مکمل ناول

مقیدِ مَن: فہمیدہ فرید خان

شب و روز عجیب کشا کش، امید و بیم میں گزر رہے تھے۔ یہ بدھ کا کھویا کھویا دن تھا۔ غزال آئی اور فہمی کو بازو سے پکڑ کر کھینچا۔
’’یار ذرا میرے ساتھ چلو۔‘‘
’’یا وحشت کیا ہو گیا ہے؟‘‘
اس نے بازو چھڑوانے کی ناکام کوشش کی۔
’’اوہو آؤ تو سہی، راستے میں بتاتی ہوں۔ مجھے ذرا جلدی ہے۔‘‘
’’اچھا مجھے اماں سے پوچھنے دو ورنہ غصہ ہوں گی۔‘‘
غزال نے اندر کی جانب منھ کر کے ہانک لگائی۔
’’بیہ خالہ فہمی میرے ساتھ جا رہی ہے۔‘‘
اماں نے سنا یا نہیں، اس نے دڑکی لگا دی تھی۔ گھر سے خوان لے کر وہ انسانوں کی جون میں بتا رہی تھی۔
’’یار امی نے پائے بنائے تھے۔ کہنے لگیں عمیر کے کرایہ داروں کو آئے مہینوں گزر گئے، دعوت آج کل کرتے ٹل گئی، یہ پائے ہی انہیں دے آؤ۔ پنجابی لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ بھابھی دوپہر کا کھانا بنا رہی تھیں اور امی کا تمہیں پتہ ہے گھٹنوں سے لاچار ہیں۔ مجھے اکیلے جاتے ہوئے عجیب لگ رہا تھا۔ امی نے بولا فہمی کو لے جاؤ، وہ آتی جاتی رہتی ہے۔‘‘
ملازم نے انہیں بیٹھک میں بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر میں نیلو خالہ اندر آئیں۔ پیچھے ملازمہ ٹھنڈا لیے حاضر تھی۔ وہ قدرے بجھی بجھی لگ رہی تھیں۔ ان کا مخصوص چونچال مزاج گہنایا ہوا تھا۔ فہمی نے غزال کو متعارف کروا کے آنے کا مقصد بیان کیا۔ انہوں نے مشفق مسکراہٹ سے اس کا حال احوال دریافت کیا۔ خوان پوش ہٹا کر توصیفی نگاہوں سے دیکھا۔
’’دیکھنے میں مزے دار لگ رہے ہیں، کھانے میں یقیناً لذیذ ہوں گے۔ اپنی امی کو میری طرف سے شکریہ بولنا۔ میں بھی کسی دن ان سے ملنے آؤں گی۔‘‘
’’ضرور آئیے گا خالہ۔‘‘
’’یاسر کو پائے بہت پسند ہیں۔‘‘
انہوں نے ملازمہ کو پائے فریج میں رکھنے کی ہدایت دیتے گویا انکشاف کیا۔
غزال فہمی کے کان میں گھسی۔
’’سارے ڈاکٹر اتنے چٹورے کیوں ہوتے ہیں؟‘‘
’’تمہیں بڑا تجربہ ہے ڈاکٹروں کا۔‘‘
فہمی نے اسے کہنی سے پیچھے دھکیلا۔
’’پراں مر۔‘‘
غزال بد مزہ ہوئی تھی۔
’’ویسے اس محلے ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی ہے۔‘‘
اللہ کی شان، ان کو عام سی غزال بھی حسین لگ رہی تھی جس میں سوائے جھیل سی آنکھوں اور کھنکھناتی ہنسی کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر خوبی نہیں تھی۔
’’فکر مت کریں خالہ آپ کے بیٹے نے ایک حسین مہ جبین پہلے سے تاڑ رکھی ہے۔‘‘
فہمی منھ ہی منھ میں بدبدائی۔
’’بیٹا آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘
نیلو خالہ نے شاید اس کے ہلتے لب دیکھ لیے تھے۔
’’نہیں، وہ میں غزال سے کہہ رہی تھی جلدی چلو۔ میں اماں کو بتا کر نہیں آئی۔‘‘
اس نے گڑبڑا کر بات سنبھالی۔
’’فہمی تم نے سنا نا، نیلو خالہ مجھے حسین لڑکی کہہ رہی تھیں۔‘‘
فہمی کے پیٹ میں بل پڑنے لگے۔ ان لڑکیوں کی خوش گمانیوں کی کوئی حد بھی تھی… وہ چپکے چپکے مسکراتی رہی۔ غزال کو اس کے گھر چھوڑ کر وہ دھم سے بستر پر گری۔
اور موسم تھا قہقہیانہ۔
٭…٭
آج کل اماں کا مزاج خوشگوار تھا۔ فہمی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی مگر وہ ان دیکھا کر دیتیں۔ حسبِ منشاء نتیجہ برآمد نہ ہوتے دیکھ کے فہمی کبھی جھنجھلا جاتی، کبھی ٹھٹک جاتی… اسے ابھی تک اس خوشگواریت کا سرا نہیں ملا تھا۔ دوسری جانب ڈاکٹر یاسر کا مزاج بگڑا بگڑا تھا اور نیلو خالہ چپ چپ تھیں۔
چند دن مزید سِرکے۔ ایک دن نیلو خالہ اماں سے ملنے آ گئیں۔ ان کی رندھی آواز نے فہمی کے قدموں کو زنجیر کیا تھا۔
’’بیہ یاد ہے کالج کے دنوں میں ہم اپنے نادیدہ بچوں کے رشتے جوڑا کرتے تھے۔ میں نے فہمی کو دیکھا تو یوں لگا جیسے میری بہو کا خاکہ مجسم ہو گیا ہو۔ میں تمہاری بیٹی کو صدقِ دل سے اپنے گھر کا اجالا بنانا چاہتی تھی۔‘‘
(ہائیں اس سے پہلے کیا ان کے گھر میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔)
ادھر نیلو خالہ کہے جا رہی تھیں۔
’’لیکن نئی نسل کسی کی کہاں سنتی ہے۔ میرے بیٹے نے من پسند لڑکی سے شادی کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی خواہش پوری کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے تابع فرمان بیٹے کی خوشی کا سوال ہے… میں تم سے معذرت کرنے آئی ہوں بیہ… تمہاری بچی میرے گھر کا چراغ نہ بن سکی۔‘‘
وہ چہکوں پہکوں رونے لگیں۔
’’کیسی باتیں کرتی ہو نیلو۔ جو قسمت میں لکھا ہو، وہی ملتا ہے۔ ہم تم کون ہوتے ہیں خدائی فیصلے پر بولنے والے۔ دعا کرو اللہ سب بچوں کے نصیب اچھے کرے۔‘‘
زیرِ لب آمین کہتے ہوئے فہمی اندر داخل ہو گئی۔ اس نے اماں کے بے تاثر چہرے کو بغور دیکھا۔ انہوں نے خود کو سنبھال لیا تھا۔
’نیلو خالہ نے ابھی تک میڈی کو دیکھا نہیں ورنہ انہیں افسوس کے بجائے فخر ہو رہا ہوتا… خالہ کچھ زیادہ ہی حسن پرست ہیں۔ میڈی اتنی چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے کہ میرے جیسی خوبصورت لڑکی بھی اس کے سامنے قبول صورت لگنے لگتی ہے۔‘‘
فہمی بھول رہی تھی کہ رشتے ناطے خوبصورتی کی بنیاد پر نہیں پنپتے۔ ہر انسانی فیصلہ تقدیر کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ کہیں خوبصورت ترین صورتیں زمانے کی ٹھوکروں کی زد میں رہتی ہیں اور کہیں معمولی شکلیں راج کرتی ہیں۔
لا یعنی سوچوں میں الجھے اسے علم نہ ہو سکا کہ نیلو خالہ چلی بھی گئیں۔
اماں انہیں وداع کر کے آئیں تو اسے دیکھ کر ان کے دل کو دھکا لگا۔
’’فہمی میری بچی چپ کیوں بیٹھی ہو؟‘‘
اماں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ حالاں کہ روایتی ماؤں والے چونچلے وہ کم ہی دکھاتی تھیں۔
’’میں کچھ سوچ رہی تھی۔‘‘
’’نہ میری بچی خود کو ہلکان مت کرو۔ اللہ نے تمہاری قسمت میں بہت اچھا جیون ساتھی لکھ رکھا ہو گا۔‘‘
’’کیا ہو گیا ہے اماں، جیون ساتھیَ کا کہاں سے ٹپک پڑا؟‘‘
وہ متوحش ہوئی۔
’’ایں تمہیں نہیں پتہ… نیلو کیوں تم پر صدقے واری جاتی تھی۔ اس نے تمہارا ہاتھ مانگا تھا۔‘‘
اماں کی دل گرفتی چھپائے نہ چھپی۔
”نہیں نہیں، میں اپنا ہاتھ کسی کو نہیں دوں گی۔“
انہیں اصل بات سے آگاہ کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
’’اماں آپ کو ایک بات بتانا تھی… اس دن عمیر بھائی نے تحفہ نہیں خریدنا تھا۔ بھابھی کی سالگرہ ویسے بھی جون میں ہوتی ہے۔ دراصل بات یہ تھی…
’’پھر کیا تھا، ڈاکٹر صاحب وہاں سے بھاگے تھے۔‘‘
اس کے پر مزاح انداز پر اماں کو ہنسی آ گئی۔
’’تبھی میں کہوں اس سے پہلے عمیر کبھی کوئی فرمائش لے کر نہیں آیا۔ پھر سوچا موا سرپرائز دینا ہو گا۔‘‘
فہمی کی بے فکر ہنسی پر ان کے مزاج کی شگفتگی لوٹ آئی تھی۔
٭…٭
’’نیلو خالہ میڈی کے گھر جا رہی ہیں؟‘‘
فہمی یک طرفہ گفتگو سے اندازہ لگا کر پرجوش ہوئی۔ وہ سن گن لینے اماں کے آس پاس چکرا رہی تھی۔
’’ہاں مجھے ساتھ چلنے کا کہہ رہی ہے۔‘‘
فہمی اچھل پڑی۔
’’واہ زبردست، میڈی کا سلسلۂ جنبانی شروع ہونے والا ہے۔‘‘
’’ابھی صرف دیکھ ریکھ کرنے جا رہی ہے… اطلاع دینے سے منع کیا ہے۔ بات بھی ٹھیک ہے۔ ساجی خواہ مخواہ تکلفات میں پڑ جائے گی۔ خبردار جو تم نے ادھر کی ادھر اڑائی۔‘‘
’’میں نے بھلا کسے بتانا ہے اماں۔ آپ کے کپڑے استری کر دوں؟‘‘
’’ہاں سرمئی جوڑا نکال لینا۔‘‘
’’میرے خیال میں آپ کو بریزے کا انگوری سوٹ پہننا چاہیئے۔ آپ پر سجتا ہے ماشاء اللہ۔‘‘
’’اچھا چلو انگوری ہی استری کر دو۔‘‘
انہوں نے بیٹی کا دل رکھا۔
شام ڈھلے نیلو خالہ اماں کو لینے آن پہنچیں۔ انہیں سرمئی بریزے میں ملبوس دیکھ کر فہمی نے جتاتی نظر اماں پر ڈالی۔
’’شکر کریں آپ نے انگوری پہن لیا تھا ورنہ لگتا بنجمن سسٹرز جا رہی ہیں۔‘‘
اماں اسے گھور کر نیلو خالہ کے لحاظ میں خاموش رہیں۔
’’اے ہئے فہمی تم کیوں نہیں تیار ہوئیں۔‘‘
نیلو خالہ نے چھوٹتے ہی اعتراض جڑ دیا۔
’’اچھا نہیں لگتا پہلی بار میں ہی پورا قافلہ ہلہ بول دے۔‘‘
اماں نے توجیہہ پیش کی۔
’’کون سے سینکڑوں افراد ہیں۔ میں، تم اور ایک ہماری بچی… چلو بیٹا جلدی سے کپڑے بدل کے آؤ، آخر کو میڈی کی سہیلی ہو۔‘‘
انہوں نے بصدِ اصرار فہمی کو ساتھ لیا۔ یوں تین نفوس پر مشتمل مختصر سا قافلہ (بقول اماں کے) مدیحہ کے گھر جا اترا۔ ساجی خالہ ہمہ وقت تیار شیار رہا کرتی تھیں۔ اس وقت بھی چکن بریزے کے فاختئی جوڑے میں شاندار لگ رہی تھیں۔ (فہمی نے پھر شکر ادا کیا۔ سرمئی اور فاختئی رنگوں میں انیس بیس کا ہی فرق تھا۔) انہوں نے مہمانوں کا پر تپاک خیر مقدم کیا۔
نیلو خالہ نے اردگرد نگاہ ڈال کر بے اختیار مدح سرائی کی۔
’’بہت خوبصورت گھر ہے آپ کا ماشاء اللہ۔‘‘
ساجی خالہ کا چہرہ یوں چمک اٹھا جیسے تازہ تازہ فیشل کروا کے آئی ہوں۔
فہمی نے سوشی سے میڈی کی بابت دریافت کیا۔
’’دفتر سے آ کے سو رہی ہیں۔‘‘
’’یعنی کہ موسم ہے تخلیانہ۔‘‘
اس نئی اصطلاح پر سوشی ہونق ہو گئی۔
ساجی خالہ باہر آئیں۔
’’یہ خاتون کون ہیں بچے؟‘‘
’’نیلو خالہ عمیر بھائی کی کرایہ دار ہیں اور اماں کی کالج کے زمانے کی سہیلی ہیں۔‘‘
’’اچھا… یہاں کیوں آئی ہیں؟‘‘
’’کہہ رہی تھیں سب پڑوسیوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اب باری باری سب سے ملنے جا رہی ہیں۔ پرسوں غزال کی طرف گئی تھیں۔‘‘
فہمی نے گول مول جواب دے کر انہیں مہمانوں کی طرف روانہ کیا اور سوشی کو ہدایات دینے لگی۔
’’میں میڈی کو جگانے جا رہی ہوں۔ آپ زوشی کے ساتھ فٹا فٹ اچھی سی چائے کا اہتمام کرواؤ۔‘‘
سوشی مستعد ہوئی۔
فہمی زینے پھلانگتی اوپر پہنچی۔ مدیحہ کو دن دیہاڑے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے دیکھ کر اس کے اوپر سے کمبل کھینچ لیا۔ وہ سراسیمہ ہو کر مندی مندی آنکھوں کے ساتھ دہاڑی۔
’’کیا آفت آ گئی ہے؟‘‘
’’تمہاری ساس۔‘‘
فہمی کی گوہر افشانی پر اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔
’’ایں کیا بولا؟‘‘
’’وہی جو تم نے سنا، منھ دھو کر انسانوں کی جون میں آؤ۔‘‘
اسے غسل خانے میں دھکیل کر وہ اس کی الماری کھنگالنے لگی۔ مدیحہ غسل خانے سے برآمد ہوئی تو فہمی اس کے کپڑے استری کر چکی تھی۔
’’تم تیار ہو جاؤ، میں ذرا بچیوں کی کار گزاری دیکھ لوں۔‘‘
’’ایں ایں… اور وہ ساس والی بات۔‘‘
’’بعد میں، بی بی بعد میں۔‘‘
مدیحہ کا واویلا نظر انداز کرتے وہ بھاگم بھاگ نیچے آئی۔ باورچی خانے میں سوشی اور زوشی ہلکی پھلکی نوک جھونک کے ساتھ چائے کا اہتمام کروا رہی تھیں۔
’’کیا کیا بنا لیا؟‘‘
زوشی تفصیل بتائی۔
’’آپی سب کچھ تیار ہے، بس کیک سجانا رہ گیا ہے۔‘‘
’’لاؤ یہ کام میں کر دیتی ہوں۔‘‘
اس نے دونوں کو نیلو خالہ کی آمد سے متعلق ہلکا سا اشارہ دیا۔ فطری طور پر وہ خوش ہو گئیں۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے