ناولٹ

پیشانی کے لیکھ: نظیر فاطمہ

اوائل جنوری کی انتہائی سرد شام تھی۔ سرِ شام ہی دھند نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اس قصبے نما گاؤں کے کچے پکے گھر دھند میں بمشکل اپنی شناخت قائم رکھے ہوئے تھے ۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ ہر گھر میں شام کے کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔وہ بھی گاجر کا حلوا بنانے کے لیے دیسی گھی میں گاجریں بھون رہی تھی۔گاجریں بھننے کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ُاس نے گاجروں میں دودھ ڈال کر انھیں مزید بھونا،پھر اس میں کھویا اور بادام ڈال کر کڑاہی چولھے سے اُتار لی۔اُس نے پر چھتی سے دو پلیٹیں اُتاریں۔ ایک پلیٹ میں حلوا نکال کر دوسری کو اُلٹا کر اُسے ڈھک دیا۔ دونوں پلیٹوں کو احتیاط سے پکڑے وہ باورچی خانے سے نکلی۔ باہر پھیلی دھند کو دیکھ کر اُس نے لمبا سانس کھینچا جیسے اس ٹھنڈک کو اپنے اندر اُتارنا چاہتی ہو۔
اُس نے وہیں کھڑے کھڑے امّاں ابّا کے کمرے کی طرف منہ کر کے آواز لگائی۔
’’ابّا !میں دینو چاچا کے گھر حلوا دینے جارہی ہوں ۔ابھی آتی ہوں۔‘‘
٭…٭
وہ اپنے گھر کے دروازے سے نکل کر ساتھ والے گھر کے دروازے پر دستک دینے لگی۔
’’ارے آرہا ہوں بابا،کون ہے بھئی؟‘‘اندر سے دینو چاچا کی آواز آئی اور کنڈی گرنے کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ کھل گیا۔
’’سلام چاچا۔‘‘ وہ سلام کر کے اندر داخل ہو گئی۔
’’وعلیکم السلام صدف پتر! آ اندر آجا شاباش، آج تو بہت ہی ٹھنڈ ہے ۔‘‘ وہ دینو چاچا کے پیچھے پیچھے برآمدے میں چلی آئی۔
’’چاچا! میں نے حلوا بنایا تھا ،یہ تمھارے لیے لائی ہوں ۔ ‘‘ اُس نے پلیٹیں دینو کی طرف بڑھائیں۔
’’ جیتی رہ پُتر ! تیری وجہ سے مجھے بھی یہ سوغاتیں کھانا نصیب ہو جاتی ہیں۔میرے گھر میں بھلا کون ہے جو ایسے کام کرے۔‘‘ دینو چاچا نے اُوپر والی پلیٹ ہٹا کر تھوڑا سا حلوا منہ میں ڈال لیا۔
’’ چاچا! سکندر پاء جی کدھر ہے؟‘‘ صدف نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’پُتر ! وہ کھاد لینے شہر گیا ہوا ہے۔‘‘ چاچا نے انگلیوں کی مدد سے حلوا کھاتے ہوئے اُس کے سوال کا جواب دیا۔
’’ ٹھیک ہے چاچا! میں اب چلتی ہوں۔ برتن صبح آکر لے جائوں گی۔‘‘ وہ اپنی چادر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ کر باہر نکل گئی۔
٭…٭
گھر پہنچ کر اُس نے دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور باورچی خانے میں چلی آئی۔اُس نے امّاں،ابّا اور اپنے لیے پلیٹوں میں حلوا نکالا اور باورچی خانے کا کواڑ بند کر کے کمرے میں چلی آئی۔
’’امّاں،ابّا! جلدی جلدی حلوا کھا لو۔ٹھنڈا ہو گیا تو بالکل مزا نہیں آئے گا ۔ ‘‘ اُس نے انگھیٹی کے گرد بیٹھے ہوئے امّاں ابّا کے سامنے پلیٹیں رکھیں اور خود بھی اُن کے پاس بیٹھ کر حلوا کھانے لگی۔
رات کو سونے سے پہلے اُس نے امّاں ابّا کو دودھ میں پتی ڈال کر دی اور اپنی رضائی میں گھس گئی۔
’’صدف دھی! تو ہماری عادتیں اتنی خراب نہ کر ۔چند مہینوں کی مہمان ہے تو ہمارے پاس ۔ اپنے گھر چلی جاؤ گی تو ہمارے یہ ناز نخرے کون اُٹھائے گا؟‘‘ابّا نے اُسے مخاطب کیا۔
’’ ابّا کتنی دفعہ کہا ہے کہ ایسے اُداس مت ہوا کر ۔ تب کی تب دیکھی جائے گی۔‘‘ اُس نے رضاعی سے منہ نکال کر کہا اور پھر منہ رضائی کے اندر کر لیا۔
٭…٭
صدف کمال دین اور مختاراں بی بی کی بہت منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونے والی اکلوتی اولاد تھی ۔کمال دین کی اس قصبے کے مین بازار میں پرچون کی دکان تھی۔ اس دکان سے ہونے والی آمدنی اتنی تھی کہ ان تینوں کا ٹھیک ٹھاک گزارہ ہو جاتا تھا ۔ دونوں میاں بیوی ساتھ ساتھ تھوڑی بہت بچت کر کے صدف کی شادی کے لیے پیسے بھی جمع کررہے تھے۔پچھلے سال صدف کی منگنی کمال دین کے دور پار کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی۔لڑکا نچلے درجے کا سرکاری ملازم تھا۔ اس سال اپریل تک وہ لوگ شادی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ ان کو بھلا کیا اعتراض ہوتا لہٰذا یہ لوگ تیاریوں میں مصروف تھے ۔
کمال دین کے بھائی ساہیوال سے کچھ دور ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھے اور اس کی چاروں بہنیں سیالکوٹ اور نارووال میں بیاہی ہوئی تھی اور وہ خود تقریباً پچھلے بیس سال سے ساہیوال کے اس قصبہ نما گاؤں میں رہائش پذیر تھا ۔ کمال دین کے اپنے محلے داروں سے بڑے اچھے تعلقات تھے ۔ خاص طور پر دین محمد کے ساتھ ۔ دونوں گھروں کی درمیانی دیوار سانجھی تھی ۔
دین محمد کے پانچ بیٹے ہی تھے بیٹی کوئی نہیں تھی اور بیٹی کے حوالے سے اپنے سارے شوق اور چائو چونچلے اس نے صدف سے لاڈ پیار کی صورت پورے کیے تھے ۔ اس کے چار بیٹے اچھے روزگار اور بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے مختلف شہروں میں جا بسے تھے ۔ پیچھے صرف دین محمد اور اس کا سب سے چھوٹا بیٹا سکندر رہ گئے تھے ۔ اس قصبے سے تھوڑے فاصلے پر دین محمد کی کافی زمینیں تھیں ۔ جو اللہ کے فضل اور سکندر کی محنت سے بڑی اچھی پیداوار دیتی تھیں۔اپنے بھائیوں کے برعکس سکندر کو اپنی زمینوں سے بہت پیار تھا ۔ اس نے زرعی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا ۔ اب وہ اپنی تعلیم کو اپنی زمینوں پر آزما رہا تھا ۔ وہ اپنی زمینوں پر جان توڑ محنت کر رہا تھا ۔اس کا یہی ارادہ تھا کہ وہ شادی کے بعد بھی یہیں رہے گا ۔آگے وہ دودھ، انڈوں اور دیسی مرغیوں کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہا تھا ۔ اب تو ان کے قصبے کے گردونواح میں بھی بہت سی سہولیات آگئی تھیں۔
دین محمد کے گھر میں کوئی عورت تو تھی نہیں اس لیے یا تو وہ خود کھانا بنا لیتا یا کبھی سکندر بازار سے کھانا لے آتا۔صدف کے ہاں جب بھی کوئی اچھی چیز بنتی وہ دونوں باپ بیٹے کا حصہ نکال کر دے آتی۔ دوسرے تیسرے روز ان کی طرف جا کر صفائی ستھرائی کر آتی اور اگر کبھی موڈ ہوتا تو دو چار سالن بھی بنا کر دے آتی۔جب واشنگ مشین لگاتی تو ان کے کپڑے بھی دھو دیتی۔
٭…٭
’’دینو چاچا! دینو چاچا!‘‘ وہ آوازیں دیتے ہوئے ان کے گھر میں داخل ہوئی۔
آج بہت دنوں بعد سورج نکلا تھا اور جیسے ہر طرف زندگی جاگ اُٹھی تھی۔وہ اپنے گھر کے کام نمٹا کر دینو چاچا کی طرف چلی آئی تاکہ یہاں بھی صفائی کر لے۔ پچھلے پانچ چھ روز میں ٹھنڈ ہی اتنی شدید تھی کہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پایا تھا۔سب سے پہلے اس نے کمروں میں پچھی ہوئی چارپائیوں کی چادریں بدلیں۔ پھر کمروں اور برآمدوں کی صفائی کر کے صحن میں چلی آئی۔ دینو چاچا صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹ کر دھوپ کے مزے لے رہا تھا۔ اسے صحن کی صفائی کرتے دیکھا تو اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’صدف پتر!‘‘
’’ ہوں چاچا۔ ‘‘ اس نے مصروفیت کے عالم میں جواب دیا۔
’’ پتر! تو اپنے گھر چلی جائے گی تو مجھے بہت یاد آئے گی۔ دھیے تیرے بغیر کون میرا اتنا خیال رکھے گا۔‘‘
’’کیا چاچا!تجھے اور ابّا کو ہر وقت ایسی باتیں سوجھتی ہیں۔‘‘ وہ جھلا کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
’’جھلی نہ ہو تو‘‘ وہ دوبارہ چارپائی پر لیٹ گیا۔
٭…٭
’’کمالے یار! صدف دھی کی شادی کی تاریخ کے بارے میں کیا سوچا ہے ۔‘‘ دین محمد کمالے کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’ پاء دین محمد! صدف کے سسرال والوں سے کل ہی میری بات ہوئی ہے۔وہ لوگ اپریل کا دوسرا ہفتہ کہتے ہیں ۔ ‘‘ کمال دین نے اُسے چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’کمالے ! تجھے پتہ ہے نا کہ صدف میری بھی دھی ہے ۔تجھے اس کی شادی پر کسی چیز یا پیسوں کی ضرورت ہو تو بالکل نہ سنگی ۔ بس اک اشارہ کر دینا میں سمجھ جاواں گا۔‘‘ اُس نے بڑے خلوص سے کہا۔
’’ ارے پاء دین محمد ! تیرا بہت بہت شکریہ ۔اللہ پاک دا بڑا کرم اے۔ صدف پتر دے جہیز اور باراتیوں کے کھانے تک ہر چیز کا بندوبست ہو جائے گا۔ تسی بس دعا کرو کہ اللہ میری دھی کے نصیب چنگے کر ے۔‘‘ کمال دین کی آنکھوں میں صدف کی جدائی کے تصور سے نمی سی تیرنے لگی۔
٭…٭
صدف کی شادی کی باقاعدہ تاریخ طے ہو گئی تو دونوں طرف شادی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں ۔ اس کے امّاں ابّا نے اپنی بساط کے مطابق اس کے لیے ہر چیز بنائی تھی۔
’’ صدف دھی!آج تو میرے ساتھ بازار چل کے اپنے لیے کچھ کپڑے اور جوتے خرید لے ۔ شادی کے دن پہننے والا جوڑا تو پاء دین محمد کی بہو نے آڈر پر بننے کے لیے شہر میں ہی دیا ہوا ہے ۔ پچھلی دفعہ وہ آئی تھی تو میں نے تیرا ناپ بھی دے دیا تھا ۔ وہ تیرا جوڑا سلوا کر لائے گی۔تجھے پتہ ہے نا کہ وہ کتنے اچھے کپڑے پہنتی ہے اور اس سے کہو تو وہ بنوا کر بھی لا دیتی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ وہ تیرا جوڑا بڑا اچھا سا بنوائے ۔ ‘‘امّاں نے صدف کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
وہ مالٹوں کو نمک لگا لگا کر کھا رہی تھی۔اُس نے مالٹے کی آخری پھانک منہ میں ڈالی ،پھر اس کے بیج منہ سے نکاکر ہتھیلی پر رکھے اورانھیں مالٹے کے چھلکوں پر پھینک دیا۔
’’ ٹھیک ہے امّاں اور تو حمیداں تائی کوساتھ لے چلنا۔ وہ بھاؤ تاؤ خوب کر لیتی ہے۔‘‘ اُس نے رضا مندی کے ساتھ ساتھ مشورہ بھی دیا۔
٭…٭
’’امّاں! میں ایسا فرنیچر بنواؤں گی۔‘‘ صدف نے اپنے قریب بیٹھی امّاں کو ٹی وی کی طرف متوجہ کیا جو اس کے دوپٹے پر بیل ٹانک رہی تھیں۔امّاں نے نظریں اُٹھا کر ٹی۔ وی کی طرف دیکھاجہاں کسی لگژری ڈرائینگ روم کامنظر دکھایا جارہا تھا۔
’’کڑئیے! اپنی خواہشوں کو بے لگام نہ کر۔تو جانتی ہے کہ ایسا فرنیچر ہم جیسے لوگ صرف ٹی۔وی پر دیکھ سکتے ہیں، خرید نہیں سکتے۔تیرے ابّا نے تیرے لیے بڑا اچھا فرنیچر بننے کا آڈر دیا ہوا ہے۔‘‘ امّاں نے اس کی فرمائش پر قدرے رکھائی سے کہا۔
’’ ارے امّاں ! ناراض تو نہ ہو۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔تجھے لگتا ہے کہ میں کوئی ایسی خواہش کروں گی جسے پورا کرنا تم لوگوں کے بس میں نہ ہو۔‘‘ اُس نے امّاں کے گرد بازو لپیٹ کر سر ان کے کندھے پر رکھ دیا۔
اسی طرح تیاریاں کرتے ہوئے وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہ چلااور صدف کی شادی میں دو ہفتے رہ گئے۔اس کا شادی کے دن پہننے والا جوڑا بھی سل کر آگیا۔ بہت خوب صورت جوڑا تھا اس کا۔اپنی طرف سے ان کی تمام تیاری مکمل ہو چکی تھی۔
’’بھلیے لوکے! ایک گلاس پانی تو پلا۔‘‘کمال دین صدف کی امّاں سے کہہ کر ڈھیلے ڈھالے انداز میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔
اس کا انداز بہت تھکا ہو ا اور چہرے پر سنجیدگی تھی۔صدف باورچی خانے میں شام کے لیے سالن بنا رہی تھی۔
’’ کیا بات ہے صدف کے ابّا؟کچھ پریشان لگ رہے ہو۔‘‘ امّاں نے پانی کا گلاس پکڑایا اور خود بھی وہیں بیٹھ گئی۔کمال دین نے پانی پیا اور ٹھنڈی سانس بھر کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ اب بتا بھی دے ۔ مجھے بھی پریشانی ہونے لگی ہے۔‘‘
’’ صدف کا سسر آیا تھا آج میری دکان پر۔‘‘ کمال دین رُکا تو امّاں نے اپنی رُکی ہوئی سانسیں بحال کیں۔
’’ تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟‘‘
’’ وہ کہہ رہا تھا کہ انھیں جہیز میں بڑے سائز کا فریج بھی چاہیے۔‘‘کمال دین نے اپنی بات مکمل کی۔
’’ کیا؟ وہ فریج خود مانگ کر گیا ہے؟ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ کوئی طریقہ ہے یہ۔ تم کہتے نا کہ ہم سے جو ہوسکا ہے ہم نے بنایا ہے۔ فریج تو ان کے گھر میں موجود ہے ۔پھر کیوں مانگ رہا ہے۔اُنھیں…‘‘
لیکن کمال دین نے اس کی بات مکمل نہ ہونے دی۔ ’’بس اب بات کو زیادہ بڑھاوا نہ دے۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ پھر یہ بھی تو سوچو کہ آخر استعمال تو ہماری بیٹی ہی کرے گی نا۔‘‘
’’ لیکن تو جانتا ہے کہ شادی میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ سب خرچوں کے بعد صرف بارات اور ہماری طرف کے مہمانوں کے کھانے کے پیسے ہی بچے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی سے قرض نہیں لینا پڑا۔اب کیا کرو گے؟‘‘ امُاں نے پریشانی سے پوچھا۔
’’ کرتا ہوں کچھ۔ بس تو کسی کو یہ بات نہ بتانا کہ اُنھوں نے خود منہ پھاڑ کر فریج مانگا ہے۔ہم یہی کہیں گے کہ ہمیں خود ہی خیال آگیا کہ یہ بھی جہیز میں شامل ہونا چاہیے۔‘‘ کمال دین بات مکمل کر کے باہر والے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
گھر سے باہر نکل کر اُس نے دین محمد کے دروازے پردستک دی۔دین محمد دروازہ کھول کر باہر نکلا۔
’’آئو کمالے!‘‘ وہ اُسے اپنے ساتھ برآمدے میں لے آیا اور اُسے موڑھے پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود بھی دوسرے موڑھے پر بیٹھ گیا۔دونوں کا تقریباً بیس سالوں کا ساتھ تھا۔وہ اس کی شکل دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہ کسی پریشانی میں ہے۔لیکن وہ خاموش رہا۔ وہ چاہتا تھا کمال دین خود بات شروع کرے۔
’’ پاء دین محمد!تجھ سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘ وہ جھجکا۔
’’تو کر نا یار اتنا سوچ کیوں رہا ہے؟‘‘دین محمد نے اس کی ڈھارس بندھائی۔
’’ پاء! بات یہ ہے کہ صدف کے سسرال والوں نے بڑے فریج کا مطالبہ کیا ہے ۔فی الحال میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں فریج خرید سکوں اور اپنے بہن بھائیوں کو میں یہ بات بتانا نہیں چاہتا ۔ اس لیے اگر…‘‘وہ بے ربط ہوا اور بات مکمل کیے بغیر ہی رُک گیا۔
’’ یارکمالے!کوئی بات نہیں ۔صدف میری بھی دھی ہے ۔تو بالکل فکر نہ کر ۔ کل سویرے تجھے پیسے مل جائیں گے۔‘‘ دین محمد نے کمال دین کو سوال کرنے کی زحمت سے بچا یا۔
’’ پاء ! میں تیرا یہ احسان زندگی بھر یاد رکھوں گا اور ایک بات اور یہ بات کسی کو پتہ نہیں چلنی چاہیے۔بات ہماری عزت کی ہے۔‘‘ اُس نے جیسے منت کی تھی۔
’’ اوئے ! تو بالکل پریشان نہ ہو ۔ جا بے فکر ہو گھر جا اور روٹی شوٹی کھا کے آرام نال سو جا۔‘‘دین محمد نے مسکرا کر اس کا کندھا تھپکا۔
کمال دین تو چلا گیا لیکن اس کے دل میں صدف کی سسرال کو لے کر عجیب عجیب خیال آنے لگے۔جیسے وہ بہت لالچی لوگ ہوں ورنہ عین وقت پر اس طرح کا مطالبہ نہ کرتے۔وہ ان خیالات کو جھٹک کر اپنا حقہ تازہ کرنے کی نیت سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
٭…٭

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page