مکمل ناول

میرے آقا: تیسرا اور آخری حصہ

’’مغرب کے وقت آج کل کتے بہت بھونکتے ہیں ۔ نحوست کی نشانی ہے یہ۔‘‘
’’بارش کا امکان ہے، مطلع صاف ہو جائے تو سفر اختیار کرنا۔‘‘
’’کتے آج پھر سے بہت بھونک رہے ہیں۔ ان کا مالک جو ان کے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’مطلع صاف ہے، کیا خیال ہے سفر کے لیے ٹھیک رہے گا یہ موسم؟‘‘
عام سے جملے، عام سی باتیں ۔ جو شاید کسی کی نظروں سے گزرے بھی تو کوئی اتنا دھیان نہ دیں ۔ جب غور سے دیکھا جائے تو اس کواحساس ہوا کہ وہ کتنا بے خبر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اپنے پیارے نانا جان کو یہ خطوط کس نے لکھے تھے ، مگر کیا یہ لوگ جانتے تھے۔
’’کس نے یہ خطوط لکھے ہیں؟‘‘ اس نے وہ سوال دوہرایا، جس کا جواب وہ جانتا تھا۔
اس کی بات پر اس کے وفادار ساتھیوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا پھر عزیز آہستہ سے بولا۔
’’ملکہ عالیہ نے…‘‘
ان دونوں نے وہ سانپ پٹاری سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا ۔اب کی بار اسفند یار نے اس اژدھے کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا ۔ اس نئی سچائی نے اسفند یار کی آنکھیں بھی پتھر کی کر دی تھی۔
٭…٭
اسفندیار کہتا تھا کہ یہ اس کے والد کی شمال کے ساتھ ملی سازش تھی کہ اس کے خاندان کے کھانے میں ایسا زہر ملایا گیا تھا ، جس کی صحرا کے باسی تشخیص نہ کر سکیں ۔ جنت اس بات پر یقین کرنے سے انکاری تھی ۔ اس کو نہ جانے کیوں عبدالمطلب پر شک ہوتا تھا ۔ عبدالمطلب ہی اسفند یار کو شاہ داستان بنانا چاہتا تھا ۔ اس کے دل میں انتقام کی آگ جلا کر وہ یہ مقصد پورا کر سکتا تھا ۔ دوسری طرف وہ یہ بھی جانتی تھی، تخت پر بیٹھنے والوں کو خدا کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا ۔ اگر اس پورے طاقت کے کھیل میں اسفندیار کے ساتھ کوئی مخلص تھا تو وہ عبدالمطلب تھا۔
اسفند یار کو دیکھتے ہی ان کے چہرے پر نرم سی مخلص مسکراہٹ آ جاتی تھی۔ اور کم از کم جنت کو یہ مسکراہٹ بناوٹی نہیں لگتی تھی؟
اس کویہ خیال بھی آتا کہ اگر اسفند یار انتقام لینے میں حق بجانب تھا تو وہ خود بھی تھی۔
انتقام کی آگ بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتی ہے، ایک طرف سے کنارہ ختم ہو جائے تو دوسری طرف مڑ جاتی ہے ۔ ابھی آگ کا دریا اس کے اندر بہہ رہا تھا ۔ اس لاوے کی طرح ابلتے ہوئے انتقام نے ہی اس کوشروع سے آخر تک وہ کچھ کروایا تھا، جو ایک ملکہ کو کرنا زیب نہیں دیتا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اپنے بادشاہ کے ساتھ غداری کررہی تھی، مگر اس کواپنے مرے ہوئے خاندان کے ساتھ وفا نبھانی تھی ۔ اس کواپنے آپ کو دھوکے کی زندگی سے بچانا تھا ۔
وہ آہستہ آہستہ سارے تانے بانے بن رہی تھی ۔ کسی عنکبوت کی طرح اس نے اس بار ‘ تار اپنے ہی آقا کے گرد بنا تھا ۔ کبھی بھی ملک کے بادشاہ پر سیدھا حملہ نہیں کرنا چاہیے ۔ بادشاہ کو معزول کرنے والے سب سے پہلے بادشاہوں کو اکیلا کرتے تھے ۔ وہ تو کبھی بھی اس کے ساتھ نہ تھی مگر اس کے مشورہ سازوں کو الگ کرنا ضروری تھا ۔ حال ہی میں اس کا دست راست محمود شمال میں گرفتار ہو گیا تھا ۔
دوسری طرف ملک میں یہ افواہ پھیلا دی گئی تھی کہ اسفند یار کے خاندان کو زہر دینے والا عبدالمطلب تھا ۔ اگر اسفند یار اکیلا ہو جاتا تو اس کا اگلا کام آسان تھا ۔ سب کچھ اس کی تدبیر کے مطابق جا رہا تھا ۔
پھوپھی صحیح کہتی تھی کہ عورت چاہے تو تخت الٹ سکتی ہے۔
ان دنوں وہ اتنی زیادہ اپنی جیت کے خمار میں تھی کہ نہ اپنے اندر ہوتی تبدیلی کا ہی اندازہ کر پائی تھی اور نہ ہی اسفند یار کے اندر کی تبدیلی کا۔
اسفندیار کو آج کل ملک میں جگہ جگہ ہوتے باغیانہ حملوں سے ہی فرصت نہیں مل پا رہی تھی کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ۔ نہ ہی جنت نے اس کی طرف توجہ کی کہ اس بات کا اندازہ کر پاتی کہ کیسے اپنی ملکہ کو دیکھ کر جو آنکھیں نرم پڑ جاتی تھی اب وہ سیاہ سنگ مرمر کی سی ہو جاتی تھیں ۔ ان سیاہ آنکھوں میں شکوک تھے اور کہیں کہیں نفرت بھی پنپ رہی تھی۔
اس کووقت نے ابھی نہیں بتایا تھا کہ جو دل محبت پانے کے عادی ہو جائے وہ نفرت برداشت نہیں کر سکتے ۔
اس کووقت نے یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ جو پرندے بہت اونچی پرواز کرتے ہیں وہ چند جھٹکوں سے منہ کے بل بھی گرجاتے ہیں۔
اس کوپہلا جھٹکا پشمینہ کی آمد سے لگا تھا ۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھی ۔ اسفند یار یقیناً معاملات کو گہری سنجیدگی سے لے رہا تھا، جو اس نے چاروں صوبوں سے اپنے سپہ سالاروں کو بلا لیا تھا ۔ پشمینہ کے ذریعے وہ زمین نگر پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔
پچھلے کچھ عرصے سے پشمینہ اس کوخط لکھنا بند کر چکی تھی، ابھی بھی وہ اس سے اکھڑی اکھڑی سی ملی تھی ۔جنت محل میں رہ کر اس سے بات نہیں کر سکتی تھی ۔ آج کل اس کے ساتھ ہر جگہ پہرے دار ہوتے تھے ، بقول اسفند یار کے یہ اس کی حفاظت کے لیے تھا ۔ مگر نجانے کیوں اس کولگتا تھا کہ وہ اس پر نظر رکھنے کے لیے تھے۔
اسی لیے وہ پشمینہ کے ساتھ آشیاں آ گئی تھی ۔ پہرے دار یہاں بھی اس کے ساتھ آئے تھے مگر وہ دروازے پر رک گئے تھے ۔ وہ دونوں ٹوکریاں لے کر مختلف جڑی بوٹیاں چننے لگی تھیں جو آشیان کی طبیبوں کو مختلف ادویات بنانے کے لیے چاہیے تھی ۔ وہ دونوں عام سے لباس میں بیٹھی خاموشی سے اپنا کام کر رہی تھی ۔ جگہ جگہ ان کے لباس پر مٹی اور گھاس کے داغ لگ رہے تھے اور ان کے ارد گرد صرف قدرت کی خوشبو تھی ۔
سر دیوار ایک ملکہ اور پس دیوار ایک سازشی کا کردار نبھاتے نبھاتے وہ اس عام سے سکوں کو جیسے کہیں کھو ہی بیٹھی تھی، جو قدرت آپ کو دیتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ پشمینہ کو گلستان کی جڑی بوٹیوں کے بارے میں بھی بتا رہی تھی اور چند جڑی بوٹیاں جن کو اتارتے ہوئے خاص احتیاط کرنی پڑتی تھی کے بارے میں بھی خاص ہدایت دے رہی تھی۔
’’آپ نے مجھ سے رابطہ کیوں ختم کیا پشمینہ؟‘‘
ہدایت غور سے سنتی پشمینہ چونکی تھی ۔ ایک پل کے لیے اس نے اپنے سامنے بیٹھی ساتھی شہزادی سے نظریں چرائی پھر یاد آیا کہ یہ ساتھی شہزادی اب ایک ملکہ تھی تو نظریں اس کی طرف کرکے جھکا لی۔
’’میں تھک گئی ہوں آپا ! ہر صبح بری خبر منتظر ہوتی ہے ۔ اور وہ بھی الگ پریشان رہتے ہیں ۔ وہ پریشان ہوتے ہیں تو میرا بھی دل گھبراتا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے تو آپ یہ سب کیوں کررہی ہے ۔میں اب امن چاہتی ہوں۔‘‘
جنت نے اس کوتیز نظروں سے دیکھا۔
’’ملک میں امن چاہتی ہو یا پھر اپنے شوہر کے ساتھ امن چاہتی ہو؟‘‘
’’دونوں چاہتی ہوں ۔ یہ میرا حق ہے اور کچھ غلط نہیں ہے ۔ ‘‘شہزادی نے ملکہ سے یہ کہتے ہوئے جیسے اقرار جرم کیا۔
ایک زور کی آندھی جیسے جنت کے دل کو جکڑ گئی ۔ وہ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی تھی ؟ جنت کی طرح اس کے ساتھ بھی نا انصافی ہوئی تھی۔ اس کے خاندان کو بھی بے مقصد جنگ کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا ۔ وہ یہ سب اتنی آسانی سے بھول کر کیسے امن چاہ سکتی تھی؟
’’آپ سب کچھ کیسے بھول سکتی ہیں؟ یا پھر محبت ہو گئی ہے آپ کو اپنے شوہر سے؟‘‘ جنت پھنکاری۔
اب کی بار شہزادی کی نظریں اٹھی اور اپنی ملکہ پر ٹک گئی۔
’’جی صحیح کہا آپ نے ۔ اسی لیے میں سب کچھ بھول کر آگے بڑھ جانا چاہتی ہوں ۔ آپ کو بھی نصیحت کرتی ہوں کہ آپ بھی آگے بڑھ جائیں اور اس انتقام کی آگ میں جلنا چھوڑ دیں۔ ‘‘
’’دیکھو تو مجھے نصیحت کون کر رہا ہے؟ ایک محبت میں مجبور شہزادی…‘‘
’’ جی میں محبت میں مجبور شہزادی ہوں مگر آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے ۔ جب خدا اپنے بندے کو غلط کام سے روکنا چاہتا ہے اور صحیح کام پر لگانا چاہتا ہے تو وہ خود زمین پر آ کر اس کا ہاتھ نہیں پکڑتا بلکہ وہ اپنے بندوں کو ان کاموں پر لگا دیتا ہے ۔ کوئی آتے جاتے اشارے دے دیتا ہے تو کوئی کھلم کھلا نصیحت ۔ انسان بہت نادان ہے اگر وہ عمل نہیں کرنا چاہتا تو اپنا دل بند کر لیتا ہے ۔وہ منصف بن بیٹھتا ہے اور ہر نصیحت کرنے والے انسان کو تولنے لگ جاتا ہے ۔ نصیحت دیوار پر بھی لکھی ہو تو لے لینی چاہیے ۔ انسان تو اس کا بھی رنگ ڈھنگ دیکھتا ہے اور پھر عمل کرنے یا نہ کرنے کے مرحلے سے گزر تا ہے ۔آپ بھی مجھے تول رہی ہے آپا! جب آپ اپنا دل تکبر سے پاک کر لے گی تو اپنے دل کے آئینے میں آپ کو آپ کی غلطیاں بھی دکھائی دے دیں گی۔‘‘
اس کی بات پر جنت اس کودیکھ کر رہ گئی ۔ یہ بے خوف آنکھیں اس کے بھائی کی نسبت کی تو نہ تھی ۔ یہ تو ایک بیوی کی تھی جو اپنے خاندان کے لیے امن چاہتی تھی ۔
’’آپ مجھے ایسے مت دیکھیں آپا ! میں نے کچھ غلط نہیں کہا ۔ اپنے شوہر سے محبت کرنا یا اپنے خاندان کی سلامتی چاہنا کچھ غلط نہیں ہے۔‘‘
’’اور وہ خاندان جو مارا گیا تھا؟‘‘ وہ تقریباً چلا اٹھی تھی ۔ ایسے جیسے وہ خود کو بھی یاد کروانا چاہ رہی تھی کہ اس کا ایک خاندان تھا، جو جنگ میں مارا گیا تھا۔
وہ حق بجانب تھی تو پر سکون کیوں نہ تھی ؟ اس کی بات پر پشمینہ کی آنکھوں میں عجیب سی اداسی نے رنگ لے لیا۔
’’ہر کسی کو اپنے کیے کی سزا ملتی ہے آپا! انہوں نے وہی کاٹا جو انہوں نے بویا تھا ۔ ہمیں خدا کے انصاف پر سوال نہیں اٹھانے چاہیے۔‘‘
اب کی بار جنت چونکی ۔
’’آپ الزام لگا رہی ہیں؟‘‘
پشمینہ نے نفی میں سر ہلایا۔
’’آپ بہت عرصہ محل کی سازشوں سے دور رہی ہیں، اس لیے آپ نہیں جانتی مگر میں جانتی ہوں کہ محل میں کیا کیا سازشیں ہوتی ہیں ۔ شمال میں پہلی برف گرنے سے پہلے ایک پھول اگتا ہے جس کو خزاں کا آخری پھول بھی کہتے ہیں ، وہ نارنجی رنگ کا خوشنما پھول ہوتا ہے جس کی جڑوں سے کئی ادویات بنتی ہے مگر اس کے پھول سے داستان کے طبیب ایسا زہر بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جس کا کوئی رنگ اور خوشبو نہ ہو اور اس کا اثر کئی گھنٹوں کے بعد ہو ۔ میں ان کے مشرق سے برے تعلقات کے بارے میں بھی جانتی ہوں ۔ ‘‘
’’آپ جانتی ہے کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’میں جانتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’اور جو جنگ ہوئی اس کا کیا؟‘‘
’’جنگیں ہوتی ہے اور وہ فطرت انسانی کا حصہ ہے ۔ جب تک آخری روح انسانی اس دنیا میں ہے، جنگ ہوتی رہے گی ۔ میں اس کواچھا نہیں کہہ رہی، مگر ہم اس کا انکار بھی نہیں کر سکتے اور ایک جنگ کے انتقام میں دوسری جنگ کروانا بھی ٹھیک نہیں ۔ ‘‘
’’میں نہیں مانتی اس بات کو…‘‘
وہ حق بجانب تھی ، اس کوانصاف چاہیے تھا ۔ اگر قدرت اس کوانصاف نہیں دے گی تو وہ خود کو آپ خود انصاف دلائے گی ۔ اس کی ہٹ دھرمی نے اس کے دل کے گرد کسی چڑیل کی مانند شکنجے کسے۔
’’آپ صرف انکار کی کیفیت میں ہیں ۔ مان تو آپ چکی ہیں۔‘‘
’’پشمینہ آپ کتنا بدل گئی ہیں ۔ ‘‘ وہ اس برف کے گالوں جیسی پہاڑی شہزادی کو دیکھ کر رہ گئی ۔جس کی رنگت کو زمین کا موسم سنہرا کر رہا تھا ۔
’’بدل آپ گئی ہیں آپا ! آپ وہ شہزادی نہیں رہی جو مرہم رکھنے کی خواہش رکھتی تھی ۔ یہ پیٹھ پر وار کرنا آپ کو کس نے سکھا دیا ؟‘‘
’’جب ملک میں آگ لگ جائے تو ہر انسان بدل جاتا ہے پشمینہ…‘‘
’’مجھے آگ کا علم نہیں، مگر میں جہاں رہتی تھی وہاں برف گرتی تھی ۔ وہ برف میرے دل کو بھی ٹھنڈا کر گئی تھی جس کو کسی کی محبت نے پگھلایا ہے ۔‘‘
اس شام وہ محبت میں ڈوبی ہوئی آنکھوں کا عکس اور بہت سارے شکوک و شبہات لے کر محل واپس آئی تھی۔
’’کیا معلوم پشمینہ ٹھیک کہہ رہی ہو ؟ ‘‘
اس نے ایک لمبا عرصہ سیاست سے الگ طب کی تربیت میں گزارا تھا ۔ اس کو کیا معلوم کہ محل کی بند دیواروں کے پیچھے کون سی سازشیں ہوتی تھی ۔ اس کے دل کو شکوک و شبہات کا پہلا جھٹکا لگ چکا تھا۔
٭…٭
اُس کودوسرا جھٹکا اسفند یار نے دیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ ان سب سازشوں کے پیچھے وہ تھی ۔ اتنے عرصے وہ صرف ثبوت اکٹھے کر رہا تھا ۔ یہ شاید جنت کی خوش نصیبی تھی کہ اس کویہ سب شواہد اس دن ملے تھے جب اس کومحل سے ایک جنگ کو روکنے کے لیے دوسری جنگ کرنے کے لیے نکلنا تھا ۔
’’میں سترہ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا تھا ۔ پانچ سال تک میں نے پورے داستان کو فتح کر لیا تھا اور اگلے ایک سال میں ‘ میں نے پورے داستان کو ایک کر دیا تھا ۔اس سارے دورانئے میں ‘ میں نے کسی کو بھی اپنی کمزوری نہ بننے دیا تھا ۔ اپنے بھائی شہزادے عالم کو بھی نہیں مگر آپ میری کمزوری بن گئی ہو جنت اور اسی لیے آپ نے میری کمزوری کا فائدہ اٹھایا ۔ ‘‘ اس کی گرفت جنت کے کندھوں پر مضبوط تھی۔
اس کی کمزوری خود بھی کمزور پڑ رہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ جنت کی سزا تجویز کرتا ، دروازے پر زور کی دستک ہوئی تھی ۔ اسفندیار نے پیچھے ہٹ کر دستک دینے والے کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔
وہ عزیز تھا۔
جنت نے غور کیا کہ عزیز کی نظریں اس کے وجود پر کچھ لمحے ٹکی تھی اور پھر وہ اپنے مالک کی طرف متوجہ ہوگیا تھا ۔وہ سمجھ گیا تھا کہ بادشاہ کا رویہ اس وقت اپنی بیوی کے ساتھ کیسا تھا ۔ اس نے خونخوار انداز سے اپنے شوہر کے وفادار کتے کو دیکھا اور یاد رکھا کہ جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی تو اس کی آنکھیں بیچ چوراہے پر نکلوا دے گی ۔تھوڑی دیر پہلے کی کمزوری جو اپنے ہم سفر کے رویے سے ملی تھی، کہیں غائب ہو گئی تھی ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے