مکمل ناول

مقیدِ مَن: فہمیدہ فرید خان

’’کل تک ہم یہی سمجھ رہے تھے وہ تم پر فدا ہیں اور اچانک یہ قصہ… نہیں، مجھے یہ سب ہضم نہیں ہو رہا۔“
’’ہاجمولہ کھا لو… او بی بی عقل بند، وہ مجھ پر فدا کیوں ہونے لگے۔ ایسا ہوتا تو ہمارے گھر رشتہ لانے میں کیا امر مانع تھا جب کہ نیلو خالہ اماں کی سہیلی ہیں۔‘‘
’’دیکھو نا کوئی بات ہے کرنے والی… مٹھائی کی ٹوکری اور دو پھول دے کے اپنی اماں کو رشتہ لینے بھیج دیا۔ اور اماں، چند نوٹ مجھے یوں پکڑا گئیں جیسے ان سے میرے خوابوں کا محل کھڑا ہو جائے گا۔‘‘
اس نے ہاتھ میں تھامے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ پلنگ پر پٹخے۔
’’او ہیلو، وہ رشتہ لینے نہیں آئی تھیں… تمہارے حسنِ جہاں سوز نے اور کچھ ساجی خالہ کی رشتے ٹپک گفتگو نے انہیں جھٹ پٹ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ کہیں کڑی ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ پھول میں اپنے باغیچے سے لے کر آئی تھی خیر سگالی کے طور پر۔“
فہمی نے اس کے ارمانوں پر مزید ٹھنڈا پانی ڈالا۔
’’لے دس… کیا فائدہ ہوا مجھے اتنے ناول پڑھنے کا۔ مجال ہے ذرا سی بھی کوئی ناولٹی ہیروئین جیسی محسوسمنٹ آئی ہو۔‘‘
مدیحہ کے نئے شکوہ پر فہمی کا منھ کھل گیا۔
’’ہائیں کیا تم ناول کی ہیروئین بننا چاہتی تھیں؟‘‘
’’چلو تم بن جاؤ ہیروئین لیکن میری پیچھے کی کہانی میں کوئی ہلچل، کوئی ہلا گلا، کوئی رومانچک یاد تو ہونی چاہیئے۔ لے کے سیدھا سادہ رشتہ بھیج دیا ہونہہ۔‘‘
’’ارے ارے ارے… مجھے نہیں پتہ تھا تمہیں ہیروئین بننے کا اتنااااااااااا ارمان ہے۔‘‘
ہک ہا، موسم تھا ہیروئینانہ…
٭…٭
ڈیرہ جمال گاہی پر ملن کی رت چھائی تھی۔
موسم تھا منگنینانہ۔
ڈیرے کے گلی کوچوں کی سجاوٹ با کمال تھی۔ ہر سو چہل پہل تھی۔ مدیحہ کے رشتے پر سوچ بچار جاری تھی لیکن میشا کی منگنی کا سورج تزک و احتشام سے طلوع ہو چکا تھا۔ لڑکیوں نے میشا کے گھر ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ میشا کو تیار کروانے کی ذمہ داری مونا اور مدیحہ کے سر تھی لیکن مونا کی خالہ نے اچانک امریکہ سے برآمد ہو کر اس کا سارا پروگرام چوپٹ کر دیا تھا۔ آخر کو وہ اس کی ہونے والی ساس تھیں۔ مدیحہ نے ہنگامی بنیادوں پر فہمی کو طلب کیا۔
’’یار ساری لڑکیوں کو آج ہی اپنے مکھڑے لشکانے یاد آئے ہیں، کوئی ایک بھی میسر نہیں ہے۔ میرے ساتھ پارلر چلو۔‘‘
’’میں اماں سے پوچھ کے آتی ہوں۔‘‘
فہمی استری کرنے والے کپڑے بازو پر ڈالے اماں کو بتانے آئی تھی۔ انہوں نے سنتے ہی بولا۔
’’لیپا پوتی واپسی پر کر لینا۔ ابھی میڈی کے ساتھ جاؤ۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔‘‘
’’میں نے کون سی لیپا پوتی کرنا ہے۔ آپ خود کہتی ہیں کنواری لڑکیوں کو بن سنور کر نہیں رہنا چاہیئے، جن چمڑ جاتے ہیں۔‘‘
’’بے دید، بے ہدایتی اولاد… زبان پکڑنے سے باز نہیں آتی۔ چلو جلدی نکلو بچی کو دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’میرے کپڑے استری کر دیجئے گا اماں جانی۔‘‘
فہمی ہنستے ہوئے کپڑے ان کی جھولی میں ڈال کے بھاگ لی۔
مدیحہ نے اس کے بیٹھتے ہی زن سے گاڑی بھگا لی۔
٭…٭
’’ہم بھی پارٹی میک اپ کروا لیتے ہیں فہمی۔ دلہن کی سہیلیوں کو اس کی ٹکر کا لگنا چاہیئے۔‘‘
مدیحہ نے میشا کو دیکھ کر صلاح دی۔
’’تم نے ڈاکٹر صاحب کو متاثر کر لیا ہے۔ اب کیوں لشکنا چاہتی ہو۔‘‘
’’بدتمیز پراں مر۔‘‘
وہ جھینپ گئی تھی۔
’’ویسے تم کروا لو میڈی تاکہ اپنی حسن پرست ساس کے دل میں مزید گھر کرو۔‘‘
فہمی نے ہنسی۔
’’تم بھی کروا لو۔ پیسے مجھ سے لے لو یار۔‘‘
’’نہ نہ، اس ناقابلِ تعزیر جرم پر اماں نے بھری محفل میں میری چھترول کر دینی ہے۔‘‘
مدیحہ اس عذرِ لنگ پر منھ بناتی کرسی پر جا بیٹھی۔
وہ اس کے رنگ برنگے تاثرات دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔ اس کا موبائل بجا۔
’’السلام علیکم اماں خیریت۔‘‘
اسے تشویش ہوئی۔
’’اے ہاں خیریت ہے وعلیکم السلام۔ مجھے ابھی ابھی یاد آیا، میشا کے دلہے کی انگوٹھی سنار کے پاس پڑی ہے۔ میرا بچہ واپسی پر لیتی آنا۔‘‘
’’دلہے کی ان گو ٹھی۔‘‘ اس نے توڑ توڑ کر بولا۔ ’’وہ کل مون لے نہیں آیا تھا؟‘‘
’’کب لایا… وہ اسپتال خون دینے چلا گیا تھا۔ مغیث (دوست) کے ابو حادثہ میں زخمی ہو گئے تھے۔ اس نے بولا تھا کہ جلدی فارغ ہوا تو لے آؤں گا۔ رات تین بجے گھر سلام بجایا تھا۔ اب نصرہ (میشا کی امی) پریشان بیٹھی ہے۔ لڑکے سارے ہال چلے گئے ہیں۔‘‘
’’اچھا ہم لے آئیں گے۔‘‘
فہمی نے مدیحہ کو صورت حال بتائی۔
’’آں میرا میک اپ تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔ میشا کو تیار ہونے میں وقت لگے گا، کیوں نا ہم ابھی جا کے انگوٹھی لے آئیں۔ میشا کے تیار ہونے تک تقریب کا وقت ہو جائے گا۔ بھاگم دوڑی میں یہ اہم کام کہیں رہ نہ جائے۔‘‘
اس کا مشورہ صائب تھا۔ فہمی نے اثبات میں سر ہلایا۔
استقبالیہ پر موجود لڑکی کو میشا کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے وہ سنار کی دکان پر پہنچیں۔ مدیحہ نے انگوٹھی ٹھوک بجا کے فہمی کے حوالے کی۔ وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق برق رفتاری کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے مدیحہ نے راہ گیر لڑکی کا پاؤں کچل دیا۔ دو سریلی چیخیں سنتے ہی فہمی گویا اڑ کر جائے وقوعہ پر پہنچی۔ مدیحہ کو سہارا دے کر کھڑا کیا۔ اسے صحیح سالم دیکھ کر وہ لڑکی کی طرف متوجہ ہوئی جو بیک وقت ماتھا اور ٹانگ پکڑے آہ و بکا میں مصروف تھی۔ مدیحہ بھی سنبھل کر مدد کو لپکی۔ دونوں نے لڑکی کو کھڑا کیا مگر وہ زور دار چیخ کے ساتھ دوبارہ نیچے بیٹھ گئی۔ انہوں نے متوحش ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’لگتا ہے اسپتال لے جانا پڑے گا۔ تم یہیں رکو میں گاڑی لے کر آتی ہوں۔‘‘
مدیحہ کے شکستہ اعصاب کے پیشِ نظر فہمی نے فوری فیصلہ لیا۔
’’اور میشا؟‘‘
’’میشا کو تیار ہونے تک ہم فارغ ہو جائیں گے۔‘‘
مدیحہ نے سر ہلا دیا۔
فہمی نے گاڑی دکان کے پاس روک کر وہاں موجود خواتین کی مدد سے زخمی لڑکی کو گاڑی میں منتقل کیا۔ قریبی اسپتال کا پتہ پوچھ کے وہ گاڑی میں آن بیٹھی۔
لڑکی ہلکے ہلکے کراہ رہی تھی۔ اسے تسلی دیتے ہوئے غیر ملکی خدوخال اسے چونکا گئے تھے۔
’’لڑکی انگریز نہیں لگتی میڈی۔‘‘
اس نے ترنت سوال جھاڑا۔
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’پاگل اسے اردو کہاں آتی ہو گی۔‘‘
اسی اثناء میں لڑکی بول پڑی۔
’’میرا نام مونیکا ہے۔‘‘
اس کی شستہ اردو سے ان پر گھڑوں پانی پڑا تھا۔
٭…٭
اسپتال کی عمارت دیکھتے ہی مدیحہ بدک گئی۔
’’میں اندر نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
فہمی نے تیکھے چتونوں سے گھورا۔
’’یہ ڈاکٹر صاحب کا اسپتال ہے۔‘‘
وہ دھیرے سے بولی۔
’’واہ بھئی بڑی خبریں رکھی ہوئی ہیں۔ رب رب مجھے یقین نہیں آ رہا جو کچھ کہانیوں میں پڑھا تھا، وہ حقیقت بنتے دیکھ رہی ہوں۔ سجی سنوری ہیروئین، وجیہہ ہیرو اور اتفاقی ٹکراؤ اورررر… آئے ہائے ہائے۔‘‘
اس کے تخیل کی پرواز بلند سے بلند تر ہوئی جا رہی تھی۔
’’چپ کر کے بیٹھو… خواب اور حقیقت میں ہزاروں نوری سال کا فرق ہے۔ سمجھنے کی کوشش کرو یار… کسی نے دیکھ لیا تو یہی سمجھے گا میں یہاں جان بوجھ کے آئی ہوں۔‘‘
مدیحہ کی کرختگی نے اسے واپس اسپتال کے احاطے میں لا پٹخا۔
’’اب کوئی علاج کروانے بھی نہ آئے۔‘‘
وہ چمک کر بولی۔
’’ضروری نہیں آج ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی پر ہوں۔‘‘
اس کی تسلی پر مدیحہ قدرے پرسکون ہوئی لیکن یہ وقفہ عارضی تھا۔
مونیکا کا اسٹریچر ایمرجنسی میں داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹک گئیں۔ ڈاکٹر یاسر ساتھی سے گفتگو کرتے چلے آ رہے تھے۔
’’گئی بھینس پانی میں۔‘‘
ڈاکٹر یاسر کی نظر ان پر پڑ چکی تھی اور وہ متعجب سے اسی طرف آ رہے تھے۔ مدیحہ بھاگنے کے لیے پر تولنے لگی۔ فہمی نے اس کا بازو سختی سے جکڑ لیا۔
’’کھا نہیں جائیں گے تمہیں۔‘‘
’’آپ لوگ یہاں، خیریت؟‘‘
”اسپتال کون خیریت سے آتا ہے۔“
مدیحہ پر گھوری ڈال کے فہمی نے وجہ گوش گزار کی۔ وہ او۔ٹی میں چلے گئے۔
وہ دونوں بینچ پر ٹک گئیں۔
تھوڑی دیر میں نرس مونیکا کو سہارا دیئے چلی آئی جو لنگڑا کر چل رہی تھی۔ ماتھے پر بھی پٹی تھی۔
’’شکر کریں بچت ہو گئی۔ مرہم پٹی کر دی گئی ہے۔ درد کش ٹیکہ بھی لگوا دیا ہے۔ شام تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘
فہمی نے دوائیوں کا نسخہ پکڑ لیا۔ مدیحہ انگلیاں چثخاتی رہ گئی۔
’’آپ کو چائے پلواتے ہیں۔ یہاں کی کینٹین میں بہت اچھی چائے بنتی ہے۔‘‘
ان کا لہجہ خوشگواریت کا غماز تھا۔
فہمی کا دل ڈائجسٹی منظر دیکھنے کو مچل اٹھا لیکن وقت کی نزاکت کے پیشِ نظر اس نے انکار کر دیا۔
’’بہت شکریہ… ہمیں ابھی میشا کو بھی پارلر سے لینا ہے۔‘‘
’’کوئی خاص دن ہے آج… سب سجے سنورے نظر آ رہے ہیں۔‘‘
ان کی نظریں مدیحہ کے سراپے سے الجھ رہی تھیں۔
’’میشا کے لیے خاص ہی ہے۔ اس کی منگنی ہے نا۔‘‘
فہمی ”سب“ کہنے پر ہنس پڑی تھی۔
’’اوہو یہ بات میرے ذہن سے نکل گئی تھی… خیر آپ دلہن کو لینے جائیں گی تو ان کا کیا ہو گا؟‘‘
انہوں نے بینچ پر ٹکی مونیکا کی طرف اشارہ کیا۔
’’انہیں ساتھ لے جائیں گے اور جہاں کہیں گی پہنچا دیں گے۔‘‘
’’دیر نہیں ہو جائے گی؟ تقریب کا وقت ہونے والا ہے۔‘‘
’’ہاں مگر اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔‘‘
’’میرے پاس ایک حل ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’میری ڈیوٹی ختم ہو چکی ہے۔ مس مونیکا کو میں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
مدیحہ یک دم اٹھی۔
’’چابی دو، میں گاڑی میں بیٹھتی ہوں۔ جب تمہارے مذاکرات ختم ہوئے تو آ جانا۔‘‘
چابی چھین کے وہ ٹک ثک کرتی باہر چلی گئی۔
’’ارے انہیں کیا ہوا؟‘‘
ڈاکٹر یاسر کے تحیر پر فہمی کو ہنسی آنے لگی۔ کیا ستم ظریفی تھی کہ فتنے کی جڑ وہ خود تھے۔
’’کچھ نہیں ہوا۔ آپ کہاں رہتی ہیں مونیکا؟‘‘
’’ڈیرہ جمال گاہی۔‘‘
اس کے جواب پر دونوں ہکا بکا رہ گئے۔
٭…٭
چند دن آوت جاوت اور دعوتوں کی نذر ہوئے۔ پھر صلاح مشورے کے دور کا آغاز ہوا۔ کبھی نیلو خالہ کا فون آتا، کبھی ساجی خالہ کا۔ مذکورہ خواتین اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے گھر پائی جانے لگیں۔
پھر ایک دن ساجی خالہ نے فہمی کو بلا بھیجا۔
’’فہمی بیٹا ہم نے رشتہ منظور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ ذرا میڈی سے عندیہ لو، اس کی کیا مرضی ہے۔‘‘
’’میں پوچھ کر بتاتی ہوں۔‘‘
وہ انہیں کیا بتاتی کہ لڑکی راضی ہے مگر اسے ہیروئین والے محسوسات چاہیئیں۔
وہ ہمہ وقت ’’اک ملاقات ضروری ہے صنم“ گاتی پھر رہی تھی۔
مدیحہ کی تخیلاتی پرواز عجب فتنہ پرور و شر انگیز تھی…
وہ بالکونی سے باغیچے میں جھانکتی اور حفاظتی جنگلے سے ٹیک لگا کے ایک ادا سے کہتی۔
’’ہائے فہمی، کیا سماں ہو جب باغیچے کے مشرقی کونے میں بوگن ویلیا کے اودے پھولوں سے بھرے کنج کے تلے ڈاکٹر صاحب مجھے سرخ گلابوں کے گلدستے کے ساتھ شادی کی پیش کش کریں۔‘‘
(ایں بوگن ویلیا کے پھول اودے رنگ کے ہوتے ہیں؟ سرخ گلاب دینے سے اس کنج کی بِستی نہیں ہو گی… مخبری کی صورت میں ساجی خالہ کی باریک ایڑی سے کھوپڑی میں بھیانک سوراخ بھی ہو سکتا ہے…) فہمی جھرجھری لے کر رہ جاتی۔
’’ہم ڈیرہ جمال گاہی کی طویل روش پر آئس کریم لے کر چہل قدمی کرتے جاتے اور دنیا جہان کی باتیں کرتے جاتے۔‘‘
وہ صاف ستھری سڑک کو تکنے لگتی۔
(یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ڈیرے کے سارے لوگ با جماعت بھنگ پی لیں…) فہمی پیچ و تاب کھائے جاتی… مگر مدیحہ کی گوہر افشانی جاری رہتی۔
’’برستی بارش میں ہم ایک چھاتہ تانے تمہارے گھر آتے اور تم ہمیں کپو چینو بنا کے دیتیں۔‘‘
(ایسا تبھی ممکن ہے جب تم دونوں سلیمانی ٹوپی پہن لو۔)
مدیحہ آرام کرسی میں جھولتی لہراتی بل کھاتی انوکھے راگ الاپتی جاتی… اور فہمی کلپتی جاتی…
(چچ بے چاری کے سب ارمان تشنہ رہ جائیں۔ ہمارے ہاں ایسا کب ہوتا ہے۔)
اس کی لن ترانیاں ڈاکٹر صاحب سے مڈ بھیڑ کا شاخسانہ تھیں۔
’’موسم ہے ملاقاتانہ۔‘‘
وہ ہولے سے گنگنائی۔
’’اوئے یہ تمہیں کس سے ملاقات کی سوجھ رہی ہے۔‘‘
فریا اور غزال نے اپنی آمد کا بگل بجایا۔
’’رب رب میں کیوں کرنے لگی کسی سے ملاقات… یہ مدن لال کا دل ہمک ہمک کے موسم ہے رومچکانہ کی دہائیاں دے رہا ہے۔‘‘
’’ایویں خواہ مخواہ۔‘‘
میڈی گلابی پڑ گئی۔
’’ہاں ہاں اب بولو پراں مر۔‘‘
فہمی نے اسے گدگدایا۔ فضا میں چاروں کی کل کل کرتی ہنسی کی جلترنگ پھیل گئی۔
ساجی خالہ کو میڈی کی ہاں کی خوشخبری دی۔ نیلو خالہ کے گھر جانے کا پروگرام بننے لگا۔
’’میڈی کو بھی ساتھ لے جائیں خالہ۔ یہ بھی ڈاکٹر صاحب کو ٹھوک بجا کے دیکھ لے گی۔‘‘
غزال نے چٹکلہ چھوڑا۔
مدیحہ نے اسے زور سے چٹکی کاٹی۔ اس کی ہائے اور خالو کا قہقہہ چھت پھاڑ تھے۔
٭…٭
فہمی نے شبو کی شادی کے کپڑے لینا تھے، غزال کو چوڑیاں… مدیحہ اور فریا نے جوتے پسند کرنا تھے۔ وہ مدیحہ کی گاڑی میں لد کر مال پہنچیں۔
’’مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
فوڈ کورٹ دیکھتے ہی فریا مچل گئی۔
’’ندیدی عورت، ابھی تم میرے گھر سے بریانی ٹھونس کر نکلی تھیں۔‘‘
غزال نے اس کے لتے لیے۔
’’ایک بار کے بعد دوبارہ نہیں کھا سکتے؟ اب کیا بھوکی مر جاؤں۔‘‘
’’چلو چلتے ہیں۔ میں نے بھی دوپہر کا کھانا نہیں کھایا۔‘‘
مدیحہ نے صاد کیا۔
’’موسم ہے بھوکیانہ۔‘‘
فہمی کی دہائی پر فریا نے شرارت سے آنکھ دبائی۔
وہ اوپر پہنچیں تب غزال کو یاد آیا کہ وہ اپنا موبائل گاڑی میں بھول آئی ہے۔
’’میڈی چابی دینا۔ امی کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کال کرنے کی عادت ہے۔ میں نے کال نہ اٹھائی تو ان کا فشارِ خون بلند ہو جائے گا۔‘‘
’’جلدی آنا۔‘‘
اس نے تاکید کی۔
’’بس ہم یوں گئے اور یوں آئے۔‘‘
غزال نے فہمی کو ساتھ گھسیٹ لیا۔
’’ارے یہ تو میری دوست لگ رہی ہے۔ میں اس سے ذرا علیک سلیک کر کے آتی ہوں۔‘‘
فریا یہ جا وہ جا ہوئی۔
’’ان کی حرکتیں کتنی مشکوک ہیں۔ فہمی کے بقول موسم ہے چوّلانہ۔‘‘
میڈی کڑھ کے رہ گئی۔
اچانک کسی نے میز پر طبلہ بجایا۔
’’ساری نا معقول مخلوق یہیں جمع ہے۔‘‘
سیاہ چمچماتے جوتے دیکھتے ہوئے بندے کو آڑے ہاتھوں لینے کا سوچ کے سر اٹھایا اور اس کی سٹی گم ہو گئی۔ بقول غزال شدید ہینڈسم ڈاکٹر یاسر اسی کی جانب متوجہ تھے۔ اسے یک بیک تینوں کے فرار کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔
’’آ… آآآپ۔‘‘
وہ ہکلا سی گئی۔
’’جج جی میں۔‘‘
بیش قیمت پرفیوم کی مہک اس کی حسِ شامہ کو مسحور کرنے لگی۔
’’میں آپ کی اجازت سے کچھ دیر یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘
اثبات میں سر ہلانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
’’آپ کو یقیناً علم ہو گا امی آپ کے گھر آئی تھیں۔‘‘
’’جی۔‘‘
مدیحہ نے دھیمے سُروں میں جواب دیا۔
’’میں چاہ رہا تھا ہماری کہانی میں کچھ فلمی فلمی سا رنگ ہو تاکہ پیچھے کی کہانی میں کوئی ہلچل، کوئی ہلا گلا، کوئی رومانچک یاد ہو۔‘‘
انہوں نے ہو بہو اس کے الفاظ دہرائے۔ مدیحہ ہکا بکا ہوئی۔
’’جی ی ی ی ی… کیا مطلب۔‘‘
’’مطلب یہ کہ ضروری نہیں صرف ناول میں ڈاکٹر ہیرو پھولوں کے ساتھ شادی کی پیش کش کرے۔ یہ کام میرے جیسا عام ڈاکٹر بھی کر سکتا ہے۔ گو یہاں بوگن ویلیا کی اودی بیل نہیں ہے، مگر میں آپ کے لیے سرخ گلاب لے کر آیا ہوں۔‘‘
مدیحہ نے دل ہی دل میں ان بدتمیزوں کی خبر لینے کا سوچ لیا تھا جنہوں نے یہ ناٹک کیا تھا۔
’’آہم۔‘‘
ڈاکٹر یاسر نے کھنکار کر اسے متوجہ کیا۔
’’تو مس مدیحہ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟‘‘
مخملیں ڈبیا سے ہیرے کی انگوٹھی نکال کر وہ دلفریب مسکراہٹ سجائے گویا تھے۔
مدیحہ کے دیوتا کوچ کر گئے۔
یہ صورت حال پڑھنے میں جتنی بھی رومانچک لگتی، حقیقت میں جھیلنا اسی قدر مشکل تھی۔ ناول پڑھنا اور ہیروئین والی کیفیت سے گزرنے میں کتنا مختلف ہوتا ہے۔ مدیحہ بہ خوبی جان گئی تھی۔
ڈاکٹر یاسر اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں سے حظ اٹھا رہے تھے۔
تینوں ہنستی مسکراتی کھلکھلاتی رنگ میں بھنگ ڈالنے آن پہنچیں۔
’’موسم ہے رومانچکانہ۔‘‘
ڈاکٹر یاسر بے ساختہ ہنس دیئے تھے۔
’’ویسے ڈاکٹر صاحب رسم میں یقیناً نیلو خالہ انگوٹھی پہنائیں گی۔ یہ والی انگوٹھی غیر رسمی طور پر آپ پہنا دیں۔ موقع بھی ہے، دستور بھی ہے اور پیچھے کی کہانی کی ڈیمانڈ بھی ہے۔‘‘
فریا نے حسبِ عادت پھلجڑی چھوڑی۔
ڈاکٹر یاسر نے مسکراتے ہوئے مدیحہ کو دیکھا۔ اس نے شرماتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور ہیرے کی انگوٹھی بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں سج گئی تھی۔
٭…٭
پاؤڈر پنک کامدانی جوڑے میں ملبوس مدیحہ انگوٹھی پہننے والی تھی۔ ڈاکٹر یاسر سیاہ ڈنر سوٹ میں جچ رہے تھے۔ لڑکیاں انگوٹھی پہنتی مدیحہ کو لقمے دے رہی تھیں۔ جلتی بجھتی روشنیوں میں خوش باش چہروں پر مسرت اور انبساط کے سارے رنگ منعکس ہو رہے تھے۔ اس تقریب کے اختتام پذیر ہونے تک ڈیرہ جمال گاہی کے باشندے مزید بندھن جوڑنے کو تیار تھے۔
٭…٭
ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے