محبتوں کی ڈور: ریم بخاری
’’ السلام و علیکم بھابھی صاحبہ…‘‘ زرمش نے عریشہ کو کال ملائی ۔ زرمش کچن میں سب کے لیے چائے بنا رہی تھی۔
’’ کیا مطلب بھابھی؟ ‘‘ وہ اس کے طرز تخاطب پر ٹھٹکی۔
’’ مطلب یہ کہ آپ کا رشتہ میرے بھائی فہد صفدر سے طے ہونے جا رہا ہے۔ ‘‘ ٹھہر ٹھہر کر بتایا۔
’’ یہ کیسا مذاق ہے۔‘‘ آصف سے بات ہو چکی تھی اب اچانک فہد اسے یقین نہ آیا۔
’’ میں ایسا مذاق میں کبھی نہ کروں مگر تمہارے کبھی نہ ہونے والے سسرال والے ابھی سے شادی کی تاریخ مانگنے آ گئے‘ پھپھو کو تپ چڑھی ۔ ابو جی نے موقع دیکھ کر تمہارا رشتہ مانگ لیا اور تم میرے بھائی کے نام ہونے جا رہی ہو۔ ‘‘ اس نے ایک ہی جملے میں ساری بات سمیٹ دی۔
’’ اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں۔ ‘‘اس نے کال کاٹ کر عمار کو ملائی جو سب کے بلانے پر ویک اینڈپرآ گیا تھا ۔ وہ ابھی تک رہائش کے لیے جگہ دیکھ رہا تھا۔
وہ کمرے میں بیٹھا فہد سے باتیں کررہا تھا۔
’’ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ‘‘کال اٹینڈ ہوتے غصے سے بولی۔
’’ کس بارے میں کہہ رہی ہو۔ ‘‘ وہ جان کر انجان بنا۔
’’ جس سلسلے میں آپ وہاں گئے ہیں۔ ‘‘ اسی کے انداز میں جواب دیا۔
’’ دراصل ماموں تمہارے لیے اتنا اسرار کر رہے ہیں تو سب کو ارادہ بدلنا پڑا۔‘‘ اس نے بھی ایک جملے میں بات مکمل کی۔
’’ اور آپ چپ کر کے سب دیکھتے اور سنتے رہے روکا نہیں۔‘‘ اسے سب سے زیادہ شکوہ عمار سے تھا جو اسے سمجھتا تھا۔
’’ یہ رشتہ سب کو مناسب لگ رہا ہے۔ ‘‘ اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ مجھے بتایا تک بھی نہیں۔‘‘ اسے بہت برا لگ رہا تھا۔
’’ تمہاری اہم اسائمنٹس تھیں اور ہم تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے ‘ اسی لیے اب بتایا ۔ ویسے بھی تم نے یہ سب امی پر چھوڑ رکھا تھا۔‘‘ عمار نے اسی کو گھیرا۔
’’ جو بھی ہو ‘ میں اس اکڑو سے شادی نہیں کروں گی جسے بات کرنے کی تمیز نہیں۔ ‘‘اس نے بے بسی سے کہا۔
’’ مگر میں تم سے ہی شادی کروں گا ۔ ‘‘فہد جو اس کی بات کان لگا کر سن رہا تھا فوراً بولا۔
’’ عمار یہ کون بولا۔ ‘‘ اس نے بھائی سے پوچھا۔
عمار کچھ بولنے لگا مگر فہد نے پہلے ہی موبائل اچک لیا۔
’’جسے تم اکڑو کہہ رہی ہو۔ ‘‘ اس نے مزے سے جواب دیا۔
’’ عمار کو فون واپس دو۔‘‘ وہ غصے سے چیخی ۔
’’ تم نے جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کرو۔‘‘فہد نے لہجے میں رعب پیدا کیا۔
’’ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ وہ کال کاٹ گئی۔
’’ یہ کس طرح بات کر رہے تھے۔ ‘‘ عمار نے گھورا۔
’’ کچھ نہیں بیچاری کی لندن کی سپیشلائزیشن ادھوری رہ گئی۔‘‘ وہ شرارت سے بولا۔
عمار ان کا مستقبل سوچ کر رہ گیا۔
٭…٭
ادھر عریشہ نے کال کاٹتے ہی رونا شروع کر دیا ۔ ان معاملوں میں وہ ایسے ہی جذباتی تھی ۔ کل تک وہ خودکو آصف کے نام سے منسوب سمجھ رہی تھی اور خود کو اس ماحول میں ڈھالنے کا سوچ رہی تھی اب اسے فہد سے جوڑ دیا گیا ۔ اس کی زندگی نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ الجھ گئی۔ پھر سب کال کرتے رہے مگر اس نے نہ اٹھائی ۔ آخر اگلے ویک اینڈ عمار خود اسے لینے پہنچا چاروناچار اسے آنا پڑا۔ امی سے اس کی مرضی پوچھنے پر اس نے خاموشی سے ہاں کہہ دی کیونکہ وہ فیصلہ انہیں پر چھوڑے بیٹھی تھی۔
اگلے کچھ دنوں میں عالیہ بیگم کی موجودگی میں ان کی بات پکی ہو گئی ۔ صفدر صاحب نے انگوٹھی پہنا کر عریشہ کو فہد کے نام کر دیا ۔ عریشہ نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑتے پڑھائی پر دھیان لگایا۔
٭…٭
زرمش کی طرف سے ملنے والی خوشخبری نے ان سب کی خوشی کو دوبالا کر دی ۔ عمار نے بھی رہائش کا انتظام کر لیا اور اسے ساتھ لے گیا ۔ اس نے اپنی کمپنی میں ٹرانسفر کی درخواست دی تھی جس پر چھ ماہ بعد اس کا ٹرانسفر انہی کے شہر میں ہونا تھا ۔ ہفتے کے دن عریشہ ان کی طرف آ جاتی ہے وہ کافی حد تک نئی صورتحال کو قبول کر چکی تھی ۔
زرمش کچن میں چاے بنا رہی تھی جب عمار عریشہ کے ساتھ بیٹھا۔
’’ خوش ہو۔ ‘‘ بہن سے پوچھا۔
’’ پتہ نہیں آگے کیا بنے گا ۔ ایک تو ممانی کا رویہ سوچ کر الجھن ہو رہی ہے ‘ دوسرا فہد کی سابقہ حرکتیں۔‘‘اس نے بڑا مسئلہ بتا دیا۔
’’ پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو گا۔ ‘‘اس نے تسلی دی کیوں کہ اس کی سوچ وہاں جا کر ہی بدلنی تھی۔
’’ امید پر دنیا قائم ہے۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا۔
’’ ویسے اس رشتے کا ایک فائدہ ہے۔ ‘‘وہ اس کے قریب جھک کر بولا۔
’’ کیا؟ ‘‘ وہ تجسس سے پوچھنے لگی۔
’’ میرے بچے اپنی پھپھو سے پیار بہت کریں گے کیونکہ تم ان کی مامی بھی تو ہوگی۔ زرمِش بھائی کی محبت میں تم سے بھی محبت کیے رکھے گی۔‘‘ اس کے کہنے پر عریشہ بھی ہنسنے لگی۔
٭…٭
عریشہ چھٹیوں پر آئی ہوئی تھی جب اس کے موبائل کی ٹون بجی ۔ اس نے دیکھا تو فہد صاحب کی ٹک ٹاک تھی ‘ جس میں وہ منگیتروں کے ستم بیان کرتے پاے گئے ۔ غصے سے اس کا چہرہ لال ہو گیا۔
’’زرمش… ‘‘ وہ پکارتے ہوئے ‘ اس کے کمرے میں پہنچی۔
’’ کیا ہوا۔‘‘ اس نے واش روم سے نکلتے کہا ۔ وہ ڈلیوری کے لیے ساس کے پاس آئی ہوئی تھی۔
’’ اپنے بھائی کے کارنامے دیکھو۔‘‘ اس نے موبائل اس کی طرف بڑھایا۔
’’ کتنی اچھی ایکٹنگ کر رہا ہے۔‘‘ وہ تو خوش ہوئی۔
’’ میں کیسے بھول گئی ‘ تم اس مسخرے کی بہن ہو اسی کی حمایت کرو گی مگر اسے سمجھا دینا آئندہ ایسی حرکت نہ کرے ورنہ میں ماموں کو دکھا دوں گی ۔ پھر وہ ایسی ویڈیو اپ لوڈ کریں گے کہ تمہارا چہیتا ساری زندگی ویڈیو بنانے سے توبہ کر لے گا۔ ‘‘اس نے سختی سے دھمکی۔
’’ یہ کام تو تم دونوں چغل خور بہن بھائی اچھے سے کرتے ہو۔‘‘
بھائی کے لیے مسخرے کا لفظ پسند نہ آیا تو اس نے عمار کی پھپھو کو ویڈیو دکھانے کا ذکر کیا ۔ جس پر وہ پیر پٹختی چلی گئی ۔ ان کی آپس میں کافی اچھی دوستی ہو چکی تھی ۔ اس لیے یہ روٹھنا منانا بھی چلتا رہتا تھا۔
٭…٭
عمار آفس سے چھ بجے واپس آیا ۔ اس نے اپنا ٹرانسفر اپنے شہر کروا لیا تھا ۔ عریشہ اب لاہور کی عادی ہو گئی تھی اسی لیے اب مسئلہ نہیں تھا ۔ ہاتھ منہ دھو کر وہ باپ کے کمرے میں آیا جہاں حمزہ سر جھکائے کھڑا تھا اور منصور صاحب صوفے پر بیٹھے اس کا رزلٹ دیکھ رہے تھے۔
’’ یہ کیا ہے صرف بہتر فیصد ، پڑھائی کیوں نہیں کی۔‘‘ انہوں نے غصے سے رزلٹ کارڈ ٹیبل پر پھینکا۔
’’ ابو جی میں نے تو محنت کی تھی۔‘‘ وہ منمنایا۔
’’ خاک محنت کی تھی ۔ تمہارے دونوں بہن بھائی بورڈ ٹاپ کرتے تھے۔‘‘
وہ بھی ان دونوں کا حوالہ دے کر بولے ۔ عمار کو ان میں صفدر صاحب کی جھلک دکھی جو حمزہ کا موازنہ دوسروں سے کر رہے تھے۔
’’ ابو جی میری پوری محنت کرتا ہوں مگر پھر بھی ان جتنے نمبر نہیں لا سکتا۔‘‘ وہ رونے والا ہو گیا۔ وہ میٹرک میں تھا مگر چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلا رہا تھا۔
’’ عمار کل سے تم اس کو پڑھاؤ گے اور اس بار مجھے اسی فیصد نمبر چاہیں ۔ اب جاؤ ۔‘‘بڑے بیٹے کو کہہ کر چھوٹے کو بھگایا۔
’’ ابو جی ایک بات کہوں۔‘‘ اس نے اجازت لی۔
’’ کہو ۔‘‘وہ اس کے انداز پر حیرانی سے بولے۔
’’ برا مت مانیے گا مگر حمزہ کو لے کر آپ کا رویہ تھوڑا سخت ہے۔ ‘‘ وہ چاہ کر بھی غلط نہ کہہ سکا۔
’’ تو کیا بچوں پر پڑھائی کا خیال رکھنا غلط ہے۔‘‘ انہوں نے الٹا اسی سے پوچھا۔
’’ آپ اس پر تھوڑی سختی بھی کریں مگر پیار سے سمجھائیں۔ اس کے پڑھائی کو لے کرمسئلے حل کریں مگر اسی فیصد کے لیے دباؤ نہ ڈالیں۔‘‘ اس نے بہت مناسب الفاظ کا چناؤ کیا۔
’’ تم لوگ تو میرے بغیر کہے نوے فیصد سے اوپر لاتے تھے۔‘‘وہ پھر موازنہ کر گئے۔
’’ ابو جی ہر بچے کی ذہنی قابلیت الگ ہوتی ہے ۔ ان کا موازنہ دوسرے بچوں سے نہیں کرنا چاہیے ۔ ماموں جی بھی یہی غلطی کرتے تھے ۔ اپنے بچوں کی کامیابی پر خوش ہونے کی بجائے ہم سے موازنہ کرتے ۔ اسی لیے وہ ہم سے خفا رہے ۔ اب میں اپنے بھائی کو اسی راہ پر چلتے نہیں دیکھ سکتا ۔ میں کل سے اسے خود پڑھاؤں گا مگر آپ اسی فیصد والی بات بھی مت کیجئے گا۔‘‘ عمار نے منت بھرے انداز میں کہا۔
’’ ٹھیک ہے تم اسے اپنے حساپ سے پڑھاؤ۔‘‘منصور صاحب نے اس کی بات سمجھ کر کہا۔
زرمش جو اس کے لیے چائے لائی تھی کب سے اس کی بات سن رہی تھی ۔ اس کے دیکھنے پر مسکرا دی ۔ ان کا بچپن اسی موازنے میں گزرا تھا ‘ جس سے وہ خود بھی تکلیف کا شکار رہے۔ اور اس پیارے انسان کو بھی تکلیف دیتے رہے ۔ وہ لوگ تو محبت کی ڈوری سے بندھے تھے اور اب انہیں بھی باندھ لیا۔
٭…٭
عریشہ ہاسپٹل کا راونڈ لے کر آؤٹ ڈور میں آئی جہاں کافی مریض موجود تھے ۔ اس نے کرسی سنبھالی ہی تھی کہ موبائل بجا ۔ حسبِ توقع فہد کی ٹک ٹاک تھی جس میں وہ مظلوم شوہر بنا بیوی کے مظالم اور اپنی خالی جیب کا رونا رو رہا تھا۔ان کی شادی کو چھ ماہ ہو چکے تھے اور وہ خوشی سے زندگی گزار رہے تھے مگر فہد اس کے متعلق ایک آدھ ویڈیو بنا کر اس کا پارہ ضرور ہائی کرتا ۔ اور تو اور تو پھپھو والے وائس پر تین سالہ سمیع (زرمش اور عمار کے بیٹے) کی ویڈیو لگا کر چڑا تا ۔
’’ اس مسخرے آدمی سے شادی کر کے میں نے سردرد مول لے لی۔‘‘ اپنے لیے چائے منگواتے وہ بڑبڑائی اور پھر وڈیو دوبارہ سے دیکھنے لگی ۔ اس دفعہ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ابھری تھی ۔ فہد جیسا بھی تھا وہ ایک اچھا شوہر ثابت ہوا تھا اور اس کے ساتھ آگے کی زندگی بھی اچھی گزرنے والی تھی۔
ختم شد