ناولٹ

محبتوں کی ڈور: ریم بخاری

’’ تم نے وہ سب دکھا دیں۔‘‘وہ بے یقینی سے پوچھنے لگا۔
’’ہاں ۔‘‘ عمار نے بھنویں اچکاتے تصدیق کی۔
’’ کیوں۔‘‘ اسے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’ کیونکہ وہ میری بہن کو اپنے بھائی کی محبت میں تمہارے سر پر زبردستی لادنا چاہتی تھیں جبکہ بہن کی تباہی مجھے منظور نہیں تھی ۔ اسی لیے میں نے وہ کیا جو ایک بھائی کو کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اس نے وہ سب مجبوری میں کیا جس پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔
’’وہ سب مذاق تھا ٹرینڈنگ ویڈیوز تھیں۔‘‘ اس نے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’ تم اس میں موجود مواد کو خود سے منسلک کرتے تھے اسی لیے دوبارہ بناتے تھے۔ ‘‘عمارہ نے اس کا جواز رد کر دیا۔
’’ دیکھو فہد ہم دونوں ہم عمر کزنز ہیں جو ایک دوسرے کے سب سے اچھے دوست ہوتے ہیں ۔ مگر ہم دونوں تو سلام دعا کے روادا بھی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ ‘‘عمار نے دھیرے سے پوچھا۔
فہد تو کچھ بولنے کی حالت میں نے تھا۔
’’ یہ سب اس لیے ہے کہ بڑوں کی آپس کی ناپسندیدگی ہمارے درمیان حائل رہی ۔ کون غلط کون صحیح کی بحث میں نہیں پڑتے مگر ممانی نے تمہارے ذہنوں میں جو تصور امی کا اور ہمارا بنایا ہے تم اسی پر قائم ہو ۔ ممانی امی کی بھابھی ہیں ‘ اختلافات ہونا لازمی بات ہے مگر یہ اختلافات ہمارے ذہنوں پر حاوی ہیں ۔ یقین مانو ہماری سوچ سے کتابوں کے علاوہ کہیں جاتی نہیں ۔ دوستی صرف کلاس فیلوز تک محدود ہے ۔ اور باقی کزنز میرے جوڑ کے نہیں ۔ ہم پڑھائی اپنے شوق سے کرتے ہیں ۔ خدا کا کرم ہے کہ وہ پھل لاتی ہے مگر یہ تم پر یا کسی پرکوئی احسان نہیں ۔ نہ ہی ہم نے کبھی کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ ہاں ان سب میں ماموں کا ہمارا موازنہ کرنا غلط تھا میں مانتا ہوں مگر ہماری یا امی کی طرف سے کبھی ایسی کوئی دانستہ کوشش نہیں کی گئی۔ اب بھی امی نے ماموں کو اس لیے منع کیا کیوں کہ انہیں لگا تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو ۔ اس لیے بھائی کو مایوس کر دیا ۔ میری امی تم لوگوں سے سچ میں پیار کرتی ہیں۔‘‘ وہاں آئی زرمش نے بھی اس کی ساری باتیں سنی تھیں ۔ فہد کو خود پر شرمندگی ہونے لگی۔
’’ میری امی کے پاس ماموں کی صورت میں ایک ہی رشتہ ہے جسے وہ نبھانا چاہتی ہیں ۔ پھر بھی بہت کم آ پاتی ہیں ۔ کیا کبھی انہوں نے تم لوگوں کا حق کھایا ہے یا ہر وقت تمہارے سر پر سوار رہی ہیں ‘ جو تم لوگ اس قدر بیزار ہو۔ ‘‘اس کے سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
’’ کیا شادی اور بچوں کے بعد‘ بہن بھائی سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے؟ زرمش تمہاری اکلوتی بہن ہے ۔ تم اس سے محبت بھی کرتے ہو اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو مگر شادی کے بعد یہ تم سے ملنے آئے یا اپنی خوشی بچوں کی کامیابی بانٹے تو تمہاری بیوی کو اس میں کیا مسئلہ ہے ۔ کیا شادی کے بعد یہ تمہاری بہن نہیں رہے گی یا بھائی پر حق ختم ہو جاتا ہے ۔ مانا کے بیوی بچوں کے حقوق ہوتے ہیں مگر بہن بھائیوں کو بھلا نہیں دینا چاہیے۔ ‘‘ اس نے مثال دے کر سمجھایا ۔ ایسے ہی تو وہ تقریری مقابلے نہیں جیتتا تھا۔
’’ معذرت اگر کوئی بات بری لگی ہو ۔ امی ماموں کے کمرے میں ہیں۔ ‘‘فہد سے کہہ کر اس نے زرمش سے پوچھا۔
’’ جی! ‘‘وہ سر ہلا گئی ۔ آج جیسے دھند سی ہٹ گئی تھی۔
رائمہ بیگم نے جاتے ہوئے انہیں محبت سے گلے لگایا ۔ فہد تو ان سے آنکھیں بھی نہ ملا پایا ۔ دل کیا زمین میں دھنس جائے بیشک اس نے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالیں تھیں مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ پھپھو دیکھ لیں گی ۔ دو تین دن بہت ندامت میں گزرے ۔ وہ لوگ باپ کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگے تو وہ خوش ہو گئے ۔
’’ ابھی تک پریشان ہو۔ ‘‘زرمش نے پاس آتے پوچھا۔
’’ بہت شرمندگی محسوس کر رہا ہوں ‘ دل چاہتا ہے جادو کی چھڑی ہو اور میں سب پہلے جیسا کر دوں۔ ‘‘وہ بھی اس انداز پر شرمندہ ہو گئی۔ اسی کی ذہنیت بھی ایسی تھی۔
’’ پتہ نہیں مائیں اپنی رنجشیں بچوں میں کیوں ڈالتی ہیں۔ ‘‘زرمش نے کچھ توقف سے کہا ۔ انہیں اپنی ماں کی خفگی ناراضگی سب یاد آ رہی تھیں۔
’’ اب میں کیسے ان کا سامنا کروں گا۔‘‘اسے بہت فکر تھی۔
’’ شاید اس کی ضرورت ہی نہ پیش آئے ۔مجھے نہیں لگتا اب سب ٹھیک ہو پائے گا۔ ‘‘زرمش کو حالات سے اندازہ ہو گیا۔
’’ دل چاہتا ہے کہ پھپھو سے معافی مانگ لوں مگر رو برو یہ سب دہرانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی۔ ‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔
٭…٭
پھر اگلے دو سال میں ان کے بیچ میں مزید دوری آ گئی ۔ صفدر صاحب بہن سے کھنچ سے گئے۔ بس کبھی کبھار فون پر رابطہ تھا یا عیدین پر چکر لگاتے ۔ وہ شروع سے عریشہ کو بیٹی بنانا چاہتے تھے ۔ کئی بار کہا بھی تھا پھر بھی انہوں نے اس کا رشتہ آگے کر دیا ۔ جس کی انہیں قطعی امید نہیں تھی ۔ عزیز تو عمار بھی تھا مگر زرمش کے لیے وہ زبردستی نہیں کر سکتے تھے۔ عریشہ کا ففتھ سمسٹر ہو گیا تھا جبکہ عمار کا بی ٹیک انجنیئر نگ مکمل ہو گیا ۔ فی الحال وہ لاہور میں ہی نوکری کررہا تھا ۔ اس دوران فہد نے بھی پڑھائی میں جی جان لگا کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری حاصل کر لی ۔ زرمش نے بھی شوقیہ ٹیچنگ شروع کی تھی مگر دل و دماغ تو عمار میں اٹک گیا ۔ وہ چاہ کر بھی اس کا خیال جھٹک نہیں سکتی تھی ۔ اور ایک ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اس دن کے بعد ان کا آمنا سامنا نہ ہوا۔
انہی دنوں عالیہ بیگم نے زرمش کا نکاح بہن کی طرف طے کر دیا ۔ رائمہ بیگم جو زرمش کے رشتے کے لیے بھائی کی طرف جانا چاہتی تھیں ‘ رشتے کی مٹھائی آنے پر خاموش ہو گئیں۔
صفدر صاحب نے تو کوئی اعتراض نہ اٹھایا البتہ زرمش اور فہد دل سے راضی نہیں تھے ۔ ایک تو وہ زرمش سے چار سال بڑا تھا اسی لیے ہم آہنگی نہ تھی ‘ دوسرا پچھلے کچھ عرصے رویے میں تبدیلی تھی ۔ فہد نے ڈھکے چھپکے لفظوں میں ماں کو انکار کیا مگر انہوں نے ان کا اعتراض ہوا میں اڑا دیا۔
دوسری طرف ان کے بھانجے کی بھی مرضی نہیں تھی ۔ ان کی بہن زبردستی نکاح کروا رہی تھیں ۔ وہ اپنی ایک کولیگ کو پسند کرتا تھا ۔ اسی لیے ماں نے جھٹ پٹ نکاح رکھ دیا مگر اس نے موقع ملتے ہی اسی لڑکی سے کورٹ میرج کر لی ۔ اسی لیے نکاح کی تاریخ سے کچھ دن پہلے ہی انکار ہو گیا اور وہ سب پریشانی کا شکار ہوگئے ۔ آس پاس اور قریبی رشتہ داروں میں مٹھائی بانٹی جا چکی تھی ۔ عالیہ بیگم تو بہن اور بھانجے سے خفا ہوئے بیٹھی تھیں ۔ رائمہ بیگم کو کسی نے اس نکاح کی اطلاع دی تو وہ بھائی کے گھر پہنچیں اور بھائی بھابھی کو تسلی دی۔
’’ بس ہماری جلدبازی نے بچی کا نقصان کر دیا ۔ عالیہ نے تو سوچنے سمجھنے کا وقت بھی نہ دیا۔‘‘ صفدر صاحب افسردگی سے بولے ۔ وہ بیوی سے کچھ خائف تھے۔
’’ بھائی سب ماں باپ اولاد کا بھلا چاہتے ہیں ۔ بھابھی کا بھی یہی ارادہ تھا ‘ باقی سب تو قسمت کا کھیل ہے۔‘‘ انہوں نے بھابھی کی حمایت کی ۔
زرمش اور فہد کو اپنی سوچ پر پھر سے تاسف ہوا۔
’’ دنیا کہاں یہ سب سوچتی ہے وہ تو باتیں سنانے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے۔ ‘‘ وہ اپنی بیٹی کو الزام تراشی کی زد میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔
’’ ہم کسی کی باتیں کیوں سنیں ۔ آپ کہیے گا کہ میری ضد تھی ‘ اسی لیے میں نے رشتہ ختم کر دیا بلکہ اسی تاریخ پر زرمش کو اپنی بہو بناؤں گی۔‘‘ پھر سے بھتیجی کے لیے سوال کیا تو سب حامی تھے ۔ زرمش کی تو جیسے مراد بر آئی۔
’’ عالیہ اب کیا کہتی ہو ۔‘‘ انہوں نے بیوی سے پوچھا۔
’’ جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ اب ان کے پاس بولنے کو کچھ نہ تھا۔
اسی تاریخ پر نکاح رکھا گیا اس بار کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ منصور صاحب بھی اس فیصلے پر خوش تھے۔
٭…٭
زرمش کمرے میں کھڑی بدلتے حالت کو سوچ رہی تھی ۔ وہ تو بالکل مایوس ہو چکی تھی مگر ایک دم ہوا کا رخ اس کی طرف ہو گیا ۔ وہ جتنا شکر ادا کرتی کم تھا ۔ پھر عمار کا سوچتی تو فکرمند ہوتی ۔ پتہ نہیں اس کا ردعمل کیسا ہونا تھا۔
’’ تم خوش ہو ۔‘‘ فہد نے بہن سے پوچھا۔
’’ مطمئن ہوں۔ ‘‘وہ کہہ کر خاموش ہوئی
’’ مطلب۔ ‘‘فہد واقع ہی سمجھ نہ سکا۔
’’ حیدر بھائی کے مزاج کی وجہ سے کچھ وسوسے تھے مگر اب نہیں ہیں پھر ابو جی بھی کچھ پریشان تھے۔ ‘‘ وہ بھی اس کا بدلتا رخ دیکھ کر سمجھ گئی تھی۔
’’ ہم عمار کو بھی تو اچھے سے نہیں جانتے ‘ چار سال میں تو ایک دو بار تو شکل دیکھی ہے۔‘‘ بات اس کی بھی ٹھیک تھی۔
’’ پچھلی دفعہ جس سمجھداری سے اس نے ہماری سوچ بدلی تھی ۔ اس کے بعد تو کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے رشتوں میں مخلص ہے۔‘‘ زرمش نے کہا۔
’’ مگر ان کا رویہ کیسا ہو گا۔ جو سب ہم نے ان کے ساتھ کیا ہے مجھے نہیں لگتا وہ اس رشتے پرراضی ہو گا۔ ‘‘ اس نے ایک اور نقطہ اٹھایا۔
’’ پھپھو نے اگر یہ فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہے اور اگر راضی نہ بھی ہوا تو پھپھو اسے راضی کر کے رہیں گی۔ ‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
پھر کچھ سوچ کر ہنسنے لگا۔
’’ کیا ہوا۔ ‘‘زرمش اسے کے بنا بات ہنسنے پر حیران ہوئی۔
’’ کبھی سوچا نہیں تھا جس کتابی کیڑے سے اتنا چڑیں گے اسی سے تمہاری شادی ہوگی اور وہ میرا بہنوئی بن جاے گا ۔ اب اس کی بھی عزت کرنی پڑے گی۔ ‘‘ اس کی بات سن کر وہ بھی ہنس دی۔
’’ اب اس نے ہمیں اتنا تنگ کیا ہے ۔ اسی کی وجہ سے ہم نے بابا سے اتنی ڈانٹ کھائی ہے اس کا بدلہ تو ضرور لیں گے۔‘‘ وہ مسکراہٹ دباتے رخ موڑ گئی۔
٭…٭
’’ امی سب ٹھیک تھا۔‘‘ عریشہ نے ان سے کال پر پوچھا ۔ اسے معلوم تھا کہ امی ماموں کی طرف گئی تھیں۔
’’ ہاں میں نے اسی تاریخ پر عمار اور زرمش کا نکاح طے کر دیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے جیسے ان کے سروں پر دھماکہ کیا۔
’’ اچانک امی ۔‘‘ عمار فوراً بولا۔ وہ بھی کانفرنس کال کے ذریعے سن رہا تھا۔
’’ تمہیں اس فیصلے پر کوئی اعتراض ہے۔ ‘‘ انہوں نے سخت لہجے میں سیدھا پوچھا۔
’’ نہیں اعتراض کی کیا بات ہے۔ ‘‘اس نے فوراً کہا۔
’’وہ سب مان گئے۔‘‘ عریشہ کچھ بے یقینی کا شکار تھی۔
’’ ہاں میں نے منا لیا۔‘‘ وہ بھائی سے رشتہ ہونے پر خوش تھیں۔
’’ اب کل سے مجھے خریداری شروع کرنی ہے تم دونوں وقت نکال کر آ جاؤ۔‘‘ اکیلے ان سے سارا کام نہیں سنبھالا جانا تھا۔
’’ امی میرا آنا تو مشکل ہے۔‘‘ عریشہ نے ہاتھ کھڑے کیے۔
’’ تمہارا تو یہی مسئلہ ہے اب میں اکیلے خریداری کیسے کروں گی۔ ‘‘انہیں فکر ہوئی۔
’’ حمزہ تو ہے ناں یا آپ پھوپھو کو کہہ دیں۔ ‘‘ اس نے مشورہ دیا۔
’’ ابھی تو ان کو منانا ایک مشکل کام ہے۔‘‘ وہ نند کے ذکر پر گہری سانس بھر کر بولیں۔
’’ عمار تم کب آؤ گے۔‘‘ بیٹی کے بعد بیٹے سے پوچھا۔
’’ امی ایک ہفتہ پہلے آؤں گا زیادہ بڑی چھٹی نہیں ملے گی۔ ‘‘ اس نے بھی جواب دے دیا۔
’’ اب نت نئے زمانے کی چیزوں کا مجھے کیا پتہ۔ ‘‘انہیں نئی فکر لگ گئی ۔
’’ امی میں تو خود اپنی خریداری بھی نہیں کرتی الٹا میری چیزیں بھی تو آپ ہی خریدتی ہیں۔ ‘‘عریشہ نے مسکا لگایا۔
’’ چلیں آپ زرمش کو ساتھ لے کر شاپنگ کر لیں۔‘‘ عمار نے خود ہی حل بتا دیا۔
’’ بات تو صحیح ہے ۔ عمار تم شادی سے پہلے ہر ہفتے آ جایا کرو کافی کام ہے ۔ عریشہ شادی سے ایک ہفتہ پہلے آجاؤ اتنے دن میں کچھ نہیں ہوتا ۔ اور ہاں اس ہفتے اپنی ساری چیزیں خرید لو میرے پاس وقت نہیں ہو گا۔‘‘ رائمہ بیگم نے اسے کورا جواب دے دیا۔
’’ ارے واہ بہو آئی نہیں اور مجھے ابھی سے جواب مل گیا۔‘‘وہ جھوٹ موٹ شکوہ کرنے لگی۔
’’ اچھا میں ذرا جیولر کے پاس جانے کے لیے سیٹ نکال لائوں ۔ بعد میں بات کرتی ہوں ‘ کام بہت ہے ۔ ‘‘ انہوں نے کال کاٹ دی ۔ وہ تو ابھی بارات لے جانے کو تیار تھیں۔
’’ دیکھو تمہارا اندازہ غلط نکلا … ہاں ہو گئی۔ ‘‘عریشہ نے بھائی کو پرانی بات یاد لائی ۔ اب وہ ڈائریکٹ کال پر تھے۔
’’ امی کے سامنے کچھ نہ کہنا دل برا ہوگا۔ ‘‘عمار نے اسے منع کیا۔
’[ نہیں مجھے کیا ضرورت ہے پرائی آگ میں کودنے کی۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
’’ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔‘‘عمار کی مسلسل خاموشی پر اس نے پوچھا۔
’’ سوچ رہا ہو زندگی مسلسل جنگ میں گزرنے والی ہے ‘ کچھ ہتھیار چلانے سیکھ لوں۔‘‘اس نے شرارت کی۔
’’ بھائی شادی اتنی بھی مشکل نہیں ہے بس تھوڑی جی حضوری اور جی بیگم کہنا سیکھ لیں مزے میں رہیں گے۔‘‘ اس نے بھی شرارت میں ساتھ دیا۔
٭…٭
’’ السلام و علیکم پھپھو ۔‘‘وہ دروازہ کھلنے پر بولا۔
’’ وعلیکم السلام! آئو فہد کیسے آنا ہوا۔‘‘ وہ اسے دروازے میں دیکھ کر بولیں۔
’’ پھپھو مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ کچھ جھجک کر کہا۔
’’ کیا ہوا آو بیٹھو۔‘‘ وہ پریشان ہوتی اسے لیے اپنے کمرے میں آ گئیں۔
’’ مجھے آپ سے معافی مانگنی ہیں‘ سب باتوں کے لیے جس نے آپ کو تکلیف دی ۔ ‘‘ وہ ندامت سے بولا ۔ آج بہت مشکل سے ہمت کرکے آیا تھا۔
’’ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے نہ ہی میں تم سے ناراض ہوں ۔‘‘ انہوں نے کمر تھپتھپاتے کہا۔
’’ میں نے آپ کو شروع سے غلط سمجھا۔‘‘فہد آج سب کہنا چاہتا تھا۔
’’ بچنے میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔‘‘وہ سب بھول چکی تھیں۔
’’ ان ویڈیوز کے لیے بھی قسم سے میں صرف ٹک ٹاک کے لیے ایکٹنگ کرتا تھا۔ ‘‘ نگاہیں جھکائے بولا۔
’’ مجھے پتہ ہے وہ تو سب ٹرینڈنگ تھیں۔ ‘‘انہوں نے مسکرا کر کہا۔
’’ آپ کو پتہ ہے۔ ‘‘انہیں ان کے جاننے پر حیرت ہوئی۔
’’ اتنی بھی بدھو نہیں ۔ اپنا حمزہ دیکھتا ہے تو نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ اب اس کے بڑے بہن بھائی دور ہیں تو میں اس کی دوست بن گئی۔‘‘انہوں نے خود کو ہر روپ میں بہترین بنایا تھا۔
’’ آپ ناراض تو نہیں۔ ‘‘ انہیں شک سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ بالکل بھی نہیں تمہارے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ ان سے بات کرکے وہ ہلکا پھلکا ہو گیا۔
٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے