مکمل ناول

میرے آقا: تیسرا اور آخری حصہ

’’بادشاہ حضور! دوپہر کے قلعے پر اچانک حملہ ہو گیا ہے۔‘‘
وہ اس چیز کی توقع کر رہا تھا۔
’’حملہ کس کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ جواب وہ جانتا تھا۔
اس نے ایک نظر اپنی ملکہ کی طرف دیکھا اور آہستہ آواز میں بولا۔
’’گلستانیوں کی طرف سے۔‘‘
اسفند یار کے چہرے پر کوئی رنگ آیا بھی تھا تو وہ صاف چھپا گیا ۔ اس نے ایک نظر اپنی بیوی کو دیکھا اور سر ہلا دیا ۔ جنت نے اس پل دیکھا کہ اسفند یار کی آنکھ میں کچھ چمکا تھا، مگر یہ چمک محبت کی نہ تھی ۔ ان کوئلے سی آنکھوں میں کسی نے آگ لگا کر انگارے جلا دیے تھے ۔ جنت کو پہلی بار اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا ۔ اس کا دل کیا، آگے بڑھ کر ان انگاروں کو ٹھنڈا کر دے۔
اس کے چہرے پر ایک پل کے لیے بے چینی پھیلی، مگر وہ اپنے تاثرات چھپا گئی۔
’’بہت خوب ! ‘‘ اس کے ان الفاظ میں کتنے ہی طوفان چھپے ہوئے تھے، وہ جانتی تھی۔
’’عزیز آپ اپنے کچھ وفادار ساتھیوں کے ساتھ ملکہ کے ساتھ رہنا ۔ میں نہیں چاہتا کہ میری پیاری ملکہ کو میری غیر موجودگی میں کوئی نقصان پہنچے ۔ان کو ایک پل کے لیے بھی اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دیجئے گا؟‘‘
’’جی حضور ! ‘‘ عزیز اپنے آقا کا مطلب سمجھ گیا تھا ۔
وہ سزا سے بچ گئی تھی مگر نجانے کیوں جانے والے کی پشت دیکھ کر دل بے چین ہوا، نظر نم ہوئی …
نجانے کیوں جنت کو کچھ کھو جانے کا احساس شدت سے ہوا، جو اس کے جیت کے خمار کو ہوا کر گیا تھا۔
٭…٭
جیت کا خمار کیا تھا ؟ کسی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا ۔ اسفند یار گیا تو ساتھ میں اس کا بھی کچھ لے گیا تھا ۔ جب اس کی تدبیر کامیابی کے کنارے پر تھی تو وہ جیسے بجھ سی گئی تھی ۔ ایسے جیسے اس کا کچھ کھو گیا ہو ۔ ایسے جیسے کوئی مسافر منزل پر آ کر بھٹک گیا ہو ۔ ایسے جیسے بیچ منجھدار میں کشتی پہنچ گئی ہو اور ہوائیں ساتھ چھوڑ جائے ۔ ایسے جیسے وہ ایک ایسی کھیل کی کھلاڑی بن گئی تھی جس سے اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی ۔
انہی کشمکش بھرے دنوں میں اس نے نیم دلی سے اپنی تدبیر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور عالم کے پاس جا پہنچی ۔
عالم اپنے بھائی سے بہت مختلف تھا۔ اور تخت پر فاتح حاتم کی اولادوں میں سے ہی کسی کو بیٹھنا پڑے گا ، ورنہ مختلف قبائل اور نوابوں نے اس تخت کے لیے نئی جنگ چھیڑ دینی تھی ۔ دوسری طرف اس نے اس بات کا یقین کر لیا تھا کہ اسفند یار واپس نہیں آئے گا ۔ اس کے ساتھ ملے ہوئے قبائل نے اس کواسفند یار کی گرفتاری کا پورا یقین دلایا تھا۔
مگر دل تھا کہ نجانے کیوں بجھا سا جاتا تھا۔
جہاں آگ تھی، وہاں اب صرف دھواں رہ گیا تھا ۔ اپنے دل کے بجھے دیے سے نظریں چرا کر وہ عالم کے پاس گئی تھی ۔ اس تخت کے لیے عالم کو راضی کرنا تھا جو کہ اس کو سب سے مشکل امر لگتا تھا۔
’’عالم! آپ ہمیشہ غیر جانبدار ہو کر نہیں رہ سکتے ۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے ۔ داستان کو آپ کی ضرورت ہے ۔ اگر آپ تخت پر نہیں بیٹھے گے تو کوئی اور طاقت کا دعویدار آجائے گا ۔ ملک میں ایک بار پھر سے انتشار پھیل جائے گا ۔ گلستان کو چاروں طرف سے خطرہ ہے ۔ اگر آپ یہاں پر خون کی ندیاں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ کرنا ہوگا۔‘‘اس نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا چناؤ کیا تھا۔
مقابل بھی عالم تھا، وہ زمین میں چھپا خزانہ جو اب زمین سے باہر دکھنے لگا تھا۔
’’یہ تخت اسفند یار کا تھا تھا اور اسی کا رہے گا۔‘‘
’’اور اگر وہ خدا نخواستہ واپس نہ آئے تو؟‘‘ جنت نے چاہا کہ اداکاری کرے۔ مگر نجانے کہاں سے اس کے لہجے میں سچی تڑپ چھلکی تھی ۔
’’تو پھر اس کے بعد اس کی اولاد تخت کی دعویدار ہیں۔‘‘ عالم کے لہجے پر وہ چونکی ۔
نجانے کیوں اس کوکبھی کبھار لگتا تھا کہ عالم کے پاس کوئی طاقت تھی جو اس کوسب کچھ بتا دیتی تھی ۔ جنت کے دماغ میں کچھ کھٹکا تھا ۔ اس کو وہ دائی یاد آئی جس نے اس کو سیڑھیاں زیادہ اترنے چڑھنے سے منع کیا تھا ۔ اس لیے فوراً اس کی طلبی اپنے حجرے میں کی تھی۔
آخری جھٹکا بلکہ دھکا اس کواس وقت لگا جب دائی نے اس کا شک یقین میں بدل دیا تھا ۔ دائی خوش تھی کہ اس کو ملکہ کی طرف سے ایسی خبر پر انعام ملنے والا تھا ۔ مگر اپنی گردن پر خنجر دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی ۔ اس نے دیکھا کہ ملکہ پاگل ہو رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہوا تھا ۔ زمین پر گرنے والوں کا ایسا ہی حال ہوتا ہے۔
’’ اگر تم نے یہ بات کسی کو بتائی تو اگلے دن کا سورج تمہیں دیکھنا نصیب نہ کروں گی۔‘‘
جیسے انسان کو لگتا ہے کہ موت تو صرف دوسروں کو ہی آتی ہے ۔ جنت بھول گئی تھی کہ فطرت انسان میں ایک نسل کا بڑھنا بھی تھا۔ وہ خود ایک طبیب تھی، اس نے پوری کوشش کی تھی کہ ایسا کچھ نہ ہو ۔ مگر جیسے کوئی درزی اپنا کپڑا رفو کرنا بھول جاتا ہے، اس سے بھی اپنے معاملے میں بھول ہوگئی تھی ۔ وہ بھول گئی تھی خدا کی تدبیر ہمیشہ انسان کی ساری تدبیروں سے بہتر ہوتی ہے ۔ خدا کی ایک تدبیر نے اس کی ساری بازی الٹ دی تھی۔
جنت کو اس تدبیر میں خدا کی بہتری سمجھ نہیں آئی ۔ ایک اور دعوے دار اس کھیل کی ساری بازی پلٹ سکتا تھا ۔ اگر اسفند یار کو کچھ ہوا تو وہ اس بچے کی حفاظت کیسے کرے گی ؟ طاقت کے پجاری اس کے بچے کے پیچھے ضرور آئیں گے ۔
اگر اس نے عالم کو بادشاہ بنا بھی دیا تو کیا وہ دعوے سے کہہ سکتی تھی کہ وہ اس بچے کا دشمن نہیں بنے گا؟
اور وہ خود ان سب میں کہاں تھی ؟ اس کو اپنے محسوسات سمجھ نہیں آئے ۔
کیا وہ اس بچے سے محبت کرے گی یا اس سے نفرت؟
وہ اس کے وجود کا حصہ ہوگا؟
اور اگر اسفند یار کو معلوم ہوگیا تو پھر ؟
وہ اپنے ننھیال کو جانتی تھی، وہ اس کا ساتھ ضرور دیں گے ۔ مگر اسفند یار کے معزول ہونے کے بعد وہ عورت سمجھ کر اس کودبانا بھی چاہیں گے ۔ وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ ایسے میں یہ ایک نیا دعویدار ان کے لیے خطرہ ثابت ہوگا۔
وہ اس کویقیناً راستے سے ہٹانا چاہیں گے؟
وہ کہاں کہاں اس کی حفاظت کریں گی؟
جب اس نے شہزادی گل رخ کو اس نئے موڑ کے بارے میں اطلاع دی تو ان کا جواب سفاک تھا ۔
’’جب شاہ داستان کو سولی پر چڑھایا جائے گا تب عالم کے ساتھ دوسری شادی کر لینا ۔ اگر عالم راضی نہیں ہوا تو کوئی اور نواب یا قبیلے کا سردار ہو جائے گا ۔ تخت کے لالچ میں وہ اس بچے کی حفاظت کرنے پر بھی راضی ہو جائے گے۔‘‘
وہ اپنی جگہ سن رہ گئی تھی۔
اسفندیار سولی پر…
نہ جانے کیوں دل میں درد سا اٹھا تھا ۔ دل کے باہر بیٹھی چڑیل نے پھر سے پنجے گاڑ لیے تھے اور اب تو وہ خون بھی پی رہی تھی ۔ ہر انتقام کی کہانی درد سے ہی شروع ہوتی تھی، مگر جس سے انتقام لینا ہو اس کے لیے درد کب سے محسوس ہونے لگ جاتا تھا؟ یہ درد کسی مرض کی طرح خطرناک تھا، جان لیوا تھا ۔ اسفند یار کے سینے میں خنجر گھونپنے کی خواہش تو نہ جانے کب کی ختم ہو چکی تھی ۔ اب تو وہ بس اس کی معزولی چاہتی تھی ۔ شاید عمر قید…
مگر ایک زندان میں قید انسان اپنے خاندان کی حفاظت کیسے کرے گا ؟ آگ کا دھواں کم ہوا تو حقیقت کا منظر اس کی آنکھیں کھول رہا تھا۔ جوش و جذبات سے کیے جانے والے فیصلے ایک دم فضول لگنے لگے تھے ۔ زندگی میں پہلی بار اپنا آپ بے بس لگا ۔ خدا اپنے بندوں کو اپنی تدبیروں کے آگے ایسے ہی بے بس کرتا ہے ۔ اس دن پہلی بار جنت کے دل سے اسفندیار کی صحیح سلامت واپسی کے لیے دعا نکلی تھی ۔ وہ اس کا دشمن نہیں رہا تھا، اس کی ہونے والی اولاد کا سائبان تھا۔
’’یا اللہ میری اس مشکل وقت میں مدد کر اور اپنے غلط کو صحیح کرنے میں، اور جو منصب مجھے دیا گیا ہے اس کوایمانداری سے نبھانے میں…‘‘
اس نے اسفند یار کو اکثر اس طرح کی دعائیں مانگتے ہوئے دیکھا تھا ۔ وہ جنت کوکہا کرتا تھا کہ اس کوڈر تھا کہ جس تخت پر وہ بیٹھتا تھا وہاں بیٹھنے والے سے بہت سخت حساب لیا جائے گا ۔ اس لیے وہ تنہائی کے لمحات میں ہمیشہ اپنے مالک کی مدد مانگتا تھا تاکہ وہ اس تخت کا حق ادا کر سکے ۔ اس دن پہلی بار جنت کو سمجھ آیا تھا کہ اس کے انتقام اور اسفند یار کے انتقام میں کیا فرق تھا۔
اس دن پہلی بار وہ تابع ہوئی تھی۔
اپنے حقیقی آقا کے سامنے…
٭…٭
ملک میں انتشار چھوٹی موٹی جنگوں میں تبدیل ہو رہا تھا ۔ محمود کے قید ہونے کے بعد باغیانہ قبیلے اسفندیار کو اکیلا سمجھنے لگ گئے تھے ۔ مگر حیرت انگیز طور پر ایک اور بات ہوئی تھی ، عالم اپنی خود ساختہ گوشہ نشینی سے نکل آیا تھا ۔ جب کھڑے ہونے کی بات آئی تھی تو وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ وہ اس وقت باغیوں کو دبانے کے لیے اپنے بھائی کے پیغام پر محل سے نکلنے لگا تھا ، جب وہ اس کے پاس آئی تھی۔
’’اگر میں کہوں کہ اس کو کہنا کہ مجھے خط لکھے تو؟‘‘
’’تو میں کہوں گا کہ ایک بار اعتبار کھونے کے بعد دوبارہ اعتبار آنے میں وقت لگتا ہے۔‘‘
ایک پل کے لیے وہ خاموش ہو گئی، پھر دوبارہ اپنا سر اٹھایا جس پر اب بھی ملکہ کا تاج تھا۔
’’صحیح کہا آپ نے … بس میری خدا سے دعا ہے کہ آپ اور آپ کے بھائی صحیح سلامت واپس آجائیں ۔ میں انتقام کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی ہوں۔‘‘
٭…٭
وہ ایک بار پھر شہزادی گل رخ کے سامنے تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ جو آگ اس نے جانتے بوجھتے لگا دی تھی ، اس کو بجھانے کی تدبیر انہی کے پاس ہوگی ۔ وہ سیاست کی ماہر کھلاڑی تھیں۔ شمال میں ان کا گلستان کی طرح کا ہی اثرو رسوخ تھا ۔
’’سوچ لو جنت ، ایک ملکہ کی حیثیت سے تمہیں انہیں کچھ اختیارات اور جائیداد کا لالچ دینا ہوگا ۔ تبھی وہ اپنی دولت اور بازو کی طاقت کا تمہارے لیے یا شاہ داستان کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘
’’مجھے سب کچھ منظور ہے ۔ بس اسفند یار کی سلامتی ہو اور ملک میں امن ہو ۔ میں اپنی نفرت اور غصے میں اتنا آگے بڑھ گئی تھی کہ اپنے ملک کے لوگوں کے لیے بھی نہ سوچا ۔ ‘‘
شہزادی گل رخ نے ایک ملکہ کو نہیں بلکہ چار ماہ کی حاملہ کو دیکھا، جو اپنا سہاگ بچانا چاہ رہی تھی ۔ انہوں نے اس کو ماں بن کر پالا تھا، اب ان کا فرض تھا کہ اس کی طرف آنے والی ساری مشکلات بھی خود ہی سمیٹ لے ۔مائیں ایسا ہی تو کرتی ہیں۔
’’میں وعدہ کرتی ہوں تمہاری اور بادشاہ کی ہر ممکن مدد کروں گی ۔ بس تم اپنے خاندان اور اپنے لوگوں کے لیے کھڑی رہنا جنت!‘‘
پھر اگلے دن گلستانیوں نے اپنی ملکہ کو منبر پر چڑھتے دیکھا تھا۔
’’جن قوموں میں یکجہتی نہ ہو، وہ باہر والوں کے لیے تر نوالہ بن جاتی ہے ۔ جب داستان ‘ داستان بنا تھا، تب خوشحالی نے اپنی بانہوں میں اس ملک کو سمیٹ لیا تھا، مگر اسی ملک کے باسیوں نے اس کے ٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا ۔ بھائی کو بھائی سے اپنے لوگوں اور اپنی ریاست کے لیے جھگڑا کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور جنگ کرتے ہوئے بھی ۔ پھر یوں ہوا کہ داستان نے ایک طویل عرصہ آگ اور خون کا کھیل دیکھا ۔ جس میں ایک انسان نے برا آدمی بن کر داستان کو ایک بار پھر سے ایک کیا تھا ۔ کچھ لوگ اس انسان کو قاتل سمجھتے ہیں تو کچھ مسیحا …مگر وہ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے ۔ وہ ایک جنگجو ہے جس نے داستان کو ایک بار پھر سے ایک کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ داستان کے لوگ بھوکے مرے یا پھر زہر کھا کر … کچھ لوگوں کی نظر میں یہ انتقام بھی تھا ۔ مگر ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انتقام کا سفر کبھی بھی سیدھی لکیر کی صورت نہیں ہوتا، جس کا اختتام کہیں نہ کہیں ہو جائے ۔ انتقام کا سفر دائرے کی صورت ہوتا ہے، جو اپنی راہ پر چلنے والوں کو چکر دیے جاتا ہے۔‘‘
وہ سانس لینے کے لیے رکی ۔ وہ کیسے نہ یہ جانتی؟ وہ تو خود اس کبھی نہ ختم ہونے والے دائرے کی مسافر تھی، مگر وہ اپنی اولاد کو اس سفر کا مسافر کبھی نہیں بننے دے گی۔ کسی حال میں بھی نہیں…
’’تو آپ سب سے میری گزارش ہے ۔ ‘‘
اب کی بار گلستانیوں نے اپنی رنگ برنگی آنکھوں میں حیرت سمو کر دیکھا کہ جو سر بادشاہ کے سامنے نہیں جھکتا تھا، وہ اس کی عوام کے سامنے جھکا تھا۔
’’اس انتقام کے دریا کو یہی روک دیتے ہیں اور اس کے لیے مجھے آپ سب کا ساتھ چاہیے ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ گلستان کے دل کی دیواروں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ کوئی بھی باغی اپنے عزائم کے ساتھ یہاں داخل نہ ہونے پائے ۔ اور جب بادشاہ وقت اورنگ…‘‘ اس کی آواز میں نمی تھی۔
’’اسفند یار شاہ مرکز میں دوبارہ داخل ہو تو یہاں ان کو ہتھیار لے کر آنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ یہ میری ایک ملکہ کی حیثیت سے ہی نہیں، بلکہ گلستان کی شہزادی ہونے کی حیثیت سے آپ سب سے درخواست ہے کہ اسفند یار کے لیے آپ سب کھڑے ہو جائے ۔ تو بتائیے کون ہے میرے ساتھ؟‘‘
گلستانیوں کے جوشیلے نعروں کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ مسکرادی ۔ وہ جانتی تھی کہ بحیثیت ملکہ کے وہ یہ معرکہ بھلے ہار جائے مگر گلستانیوں کو اپنی شہزادی سے محبت تھی ۔ وہ شہزادی جو ادائیں دکھانے کی بجائے مرہم لگاتی تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے