میرے آقا: تیسرا اور آخری حصہ
کبھی کبھار انسان اپنے آپ کو پتھر سمجھ بیٹھتا ہے، مگر وقت اس کوموم ثابت کر دیتا ہے ۔ ایسی موم جو دل کی ٹھنڈک سے منجمد ہو گئی تھی، مگر وقت کی آتش اب اس کوپگھلائے جا رہی تھی ۔ وہ بھی ایک انتظار کی اذیت میں پگھل رہی تھی ۔ دن میں سب کے سامنے پتھر کی ملکہ بن کر، راتیں اس کے لیے موم ثابت ہو رہی تھی۔
کچھ تنہائی، کچھ نئے وجود کا احساس، کچھ مستقبل کے اندیشے…
آہستہ آہستہ سانپ بچھو بن کر اس کے کم خوابی کے بستر پر اس کوڈسنے آ جاتے تھے ۔ ایسے میں وہ آنکھیں بند کر کے اچھے وقت کا تصور کرتی، نگاہوں میں اپنا بچپن آ جاتا ، یا اسفند یار کے ساتھ گزارے وہ لمحات جو اس وقت اہم نہ لگتے تھے، مگر پھر اب کسی قیمتی متاع کی مانند تھے۔
اکثر قربت کے لمحات انسان کا دوسرا ہی روپ انسان کے سامنے لے آتے ہیں ۔ وہ بھی جس انسان کو دربار میں جانتی تھی، وہ حجرے میں آ کر کوئی اور ہی انسان بن جاتا تھا ۔ در حقیقت وہ شروع میں اس سے ڈرتی تھی ۔ بھلے ظاہر نہ کرے۔اس کوڈر تھا کہ یہ شادی اسفند یار کا انتقام نہ ہو ۔ اگر ایسا ہوتا، اگر وہ حجرے کے اندر ایک بے درد انسان ہوتا، تو وہ کیا کر لیتی؟
اس ملک میں اس کے لیے کون سی امان تھی ؟ وہ غلط تھی ۔ اس نے کبھی زبان سے نہیں کہا تھا، مگر جب وہ دونوں اکیلے ہوتے تو اسفند یار کی آنکھیں بولتی تھی ۔ پیغام دیتی تھی …وہ پیغام جو وہ سننا نہیں چاہتی تھی ۔ رات کے جلتے مدھم سے دیے کی روشنی میں اس کی آنکھیں لو دیتی تھی ، جن سے وہ نگاہیں چرا لیتی تھی ۔ ان دونوں کی تنہائی اکثر اسفند یار کے دل کو کھول کر جنت کے سامنے رکھ دیتی تھی ۔ لو ہاتھ بڑھا کر چاہے تو تھام لو، چاہیں تو نظر انداز کر دو…
یہی کھلی کتاب کا سا دل اس سے باتیں بھی بہت کرتا تھا۔
جنت کووہ اکثر اپنے بچپن کی باتیں بتاتا تھا ۔ اپنے فتح کے قصے، اپنے ڈر، اپنی آس، اپنی امیدیں…
کبھی کبھار وہ بھی جواباً کچھ اپنے بارے میں بتاتی، پھر اس کے ہاتھوں کو دیکھتی اور ان پر لگا ہوا نادیدہ لہو دکھائی دے جاتا تو خاموش ہو جاتی ۔
ایسی خاموشی جو ان دونوں کے درمیان آ کر بیٹھ جاتی ‘ اسفند یار کا کھلا ہوا دل خود پر تالے لگا کر سو جاتا اور جنت کے خاموش آنسو اندر ہی اندر گرتے رہتے ۔
ان سات مہینوں کی جدائی نے جنت پر بہت سے تالے کھول دیے تھے، جن کی کنجی تو اس کے پاس نجانے کب سے تھی، مگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ ان کا استعمال کرنے سے کتراتی تھی ۔ اب جب وہ تالے کھلے تو خود بہ خود اپنے آپ کو کسی اور ہی سانچے میں ڈھلتے ہوئے دیکھا۔
ایک ملکہ کے روپ میں خود کو پایا تو اسفند یار کو جس کو وہ ایک کٹھور انسان سمجھتی تھی کو کئی بار سچا بھی پایا۔
وہ کہتا تھا ۔’’جب حکمران تخت پر بیٹھتا ہے تو وہ عوام کا ماتحت ہوتا ہے۔ عوام شاہ ہوتی ہے۔‘‘
اس نے بھی عوام کو شاہ بنا لیا تھا اور عوام نے اس کو ملکہ…
وہ عزیز جس کی اس نے آنکھیں پھوڑ دینے کا خود سے وعدہ کیا تھا ، وہ اس کا ساتھی اور رہنما ثابت ہوا تھا ۔ جہاں اس کے قدم لڑکھڑاتے وہاں وہ اس کوراستہ دکھاتا کہ اگر اس جگہ اسفند یار ہوتا تو کیا کرتا ۔ اس دشمن جان نے تو اس سے ان سات ماہ میں ایک بار بھی رابطہ نہیں کیا تھا ۔ عزیز کے ذریعے جب اس کومعلوم پڑا کہ وہ شمال میں ہے تو اس کے تصور میں برف کے سفید گالوں کے درمیان اسفندیار کا سرخ چہرہ آ گیا ۔ شمال میں ایسی سرخی اس نے پہلی بار اس کے چہرے پر دیکھی تھی ۔ ایسے جیسے کسی پر حیا دوشیزہ کے چہرے سے لالی چرا کر اس کے گالوں پر کسی نے چھڑک دی ہو ۔ اس لمحے، وہ اس کو بہت انسان انسان سا لگا تھا ، کوئی دیکھا ‘ ان دیکھا ظالم روپ نہیں…
جنت کو حیرت تھی کہ وہ شمال کی سردی میں ٹھٹھرنے والا راجہ وہاں پر باغیوں کے بڑھتے قدموں کو کیسے روک رہا ہوگا ؟ اس کواسفند یار کی قابلیت پر شک نہیں تھا، مگر دل میں پھر بھی اس کی فکر جاگی ۔ ساتھ میں اس کوعالم کی بھی فکر تھی ۔ وہ شہزادہ جو اس کوبھائیوں کی طرح عزیز ہونے لگ گیا تھا ۔ اس کواپنے دل کی بھی فکر ہونے لگی تھی، جو اب مزید کسی کو کھونے کا صدمہ برداشت کر پائے گا یا نہیں…
اسی دل کی سلامتی کے لیے اس نے شہزادی گل رخ سے مدد لے کر شمال میں اپنے اختیارات استعمال کیے تھے ۔ وہ کچھ لوگوں کو جانتی تھی جو شمال میں اسفند یار اور اس کہ ساتھیوں کی مدد کر سکتے تھے ۔ اس نے وہ مدد تو پہنچا دی تھی مگر اب انتظار تھا کہ کاٹنے کو دوڑتا تھا ۔
ایسے میں اگر وہ اسفند یار کے مکتوب لے کر بیٹھ جاتی تو دل میں بپھرتے بے چینی کے سمندر کو جوش میں لے آتی ۔
"ہر سینے میں لہو بہتا ہے
وہ لہو جس سے قلب زندہ ہے
وہ قلب، جو اک آس میں ہے
وہ آس جو کہیں ملتی نہیں
وہ ملن جو کہیں ہوتا ہی نہیں
وہ روح جو ناشاد رہتی ہے
وہ درد جو کہیں سوتا ہی نہیں
وہ عشق جو کہیں ہے ہی نہیں
وہ خلا جو کہیں بھرتا ہی نہیں”
چمڑے میں لپٹے مومی کاغذوں پر اس کی لکھائی اس کوآسمان پر پھوٹتے آتش بازی کی یاد دلاتی ۔پاس سے ہاتھ جلانے والی، مگر دور سے کتنی خوشمنا…
ان صفحات پر اسفند یار کے الفاظ اس کے سینے میں دھڑکتے دل کی حساسیت کو ظاہر کر رہے تھے ۔ وہ الفاظ جو اس نے ہمیشہ سب سے چھپا کر رکھے ۔ وہ پڑھتی تو لگتا کہ اس کے دل کے دروازے کے باہر جو چڑیل پہرے دار تھی اس نے اپنے ناخن دل کی دیواروں پر رگڑنا شروع کر دیے تھے ۔ جب اس کی نظر ایک نظم پر پڑی تو اس نے فوراً کتاب بند کر دی۔
"کبھی عشق ملے تو اسے کہنا
اس آتشی رات میں
مجھے اس کی گیسوں کی سرخی یاد ہے”
اس کے بعد اس نے اسفند یار کا لکھا کوئی لفظ نہ پڑھا تھا ۔ بس اپنا فرض نبھاتی اور اپنے بھاری ہوتے وجود کے ساتھ لمحات گنتی ۔ وہ لمحات، جو گزر کر اس کووجود کو ہی نہیں، اس کے دل کے بوجھ کو بھی بھاری کر رہے تھے۔
انہیں دنوں، جب وہ آس کھونے لگی تھی، اسفند یار کی واپسی کی اطلاع اس کے اندر نئی زندگی اور نئے خدشات جگا گئی تھی۔
٭…٭
ہر قسم کی گستاخی کو اپنے سے دور رکھنے والا سلطان اپنے گستاخ دل کا کیا کرے ؟ اور دل کی گستاخیاں ایسے ہی شاہوں کو چاروں شانے چت کر دیتی ہیں ۔وہ دل، جو خود بہ خود محبوب کی غداری کے جواز ڈھونڈ لیتا تھا۔
وہ فریب کار تھی، چال باز تھی تو بے قصور تو وہ بھی نہ تھا ، نقب زن تو وہ بھی تھا ۔ اس نے اس کوبے گھر کر کے اپنا محل تعمیر کیا تھا ۔ اس کے ملک پر فتح کا جھنڈا لگا کر اس کومعزول کیا تھا۔
انتقام جتنا اس کا حق تھا ، اتنا جنت کا بھی تھا۔
وہ جو اس کی جان لینے کے در پر تھی ۔ سات مہینے پہلے اس کو اس پر بے حد غصہ تھا ۔ جو کچھ ہوا وہ اس کی توقع نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کو پسند نہیں کرتی، شاید نفرت کرتی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں یہ امید تھی کہ اس کا دل بدل جائے گا ۔ یا کم از کم وہ اپنی نفرت کی آگ کو دبا لے گی ۔ اس وقت اس کو بے حد غم و غصہ تھا ۔ مگر پھر یہ یہ سات مہینے درمیان میں آ گئے۔
اس کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ اس نے یہ ملک تلوار کے زور پر حاصل کیا تھا ۔ وہ اپنے مقاصد میں جتنا بھی صحیح ہوتا ، اس کی جیت کئی لوگوں کی ہار تھی ۔ اس کی فتح کئی لوگوں کے آنسو اور کہیں کا لہو بہا کر حاصل ہوئی تھی ۔ ایک وقت آتا ہے جب انسان سے اس بہہ جانے والے ہر آنسو اور لہو کے قطرے کا حساب لیا جاتا ہے ۔ اس سات مہینوں میں اس کے پانچ مہینے شمال میں ہڈیاں جماتی برف کے درمیان گزرے تھے ۔ وہ صحرا کا باسی تھا اور برف کی شدت اس کے جسم کے موافق نہ تھی ۔
اس کو یاد تھا کہ شمال کا علاقہ ہی سب سے زیادہ مشکل سے اس نے فتح کیا تھا ۔ تب حالات اس کے حق میں تھے، تقدیر اس کی تدبیر کے حساب سے چلی تھی ۔ اب حملہ دوسری طرف سے تھا ۔ ان دنوں میں اس کو جن لوگوں نے پناہ دی تھی ، وہ بطور بادشاہ کے اس کے پاس اس کی مدد کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ گلستانی شہزادی کے شوہر کے حق میں آئے تھے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی غلطیاں سدھار رہی تھی۔
اس لیے اس کا شمال سے زمین نگر سے ہوتے ہوئے گلستان واپس آنے تک گلستان میں سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔
گلستان کی شہزادی نے اپنے لوگوں کو اپنے بادشاہ کے لیے رام کر لیا تھا ۔
اس کے پاس نوابی طاقت تھی ، اس کا تخت بحال تھا ۔ حالانکہ واپسی کے سفر میں کچھ نئی چوٹوں کے نشان اور کچھ لہو کے دھبے اس کے ساتھ تھے ۔ مگر سب کچھ وقت کی دھول میں بہہ جاتا ہے، بس آپ کا زندہ رہنا ضروری ہوتا ہے۔
اس کی واپسی کا استقبال گلستانیوں نے پھول بچھا کر کیا تھا، اور اس کی ملکہ نے خاموشی سے…
جب وہ اس کے استقبال کے لیے باہر آئی، تو کہنے کو تو صرف سات ماہ ہی ان دونوں کے درمیان گزرے تھے۔ مگر نہ جانے کیوں وہ اس کو بدلی ہوئی لگی ۔ اسفندیار کے نظروں سے دیکھو تو ملکہ جنت رنگوں کی کتاب تھی، مگر کچھ اور بھی تھا جو ان رنگوں کو الوہی روشنی عطا کر رہا تھا۔
مگر کیا ؟ وہ نہیں جانتا تھا۔
اسفندیار نے اس کو پوری طرح معاف نہیں کیا تھا، مگر اس کا دنیا کے سامنے بھرم رکھا تھا ۔
’’تمہاری غیر موجودگی میں جنت نے شہزادی بن کر آشیان میں پناہ نہیں لی تھی ۔ملکہ بن کر گلستان کو سنبھالا تھا ۔ اپنے اور آپ کے خاندان کی حفاظت کی تھی ۔‘‘ شہزادی گل رخ نے اس کوبتایا تھا۔
وہ جانتا تھا گل رخ جیسی بھی تھی مگر دھوکہ باز نہ تھی ۔ وہ اس رات اپنے حجرے میں گیا تو جان گیا کہ شہزادی گل رخ کا خاندان سے کیا مراد تھی؟ اسفند یار جو ریاستوں کو فتح کرتا تھا، ایک عورت کے اندر ہونے والی تبدیلی کو نہ جان پایا تھا ۔ اس خیال کے ساتھ وہ بے اختیار ہنس دیا ۔
وہ اس وقت اپنے حجرے سے منسلک بالکونی میں کھڑی آسمان پر چھائے رنگوں کو دیکھ رہی تھی ۔ جنت نے اس کو ہنستے ہوئے حیرت سے ذرا سا مڑ کر دیکھا، مگر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ نہ جانے کیوں اس سنگ دل کا سامنا کرنے کو دل نہیں تھا۔
کچھ دل کا چور تھا اور کچھ ندامت تھی کہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
چڑھتی رات کی ہوا ‘ اس کا سفید شب خوابی کا لباس اڑا رہی تھی، مگر وہ ٹھنڈی ہوا کی پرواہ کیے بغیر وہی ثابت قدم کھڑی رہی تھی ۔ اس کی طرف مڑی نہیں تھی ۔ دوسری طرف اسفند یار بھی جو سات مہینے پہلے آتش فشاں کی طرح ابل رہا تھا ۔ اب ایک دم ٹھنڈا ہو گیا تھا۔
یا اولاد کا احساس ہی دلوں کو ایسے ہی ٹھنڈا کر دیتا ہے ۔ اولاد کی محبت… اولاد کی چاہت … وہ دل جس نے دنیا میں آ کر ابھی دھڑکنا بھی شروع نہیں کیا، کیسے آپ کی دھڑکنوں کا مکین بن جاتا ہے ؟ اسفند یار کے دل سے سارا ملال جاتا رہا۔
یہ انتقام کی آگ کتنے ہی خاندان کھا گئی تھی ۔ اب ان دونوں کا خاندان ایک دوسرے سے جڑا تھا، اب وقت تھا کہ اس ایک خاندان کو بچا لیا جائے ۔ ویسے بھی اب آتش فشاں پھٹ کر شانت ہو گیا تھا ۔ پیچھے رہ گئی تھی، آتش بازی یا پھر دلوں میں جلتے دیپ…
اس وقت وہ اپنی ملکہ کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھنا چاہ رہا تھا، جو اس سے نگاہیں چرا رہی تھی ۔ ان نگاہوں کا کھیل ابھی بھی ان کے درمیان جاری تھا ۔ اپنے کندھے پر جنت کو مانوس لمس کا احساس ہوا تو چونک کر پیچھے دیکھا ۔ یہ سچ تھا کہ دل کا ملال ابھی تک گیا نہیں تھا ۔ وہ لہو والے ہاتھ اور اس کے خلاف اس کی سزا، وہ کچھ بھی نہ بھولی تھی ۔ دوسری طرف دل بھی تھا پلٹتا ہی رہتا تھا ۔ ایک قسم کا ملال رہنے ہی نہیں دیتا تھا ۔ دل جس کو عربی میں قلب کہتے تھے ۔ پلٹنے کے لیے ہی بنا تھا ۔ وہ پلٹ رہا تھا، اس انسان کی طرف جس کے ساتھ اس کی روح کے تار جڑے تھے۔
کچھ فیصلے تقدیر میں لکھے جا چکے ہوتے ہیں۔ پھر ہم ان ستاروں کو اپنے ہاتھوں سے کیوں توڑتے ہیں؟
ان کو سجا کیوں نہیں لیتے ہیں؟
اسفند یار نے اپنی ملکہ کا نم ہاتھ دھیرے سے دبایا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ سزا تو اس نے بھی بھگتی تھی، اور یہ سزا ان دونوں کے لیے ضروری تھی۔
’’اس تبدیلی کی وجہ؟ کیا مجھے معاف کر دیا؟‘‘
وہ معاف کرنے سے پہلے معافی مانگ رہا تھا۔
’’ایک بیٹی ہونے کے ناطے میں چاہ کر بھی نہیں بھول سکتی کہ آپ نے میرے خاندان کے ساتھ کیا کیا تھا۔ جنگ دونوں طرف سے کی جاتی ہے، آپ کو حق بجانب نہیں مانتی ‘ مگر بے قصور میرے والد بھی نہیں تھے ۔ دراصل میں یہ نہیں کہوں گی کہ میں سب کچھ بھول چکی ہوں ۔ یہ تو ایسی کسک ہے جو کبھی نکلنے والی نہیں ۔ مگر زندگی کا تقاضہ ہے کہ اس ملال کے ساتھ ہی آگے بڑھا جائے ۔ اپنے لیے نہیں تو اپنی اولاد کے لیے…‘‘ اس کے ہاتھ بے خیالی میں اپنی کوکھ پر گئے تھے۔ دائی نے اس کو کچھ دن پہلے ہی بتایا تھا کہ نیا شہزادے یا شہزادی کی چند ہی ہفتوں میں آمد آمد تھی۔
اس کے چہرے پر بڑی بجھی ہوئی سی مسکراہٹ تھی ۔وہ خوش کیوں نہ تھی ؟ شاید دل کے خدشات جینے نہیں دے رہے تھے ؟ اس کوڈر تھا کہ کہیں تقدیر کی لکھی سزائوں میں سے ایک سزا یہ بھی ہو کہ اسفند یار اس کی طرف محبت سے دیکھنا چھوڑ دے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ نگاہیں آسمان سے ہٹا ہی نہیں رہی تھی۔
جشن ختم ہو چکا تھا مگر آسمان ابھی بھی آتش کے پھولوں سے سجا تھا۔
’’میرا انتظار کیوں کیا ؟ ‘‘ دوسرا سوال بھی سادہ سا تھا۔
کوئی گلہ، کوئی شکوہ اس کی زبان پر نہ تھا ۔ سات مہینے پہلے کا غصہ اب وقت کی دھول ہو گیا تھا ، یا پھر کہیں اندر دبا ہوا پڑا تھا ۔ اس نے دوبارہ سے باہر دیکھا تو اسفند یار نے پیچھے سے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
اسفند یار نے اپنے بال ترشوا دیے تھے اور اب اس کے چھوٹے بال جنت کے کندھے کو چھو رہے تھے، وہ کسمسائے بغیر وہی ساکن کھڑی رہی ۔ تھوڑی دیر کے لیے اس نے اپنی سانسیں روک دیں کہ مبادا یہ خواب ہی نہ ہو جو ٹوٹ جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ وقت نے بھی کچھ دیر کے لیے اپنی دھڑکنیں روک دی۔
جنت نے ان سات مہینوں میں اُس کی واپسی کا تصور کئی بار کیا تھا ۔ ہمیشہ خود کو کٹہرے میں کھڑا دیکھا یا پھر زندان میں قید … یہاں وہ اپنے حجرے میں کھلی ہوا میں کھڑی تھی، اور جس کی مجرم تھی وہ تو صبح کے بھولے کی طرح اس کی طرف لوٹ آیا تھا ۔ کیا یہ معافی اس نئے آنے والے وجود کی وجہ سے تھی ؟ یا پھر اس کی پیدائش تک تھی وہ نہیں جانتی تھی۔
’’بہت تھک گیا ہوں ۔کچھ دیر سستانا چاہتا ہوں ۔ پچھلے چھ سال میں نے بہت لہو بہایا ہے ۔ ابھی بھی امن کے دنوں میں بھی اس کی ضرورت پیش آ گئی تھی ۔ اپنے انتقام کی آگ میں اتنا اندھا ہوگیا تھا کبھی یہ دیکھا ہی نہیں جس راستے سے میں تلوار چلاتے ہوئے گزر رہا ہوں وہاں دوسروں کی خوشیاں بھی بچھی پڑی ہے۔‘‘ اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی، ایسے جیسے وہ آواز بس اس کے کانوں کے لیے ہی بنی ہو۔
’’نجانے ہم اپنے غم و غصے میں اتنے اندھے کیوں ہو جاتے ہیں کہ ہر شے کو آگ لگانے پر تل جاتے ہیں ۔ چاہے اس میں سب کچھ راکھ نہ ہو جائے ۔اچھی بات یہ ہے کہ ہم بہت کچھ بچا بھی آئے ہیں ۔ ‘‘
اس نے جنت کو کندھے سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کر دیا ۔ جنت موم کی گڑیا کی طرح مڑتی چلی گئی ۔کچھ دیر ہوائوں کی سرسراہٹ اور وقفے وقفے سے ہوتی آتش بازی کے علاوہ ان دونوں کے درمیان کوئی آواز نہ تھی۔
’’سزا نہیں تجویز کریں گے میرے لیے میرے آقا؟‘‘
مجرم نے نظریں دوسری طرف کی، آنکھوں میں اٹکا ہوا آنسو گال پر سڑک پر آیا تھا ۔ وہ مزید رعایت برداشت کرتی تو اس کا دل خوش فہم ہو جاتا ۔ اس لیے یہ مرحلہ جلد طے ہوجاتا تو بہتر تھا ۔ اسفند یار نے اپنے دونوں بازوں منڈیر پر اس طرح ٹکائے کہ ان دونوں کے درمیان جنت کسی قیدی کی طرح آ گئی تھی ۔
واہ! کیا اسیری تھی۔
’’گلستان ہرابھرا علاقہ ہے، مگر پھر بھی گلستانیوں کو اپنی آگ سے بے حد محبت ہے ۔ جنت کی سزا یہ ہے کہ مجھے اس کی آنکھوں میں وہی جلنے والی جوت واپس چاہیے، جو مجھے کہیں اور نہیں دیکھنے دیتی ۔ جو مجھے چھ سال پہلے دکھی تھی۔‘‘
’’وہ تو غصے اور انتقام کی آگ تھی۔‘‘
’’اس کو محبت کی آگ بنا دو جنت اور مجھ سے ایسے وجود کے ساتھ ملو جس کی مٹی میں کوئی فریب کوئی، مکر نہ ہو۔‘‘
’’جی… میرے آقا…‘‘ جنت کی نگاہیں ابھی بھی جھکی ہوئی تھی۔
’’پھر میرے آقا؟‘‘ اسفند یار کو ایسی محبت نہیں چاہیے تھی، جو اتنی جھکی، اتنی عاجزی لیے ہو۔
اس کوتو حق وصولتی محبت چاہیے تھی ۔ آگ لگاتی، وہ آگ جو جنت کا خاصہ تھی۔
’’پھر کیا کہوں؟‘‘ پلکوں کے باڑ سے اب ہمت کر کے سامنے دیکھ لیا تھا۔
’’جو آشیان میں کھڑی جرات مند لڑکی نے کہہ کر پکارا تھا ، جو ایک سنگ دل بادشاہ کو اصول توڑنے سے روک رہی تھی ۔ یہ تابع سی ملکہ تو مدھم سا چراغ ہے اس کے سامنے، جس کی روشنی ناکافی ہے۔‘‘
’’اچھا ایسا کیا تھا اس لڑکی میں؟‘‘ اب کی بار آنکھوں کی نمی کم ہوئی تھی۔
’’آگ تھی، جو میرے دل تک پہنچ کر سب کچھ خاک کر گئی تھی۔‘‘
’’آپ کو ایسی ملکہ نہیں چاہیے جو آپ کے تابع ہو ؟ ‘‘ پیچھے سے آتش بازی کے شور نے ایک پل کے لیے اس کی آواز دبائی تھی، مگر پھر بھی اسفند یار نے سن لی تھی۔
’’آپ تاریخ نہیں پڑھتی جنت ؟ بڑے بڑے بادشاہ اپنی ملکہ کے سامنے جھکتے ہیں۔‘‘ اسفند یار نے سر کو خم کیا تو وہ مسکرا دی۔
’’دنیا والے ایسے لوگوں کو باتیں بناتے ہیں۔‘‘
’’دنیا والوں کا یہی اصول ہے کہ تخت پر اور بادشاہ کے دل پر ایسی ملکہ ہی حکومت کرتی ہے۔‘‘
’’کیسی ملکہ؟‘‘ اس نے بھیگی پلکیں اٹھائی اور اس آتشی رات کی طرح اسفندیار کا دل وہی اٹک گیا۔
’’وہی جس کی آنکھوں میں آگ جلتی ہو اور اس کا دل کسی چٹان کی طرح مضبوط ہو ، ساری محبتیں سنبھالنے کے قابل ہو ۔ جو دل کا زخم سیے جائے اور پھر بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ کر لے۔‘‘
ہر محبت کا دل میں الگ خانہ ہوتا ہے ۔ ایک نئی محبت پا کر پرانی محبتوں کے احساس کے رشتے کو بھلا دینا تو کم ظرفی ہوئی ۔اسفند یار جانتا تھا کہ اس کی ملکہ کم ظرف نہ تھی۔
’’دیکھ لیں اسفند یار ! پھر یہ آگ کہیں آپ کے دل کو راکھ ہی نہ کردے۔‘‘ سابقہ شاہی طبیب شہزادی کی سی ادا کے ساتھ مسکرائی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
دوسری بار اس نے اس کے منہ سے اپنا نام سنا تھا۔ اور پہلی بار پورے استحقاق سے یہ نام لیا گیا تھا۔
اس کویہ نام اس کو دیے گئے سارے القابات سے اچھا لگا۔
"اس آتش میں جل جانے کا دل کرتا ہے،
جو تیری گیسوں سے جلتی ہے،
اور تیری نظروں سے اٹھتی ہے…”
جنت کے جواب میں اس نے اس کے کان میں دھیمے سے پڑھ دیا ۔ جنت نے پہلے اس کوحیرت سے دیکھا، پھر کھل کر مسکرادی ۔ان کی کھڑکی سے باہر ایک بار پھر سے آتش بازی ہوئی تو اس کی آنکھوں میں بھی پھول کھلنے لگے ۔ شاید اسفند یار صحیح کہتا تھا کہ شاہی مورخ جب ان کی کہانی لکھیں گے تو لازوال نہ سہی، مگر کہیں نہ کہیں محبت کا ذکر تو ہو گا ہی…
ختم شد
بہت اچھی کہانی…بہت دنوں بعد اچھی کہانی پڑھی۔۔ لاجواب۔۔۔ آپ بہت آگے جا سکتی ہے