مکمل ناول

میرے آقا: تیسرا اور آخری حصہ

یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا ، جب جنت کی آنکھ کھلی تھی۔ نہ ایسی رات جنت کی زندگی میں آئی تھی، جیسی وہ رات تھی ۔ وہ سحر خیزی کی عادی تھی ۔ آشیاں میں فجر سے پہلے ان کو اٹھایا جاتا تھا ۔ بہت سی جڑی بوٹیاں ایسی تھیں جنہیں اوس پڑنے سے پہلے اتارنا ہوتا تھا ۔ پھپھی نے کبھی بھی اس میں اور آشیاں کی دوسری لڑکیوں میں فرق نہیں کیا تھا ۔ اسی لیے حسب معمول اس کی آنکھ روشنی ہونے سے پہلے کھل گئی تھی۔
اس نے ایک نظر مسہری کے دوسری طرف دیکھا۔
وہاں بے خبر سویا انسان کیا اس کا تھا؟
اس ایک رات میں اسفند یار کا الگ ہی روپ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا ۔ وہ انسان جو کٹھور تھا، جنگ کرتا تھا، تلواریں اٹھاتا تھا، اتنا نرم بھی ہو سکتا تھا ۔ اس کوایسے چھو سکتا تھا، جیسے وہ کانچ کی بنی گڑیا ہو؟
جنت نے ایک نظر اس کے بے خبر سوئے وجود کو دیکھا ۔ چاند کی مدھم روشنی میں اس کے تاثرات نرم اور چہرے پر عجیب سا سکون تھا ۔ اچانک اس سکون میں ہلچل ہوئی اور اس نے ایک آنکھ کھول کر اپنی طرف دیکھتی ہوئی جنت کو دیکھا۔
جنت ایک دم بوکھلا گئی۔ کیا وہ سوتے میں بھی سب دیکھ رہا ہوتا تھا؟ اگر ایسا تھا تو اس کوکوئی حیرت نہ تھی۔
’’کیا میں اپنے حجرے میں جاؤں؟‘‘ جنت کے منہ سے بے اختیار پھسلا۔
اس نے سنا تھا کہ اسفند یار کے حجرے میں کسی کنیز کو رات گزارنے کی اجازت نہ تھی ۔ اول تو وہ کم ہی کسی کنیز کو طلب کرتا تھا اور جب کرتا تھا تو چند گھنٹوں سے زیادہ وہ اس کے حجرے میں ٹک نہ پاتی تھی ۔ وہ عورت کے فریب میں آنے والے مردوں میں سے نہیں تھا ۔
کیا وہ ان کنیزوں سے الگ تھی؟
’’حجرے میں…‘‘ وہ رکا، آواز نیند کی خماری سے بوجھل تھی۔
پھر جنت کودیکھا اور نجانے کہاں سے ایک دھیمی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کو چھو گئی۔
’’ملکہ عالیہ! آپ اپنے حجرے میں ہی ہے۔‘‘ وہ پوری طرح کروٹ لے کر اس کی طرف مڑ گیا ۔
وہ ایک پل کے لیے سمٹی پھر اپنی جگہ سے اٹھی۔
’’میں نماز پڑھ لوں؟‘‘اس کوویسے بھی نماز پڑھنی تھی، اور اس کووہاں سے نکلنا بھی تھا۔
اسفند یار نے ایک نظر کھڑکی سے باہر چاند کے رخ کو دیکھا،پھر بولا۔
’’ابھی فجر میں وقت ہے۔‘‘
’’تہجد پڑھنی ہے۔‘‘
اس نے سر ہلایا اور اپنے اوپر سے کمبل اٹھایا۔
’’میں بھی ساتھ چلتا ہوں ۔ ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔‘‘ اس کی بات پر جنت اس کودیکھ کر رہ گئی۔
اس کوجنت نے کئی بار نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تھا مگر وہ اتنا پابند ہوگا،وہ نہیں جانتی تھی ۔
نماز ادا کر کے اسفند یار اس کا ہاتھ پکڑ کر مسہری پر لے آیا اور اس کا آنچل ہٹا کر اس کے بال دھیرے سے کھول دیے ۔ جنت نے بے اختیار آنکھیں بند کیں۔
’’میں ہمیشہ آپ کے بالوں کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘ یہ اسفند یار کے انداز کی تعریف تھی کہ اس کے بال اس کوپسند تھے۔
جنت نے اپنے بالوں کو چھوا اور دل کیا کہ ان کو کتر دے ۔ يہ کیسی ضد تھی جو سکون نہ لینے دیتی تھی ۔ یہ کیسی آگ تھی کہ اس کے دھیمے لہجے سے بھی نہ بجھتی تھی ۔ اسفندیار کا اپنے ہاتھوں پر دباؤ محسوس کر کے وہ جزبز ہو کر مسکرا دی ۔ اس اندھیرے میں بھی سامنے بیٹھے شخص نے اس کے تاثرات پڑھ لیے تھے۔
’’میں گھوڑ سواری کے لیے جا رہا ہوں، آپ آرام کریں۔‘‘ وہ اس کا چہرہ تھپک کر باہر کی طرف چلا گیا ۔
وہ بس اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئی ۔ آدھی رات کو کونسی گھوڑ سواری تھی، وہ سمجھ نہ پائی، یہ بھی نہیں کہ اسفند یار ابھی اس کے اندر کی آگ کو وقت دینا چاہتا تھا۔
٭…٭
گلستان سے اسفندیار کے آبائی محل تک تین راتوں اور دو دن کا راستہ تھا ۔ گلستان کی سرحد جب ختم ہوئی تو ایسا لگا کہ وہ سب دوسری دنیا میں آگئے ہو ۔ ہر طرف ریت ہی ریت اور کہیں کہیں خاردار جھاڑیاں … بھلا اس ریت کے سمندر میں کوئی انسان کیسے راستہ ڈھونڈتا ھوگا ؟ جنت کو معلوم نہیں تھا ۔ پھر صحرا کی چال بھی باقی زمینوں سے نرالی تھی۔
دن بے حد گرم اور راتیں بے حد سرد…
وہاں کا موسم نہ ہونے کے برابر بدلتا تھا، سوائے دن اور رات کے پھیر کے ۔ ان کا کاروان بھی زیادہ تر رات کے وقت سفر کرتا اور پھر دھوپ کی تمازت تیز ہونے پر وہ لوگ خیمے لگا کر پڑائو ڈال لیتے ۔ خیمہ کے داخلی حصے پر پتے باندھ دیے جاتے تاکہ اندر آنے والی ہوا ٹھنڈی ہو ۔ مگر پھر بھی جنت کو لگتا تھا کہ وہ یہاں پگھل جائے گی ۔ اس نے سنا تھا کہ قیامت کے دن سورج سوا نیزے پر ہوگا ۔ اس کو تو لگتا تھا کہ صحرا نگر میں روز ہی قیامت ہوتی تھی۔
صحرا کے دن ایسے گزرتے تھے جیسے صحرا کی ساری ریت، ریت کی گھڑی میں اتر آئی ہو، آہستہ آہستہ …اونٹ کی رفتار سے سرکتے ہوئے۔ کوئی وہاں رہتا کیسے تھا ؟ مگر راتیں اس کے برعکس تھیں ۔ پہلی رات اس کو جب سفر کے لیے جگایا گیا اور اس نے خیمے سے باہر آ کر صحرا دیکھا تو مبہوت ہی رہ گئی ۔ خالی خولی ریت میں ایسا کیا کرشمہ تھا کہ وہ اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی تھی؟
سفید چاندی کی سی تاحدنگاہ پھیلی ریت گیارہویں کے چاند میں چمک رہی تھی ۔ صحرا کا آسمان جس سے دن میں نظر نہیں ملائی جاتی تھی، رات کو اپنی پوری بانہیں کھول کر سب کو خوش آمدید کہتا تھا ۔ وہ غلط تھی کہ محلوں میں رہنے والوں کے آسمان وسیع ہوتے تھے ۔ آسمان تو صحرا نواردوں کے وسیع ہوتے تھے ۔ اتنا بڑا آسمان، جہاں تک دیکھو وہاں تک ٹمٹماتے تارے اور آسمان ہی آسمان…
اس آسمان کا راستہ روکنے کے لئے صحرا کی زمین پر کچھ بھی نہ تھا ۔ یہاں تک کہ آبادی کے پاس آکر بھی آسمان کی بانہیں کھلی ہی رہی تھی۔
صحرا نگر کی عمارتوں کا نقشہ بھی گلستانیوں سے بالکل مختلف تھا ۔ گلستانیوں کے گھر جدید طرز پر بنے ہوئے تھے ۔ بڑی بڑی عمارتیں اور رنگین دیواریں۔اس کے برعکس صحرا نگریوں کے گھر بنا کسی لپائی کے سرخ اینٹوں کے بنے ہوئے تھے ۔ عام طور پر سارے گھر ایک منزلہ اونچی چھت والے بنے ہوئے تھے سوائے چند ایک عمارتوں کے ۔ کچھ گھروں کی عمارتوں کو سنگ مرمر کے چھوٹے چھوٹے پتھر لگا کر آراستہ کیا ہوا تھا۔
اسفندیار کا محل بھی دوسری عمارتوں سے کچھ خاص مختلف نہیں تھا۔ بس اس کی عمارت تین منزلہ تھی اور دیواروں پر چھوٹے چھوٹے منقش شیشوں اور نیلے پتھروں سے پھول بنے ہوئے تھے ۔ محل والوں کا استقبال بھی انوکھا تھا، صحرا کی خشک ہواؤں کا سا…
اگلی رات جب صحرا کی زمین پر شاہ داستان کے ولیمے کا جشن اترا تو ٹھنڈی چاندنی جیسا تھا۔ پُرسکون اور دھیما سا…
گلستان کے جشن بہار کی طرح اس میں کوئی آتش نہ تھی ۔ صحرائی باسی دن میں سورج کی آگ سے اتنا جل چکے ہوتے تھے کہ وہ رات کے وقت اتنے ہی چراغ جلاتے تھے، جتنی ضرورت ہوتی تھی ۔ لوگ آ جا رہے تھے اور سب کے لئے کھلی دعوت عام تھی ۔ ایک طرف چراغوں کی مدھم روشنی میں ستار بجائے جا رہے تھے اور لوگوں کے ہجوم میں ہرن ناچ رہے تھے ۔ اس نے پہلی بار صحرا کے ہرن دیکھے تھے ۔ اس کے بادشاہ کی طرح سیاہ ترین تیکھی آنکھوں والے ہرن … جو صحرا نوارد کو نظر اٹھا کر دیکھ لیں تو صحرا کا بھٹکا ہوا کہیں راستہ نہ پا سکے۔
سب سے بڑھ کر اس کویہ جان کر حیرت ہوئی کہ صحرا کے باسیوں کو اسفندیار سے بے حد محبت تھی ۔ وہ ایسی محبت تھی جو کسی سلطان سے نہیں ہو سکتی تھی، بلکہ ایسی محبت کسی عقیدت رکھنے والے سے ہوتی تھی۔
اس نے عالم سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا۔
’’ عوام یہ نہیں دیکھتی کہ حکمران کون ہے ؟ عوام یہ دیکھتی ہے کہ کون سا حکمران ان کے لئے کتنی آسانی اور خوشحالی لے کر آیا ہے ۔ یہ خوشحالی اسفندیار نے صحرا باسیوں کو دی ہیں ۔ فکر مت کریں کچھ کدورت رکھنے والوں نے یہ بھلایا نہیں ہے کہ اس نے کیا کیا ہے۔‘‘
عالم علم و وصف کا خزانہ تھا ۔ ایسا خزانہ جس کو اس کا مالک دفنا کر بھول گیا ہو اور یہ مٹی کے نیچے دبا ہوا کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں دے رہا ہو ۔ اس نے اس خزانے پر سے مٹی ہٹائی ۔ عالم شطرنج کا کھلاڑی تھا، اور وہ اس بساط کی ملکہ تھی ۔ اس کو جیتنے کے لئے اس کھلاڑی کا تعاون چاہیے تھا۔
’’بحیثیت ملکہ میں یہ محبت کیسے حاصل کروں؟‘‘
’’طاقت دکھانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اس تخت پر بیٹھی رہو اور اپنا تاج اونچا رکھو ۔ محبت دکھانے کا طریقہ یہ ہے کہ تخت سے اترو اور سر جھکا کر محبت لو۔‘‘
’’اور اس کے بعد …‘‘جب وہ صحرا نگریوں سے مل کر دوبارہ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھیں تو پوچھ بیٹھی۔
’’اپنے ملک اور اس کے باسیوں سے ملو۔‘‘
’’مجھے داستان کو دیکھنا ہے ۔ اس کے ہر خطے اور اس کے ہر باسی سے ملنا ہے۔‘‘ شادی کے بعد اس نے اسفند یار سے پہلی فرمائش یہی کی تھی۔
٭…٭
وقت تسبیح کے دانوں کی طرح جنت کی جھولی میں گر رہا تھا ۔
شہزادے حاتم ایک داستان گو تھے ۔چیزوں کو سادہ طریقے سے بیان کرنا جانتے تھے ۔ اس لیے جب انہوں نے داستان پہلی بار دریافت کیا تھا تو ان خطوں کے جغرافیے کو دیکھ کر جو پہلا لفظ ان کے ذہن میں آیا تھا اس خطے کو وہ نام انہوں نے دے دیے تھے۔
برف نگر…صحرا نگر… پوٹھوہار وغیرہ۔ داستان کے زیادہ تر خطے قبائلی نظام پر مشتمل تھے، سوائے گلستان کے ۔ گلستان میں نوابی نظام تھا ۔ شاہی خاندان کے بعد نوابوں کے پاس طاقت تھی ۔ یہاں تک کہ کچھ نوابی خاندان شاہی خاندان کے فیصلوں میں بھی اثرورسوخ رکھتے تھے ۔ زیادہ تر شادیاں بھی ان اثر و رسوخ رکھنے والے نوابی خاندانوں میں ہوتی تھی ۔ خود اس کا ننھیال گلستان کا سب سے امیر اور بااثر نوابی خاندان تھا ۔ داستان کے سفر کے دوران اس نے دو کام کیے تھے ۔ ایک مکتوب تیار کیا تھا جس میں داستان کے سفر کے بارے میں وہ ایک ایک چیز لکھتی تھی ۔ ان میں زیادہ تر ان قبیلوں کے حال احوال تفصیل سے لکھتی جو بادشاہ کے حق میں یا اس کے خلاف تھے ۔ خاص طور پر جو خلاف تھے ۔ جلد ہی اسے ان قبیلوں کے اثر و رسوخ کی ضرورت پڑنے والی تھی ۔
برف نگر یا شمال میں زیادہ تر قبائل بادشاہ سے خائف تھے کیونکہ گلستان کے علاوہ جن کا اس جنگ نے سب سے زیادہ نقصان کیا تھا‘وہ شمال ہی تھا۔
دوسرا ‘ اپنے باپ کے دور حکومت میں جو لوگ ان کے حامی تھے، یا کسی نہ کسی طرح سے ان کے رشتہ دار بھی تھے ان سے رابطہ بحال کیا ۔ جب اسفند یار نے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو وہ معنی خیزی سے مسکرا دیں۔
’’طاقت طاقت کے اس کھیل میں میں نے سوچا میں بھی اپنا حصہ ڈال لوں ۔ پہلے روپوش ہونے کی وجہ سے کسی سے بھی رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اب چونکہ میں داستان کی ملکہ ہوں تو ان کا اثرو رسوخ ضروری ہے۔‘‘ اس کی بات پر شاہ داستان کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آ گئی ۔ جیسے وہ کہنا چاہ رہا ہو کہ وہ جانتا تھا کہ اس کی ملکہ کیا کرنا چاہ رہی تھی؟
اس موڑ پر آ کر شہزادی گل رخ کیا چاہتی تھی وہ نہیں جانتی تھی۔ مگر وہ خود کیا چاہتی تھی، وہ اچھی طرح جان چکی تھی ۔ وہ پوری زندگی تابع نہیں رہ سکتی تھی ۔ اس کواب تقدیر کو اپنے تابع کرکے ہی سکون حاصل ہونا تھا ۔ اسفند یار نے دشمن کو قریب کرکے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی ۔ اور اس کی سزا سینے میں خنجر نہ تھی، تخت سے معزولی تھی ۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ تقدیر کو تابع کرنے والے اپنے ارادوں میں ہی نہیں ، دعائوں میں بھی پختگی رکھتے تھے۔
وہ دعائیں، جو وہ مانگنا چھوڑ چکی تھی۔
٭…٭
پورے داستان میں سب سے زیادہ دلچسپ اور دردناک سفر ان نوبیاہتا جوڑے کا شمال کی طرف رہا تھا۔
اسفند یار صحرا کا باسی تھا ۔اس کوشمال کی سردی راس نہیں آ رہی تھی ‘ اس لیے وہ زیادہ تر سفر کے دوران چھینکتا ہی رہا تھا ۔ وہ اس کودیکھ کر حیران ہوتی کہ آخر اس نے برف نگر کو فتح کیسے کر لیا تھا، جب ذرا سا موسم اس کوشکست دے سکتا تھا ؟ اس بات پر بادشاہ وقت نے مسکرا کر اپنی ملکہ کو دیکھا، ایسے جیسے اس کے دل کی بات اس کے چہرے سے پڑھ لی ہو۔
’’یہ سچ ہے، شمال کی فتح سب سے زیادہ مشکل تھی ۔ یہاں کی سردی ہمارے مزاج کے موافق نہ تھی ۔ مگر جب خون میں جوش و جذبہ ہلکورے لے رہا ہو تو باہر کی سردی کچھ نہیں کہتی ۔ ایک بار ہمارے سپاہیوں نے ان کا قلعہ فتح کر لیا تو پھر جیت ہماری تھی۔ ‘‘
’’اور زمین نگر؟وہ تو ترقی یافتہ علاقہ ہے ان کے پاس جدید ہتھیار ہے۔‘‘
’’جنوب کے پاس جدید ہتھیار تھے مگران کی بازوئی قوت کمزور تھی ۔ اس جدت نے ان کو سست کر دیا تھا ۔ ایک اچھا حکمران وہی ہوتا ہے جو دشمن کی کمزوری سمجھ کر وار کریں اور دشمن پر اپنی مزید چالیں آشکار نہ کریں ۔ ‘‘وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔
’’دشمن کو سب کچھ نہیں بتایا جا سکتا مگر اپنی ملکہ سے تو کچھ نہیں چھپاتے۔‘‘ اب کی بار اس کی آنکھوں میں تجسس کی جگہ نرمی نے لے لی ۔ اس نے اپنا ہاتھ اسفند یار کے گال پر رکھا۔
اسفند یار مسکرایا اور اس کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹا کر لبوں سے لگا لیا۔
’’عورت کے مکر و فریب کے بارے میں سنا تھا ۔ اب دیکھ بھی لیا ۔ یقین کریں ملکہ اگر یہ آپ کا اصلی روپ ہوتا تو میں با خوشی ہی سرنگوں ہو جاتا ۔ ‘‘
ملکہ خفیف سا مسکرا دی ۔ دوسرے ہی پل سنبھل بھی گئی، کیونکہ سرنگوں تو وہ اس کوکر ہی لے گی۔

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے