محبتوں کی ڈور: ریم بخاری
’’ منصور تمہیں تو اپنی بہنوں کی کوئی پروا نہیں چاہے کچھ ہو جائے۔ ‘‘ رائمہ بیگم کچھ خفگی سے بولیں۔
’’ کیسی بات کر رہی ہیں باجی مجھے تو آپ سے بہت انسیت ہے۔‘‘ انہوں نے محبت سے کہا۔
’’اسی لیے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا پتہ ہے پچھلے دنوں کتنی بیمار رہی ہوں۔‘‘ اب کی بار آنکھوں میں آنسو آ گئے جنہیں دوپٹے سے پونچھا۔
’’باجی میرے دفتر میں سالانہ آڈٹ ہو رہا تھا اسی لیے بالکل بھی وقت نہیں نکال پایا۔‘‘ وہ بہن کے شکوے پر انہیں منانے لگے۔
’’چاہے بہن مر جائے۔‘‘ وہ دھیمی نہ پڑیں۔
’’ اللہ نہ کرے۔ ‘‘ انہوں نے دہل کر کہا۔
’’ تو اور کیا اتنی بیمار رہی ہوں پھر بھی انتظار میں تھی کہ مائکے سے کوئی آئے جسے دیکھ کر دل خوش جائے۔ بہن تو میلوں دور بیٹھی ہے اور بھائی نے تو پوچھا بھی نہیں۔‘‘ان کا دکھ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
’’ اچھا معذرت آئندہ ملنے آئوں گا۔ ‘‘ منصور صاحب نے وعدہ کیا حالاں کہ ان کی بیگم ہو کر آئیں تھیں اور روز کال بھی کرتیں تھیں۔
’’ تمہارے تو بچے بھی مجھے پسند نہیں کرتے کبھی ملنے کا نام ہی نہیں لیتے میں تو راہ تکتی رہتی ہوں۔‘‘ اب بھتیجا، بھتیجی کی کی شامت آئی۔
’’ مشکل پڑھائی ہے نہ تو اسی میں لگے رہتے ہیں۔‘‘ منصور صاحب نے بچوں کی حمایت کی۔
’’بس انہی نے تو ساری پڑھائی کرنی ہے ۔ ارے ایسی بھی کیا پڑھائی کہ اپنوں کو کوئی پوچھے ہی نہ۔‘‘ ان کے مسلسل شکوؤں پر منصور صاحب نے مشکل سے ٹھنڈا کیا ۔ پھر کافی خاطر مدارت کے بعد انہیں روانہ کیا۔
’’ امی پھپھو کا ایسا رویہ کیوں ہے ۔ ابو جی تو ہم سے بھی ٹھیک سے نہیں ملے صبح کے گئے دیر رات واپس آتے تھے۔‘‘ عریشہ نے ماں سے کہا جو اب کچن سمیٹ رہی تھیں۔
’’ بیٹا وہ کس سے شکوہ کریں ۔ اپنوں کو ہی مان سے کہا جاتا ہے۔‘‘ رائمہ بیگم نے تحمل سے جواب دیا۔
’’ یہ تو بد گمانی ہے۔ ‘‘ وہ قائل نہ ہوئی۔
’’ عورت کو ہمیشہ مائیکے کا مان چاہیے ہوتا ہے ۔ جب نہ ملے تو دکھی ہوجاتی ہے پھر جب اس گھر میں آتی ہیں جہاں بچپن گزرا ہوتا ہے تو جذباتی ہونا فطری بات ہے ۔ ویسے بھی انسان کی زندگی میں بہت کچھ چل رہا ہوتا ہے ۔ تو دل کی باتیں کس سے کریں ۔ تمہاری فاریہ پھپھو بھی ان سے دور ہیں۔‘‘ انہوں نے نند کا نقطہ نظر سمجھایا۔
’’ ہم سے کیوں ناراض ہوتی ہیں۔‘‘ عمار نے بھی کہا جو ابھی آیا تھا۔
’’ تم لوگ ان کے بھائی کی اولاد ہو اسی لیے تم سے محبت چاہتی ہیں ۔ کوشش کیا کرو جب وہ آئیں تو بھرپور توجہ دے سکو تاکہ ان کا دل خوش ہو۔ ‘‘ وہ ماں کی بات سمجھ کر سر ہلا گئے۔
منصور صاحب کی دو بہنیں تھیں ۔ بڑی رخسانہ بیگم شہر میں ہی رہتی تھیں جبکہ چھوٹی بہن کی شادی کے بعد کراچی شفٹ ہوگئیں ۔ وہ بچوں اور گھر گرہستی میں ایسی مگن ہوئیں کہ ان سے اب کافی عرصے بعد ملنا ہوتا ۔ منصور صاحب کی بیگم رائمہ تھیں جن سے تین بچے عمار، عریشہ اور حمزہ تھے ۔
٭…٭
عمار نے انجینئرنگ کے دوسرے سال میں بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔ اس لیے وہ لوگ پھپھو کے گھر مل کر مٹھائی دے آئے تو وہ خوش ہو گئیں۔
’’ آج تمہارے ماموں کے گھر مٹھائی دے آئیں۔‘‘ رائمہ نے عمار سے کہا جس پر وہ بے دلی سے تیار ہوا ‘ ورنہ مامی اور کزنز کا کھنچا سا رویہ وہ اچھے سے سمجھتا تھا ۔ ان کے پہنچنے پر ماموں جان تو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ باقی سب بھی بظاہر خوش دلی سے ملے۔
’’ مبارک ہو بھئی بورڈ میں تیسرے نمبر پر آئے ہو۔ ‘‘ انہوں نے بھانجے کو گلے لگا کر محبت بھرے انداز میں کہا۔
’’ یہ تو آپ کی دعائیں ہیں۔ ‘‘ عمار نے موٓدب انداز میں جواب دیا۔
’’ تم لوگوں کی محنت بھی تو ہے ۔ ایک ہمارے بچے ہیں پیسہ لگا لگا کر تھک گئے مگر مجال ہے ستر فیصد سے اوپر چلے جائیں۔‘‘ ان کی خواہش بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کی تھی مگر اس میں اہلیت نہ تھی ۔ ان کے انداز پر دونوں بچوں کے موڈ بگڑے۔
’’ بھائی جان ماشاء اللہ آپ کے دونوں بچے اتنے سمجھدار اور فرمانبردار ہیں آپ شکوہ نہ کیا کریں۔ ‘‘ رائمہ نے بھائی کو سمجھایا ۔
ان کے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد فہد باہر چلا گیا اور زرمِش کچن میں چلی گئی اور دوبارہ سامنے نہ آئی ۔صفدر صاحب بہن کے سامنے بچوں کی نا اہلی کا ذکر کرتے تھے ۔ ان کی انہی باتوں کی وجہ سے ان کے بچے پھپھو اور ان کی اولاد سے خار کھانے لگے ۔ وہ کبھی اچھے ماحول بھی بھی ملتے تو موازنہ شروع ہو جاتا ۔ کزنز والی بے تکلفی ان میں نہیں تھی ۔ ان لائق فائق بہن بھائیوں کی بجائے وہ ننھیالی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا محسوس کرتے ۔ وہ دونوں ماں بیٹا کچھ دیر بیٹھ کر چلے گئے ۔
٭…٭
’’ کیا دیکھ رہے ہو۔ ‘‘ عریشہ نے عمار سے پوچھا جو ماتھے پر بل ڈالے موبائل سکرین پر بل ڈالے تھا۔
’’ فہد نے نئی ٹک ٹاک ویڈیو بنائی ہے۔ ‘‘ اس نے موبائل رکھتے اسے بتایا۔
’’ پھپھو کے موضوع پر بنائی ہو گی۔ ‘‘ وہ اس کے خفا سے انداز سے سمجھ گئی۔
’’ پتہ نہیں اس کے دل میں امی کے لیے اتنی کڑواہٹ کہاں سے آ گئی ۔ وہ تو انہیں کچھ نہیں کہتیں۔‘‘ عمار ان کے رویے سے کافی پریشان تھا ۔ ان کی ماں بھائی کے بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔
’’ یہ سب مامی کی وجہ سے ہے ۔ وہ جو امی سے نند بھابھی والی کدورت رکھتی ہیں اب وہی اپنے بچوں کے ذہنوں میں بھر رہی ہیں ۔ دیکھو امی ہمیں کیسے سمجھاتی ہیں ۔ ہماری پھپھو کا تو رویہ بھی برا ہوتا ہے پھر ان سے محبت کا کہتی ہیں۔ ‘‘ عریشہ نے حقیقت پرمبنی تجزیہ کیا۔
’’ کچھ قصور ماموں کا بھی ہے وہ ان کا بلاوجہ ہماری تعلیمی کارکردگی سے موازنہ کرکے انہیں سب کے سامنے شرمندہ کرتے ہیں ۔ ان کا بھی تو دل تو دکھتا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے لیے ناراضگی ہی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ عمار نے حالات کا دوسرا رخ دکھایا۔
’’ اس میں امی کا کیا قصور ہے۔ ‘‘ عریشہ بے بسی بولی۔
’’ کیونکہ وہ ہماری ماں ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ امی انہیں نیچا دکھانے کے لیے ماموں کے کان بھرتی ہیں اور مامی ان کی اسی سوچ کو مزید پختہ کر دیتی ہیں ۔‘‘ اس نے سو فیصد سچ بات کی۔
’’ تو پھر ماموں کو اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے کہ سب کے سامنے بچوں کی دل آزاری نہ کریں ‘ اگر سمجھانا بھی ہو تو اکیلے میں سمجھائیں۔‘‘ عریشہ بھی کہتے اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ بھی اپنے ننھیالی کزنز کے ساتھ اچھا رویہ اپنانا چاہتی تھی کیوں کہ بڑی پھپھو کی بچے کافی بڑے تھے اور چھوٹی پھپھو کا کبھی کبھار آنا ہوتا ۔ ایسے میں ماموں کی بیٹی زرمش ہم عمر تھی مگر وہ ان سے دور رہتی۔
’’ مگر ماموں جی کو یہ بات کون سمجھائے۔‘‘ معاملہ وہیں تھا۔
’’ امی سے کہیں ماموں جی سے بات کریں۔‘‘ عریشہ نے تجویز دی۔
’’ کہیں بات بگڑ نہ جائے ۔ ‘‘ یہاں آ کر وہ دونوں چپ ہو کر رہ گے۔
٭…٭
’’ آپا کو عریشہ کی شادی کی کون سی جلدی ہے ۔ جانتے تو ہیں وہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہی ہے ۔ اس کا خواب ڈاکٹر بننا ہے۔ ‘‘ رائمہ بیگم شوہر پر بگڑ کر بولیں کیوں کہ ان کی بڑی نند نے عریشہ کے لیے رشتہ بتایا تھا۔
’’ ارے ان کے جاننے والوں نے رشتہ بتایا تو انہوں نے ذکر کر لیا ۔ اپنی طرف سے تو اچھا ہی سوچا تھا۔ ‘‘ انہوں نے بہن کی حمایت کی۔
’’ عریشہ کی عمر ہی کیا۔ ‘‘ وہ اتنی جلدی رشتے کے حق میں نہ تھیں۔
’’ رشتے کو دیکھنے میں کیا قباحت ہے ویسے بھی اگر اچھا رشتہ ہاتھ میں ہو تو اچھی بات ہے۔‘‘ رخسانہ بیگم نے ان کی اچھے سے برین واشنگ کی تھی۔
’’ اگر رشتہ کر دیا تو وہ پڑھائی پر اثرا انداز ہوں گے ۔ ہماری بچی نے اگلے چھ سال تک پڑھنا ہے کوئی اتنا انتظار نہیں کرتا اور اگر درمیان میں انہوں شادی کی شرط رکھ دی تو کیا کریں گے۔ ‘‘ تحمل سے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ ہم پہلے بات کر لیں گے ناں۔‘‘ وہ اپنی بات پر قائم تھے۔
’’ بعد میں وہ اپنی طرح طرح کی مجبوریاں بتا کر پریشان کریں گے پھر ہمارے پاس شادی کرنے کے علاوہ چارہ نہیں رہ جائے گا ۔ دوسری صورت میں رشتہ ختم ہو سکتا ہے اور میں کوئی پریشانی نہیں لینا چاہتی ۔ ویسے بھی بھائی جان کا ارادہ فہد کے لیے ہے ۔ ایک دو بار ذکر کر چکے ہیں اس لیے فی الحال کسی رشتے کا نام بھی مت لیں۔‘‘ بیوی کی دلیل پر وہ تو خاموش ہو گئے مگر عمار نے سن لیا۔
’’ امی آپ عریشہ کا رشتہ ماموں کی طرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔‘‘ انہیں اکیلے دیکھتے ہی گھیر لیا۔
’’ تمہارے ماموں اشارے کنایوں میں بات کر چکے ہیں کہ عریشہ کو اپنی بیٹی بنائیں گے ۔ ‘‘ انہوں نے خوشی سے بتایا۔
’’ امی آپ ابھی عریشہ کی شادی کا مت سوچیں اور ماموں کی طرف کرنے کا خیال تو بالکل ذہن سے نکال دیں۔‘‘ وہ انیس سال کا لڑکا حالات سے اچھی طرح واقف تھا۔
’’ کیوں۔‘‘ وہ بیٹے کی بات پر بگڑیں۔
’’ وہ ہمیں پسند نہیں کرتا بلکہ ہمارا نام بھی سننا نہیں چاہتا اس لیے یہ نامناسب ہے۔‘‘ اس نے ڈھکے چھپے لفظوں میں کہا۔
’’ ایسا کچھ نہیں ہے ‘ تم چھوٹے ہو چھوٹے بن کر رہو بڑوں کی باتوں میں بولنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ انہوں نے غصے سے کہا۔
’’ آپ کو میری بات پر ذرا بھی یقین نہیں۔‘‘ اسے ماں کی بے یقینی بری لگی۔
’’ دیکھو عمار کزنز میں چھوٹی موٹی تلخی ہو جاتی ہے ۔ اور وہ تو بہت پیارا بچہ ہے اور بھائی جان نے بہت دل سے خواہش ظاہر کی ہے۔‘‘ وہ بھتیجے کے حق میں دلائل دینے لگیں۔
’’ امی شادی فہد سے ہونی ہے اگر وہ دل سے راضی نہیں ہو گا تو بیوی کو خوش کیسے رکھے گا۔‘‘ عمار نے ہار نہ مانی۔
’’ بس اب میں کچھ نہ سنوں۔‘‘ انہوں نے کچھ بھی کہنے سے سختی سے منع کر دیا۔
انہیں یقین نہ کرتا دیکھ کر اس نے فہد کا ٹک ٹاک اکائونٹ کھولا اور ساری ویڈیوز انہیں دکھانے لگا جو پھپھو پر بنائی گئی تھیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا رنگ پیلا پڑ گیا کیونکہ وہ کافی تکلیف دہ باتیں تھیں۔
’’ بچہ ہے ‘ بچے ایسی شرارتیں کرتے رہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے پھیکے پڑتے کہہ کر موبائل اسے کے حوالے کیا۔
’’ امی کسی اور کے بارے میں کیوں نہیں کوئی ویڈیو بنائی ۔ وہ مامی کی بولی بولتا ہے مگر معذرت امی ماموں کی خوشی کی جگہ مامی اور فہد کا رویہ سوچیں۔‘‘ اس کی بات پر وہ خاموشی سے کمرے میں چلی گئیں۔
’’ کیا ضرورت تھی انہیں ویڈیوز دکھا کر پریشان کرنے کی۔ ‘‘ عریشہ کو پتہ چلا تو اس نے نے گھبرا کر کہا۔
’’ انہیں ان کے رویہ کا احساس دلانا ضروری تھا ورنہ وہ تمہاری زندگی خراب کر دیتیں ۔ مامی اور فہد کبھی تمہیں دل سے قبول نہ کرتے۔‘‘
وہ بھی اس کی بات پر متفق تھی پر ماں کے لیے پریشان تھی۔ اس کے بعد کافی عرصے تک وہ بھائی کے گھر نہ گئیں ۔ صفدر صاحب سے کال پر بات کر لیتیں۔ ایک دو بار وہ بھی چکر لگا گئے۔
ٔٔ٭…٭
’’ اس بار تمہاری پھپھو نہیں آئیں لگتا ہے بچوں نے تیر نہیں مارا۔ ‘‘ عالیہ بیگم نند کے نہ آنے پر بولیں۔
’’ ہر بار تو قسمت مہربان نہیں ہوتی۔ ‘‘ فہد بولا ۔ اس بار اس نے بیاسی فیصد نمبر لیے تھے اس لیے خوش تھا۔
’’ تم لوگ رول نمبر پوچھ لیتے تو نیٹ سے دیکھ لیتے۔‘‘ وہ کچھ بدمزہ ہوئیں۔
’’ ہماری ان سے کبھی بنی نہیں تو رول نمبر کیسے لیتے۔‘‘ زرمش بھی بولی۔
’’ چلو پتہ کرنے چلتے ہیں ان کا کچھ اس کا بھی پھیکا رنگ دیکھ لیں۔‘‘ انہیں نئی سوجھی ۔
صفدر صاحب تو بہن کی طرف جانے کا سن کر ہی بہت خوش ہوئے ۔ بہن کے لیے کیک مٹھائی پھل لیے جو بیوی کو اچھا نہ لگا ۔ رائمہ تو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ہر چیز پسِ پشت ڈالتے آئو بھگت میں لگ گئیں۔
’’ تم نے تو آنا کم کر دیا ہے۔‘‘ وہ بہن سے شکوہ کنا ہوئے۔
’’ بس کچھ مصروف تھی۔ ‘‘ رائمہ نے مسکراہٹ سجائے کہا۔
’’ خیر سے فہد نے بیاسی فیصد نمبر لیے ہیں تو مٹھائی لے آئے ۔‘‘عالیہ بیگم نے خوشی سے بتایا۔
’’ مبارک ہو بھابھی ، فہد تمہیں بھی مبارک ہو۔ ‘‘وہ سچ میں خوش ہوئیں۔
’’ شکریہ تم سناؤ کیا ہو رہا ہے ۔ عریشہ کا داخلہ ہو گیا۔ ‘‘ تجسس لیے پوچھا۔
’’ شکر اللہ کا عریشہ نے انٹری ٹیسٹ کلئیر کر لیا ہے تو کنگ ایڈورڈ میں ایڈمیشن ہو گیا۔‘‘ منصور صاحب نے بتایا۔
’’ واہ بھی یہ تو خوشی کی خبر ہے رائمہ بتایا کیوں نہیں۔ ‘‘ صفدر بہت خوش ہوئے اور بہن سے شکایت بھی ہوئی ۔ ان کے گھر والوں کے چہرے پھیکے پڑ گئے ۔