ناولٹ

محبتوں کی ڈور: ریم بخاری

’’ یہ بات آپ کو پہلے پتا دی تھی کہ اسے چار سال پڑھائی کرنی ہے اور آپ نے لوگوں نے زبان تھی۔ ‘‘انہیں ان کا رویہ ذرا بھی پسند نہ آیا۔
’’ بہن میری صحت ٹھیک نہیں رہتی ‘ اسی لیے چاہتی ہوں بیٹے کی شادی کردوں ۔ باقی پڑھائی وہ لندن جا کر پوری کر لے۔ ‘‘بات بگڑتی دیکھ کر انہوں نے انداز بدلا۔
’’ ہم نے چار سال تک بیٹی کو اس لیے دور نہیں رکھا کہ آخری سال میں ساری محنت ضائع کر دیں ۔ اب اس کا آخری سال ہے تو بہن میں اپنی بیٹی کی شادی پڑھائی سے پہلے نہیں کروں گی۔ ‘‘انہوں نے صاف کہہ دیا۔
’’ اور میں اپنے بیٹے کی شادی اگلے ماہ کروں گی۔ ‘‘
ان کی بات پر رائمہ بیگم کی تیوری چڑھی ۔ وہ اسی لیے پہلے منگنی کے حق میں نہ تھیں ۔ ان کے جانے کے بعد بے چینی سے شوہر کا انتظار کرنے لگی ۔ان کے آنے پر چائے پانی پوچھا۔ انہوں نے کچھ دیر آرام کے بعد کھانا کھایا ۔ زرمش کو اب اپنی ماں اور پھپھی میں فرق سمجھ آیا ۔ اگر اس جگہ عالیہ بیگم ہوتیں تو کب کی بڑھاس نکال لیتیں مگر انہوں نے پہلے شوہر کے آرام کا خیال کیا۔
’’ منصور صاحب آپ کے دوست کی بیوی اور بیٹی آئیں تھیں۔ ‘‘ کچھ دیر بعد غصہ دبا کر کہا۔
’’ خیریت ۔‘‘وہ بھی حیران ہوئے۔
’’ وہ عریشہ کی شادی کی تاریخ لینے کے لیے آئیں تھیں۔‘‘ اطلاع پہنچائی۔
’’ یوں اچانک ۔‘‘ ان کے لیے بھی یہ غیر متوقع تھا۔
’’ جی اچانک ۔‘‘انہی کی بات دہرائی۔
’’ اب …؟‘‘وہ سوالیہ انداز میں بولے۔
’’ دھمکی دے کر گئیں ہیں کہ ہم نہ مانے تو بیٹے کی کہیں اور شادی کر دیں گی۔ ‘‘ زرمش ان کے ساتھ خاموشی سے بولیں۔
’’ میں صابر سے بات کرتا ہوں یہ کیا طریقہ ہے۔‘‘غصہ انہیں بھی آیا۔
’’ میں اسی لیے دورانِ تعلیم رشتے کے حق میں نہیں تھی۔‘‘ وہ صرف شوہر کی سوچ پر خاموش ہوئی تھی ۔ زرمش فہد کی کال آنے پر تھوڑی دور ہو گئی۔
’’ پڑھائی کا آخری سال ہے جو ساری محنت کا نچوڑ ہوتا ہے ۔ اسی میں شادی کرکے دوسرے ملک بھیج دوں ۔ نیا ماحول نئے لوگ ‘ اوپر سے گھرداری … بچی کی ساری محنت ضائع ہو جائے ۔ اس لیے نہیں اس نے پانچ سال ضائع کیے کہ آخر میں سب تباہ ہو جائے۔‘‘ انہوں نے بھڑاس نکالی۔
’’ تو کیا کریں رشتہ طے کر چکے ہیں۔ ‘‘ وہ رشتہ ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے تھے۔
’’ مجھے نہیں معلوم ‘ میں اپنی بیٹی امتحانات سے پہلے نہیں بیاہوں گی ۔ میں روایتی ماں نہیں ہوں جو دنیا داری سے ڈر کر بیٹی کی خوشی قربان کر دوں۔‘‘ جذبات کی وجہ سے ان کی آواز کچھ بلند ہو گئی جو فہد تک بھی پہنچ گئی۔
’’ اللہ خیر کرے پھپھو کو کیا ہوا ہے۔ ‘‘ اس نے بہن سے پوچھا۔
’’ بس کچھ نہیں۔ ‘‘وہ کچھ بتانا نہیں چاہتی تھی۔
’’ جلدی بتاو ورنہ میں امی سے کہوں وہ تمہیں ڈانٹ رہی ہیں۔‘‘ اس نے ایموشنل بلیک میل کیا۔
’’ عریشہ کے سسرال والے شادی چاہ رہے ہیں۔‘‘ اسے آخر بتانا پڑا۔
’’ کیوں!‘‘ وہ جو صوفے پر لیٹا تھا اٹھ بیٹھا۔
’’ کیا مطلب ‘ منگنی ہوئی ہے شادی تو ہو گی نا۔‘‘ اسے بھائی کا انداز کھٹکا۔
’’ سب تیار ہیں۔ ‘‘اس نے پھر پوچھا۔
’’ انکل تو تیار ہیں مگر پھپھو حق میں نہیں۔‘‘زرمش نے حالات بتائے۔
‘‘ ہونا بھی نہیں چاہیے اب کیا کریں گے۔‘‘ فہد نے مزید کریدا۔
’’ شاید عمار سے بات کریں پھر کچھ حتمی فیصلہ ہو گا۔ ‘‘
بہن کی بات پر کچھ سوچ کر اس کی آنکھیں چمکیں ۔ اگلے دن آفس سے آدھی چھٹی کرکے پھپھو کے گھر پہنچا۔
’’آؤ بیٹھو میں زرمش کو بلاتی ہوں۔‘ دعا سلام کے بعد انہوں نے ڈرائنگ روم میں لا کر کہا۔
’’ میں آپ سے ضروری بات کرنے آیا ہوں۔‘‘ وہ اس کی سنجیدگی دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔
’’ خیریت ۔‘‘ وہ بھی اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’ میں آپ سے عریشہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔ ‘‘ ان کے قریب ہوتے کہا ۔ سارے راستے وہ الفاظ ترتیب دیتے آیا تھا۔
’’ کیا کہہ رہے ہو اس کا رشتہ تو طے ہے۔ ‘‘ وہ چونک کر بولیں۔
’’ پھپھو عمار کہتا ہے کہ آپ مجھے اپنے بچوں سے زیادہ پیار کرتی ہی پلیز میری بات مان لیں۔ ‘‘وہ تو ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
’’ فہد بیٹا بات شادی تک پہنچی ہوئی ہے۔ ‘‘انہوں نے سمجھانا چاہا۔
’’ میں کسی اور کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتا۔ مجھے نہیں پتہ پہلی بار حق سے کچھ مانگ رہا ہوں آپ کو میری بات ماننی ہو گی۔‘‘ اس نے لاڈ سے ضد کر کے کہا۔
’’ مجھے ان سے بات کرنے دو۔ ‘‘انہوں نے شوہر کا حوالہ دیا۔
’’ کر لیں مگر میں ہفتے کو بات پکی کرنے کے لیے ابو جی کو لے کر آؤں گا ۔ ویسے بھی پھوپھا جی پر آپ کا پورا اختیار ہے ‘ نہ نہیں ہوگی۔‘‘ وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا۔
وہ تو پریشانی سے اس کا آنا اور جانا دیکھ کر رہ گئیں۔
’’ وعدہ کرتا ہوں پھوپھا جیسا شوہر بن کر ساری زندگی بیوی کی مٹھی میں رہوں گا۔‘‘ پاس آ کر پھلجھڑی چھوڑی اور ماتھا چوم کر چلا گیا ۔
ایسی حالت میں بھی ان کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
’’ آج تم اتنی جلدی آ گئے۔‘‘عالیہ بیگم نے فہد کے وقت سے پہلے آنے پر پوچھا۔
’’ ہاں بس ابو جی آ گئے۔ ‘‘ اس نے باپ کی بابت پوچھا۔
’’ ہاں وہ دوست کی عیادت کو اسپتال گئے تھے۔ ابھی آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
’’ میں ان کے پاس جا رہا ہوں۔ ‘‘ وہ کہہ ڈرائنگ روم میں آیا۔
’’ میں آج پھپھو کی طرف گیا تھا۔‘‘ ان کے پاس صوفے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ زرمش کیسی ہے اور رائمہ کا کیا حال ہے ۔ کافی دن سے میری بات نہیں ہو سکی۔‘‘ بہن اور بیٹی کے ایک گھر کی وجہ سے انہیں سہولت ہو گئی تھی۔
’’ سب ٹھیک ہیں ۔ بس میں نے پھپھو سے کہنے گیا تھا کہ عریشہ کے رشتہ کے لیے منع کر دیں۔ ‘‘سکون سے سامنے والوں کو بے سکون کیا۔
’’ کیا بکواس کی ہے۔ ‘‘وہ گھور کر بولے۔
’’ ابو وہ اس کے سسرال والے ابھی پڑھائی کے دوران شادی کا کہہ رہے ہیں ۔ پھپھو راضی نہیں تو میں نے کہہ دیا اس کی شادی مجھ سے کر دیں ۔‘‘ لاپرواہی سے سب دہرا دیا۔
’’ ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی۔‘‘ وہ کھڑے ہوتے دھاڑے۔ عالیہ بیگم نے بھی اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورا۔
’’ انہوں نے میرے رشتے سے اسی لیے منع کیا تھا ۔ اب وہ وجہ ختم ہو گئی ‘ ہفتے کو بات پکی کرنے چلتے ہیں۔‘‘ اپنی منوانی تھی تو تھوڑا بے عزت ہونا ہی تھا ۔ ویسے بھی ان کے اس جلال کا وہ بچپن سے عادی تھا۔
’’ مجھے لگا یہ بڑا ہو گیا ہے اور نوکری لگنے پر اس میں عقل آ گئی ہو گی مگر ابھی تک بے عقل ہے گدھا ناں ہو تو ۔‘‘کافی عرصے بعد یہ خطاب ملا تھا مگر اس بار ان کے منہ سے سن کر اسے خوشی ہوئی تھی۔
’’ ابو جی ایسے تو مت کہیں اب میری شادی ہونے والی ہے۔‘‘ جان بوجھ کر تھوڑا سا شرمایا۔
’’ دفعہ ہو جاؤ ۔ پتا نہیں وہ کیا سوچ رہی ہو گی بیٹھے بٹھائے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے سمجھاؤ اسے۔‘‘ بیٹے کو لتاڑ کر بیوی سے بولے۔
’’ بیٹیوں کے معاملے پہلے ہی بہت نازک ہوتے ہیں ‘ کل جا کر رائمہ سے بات کرتا ہوں۔‘‘ وہ کہہ کر کمرے میں چلے گئے۔
’’ یہ کیا حرکت ہے۔ ‘‘عالیہ نے لہجے میں خفگی لیے بیٹے سے پوچھا۔
’’ امی ابو کی خوشی اسی کو بہو بنانے میں ہے۔‘‘ اس نے اصل وجہ بتائی۔
’’ مگر میں نیناں کو بہو بنانا چاہتی تھی۔ ‘‘ ان کی بھی تو بھتیجی لینے کی خواہش تھی۔
’’ ہمارا مزاج نہیں ملتا ویسے بھی مامی اپنے خالہ زاد کی طرف کریں گے۔‘‘ اس نے اندازہ لگا لیا تھا۔
’’ حد ہو گی اب مفروضے مت قائم کرو۔‘‘ عالیہ بیگم نے نا پسندیدگی سے کہا۔
’’ امی پلیز میری خوشی بھی اس رشتے میں ہے ‘ مان جائیں اور نیناں خود فرید انکل کے بیٹے سمیر کو پسند کرتی ہے۔ ‘‘اس نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ تو کوئی اور سہی ایک رشتہ تو کر لیا دوسرے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ وہ ابھی بھی حق میں نہ تھیں۔
’’ ہم نے ہمیشہ آپ کی بات مانی ہے اب میری مان لیں آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘ان کے ہاتھ تھام کر لجاجت سے کہا۔
شوہر اور بچوں کے ایک طرف ہونے کے بعد اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ اسی لیے ان کی بات ماننی پڑی۔
٭…٭
’’ رائمہ کل والی بات پر پریشان ہو۔ ‘‘منصور صاحب نے پوچھا۔
’’ فہد آیا تھا۔ ‘‘انہوں نے شوہر کو بتایا۔
’’ زرمش سے ملنے۔‘‘ یہی اندازہ لگایا۔
’’ وہ عریشہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘انہوں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ تم کیا چاہتی ہو۔ ‘‘وہ گہرا سانس بھر کر بولے۔
’’ آپ اس کا رشتہ طے کر چکے ہیں۔ ‘‘انہوں نے یاد دلایا۔
’’ میں نے تمہارے کہنے پر صفدر کو انکار کیا تھا کیونکہ تم اپنے بھائی اور بھتیجے کے درمیان اختلاف نہیں چاہتی تھی ۔ ورنہ صابر سے ایسے بھی کوئی انسیت نہیں تھی خیر اس سے بھی معذرت کر لی ہے۔ ‘‘آخر میں انہوں نے آج کی بات بتائی۔
’’ کیسے۔‘‘رائمہ بیگم کو نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
’’ میں نے اس سے بھابھی کی آمد کی بابت ذکر کیا تو اس کا کہنا ہے وہ ابھی شادی کرنا چاہتے ہیں ‘ کچھ سننے کو تیار نہیں ۔ کچھ رویہ بھی مناسب نہیں تھا تو ایسے میں یہی بہتر ہے کہ فہد کی طرف کر لو بچے کی خوشی بھی ہے۔ ‘‘ساری بات بتا کر اس کی بھی حمایت کی۔
’’ مگر عالیہ بھابھی …‘‘ رائمہ بیگم نے ان کا بھی تو سوچنا تھا۔
’’ ایک بار مل کر بات کر لو ‘ اگر بھابھی جی راضی ہوں تو کر لیں گے۔ ‘‘ منصور صاحب نے مناسب مشورہ دیا۔
’’ مجھے سمجھنے اور میرا مان رکھنے کے لیے شکریہ۔‘‘ وہ خود کو خوش نصیب سمجھتی تھیں کہ انہیں منصور صاحب جیسے شوہر ملے ۔
’’ تم نے بھی تو ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے ۔ باجی کے رویے کو بررداشت کرکے ہمیشہ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
ایک دوسرے کا ساتھ کا ساتھ نبھا کر ہی انہوں نے خوشگوار زندگی گزاری تھی۔
٭…٭
اگلے دن ہی صفدر صاحب بہن کے گھر پہنچے منصور صاحب بھی موجود تھے ۔ عالیہ بیگم اور فہد بھی ساتھ تھے۔
’’ کیا صورتحال ہے۔‘‘ سلام دعا کے بعد انہوں نے پوچھا۔
’’ صفدر بس ہم عریشہ کا رشتہ ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ ‘‘منصور صاحب نے بتایا۔
’’ تو پھر فہد کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ میں اب بھی دست سوال ہوں اور اب تو خود کہہ رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے طریقے سے بات کی۔
’’ جیسا تم چاہو ‘ پہلے بھی تمہیں انکار کر کے اچھا نہیں لگا۔ ‘‘ منصور صاحب نے اب کی بار خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔
’’ چلو پھر ہفتے کے روز آ کر باقاعدگی سے بات کرلیتے ہیں ۔ شادی دو سال بعدکر لیں گے۔‘‘
صفدر صاحب نے سب طے کر لیا ۔ بھائی کے بڑے دل پر وہ مسکرا دیں ۔ دل میں جو ندامت تھی وہ ختم ہو گئی۔
٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے