مکمل ناول

مقیدِ مَن: فہمیدہ فرید خان

دھپ دھپ دھپ
تین عدد جوان جہان حسین و جمیل دوشیزائیں جامعہ کی بس سے اترتے ہی ڈیرہ جمال گاہی کے چھتنار درختوں تلے ڈھیر ہو گئیں۔ موسلا دھار مینہ برس کر تھم چکا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ اس طویل بل کھاتے خیابان کے گرد دو رویہ قدیم درختوں کی روش تھی۔ بوندا باندی کے ساتھ چلتی بادِ نسیم ان کے نازک احساسات کو گدگدا جاتی۔ لچکتی ڈال سے بدن ذرا کی ذرا کپکپاتے۔ ہوا کی سرسراہٹ، بارش کی نغماہٹ اور پتوں کے سریلے راگ فضا میں بکھر جاتے۔
’’کھڑی کیوں ہو فہمی، بیٹھ جاؤ نا تم بھی۔‘‘
’’مجھے معاف رکھو بی بی، تم لوگ یوں بیٹھی ہو جیسے کسان پورا دن ہل جوت کے تھک مرے ہوں۔‘‘
’’یار قسم سے جامعہ میں دوڑیں لگانا ہل جوتنے سے کسی طرح کم نہیں، انسان کا انجر پنجر ہل جاتا ہے۔ اوپر سے گرمی ہے یا عذابِ الٰہی۔‘‘
’’ایسا مت کہو، آج تو موسم ہے آفتانہ۔‘‘
فہمی اپنا ست رنگا آنچل لہراتے سنسان سڑک پر جھوم گئی۔
مونا اسے گھورنے لگی۔
’’شرم کرو یہ شارعِ عام ہے۔‘‘
’’ہائے صدقے اس بیان کے، پھسکڑا مار کر بیٹھتے یہ شارعِ عام نہیں تھی؟‘‘
’’موسم ہے بے رحمانہ۔‘‘
غزال کی مری مری آواز برآمد ہوئی۔
’’اب اٹھ بھی چکو، سڑک سے گوند لگا کے چپک گئی ہو کیا؟‘‘
کڑوے کسیلے طنز نے تینوں کو ہڑبڑا کے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔
’’محترماؤ ذرا دھیرے چلو، موسم ہے عاشقانہ ہوہوہوہوہوہوہو۔‘‘
فہمی نے ان کی برق رفتاری پر چوٹ کی۔
’’فہمی کی بچی رنگیلے راگ لگانا بند کرو… سڑک پر تمہارا ہیرو ٹپک پڑا نا تو ساری زندگی نازیبا حرکات کے طعنے وصول کرتی رہو گی۔‘‘
فریا نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔
’’کون مائی کا لعل مجھے طعنے دے سکتا ہے۔‘‘
اس نے خم ٹھونک کر فریا کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ ’’بائیس سال ہو گئے زندگانی کے… آنکھیں چٹی بھوری (چٹی کالی کی متبادل اصطلاح… اس کی آنکھیں شہد رنگ جو تھیں۔) ہو گئیں، ابھی تک تو کوئی نمونہ ظہور پذیر نہیں ہوا۔ اس بھائیں بھائیں کرتی سڑک پر کہاں سے ٹپکیں گے بادشاہ سلامت۔‘‘
اس نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں بائیس کو کھینچ کر ادا کیا۔
غزال کی آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں۔
’’اس کڑی کو دیکھے کوئی، موسم ہے مستیانہ۔‘‘
مونا غصے سے پھنکاری۔
’’اب اگر کسی نے میرے پسندیدہ گانے کی ٹانگ توڑی تو میں نے اس کی گچی مروڑ دینی ہے… مجھے یقین واثق ہے، گانوں کی ہڈی پسلی ایک کرنے کی پاداش میں تم ساری زندگی جوتے کھاؤ گی۔“
’’ہاں یہ لڑکی تو گئی کام سے۔‘‘
غزال نے مونا کی پیشن گوئی پر مہر ثبت کی مگر پروا کسے تھی۔
’’پارہ نیچے لاؤ… موسم ہے قاتلانہ۔‘‘
وہ ڈیرہ جمال گاہی کے صدر دروازے پر پہنچ چکی تھیں۔
’’اوئے انسان کی بچی بن اور قافیے بندی کرنا چھوڑ دے… کوئی دیکھے نہ دیکھے، چاچا شبیر (چوکی دار) تو دیکھے گا۔‘‘
فریا نے سلطان راہی کے انداز میں میں بڑھک لگائی۔
اپنے خوش نما تخیل کی بدنما تشریح پر فہمی سخت برانگیختہ ہوئی۔
’’پراں مر۔‘‘
اس کا یہ تکیہ کلام اب عام زدِ زبان تھا۔
صدر دروازے سے بغلی گلی مونا کے گھر کو جاتی تھی اور نکڑ پر فہمی کا غریب خانہ تھا جس کے بالمقابل غزال اور فریا کے گھر تھے۔
’’چلو کاکیو گاجر کے حلوے اور گلابی چائے سے تمہاری تواضع کروں۔‘‘
’’ہو ہائے کس نے بنایا؟‘‘
سب نے ندیدے پن کا عالیشان مظاہرہ کیا۔
’’سرد موسم کی مناسبت سے مابدولت صبح اماں سے پر زور فرمائش کر کے گئے تھے۔‘‘
’’منھ میں پانی آ گیا ہے ظالما۔‘‘
’’بولے تو موسم ہے ظالمانہ… چلو مل کے مزہ کرتے ہیں۔‘‘
’’شام کو آئیں گے۔ اس وقت ذرا سی مزید تاخیر پر ہماری گمشدگی کے اشتہار لگ جائیں گے۔‘‘
جامعہ سے تھک ہار کر لوٹنے کے بعد فہمی کی بھوک زوروں پر تھی۔ ہنی رنگ گھر کا دروازہ چوپٹ کھولے کھڑا تھا اور اب ان کی دھواں دار معرکہ آرائی ہونے والی تھی۔
٭…٭
خزاں کی ڈھلتی شام تھی اور موسم تھا نومبرانہ…
اس خنک اور سرد منظر کا حصہ بنی فہمی بیرونی برآمدے کی سیڑھیوں پر براجمان سوچوں میں غلطاں تھی۔ مدیحہ ہوتی تو اس کے اوپر جھکی بیل کو عشقِ پیچاں کا نام دے دیتی جس کے بارے میں دونوں کی معلومات صفر بٹہ صفر تھیں۔ اس کے نقوش میں بلا کی ملاحت اور نرمی تھی۔ نیلا لباس اس کی گوری رنگت پر جچ رہا تھا۔ وہ ’تم جو رنگ پہنو، وہی موسم کا رنگ‘ کی عملی تفسیر تھی۔
’موسم تھا خود شناسیانہ‘ کہ اس کے پیدا ہونے سے چمن میں بہار آئی تھی ورنہ نرگس خالہ اپنی بے نوری پر روتی دھوتی اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتیں۔
اچانک دھپ سے کوئی اس کے قریب ٹپکا۔ وہ اپنے دھیان میں تھی، بری طرح اچھل گئی۔ دھڑ دھڑاتے دل پر ہاتھ رکھ کر نو وارد کو گھورا۔ وہ مینا تھی، اس کی قریب ترین ہمسائی۔
’’تم انسانوں کی طرح نہیں آ سکتیں مینا بیگم۔‘‘
فہمی نے ناگواری ظاہر کرنے میں ذرا بھی بخل سے کام نہ لیا۔
مینا اپنے نام کے ساتھ بیگم کا لاحقہ لگانے پر بری طرح تلملائی تھی۔
’’میں کسی کی بیگم نہیں ہوں سمجھیں… میں پھر بھی آرام سے آئی ہوں، فریا آتی نا تو پورے محلے میں دھمال مچ جاتی۔‘‘
’’کوئی کام تھا تم کو؟‘‘
’’کیوں میں کام کے بغیر نہیں آ سکتی۔‘‘
مینا ٹھنکی۔
’’آ سکتی ہو، بالکل آ سکتی ہو لیکن جب تمہیں کام ہو، تم دیوار پھلانگ کر آتی ہو ورنہ انسانوں کی طرح دروازہ استعمال کرتی ہو۔‘‘
مینا کھرا سچ سن کر تنتناتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’تم بدتمیز، بے دید، منھ پھٹ اور بد لحاظ لڑکی ہو۔‘‘
’’ارے تمہیں میری اتنی خوبیاں کیسے پتہ چلیں۔‘‘
اس کے غیظ و غضب پر فہمی کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑی تھی۔
مینا طیش کے عالم میں جواب دیئے بغیر پاؤں پٹختی بیرونی دروازے کی جانب بڑھی۔
’’ارے ارے رکو، کیوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو… کام تو بتاتی جاؤ۔‘‘
’’وہ تمہارا سفید کڑھائی والا جوڑا مل سکتا ہے کیا؟‘‘
پلٹ کر لجاجت سے عرضی ڈالی گئی۔
’’ضرور۔‘‘
فہمی سے مسکراہٹ چھپانا محال ہو رہا تھا۔
’’وہ مجھے شبو کی شادی میں پہننا ہے نا۔‘‘
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘
فہمی کی مسکراہٹ ہنسی میں بدلتے دیکھ کر مینا خفیف ہوئی۔
’’نہیں چاہیئے مجھے تمہارا کوئی جوڑا۔ سنبھال کر رکھو اپنے پاس۔‘‘
ہاتھ سے فٹے منھ کا اشارہ کرتے وہ پلٹی۔
’’لے دس میں نے کوئی منع کیا ہے… جب چاہیئے ہوا، لے جانا۔‘‘
فہمی نے فیاضی کا مظاہرہ کیا۔
’’ہونہہ۔‘‘
مینا بل کھا کے غڑاپ سے باہر تھی۔
فہمی نے حفظِ ماتقدم کے طور پر کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ دروازہ حسبِ توقع زور دار دھماکے سے بند ہوا تھا۔ وہ کھل کے ہنس دی۔ اس کا سڑا ہوا مزاج شگفتہ ہو چکا تھا۔
یہ کہانی روزانہ تقریباً اسی تسلسل سے دہرائی جاتی تھی۔ ان کے پل پل ہوتے دنگل سے سبھی بہ خوبی واقف تھے، کسی نے باہر جھانک کے دھماکے کا ماخذ جاننے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی۔
٭…٭
فہمی اپنے تئیں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی لیکن مینا بھی کسی طور کم نہیں تھی۔ اس وقت بھی گو وہ فہمی سے جوڑا ادھار مانگنے آئی تھی لیکن نک سک سے تیار تھی۔ ثنا سفیناز کا دھانی سوٹ اس کی کھلتی رنگت پر خوب جچ رہا تھا۔ ہم رنگ چوڑیاں، ٹاپس، گلے میں سونے کی چین اور خاصے کی چیز اس کی تیکھی ناک میں لشکارے مارتی ہیرے کی لونگ تھی۔ اسے میک اپ کا بے حد سلیقہ تھا۔ اپنے ہنر کو نکھارنے کے لیے وہ ہر ممکن جتن کرتی پائی جاتی تھی۔ وہ بنی بنائی مینا کماری تھی۔ میشا کی متوقع منگنی کے تناظر میں اس نے فریا کی ہم نوائی میں پورے چار گھنٹے گروپ چیٹنگ کی تو فہمی ان کی معلومات پر اش اش کرتی رہی تھی۔ دونوں نے ہر برینڈ کا معیار اور قیمتیں زیر بحث لائیں۔ اس کی حسن پرستی کا شاخسانہ تھا کہ ایم فل میں داخلہ نہ لے کر اس نے اپنا کندن سا رنگ روپ محفوظ کر لیا تھا۔
منگل کی سلونی شام تھی اور موسم تھا بادلانہ…
مینا خریداری کے لیے نینا کو زبردستی گھسیٹ کر لے گئی۔ نینا کے دہائیانہ برقی پیغامات کی طومار پر فہمی ان کے گھر پہنچی۔ بالآخر تین گھنٹے بعد مینا کی سواری باد بہاری آتی دیکھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔
’’کیا کچھ خرید لائیں مینا؟‘‘
جواباً اس نے کندھے پر جھولتا دوپٹہ نوچ پھینکا۔ آٹھ انچ کی ایڑی دائیں بائیں لڑھکائیں۔ پرس ٹی وی ٹرالی پر یوں اٹکایا کہ وہ زمیں بوس ہوتے ہوئے ریموٹ اور سجاوٹی اشیاء ساتھ لیتا گیا۔ چیزوں کے نوحے سن کر ذکیہ خالہ باورچی خانے سے کفگیر تھامے برآمد ہوئیں۔
(شاید یہ مینا کی کمر کی سنکائی کرنے والا ہے۔) فہمی نے جھرجھری لی مگر خیر گزری۔
’’ذرا سالن دیکھنا، میں اس لڑکی کا دماغ درست کر کے آتی ہوں۔‘‘
جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق نینا نے کفگیر سمیت منظرِ عام سے غائب ہونے میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہ کی۔ ذکیہ خالہ پورے پندرہ منٹ مینا کی شان میں فصیح و بلیغ قصیدہ پڑھتی رہیں۔ اس دوران فہمی موبائل پر نظریں گاڑے ضبط کی تصویر بنی بیٹھی رہی۔ ’’یہ اولاد کبھی نہیں سدھر سکتی‘‘ سماعتوں میں اترتے ہی اس نے گردن اٹھائی۔ مطلع صاف ہوتے ہی نینا شکنجبین لیے حاضر تھی جو اس نے دونوں باجیوں کی خدمت میں پیش کی۔
’’اب آرام ہے آپی۔‘‘
معصومانہ استفسار پر فہمی کا قہقہہ ابلا۔
’’موسم ہے پنگیانہ۔‘‘
نینا بوکھلا کے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ مینا متوجہ نہیں تھی ورنہ گھمسان کا رن پڑ چکا ہوتا۔ ذکیہ خالہ کی کڑوی کسیلی امرت سمجھ کر پینے والی مینا میں برداشت کی کافی کمی تھی۔
ٹھنڈا ٹھار مشروب معدے میں جاتے ہی مینا صاحبہ کے حواس ذرا ٹھکانے لگے۔ اس نے پاؤں پسار کر صوفے سے ٹیک لگائی۔ اب وہ داستان امیر حمزہ سنانے کے لیے بالکل تیار تھی۔
’’یار آنلائن چیزیں دیکھ کے جی للچا جاتا ہے مگر مارکیٹ جاؤ تو کوئی ڈھنگ کی چیز نہیں ملتی۔ جو پسند آئے، بساط سے باہر ہوتی ہے۔ بِلا مبالغہ پچھتر دکانوں پر پھری ہوں۔‘‘
وہ بولتی گئی، بولتی گئی، بولتی گئی… اس کی دکان دکان پھرنے کی ہوش ربا داستان کے ساتھ نینا اپنی دکھتی ٹانگیں دباتے تصدیقی دہائیاں دے رہی تھی۔
’’باجی نے مجھے تھکا مارا ہے۔‘‘
فہمی اس پر ترحم آمیز نگاہ ڈال کر مینا کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ قصہ کوتاہ کرنے کے بعد اب اپنی خریدی گئی واحد لپ اسٹک کا دیدار کروا رہی تھی جو اس نے تین گھنٹے کی محنتِ شاقہ کے بعد خریدی تھی۔
٭…٭
آخری پکوڑہ کڑاہی سے نکال کر فہمی نے چولہا بند کیا اور ہاون دستہ میں چٹنی پیسنے لگی۔ نینا طوفانی بگولے کی مانند چکراتی باورچی خانے میں داخل ہوئی۔
’’آپ یہاں ہیں۔ میں نے سارا گھر چھان مارا۔‘‘
پکوڑوں پر نظر پڑتے ہی وہ بات مکمل کرنا بھول گئی۔ اس کی نگاہوں کا مفہوم جان کر فہمی نے فوراً سے پیشتر رکابی اس کی پہنچ سے دور کی۔
’’ذرا چٹنی پیسنا۔ میں تب تک چائے بنا لیتی ہوں۔‘‘
نینا کے تاثرات کشیدہ ہوئے لیکن پکوڑوں کی محبت جذبات پر غالب آ گئی ورنہ وہ عین کام کے وقت دغا دے جانے والوں میں سے تھی۔ بادل نخواستہ چٹنی پیستے (درحقیقت دانت پیستے) ہوئے اس نے استفسار کیا۔
’’باقی گھر والے کہاں ہیں؟‘‘
’’شبو کی شادی کی خریداری کرنے نکلے ہیں۔‘‘
’’آپ کیسے پیچھے رہ گئیں۔ آپ کو شبو آپی کی شادی کی کوئی خوشی نہیں۔‘‘
نینا کا اچنبھا جائز تھا۔
‘‘آہ کیا پوچھتی ہو بہن موسم ہے اسائنمٹانہ… ساری مہارانیاں ایکا کر کے غائب تھیں۔ میں اکیلی جامعہ میں خوار ہوتی رہی۔ محنت کرتے سب کی جان نکلتی ہے، پکی پکائی پر اپنے نام کا ٹھپہ لگوانے پہنچ جائیں گی… لگتا ہے سارے جہان کو یہی وقت ملا ہے۔ شبو ڈولی بیٹھنے جا رہی ہے، میشا انگوٹھی پہننے پر تلی ہے۔ ایک میں ہوں خواب بھی جامعہ کی ہولناکیوں کے آتے ہیں۔‘‘
فہمی نے کھولتے پانی میں پتی جھونک کے اپنی کھولن نکالی۔
’’ایں آپ کسی بانکے چھیلے کے خواب دیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
نینا نے آنکھیں پٹپٹائیں۔
’’ہائے اپن کے ایسے نصیب کہاں… دیکھ لو، کھانے کے نام پر خیالی پلاؤ تک میسر نہیں۔ جامعہ سے تھک مرنے کے بعد چولہا بھی جھونکنا پڑ رہا ہے۔‘‘
’’آپ کی داستان درد ناک ہے فہمی آپی… پر اتنے ڈھیر پکوڑے کیوں بنا لیے… چڑیا جتنا تو چگتی ہیں۔‘‘
’’باقی نفری کو بھول گئیں؟ ابھی خوشبو سونگھتی پہنچ جائے گی۔ جامعہ جاتے وقت ٹانگیں ٹوٹتی ہیں لیکن یہاں پہنچنے میں کوئی امر مانع نہ ہو گا۔‘‘
’’خیر آج ان کے پاس ایسی چٹپٹی خبر ہے کہ بریانی کی خوشبو سونگھ کے بھی نہیں آئیں گی۔‘‘
نینا نے چٹنی پیالی میں نکالتے ہوئے سنسنی پھیلائی۔
’’ہائیں کیسی خبر؟ تم اتنی سنسنی خیز محفل چھوڑ کر یہاں کیسے آ گئیں… تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘
فہمی نے لوازمات میز پر سجاتے خوش دلانہ طنز کیا۔
’’میرا دل نہیں تھا آنے کا… مینا باجی نے زبردستی دھکا دیا کہ فہمی کہیں محروم نہ رہ جائے۔‘‘
نینا نے ببانگِ دہل سچ اگلا۔
’’لے دس، مجھے کیوں محروم کر رہی ہے تمہاری کھڑوسن بہن۔‘‘
نینا جواب دینے کے بجائے اپنی رکابی میں پکوڑوں کا کے-ٹو کھڑا کرنے میں منہمک تھی۔ پھر فراخ دلی سے چٹنی انڈیلی کہ بحرالکاہل بھی اس ذخیرے کے سامنے پانی بھرتا دکھائی دینے لگا۔
’’اتنی محنت کی ہے، میرا حق بنتا ہے۔‘‘
فہمی کے گھورنے پر اس نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔
’’چچ لد گئے وہ زمانے، جب کھانے کے آداب بڑی چیز ہوا کرتے تھے۔‘‘
پکوڑوں اور چٹنی سے اچھی طرح انصاف کرنے کے بعد نینا کو چائے سے لطف اندوز ہوتے دیکھ کر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے سبزی کی ٹوکری اٹھا کے نینا کی کمر پر دے ماری۔
’’ہائے امی جی مار ڈالا۔‘‘
’’تم یہاں پکوڑے ڈھکوسنے اور چائے شڑوکنے آئی تھیں؟‘‘
فہمی نے آنکھیں نکالیں۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا نینا کو سالم نگل کر ڈکار بھی نہ لے۔
’’میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’نہیں نہیں، تم نے کچھ نہیں کیا، تمہاری بد روح نے مجھ پر بم پھوڑا تھا… معصومیت کا چکمہ کسی اور کو دینا جو تمہیں جانتا نہ ہو۔‘‘
’’ایں کون سا بم۔‘‘
وہ محترمہ سچ مچ معصومیت کی پوٹ بن گئیں۔
’’نینا میرا ضبط مت آزماؤ… اصل بات بتاتی ہو یا دو لگاؤں۔‘‘
’’اچھا ہاں وہ بات… میں بتانے ہی تو آئی تھی۔ آپ نے مجھے کام میں جوت دیا تھا۔‘‘
وہ نروٹھے لہجے میں بولی تھی۔
’’اتنا بڑا پہاڑ معدے میں منتقل کرنے پر مہر باندری۔ اب پھوٹو۔‘‘
”سب مونا باجی کی طرف جمع ہیں۔‘‘
’’مونا کی طرف کیوں… وہاں ریوڑیاں بٹ رہی ہیں یا بتاشے؟ انہوں نے شبو کی طرف جانے کی وجہ سے چھٹی کا ڈھکوسلہ کیا تھا۔‘‘
’’نہیں، شبو باجی کی طرف کل جائیں گے۔ آج دوسرا پروگرام ہے۔‘‘
’’کیسا پروگرام؟‘‘
’’کپڑوں کی ڈیزائننگ، ڈھولکی اور رت جگا۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔ ویسے یہ نیک خیال کس کو آیا؟‘‘
’’ڈھولکی اور ڈیزائننگ کا؟ میڈی آپی کو۔‘‘
فہمی کے ہونٹ سکڑ گئے۔
’’دیکھ لینا نینا، میڈی ہمیں عاصم جوفہ پر لگا کر خود رضوان بیگ کی کولیکشن پسند کرے گی۔‘‘
اس نے گزشتہ تجربات کی روشنی میں دل کے پھپھولے پھوڑے۔ اس میں باک نہیں تھا وہ دراصل میڈی کی بے مثال خوبصورتی سے خائف تھی۔
مدیحہ عرف میڈی میدے کی رنگت اور خوشنما نین نقش والی سرو قد لڑکی تھی۔ اس میں پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی بدرجۂ اتم موجود تھا۔ پانچ فٹ سات انچ کے متناسب قد کے ساتھ وہ ڈیرہ جمال گاہی کی تمام لڑکیوں میں ممتاز تھی۔ سونے پر سہاگہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور سگھڑ تھی۔ معروف کاروباری گھرانے سے تعلق کے باعث دسوں انگلیاں دسوں چراغ تھی۔ اس میں ناول کی ہیروئین بننے کے تمام لوازمات موجود تھے۔
لیکن ذرا ٹھہریئے…
اگر فہمی اس ناول کی ہیروئین نہیں بن سکتی، تو میڈی کو یہ منصب کیوں کر تفویض کیا جا سکتا ہے…
کچھ سوچ کر اس نے رخِ روشن نینا کی جانب موڑا۔
’’اپنی مینا کماری کیا پہن رہی ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم، آپی نے یہ راز افشاء کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس بار وہ سب کو دنگ کر دیں گی۔‘‘
نینا نے دامن بچایا۔
’’اچھا اچھا، ٹھیک ہے۔‘‘
فہمی کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ سج گئی۔ (بچو جی، سفید کڑھائی والا جوڑا پہن کے سب کو دنگ کرنے کا ارادہ ہے… موسم ہے ڈینگیانہ…)
٭…٭
’’ہائے نینا میرا دل چاہ رہا ہے اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں لیکن بعد میں اماں کی پُر مغز تقریر دل پذیر کون بھگتے گا۔‘‘
فہمی نے آہ سی بھری۔
’’فہمی آپی موسم ہے محفلانہ مگر حرکتیں نہ کرو طفلانہ… سنبھال لو اپنا دل، رکھ لو اس پہ صبر کی بھاری سل۔‘‘
اس کے وضع کردہ تمام سابقے اور لاحقے نینا نے اسی پر آزما ڈالے جس کا اپنا دل بھی ہمک رہا تھا مگر پکوڑیانہ خمار اسے اظہارِ مدعا سے روک رہا تھا۔
عصر سے ذرا پہلے گھر والوں کی واپسی کے ساتھ ہی چائے بنانے کا حکم نامہ مل گیا۔ بچے ہوئے آمیزے سے پکوڑے تلے گئے جو آدھے سے زیادہ وہ دونوں کھا گئیں۔ پھر خریداری پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اذان کی آواز محفل برخاست ہونے کا نقارہ ثابت ہوئی۔
’’اماں میں مونا کے گھر چلی جاؤں؟‘‘
انہوں نے تیکھے چتونوں سے مودب بنی نینا اور اس پر نگاہ کی۔
’’یہ کون سا وقت ہے کسی کے گھر جانے کا؟‘‘
’’مونا نے شبو کی ڈھولکی رکھی ہے، سب لڑکیاں وہاں اکٹھی ہوئی ہیں۔ نینا کب سے آپ کے انتظار میں بیٹھی تھی۔‘‘
’’اے ہئے بیگانی بچی کو اس کے گھر روانہ کرو اور تم اپنے گھر ٹک کے بیٹھو۔‘‘
اماں کے کھٹ مٹھے طنز کبھی کبھی اسے بری طرح زچ کر دیا کرتے تھے۔
اسی پل ابا نے نشست گاہ میں قدم رکھا۔ ٹی وی آن کرنے سے قبل تین نفوس کی موجودگی کے باوجود چھائی خاموشی پر پوچھ بیٹھے۔
’’اتنی خاموشی کیوں ہے بھئی؟“
”اپنی صاحبزادی سے پوچھیں۔‘‘
’’ کیا کر دیا میری شہزادی نے؟‘‘
اب وہ چینل بدل رہے تھے۔
فہمی نے اپنے کارناموں سے صرفِ نظر کر کے برا سا منھ بنا لیا۔
’’اس نا وقت مونا کے گھر جانے کی فرمائش ہے۔‘‘
اماں نے وجہ گوش گزار کی۔
’’جانے دو بھلی لوک۔ باقی بچیاں ہلا گلا کر رہی ہوں گی، اسے کیوں روک رہی ہو۔ اپنا ڈیرہ ہے، کاہے کا ڈر۔ جاؤ بچے جاؤ۔‘‘
اجازت ملتے ہی انہوں نے دوڑ لگا دی۔
اماں کے چہرے کے عضلات بگڑتے دیکھ کر ابا نے ٹی وی میں پناہ لی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اماں کلس کر رہ گئیں۔
٭…٭
وہ مونا کے گھر کے راستے میں تھیں جب نینا کی نظر میڈی پر پڑی۔ وہ انہیں رکنے کا اشارہ کر رہی تھی۔
’’میڈی آپی آپ دفتر سے آ رہی ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
اس کی مریل سی آواز نکلی۔
’’آپ کا دفتر اتنی دیر سے بند ہوتا ہے؟‘‘
’’نہیں یار، آج کل آڈٹ ٹیم آئی ہوئی ہے۔ دماغ پلپلا کر کے رکھ دیا ہے ان کی چخ چخ نے۔‘‘
وہ تفتیش بھگت رہی تھی اور فہمی اس کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ چہرے سے ہویدا تھکن سے قطع نظر اس کا ظاہری حلیہ شاندار تھا۔ نارنجی، سلیٹی اور نسواری رنگوں سے مزین لباس کے ساتھ ہم رنگ جوتا خوب جچ رہا تھا۔
’’موسم ہے شاندارانہ۔‘‘
فہمی نے توصیفی سیٹی بجائی۔
’’اس وقت موسموں کا تذکرہ کر کے مجھ سے بے موسمی کٹ نہ کھا لینا۔‘‘
’’باپ رے تم تو میرے موسموں سے خار کھائے بیٹھی ہو، اوہ میرا مطلب کھڑی ہو۔‘‘
فہمی نے ڈرنے کی اداکاری کی۔
وہ مونا کے گھر جاتے ہی خوشگوار ہنگامے کا حصہ بن گئیں۔ گفتگو گھوم گھام کے مدیحہ کی خوبصورتی پر آن رکی تھی۔ وہ تفاخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ تعریفیں وصول کر رہی تھی۔ اب اس کے بشرے پر دفتری تکان کا نام و نشان تک نہ تھا۔ فہمی پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
’’مجھے لگتا ہے میڈیا کی خوبصورتی کا بھوت میرے سر پر سوار ہونے سے میری خوبصورتی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ جس دن یہ مکمل خوف صورتی میں ڈھل گئی، مائیں اپنے بچوں کو فہمی بھوؤ کہہ کر ڈرایا کریں گی۔‘‘
اس دہشت ناک تصور پر جھرجھری لے کر اس نے خود کو چپت رسید کی۔
ہلے گلے سے بھرپور اس ماحول میں فہمی کو غزال کی کمی محسوس ہوئی۔
’’یہ غزال کدھر مری پڑی ہے؟‘‘
اس نے میشا سے استفسار کیا۔
’’کہیں بیٹھی ہو گی اپنے ظہور پذیر نہ ہونے والے ہیرو کے غم میں۔‘‘
وہ جانے کیوں خار کھائے بیٹھی تھی۔

1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے