مقیدِ مَن: فہمیدہ فرید خان

’’آپی۔‘‘
’’ہاں بولو۔‘‘
’’وہ سوشی پوچھ رہی تھی مہمان آنٹی کے بیٹے کیسے ہیں؟‘‘
’’آپی یہ خود پوچھ کے نام میرا لگا رہی ہے۔‘‘
سوشی نے اپنی صفائی پیش کی۔
’’اچھا اچھا لڑو مت… ویسے سوشی نے دیکھے ہوئے ہیں ڈاکٹر یاسر۔‘‘
فہمی نے سنسنی پھیلائی۔
’’ہائے میں نے کب دیکھے؟‘‘
سوشی نے ہلکی سی چیخ ماری۔
’’پچھلے ہفتے آپ کی سہیلی کی سالگرہ کا تحفہ خریدنے گئے تھے نا جب واپسی پر ہمیں گلی میں عمیر بھائی ملے تھے۔‘‘
’’ہاں ہاں یاد ہے۔ ان کے ساتھ ایک لمبے تڑنگے اور وجیہہ سے بھائی بھی تھے۔‘‘
’’جی جناب، وہی ڈاکٹر یاسر تھے۔‘‘
سوشی حیرت سے اچھل پڑی۔
’’سچ بتائیں آپی۔‘‘
’’بالکل سچ۔‘‘
’’ہائے اللہ کتنے خوبصورت ہیں۔‘‘
سوشی کی خوشی دیدنی تھی۔
’’آپ جب بھی سوشی کے ساتھ جاتی ہیں کوئی نہ کوئی جاننے والا مل جاتا ہے۔ جب میرے ساتھ جاتی ہیں تو مجال ہے کوئی جن کا بچہ بھی نظر آئے۔‘‘
زوشی کے دکھڑے پر فہمی اور سوشی کی ہنس پڑیں۔
’’میری چندا آپ ٹھہریں مستقبل کی ڈاکٹر، پڑھائی میں گوڈے گوڈے غرق… جس وقت ہم چہل قدمی کرتے ہیں، تب جن کا بچہ نظر آ بھی گیا تو سر پہ پاؤں رکھ کے بھاگنے میں پہل آپ ہی کریں گی۔‘‘
زوشی کے منھ بسورنے پر سوشی نے خوب حظ اٹھایا۔ دونوں جڑواں تھیں، ان کا ٹاکرا چلتا رہتا تھا۔
انہی کھٹ میٹھی باتوں کے دوران کیک کی سجاوٹ ہو گئی۔ تینوں نے کشتی میں لوازمات رکھے۔
’’اصولاً چائے آپی کو لے کر جانی چاہیئے تھی۔‘‘
زوشی پڑھاکو کو خالص ڈائجسٹی خیال سوجھا۔
’’رہنے دو گڑیا وہ خاک لے کر جائیں گی ہونہہ۔‘‘
’’کیوں، آپی کیوں نہیں لے جا سکتیں؟ کون سا اٹھا کر جانی ہے۔‘‘
’’اوہو میرا مطلب تھا آپ کی آپی محترمہ جدید دور کی پروردہ ہیں، بیٹھک میں باتیں مٹھار رہی ہوں گی۔‘‘
بیٹھک کا ڈھنگ بدلا ہوا تھا۔ گھل مل کر باتیں ہو رہی تھیں۔ مدیحہ البتہ وہاں نہیں تھی۔ تینوں نے اس منظر پر ناقابلِ فہم نگاہوں کا تبادلہ کیا۔
’’یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘
سوشی نے سرگوشی میں پوچھا تھا۔
فہمی شانے اچکا کر اماں کے پاس جا بیٹھی۔
’’ساجی کو میں نے اشارتاً نیلو کی آمد کی وجہ بتا دی تھی۔‘‘
فہمی کو اس بے تکلفی کی وجہ سمجھ آ گئی یعنی ساجی خالہ کو لڑکے کے جملہ کوائف پسند آئے تھے۔
زوشی اور سوشی مہمانوں کو چائے پیش کرنے لگیں۔
’’فہمی بیٹا دیکھو میڈی کدھر رہ گئی ہے۔ اسے بلا لاؤ، مہمانوں کے ساتھ چائے پی لے۔‘‘
ساجی خالہ نے دلار سے اسے حکم دیا۔
’’جی خالہ میں اسے بلاتی ہوں۔‘‘
مدیحہ اپنے بالوں سے نبرد آزما تھی۔
’’میڈی کی بچی، کوئی اتنا سست الوجود بھی نہ ہو۔ تمہاری بارات نہیں آ رہی جو تم سولہ سنگھار کرنے بیٹھ گئی ہو۔‘‘
ہلکی سی لپ اسٹک، لائنر اور کچی نیند کے خمار سے بوجھل آنکھوں میں گلابی ڈورے… اس سادگی میں بھی وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔
’’اوہ تیری خیر… تم نے بجلیاں گرانے کا مکمل سامان کر رکھا ہے لڑکی۔‘‘
اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا تھا۔
’’ایک بات کہنا تم بھول گئیں۔‘‘
مدیحہ مسکائی۔
’’کون سی۔‘‘
فہمی کو اچنبھا ہوا۔
’’موسم ہے بجلیانہ۔‘‘
کمرے میں دونوں کا بے ساختہ قہقہہ گونج اٹھا۔
٭…٭
نیلو خالہ نے مدیحہ کو دیکھتے ہی بے تابانہ اپنے ساتھ لپٹا کر چٹک مٹک پیار کیا۔ وہ بے چاری اس افتاد پر بوکھلا گئی تھی۔
’’یہاں میرے پاس بیٹھو۔‘‘
انہوں نے مدیحہ کو اپنے نرغے میں پھنسا کر اس کی سیوا شروع کر دی۔
’’یہ کباب لو، بہت مزے دار ہیں… کیک چکھو، تازہ بہ تازہ ہے… میکرونی لاجواب ہے۔‘‘
رعبِ حسن کیا ہوتا ہے، آج فہمی نے نظارہ کر لیا۔
مدیحہ کی دفتری ساتھی کا فون آیا تو وہ معذرت کر کے اٹھ گئی۔ نیلو خالہ نے فوراً رشتہ ڈال دیا۔
’’ویسے میں آج صرف ملاقات کی غرض سے آئی تھی لیکن مجھے مدیحہ بہت پسند آئی ہے۔ میں جھولی پھیلا کر آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگتی ہوں۔‘‘
انہوں نے اپنا کڑھائی والا آنچل یوں سامنے پھیلایا جیسے کشیدہ کاری کی خوبصورتی اور نفاست کی داد چاہ رہی ہوں۔
فہمی نے بہ مشکل اپنی ہنسی ضبط کی۔
’’میں میڈی کے پاپا سے بات کر کے جواب دوں گی۔‘‘
ساجی خالہ نے خوش دلی سے کہا۔
’’جواب مثبت ہونا چاہیئے بہن… یاسر اور میڈی کی چاند سورج کی جوڑی ہو گی، کیوں بیہ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔‘‘
اماں نے تائید کی۔
’’بلاشبہ۔‘‘
’’ذرا میری بیٹی کو تو بلوائیں۔‘‘
نیلو خالہ نے چند پیلے نوٹ مدیحہ کی مٹھی میں دبائے اور ایک نیلا نوٹ اس کے سر سے وار کر پاس کھڑی ملازمہ کو تفویض کیا۔
’’دیکھا اماں نیلو خالہ کی حسن پرستی کا عالم… کیسے میڈی کو دیکھتے ہی ریشہ خطمی ہو گئی ہیں اور آپ کہہ رہی تھیں وہ گھر بار دیکھنے آئی ہیں۔‘‘
اماں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’اب ہماری طرف چکر لگائیں۔ یاسر کو بھی دیکھ لیں۔‘‘
نیلو خالہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے درپے تھیں۔
’’جی جی ہم ضرور آئیں گے ان شاء اللہ تعالٰی۔‘‘
ساجی خالہ نے ان کے پر زور اصرار پر ہامی بھر لی۔ نیلو خالہ اماں کے ساتھ خوش و خرم چلی گئیں۔ فہمی مدیحہ کے کمرے میں پدھاری۔
٭…٭
’’یہ کیا عجیب قصہ چل رہا ہے بھئی… کبھی ایک آ رہا ہے کبھی دوسرا…میں خوش اخلاقیاں جھاڑ جھاڑ کے تنگ آ گئی ہوں۔‘‘
’’ایں اور کون آ گیا جو تم تنگ ہوئی پڑی ہو۔ صرف نیلو خالہ ہی آئی ہیں۔‘‘
’’صرف وہی نہیں، روز کوئی نہ کوئی پہنچا ہوتا ہے… پرسوں پاپا کے دوست بیگم اور بیٹے کے ساتھ آئے تھے۔ آنٹی نے مجھے اوپر سے نیچے تک یوں دیکھا جیسے قصائی بکرے کو دیکھتا ہے۔‘‘
’’اوں ہوں تذکیر و تانیث درست رکھو۔ جیسے قصائن بکری کو دیکھتی ہے۔‘‘
فہمی اپنی علمیت جھاڑنے سے باز نہ آئی۔
مدیحہ نے اسے گھور کے اپنی بات جاری رکھی۔
’’کل خالہ کی سہیلی اپنے دیور کا رشتہ لے کر آئیں۔‘‘
’’ائے ہائے یعنی کہ موسم ہے رشتیانہ… ٹپاٹپ برسے جا رہے ہیں۔‘‘
’’پراں مر اور مجھے اس بندے کا حدودِ اربعہ بتا۔‘‘
مدیحہ کو اس کی شوخی ایک آنکھ نہ بھائی۔
’’تم نے دیکھا ہوا ہے، جانتی بھی ہو۔ مزید کیا بتاؤں۔‘‘
’’ہائیں میں نے کب دیکھا؟‘‘
مدیحہ کی آنکھیں ابلنے کو بے تاب ہوئیں۔
’’ارے بھئی تمہیں یاد ہے، ایک دن ہم گلی میں چہل قدمی کر رہے تھے تو عمیر بھائی کے ساتھ ایک لمبا تڑنگا بندہ گزرا تھا۔‘‘
’’ہاں ہاں یاد ہے۔ ایسا تاڑ سا قد خال خال ہی ہوتا ہے۔‘‘
’’تو بہن وہی تاڑو ڈاکٹر صاحب تھے۔‘‘
فہمی نے آنکھیں گول گول گھمائیں۔
مدیحہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔
’’کھڑوس عورت پہلے نہیں بتا سکتی تھیں۔‘‘
’’عورت ہو گی خود… مگر پہلے بتانے سے کیا ہوتا؟‘‘
فہمی انگشت بدنداں ہوئی۔