ناولٹ

محبتوں کی ڈور: ریم بخاری

’’ بھائی جان عریشہ اور عمار نے لاہور جانا ہے تو اسی کی تیاریوں میں لگ ہیں۔‘‘ وہ اب اپنے بچوں کی کوئی کامیابی نہیں بتاتی تھیں۔
’’ کال تو کر سکتی تھی اور عمار کیوں لاہور جا رہا ہے۔ ‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’ عریشہ کے ابو اس کے اکیلے لاہور جانے پر پریشان تھے تو عمار نے بھی یو ای ٹی میں بی ٹیک میں داخلہ لے لیا ہے۔‘‘ وہ اپنے بچوں کی کامیابی کا ذکر بالکل دھیمے انداز میں کر رہی تھیں۔
’’ میڈیکل میں داخلہ ہو گیا۔ ‘‘ عالیہ بیگم کلستی ہوئی بڑبڑا کررہ گئیں پانسہ جو پلٹ گیا۔ گھر آ کر بھی تلملاتی رہیں۔
٭…٭
وقت مزید دو سال آگے بڑھ گیا ۔ رائمہ کبھی کبھار بھائی سے مل آتیں یا بھائی خود ہی ملنے آجاتے ۔ اب وہ ان کے گھر والوں کے سامنے اپنے بچوں کا ذکر کم ہی کرتیں ۔ فہد اور زرمش بھی پڑھائی میں کچھ سنجیدہ ہوگئے ۔ عریشہ کے لیے منصور صاحب کے دوست نے اپنے بیٹے کا رشتہ دیا جو ڈاکٹر تھا اور مزید سپیشلائزیشن کے لیے باہر جا رہا تھا ۔ اسے تین چار سال لگنے تھے تب تک عریشہ کا ایم بی بی ایس بھی مکمل ہو جاتا ۔ اسی لیے انہیں یہ رشتہ مناسب لگا اور بھائی سے بیٹی کے رشتے کے متعلق صلاح لی ۔ اس وقت تو وہ خاموش ہوگئے مگر گھر آ کر بیوی سے ذکر کیا جنہوں نے صاف منع کر دیا۔
’’ کیوں عریشہ میں کیا خرابی ہے۔ ‘‘ وہ تنک کر بولے۔
’’ وہ ابھی پڑھ رہی ہے اور فہد کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔‘‘ مناسب جواز دیا۔
’’ میں کون ساابھی شادی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ انہیں ابرو اچکا کر کہا۔
’’ رشتہ طے کرنے کی بھی ضرورت نہیں ویسے بھی ڈاکٹر لڑکیاں گھر والوں کو وقت نہیں دے سکتیں۔‘‘ انہوں نے مزید بہانہ بنایا۔
وہ اپنی بھتیجی کا رشتہ لینا چاہتی تھیں مگر ابھی کہہ کر شوہر کو ناراض نہیں کر سکتی تھیں۔
’’یہ فرسودہ سوچ ہے اور ویسے بھی ہمیں بہو لانی ہے ‘ نوکرانی نہیں۔ ‘‘ بیوی کی بات انہیں ناگوار گزری۔
’’ پھر بھی ہمارا ایک ہی بیٹا ہے ۔ اسی کی بیوی نے گھر سنبھالنا ہو گا اور ویسے بھی شاید فہد رضامند نہ ہو۔‘‘ عالیہ بیگم نے بیٹے کو آگے کیا۔
’’ اس سے تو میں خود بات کرتا ہوں ۔ آئے تو مجھے بتانا۔ ‘‘شوہر کی بات پر عالیہ بیگم بیٹے کا انتظار کرنے لگیں تاکہ اسے سمجھا سکیں۔
فہد شام میں گھر آیا تو انہوں نے باپ سے سامنے جانے کے لیے تیار کیا۔
’’ جی ابو آپ نے بلایا۔ ‘‘ ان کے سامنے پہنچ کر وہ بولا۔
’’ میں تمہاری شادی عریشہ سے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے سیدھا حکم سنایا۔
’’ ابو جی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ ماں کا سکھایا سبق دہرا دیا۔
’’ میں ابھی تمہاری شادی نہیں کر رہا صرف بات طے پکی کروں گا۔‘‘وہ مزید بولے۔
’’ابھی میری پڑھائی مکمل نہیں ہوئی ۔ جب تک میں اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو جاؤں منگنی بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ اس نے نگاہیں جھکائے جواب دیا۔
’’ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتے یا میری بھانجی سے نہیں کرنا چاہتے۔ ‘‘ بیوی پر نگاہ ڈالتے دانت کچکچا کر بولے۔
’’ ابو جی ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ان کی ناراضگی کے ڈر سے فہد نے لجاجت سے کہا۔
’’ کل میں رائمہ کے گھر رشتہ مانگنے جا رہا ہوں ‘ تمہیں اگر کوئی اعتراض ہے تو گھر سے نکل جاؤ۔‘‘ انہوں نے سختی سے کہا۔
وہ سب ان کی بات پر پریشان ہو گئے۔ رائمہ بیگم اور ان کے بچوں سے بدگمانی مزید بڑھ گئی۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ عالیہ شوہر کی بات پر بولیں۔
’’ جب میرا بیٹا میری بات ہی نہیں مان سکتا تو مجھے نا فرمان اولاد کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ کچھ زیادہ سختی کر رہے تھے جس کی وجہ سے بچے نالاں رہتے تھے۔
اب بھی ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ وہ چاہ کر باپ کی بات کے خلاف نہیں جا سکتے تھے مگر رائمہ اور ان کے بچوں سے مزید دل برا ہوا۔
٭…٭
اگلے دن چاروناچار انہیں رشتے کے لیے جانا پڑا ۔ زرمش بھی ماں باپ کے ساتھ تھی۔ فہد ساتھ نہ گیا ۔ انہوں نے منصور صاحب سے آنے کا مدعا بیان کیا ۔ رائمہ بیگم کبھی شوہر تو کبھی بھائی کو دیکھتیں۔
’’صفدر اگر تم پہلے کہتے تو مجھے اعتراض نہ ہوتا مگر میں نے انہیں ہاں کہہ دی۔‘‘ وہ سچ کہہ رہے تھی ۔
’’ میں کب سے ‘ تم سے کہہ رہا تھا تم نے کیسے آگے بات کر لی۔‘‘ وہ پہلی بار بہن سے خفا ہوئے ۔ عالیہ بیگم کی تو دلی خواہش پوری ہو گئی مگر زرمش کو باپ کی افسردگی اچھی نہ لگی۔
’’ منصور نے خود ہی ہاں کہہ دی۔ ‘‘وہ کہہ نہ سکیں کہ مزید بھائی اور بھتیجے کے درمیان اختلاف کی وجہ نہیں بن سکتی۔
’’ میری کتنی خواہش تھی تم سے رشتہ جوڑنے کی ۔ ہمیشہ عریشہ کو اپنی بیٹی کے روپ میں دیکھا تھا۔‘‘ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔
’’ پریشان کیوں ہو رہے ہو ہمارا بیٹا بھی تو ہے ہم زرمش کو اس کے لیے مانگ لیتے ہیں ۔ ہمارا رشتہ مزید گہرا ہو جائے گا۔‘‘ منصور صاحب نے ایک اور تجویز پیش کی۔
ان کی بات پر صفدر صاحب کچھ خاموش ہو گئے۔
’’ جلد ہم خود زرمش کا ہاتھ مانگنے آئیں گے ۔‘‘منصور نے بات مزید پکی کی۔
رائمہ نے جس بات کی وجہ بیٹی کا رشتہ باہر کیا وہ پھر بھی سامنے آ گئی۔ پتہ نہیں اب بھابھی اور بچوں کا کیا ردعمل ہونا تھا۔
٭…٭
وہ شام کے وقت واپس آئے ۔ فہد گھر پر ہی تھا انہیں حیرانی سے دیکھنے لگا۔ سب کے چہرے پر پریشانی تھی اگر رشتہ ہو جاتا تو صفدر صاحب خوش ہو جاتے ‘ مگر سب ہی خاموش تھے۔ اس نے پانی لا کر باپ کو پلایا مگر کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
’’ آپ کے کہنے پر رائمہ کے گھر فہد کا رشتہ لے کر گئی مگر اب آپ کو میری ماننی ہو گی۔‘‘ عالیہ بیگم کی برداشت یہیں تک تھی۔
’’ ابھی خاموش رہو۔‘‘ وہ فی الحال کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
’’ کیوں خاموش رہوں ‘ آپ نے اپنی بہن کے گھر جا کر سوال کیا تو انہوں نے خالی ہاتھ لوٹا دیا ۔ مگر اب میں زرمش کا رشتہ اپنی بہن کی طرف کروں گی۔ ‘‘ انہوں نے حالات کو اپنے حق میں کیا ۔ ان کی بات پر فہد چونکا ۔ انکار کا تو سوچا بھی نہیں تھا ان کا خیال تھا کہ جاتے ہی ہاں ہو جائے گی۔
’’ اس وقت میں کوئی بات کرنے کی حالت میں نہیں ہوں۔‘‘ انہوں نے واضح کہا۔
’’ اب ایسے ہی کہیں گے ۔ ساری زندگی بہن، بہن کرتے رہے اور اس نے موٹی آسامی دیکھتے ہی پارٹی بدل لی ۔ ارے کبھی ایسا ہوا ہے اس کو بتائے بغیر منصور بھائی نے کہیں ہاں کر دی ہو۔ ‘‘ آج ہی تو انہیں بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تھا۔
’’ تم کبھی مجھے سمجھ ہی نہیں سکی بلکہ تم تو خود بھی اس رشتے پر راضی نہیں تھی اب شکر مناؤ۔ ‘‘وہ بیوی سے الجھے۔
’’ ضرور مناتی اگر میری بیٹی کا نام نہ لیتے ۔ جو بھی ہو اپنی بیٹی کا رشتہ تو ڈاکٹر کر دیا ۔ میری بیٹی فالتو ہے جو ویلے سے بیاہوں ۔ کل کو پڑھائی پوری کرے یا نہ کرے نوکری کا کیا بھروسہ انجینئر تو ایسے ہی پھرتے ہیں۔‘‘ وہ کسی صورت چپ نہیں ہونے والی تھیں ۔ دونوں بچے ماں باپ کو لڑتے دیکھ رہے تھے۔
’’ ابو جی ہم نے آپ کی بات مانی اب آپ کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘فہد نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ ان کی جلی کٹی پر اٹھ کر چلے گئے۔
’’ امی ابو کو ایسے مت کہیں وہ پہلے پریشان ہیں۔ ‘‘ زرمش نے باپ کی حالت دیکھتے کہا۔
’’ میں نے تو نہیں کیا ‘ بہن نے کیا ہے۔‘‘ انہوں نے ناک سے مکھی اڑائی۔
’’ ہوا کیا۔‘‘ فہد کے پوچھنے انہوں نے نمک مرچ لگا کر سنائی۔
’’ پھپھو نے اگر باہر رشتہ کرنا تھا تو ابو کو کیوں الجھائے رکھا۔‘‘ فہد کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی۔
٭…٭
’’ تمہیں اس رشتے پر اعتراض نہیں ۔‘‘ عریشہ نے فون پر پوچھا۔
’’ ہو گا تو‘ اعتراض ہو گا ناں۔ ‘‘ عمار مطمئن تھا۔
’’ تمہیں ایسے کیوں لگتا ہے۔‘‘ عریشہ کو اس کے اطمینان پر حیرت ہوئی۔
’’ میں ان کی سوچ کو اچھے سے پرکھ چکا ہوں انکار ہی کریں گے ۔‘‘ اس نے پھر پر یقین انداز میں کہا۔
’’ اگر ماموں نے سب کو منا لیا تو ۔‘‘ عریشہ نے نئی صورتحال پیش کی۔
’’ پہلی بات ماموں بیٹی پر زبردستی نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر امی کی خوشی کے لیے یہ فیصلہ کر لوں گا ۔ ‘‘ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ کوئی غلط حرکت نہیں کر سکتا تھا۔
’’ زرمش ہمارے گھر آئے گی تو گھل مل جائے گی۔ ‘‘ اس نے بھائی کو تسلی دی۔
’’ مجھے نہیں لگتا ۔ مامی ان میں اس قدر کدورت بھر چکی ہیں کہ انہیں ہماری محبت نظر نہیں آئے گی۔ اس صورت میں مجھے اپنا مستقبل ماموں کی طرح نظر آ رہا ہے۔ ‘‘ عمار نے سچا مگر تلخ تجزیہ کیا۔
’’ اللہ سے اچھا گمان رکھو سب ٹھیک ہو گا۔‘‘ اس نے دعا دی۔
’’ ان شاء اللہ۔ ‘‘ وہ بھی یہی کہہ سکا۔
٭…٭
صفدر صاحب کی طبیعت کچھ نا ساز ہو گی۔ رائمہ ان کی طبیعت پوچھنے آئیں ۔ عمار کو کہیں پہنچنا تھا اسی لیے انہیں چھوڑ کر چلا گیا ۔ رائمہ بھائی سے ملیں ‘ باقی سب کا رویہ حسبِ روقع کھنچا ہوا تھا ۔ وہ کچھ دیر بھائی کے پاس بیٹھی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد عمار انہیں لینے آیا تو فہد موجود تھا۔
’’ کیسے ہو۔‘‘ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
’’ تم لوگوں کی کرم نوازیوں کی وجہ سے کیسے ہو سکتے ہیں۔‘‘ ہاتھ ملاتے طنز کیا اسے دیکھتے تیوری بھی چڑھی ہوئی تھی۔
’’ تم ہماری طرف سے بدگمان ہی رہنا۔‘‘ اس نے اعتماد سے کہا۔
’’ تو کیا یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے نہیں ہوا ۔ ابو کی طبیعت تمہاری طرف سے انکار کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘‘ باپ سے محبت تو انہیں بھی تھی۔
’’ کیا تم رشتے کے لیے راضی تھے۔‘‘عمار نے سیدھا سوال کیا۔
’’ میرے ابو خوش تھے۔ ‘‘ اس نے کچھ دھیما پڑتے کہا۔
’’ ماموں نے تم پر زبردستی کی تھی ‘ جس کا خمیازہ مامی اور تم بہن بھائی کی ناراضگی کی صورت میں میری بہن کو بھگتنا پڑتا ۔ ‘‘ اس کا آج کسی قسم مروت نبھانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
’’ اب تم بات گھماؤ مت پہلے پھپھو نے ابو جی کو لارے لگائے پھر جب تم لوگوں کا اچھا مستقبل نظر آیا تو ارادہ بدل لیا۔‘‘ وہ بھی کھل کر بولا۔
’’ میری ماں تم لوگوں سے کتنی محبت کرتی ہے ‘ تم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے اور اپنے بھائی کی خواہش وہ جی جان سے پوری کرتیں کیوں کہ انہیں تم سے عزیز کوئی بھی نہیں ‘ اپنی بیٹی بھی نہیں ۔ وہ تو اپنی بیٹی کی بھی قربانی دے دیتی مگر تمہاری خوشی کی وجہ بھائی کو ناراض کر گئیں۔ ‘‘ عمار اس کے سینے پر انگلی رکھتے بولا۔
’’ کیا مطلب!‘‘ وہ اس کے الفاظ اور انداز سے چونکا۔
’’ میں نے اپنی ماں کو تمہاری سوچ دکھا دی تھی۔ ‘‘
’’ کیسی سوچ۔‘‘ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
’’ تمہاری سوچ جو میری ماں کے متعلق تھی۔‘‘ اس کے نا سمجھی سے دیکھنے پر بتانے لگا۔
’’ وہ میری بات پر یقین نہیں کر رہی تھیں ۔ اس لیے تمہاری ساری ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھ کر پیچھے ہٹی تھیں کیوں کہ اس سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ تم انہیں کتنا ناپسند کرتے ہو۔‘‘ اس نے کچھ جتا کر کہا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے