مقیدِ مَن: فہمیدہ فرید خان

غزال کو مسہری پر دنیا و مافیا سے بے خبر دیکھ کر وہ میشا کی نگاہ شناسی پر اش اش کرتی اٹھی اور اس کی کمر پر زور دار دھپ لگائی۔
’’کیا آفت آ گئی ہے تم پر؟“
’’بی بی یہ تو تم بتاؤ کن سوچوں میں گم بیٹھی ہو، کس کی یاد ستائے۔‘‘
غزال نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر خجالت مٹانے کی کوشش کی پھر تیزی سے سب کے درمیان جا بیٹھی۔ فہمی اس کی برق رفتاری پر ہکا بکا رہ گئی۔
’’پتہ نہیں کون خوش نصیب ہو گا۔ کوئی گھبرو جوان ہو گا جو میڈی کے دراز قد کے ساتھ جچے گا۔‘‘
اس نے جاتے ساتھ یوں ٹکڑا لگایا گویا ساری گفتگو کا نچوڑ پیش کیا ہو۔ سب نے ہاؤ ہو کر کے اسے داد دی۔
’’توبہ کتنی میسنی ہے یہ کھڑوسن۔ توجہ بٹانے کے سارے گر ازبر ہیں۔‘‘
فہمی نے دانت پیسے۔
انہوں نے لائحہ عمل طے کرنے کے لیے سر جوڑ لیے۔ ہنی نے ایک ایسے منظر پر ہرزہ سرائی کر کے دریا سے جھانپڑ کھا لیا تھا۔
’’سب باجیاں جوؤں کا تبادلۂ خیال کر رہی ہیں۔ ایک دن فریا باجی کے سر سے تین جوئیں نکلی تھیں… ایک کالی، ایک بھوری اور ایک چٹ پاسڑی (سفیدی مائل)۔ کالی غزال باجی کی ہو گی، بھوری فہمی آپی کی اور تیسرا نمونہ کسی ایسی باجی کا تھا جن میں خون کی کمی ہے۔‘‘
رب جانے اس نے یہ ذخیرۂِ الفاظ کہاں سے پایا تھا۔ اس پٹاری سے کچھ نہ کچھ برآمد ہوتا رہتا تھا۔
فہمی کے لبوں سے ہنسی کا فوارہ چھوٹنے کو بے تاب ہو پڑا تھا۔ نقضِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر اس نے بہ دقت خود پر قابو پا لیا ورنہ اس کی چھترول لازمی تھی۔
٭…٭
شومئی قسمت غزال کا کہا اگلے دن سچ ثابت ہو گیا۔ لڑکیاں حسبِ معمول شام کو گلی میں ٹولیوں میں بٹ کر گپیں ہانک رہی تھیں جب بھائیوں کا وہاں سے گزر ہوا۔ غالباً جم جانے کا قصد تھا مگر غیر معمولی چیز ان میں نئے چہرے کا اضافہ تھا۔
’’یہ عمیر بھائی کے ساتھ لمبا تڑنگا بندہ کون ہے؟‘‘
فریا باآواز بلند بڑبڑائی۔ سب کے چہروں پر یہی سوال درج تھا۔
’’کوئی دوست ہو گا۔‘‘
غزال نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’پہلے تو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
مونا نے استعجاب سے ٹھوڑی پر انگلی رکھی۔
’’ہم ان کے سارے دوستوں کو تھوڑی جانتے ہیں۔‘‘
مینا کا استدلال درست تھا۔
مدیحہ کی کسی بات پر سر ہلاتی فہمی کی اچٹتی نگاہ اس اجنبی سے جا ٹکرائی جو کنکھیوں سے مدیحہ کو دیکھ رہا تھا۔
’’بلے بلے موسم ہے تاڑیانہ۔‘‘
وہ دل ہی دل میں مسکائی۔ اسی پل فریا کی کہنی اس کی پسلیاں سینک گئی۔ وہ جلبلا کر پلٹی۔
’’سی… کیا مصیبت ہے تمہیں۔‘‘
’’وہ تمہیں دیکھ رہا تھا فہمی۔‘‘
فریا نے پھٹکار خاطر میں نہ لاتے ہوئے سرگوشی کی۔ اس کے تلوؤں پر لگی اور کہیں نہ بجھی۔
’’بی بی ہوش کے ناخن لو… اپنے بھینس جیسے دیدوں کا کبھی درست استعمال بھی کر لیا کرو۔ وہ مجھے نہیں کسی اور کو دیکھ رہا تھا۔‘‘
’’ایں کسی اور کو کیوں دیکھنے لگا۔ اتنی پیاری تو ہو تم۔‘‘
فہمی نے اس نادر توصیف پر بھی بھانڈہ پھوڑنے سے گریز کیا۔ پر کا کوا بنتے دیر تھوڑی لگتی۔
سب نے مونا کے گھر دھاوا بول دیا۔ خالہ خالو کی مہمان نوازی، خوش گفتاری اور بذلہ سنجی لا جواب تھی… خالہ کی زبانی اجنبی کا عقدہ بھی کھل گیا۔
’’خیر سے عمیر کے گھر کی اوپری منزل آباد ہو گئی ہے۔ اس بار کسی ڈاکٹر کو گھر کرایے پر دیا ہے۔‘‘
’’چھڑے چھانٹ کو دینے پر کسی محلے والے نے اعتراض نہیں کیا امی۔‘‘
مونا کو اچنبھا ہوا۔
’’اے ہئے چھڑا چھانٹ کیوں ہوتا… اللہ رکھے اس کے گھر والے بھی ایک دو دن میں آ جائیں گے۔‘‘
٭…٭
موسم تھا دسمبرانہ اور شام تھی گلابیانہ
ڈیرہ جمال گاہی میں ڈاکٹر یاسر کے گھر والوں کی آمد کا غلغلہ اٹھا۔
’’عمیر کے گھر نئے کرایہ دار آئے ہیں۔‘‘
اماں نے اپنی طرف سے اسے نئی نکور خبر دی۔
’’جی اماں مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’ایں تمہیں جامعہ سے آتے ہی کیسے خبر مل گئی۔‘‘
ان کی تیوری پر بل پڑے۔
’’کچھ دن پہلے نورین خالہ نے بتایا تھا۔ میں آپ کو بتانا بھول گئی۔‘‘
سچ خود بخود منھ سے پھسل پڑا۔ اس نے زبان دانتوں تلے داب لی۔
’’ہاں تمہیں اپنے مطلب کی باتیں یاد رہتی ہیں۔‘‘
’’معاف کر دیں بھول سے بھول گئی تھی، کوئی جان بوجھ کے تھوڑی بھولی تھی۔‘‘
اس نے مسمسی سی شکل بنا لی تھی۔
’’مسخری نہ ہو تو… خیر ان کا رات کا کھانا ہم نے بنانا ہے۔‘‘
’’کیوں اماں؟ کرایہ دار تو عمیر بھائی کے ہیں۔‘‘
وہ چیں بہ چیں ہوئی۔ اسے غزال کی طرف جانا کھٹائی میں پڑتا دکھائی دینے لگا۔
’’گاؤں میں فوتگی ہو گئی ہے۔ زہرہ باجی مجھے گھر کی چابیاں دینے آئی تھیں۔ ان کی پریشانی دیکھ کر میں نے کھانا پہنچانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ پلاؤ اور دو تین سالن بنا لیتے ہیں۔ ساتھ شامی کباب، سلاد، رائتہ اور میٹھے میں ٹرائفلگ۔‘‘
اماں نے صلاح، مشورہ اور حکم ایک ساتھ یوں نمٹائے کہ فہمی کے بولنے کی گنجائش ہی نہ بچی۔ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کے مصداق اسے باورچی خانے کی راہ لینی پڑی۔ مون سودے کی فہرست لے کر بازار سدھارا۔
’’ہنی میرا پتر ذرا پیاز تو کاٹ دو۔‘‘
اماں نے گوشت دھوتے ہوئے دلار سے لاڈلے سپوت کو پچکارا۔
’’فہمی آپی سے کٹوائیں نا۔ ہر وقت شہزادی بنی پھرتی ہیں۔‘‘
’’اس کے ہاتھوں سے پیاز کی مہک نہیں جاتی۔ وہ میرے ساتھ جائے گی۔ کیا تم چاہتے ہو کوئی اس کے پاس بھی نہ پھٹکے۔‘‘
’’ایسا ہو تو کتنا مزہ آئے۔ ساری شوشا ہی ماری جائے۔‘‘
ہنی نے چٹخارا لیا۔
’’کیسی نکمی اولاد ہے میری… شکل گم کرو۔ گوشت دھو کے میں خود کاٹ لوں گی۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ یہ دھمکی ہر بار کارگر ثابت ہوتی ہے۔ ہنی نے پیاز کاٹنے میں ہی عافیت جانی ورنہ اگلے کئی روز تک اس کا ناطقہ بند ہونا تھا…
’’صرف آپ کی خاطر کاٹ رہا ہوں اماں۔‘‘
’’ کھسیانی بلی اوہ مطلب کھسیانا بلا کھمبا نوچے۔‘‘
فہمی نے اسے چڑایا۔
’’چپ کر کے بیٹھو… مجال ہے نرمی سے بات مان لیں… دو چار سنے بغیر سکون نہیں آتا۔‘‘
گوشت کو چھلنی میں پٹختے ہوئے اماں شروع ہوئیں تو چپ ہونا بھول گئیں۔
ہنی کا سارا غصہ پیاز کی طرف منتقل ہو گیا۔
٭…٭
کھانے گاڑی میں رکھوا کے اماں اور فہمی روانہ ہوئیں۔ گھر کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور اندر سامان بکھرا پڑا تھا۔ وہ ملازم کی معیت میں بیٹھک میں جا براجمان ہوئیں۔ سوئے اتفاق ڈاکٹر یاسر کی والدہ اماں کی ہم جماعت نکل آئیں۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر پہلے ہونق ہوئیں، پھر خوش۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر یاسر کی آمد بھی ہو گئی۔ نیلو خالہ نے تعارف کروایا۔
”یہ میری سہیلی بیہ ہے، جس کا میں اکثر ذکر کرتی رہتی ہوں اور یہ اس کی بیٹی فہمی۔‘‘
تھوڑی دیر بعد نیلو خالہ نے فہمی کی مدد سے کھانا چن دیا۔
’’بیہ تم نے بڑا مزے دار کھانا بنایا ہے۔‘‘
نیلو خالہ نے کھلے دل سے سراہا۔
’’شکر ہے تمہیں پسند آیا۔ یہ غیر ملکی چیزیں فہمی نے بنائی ہیں۔“
اماں نے اس پر پیار بھری نگاہ ڈالی۔
’’اماں یہ بھی بتائیں کہ پیاز ہنی سے کٹوائی تھی۔ اسے معلوم ہوا اس کا کام نہیں گنا تو وہ سخت برا مانے گا۔‘‘
فہمی کی شرلی پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔
’’کھانا واقعی لذیڈ ہے۔‘‘
ڈاکٹر یاسر کی توصیف پر وہ جھینپ گئی تھی۔
’’ماشاء اللہ تمہاری بیٹی کے ہاتھ میں بھی تمہاری طرح ذائقہ ہے… یاد ہے کالج کے زمانے میں آئے روز ہماری فرمائش چلتی تھیں۔ آہ وہ سہانہ وقت کتنی جلدی بیت گیا۔‘‘
نیلو خالہ ماضی کی یادوں میں کھو گئیں۔
فہمی کا دل چاہا کہے، ’موسم ہے ماضیانہ‘۔
واپس پر نیلو خالہ نے فہمی کو کھاڈی کا جوڑا دیا۔
’’میں انکار نہیں سنوں گی۔ میری بیٹی پہلی بار خالہ کے گھر آئی ہے، خالی ہاتھ کیسے جانے دوں۔‘‘
اماں پورا راستہ رطب اللسان رہیں۔
’’نیلو شروع سے دیالو ہے۔ کیسے بکھرے سامان میں سے بھی تمہارے لیے تحفہ برآمد کر لیا۔‘‘
٭…٭
کافی دن بعد سورج نے چھب دکھلائی تھی… موسم تھا دھوپانہ…
فہمی ناشتہ کرنے کے بعد ادھورے کام مکمل کرنے کا سوچ رہی تھی لیکن اماں نے اسے صفائی میں جوت دیا۔ ہنگامی احکامات کی وجہ دریافت کرنے پر اسے زبردست جھاڑ پڑ گئی۔ ہنی فہمی کی درگت بنتے دیکھ کر بتیسی کی نمائش کر رہا تھا کہ سودے کی لمبی فہرست نے اس کی خوشی کافور کر دی۔ اس کی شکل پر بارہ بجتے دیکھ کر اب فہمی کے دانت نکل پڑے۔ ہنی اسے گھورتا ہوا باہر نکل گیا۔
صفائی ستھرائی سے گلو خلاصی پاتے ہی اماں کی پکار پر سر جھاڑ منھ پہاڑ ان کے حضور پیش ہو گئی۔ دیگچیوں کی طویل قطار دیکھ کر وہ بھونچکا ہوئی۔
’’کون کون آ رہا ہے اماں؟‘‘
اماں کی فراخ پیشانی پر اس کا حلیہ دیکھ کر بل پڑے۔
’’منھ تو دھو لیتیں۔‘‘
’’ کس وقت؟ آپ نے صبح سے مجھے سولی پر ٹانگ رکھا ہے۔ ابھی فارغ ہوئی تھی، آپ نے پھر طلب کر لیا۔‘‘
’’کیسی نکمی اولاد ہے میری۔ ذرا سا کام کرنا پڑے تو چیں بول جاتی ہے۔ اچھل کود اور محلے بھر میں دھمالیں ڈالنے میں پورا دن ٹانگ اٹھائے رکھیں گی۔ تب تھکن کا نام و نشان نہیں ہوتا۔‘‘
فہمی اس تقریر کا متن سمجھنے میں کوشاں تھی جب ہدایت نامہ جاری ہوا۔
’’نہا دھو کر انسانوں بنو اور ہاں سفید کڑھائی والا جوڑا پہننا۔‘‘
اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی ٹنا ٹن بجی۔
’’کون سا جوڑا؟‘‘
اس کی یادداشت میں وہی سفید جوڑا گھوما جسے پہن کے مینا سب کو دنگ کرنے والی تھی۔
’’ماریہ بی والا۔‘‘
فہمی کا منھ کھل گیا۔
’’اماااااااں۔‘‘
’’کیوں کیا برائی ہے اس میں؟‘‘
انہوں نے امیّانہ چولا پہنا۔
’’وہ مینا نے مانگا تھا، شبو کی شادی میں پہننے کے لیے۔‘‘
فہمی منمنائی۔
’’مینا کو تمہارے کپڑے مانگنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے۔ چند دن پیچھے وہ تمہارا بینگنی جوڑا لے گئی تھی۔‘‘
مینا کی ماٹھی قسمت… اماں سے چھپ چھپا کے یہ کارروائی ڈالی گئی تھی مگر بہ وقتِ واپسی اس کی اماں سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ اب وہ کئی سو برس تک یہ بات بھولنے والی نہیں تھیں۔
اس نے اماں کو قائل کرنے کی سعی کی مگر بے سود… اماں جو ٹھان لیتی تھیں، نافذ العمل کروا کے دم لیتی تھیں۔ فہمی نے پھولے منھ سے دروازہ پار کرتے ہوئے اماں کی نرم پکار سنی۔ وہ رکی ضرور مگر پلٹی نہیں۔
’’جی اماں۔‘‘
’’میرا سفید موتیوں والا جڑاؤ سیٹ بھی پہن لینا۔‘‘
وہ لہجہ سرسری بنا کے بولیں۔
فہمی نے اچنبھے سے مڑ کر انہیں دیکھا۔
’’اماں آپ جانتی ہیں مجھے زیورات پہننا بالکل نہیں پسند اور میک اپ کا تو کہیے گا بھی مت۔‘‘
(اف توبہ اماں بھی کبھی کبھی حد کر دیتی ہیں۔)
تیار ہونے تک اس کے ذہن میں ایک ہی سوال کلبلاتا رہا۔
’’اماں آخر اتنی پُر اسرار حرکات کیوں کر رہی ہیں؟‘‘
٭…٭