مکمل ناول

میرے آقا: تیسرا اور آخری حصہ

شمال کا سفر جنت کے لئے بھی آسان نہیں تھا۔ اس کا مسئلہ موسم نہیں تھا، بلکہ یادیں تھیں ۔ وہ یادیں جو آخری بار سفر کے دوران اس نے وہاں اکٹھا کی تھیں ۔ شمال کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار تھے ۔ اس لیے ان دونوں بہن بھائیوں کو اکثر وہاں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا ۔اس بار اس کا خاندان منو مٹی تلے تھا اور وہ خود برف کے اوپر حرارت بھرے ہاتھ پکڑے چل رہی تھی ۔ یہ الگ بات کہ یہ ہاتھ تھوڑی دیر میں ہی ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔ ان کی رہائش کا انتظام شمال کے پرانے قلعے میں کیا گیا تھا ۔ان کا استقبال وہاں ویسے ہی کیا گیا جیسے ایک بادشاہ اور ملکہ کا کیا جاتا تھا ، مگر درپردہ جنت وہاں کے لوگوں کے مزاج میں ان کے موسم کی سی ٹھنڈک محسوس کر سکتی تھیں ۔ اسفند یار تو ان کے لئے قابض تھا، مگر وہ ان کی نظروں میں غدار تھی ۔جنت کو ایسے معاملے میں سمجھ نہیں آیا کہ وہ ان سے نظریں ملائے یا چرائے۔
جب اس کی ملاقات شہزادی پشمینہ سے ہوئی تو اپنے تاج کی پرواہ کیے بغیر وہ اس کے گلے لگ کر رو دی ۔ پشمینہ اس کے بھائی عالیان کی نسبت تھی اور اچھے حالوں میں نہ تھی ۔ وہ اپنے ہی محل میں قیدی کی سی حیثیت سے زندگی گزار رہی تھی ۔ اس کے خاندان کے مرد جنت کی طرح جنگ کی نذر ہو گئے تھے اور محل میں صرف عورتیں رہ گئی تھیں ۔ ان کا خرچہ پانی حکومت کے ذمے تھیں ، مگر ان کے حالات ٹھیک نہ تھے ۔ معزول ہونا سب سے مشکل امر تھا ۔ محل کی عورتوں نے حکومت دیکھی تھی، مگر خاندان کے مردوں کے بغیر وہ صرف بھٹکی ہوئی ارواح تھیں، جن کے جسم و جان کا اختیار کسی اور کو دے دیا گیا تھا۔
پشمینہ کا سب سے برا حال تھا۔ وہ صرف شہزادی نہ تھی، بلکہ گلستان کی ہونے والی ملکہ تھی ۔ مگر اب کچھ بھی نہ رہی تھی۔
اس نے اسفند یار سے کہہ کر محل کی کنواری لڑکیوں کا رشتہ اچھے خاندانوں میں کرنے کا کہا تھا۔
’’یہ کام یہاں کا وزیر کر لے گا ۔ ‘‘ اسفند یار بوکھلا گیا، وہ رشتے کروانے والی مائی نہ تھا، سلطان تھا۔
اس کے پاس اختیار تھے مگر دلچسپی نہ تھی۔
’’پھر مجھے اختیار دے دیجئے۔‘‘
اسفند یار کو کیا اعتراض ہونا تھا ۔ اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ملک کے اعلیٰ خاندانوں میں ان کے رشتے کیے ۔ خاص طور پر شہزادی پشمینہ کی منگنی اس نے زمین نگر کے امیر ترین خاندان کے بیٹے سے کی ۔ وہ خاندان جو صنعت کاری میں سب سے آگے تھا اور ان کے جس بیٹے سے پشمینہ کا رشتہ اس نے طے کیا تھا وہ اسفند یار کی زمیں نگر میں تعینات فوج کا سپہ سالار تھا ۔ اگر داستان کے اس خطے کی اندر باہر کی معلومات کسی کو تھی، تو ایک اسی شخص کو تھی ۔ داستان کے سفر کے بعد گلستان واپسی تک اس کے سارے مہرے اپنی جگہ پر موجود تھے اور اس کا دل شاد تھا۔
پھوپھی صحیح کہتی تھیں کہ عورت کے اندر تخت و تاج ہلانے کی طاقت تھی اور وہ اس طاقت کا استعمال کرنے والی تھی۔
اسفند یار اس سے بے خبر نہ تھا، مگر یا تو اس کواس پر اعتبار تھا یا پھر وہ اس کوکمزور گردانتا تھا ۔ وہی چیونٹی اور ہاتھی والا کھیل…
اسفند یار کو اپنے دادا عبدالمطلب کی نصیحت سننی چاہیے تھی کہ جب چیونٹی بدلہ لینے پر آ جائے تو وہ اپنے قد اور ہاتھی کے قد کا فرق بھول جاتی ہے اور اس وقت تک ڈٹی رہتی ہے جب تک اس ہاتھی کو منہ کے بل نہ گرا دیں۔
٭…٭
ملک میں انتشار پھیلنا کوئی اتنی انوکھی بات نہ تھی ۔ حکومت بھلے ایک انسان کا حق ہو مگر طاقت کے دعوے دار آتے ہی رہتے تھے ۔ اس ملک کو ایک کرنے کے لیے اس نے اپنے ہاتھوں پر لہو لگایا تھا ۔ وہ جانتا تھا جب تک تخت کے دعوے دار زندہ رہیں گے، ملک میں انتشار زندہ رہے گا ۔ کئی لوگوں کو وہ ظالم لگتا، قاتل لگتا مگر اپنی نظر میں وہ حق بجانب تھا ۔ انتقام اس کا حق تھا ۔ اس کے خاندان کو بے رحمی سے زہر دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر عمل پلٹ کر ان کی طرف ہی آنے والا تھا ۔ نقب اس کے گھر پر بھی لگائی گئی تھی تو وہ کیوں نہ نقب زن بنتا؟
اس نے یہ بات اپنی ملکہ کو بتانی چاہی تو ملکہ نے اس کو پہلے حیرت سے، پھر طنز سے دیکھا ۔ کبھی کبھار اس کا پرانا روپ واپس آ جاتا تھا ۔ وہ تابعدار ملکہ کے بجائے باغی شہزادی بن جاتی۔
’’بہت پہلے ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا ۔ اس نے اپنے تخت پر بیٹھنے کے لیے اپنے بھائیوں کو قتل کیا تھا، اس کا نام اورنگزیب تھا۔ یہ خطاب آپ کو ایک اعزاز کے طور پر نہیں دیا گیا ۔ بلکہ یہ خطاب ایک یاد دہانی ہے کہ آپ نے اس تخت پر بیٹھنے کے لئے کیا کیا ہے۔‘‘ اس کی ملکہ نے اس کوجواب میں الگ ہی قصہ سنا دیا تھا۔
’’ہمارے ملک کی تاریخ بہت چھوٹی ہے جنت ! مگر دنیا کی جتنی تاریخ کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لو اس میں تخت ہر بھائی چارے پر بھاری ہوتا ہے۔‘‘
مردوں کی منطق عورتوں سے الگ ہوتی ہے ۔ وہ جب اپنی ملکہ سے بحث کرتا تو اس کواس بات کا خوب اندازہ ہوتا ۔ کچھ یہ بھی تھا کہ اس کویہ سامنے بیٹھی لڑکی، تابع سی، خاموش سی اچھی نہ لگتی تھی۔ اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی اچھی لگتی تھی ۔ ایسی عورت جو اپنے آپ پر آپ حکومت کرتی ہو ۔ ایسی عورت جو آگ لگا دے۔
’’دنیا کی بلکہ ہمارے ملک کی تاریخ میں بھی ایسا بادشاہ گزرا ہے، جو کہ ساتواں شہزادہ تھا ۔ اس کا دور دور تک تخت پر بیٹھنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔ اس نے تخت کا لالچ نہ کیا، بلکہ اپنے والد کے قریب رہنے کے لئے ان کو داستان و قصے سنایا کرتا تھا ۔ اس لیے اس کو داستان گو کا خطاب ملا ۔ جب اس کے پاس سارے قصے ختم ہوگئے تو نئے قصوں کی تلاش میں وہ سفر پر نکل پڑا ۔ اس نے پانچ خطے دریافت کیے ۔ تلوار سے نہیں بلکہ محبت سے اور فاتح کہلایا ۔‘‘
کبھی کبھار جنت میں بھی کسی قصہ گو کی روح آ جاتی ۔ ٹھہر ٹھہر کر باتوں کو ‘ کسی قصے کو وہ اس طرح بیان کرتی کہ اسفند یار پر اگر ملک کا بار نہ ہوتا تو وہ اس کا سدا بہار کا سامع بن جاتا ۔
’’ہمارے دادا حاتم ایک سیاستدان تھے ، ایک قدرتی رہنما … ان کو معلوم تھا کہ داستان کے دنیا سے کٹے ہوئے لوگوں کو کیسے رام کرنا ہے ۔ انہوں نے ان کو وہ خواب دکھانے شروع کیے جو یہاں کے لوگ کب سے دیکھنا چاہتے تھے ، ترقی کے، خوشحالی کے خواب … یہاں وسائل کی بھرمار تھی اور داستان کے رہائشی جاہل تھے ۔ انہوں نے اس ملک کو ترقی دی اور خود بخود لوگ ان کے سحر میں آتے گئے ۔ وہ خود دوسرے ملک سے آئے تھے ، مگر انہوں نے اپنی اولاد کے ساتھ شاہ کا خطاب لگایا ، تاکہ سب کو معلوم ہو کہ وہ بادشاہ کی اولاد ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے یہاں اپنا قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ آئے ہوئے سپاہیوں کی یہاں کے رہائشیوں کے ساتھ شادیاں کروائی، اور خود گلستانی شہزادی سے شادی کی جو کہ یہاں کا مرکز تھا ۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر سب کچھ ترتیب دیا ۔ وہ ایک ذہین اور شاطر انسان تھے کیسے نہ فاتح کہلاتے؟‘‘
جنت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کا حکمران بننے کی تربیت اس کودی گئی تھی ۔ وہ اس کی طرح چیزوں کو اوپر سے نہیں دیکھتا تھا، وہ جانتا تھا کہ محبت کے درپردہ بھی کتنی سازشیں ہوتی تھیں ۔ انسان جب پردے اٹھاتا ہے تو محبت بھی بھیس بدل بدل کر ملتی ہے۔
’’ وہ ایک نرم دل حکمران تھے اور ان کو گلستانی شہزادی سے محبت ہوئی تھی ۔ تاریخ یہی کہتی ہیں ۔‘ ‘ وہ چٹخی۔
’’تاریخ بیتے قصوں کو بہت رومانوی انداز سے بیان کرتی ہے۔‘‘ وہ اس کے قریب آیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے بال کھول دیے۔
سرخ لچھے اس کی کمر پر بکھر گئے۔
’’جب کچھ عرصہ گزرے گا اور ہم لوگ اس زمین کی خاک ہو جائیں گے، تو پھر تاریخ کے مورخ ہماری داستان کو بھی بڑے رومانوی انداز میں بیان کریں گے ۔ وہ لکھیں گے کہ کس طرح شاہ ِداستان گلستانی شہزادی کی زلفوں کا اسیر ہوگیا ۔ وہ زلفیں جو آج تک کسی نامحرم نے نہیں دیکھی تھیں ۔‘‘
اس کی انگلیاں جنت کے لمبے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی ۔ وہ اس کی سانسوں سے بھی قریب تھا اور اس کی سانسیں بے ترتیب کر رہا تھا۔
’’اِس لیے اُس کو زہر شناس رکھ لیا تاکہ وہ اس سے پہلے موت چکھ لیں ۔ ‘‘ وہ کمزور نہ تھی کہ اس کے فریب میں آ جاتی ۔
وہ مزید قریب ہوا۔
’’ تاکہ شہزادی بادشاہ تک آنے والی موت کو راستے میں ہی روک لے ۔ ہر محبت کی داستان دشمنی سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ ‘‘ اب اس کے ہاتھ جنت کی گردن سے ہوتے ہوئے اس کے چہرے سے اُس کی بھنوئوں تک گئے ۔ جنت نے بے اختیار آنکھیں بند کیں۔
’’مورخ جب ہماری داستان لکھیں گے تو وہ محبت کی داستاں ہوگی ۔ شاید لازوال محبت کی ۔ ‘‘
آخر میں وہ مسکرایا، وہ مسکراہٹ جو اس کی آنکھوں میں بھی چمکی تھی۔
جس مسکراہٹ نے جنت کا دل دھڑکایا تھا ۔
جس مسکراہٹ پر جنت نے دل کو ڈپٹا تھا ۔
’’اور شاید یہ سچ بھی ہو جائے ۔ شاید کہ میرا دل کہیں آپکی زلفوں میں ہی اٹک کر رہ جائے ۔ ‘‘ وہ مسکراہٹ ابھی بھی اس کے ہونٹوں پر تھی ۔
دروازے پر دستک نے ان دونوں کو اس لمحے کے سحر سے نکال دیا۔
’’معاف کرنا۔ فرض بلا رہا ہے۔‘‘ وہ اس کا چہرہ تھپتھپا کر بغیر مڑے پیچھے ہوا تو جنت نے آنکھیں بھینچی ۔
اس کی آنکھیں گلابی ہو رہی تھی اور اس کے کنارے کسی شے کے ساتھ بھیگے ہوئے تھے ۔ جب اسفندیار نے دروازے کی طرف رخ کیا تو وہ شے اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پر بہہ گئی۔
وہ شے آنسو تھے۔
کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ جب تاریخ کے مورخ ان دونوں کی داستان لکھیں گے تو وہ داستان محبت کی نہیں، انتقام کی ہوگی۔
٭…٭
پچھلے چھ سال اسفند یار کی زندگی کے مشکل ترین سال تھے۔
جب سے اس کے خاندان کا قتل ہوا تھا ، اس نے اپنے آپ کو ایک عجیب سی آگ میں جلتے ہوئے پایا تھا ۔ مگر اب ایک سال سے امن کے دنوں میں اس کا دل بھی پر امن ہونا چاہتا تھا ، اس آگ کو مدھم سے دیے میں بدلنا چاہتا تھا تو قسمت اس کے تابع نہ رہی تھی ۔ ملک کے مختلف کونوں میں باغیانہ حملے ہو رہے تھے اور اب پانی حد سے اونچا ہورہا تھا۔
’’یا میرے مالک ! اس ملک پر رحم کر اور میرے زور بازو میں اتنی طاقت ڈال کہ میں سانپوں کے سر کچل دوں ۔ ‘‘ اس نے اپنے سب سے بڑے مددگار کو پکارا ۔ یہ جانے بغیر کہ سب سے بڑا اژدھا تو اس نے پہلو میں پال رکھا تھا۔
وہ جو پہلے ان حملوں کو چھوٹی موٹی باغیانہ تنظیموں کی کاروائی سمجھ رہا تھا، اب اس کوسمجھ آ رہا تھا کہ اس کے پیچھے کسی کی سوچی سمجھی سازش تھی ۔
’’آپ کے لیے اہم خبر ہے حضور!‘‘ یہ عزیز اور محمود تھے، جو اس کے پاس حاضر ہوئے تھے۔
وہ اس وقت اہم کاغذات میں الجھا ہوا تھا ۔ ان کی آمد پر چوکنا ہو گیا۔ آج کل خبریں اہم تو تھی، مگر اچھی نہ تھی۔
’’آپ کا زہر شناس موسیٰ جس کو زہر دیا گیا تھا، وہ زندہ ہے۔‘‘
اب کی بار وہ مزید چوکنا ہوا۔ آنکھیں چھوٹی کر کے اپنے دو ساتھیوں کو دیکھا۔
’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’ہم نے اس کوقلعے کی جانب جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا ۔ پوچھ تاچھ کرنے پر معلوم ہوا کہ ُاس کو اس شام بچا لیا گیا تھا اور محل کے پچھلے دروازے سے نکال کر ایک گھر منتقل کر دیا گیا تھا ۔ وہاں پر اس جیسے بہت سے لوگوں کو جمع کرکے تنظیم بنائی گئی تھی، جن کا مقصد آپ کے خلاف کام کرنا ہے ۔ اس کا کام پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانا ہے۔‘‘
’’اور ان کا سربراہ؟‘‘
’’نہیں معلوم … اس کے کہنے پر ہم نے اس گھر کی تلاشی لے کر کئی مشکوک افراد کو گرفتار کرلیا ہے ۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ان کی ڈور کون ہلا رہا ہے ۔ سب ایک آدمی کو سالار کے نام سے سب جانتے ہیں مگر کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے؟‘‘
’’وہ لوگ کسی کام کے نہیں ہیں ۔ غیر اہم افراد … جن کی ضرورت چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ہوجی ، مگر ان کو اہم معاملات سے آگاہ کرنا کسی بھی سربراہ کی بیوقوفی ہوگی ۔ مشکل ہے کہ ان کو کچھ معلوم ہوگا ۔ مجھے حیرت ہے موسیٰ کیسے زندہ ہے؟‘‘اس نے تبصرہ کیا۔
’’اس کونہیں معلوم کہ اس کا علاج کس نے کیا ہے، مگر یہ کام کسی ایسے انسان کا ہے جو محل کے راستوں سے پوری طرح واقف ہو ۔ ورنہ ہماری ناک کے نیچے اس کوبچانا اور کام پر لگانا ناممکن تھا۔‘‘
اس کی نظروں کے سامنے سیاہ حجاب سے ڈھانپے سیاہ بال آ گئے تھے ۔ بھلا محل کی شہزادی جس نے اس محل میں زندگی کے کتنے ماہ و سال گزارے تھے، اس سے بہتر کون محل کو جان سکتا تھا ۔ وہ جس زہر کے بارے میں جانتی تھی، اس کا علاج اس کے لیے کیا مشکل تھا؟ اتنی سامنے کی بات اس کوکیوں نہ دکھائی دی ؟ اس کواپنے پہلو میں بیٹھا سانپ پھنکارتا ہوا دکھ رہا تھا۔
مگر اس نے اس سے ایسے نظریں چرا لی، جیسے اس کی آنکھیں اس کوپتھر کا کر دیں گی۔
’’حضور ایک اور خبر ہے ۔ ہمیں کچھ پاشا کی طرف سے خطوط بھی ملے ہیں ۔ ‘‘ محمود نے اس کواطلاع دی ۔
پاشا کا خاندان گلستان کا سب سے امیر اور بارسوخ خاندان تھا ۔ جنت قیوم پاشا کی نواسی تھی ۔ فتح کے بعد اسفند یار نے نے اس خاندان کو در بدر کر دیا تھا ۔ آج کل وہ شمال اور گلستان کی سرحد کے قریب رہ رہے تھے ۔ اسفند یار جانتا تھا کہ ان کا اثر و رسوخ ابھی تک نہ صرف گلستان میں بلکہ باقی خطوں میں بھی قائم تھا۔
’’ان خطوط میں کچھ خفیہ پیغامات لکھے گئے ہیں۔‘‘ عزیز نے اس کومطلع کیا۔
’’ دکھائیے ۔‘‘عزیز نے خطوط اس کے سامنے رکھے۔
وہ پیغامات آسان نہ تھے ۔ اس کوتین گھنٹے لگے تھے، محمود اور عزیز کے ساتھ مل کر ان کو توڑنے میں اور جب اس نے ا ن پیغامات کو توڑا تو اس کواندازہ ہوا کہ پانی کس حد تک سر سے گزر گیا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے