محبتوں کی ڈور: ریم بخاری
جھٹ پٹ شادی کی تیاریاں ہو گئیں ۔ عریشہ نے ماں کو لاہور سے ساری شاپنگ کروائی ‘ باقی زرمش کے ساتھ جا کر لے لی ۔ تحائف وغیرہ کے لیے وہ نند کے ساتھ چلی گئیں۔
عالیہ بیگم بھی سب کچھ بھلا کر بیٹی کو بیاہنے کو تیار تھیں ۔ صفدر صاحب بہت خوش تھے آخر بہن کی رشتہ مضبوط ہونے جا رہا تھا ۔ مہندی کی رسم انہوں نے ایک ساتھ ہی کی ۔
حال میں دلہا دلہن کے لیے خوبصورت سٹیج سجایا گیا ۔ عمار سفید شلوار قمیض میں سٹیج پر بیٹھا تھا ۔ اس کے ساتھ ملٹی کلر کے لباس میں عریشہ بیٹھی تھی ۔ ہلکے میک اور جیولری میں وہ پہچانی نہیں جا رہی تھی ۔ رائمہ بیگم بھی نیلے لباس میں تیار ہو کر بہت نفیس لگ رہی تھیں ۔ زرمش کی کزنیں اسے دوپٹے تلے لے کر آئیں ۔ پیلے اور گلابی گوٹے والی فراک کے ساتھ اسی طرح کا بارڈر والا دوپٹہ تھا ۔ پھولوں کے زیور نے اسے اور حسین بنا دیا۔
ان کے آتے ہی سب کھڑے ہوگئے ۔ زرمش کو عمار کے ساتھ بٹھایا گیا ۔ گھبراہٹ اور حیا اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں رسمیں شروع ہوئیں ۔ زرمش کا سارا ننھیال موجود تھا ۔ اس کی خالہ بھی شرمندہ سی آ گئیں ۔ سب نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا ۔ زرمش کے ننھیالی کزنز نے ڈانس کرکے محفل جمائی جبکہ عمار کے چھوٹے بھائی حمزہ اور پھپھو کے چھوٹے بچوں نے ڈانس کیا ۔ دیر رات تک محفل جاری رہی۔
بارات کی تقریب بھی حال میں منعقد ہوئی ۔ عمار سیاہ شیروانی کے ساتھ کلہ پہنے گھروالوں اور دوستوں کے ساتھ اپنی دلہنیا کو بیاہنے پہنچا ۔ جس کا شاندار استقبال کیا گیا ۔ زرمش پر دلہناپے کا ٹوٹ کر روپ آیا تھا ۔ گولڈن اور سلور کام والے سرخ لہنگے میں بھاری جیولری پہنے وہ بے پناہ حسین لگ رہی تھی ۔ خوبصورتی سے کیے میک اپ نے خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ۔ نکاح کے بعد کھانا لگا ۔ عریشہ نے گلابی شرارہ پہن رکھا تھا جس پر سلور کام تھا ۔ بالوں کا سٹائل بنایا تھا ۔ ساتھ ہیوی میک تھا ۔آج وہ کل سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی تھی ۔ دلہے کی بہن تھی تو ہر رسم میں پیش پیش تھی ۔ رسموں کے دوران فہد کی نظر باپ پر پڑی تو اسے پیار سے نہار رہے تھے ۔ وہ سر ہلا کر رہ گیا ۔ عریشہ سے اس کے ماموں کو خاص انسیت تھی ۔ ہر بچے کا اپنا مقام ہوتا ہے ۔ وہ خوش تھے مگر عریشہ ان کی بہو بنتی تو وہ دوگنا خوش ہوتے ۔ فہد اب کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔ عریشہ کے ہونے والے سسرالی بھی مدعو تھے ۔
’’ بڑی بہن ہوں کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ‘‘ رخسانہ بیگم کے شکوے شکایتیں جاری تھیں۔
منصور صاحب اور رائمہ بیگم انہیں ٹھنڈا کرنے میں لگے تھے۔
’’ عمار کی ہمت ہے ایسی پھپھو کے ساتھ گزارہ کر رہا ہے ۔ اصل ویڈیوز تو اسے بنانی چاہیے تھیں۔ ‘‘فہد نے پہلی بار ان کا انداز دیکھ رہا تھا۔
’’ ہمیں رشتوں کی عزت کرنا آتا ہے۔‘‘ عریشہ نے اس کی بات سن کر تنک کر کہا۔
اسے اپنی پھپھو کے بارے میں ایسا سننا بالکل اچھا نہ لگا۔ فہد نے اس کی بات پر زبان دانتوں میں دبائی ۔ عریشہ اس کے انداز پر پھر سے بدزن ہو گئی۔
٭…٭
رخصتی وقت پر ہو گئی۔ زرمش روتی بلکتی ماں باپ کا آنگن چھوڑ گئی۔ رائمہ بیگم نے بہو کا اچھے سے استقبال کیا ۔ رسموں کے بعد کمرے میں پہنچایا گیا ۔ عمار ابھی باہر دوستوں کے ساتھ تھا ۔ زرمش کی نظر آئینے پر پڑی تو دیکھتی رہ گئی۔ اس نے فائنل لک کے بعد خود کو نہیں دیکھا تھا ۔ آئینہ دیکھ کر پاؤچ میں موبائل دیکھا جو عریشہ رکھ گئی تھی ۔ وہ نکال کر اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سیلفی بنانی چاہی۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر فون والا ہاتھ نیچے گرایا اور آنکھیں میچ لیں ۔ عمار سے اس کی بے تکلفی نہیں تھے ۔ رشتہ طے ہونے کے بعد بھی سامنا نہ ہو ا۔ تقریبات کے دوران اس سے ہلکی پھلکی ہی بات ہوئی تھی ۔ اب پتہ نہیں اس کا رویہ کیسا ہوتا ۔ ڈر تھا پچھلے واقعات کی وجہ سے کوئی تلخی نہ ہو۔
’’ یہاں کیا کر رہی ہو۔ ‘‘ عمار نے اسے کمرے کے وسط میں کھڑا دیکھ کر پوچھا ۔وہ حیا کے مارے کچھ بول ہی نہ پائی۔
’’ یہ لو اپنا تحفہ۔ ‘‘پاس آ کر اس نے دل کی شکل کی ڈبی میں سے انگوٹھی نکالی ۔ اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر وہ صورتحال سمجھ گیا۔
’’ ہاتھ دو۔‘‘اس نے ہاتھ آگے پھیلا کر کہا۔
اس کی جھکی پلکیں دیکھ کر خود ہی بایاں ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی پہنا دی ۔ مگر ہاتھ نا چھوڑا۔
’’ سیلفی لے رہی تھی۔ ‘‘عمار کے پوچھنے پر اس نے سر ہلا کر ہی جواب دیا۔
’’ چلو میں کچھ تصویریں بنا دوں۔‘‘
وہ جانتا تھا اس کی بیوی سیلفی کوئن ہے ۔ کبھی کبھار انسٹاگرام پر دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے موبائل لے کراس کی کچھ تصویریں بنائیں۔
’’ میرے ساتھ بنواؤں گی۔ ‘‘ اس نے پیشکش کی۔
’’ جی! ‘‘ اس نے اقرار کیا۔ زرمش خود بھی اس سے کہنا چاہتی تھی پر کہہ نا پائی۔
عمار نے اس کے ساتھ کھڑے ہو کر سیلفی پیاری سی بنائی۔
’’یہ تمہارے انسٹا کے لیے اب ہماری ذاتی تصویریں ہو جائیں۔ ‘‘ عمار نے کہہ کر اس کے ماتھے پر لب رکھے اور تصویر بنائی۔
پھر اسے حصار میں لیکر ایک اور تصویر بنائی۔ اس طرح مختلف زاویوں سے کچھ رومانوی تصویریں بنائیں۔ وہ خود ہی شرما کر رخ موڑ گئی۔
٭…٭
زرمش مکلاوے کی رسم کے بعد واپس سسرال آ گئی ۔ رائمہ بیگم شوہر اور عمار کے ساتھ بڑی نند کی طرف گئیں تھیں تاکہ اگر کوئی شکوے شکایتیں ہوں تو دور کر سکیں ۔ اسے بھی فہد کی بات سے اتفاق ہوا کہ روایتی پھپھو رخسانہ بیگم تھیں ۔ ان سے مل کر تو انہیں رائمہ بیگم سے شدید والی محبت ہو گئی۔
زرمش کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں آئی ۔ مگر وہاں کسی کو نہ پا کر عریشہ کے کمرے کی طرف بڑھی جہاں وہ کتابیں لیے بیٹھی تھی۔
’’ آ جاؤں ۔‘‘ اس نے دروازہ ہلکے سے بجا کر پوچھا۔
’’ ارے آئو ناں۔‘‘ عریشہ نے خوشدلی سے کہا۔
’’ معذرت تم اکیلی بیٹھی رہی ۔ شادی کے دنوں میں پڑھ نہیں پائی تو ریکور کر رہی تھی۔ ‘‘وہ اٹھ کر پاس آئی۔
’’ تمہیں کچھ چاہیے۔ ‘‘عریشہ نے کچھ سوچ کر پوچھا۔
’’ بس کمرے میں اکیلی تھی تو یہاں آ گئی۔ ‘‘اس نے دھیمے سے کہا ۔ اسے عریشہ سے اچھا تعلق بنانا تھا۔
’’ اچھا کیا چائے پیو گی۔‘‘ عریشہ نے پوچھا ۔ زرمش کے ہاں کہنے وہ دونوں کچن میں آگئیں اور اس نے چائے بنائی۔
’’ میرا تو چائے کے بغیر گزارہ نہیں۔‘‘ عریشہ نے کپ اس کے سامنے رکھتے کہا ۔
’’ میں زیادہ کافی لیتی ہوں۔‘‘ زرمش نے بتایا۔
’’ میں اپنے میڈیکل کی کتابوں کی اتنی شیدائی ہوں کہ انہی کی دنیا میں گم رہتی ہوں ۔ اکثر لوگ تو مغرور سمجھتے ہیں۔‘‘عریشہ نے اپنے بارے میں بننے والا عام تاثر بتایا۔
’’ میڈیکل میں پندرہ گولڈ میڈل لینا آسان تو نہیں۔‘‘ زرمش دل سے بولی۔
جب سے ذہن صاف ہوا تھا سوچنے کا نظریہ بھی بدل گیا۔ پھر کچھ دیر وہ باتوں میں لگی رہی۔
٭…٭
’’ بیگم آپ کو میرے ساتھ لاہور چلنا ہے یا یہیں رہنا ہے۔‘‘ عمار نے صوفے پر لیٹ کر لیپ ٹاپ چلاتے پوچھا ۔
وہ لاہور میں نوکری کرتا تھا اسی لیے اب زرمش کی رائے جاننا چاہتا تھا ۔ ان کی ولیمے کو بھی ہفتہ ہو گیا ۔ عریشہ تو واپس چلی گی البتہ چھوٹا حمزہ خوشی خوشی اس کے آگے پیچھے پھرتا ۔ وہ سب کے ساتھ بہت خوش تھی۔
’’ مطلب۔ ‘‘وہ فوری طور پر سمجھ نا سکی۔
’’ تم جانتی ہو کہ عریشہ کی وجہ سے میں لاہور رہتا ہوں ساتھ ایم ٹیک بھی کر رہا ہوں ۔ اب میری چھٹی ختم ہو رہی ہے تم میرے ساتھ جانا چاہو گی یا ساس سسر کے پاس رہو گی۔‘‘ اس نے واضح لفظوں میں پوچھا۔
’’ آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘ وہ اس کے پاس صوفے پر آ بیٹھی۔
’’ میں چاہتا ہوں میری بیگم میرے ساتھ جائے ‘ کچھ وقت ساتھ گزاریں گے ۔ پھر تو واپس یہیں آنا ہے۔‘‘ عمار نے اس کا ہاتھ تھام کر محبت سے کہا۔
’’ میں آپ کے ساتھ چلوں گی ۔ عریشہ کو بھی بلا لیں گے۔ ‘‘اس نے رضامندی دے دی۔
’’ اس کا تو مشکل ہے وہ پڑھائی کی شیدائی ہے ۔ سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی اسی لیے وہ ہاسٹل میں ہی رہے گی۔‘‘ وہ بہن کے مزاج سے واقف تھا۔
’’ پھر بھی گھر کا ماحول تو ملے گے۔ ‘‘زرمش بولی ۔ عمار کو اس کی بہن کی فکر کرنا اچھا لگا۔
’’ ایک تو اسے ہاسٹل میں بنا کسی ذمہ داری کے رہنا پسند ہے ‘ دوسرا اس کا کالج میرے آفس سے کافی دور ہے تو روزآنے جانے میں مشکل ہو گی۔ ‘‘ عمار نے بتایا۔
’’ ویک اینڈ پر تو آ سکتی ہے۔‘‘ وہ خود بھی اکیلا نہیں رہنا چاہتی تھی۔
’’ ہاں صرف ملنے آ سکتی ہے ‘ مگر کتابیں اپنے ساتھ لائے گی تو تمہیں صرف میرا ہی وقت ملے گا اور تمہارا سارا وقت مجھے۔‘‘ وہ اس کی بات پر ہنس دی۔ پھر کچھ اگلے دن وہ چلا گیا کیونکہ اسے رہائش کا انتظام کرنا تھا جس میں کچھ وقت تو لگتا۔
٭…٭
زرمش کا سب خیال رکھ رہے تھے مگر وہ عمار کو مس کرنے لگی ۔ کبھی کبھار عریشہ سے بات کر لیتی تھی ابھی بھی اس سے کال پر تھی۔
’’ میں نے سنا ہے تمہارے منگیتر صاحب پکے پکے باہر ہی سیٹل ہو رہے ہیں اور تمہیں بھی رخصت کروا کر وہیں لے جانے کا ارادہ ہے۔ ‘‘ اس نے ساس سے سنی بات دہرا دی۔
’’ امی نے ذکر تو کیا تھا۔ ‘‘عریشہ بھی واقف تھی۔
’’ تم تیار ہو۔‘‘اس نے اچنبھے سے پوچھا۔ وہ تو ماں باپ سے دور کبھی نہ رہے۔
’’ اعتراض تو نہیں بس گھر والوں سے دور جانے کی فکر ہے ۔ پھر انجان لوگ،انجان ماحول مشکل ہو گی۔‘‘اب رشتہ طے تھا تو وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
’’ اتنی دور اکیلی رہ لو گی۔ ‘‘ زرمش کو رشک ہوا۔
’’ اب رہنا تو پڑے گا اگر حالات صحیح رہے تو سپیشلائزیشن کی کوشش کروں گی۔ ‘‘ اس نے گہرا سانس بھر کر کہا۔
’’ یعنی اس میں بھی فائدہ ڈھونڈھ ہی لیا۔ ‘‘ زرمش کے کہنے پر وہ پھیکا کا مسکرا کر رہ گئی۔
پہلے پڑھائی کی وجہ سے گھروالوں سے دور تھی اب شادی کے بعد مزید دور ہو جاتی۔ وہ بھی گھر والوں سے محبت کرتی تھی مگر اظہار کرنا نہیں آتا تھا۔
٭…٭
فہد اب اکثر پھپھو کی طرف چکر لگاتا رہتا ہے ۔ اب بھی آیا تو وہ پھپھو کو بتا کر اس کے ساتھ میکے آ گئی ۔
’’ عریشہ کے سسرال والوں کی کیا خیر خبر ہے۔‘‘ عالیہ بیگم نے پوچھا۔
’’ آصف بھائی تو پکے باہر رہیں گے ‘ اسے بھی وہیں لے جائیں گے۔ ‘‘اس نے بتایا۔
’’ اتنی دور … بندا ذرا مڈل کلاس کا رشتہ دیکھ لے مگر بیٹی شادی پاس ہی کرے۔‘‘ انہوں نے سوچ کر ہی جھرجھری سی لی۔
’’ عریشہ کے کیا تاثرات ہیں۔‘‘فہد نے پوچھا۔
’’ وہ کیا کہے گی اب رشتہ طے ہے ۔ البتہ اسی بات پر خوش ہے کہ سپیشلائزیشن کا موقع جو ملے گا۔‘‘اس نے کہتے کندھے اچکائے۔
وہ ہنکارا بھر کر رہ گیا۔ دل میں کچھ کھونے کا افسوس جاگا۔
٭…٭
وہ لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے جب عریشہ کے سسرال والے آئے۔
’’ دراصل ہم چاہتے ہیں کی عریشہ اور آصف کی بھی شادی ہو جائے۔ ‘‘ حیدر کی والدہ نے خاطر مدارت کے بعد کہا۔
’’ یوں اچانک۔‘‘ رائمہ بیگم تو ان کی غیر متوقع بات پر حیران رہ گئیں۔
’’ دراصل آپ نے عمار بیٹے کی شادی اتنی جلدبازی میں رکھی ورنہ ہم ساتھ ہی کر لیتے۔ ‘‘ وہ کچھ مسکرا کر بولیں۔
’’ ابھی اس کی پڑھائی کے دو سال رہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے یاد دلایا۔
’’ دیکھیں آنٹی اب کتنا انتظار کریں آپ کا بیٹا چھوٹا ہے ‘ آپ بہو بھی لے آئیں ۔ ہمارا سب سے چھوٹا بھائی ہے اس کے لیے ہمارے بھی تو کچھ ارمان ہیں ۔ ‘‘آصف کی بڑی بہن نے کہا۔