مقیدِ مَن: فہمیدہ فرید خان

نشست گاہ میں ابا اماں نک سک سے تیار بیٹھے تھے۔
’’آپ دونوں کہیں جا رہے ہیں؟ پھر دعوت اور اہتمام…‘‘
اماں اس کے بے محابہ بولنے پر ہمیشہ جھڑک دیتی تھیں لیکن ابا کے ہنسنے پر وہ مسکرا دی تھیں۔
’’فہمی پتری کوئی گڑبڑ ہے ضرور… دیکھنا چاہیئے تھا سورج کس طرف سے نکلا ہے۔‘‘
دونوں بھائی گھر نہیں تھے ورنہ چپکے سے جانکاری دے دیتے۔ اماں بتانے سے گریزاں تھیں۔ وہ صبر کے گھونٹ بھرتی صوفے پر ٹک گئی۔ اماں ابا محلے برادری، دینا دلانا جیسے موضوعات پر محوِ گفتگو تھے اور فہمی عدم دلچسپی کے باعث جمائیاں روکنے پہ مامور۔ مہمانوں کی آمد پر اماں ابا ان کا استقبال کرنے باہر نکل گئے۔ وہ جتنی دیر میں اٹھی، مہمان اس کے سر پر تھے۔ ڈاکٹر یاسر کے گھر والوں کو بطورِ مہمان دیکھ کے اسے اماں کا معنی خیز رویہ مخمصے میں ڈالنے لگا۔
’’خالہ کو سلام کرو۔‘‘
اماں کے ٹوکنے پر وہ ہڑبڑا گئی۔
نیلو خالہ نے لپٹاتے ہوئے خوبصورت ملفوف تحفہ اس کی جانب بڑھایا۔
’’یہ میں اپنی بیٹی کے لیے لائی ہوں۔‘‘
اس نے جھٹ اماں کی طرف دیکھا۔ ان کا اشارہ پا کر شکریہ کے ساتھ تھام لیا۔
رسمی اور موسمیاتی گفتگو کے بعد اماں نے اسے کھانا چننے بھیج دیا۔
کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ خوش گپیوں اور چائے کا دور چلا۔ بالآخر شام ڈھلے یہ قافلہ واپس لوٹ گیا۔ نیلو خالہ نے فہمی کو جاتے سمے ساتھ لگا کر پیار دیا۔ اس کے کان کھڑے ہوئے۔ ایک روزن کھلا اور یادداشت کے نہاں خانے میں مقید ڈاکٹر یاسر کی نظروں والا لمحہ کھٹ سے روشن ہو گیا۔
٭…٭
وہ مینا کو جوڑا ادھار نہ دے سکنے کے افسوس سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ نئی افتاد گلے پڑ گئی۔ نیلو خالہ کا والہانہ انداز اسے ٹھٹکنے پر مجبور کر رہا تھا۔ کسی انضباطی کارروائی سے قبل اس مسئلے کا حل نکالنا ضروری تھا۔ شام سے رات ہو گئی مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
’’آخر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔‘‘
سوچ سوچ کے اس کا دماغ شل ہو گیا۔ یہ ایسی نازک صورت حال تھی کہ وہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
بھلا کہتی بھی تو کیا؟
ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ہی تو تھی…
اس معمے کا حل ہونا از حد ضروری تھا۔ قرائن بتاتے تھے ڈاکٹر یاسر مدیحہ کو پسند کرتے تھے۔ لازمی نہیں تھا نیلو خالہ کا رجحان اس طرف ہوتا، پھر ان کا التفات چہ معنی دارد… اس کی مشہورِ زمانہ چھٹی حس انہونے اشارے دیئے جا رہی تھی۔ وہ تھک کر نیم دراز ہو گئی۔ معاً اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا اور وہ اچھل پڑی۔
’’وہ مارا، ارے واہ مجھے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا… واقعی عمیر بھائی اس معاملے میں میری مدد کر سکتے ہیں مگر یہ وقت قطعی نا مناسب ہے۔‘‘
گھڑی پر دو کا ہندسہ دیکھتے ہوئے سوچا گیا۔
’’چلو خیر صبح دیکھا جائے گا۔‘‘
اس نے سکون سے آنکھیں موند لیں۔
٭…٭
اگلے دن وہ معمول سے کہیں جلدی بیدار ہو گئی۔ ابا چہل قدمی پر جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم قدم تھی۔ اسے منھ اندھیرے جاگتے پا کر وہ حیران ہوئے مگر بیٹی کی من موجی فطرت سے بہ خوبی واقف تھے سو کوئی سوال نہ اٹھایا۔ سیر گاہ پہنچ کر وہ معمول کی ورزش میں مشغول ہو گئے… فہمی عمیر بھائی کو تلاشنے لگی… بالآخر انہیں ایک طرف مٹر گشت کرتے دیکھ لیا۔ سلام دعا کے بعد وہ مدعا پر آئی۔
’’عمیر بھائی کل آپ کے کرایہ دار ہمارے گھر آئے تھے۔‘‘
’’کھانا کم پڑ گیا تھا؟ فکر مت کرو۔ اچھے لوگ ہیں، کسی سے ذکر نہیں کریں گے۔‘‘
عمیر بھائی نے حسبِ عادت مذاق کیا۔
’’عمیر بھائی میں سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’میں کون سا رنجیدہ ہوں حالاں کہ تم نے مجھے کھانا بھی نہیں بھیجا… تمہیں اچھی طرح معلوم ہے مجھے دعوتانہ کھانا کتنا پسند ہے۔‘‘
’’کھانا بھجوا دیا تھا لیکن آمنہ بھابھی نے کہا تھا آپ کو ہوا بھی نہ لگنے دی جائے۔ ڈاکٹر نے مرغن غذا منع کر رکھی ہے۔‘‘
’’ایک تو یہ طبیب میری جان کو آ گئے ہیں… طبیب اردو میں ڈاکٹر کو کہتے ہیں۔ اب بولو موسم ہے اردوانہ۔‘‘
اسے یہ بے موقع شوخی ایک آنکھ نہ بھائی۔
’’پتہ ہے مجھے، کوڑھ مغز نہیں ہوں۔‘‘
فہمی کا مزاج برہم ہوتا دیکھ کر وہ یک لخت سنجیدہ ہوئے۔
’’اوہو کیا ہو گیا ہے، اصل بات بتاؤ۔‘‘
اس نے نگاہوں والا حصہ حذف کر کے باقی قصہ اول و آخر بیان کر دیا۔
’’مجھے لگتا ہے ڈاکٹر یاسر اپنی میڈی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘
عمیر بھائی نے بلند بانگ قہقہہ لگایا۔
’’یہ خبر یقیناً تمہارے پاگل مؤکلوں نے دی ہو گی… آئی وڈی پیرنی۔‘‘
’’نہیں نا، یہاں رہتے انہیں کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ رجحان کا اندازہ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’تو اس میں مسئلہ کہاں ہے؟‘‘
عمیر بھائی جھنجھلائے۔
’’مسئلہ نیلو خالہ ہیں جو مجھ پہ لٹو ہوئے جا رہی ہیں۔ حسنِ اتفاق سے ان کی میڈی سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ورنہ اس کی موجودگی میں میری دال گلنا مشکل تھی۔‘‘
’’تم خود ترسی کا شکار ہو رہی ہو فہمی۔ تم کسی سے کم تو نہیں ہو۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے بھائی، میں نے بتایا نا ڈاکٹر یاسر شاید میڈی کو پسند کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ مشتبہ کہانیاں مجھے نہ سناؤ بی بی۔‘‘
’’افوہ یہی کہہ رہی ہوں کسی طریقے سے ڈاکٹر صاحب سے عندیہ لیں۔ مجھے کسی کے سر پر مسلط ہونا اچھا نہیں لگے گا بھائی۔‘‘
فہمی روہانسی ہو گئی تھی۔
’’میں اس سے یہ استفسار کرتا کتنا عجیب لگوں گا، ہاں بھائی بتاؤ تم میڈی کو پسند کرتے ہو… اور بھائی جیسے میرے پوچھنے کا منتظر بیٹھا ہو گا، فوراً اقرار کر لے گا ہاں ہاں میں میڈی کو پسند کرتا ہوں۔‘‘
عمیر بھائی نے صاف مضحکہ اڑایا تھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے بادل منڈلاتے دیکھ کر وہ پسیج گئے۔
’’اچھا پریشان مت ہو۔ میں کوئی حل سوچتا ہوں۔‘‘
ابا کو آتے دیکھ کر انہوں نے بات سمیٹی۔ دو چار باتوں کے بعد وہ اپنی اپنی سمتوں کو ہو لیے۔
٭…٭
فہمی اب قدرے مطمئن تھی۔ عمیر بھائی نے بیڑہ اٹھایا تھا تو کوئی نہ کوئی حل نکل آنا تھا۔ وہ ناشتہ کے بعد لمبی تان کر سو گئی۔
وہ کپڑے الماری میں رکھ رہی تھی۔ اماں کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’عمیر آیا ہے۔ یہ کھلارا سمیٹ کر اس کے لیے چائے پانی کا بندوبست کرو۔ بچہ دفتر سے سیدھا یہیں آیا ہے۔‘‘
’’میں آتی ہوں۔‘‘
الماری کے پٹ بند کر کے وہ باہر نکلی۔
’’عمیر بھائی کھانا لاؤں یا چائے؟‘‘
انہوں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔
’’کھانا… مصروفیت میں دوپہر کا کھانا گول ہو گیا تھا۔‘‘
کھانا میز پر چن کر انہیں بتایا۔ پھر چائے کا پانی چڑھا دیا۔ ان کی بے وقت آمد پر دل میں کاؤں ماؤں ہو رہی تھی۔ ان کے کھانا ختم کرنے تک وہ چائے لے آئی۔
’’عمیر تمہیں لینے آیا ہے۔ اس نے آمنہ کی سالگرہ کا تحفہ لینا ہے۔‘‘
اماں نے اسے اطلاع دی۔ اس نے عمیر بھائی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے پخ نہ ڈالنے کا اشارہ کیا۔
’’موسم تھا راز دارانہ۔‘‘
’’کس وقت جانا ہے بھائی؟‘‘
’’ابھی۔‘‘
انہوں نے چائے کی پیالی اپنی طرف سرکائی۔
’’ٹھیک ہے۔ میں چادر لے آؤں۔‘‘
اماں اس کے پیچھے آئیں۔
’’بچے نے لجاجت سے بولا تو میں انکار نہ کر سکی۔ خبردار جو اس کا خرچہ کروایا۔‘‘
فہمی نے تابع فرمانی سے سر ہلانے میں ہی عافیت جانی۔ آخر اس کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی۔
٭…٭
’’ہم کہاں جا رہے ہیں بھائی؟‘‘
اس کی متجسس طبیعت عود آئی۔
’’چائے پینے۔‘‘
’’آپ نے ابھی جو چائے پی ہے۔‘‘
’’کافی سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یاسر ہی یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے اور میں نے اسے چائے پر بلا لیا۔ اب براہ راست اس سے پوچھ لینا۔‘‘
فہمی بدک گئی۔
’’مگر بھائی میں ان سے کیسے بات کر سکتی ہوں بھلا۔‘‘
’’منھ سے… گفتگو ہو گی تبھی حل نکلے گا نا۔‘‘
عمیر بھائی نے ناصحانہ انداز اپنایا۔
’’پھر بھی یہ اچھا نہیں لگے گا۔‘‘
اس نے انگلیاں چٹخائیں۔
’’دیکھو تم نے جو شوشہ چھوڑا تھا، اسے کسی منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ کہیں بے خبری میں کچھ لوگ مارے نہ جائیں۔‘‘
عمیر بھائی نے اسے گھرکا۔
’’یہ شوشہ ہرگز نہیں تھا۔‘‘
فہمی نے پُر زور احتجاج کیا۔
’’اسی بات کی تو تصدیق کرنی ہے کاکی۔‘‘
اور وہ لاجواب ہو گئی۔ ویسے بھی بھائی ساتھ تھے پھر مسئلہ ہی نہیں تھا۔ وہ نہر کنارے ایک پُر سکون سی جگہ جا پہنچے۔ عمیر بھائی کے بقول یہ ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔
’’میں جامعہ کے دنوں میں اکثر یہاں آیا کرتا تھا۔‘‘
’’بھابھی کے ساتھ؟‘‘
فہمی کی زبان پھسلی۔ جواباً اسے شاندار گھوری سے نوازا گیا۔
’’میں اچھا خاصا شریف آدمی تھا۔‘‘
’’تو کیا اب نہیں رہے۔‘‘
فہمی کی آنکھیں تحیر سے پھیل گئی تھیں۔
آگے موسم تھا گھوریانہ۔
٭…٭
ڈاکٹر یاسر اور وہ ساتھ ساتھ ہی پہنچے تھے۔ وہ آدھے بازوؤں کی سفید قمیض اور نیلی ڈینم میں ملبوس عام سے حلیے میں بھی غضب ڈھا رہے تھے۔ عمیر بھائی نے میزبان ہونے کے ناطے سب کے حسبِ پسند آرڈر نوٹ کروایا۔
’’توبہ جیسے بر دکھوے کو آئے ہوں۔‘‘
ڈاکٹر یاسر کے طرزِ عمل پر فہمی کو اپنی ہی تشبیہ پر ہنسی آ گئی۔
’’نیلو خالہ سے اکثر ملاقات رہتی ہے۔ بڑی اچھی خاتون ہیں، ملنسار، مہذب و خوش اخلاق۔‘‘
’’امی جی شروع سے ایسی ہی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر یاسر نے خوش خلقی سے تائید کی۔
’’جی بھائی اماں بھی یہی بتاتی ہیں کہ نیلو شروع سے ہی سخی ہے۔‘‘
ڈاکٹر یاسر ماں کی تعریف پر پھولے نہ سمائے۔
’’نیلو خالہ نے پہلی ملاقات پر مجھے کھاڈی کا جوڑا دیا تھا۔ پچھلی بار میرے لیے جو غیر ملکی خوشبو لائی تھیں، اس کی بھینی بھینی خوشبو مجھے بہت پسند ہے۔‘‘
فہمی نے اپنا روئے سخن عمیر بھائی کی طرف رکھ کے در پردہ ڈاکٹر یاسر کو سنایا۔ ان کے پہلو بدلنے سے اندازہ ہوا تیر نشانے پر لگا ہے۔ فہمی ساری تفصیلات گوش گزار کر کے ہی خاموش ہوئی تھی۔
ڈاکٹر یاسر قدرے بد حواس ہوئے۔ شاید انہیں ادراک ہو رہا تھا کہ درونِ خانہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔
فہمی نے معنی خیز انداز میں عمیر بھائی کو دیکھا۔ انہوں نے ہنکارا بھر کر موضوع بدل دیا۔ اب ان کے مابین ہلکی پھلکی گفتگو ہونے لگی تھی۔ ڈاکٹر یاسر کے چہرے پر ناقابلِ فہم تاثرات رقم تھے جب کہ ہر انداز سے بے چینی عیاں تھی۔ چائے پیتے ہی وہ گویا رسہ تڑا کے بھاگے تھے۔
فہمی نے عمیر بھائی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے بے نیازی سے شانے اچکا دیئے۔
’’کیا ضرورت تھی تحفوں کا ذکر کرنے کی۔‘‘
گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے فہمی کو آڑے ہاتھوں لیا۔
’’یہ تذکرہ ضروری تھا بھائی۔ جوڑا کافی مہنگا تھا۔ غزال کو پسند آیا تھا مگر قیمت دیکھتے ہی وہ دستبردار ہو گئی تھی اور جانتے ہیں پرفیوم کتنے کا تھا؟‘‘
عمیر بھائی کے چہرے پر سوالیہ تاثرات ابھرے۔
’’تقریباً تین ہزار ڈالر کا۔‘‘
ان کا پاؤں بے اختیار بریک پر جا پڑا۔
’’اتنا مہنگا۔‘‘
’’جی، اسی لیے مجھے باقاعدہ جتانا پڑا۔‘‘
’’خیر بندہ سمجھدار ہے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ آگے جو کرنا ہے، اسی نے کرنا ہے۔‘‘
موسم تھا متفقانہ۔
٭…٭