئے تھے۔جانے کیسا پریشان کن احساس تھا جو کسی طور ختم ہی نہ ہو رہا تھا۔محلے کے تین چار گھر چھوڑ کر ایک خالی پلاٹ تھا جہاں اکثر محلے والے شامیانے لگا کر شادیاں اور دیگر تقریبات بھگتا لیتے تھے۔صدف کی بارات کے بیٹھنے اور کھانے کا انتظام بھی اسی پلاٹ میں کیا گیا تھا۔بارات آچکی تھی اور شامیانوں میں بیٹھ چکی تھی۔سکندر سمیت محلے کے سارے لڑکے انتظام و انصرام میں مصروف تھے۔
’’ السلام علیکم رشید بھرا! کیا حال چال ہے آپ کا ؟‘‘ کمال دین نے دولہے کے باپ سے سلام دعا کی۔
’’ بالکل ٹھیک ٹھاک جی، آپ سناؤ۔‘‘ آج تو اس کے انداز ہی نرالے تھے۔بارات کو شربت وغیرہ پلایا جا رہا تھا ۔
دین محمد نکاح پڑھوانے کے لیے مولوی صاحب کو لینے گیا ہوا تھا۔وہ مولوی صاحب کو لے کر آیا تو شامیانوں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی اوراُونچا اُونچا بولنے کی آوازیں باہر تک آرہی تھیں۔وہ کسی انہونی کے خدشے کے پش نظر بھاگتا ہوا شامیانے میں داخل ہو ا تو اس نے دیکھا کہ کمال دین رشید کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ وہ فوراً آگے بڑھا۔
’’کمالے ! کیا ہوا ؟ یہ تو اس طرح کیوں کھڑا ہے؟‘‘کمالے کے دونوں بھائی اس کی طرف سے بول رہے تھے۔اُدھر سے رشید، اس کی بیوی اور سب سے بڑھ کر دولھا صاحب خود میں مقابلے پر تھے۔ ان کی باتیں سن کر اُسے اندازہ ہوا کہ اُنھوں نے کمالے سے نئی موٹر سائیکل مانگی ہے اور موٹر سائیکل نہ ملنے پر بارات واپس لے جانے کی دھمکی دی ہے۔کمال دین کا رنگ متوقع رسوائی کے خوف سے بالکل زرد ہو گیا اور اس کی بیوی باقاعدہ آنسوؤں سے رونے لگی۔ اس کے لیے کچھ بھی بولنا محال ہورہا تھا۔
’’ دیکھو جی ! آپ لوگ مل کر فیصلہ کر لو،ہمارا وقت بڑا قیمتی ہے۔‘‘دولھے نے تکبر سے گردن اکڑاتے ہوئے کہا۔
’’ تہاڈی بڑی مہربانی ہو گی۔ اس وقت یہ جھگڑا کھڑا نہ کرو۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایک مہینے کے اندر اندر موٹر سائیکل کا بندوبست کر دوں گا۔‘‘ کمال دین منت پر اُتر آیا۔
’’ تو پھر ہم آپ کی بیٹی کو بھی ایک مہینے بعد لے جائیں گے۔‘‘دولھے کی ماں نے اس ’’کارِ خیر ‘ ‘ میں مزید حصہ ڈالا۔
’’ اس توتو میں میں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔کمالے ! تو اِدھر آکر میری بات سن ذرا۔‘‘دین محمد اُسے بازو سے پکڑ کر سائیڈ پر لے گیاپھر وہ دولھا والوں سے مخاطب ہوا ۔
’’ تُسی لوگ تھوڑا انتظار کرو ۔‘‘
’’اور باقی لوگ آرام سے کرسیوں پر بیٹھ جائو۔‘‘ اُس نے ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر تماشا دیکھتے مہمانوں سے کہا۔
٭…٭
دین محمد، کمالے، اس کی بیوی اور بھائیوں کو لے کر اس کے گھر آیا۔صدف کو بھی کسی نے سارے معاملے کی خبر دے دی تھی اور وہ رسوائی اور بے عزتی کے خوف سے باقاعدہ کانپ رہی تھی اور بے آواز آنسو تواتر سے اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔یہ سب لوگ اس کے پاس آئے تو وہ بھاگ کر ماں کے گلے سے جا لگی۔کمالے میں تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اُسے تسلی ہی دے دیتا۔ دین محمد نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اُسے تسلی دی۔پھر ان سب لوگوں نے بند کمرے میں ایک میٹنگ کی۔’
’اوئے بلّے!ذرا سکندر کو میرے کول بھیج۔ ‘‘ دین محمد نے باہر نکل کر محلے کے ایک لڑکے کو آواز دی۔
سکندر آیا تو اُسے بھی میٹنگ میں شامل کر لیا گیا۔تقریبا ً آدھے گھنٹے بعد سب مطمئن چہروں کے ساتھ کمرے سے باہر نکلے۔امّاں صدف کومسکراتے ہوئے تسلی دینے لگیں اوردین محمد سکندر کے موبائل سے اپنے بیٹوں اور بہوئوں سے بات کرنے لگا۔
٭…٭
یہ گروپ واپس شامیانوں میں پہنچا تو سب لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔
’’ ہاں جی ! پھر کیا فیصلہ کیا ہے آپ نے؟‘‘ رشیدنے بے صبرے پن سے پوچھا۔
’’ہاں جی! فیصلہ ہو گیا ہے۔‘‘ کمالے کے بھائی نے جواب دیا۔
دُولھے کے باپ نے فخر سے پھول کر اپنے بیٹے کی طرف یوں دیکھا جیسے کوئی جنگ فتح کر لی ہو۔
’’ ایک بات اورموٹر سائیکل ہنڈا ہونی چاہیے۔‘‘ رشید مزید پھیلا۔
’’ہنڈا نا کوئی اور ،ہم نے موٹر سائیکل نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘کمال دین کے دوسرے بھائی نے رشید کے سر پر بم پھوڑا ۔
’’ تُسی شاید بھول رہے ہو کہ موٹر سائیکل نہ ملی تو ہم بارات واپس لے جائیں گے۔‘‘رشید نے کمال دین کے پر سکون چہرے کو دیکھ کر اُلجھتے ہوئے کہا۔
’’ تُسی شوق نال بارات واپس لے جاؤ۔‘‘ اب کے دین محمد گویا ہوا۔
’’تُسی چپ کرو ہمیں گھر والوں سے بات کرنے دو۔‘‘ اُسے دین محمد کی دخل اندازی ناگوار گزری۔
’’ چلو تُسی گھر والوں سے بات کر لو۔‘‘ دین محمد نے مسکرا کر ہاتھ جھاڑے۔
’’ پاء دین محمد ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘ کمالے نے لب کشائی کی۔
’’ کمال دین تو پاگل ہو گیا اے۔ بارات واپس چلی گئی تو سوچ تیری کتنی بے عزتی ہو گی اور تیری دھی کے بارے میں کتنی باتیں بنیں گی۔کون ویاہ کرے گا ایسی لڑکی کے ساتھ جس کی بارات بوہے سے واپس گئی ہو۔لوگ تجھے کتنا ذلیل کریں گے۔‘‘رشید نے سفاکی کی انتہاء کر دی۔
’’ رشید بھرا !کس کی مجال ہے کہ کسی نوں عزت یا ذلت دے سکے۔ یہ تو رب سوہنے کے کام ہیں وہ جسے چاہے عزت دے دے اور جسے چاہے ذلیل و رسوا کر دے۔ ‘‘ کمال دین نے جواب دیا۔
سارا پنڈال ایک تماشا گاہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔
بات بنتی نہ دیکھ رشید نے آواز لگائی۔’’ او منڈیو ! چلو سب نوں جمع کرو واپس چلیے۔ اوئے سلطان! چل تو وی اُتر اسٹیج توں میں دیکھتا ہوں یہ آج اپنی دھی کو کیسے رخصت کرتا ہے؟‘‘رشید نے بازو پکڑ کر دُولھے کو نیچے اُتارا۔
اُس کا خیال تھا ابھی یہ لوگ اس کے پیر پکڑ کر منت کریں گے لیکن سب کے سب بے پروا کھڑے تھے۔سارا محلہ اس صورت ِ حال سے پریشان تھا کہ بارات واپس چلی گئی تو کیا ہو گا؟
’’ یہ دیکھنے کے لیے کہ آج کمالا چاچا اپنی بیٹی کو کیسے رخصت کرے گا آپ کو کچھ دیر یہاں رکنا پڑے گا۔‘‘ سکندر نے پہلی بار لب کھولے۔
رشید کون سا واپس جا رہا تھا وہ تو صرف دھمکی دے رہا تھا اس لیے سب کو اکٹھا کرنے کے باجود پنڈال سے باہر نہ نکلا ۔
’’ مولوی صاحب ! بسم اللہ کرو۔‘‘ دین محمد نے مولوی صاحب اور سکندر دونوں کو اسٹیج پر بٹھاتے ہوئے کہا۔سکندر کو کپڑے تک بدلنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھانے کی کارروائی شروع کر دی۔رشید سارے باراتیوں میں گھرا حیرت سے بت بنا کھڑا تھا۔
’’ اے تُسی کیا کر رہے ہو۔ اپنی دھی کا نکاح کسی اور کے ساتھ پڑھا رہے ہو۔ بارات تو ہم لے کر آئے تھے۔ یہ تو ہماری بے عزتی ہے۔‘‘ رشید کی بیوی آگے بڑھی۔
مہمانوں میں سے کوئی بھی ان کی طرف داری میں نہ بولا کیونکہ سبھی ان کا گھٹیا پن دیکھ چکے تھے۔ باراتیوں میں سے بھی صرف دو چار لوگ ہی ان کی حمایت میں بول رہے تھے ۔ اُنھوں نے بہت واویلا کیا لیکن بات نہ بنی۔اسی دوران نکاح کی کارروائی مکمل ہو گئی۔ لڑکے والوں نے اپنی چال خود پر اُلٹتے دیکھی تو ایک اور وار کیا۔
’’ آپ سب لوگ دیکھ لو کہ ان کی لڑکی کا اس لڑکے کے ساتھ ضرور کوئی نہ کوئی چکر تھااور اس نے ضرور کوئی ایسی حرکت کی ہے کہ اس کے باپ نے بوہے چڑھی بارات کو چھوڑ کر اس کا نکاح اس لڑکے سے کروا دیا ہے ۔ ‘‘ دُولھے کی ماں نے سکندر کی طرف اشارہ کیا۔رشید بھی بڑھ چڑھ کر اپنی بیوی کا ساتھ دینے لگا۔ان کا بس چلتا تو اس پنڈال کو بم دھماکے سے اڑا دیتے۔
’’ بس او منڈیا!یہ ہمارے قصبے کی عزت کا معاملہ ہے۔یہ جو کچھ ہوا ہے نا اس میں کمال دین یا کسی اور کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب تم لوگوں کی بدنیتی اور لالچ کا جواب ہے۔ اب چُپ چاپ یہاں سے کھسک لو ورنہ میرے ایک فون پر پولیس تم لوگوں کو اُٹھا کر لے جائے گی ۔تم لوگ شاید جانتے نہیں ہو کہ میرا بھانجا ایس ۔ایچ ۔او ہے اور یہ علاقہ بھی اسی کے انڈر آتا ہے۔‘‘علاقے کا سابقہ کونسلر ملک سلطان عباسی اس جھگڑے کی اطلاع ملنے پر بھاگا آیا تھااور آتے ہی اُس نے رشید اور اس کے حامیوں کی بولتی بند کروائی تھی۔
’’ایسے لوگ جو دوسروں کی بیٹیوں کی عزت اور مستقبل کا کوئی خیال نہیں کرتے اور اپنے بیٹوں کو اس لیے بیاہتے ہیں کہ وہ لڑکی والوں سے مال بٹورسکیں تو ایسے کم ظرف لوگوں کو ایسے ہی سبق سکھانا چاہیے۔ چلو منڈیو! لڑکے والوں کو’’ عزت و احترام‘‘ کے ساتھ گاڑیوں تک چھوڑ کے آئو ۔‘‘ ملک صاحب نے وہاں موجود لڑکوں کو آواز دی۔
’’دین محمد ! میرے دل میں تیری عزت اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔تونے یہ فیصلہ لے کر صدف دھی کو عمر بھر کی تکلیف سے بچا لیا ہے۔ اللہ تجھے اس بات کا اجر دے گا۔‘‘بارات کے واپس جانے کے بعد ملک صاحب نے دین محمد کی اس سمجھ داری اور اس دلیرانہ عمل کو سراہا تھا۔
’’ کیوں شرمندہ کرتے ہیں ملک صاحب!‘‘ دین محمد نے عاجزی سے کہا۔’’ چلو کمالے کھانا کھلوا دیتے ہیں لوگ بیچارے کب سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ دین محمد نے مہمانوں کی طرف توجہ دلائی توسب مطمئن چہروں اور دلوں کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کا انتظام کرنے لگے۔
٭…٭
صدف اپنے ٹھنڈے یخ ہاتھوں کو آپس میں جکڑے بڑے پایوں والی اُونچی چارپائی پر حیران بیٹھی تھی ۔ قسمت نے آج اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا۔ وہ سجی آج کسی اور کے نام پر تھی مگر رخصت کسی اور کے ساتھ ہو کر آگئی تھی۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ اس شور میں اسے حیران ہونا تو دور کی بات سوچنے تک کی مہلت نہ ملی تھی ۔امّاں ابّا اسے یہاں چھوڑ کر اس کے سر پر پیار دے کر واپس اپنے گھر چلے گئے تھے ۔اب جو تھوڑی تنہائی ملی تو پہلے تو وہ جی بھر کر حیران ہوئی اور بے بسی کے احساس سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔آج جو اس کے ساتھ ہوا اور جس طرح سے وہ سکندر کی زندگی میں شامل ہوئی تھی ایسا سوچنا تو دور کی بات کبھی غیر ارادی طور پر بھی اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا۔ سکندر کو اس روپ میں قبول کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ سکندر اچھا تھا بہت اچھا تھا مگر یوں اس کی زندگی میں زبردستی شامل ہونا صدف کو بری طرح چبھ رہا تھا۔
جی بھر کر رو چکنے کے بعداس نے ٹشو سے آنکھوں اور چہرے کو اچھی طرح رگڑ کر صاف کیا ۔ اسے پیاس لگ رہی تھی ۔ اس نے کمرے میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں ۔ کمرے میں واحد چارپائی یہی تھی جس پر وہ براجمان تھی ۔ کمرے کے ایک کونے میں سکندر کا کرسی میز رکھے تھے۔ میز کے ایک کونے پر کتابیں رکھی تھیں ، درمیان میں اس کا لیپ ٹاپ اور دوسرا کوناخالی تھا ۔سکندر کی غیر موجودگی میں صفائی ستھرائی کی غرض سے وہ کئی بار وہ اس کمرے میں آئی تھی سارا نقشہ اسے زبانی یاد تھا۔مگر اس وقت وہ غائب دماغی کی کیفیت میں سب چیزوں کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار یہاں آئی ہو۔ کمرے میں پانی کہیں نہیں تھا۔
’’ سکندر پتر، کمرے میں جا کر صدف سے پوچھو اسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو ۔‘‘ دین محمد کے پاؤں مارے خوشی کے کہیں ٹکتے ہی نہ تھے۔ کبھی اِدھر آرہا تھا کبھی اُدھر جا رہا تھا۔
’’بات سن پُتر!‘‘سکندر اُٹھ کر کمرے میں جانے لگا تو دین محمد کی آواز پر پلٹا۔
’’ پتر یہ سب کچھ بڑی جلدی میں ہو اہے۔ صدف بڑی تکلیف والی صورت ِ حال سے گزر کر یہاں آئی ہے۔اس کو اس وقت تیرے سہارے اور مدد کی ضرورت ہے۔ پتر جے ضرورت پڑی تو اسے تھوڑا وقت دینا تاکہ وہ اپنے دل کو راضی کر سکے۔‘‘ دین محمد نے اپنے کڑیل جوا ن پتر کو دبے لفظوں میں جو سمجھایا تھا وہ اسے پوری طرح سمجھ میں آگیا تھا۔ سکندر اپنے باپ کی صدف سے محبت سے آگاہ تھا۔
’’ ابّا جی ، آپ کی دھی ہے صدف ، اب آپ جو کہیں گے وہی کرنا پڑے گا مجھے ، ورنہ اس کے ماں باپ تو بعد کی بات ہے آپ سے پہلے مار پڑ جانی ہے مجھے۔‘‘ سکندر نے شرارت سے کہا تو دین محمد مسکرا دیا۔
’’ چل زیادہ ہوشیار نہ بن۔‘‘
’’ ویسے ابّا جی آپ تو واقعی میری ولدیت کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو گئے ہیں ۔ میرے ساتھ بھی تو یہ سب اچانک ہوا ہے ۔ یہ سب میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا مگر میرے ساتھ تو آپ نے کوئی ہم دردی نہیں کی۔‘‘ سکندر نے باپ کو چھیڑا۔
’’ تو ٹھہر ذرا ۔ ‘‘ دین محمد نے اسے مارنے کے لیے کسی چیز کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائی تو سکندر قہقہہ لگا کر باپ سے لپٹ گیا۔ دین محمد کون سا سچ میں اسے مارنے لگا تھا۔بیٹے کو سینے سے پھینچ کر اس کی پیشانی چوم لی۔
’’ چل جا اب، ہر وقت چھوٹابچہ ہی بنا رہتا ہے۔‘‘ دین محمد نے اسے پرے ہٹایا۔
٭…٭